از:سعید الظفرٹانڈوی قاسمی، معین مدرس دارالعلوم دیوبند
قرآن اللہ تعالیٰ کی آخری نازل کردہ کتاب ہے، جو سرورعالم … پر نازل ہوئی۔ آپ امی تھے، پڑھے لکھے نہیں تھے، چونکہ یہ الہامی کتاب ہے اس لئے اس میں خدائی اعجاز اس کے ایک ایک نقطہ سے واضح ہے۔ مضامین، اسلوب بیان اور طرز ادا پر ہرزبان کا جاننے والا فدا ہے، خواہ وہ اسلام کا حلقہ بگوش ہویا نہ ہو۔ قرآنی اعجاز ہرایک سے اپنی معجزیاتی تسلیم کرالیتا ہے۔ پھر اس کا یہ تاریخی اعجاز دنیا کے سامنے ہے کہ اس کے الفاظ اور حرکات وسکنات ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہیں، جبکہ دیگر آسمانی کتابیں خود انہیں کے ماننے والوں کی نظرمیں مشکوک الصحت ہیں۔ یہ تاریخی اعجاز ہم نے اسلئے کہا کہ جب کتابوں کے محفوظ رکھنے کے طریقے وجود پذیر نہیں ہوئے تھے، کبھی چمڑے پر کتابت کرلی گئی، کبھی پتھروں کے ٹکڑوں پر اورکبھی درخت کی چھالوں پر اور اب تواس میں ردوبدل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ معمولی سے معمولی تحریر کے محفوظ رکھنے کے وہ طریقے وجود میں آچکے ہیں جو انسانی دست برد سے محفوظ رہیں گے۔
اور یوں کہنا چاہئے کہ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ اس کتاب میں زبور کا مجموعہ مناجات بھی ہے اور انجیل کا ذخیرہٴ امثال بھی، تحریریت کا گنجینہٴ شریعت بھی ہے اور کتب دانیال اور یسعیاہ کے مواعظ بھی ہیں اور حضرت میاہ کی تاثیر بھی ہے۔ ان حقائق کے باوجود اس کتاب کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئیں یعنی اس میں تحریف کی جو بدترین سازشیں کی گئیں وہ ناگفتنی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ سازشیں ہی دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹ گئیں۔
حال ہی میں اس مقدس کتاب کے خلاف ”ہالینڈ“ کے ”گرٹ ویلڈرز“ نے ایک اور طوفان کھڑا کردیا ہے، ہالینڈ گذشتہ چند سالوں سے اسلام دشمن سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے، وقفے وقفے سے عالم اسلام کے جذبات کو مجروح کرنے والی باتیں سامنے آتی رہی ہیں، اب پھر ہالینڈ کا شیطان حرکت میں ہے۔
ویلڈرز دو سال سے اسلام دشمن بیانات کے سبب سرخیوں میں ہے۔ ویلڈرز گزشتہ سال قرآن پر پابندی کا مطالبہ بھی کرچکا اور دلیل کے طورپر یہ مفروضہ پیش کیا کہ قرآن کریم یہودیوں اور عیسائیوں کے قتل کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور خواتین کو مکمل آزادی نہیں دیتا۔
ویلڈر نے اب قرآن پر فلم سازی کی ہے، ایک ایسی فلم جس میں قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) انسانیت کا دشمن اور فتنہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
گرٹ کے مذکورہ دونوں دعویٰ تردید کے لائق ہیں۔ لیکن اس وقت ہمارا مقصد ان دعوؤں کی تردید یا تنقید نہیں ہے؛ بلکہ ویلڈرز پر ہم یہ حقیقت واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس کتاب نے ملکوں اور قوموں کو جہالت سے نکالنے اور علوم سے بہرہ ور کرنے، تمدن کو بلند کرنے اور امن عامہ کو مضبوط بنانے میں جو مضامین بیان کئے ہیں وہ ایسے بے نظیر اور لاثانی ہیں کہ جس کا بدل پیش نہیں کیا جاسکتا اوراس حقیقت کی وضاحت ویلڈرز کے ہی طبقہ سے تعلق رکھنے والے غیرمسلم دانشوروں کی شہادتوں کی روشنی میں کی جائے گی۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے پر ہم کو ایسے سینکڑوں افراد مل جائیں گے جنھوں نے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف تعصب کی بھٹی میں جل کر اپنا وجود مٹادیا مگر وہ بھی قرآن کی حقانیت کو نہ چھپاسکے، چنانچہ دیکھئے مشہور متعصب پادری ”ریورینڈرجی ایم ایڈویل“ لکھتا ہے:
”قرآن کی تعلیم نے بت پرستی مٹائی، جنات اور مادیت کا شرک مٹایا، اللہ کی عبادت قائم کی، بچوں کے قتل کی رسم نیست ونابود کی، ام الخبائث شراب کو حرام مطلق ٹھہرایا، چوری، جوا، زنا کاری اور قتل وغیرہ کی ایسی سخت سزائیں مقرر کیں کہ کوئی شخص ارتکاب جرم کی جرأت ہی نہ کرسکے۔“
اس کتاب نے دنیا کو ایسے قوانین دئیے جس میں ہر مذہب وملت کے ماننے والے کے لئے انصاف ہی انصاف ہے اور ایسے اصول عطا کئے جس میں صرف نسل انسانی کی فلاح ہی فلاح ہے، اس نظریہ کو ملاحظہ فرمائیے ”نپولین بوناپارٹ“ کی زبان میں:
”میرا یقین ہے کہ قرآن پاک کے قوانین ہی انسانیت کے لئے سچے اصول ہیں اور نسل انسانی کی فلاح قرآن پاک کے نظام حیات میں ہے۔“
قرآن کریم مذہبی اصول اور احکام کے علاوہ ملکی اور تمدنی نظام بھی رکھتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ”کلاضل“ نامور فرانسیسی فاضل کے الفاظ میں:
”قرآن مذہبی قواعد اور احکام ہی کا مجموعہ نہیں ہے؛ بلکہ اس میں اجتماعی اور سوشل احکام بھی ہیں جو انسانی زندگی کے لئے ہرحالت میں مفید ہیں۔“
قرآن کریم امن و امان کا ضامن ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب روئے زمین پر قوانین قرآن لاگو ہوئے توہر طرف عدل وانصاف، امن وامان اور بھائی چارگی کے سوا کچھ نہ رہا۔
جب کسی قوم نے اس کو چھوڑا توہر طرف بدامنی نظر آنے لگی وہ قوم بام عروج سے پستی میں جاگری، پیش خدمت ہے ”موسیوکاسٹن کار“ کا اخبار ”شگارو“ میں لکھا ہوا ایک فقرہ:
”زمین سے اگر حکومتِ قرآنی جاتی رہی تو دنیا کا امن وامان کبھی قائم نہ رہے۔“
قرآن کریم لاثانی کتاب ہے اس نے امن وامان سے لے کر اخلاقیات تک سب کچھ عطا کیا، اس کی وجہ سے قوموں کے مزاج بدل گئے، انسانی اخلاق کی کایا پلٹ گئی، عرب کے تندخو گنوار حلم واخلاق اور علم وحکمت کے استاذ بن گئے۔ ”پروفیسر کارلائل“ اسی کی شہادت دیتے ہیں:
”میرے نزدیک قرآن کریم میں خلوص و سچائی کا وصف ہر پہلو سے موجود ہے اور یہ بالکل سچ اور کھلی حقیقت ہے کہ اگر خوبی پیدا ہوسکتی ہے تو اسی سے پیدا ہوسکتی ہے۔“
قرآن جہاں امن وامان کا ضامن؛ ملکی اور تمدنی نظام کا سرخیل اور حکمت و دانائی سے پُر ہے وہی محافظ صحت بھی ہے اسی کتاب نے شراب، جوا کو حرام کیا جو صحت ومال کوضائع کرنے والے ہیں اور قرآن نے نماز، روزہ، زکوٰة، حج، طہارت وغیرہ کو ضروری قرار دیا جو حفظانِ صحت کے زرّیں اصول ہیں۔ دیکھئے کتنا اچھا لگتا ہے جب اس بات کا اقرار ایک ”ایکمکی بولف“ نامور جرمن فاضل نے اپنی زبان سے کیا:
”قرآن نے صفائی، طہارت اور پاکبازی کی ایسی تعلیم دی ہے کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو جراثیم امراض سب کے سب ہلاک ہوجائیں۔“
تاریخ بتاتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جہاں سینکڑوں برائیاں تھیں وہیں بڑی برائی یہ بھی تھی کہ حقوق کا کوئی پاس ولحاظ نہ تھا۔ حاکم رعایا کے حقوق ادا کررہا ہے نہ ہی رعایا حاکم کے حقوق ادا کررہی ہے باپ اولاد سے اور اولاد باپ سے متنفر ہے، لیکن قرآن حکیم نے اس کو جہاں متمدن اورمہذب زندگی عطا کی وہیں حقوق کی ادئیگی کا حکم دیا اور جب اس کا نفاذ ہوا تو امن وامان اور خوشحالی نظر آنے لگی۔ پیش خدمت ہے ”نومسلم مسٹر مارما ڈیوک پکھتال“ کا فقرہ:
”قرآن ہی کے قوانین نے حقوق اللہ اور حقوق العباد پوری طرح بتائے ہیں اور اس کو یہود اور عیسائیوں نے بھی مان لیا ہے۔“
اس کتاب عظیم میں اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کے لئے اتنا کچھ بیان کردیا جو زندگی گزارنے کے لئے کافی ہوسکتا ہے اور انسان اس کو سمجھ کر زندگی کی راہیں، اچھے برے کی تمیز بخوبی کرسکتا ہے۔ دیکھئے یہی بات کہتے ہیں ”لیوٹاسٹائی“:
”قرآن کریم عالم انسانی کے لئے ایک بہترین رہبر ہے، اگر صرف یہ کتاب دنیا کے سامنے ہوتی اور کوئی ریفارمر پیدا نہ ہوا ہوتا تو بھی یہ انسان کی رہنمائی کے لئے کافی تھی۔“
اسی بات کو ہندوستانی کی مشہور خاتون ”سروجنی نائڈو“ ان الفاظ میں کہہ رہی ہیں:
”جب میں قرآن پڑھتی ہوں تو مجھے زندگی کے برپاکرنے والے اصول نظر آتے ہیں، جو ساری دنیا کی کامیابی و کامرانی کے رہنما اصول ہیں۔“
قرآن کریم دنیا کی لاثانی اور بے نظیر کتاب ہے، فصاحت وبلاغت، ترکیب و بندش کے لحاظ سے بھی اور اصول و قواعد اور تعلیمات نیز ہراعتبار سے بھی قرآن کریم نے اسلامی تعلیمات کو جس طرح کھول کر بیان کیا اور مسئلہ توحیدکو جس سہل انداز میں سمجھایا ہے ایسی بات اس سے پہلے کسی بھی آسمانی کتاب میں نہیں ملتی ہے۔ معمولی عقل وفہم کے لوگ بھی قرآن مجید کے بنیادی مضامین آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ جیسے توحید، رسالت، معاد وغیرہ۔ دیکھئے نامور موٴرخ ”ڈاکٹر گبن “ کیا لکھتے ہیں:
”قرآن وحدانیت کا سب سے بڑا گواہ ہے، ایک موٴحد فلسفی اگر کوئی مذہب قبول کرتا ہے تو وہ اسلام ہے۔ غرض سارے جہاں میں قرآن کی نظیر نہیں مل سکتی ہے۔“
اسی مضمون کو ”ہرش فیلڈ“ نے کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے:
”قرآن کریم اثر ڈالنے، یقین دلانے کی طاقت، فصاحت وبلاغت ، ترکیب و بندش کے لحاظ سے بے نظیر اور دنیائے سائنس کے شعبوں کی حیرت انگیز ترقی کا باعث ہے۔“
”ڈاکٹر موریس بوکائی“ نے اس مضمون کا اپنی مشہور زمانہ کتاب ”قرآن، بائبل اور سائنس“ میں ان الفاظ میں اقرار کیا ہے:
”قرآن نے جن سائنسی پہلوؤں پر خصوصی بحث کی ہے وہ میرے لئے بطور خاص حیرت انگیز ہیں، کیونکہ قرآن کے یہ بیانات پوری طرح جدید سائنسی نظریات کے مناسب ہیں۔ میں نے کسی قسم کا پیشگی فیصلہ صادر کئے بغیر قرآن کی ایک ایک آیت کا تنقیدی نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ یہ حقیقت میرے لئے بطور خاص چونکادینے والی تھی کہ قرآن نے بظاہر کائنات کے بارے میں ایسے دقیق اشارے کئے ہیں جن کی تائید کائنات کے بارے میں جدید سائنسی تصورات سے ہوتی ہے۔ توریت میں ہم کو نمایاں طور پر سائنسی علطیاں ملتی ہیں، مگر قرآن میں اس قسم کی کوئی غلطی نہیں ملتی۔“
ہم نے واضح کیا ہے کہ اسلام تمام مذاہب سے بہتر اور سچا مذہب ہے، رہی بات کہ اسلام عیسائیت پر کیوں فوقیت رکھتا ہے تو سنیے ”ریورنڈ میکسوئیل کنگ“ کی زبانی:
”قرآن الہامات کا مجموعہ ہے، اس میں اسلام کے قوانین، اصول اوراخلاق کی تعلیم اور روز مرہ کے کاروبار کی نسبت صاف ہدایات ہیں اس لحاظ سے اسلام کو عیسائیت پر فوقیت ہے کہ اس کی مذہبی تعلیم اور قانون علیحدہ چیز نہیں ہیں۔“
اور ”ڈین شیلی“ نے کھلے الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ:
”قرآن پاک کا قانون بلاشبہ بائبل کے قانون سے زیادہ موٴثر ہے۔“
ہم نے کہا تھا کہ قرآن کریم کے ساتھ ناقابل برداشت سازشیں کی گئیں اور اس کی مخالفت میں ہر ممکن کوششیں کی گئیں مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سازشیں حرف غلط کی طرح مٹ گئیں، اس کے برعکس تعصب کی چھاؤں سے دور قلب وعقل نے کیا سوچا اور کیا فیصلہ لیا؟ سنیے:
آریہ سماج کے مشہور ومعروف اپدیشک ”پنڈت لکشمن جی“ نے کہا ہے کہ:
”سوامی درجانند نے دیانند سرسوتی کو اس کا بھی حکم دیا تھا کہ وہ ان کتابوں کو جو قرآن کے خلاف ہوں جمنا میں پھینک دیں۔“
اس سے پنڈت لکشمن جی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سوامی درجانند قرآن کی مخالف چیزوں کی بیخ کنی کو ضروری خیال کرتے تھے۔
ان کے علاوہ اور بہت سے بڑے بڑے فلاسفروں اور داناؤں نے قرآن مجید کی صداقت کو تسلیم کیاہے۔ ”ایکس لیورزون“ فرانسیسی فلاسفر کا قول ملاحظہ فرمائیے:
”قرآن ایک روشن اور پرحکمت کتاب ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ وہ ایک ایسے شخص پر نازل ہوئی جو سچا نبی تھا اور خدا نے اس کو بھیجا تھا۔“
ان مذکورہ چند حوالہ جات نے یہ حقیقت واضح کردی کہ قرآن انسانیت کا قاتل نہیں؛ بلکہ امن وامان، ملکوں اور قوموں کو جہالت سے نکالنے اور علوم سے بہرہ ور کرنے، تمدن کو بلند کرنے کا بے نظیر اور لاثانی دستور حیات ہے۔ حقیقت وہ جادو ہے جو سرچڑھ کر بولتا ہے۔ حقیقت خود کو تسلیم کرالیتی ہے، منوائی نہیں جاتی۔
———————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3، جلد: 92 ، ربیع الاول 1429 ہجری مطابق مارچ 2008ء