از:ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏،  ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

                اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی ہر تخلیق کو عمدہ ترین طریقہ پر پیدا کیا۔ کائنات کا ایک ایک ذرّہ اوراس میں کارفرما قوتیں اور طبعی و فطری قوانین اللہ احسن الخالقین کے احکامات میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہاں اس کی سب سے اشرف واحسن تخلیق جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کرنے ”خلقتُ بِیَدِی“ کا شرف بخشا اسے ضرور یہ چھوٹ ملی کہ ”اِما شاکِرًا واِمّا کفورًا“ چاہے تو اطاعت کرے اور چاہے روگردانی کرے اور اللہ کی کائنات میں فساد پیدا کرے۔ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ فساد چاہے وہ کائنات میں ہو اور چاہے انسانی معاشرہ میں وہ اللہ کو پسند نہیں ہے۔ اپنی کائنات میں اطاعت اور اصلاح کو اللہ پسند فرماتے ہیں اسی کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام کا سلسلہ جاری فرمایا؛ مگر چونکہ یہ دنیا دارالامتحان اور آزمائش اور کشمکش کا میدان ہے یہاں پر بدی کی قوتوں کو شیطان اور اس کے حمایتیوں کی طرف سے قوت پہنچانے کی چھوٹ بھی اللہ عادل ومنصف نے دے رکھی ہے۔ انسانی تاریخ کے ہر دور میں بلکہ اگر غور کریں تو قصہٴ ہبوط آدم میں تو ملاء اعلیٰ میں بھی شیطانی قوتوں کو اللہ تعالیٰ کے عادل ہونے کی صفت کے تحت آزادی ملی ہوئی ہے کہ وہ کائنات میں ہرممکن طریقہ سے فساد پھیلائیں اور وہ آدم و ہوا کے ہبوط سے لے کر ہابیل و قابیل سے ہوکر آج تک ہر لمحے سرگرم فساد ہے۔ اس کا کام ہی ہے کہ اللہ کے بندوں کو اوپر سے، نیچے سے، دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے، ہر طرف سے بہکائے اور اللہ کے راستہ سے ہٹاکر بغاوت کا راستہ اپنانے پر اکسائے اور نتیجتاً اللہ کی دنیا میں ہر طرح کا فساد فکری فساد، عملی فساد، اخلاقی فساد، جنسی فساد برپا کردے۔ چونکہ جن و انسان کے علاوہ کائنات میں کسی کو بھی ”ارادہ“ کی آزادی حاصل نہیں ہے اس لئے شیطانی طاقتوں اور وساوس کا ان پر زور چل ہی نہیں سکتا صرف انسان ہی ہر لحظہ اس خطرناک ازلی دشمن کی زد پر ہے اور نتائج بھی سامنے ہیں۔

                اسلام جب اور جہاں مکمل طورپر نافذ ہوتا ہے وہاں شیطانی قوتوں کو کچل کر رکھا جاتا ہے یہ کام حکومت اپنے تمام اداروں کے ساتھ مل کر کرتی ہے۔ مگر جب سے دنیا میں یہ فریضے ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ ”نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکنے“ ادا کرنا برائے نام اور لولا، لنگڑا ہوگیا ہے شیطانی قوتوں کا ہر طرف غلبہ ہوگیا ہے۔ دنیا کی مومن اور غیرمومن آبادی کی اکثریت کے قلوب واذہان شیطانی افکار سے مرعوب ہیں اور ان سے شیطانی اعمال ظاہر ہوکر فساد فی الارض کا باعث ہورہے ہیں۔ تاریخ انسانی کااتنا ہمہ گیر اور طاقتور فکری بگاڑ کبھی نہیں ہوا ہوگا جتنا ۳۰۰ سال قبل امت مسلمہ کے داخلی انتشار اور فکری ضعف کی بناء پر اور مغرب کے مسخ شدہ مذہبی عقائد کے رد عمل کے طور پر خدا کے انکار یا معاذ اللہ خدا کی تذلیل اور کائنات سے خدا کی ”بیدخلی“ جیسے شیطانی افکار کے اظہار کے طور پر ہوا۔ جب عوام کی یہ فکر بنائی گئی کہ مذہب استیصال کا ذریعہ ہے یہ لوگوں کو بے وقوف بناکر کم عقل بناتا ہے اور انسان کی ترقی کے لئے مذہب نہیں عقل کی ضرورت ہے اور انسانی زندگی کے معاملات میں اِلٰہی ہدایت اور رہنمائی کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اس فلسفہ کے تحت وجود میں آنے والے معاشرہ اور ممالک نے دنیا میں بظاہر جو چمک دمک اور ٹکنالوجی کی ترقی کی اس نے مذہب پسند طبقہ تک پر بھی محسوس یا غیرمحسوس طریقہ پر یہ اثر چھوڑا کہ مذہب چند عبادات یا اللہ سے تعلق کی چند رسومات کا نام تو ہوسکتا ہے مگر وہ تمام انسانی معاملات اور معاشرہ کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا۔ وہ اِس کا اہل نہیں ہے؛ بلکہ الٹا اس کی پابندی سے انسانی ترقی رک جائے گی؟ اب دنیا بھر میں عوام کی اکثریت عملاً اِسی فلسفہ کو طوعاً اور کرہاً جانتی ہے اور عمل کرتی ہے۔ خدا کے بجائے مادہ انسان کا مطلوب و مقصود ہے۔ خدا پرستی کی جگہ مادہ پرستی نے لے لی ہے اور انسانی سماج اور حکومتی اداروں کے جبر اور مجبوریوں میں ایسا پس رہا ہے کہ وہ چاہ کر بھی معاشرہ میں پھیلے فساد کے ماحول کے خلاف نہیں چل پارہا ہے۔ وہ شرک کو برا سمجھتا ہے مگر عملاً شرک کرتاہے وہ ظلم کو برا سمجھتا ہے، قتل ، زنا ، رشوت، بے حیائی، عریانی کو برا سمجھتا ہے مگر باہر نہیں نکل سکتا؛ کیونکہ برائی بہت ہمہ گیر ہے اس نے سماج کے ہر ادارہ انسان، خاندان، محلہ، شہر، حکومت، پولیس، اساتذہ، قانون ساز عدلیہ سب کو چنگل میں جکڑ رکھا ہے۔ اتنے سخت حالات میں فکری، معاشرتی، اخلاقی اصلاح کی بات کرنا ایک ناممکن کام ہی لگتا ہے۔ خصوصاً ان حالات میں جب کہ اہل اقتدار اوراہل فکر اصحاب خود ہی برائیوں کا حکم دے رہے ہوں اور بھلائیوں سے روک رہے ہوں تب کامیابی کی کیا صورت نظر آتی ہے؟ اور شاید یہ بھی ایک شیطانی وسوسہ ہی ہے کہ مومن جو کچھ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ادا کرسکتا ہو اسے بھی نہ ادا کرے جبکہ شریعت نے مومنین مصلحین کا اجر ان کے کام کے نتائج سے مشروط نہیں کیاہے بلکہ کام کی کمیت اور کیفیت سے مشروط کیا ہے تو یہ طے ہے کہ معاشرہ کی فکری اور عملی اصلاح کا کام جس قدر بھی منظم اور موثر انداز میں ہوسکے ہونا ضروری ہے۔کہ کم سے کم ”معذرَةً“ اِلیٰ ربکم ولعلہم یتقون کے مصداق آخرت کی پکڑ اور دنیا کے عمومی عذاب سے بچا جاسکے۔

                آج کی دنیا میں انسانی فکر بنانے کا ہر ادارہ عملاً اللہ سے بغاوت یا دوری ہی بنانے کا کام کررہا ہے۔ گھر، ماں، باپ، گھر کا ماحول، محلہ، اسکول، ٹی وی، اخبار، دوست و احباب سب کسی فکر کے حامل ہیں۔ آنکھ کھولتے ہی بچہ ٹی وی دیکھتا ہے جس کی بنیاد ہی حرص، ہوس، زرپرستی اور بے حیائی پر ہے اُس کے بعداسکول کا ماحول وہاں پروان چڑھنے والی ذہنیت جو انہیں پہلے دن سے ہی پڑھ لکھ کر اونچا عہدہ حاصل کرنے کا مقصد تھماتی ہے اور دوستوں کی دنیا جوانی کے مخصوص مزاج کی بدولت انہیں اور زیادہ مادہ پرست اور انسانیت سے دور کرتا جاتاہے۔ آج کے کھلے پن، صارفیت پسند تہذیب، روشن خیالی کے دور میں سماج کی لگام چند سرمایہ داروں کے پاس مرتکز ہوتی جارہی ہے جن کے پاس صرف ایک مقصد ہے انسانوں کو خواہشات کا غلام بناکر ان کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکالنا اور بس۔ اس ہمہ گیر فساد کے ماحول میں کوئی بھی شارٹ کٹ اور پیوندکاری مطلوبہ اصلاح نہیں حاصل کرسکتی کیونکہ قوت کے سرچشموں پر شیطانی فکر رکھنے والوں کا غلبہ ہے اور وہ اصلاح کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں امت مسلمہ کو اپنا منصب خیر امت دوبارہ زندہ کرناہوگا تاکہ انسانیت کے گلستاں میں پھر بہار آئے، پھر توحید و انصاف، امن ومحبت کا دور دورہ ہو۔

                فکری تبدیلی کے بغیر کوئی بھی عملی تبدیلی یا اصلاح ممکن نہیں ہے۔ قرآنِ پاک تمام انسانیت کی تعمیری تبدیلی کا نسخہ ہے۔ اس کی تعلیمات کو گھر گھر، محلہ محلہ، مسجد مسجد شروع کیے بغیرکسی بھی عملی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ اعمال افکار کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ قرآن کے ذریعہ فکرسازی کئے بغیر خصوصاً نوجوانوں (لڑکے لڑکیوں) اور خواتین میں کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت قرآن پڑھنا ہی نہیں جانتی اور جوجانتی ہے وہ اس کے پیغام رشد وہدایت سے بے خبر ہے۔ اگر ہم بے لاگ طریقہ سے جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ شہر یاآبادی کی سیکڑوں مساجد میں کہیں بھی قرآن کی تعلیمات کی تفہیم اور تذکیر کا اہتمام نہیں ہے تو گھروں کا کیا حال ہوگا؟ جبکہ شیطانی فکر کی ہمہ گیری کا حال بھی ہمارے سامنے ہے تو قرآن کے افکار کو عام کئے بغیر کسی اصلاح کی بات کرتے رہیں۔ کیا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ممکن ہوا؟ کیا بعد کے ادوار میں قرآنی فکر عام کئے بغیر کوئی پائیدار تبدیلی ممکن ہوئی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر آگاہ کردیا ہے کہ ”اس امت کی اخیر کی اصلاح بھی اسی کے ذریعہ ممکن ہے جس کے ذریعہ امت کے ابتداء کی ہوئی تھی یعنی قرآن حکیم“ حضرت علی ابن ابی طالب بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ”عنقریب کچھ فتنہ برپا ہونگے میں نے پوچھا ان سے نکلنے کا راستہ کیا ہے آپ نے جواب دیا کتاب اللہ۔ جس میں تم سے پہلے کے لوگوں کی سرگذشت ہے تمہارے بعد کے لوگوں کی خبر ہے تمہارے باہمی اختلاف کا فیصلہ ہے جو قولِ فیصل ہے ہنسی مذاق نہیں ہے یہ وہ کتاب ہے جسے جس زورآور نے چھوڑا اللہ نے اس کی کمرتوڑ دی جس نے اس کے علاوہ کہیں اورہدایت طلب کی اللہ نے اسے گمراہ کردیا یہ اللہ کی مضبوط رسّی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ اس سے خواہشات میں کجی نہیں پیدا ہوتی․․ (بروایت ترمذی باب فضائل القرآن، دارمی اور ابن ابی شیبہ)

                اور جب حضرت حذیفہ بن یمان نے آپ سے پوچھا کہ کیااس وقت ہم جس چیز سے ہمکنار ہیں اس کے بعدکوئی شر آنے والا ہے جس سے ہمیں بچنا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ”اے حذیفہ تو کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھام رکھ اس کا علم حاصل کر اور جو کچھ اُس میں ہے اس کی پیروی اختیار کر“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ بات دہرائی۔

                سماج کے ہر طبقہ کے لئے مساجد مساجد قرآنی تعلیمات کو عام کرنے (مستدرک حاکم) کا نظم اصلاح کی کسی بھی کوشش کی بنیاد کا پتھر ہے۔ اس کے لئے محلہ، گھر، مسجد، مکتب، اسکول، کالج، ہاسٹل، لائبریری، Audio-Visual ہر ذریعہ کا سہارا لینا ہوگا۔ نوجوانوں کے لئے شبینہ قرآن کلاس اور طلباء کے لئے سمر قرآن کلاں Summer Quran Clan کے نتائج حیرت انگیز ہوسکتے ہیں۔

                (۲) ذرائع تفریح کا میدان فکری تیاری کے لئے بہت وسیع ہے۔ ملکی طور پر نہ سہی مگر کل ملاکر انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ صحت مند تفریحی مواد طلباء وطالبات اور نوجوانوں و عام عوام تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس کے نہ ہونے کی صورت میں امت مسلمہ کی اکثریت ذریعہ تفریح کے عوامی ذرائع کا شکار ہوکر خلافِ اسلام انکار واعمال کا شکار ہورہا ہے۔ ذریعہ تفریح کے ذریعہ سب سے زیادہ نوجوان نسل کا ذہن متاثر کیاجارہا ہے۔ ہر گاؤں یا شہر کی مرکزی آبادی میں ایک اسلامی اطلاعاتی یا ثقافتی مرکز کا قیام جہاں Computer ہو اور آڈیو ویڈیو C.D.S کا ذخیرہ بھی ہو اس کو Cable کے ذریعہ نشر بھی کروایا جاسکتا ہے۔ اور گھروں کے لئے بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس کا مرکزی نظم کسی بھی معتبر ادارہ کے سپرد کیاجاسکتاہے۔

(۳)          ملکی اور علاقائی ثقافی اجتماعات

                ملک کے کونے کونے میں علاقائی زبانوں میں ثقافتی اجتماعات منعقد ہوں، جن میں ادب، تاریخ، طنزومزاح اور کھیل کود کے اجتماعات منعقد کرائے جائیں اور ان کو صحت مند ذرائع تفریح کے ذریعہ اصلاح کے لئے تیار کیا جائے؛ بلکہ بگاڑ کی نوبت ہی نہ آنے دی جائے۔ نئی نسل کو کرکے بتایا جائے کہ واقعتا اسلام ایک مکمل نظام ہے۔

                (۴) امر بالمعروف ونہی عن المنکر: ملت میں یہ کام کیسے ہو اس پر کافی اختلاف رہا ہے، مگر کم از کم معاشرتی روک ٹوک کا اخلاقی نظام بنانا ضروری ہے۔ اصلاً یہ کام اقتدار کا ہے، مگر اس وقت تو اقتدار اشاعت منکرات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایسے میں کم سے کم ”نصیحت“ اور ”تذکیر“ کے ذریعہ اس بنیادی فریضہ کی ادائیگی کی شکل عمل میں لانی ضروری ہے، جو محلہ اور گاؤں میں ایک ”اجتماعی، مربیّ“ کا رول ادا کرسکے۔ اور آبادی میں منکرات کے پھیلاؤ پر نظر رکھے۔

                (۵) حکومت کے ذریعہ زنا، بے حیائی، قتل، لوٹ مار، نشہ آور ادویہ کی فروخت اور فحش لٹریچر اور پروگراموں کے خلاف غیرمسلم بھائیوں کے ساتھ مل کر مہم چلانی چاہئے، تاکہ نیکی اور بھلائی کا عام ماحول بن سکے۔

———————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3‏، جلد: 92 ‏، ربیع الاول 1429 ہجری مطابق مارچ 2008ء

Related Posts