از: محمد مونس قاسمی
قصبہ محمدی ضلع لکھیم پور، یوپی
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو امت دعوت بناکر بھیجا اوراس کا خاص وصف یہ قرار دیا کہ وہ انسانیت کو سیدھے راستہ کی طرف بلائے، چنانچہ ارشاد ہوا: ”کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر“ تم بہترین امت ہوجو لوگوں کے لیے برپا کی گئی ہو، تم بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔ نیز فرمایا: ”وَکذلک جعلناکم امة وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا“ اور اسی طرح ہم نے تم کو درمیانی ومعیاری امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ (اور ان پر نظر رکھنے والے) ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہوں۔
چنانچہ یہ ایک معتدل اور معیاری اور لوگوں کی گواہ اور ان پرنظر رکھنے والی امت ہے، دیگر انسانی گروہوں پر نظر رکھنے اور ان کی غلط کاریوں کی نشاندہی کرنے والی امت ہے۔ جب اس کو یہ منصب دیا گیا ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ اس منصب کا حق ادا کرے۔
دعوت اسلامی کے تناظر میں اگر ہم ہندوستان کا جائزہ لیں تو یہاں دعوت کے امکانات دوسرے خطوں کے مقابلہ میں زیادہ ہیں۔ اس کی چند وجوہ ہیں:
الف: ہندوستان کی مٹی میں حددرجہ جذبہ احسان مندی پایا جاتاہے۔ خصوصاً ہمارے برادرانِ وطن ہندوقوم کے اندر یہ جذبہٴ احسان مندی اس درجہ موجود ہے کہ یہ قوم اپنے محسن اور بہی خواہ کے سامنے ماتھا ٹھیک کر جذبہٴ منت شناسی کے غلو میں اس کی پوجا کرنے لگتی ہے۔
ب: اسی ملک کی مٹی میں مذہب سے والہانہ تعلق اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے اور مذہب پر قربان ہونے کا جذبہ حد درجہ اس ملک کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ انسان مذہب کے تئیں قربانی خدا کی خوشنودی کے لیے دیتا ہے۔ اگراس قوم کے لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ شرک اور بت پرستی کا یہ راستہ جس کے لیے آپ قربانی دے رہے ہیں، غلط بلکہ اللہ تعالیٰ کوانتہا درجہ ناراض کرنے والاہے، اللہ کو راضی کرنے کی راہ صرف اسلام ہے، تو یہ قوم اسلام کے لیے کہیں زیادہ قربانی دینے کو تیار ہوجاتی ہے۔
ج: اس ملک کے خمیر میں روحانیت رچی بسی ہے اور اسلام کی حقانیت اور روحانیت کا تعارف اس قوم کے لیے بڑا پرکشش ہوتا ہے۔
د: ایک بڑا اہم پہلو یہ ہے کہ برادرانِ وطن ہندو قوم میں اکثر افراد محض رسمی ہندو ہیں اور شعوری ہندو اس ملک میں برائے نام ہیں۔ چنانچہ جناب مولانا کلیم صدیقی صاحب (مشہور داعی ومبلغ) بیان فرماتے ہیں کہ ”راقم سطور سے ہندوستان میں ہندو قوم کی مرکزی مذہبی کتابوں، ویدوں پر سند سمجھے جانے والی شخصیت جناب پنڈت راجندر پرشاد شرما نے بڑی ذمہ داری سے یہ بیان کیا کہ ہمارے ملک میں دسیوں ہزار میں سے کوئی ایک آدھ ہندو اپنی مرکزی مدہبی کتاب ویدوں کے درشن کرپاتا ہے اور لاکھوں میں ایک، دو ویدوں کا پاٹھ کرپاتے ہیں اور اخیر میں بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بات بتائی کہ پورے ملک میں جہاں ایک ارب کی آبادی ہے ایک سو سے زیادہ ویدوں کو سمجھنے والے لوگ نہیں ہیں، گویا ایک کروڑ میں ایک ویدوں کو سمجھنے والا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ شعوری طور پر کوئی ہندو رہ بھی نہیں سکتا۔ (اور کیوں نہ ہو جبکہ یجروید جیسی قدیم کتاب میں اس طرح کے منتر موجود ہیں کہ ”خدا کی مورت وشکل نہیں ہے۔“ یجروید۳-۳۲، بحوالہ ہندوازم) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس قوم کا اپنے مذہب سے تعلق بہت رسمی ہے، اس لیے اس قوم میں دعوت کا کام بہت آسان ہے۔“ (افکار، اگست ۲۰۰۷/)
دعوتی عمل کا کوئی متعین طریقہ نہیں۔ یہ داعی کی اپنی صواب دید پر ہوتا ہے کہ حکمت و موعظت حسنہ کے ساتھ کس مزاج وماحول میں کیا طریقہٴ کار مفیدہوگا۔ تاہم بطور نمونہ چند امور پیش ہیں:
$ داعی کے لیے پہلا قدم مدعو سے تعارف اور دوستی ہے۔ تعارف حاصل کرنا آسان بھی ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں جن برادرانِ وطن سے ملنا جلنا ہوتاہے ان میں سے دو تین افراد کا انتخاب کرلیا جائے، مثلاً پڑوس یا محلہ میں یا سفر کے دوران یا کسی تقریب اور پروگرام میں ملاقات ہوتی ہو وغیرہ۔
ابتدائی تعارف میں داعی اور مدعو کے درمیان نام ورہائش، تعلیم، پیشہ، گھر اور خاندان سے متعلق موٹی موٹی تفصیلات پر مشتمل معلومات کا تبادلہ خیال آپس میں ہوسکتاہے۔ داعی ملاقاتوں و روابط کے اس سلسلہ کو جاری رکھے۔ ابتداء میں اگراسلام پر راست گفتگو نہ ہوسکے تو کوئی حرج نہیں ہے ایسی ملاقاتیں اور روابط بے کار ثابت نہ ہوں گے۔ دراصل مسلمانوں اور برادران وطن کے درمیان جو دوری اور خلیج پائی جاتی ہے اسے دور کرنے کے لیے اس طرح کے روابط ضروری ہیں۔
$ اس دوران دعوتی گفتگو یا مطالعہ کے لیے مختصر کتابچے وغیرہ دیے جاسکتے ہیں۔ گفتگو زیادہ تر اصولی باتوں پر مرکوز ہونی چاہیے۔ قرآن نے مدعوئین سے گفتگو کے سلسلہ میں ایک اہم رہنمائی کلمہ مشترک کی تلاش اور اس پر گفتگو کرنے کے بارے میں دی ہے۔ مثلاً مدعو خدا کو مانتا ہے۔ داعی اس نکتہ پر گفتگو کرکے اسلام کے تصورتوحید، ایمان باللہ اوراس کے عملی تقاضوں کو حکمت کے ساتھ پیش کرے۔
$ دعوت پہنچانے کے بعد نتیجہ دیکھنے کے لیے داعی کو جلدبازی نہیں کرنی چاہیے۔ روابط کا سلسلہ برقرار اور اسلام پر گفتگو جاری رکھے۔ پیش کش اور برتاؤ میں نرمی اور محبت کا غلبہ ہونا چاہیے۔
$ مدعو جب اسلام کا کچھ مطالعہ کرلے تو عملی تعلیم و تجربہ کے طور پر دوچار دفعہ اپنے ساتھ مسجد لے کر جائیں، تاکہ عبادات کی عملی شکل وکیفیت اس کے سامنے آئے۔ علاوہ ازیں دعوتی پروگراموں مثلاً درس قرآن اور خطابات عام وغیرہ میں برادرانِ وطن کو بھی شریک کرایا جاسکتا ہے۔ ابتدائی دعوتی کتب کے مطالعہ کے بعد قرآن مجید کا ۳۰ واں پارہ مترجم دینا مناسب ہوگا۔ مدعوئین کسی دوسرے شہر میں رہتے ہوں تو ڈاک سے کتابچے وغیرہ روانہ کیے جاسکتے ہیں۔ خط وکتابت سے بھی دعوتی ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔
دعوت کے اجتماعی طریقے:
انفرادی دعوت کے علاوہ اجتماعی طور پرچند مسلمان بھائی مل جل کر بھی دعوت کا کام کرسکتے ہیں۔ ذیل میں بعض اجتماعی دعوتی پروگراموں کو درج کیاگیا ہے جو دعوت پہنچانے کے لیے موٴثر ثابت ہوسکتے ہیں۔
$ ایک چھوٹا سا وفد بناکر بنیادی دعوتی کتب وغیرہ کے ساتھ اپنے علاقہ کی منتخب غیرمسلم شخصیتوں سے ملاقاتیں کی جاسکتی ہیں۔ ماہ ڈیڑھ ماہ بعد دوسری بار ان شخصیتوں سے ملنا چاہیے اور کتابوں پر ان کے تاثرات، سوالات اورالجھنوں کو معلوم کرنا چاہیے اورجواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
$ مظلوم اور پسماندہ طبقات پر آئے دن ظلم وستم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کا وفد ان تک پہنچ کر اظہارِ ہمدردی کرے ان کے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش اور تعاون کرنے کی سعی کرے۔
$ کسی آبادی یا بڑے شہر کے ایک ایریا میں مسلمان مل جل کر برادرانِ وطن کے لیے عید ملن کا پروگرام منعقد کریں، مختصراً قرآن مجید، رمضان، روزہ اور عید پر اظہار خیال کے بعد شرکاء کی ضیافت کریں اور تعارفی کتابچے وغیرہ انھیں دیں۔
$ برادرانِ وطن کے کسی منتخب علاقہ (بالخصوص دلت طبقہ) میں اسلامی کتابوں اور رسالوں پر مشتمل لائبریری کا نظم کیا جانا چاہیے۔
$ کسی مقام پر منتخب برادرانِ وطن کے لیے اجتماعی محفل منعقد کی جاسکتی ہے۔ ۵ تا دس۱۰ افراد کے اس پروگرام میں قرآن اور پیغمبراسلام کا تعارف اوراسلام کی دعوت مختصراً پیش کی جاسکتی ہے۔ سوالات کے جوابات دیے جائیں۔ شرکاء کو دعوتی لٹریچر بھی دیا جاسکتا ہے۔
مذکورہ پروگراموں کو ایک مرتبہ کرکے چھوڑ نہیں دینا چاہیے بلکہ یہ سلسلہ مستقل طور پر چلتا رہے۔ داعی کو جزئیات اور طویل گفتگو سے بچتے ہوئے اصولی باتوں تک اپنی گفتگو کو مرکوز رکھنا چاہیے۔
$ داعی اپنے مدعو کی ذاتی زندگی،اس کے مسائل اور پریشانیوں میں لچسپی لے کر مشورہ دے۔ تعاون کرے اور ہمدردی وغم گساری کا رویہ اختیار کرے تو اس کے بہت گہرے اثرات پڑتے ہیں۔
داعی کی تیاری:
دعوتی کام کے لیے سب سے پہلے خود اپنی علمی، فکری اور عملی تیاری ناگزیر ہے۔ داعی اپنے مدعو کے سامنے بہتر سے بہتر عملی کردار پیش کرے۔ علمی تیاری کے لیے قرآن و تفسیر میں غور و تدبر کے ساتھ منتخب احادیث، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ کا مطالعہ کرے اور سیرت کے بعض اہم واقعات کو نوٹ کرے، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحم دلی، انسانوں سے محبت، سادہ زندگی، عفو ودرگذر (فتح مکہ کے موقع پر دشمنوں کو معاف کردینا) ان واقعات سے برادرانِ وطن بے حد متاثر ہوتے ہیں۔
چندامور سے اجتناب:
$ دعوت اور داعی کے وقار کو نقصان پہنچانے والا رویہ اختیار نہ کرے۔
$ مناظرانہ انداز اور بحث و تکرار سے ہر حال میں گریز کرے۔
$ غیرحکیمانہ انداز اور مدعو پر کسی بات کو مسلط کرنے کا انداز نہیں ہونا چاہیے۔ مدعو کے اندر ہٹ دھرمی، ضد اور نفرت نہ پیداہونے دے۔
$ جلدبازی اور فوری نتیجہ پانے کے لیے مدعو پر اصرار نہ کرے۔ گفتگو اصولی باتوں پر پہلے کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح اختلافی باتوں کو بنیاد بناکر دعوت پیش نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کی روشنی میں کلمہ سواء یعنی مشترک بنیادیں مثلاً ایک اللہ کا تصور وغیرہ پر گفتگو کرنا چاہیے۔ وجود الٰہ سے آگے بڑھ کر عملی تقاضے اور زندگی پر اثرات و نتائج سمجھانا چاہیے۔
آج زمینی صورت حال یہ ہے کہ اس اہم شعبہ کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل دین وعلم حضرات اس عظیم الشان امر دین کو اپنی توجہات کا مرکز بنائیں اور اس کو معمولی یا ناقابل عمل کام نہ سمجھیں۔ اس سلسلہ میں اَکابر و اسلاف رحمہم اللہ کا موقف و رائے کیا ہے؟ ذیل میں پیش خدمت ہے تاکہ مزید فکر وعمل کو مہمیز ملے۔ اوراس کار عظیم کی نزاکت و اہمیت معلوم ہوسکے۔
مولانا اشرف علی تھانوی:
حضرت تھانوی علیہ الرحمہ دعوت دین کو بالخصوص غیرمسلموں کے لیے خاص کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جب اسلام ہی دین کامل ہے تو جن لوگوں کے پاس یہ نعمت نہیں ہے ان کے پاس بھی اس کو پہنچانا چاہیے کیونکہ اوّل تو یہ بات مروت و ہمدردی کے خلاف ہے کہ ایک نافع چیز سے خود ہی نفع اٹھایا جائے اور دوسروں کو محروم رکھا جائے۔ دوسرے ہم کو شرعاً بھی اس کا حکم ہے کہ جن لوگوں کواسلام کی خوبیاں معلوم نہیں ہیں ان کے سامنے اس کے محاسن بیان کریں․․․“
ہماری یہ حالت ہے کہ بہت سے لوگ تو اس کام کو معمولی کام سمجھتے ہیں اور جو لوگ اس کی ضرورت ومرتبہ کو سمجھتے ہیں وہ بھی ایسی جگہ جاکر تبلیغ کرتے ہیں جہاں ان کی خاطر ومدارات ہوتی ہے، کفار میں جاکر کوئی تبلیغ نہیں کرتا کیونکہ خاطرومدارات کہاں؛ بلکہ بعض دفعہ تو برابھلا سننا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے لوگ کفار کو تبلیغ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ (الاتمام لنعمة الاسلام،ص:۲۸۷)
قاری محمد طیب صاحب:
دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم مولاناقاری محمد طیب صاحب دعوت دین کے مفہوم کے تعلق سے پائی جانے والی عمومی غلط فہمی کو دور کرنے کی خاطر اپنی کتاب دعوت دین کے قرآنی اصول کے ایک مخصوص عنوان ”ایک غلط فہمی کا ازالہ“ کے تحت لکھتے ہیں: ”تبلیغ اسلام کے معنی مسلمانوں کو عباداتی رنگ کے کچھ احکام پہنچادینے اورانہیں وابستہ کرلینے کے نہیں ہیں کہ جس کے بعد یہ سمجھ لیا جائے کہ فریضہ تبلیغ ادا ہوگیا یا ارباب تبلیغ فرائض دعوت سے سبکدوش ہوگئے مجھے اس انداز کی کسی دعوت خاص کی ضرورت وافادیت سے اگرچہ انکار نہیں لیکن اسے فریضہ تبلیغ سے سبکدوشی سمجھ لیا جانا قرآن کے اصول تبلیغ کی روشنی میں یقینا صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ جزوی تبلیغ، تذکیر واصلاح کے عنوانات سے یاد کی جاسکتی ہے مگر عرف شریعت کے لحاظ سے اسے تبلیغ نہیں کہا جاسکتا․․․“
اپنی اسی تصنیف میں ایک مقام پر فرماتے ہیں: ”اس لیے میری ناچیز رائے یہ ہے کہ اگر سب نہیں تو کم از کم ارباب علم وبصیرت کی ایک جماعت سارے موہوم منصوبوں کو چھوڑ کر دعوت الی اللہ کے لیے کمربستہ ہوجائے اوراپنوں سے گزرکر دوسری اقوام کے ساتھ انتہائی خیرخواہی سے انہیں دین حق کی طرف مائل کرنے پر لگ جائے اوراس کی زندگی کا واحدنصب العین غیروں کے سامنے اسلام پیش کرنا اور انہیں دعوت حق دینا ٹھہرجائے۔“
شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب:
مولانا محمدزکریا صاحب (جو تبلیغ کے حوالہ سے محتاج تعارف نہیں) مسلمانوں کے ساتھ غیرمسلموں میں بھی ین کی تبلیغ کی آرزو اور تڑپ رکھتے تھے۔ چنانچہ شیخ الحدیث کے خلیفہ مولانا یوسف متالا (مہتمم دارالعلوم – برطانیہ) ایک مضمون میں عام انسانوں میں دعوت دین کے لیے شیخ الحدیث کی بے چینی کے تعلق سے رقم طراز ہیں: ” غالباً ۱۹۷۹/ کی مدینہ طیبہ حاضری کے دوران ایک روز احقرحضرت کی قیام گاہ کے برابر خدام والے حجرے میں تھا کہ حضرت کے خادم محمد اعجاز چمپارنی آئے اور فرمایا حضرت یاد فرمارہے ہیں تو حضرت نے زاروقطار روتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سن یہ کیا کہہ رہا ہے۔ بھائی اعجاز صاحب نے کہا کہ میں نے حضرت سے پوچھا کہ وہ عوام الناس جنھوں نے اسلام کا نام بھی نہیں سنا ہے اور جنھیں اسلام کی کوئی تبلیغ نہیں کی گئی کیا انہیں عذاب ہوگا۔ یہ سن کر حضرت نے فرمایا اس پر ضرور کام ہونا چاہیے اور اس موضوع پر اسلام کے محاسن پر کتابیں ہونی چاہئیں۔ (بحوالہ اقراء ڈائجسٹ، کراچی، نومبر ۱۹۷۶/)
مفکر اسلام مولانا سیدابوالحسن علی ندوی:
دعوت کی ترجیح کے حوالہ سے مولانا فرماتے ہیں: ”انبیاء کرام علیہم السلام کے طرز عوت و تبلیغ میں اصل مخاطب غیرمسلموں ہی کو بنایا جاتا ہے اور ان کے سخت دلوں کو ایمان و یقین، سوز دروں، اخلاص اور اسوئہ حسنہ کی روشنی و گرمی سے موم بناکر ایمان وعمل کے سانچہ میں ڈھالا جاتا ہے اور جب اس طرح مومنوں کی امت دعوت، تیار ہوجاتی ہے تو اسے نبوی تعلیمات سے آراستہ کر غیرمسلموں ”امت اجابت“ کو اللہ کے دین کی طرف مدعو کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور یہ کار نبوت پوری امت کے اہل افراد پر فرض قرار یا جاتا ہے اور امت مسلمہ کو تو اسی دعوت کے لیے خیرامت قرار دیاگیا ہے۔“ (ماخوذ- دعوت اسلام ایک اہم فریضہ)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 91 ،ذی الحجہ 1428 ہجری مطابق دسمبر2007ء