از: پروفیسر ایوب قادری

دوراوّل:

سید احمد شہید کی تحریک تجدید واحیائے دین اور جہاد کی تحریک تھی توحید خالص کی تبلیغ، شرک وبدعت اور قبرپرستی کا استیصال، مراسم محرم کی بیخ کنی، شادی وغمی نیز دیگر تقریبات کے غیراسلامی مراسم کے بجائے اسلامی سادہ زندگی کا احیاء اور نکاح بیوگان کی ترویج واشاعت اس تحریک کے خاص عنصر تھے، اس مقصد کے لئے شاہ اسمٰعیل شہید نے تقویت الایمان جیسی انقلاب آفریں کتاب لکھی(۱)۔ پھر تو اس سلسلہ کو اس قدر وسعت ہوئی کہ اس خانوادے کے دوسرے تربیت یافتہ علماء نے احیاء سنت اوراصلاح معاشرہ کے لئے متعدد کتابیں اور رسالے لکھے، اور اچھا خاصا ادب مہیا کردیا۔(۲)

سید احمد شہید کی تحریک کا اہم ترین عنصر جہاد اور اصل مقصد حکومت الٰہیہ کا قیام تھا سید صاحب کاکوئی مکتوب یا وعظ ترغیب جہاد سے خالی نہ تھا جس زمانہ میں پنجاب میں سکھاشاہی کا زور تھا مساجداور اسلامی شعائر کی علانیہ بے حرمتی ہوتی تھی۔ اس علاقے کے مسلمان سخت مصائب و آلام میں مبتلا تھے ان کی زندگیاں اجیرن ہوچکی تھیں، سید احمد شہید نے اس طاغوتی اور برائے نام سکھاشاہی حکومت کے خلاف علم جہاد بلند کیا، گھر بار چھوڑا بہت سے شہر اور قصبات کا دورہ کیا ہجرت و جہاد کے وعظ کہے اللہ کے دین کی سربلندی اور اعلائے کلمة الحق کی خاطر سرحد کے پہاڑوں کو کمین گاہ بنایا اوراسلام کے ان خادموں نے ایمان واخلاص کے بھروسے پر دین کے دشمنوں سے مقابلہ کیا، اور ان کے چھکے چھڑادئیے مگر ملت کا نصیبہ سویا ہوا تھا گردش کے دن ابھی باقی تھے، غلامی کا دور ابھی ختم نہ ہوا تھا کہ حالات نے ناسازگاری دکھائی، اپنوں نے غیروں کا ساتھ دیا، نتیجہ ظاہر تھا کہ ۲۴/ذی قعدہ ۱۲۴۶ھ (۶/مئی ۱۸۳۱/) کو سیداحمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید نے بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کیا۔(۳)

ع    خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

دورِ دوم و سوم

حادثہٴ بالاکوٹ ۱۸۳۱/ کے بعد جماعتی تنظیم کی غرض سے اہل الرائے حضرات کے مشورے اور اصرار پر شیخ ولی محمد پھلتی امیر جماعت قرار پائے۔ مجاہدین کی سالاری عامہ کے فرائض مولوی نصیرالدین منگلوری نے انجام دیے اور جب شیخ ولی محمد پھلتی سیداحمد شہید کی زوجہ بی بی صاحبہ کو لے کرسندھ چلے گئے تو مجاہدین کی امارت و سالاری کا سارا بارگراں مولوی نصیرالدین منگلوری کے دوش ہمت پر رہا۔(۴)

مولوی نصیرالدین منگلوری(۵) کی شہادت (۱۸۳۸/) کے بعد جب مولوی سید نصیرالدین دہلوی مجاہدین کے مرکز ستھانہ پہنچے تو وہ امیر بنادئیے گئے، لیکن ابھی وہ وہاں کوئی کارنامہ انجام نہ دینے پائے تھے کہ ان کا انتقال ہوا، مولانا غلام رسول مہر صاحب کا خیال ہے کہ ۱۸۴۰/ میں ان کا انتقال ہوا۔(۶) اور ان کے انتقال پر تحریک مجاہدین کا دوسرا دور ختم ہوا۔

مولانا ولایت علی

مولوی سید نصیرالدین دہلوی کی وفات کے بعد مجاہدین نے میراولاد علی کو اپنا امیر بنالیا۔ جو ایک مرتبہ مولوی نصیرالدین منگلوری کی شہادت کے بعد بھی کچھ مدت کے لئے منصب امارت پر مقرر ہوئے تھے، لیکن جب مولانا ولایت علی عظیم آبادی اس علاقہ میں پہنچے (۱۷/شوال ۱۲۶۲ھ م ۹/اکتوبر ۱۸۴۶/) تو قیادت ان کے سپرد ہوئی اوراب تحریک مجاہدین کا تیسرا دور شروع ہوا مولانا ولایت علی نے مجاہدین کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی، اس وقت کشمیر کے راجا گلاب سنگھ اور مجاہدین کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی تھی، راجا کو شکست ہوئی اس نے انگریزوں کے سایہ میں جاکر پناہ لی، جو اس وقت تک پنجاب کے ایک حصہ پر قابض اور ملکی معاملات میں پوری طرح دخیل ہوچکے تھے۔ مارچ ۱۸۴۹/ میں تمام پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ ۱۸۴۹/ سے تحریک جہاد کا ایک نیا موڑ شروع ہوتا ہے۔ چونکہ اب تک مقابلہ سکھوں سے تھا اس لئے سرکار کمپنی خاموش تھی جب پنجاب پورے طور پر انگریزوں کے قبضے میں آگیا تو مجاہدین کی سرگرمیاں انگریزی حکومت کو ایک آنکھ نہ بھائیں، حکومت کے پیدا کردہ حالات سے مجبور ہوکر مولانا ولایت علی اور ان کے بھائی مولانا عنایت علی اپنے وطن پٹنہ پہنچے اور وہاں مجسٹریٹ کے سامنے جاکر دو سال کے لئے مچلکے دئے۔ مولانا ولایت علی نے تبلیغ و تذکیر کا سلسلہ برابر جاری رکھا۔ مولانا عنایت علی کو بنگال بھیجا اور دو سال کی مدت گزارنے کے بعد سرحد روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچنے کے سال ڈیڑھ سال بعد ۲۲/محرم ۱۲۶۹ھ (۵/نومبر ۱۸۵۳/) کوانتقال ہوگیا۔

مولانا عنایت علی

مولانا ولایت علی کے انتقال کے بعد ان کے منجھلے بھائی مولانا عنایت علی امیر مقرر ہوئے جو نہایت پرجوش مجاہد تھے بہت سے معرکوں میں حصہ لے چکے تھے۔ مولانا عنایت علی نے ۱۸۵۲/ سے ۱۸۵۸/ تک برابر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور براہ راست انگریزی حکومت سے جھڑپیں رہیں انگریزوں کے حلیف جہاں دادخاں والی امب پر حملہ ہوا اسی زمانے میں مولانا عنایت علی نے انگریزی حکومت کی فجوں سے بھی براہ راست تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی(۷) ۱۸۵۸/ میں پشاور سے جنرل کاٹن کی سرکردگی میں مجاہدین پرحملہ ہوا، مجاہدین نے خوب داد شجاعت دی، مگر بڑی تعداد میں شہید ہوئے اور کچھ پہاڑوں میں چھپ گئے۔ مولانا عنایت علی نے ستھانہ کا رخ کیا، مگر راستے ہی میں بمقام چمپئی داعی اجل کو لبیک کہا(۱۲۷۴ھ=۱۸۵۸/)

مولانا عنایت علی کے بعد ۱۸۶۲/ میں ان کے بھتیجے مولانا عبداللہ ابن مولانا ولایت علی، امیرمقرر ہوئے(۸) مولانا عبد اللہ (ف ۱۹۰۳/) زمام کار ہاتھ میں لیتے ہی تندہی اور مستعدی کے ساتھ جماعت کی فوجی تربیت میں لگ گئے۔ مولانا عبداللہ کا دور امارت کا سب سے اہم واقعہ معرکہٴ امبیلا (۱۸۶۳/) ہے، معرکہٴ امبیلا میں مجاہدین نے دین کی عظمت اور سربلندی کے لئے جس عزم و استقلال اور بہادری و جانبازی کا مظاہرہ کیا اس سے انگریزی حکومت کے حوصلے پست ہوگئے گو میدان انگریزی حکومت ہی کے ہاتھ رہا مگراس کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ سرحد کے مجاہدین کو انگریزی مقبوضات کے اندر سے رسد اسلحہ، رقوم اور تازہ دم مجاہدین پہنچتے ہیں اور ہندوستان میں اس تحریک کا سب سے بڑا مرکز صادق پور پٹنہ ہے اوراس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے معلوم نہیں کتنے مراکز ہیں۔

بغاوت کے مقدمات

جنگ امبیلا کے بعد انبالے کا مشہور مقدمہ (۱۸۶۴/) ظہور پذیر ہوا جس میں گیارہ ملزم: (۱) محمد شفیع انبالوی (۲) عبدالکریم (۳) الٰہی بخش (۴) میاں حسینی تھانیسری (۵) حسینی عظیم آبادی (۶) عبدالغفور (۷) قاضی میاں جان (۸) مولوی یحییٰ علی (۹) میاں عبدالغفار (۱۰) مولوی عبدالرحیم (۱۱) محمد جعفر تھانیسری تھے جن میں سے اول الذکر چھ حضرات ابتلاء و آزمائش میں ثابت قدم نہ رہ سکے اور سرکاری گواہ بن کر نہایت ذلت و خواری کے ساتھ رہا ہوئے البتہ پانچ حضرات نے ایمان واستقامت کا پورا پورا ثبوت دیا۔ قاضی میاں جان انبالہ جیل میں وفات پاگئے، مولوی یحییٰ علی نے جو تقویٰ اورایمان واخلاص میں سلف کا نمونہ تھے جزیرہ انڈمان کو آرام گاہ بنایا باقی تین حضرات میاں عبدالغفار، مولوی عبدالرحیم اور مولوی محمد جعفر تھانیسری نہایت سخت جان نکلے اور اٹھارہ سال کی مدت جزائر انڈمان میں گزار کر وطن پہنچے۔(۹)

مقدمہٴ انبالہ کے بعد حکومت نے پٹنہ (۱۸۶۵/) مالدہ (۱۸۷۰/) راج محل (۱۸۷۰/) اور پٹنہ (۱۸۷۱/باردوم) میں بہت سے علماء تجار اورمبلغین پر بغاوت اور سازش کے مقدمے چلائے۔ پٹنہ کے پہلے مقدمے ۱۸۶۵/ میں مولانا احمد اللہ صادق پوری (۱۲۲۳ھ-۱۲۹۸ھ) بن الٰہی بخش کو ملزم بناکر مقدمہ چلایا گیا۔ اول انہیں سزائے موت کا حکم ہوا پھر اپیل کرنے پر یہ سزا حبس دوام بعبور دریائے شور میں تبدیل ہوئی اوران کا انتقال ۲۸/ذی الحجہ ۱۲۹۸ھ مطابق ۱۲/نومبر ۱۸۸۱/ کو جزائر انڈمان میں ہوا۔(۱۰)

مالدہ کے مقدمہ ۱۸۷۰/ کے ملزم مولوی امیرالدین بن رفیع منڈل تھے مالدہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ ایک شخص نولوکرسٹو گھوش نے مخبری کی جس کے نتیجے میں مولوی امیرالدین گرفتار ہوئے مقدمہ چلا حبس دوام بعبور دریاے شور کی سزا ہوئی، جزائر انڈمان پہنچے بحیثیت قیدی ان کا نمبر (۱۷۴۷۸) تھا۔ ۱۸۸۲/ میں مولوی عبدالرحیم کے ہمراہ رہا ہوئے۔ اگلومی (راج محل) پرگنہ سنتھال میں سکونت اختیار کرلی۔(۱۲)

پٹنہ کادوسرا مقدمہ ۱۸۷۱/ میں چلا جس میں سات ملزم پیر محمد، امیر خاں، حشمت داد خاں، (یاحشم داد خاں) مولوی مبارک علی، مولوی تبارک علی (ابن مولوی مبارک علی) حاجی دین محمد اورامین الدین تھے، ان حضرات میں جماعتی تنظیم کے اعتبار سے سب سے زیادہ اہم مولوی مبارک علی تھی۔(۱۳)

اس مقدمہ میں ماخوذین کی جائدادیں ضبط ہوئیں ان کو جیلوں میں ٹھونسا گیا حبس دوام بعبور درائے شور کی سزائیں دی گئیں یہی نہیں بلکہ بنگال اور بہار کے تمام مبلغوں کی فہرست مرتب کی گئی اور اس فہرت کے بموجب تقریباً دس سال تک یہ غریب تنگ کئے جاتے رہے اور اس کی وجہ سے بنگال کے کتنے ہی خوش حال خاندان تباہ و برباد کردئیے گئے۔ سازش کے مقدمات کا ذکر کرنے کے بعد مولوی مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں:(۱۴)

”اس کے یہ معنی نہیں کہ صرف یہی حضرات قید و محن میں مبتلا کئے گئے ۱۸۴۹/ سے ۱۸۷۱/ تک گرفتاریوں کا سلسلہ برابر جاری رہا بڑی تعداد لے دے کر“ چھوڑ دی گئی اور بے قانون اور بے سزا حوالات اور جیلوں میں سڑتے پھرے ایک اچھی خاصی جماعت وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کی گئی۔

سر عبدالرحیم لکھتے ہیں:(۱۵)

”بنگال میں وہابی تحریک کے بعد جو عمل اختیار کیا اس سے مسلمان جاگیردار اور زمینداروں کی تمام املاک جو وسعت میں تمام بنگال کی ایک چوتھائی تھی گورنمنٹ انگلشیہ نے ضبط کرلی اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری ملت کے سیکڑوں شریف اور خوش حال خاندان نان شبینہ کو محتاج ہوگئے۔ اور ہماری قوم کے ہزاروں افراد بیکسی اور مفلسی میں دربدر پھرنے لگے۔“

حکومت کی معاندانہ پالیسی

حقیقت یہ ہے کہ انگریز نے تحریک جہاد کو بری طرح کچلا، مجاہدین اور مصلحین کو ”وہابی“(۱۶) کے نام سے موسوم کرکے بدنام کیاگیا۔ تمام ملک میں ”وہابیوں“ کی سرگرمیوں کا جائزہ لیاگیا مرکزی حکومت نے صوبائی حکومتوں سے ان کے حالات اور سرگرمیوں کی کیفیت طلب کی ایک محکمہ سراغ رسانی اسی مقصد خاص کے لئے وجود میں آیا، حکومت انگریزی نے باغی اور وہابی مترادف الفاظ قرار دئیے، عامة المسلمین میں ان کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کیا۔ اور ایک عام معاشرتی انقطاع شروع ہوگیا۔

بعض علماء کا کردار

بہت سے علماء نے مذہبی خدمات سمجھ کر وہابیوں کی مخالفت کی، حکومت نے ایسے علماء کی سرگرمیوں کو بہ نظر استحسان دیکھا اور ان علماء کو بالواسطہ یا بلاواسطہ ان خدمات کا معاوضہ دیا، وہابیوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا،(۱۷) مقدمات قائم کرکے ان کے قبضے سے مسجدیں نکالی گئیں ایک عرصہ تک حکومت کی عام پالیسی اس سلسلے میں یہ رہی کہ ایسے مقدمات میں بالعموم وہابیوں کی مخالفت پارٹی کے حق میں فیصلہ ہوا۔

مولوی وصی احمد سورتی ثم پیلی بھیتی (ف ۱۳۳۴ھ) نے ایک ”فتوی“ جامع الشواہد فی اخراج الوہابیین عن المساجد مرتب کیا۔ گم نام سے گمنام مولوی نے اس پر دستخط کئے۔(۱۸) اس فتوے کی خوب تشہیر ہوئی مولوی محمد لدھیانوی (ف ۱۹۰۱/) بن مولوی عبدالقادر لدھیانوی نے اس موضوع پر ایک رسالہ انتظام المساجد باخراج اہل الفتن والمفاسد لکھا۔(۱۹) اسی طرح لاہور کے مولوی نبی بخش حلوائی نے اخراج المنافقین من مساجد المسلمین لکھا۔(۲۰) ان فتاویٰ اور رسائل کی رو سے مساجد میں ”وہابیوں“ کو نماز پڑھنے سے روکا گیا ان کو زدوکوب کیاگیا ان کی تذلیل اور تشہیر کی گئی۔ اگر ایک طرف ”ولیم ولسن ہنٹر نے اور انڈین مسلمانس“ لکھ کر ان کے خلاف حکومت کو مواد مہیا کیا تو دوسری طرف مولانا فضل رسول بدایونی (ف۱۳۰۹ھ=۱۸۷۲/) اور ان کے ہمنوا علماء نے غریب ”وہابیوں“ کے خلاف تصنیفات و تالیفات کا ایک انبار لگادیا۔

مولوی فضل رسول بدایونی کی تصانیف میں سیف الجبار، تصحیح المسائل، البوارق المحمدیہ لرجم الشیاطین النجدیہ، احقاق الحق وابطال الباطل اور مجموعہ رسائل و فوائد وغیرہ ہماری نظر سے گزرے ہیں۔ مولانا فضل رسول بدایونی کی تصانیف کی طباعت کے سلسلے میں ایک بات خاص طور سے ہم نے نوٹ کی کہ ان کی اکثرتصانیف کسی نہ کسی سرکاری ملازم کی اعانت سے شائع ہوئی ہیں۔

شاید یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہ ہو کہ مولوی فضل رسول بدایونی کو ریاست حیدرآباد سے سترہ روپے یومیہ وظیفہ دیاگیا جو بعد کو گیارہ روپے یومیہ ہوگیا۔ اور ۱۹۱۵/ تک ان کی اولاد کو ملتا رہا۔ جیسا کہ ان کے سوانح نگار نے لکھا ہے۔(۲۱)

مولانا حیدر علی ٹونکی نے اس سلسلے میں ایک خاص بات یہ لکھی (۲۲)ہے کہ مولوی فضل رسول بدایونی نے مولانا اسمٰعیل شہید دہلوی کی شہادت ۱۸۳۱/ کے بیس سال بعد وہابیوں کی رد میں کتابیں لکھنی شروع کیں۔ ظاہر ہے پنجاب کے انگریزوں کے قبضے میں آجانے کے بعد مجاہدین کا مقابلہ براہ راستہ انگریزوں سے تھا۔

مولوی فضل رسول کے ہمنوا علماء میں ان کے بھانجے اور داماد مولوی فیض احمد بدایونی نے تعلیم الجاہل، مولوی عماد الدین سنبھلی نے شمس الایمان، مولوی محی الدین نے رسالہ صولة قادریہ مولوی سراج الحق نے رسالہ تحفة الحرمین شریفین، رسالہ مسائل فقہیہ مولوی عبدالفتاح گلشن آبادی نے تحفہ محمدیہ فی رد وہابیہ لکھے۔(۲۳)

وہابی یا اہل حدیث

غیروں اور اپنوں کے اس رویے سے ”وہابی“ گھبرا اٹھے اورانھوں نے ہتھیار ڈال دئیے جہاد کی تحریک اندرون ہند پاکستان قطعی طور سے ختم ہوگئی۔ اپنے لئے ”وہابی“ کے بجائے ”اہل حدیث“ کا نام مروج و مشتہر کیا۔ انھوں نے باقاعدہ حکومت برطانیہ کی وفاداری کا اعلان کیا مولوی محمدحسین بٹالوی (ف۱۳۳۸ھ) نے سرکاری تحریرات میں وہابی کے بجائے اہل حدیث لکھے جانے کے باقاعدہ احکام جاری کرائے۔

مولوی محمد حسین بٹالوی نے سرکار برطانیہ کی وفاداری میں جہاد کی منسوخی پر ایک مستقل رسالہ ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ ۱۲۹۲ھ میں لکھا۔ (انگریزی اور عربی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ یہ رسالہ سرچارلس ایچی سن اور سرجیمس لائل، گورنران پنجاب کے نام معنون کیاگیا۔ مولوی محمد حسین نے اپنی جماعت کے علماء سے رائے لینے کے بعد ۱۲۹۶ھ میں یہ رسالہ اشاعت السنہ کی جلد دوم شمارہ گیارہ میں بطور ضمیمہ شائع کیا پھر مزید مشورہ و تحقیق کے بعد ۱۳۰۶ھ میں باضابطہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس سلسلے میں خود مولوی حسین بٹالوی لکھتے ہیں:(۲۴)

”اگرچہ اس مضمون منسوخی جہاد، کے رسائل گورنمنٹ اور ملک کے اور خیرخواہوں نے بھی لکھے ہیں لیکن جوایک خصوصیت اس رسالے میں ہے وہ آج تک کی کسی تالیف میں پائی نہیں جاتی وہ یہ ہے کہ یہ رسالہ صرف موٴلف کا خیال نہیں رہا۔ اس گروہ کے عوام و خواص نے ․․․ اس کو پسند کیا اوراس سے اپنی آرا کا توافق ظاہر کیا۔ اس توافق رائے حاصل کرنے کے لئے موٴلف (محمدحسین بٹالوی) نے عظیم آباد پٹنہ تک ایک سفر کیا تھا جس میں لوگوں کو یہ رسالہ سناکر اتفاق حاصل کیا اور جہاں خود نہیں پہنچا وہاں اس رسالہ کی متعدد کاپیاں ارسال کرکے توافق حاصل کیا۔

مولوی مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں:(۲۵)

”اس کتاب پر (مولوی محمدحسین بٹالوی) انعام سے بھی سرفراز ہوئے جماعت اہل حدیث کو فرقے کی شکل دینے میں ان کا خاص حصہ ہے۔ اور یہ وہ بزرگ ہیں جنھوں نے اس سادہ لوح فرقے میں وفاداری کی خوبو پیدا کی، نہ صرف یہ ہوا بلکہ دوسرے معاصر علماء کو سرکار کی مخالفت کے طعنے بھی دئیے۔“

مسعود عالم ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:(۲۶)

”معتبر اور ثقہ راویوں کا بیان ہے کہ اس کے معاوضے میں سرکار انگریزی سے انہیں ”جاگیر“ بھی ملی تھی۔ اس رسالے کا پہلا حصہ پیش نظر ہے پوری کتاب تحریف و تدلیس کا عجیب و غریب نمونہ ہے۔“

مولوی عبدالمجید خادم سوہدری لکھتے ہیں:(۲۷)

”(مولوی محمدحسین بٹالوی نے) اشاعة السنہ کے ذریعہ اہل حدیث کی بہت خدمت کی ”لفظ“ ”وہابی“ آپ ہی کی کوشش سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہل حدیث کے نام سے موسوم کیاگیا․․․ (آپ نے) حکومت کی خدمت بھی کی اور انعام میں جاگیر پائی۔“

مولوی محمدحسین بٹالوی نے لفظ ”وہابی“ کی منسوخی کے لئے جو کوششیں کی ہیں وہ سارا تحریری مواد ہمارے پیش نظر ہے طوالت کے خوف سے ہم اس کو یہاں نقل نہیں کرسکتے صرف اشارات پر اکتفا کرتے ہیں، انھوں نے ارکان جماعت اہلحدیث کی ایک دستخطی درخواست لفٹنٹ گورنر پنجاب کے ذریعے سے وائسرائے ہند کی خدمت میں روانہ کردی، اس درخواست پر سرفہرست شمس العلماء میاں نذیر حسین کے دستخط تھے۔ گورنر پنجاب نے وہ درخواست اپنی تائیدی تحریر کے ساتھ گورنمنٹ آف انڈیا کو بھیج دی، وہاں سے حسب ضابطہ منظوری آگئی کہ آئندہ وہابی کے بجائے ”اہل حدیث“ کا لفظ استعمال کیا جائے۔ لفٹنٹ گورنر پنجاب نے باقاعدہ اس کی اطلاع مولوی محمدحسین کو دی، اسی طرح گورنمنٹ مدراس کی طرف سے ۱۵/اگست ۱۸۸۸/ کو بذریعہ خط نمبر ۱۲۷، گورنمنٹ بنگال کی طرف سے ۴/مارچ ۱۸۹۰/ کو بذریعہ خط نمبر ۱۵۶ ، اور گورنمنٹ یوپی کی طرف سے ۲۰/جولائی ۱۸۸۸/ کو بذریعہ خط نمبر ۳۸۶، گورنمنٹ سی پی کی طرف سے ۴/جولائی ۱۸۸۸/ کو بذریعہ خط نمبر ۴۰۷ اور گورنمنٹ بمبئی کی طرف سے ۴/اگست ۱۸۸۸/ کو بذریعہ خط نمبر ۷۳۲ اس امر کی اطلاع مولوی محمدحسین بٹالوی کو ملی۔

مولوی محمدحسین بٹالوی نے خوشامد اور کاسہ لیسی کی حد کردی وہ لکھتے ہیں:(۲۸)

”اس گروہ اہل حدیث کے خیرخواہ وفادار رعایا برٹش گورنمنٹ ہونے پر ایک بڑی اور روشن اور قوی دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ برٹش گورنمنٹ کے زیر حمایت رہنے کو اسلامی سلطنتوں کے ماتحت رہنے سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس امر کو اپنے قومی وکیل اشاعة السنہ کے ذریعے سے جس کے (۱۰) جلد (۶) میں اس امر کا بیان ہوا ہے۔ (اور وہ نمبر ہر ایک لوکل گورنمنٹ درگورنمنٹ آف انڈیا میں پہنچ چکا ہے) گورنمنٹ پر بخوبی ظاہر اور مدلل کرچکے ہیں جو آج تک کسی اسلامی فرقہ رعایا گورنمنٹ نے ظاہر نہیں کیا اورنہ آئندہ کسی سے اس کے ظاہر ہونے کی امید ہوسکتی ہے۔“

اسی طرح ملکہ وکٹوریہ کے جشن جوبلی پر جو ایڈریس محمدحسین بٹالوی نے گروہ مسلمانان اہل حدیث کی طرف سے پیش کیا تھا اس میں لکھا تھا:(۲۹)

”یہ مذہبی آزادی اس گروہ کو خاص کراس سلطنت میں حاصل ہے بخلاف دوسرے اسلامی فرقوں کے کہ ان کو اوراسلامی سلطنتوں میں بھی یہ آزادی حاصل ہے اس خصوصیت سے یہ یقین ہوسکتا ہے کہ اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام واستحکام سے زیادہ مسرت ہے اور ان کے دل سے مبارکباد کی صدائیں زیادہ زور کے ساتھ نعرہ زن ہیں“

اسی طرح لارڈ ڈفرن وائسرائے ہند کی سبکدوشی پر جماعت اہل حدیث نے ایک خوشامدانہ ایڈریس دیا، جس پر سب سے پہلے شمس العلماء میاں نذیرحسین کے دستخط ہیں، اس کے بعد ابوسعید محمدحسین وکیل اہل حدیث مولوی احمد اللہ واعظ میونسپل کمشنر امرتسر، مولوی قطب الدین پیشوائے اہل حدیث روپڑ، مولوی حافظ عبداللہ غازی پوری(۳۰) مولوی محمد سعید بنارسی، مولوی محمدابراہیم آرہ اور مولوی نظام الدین پیشوائے اہل حدیث مدراس کے دستخط ہیں۔

مولوی محمد حسین بٹالوی کی خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں:

”ان بے چاروں کو یہ ہوش نہیں رہا کہ وہ اپنے کو سرکار کی زد سے بچانے کی فکر میں کیا کررہے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو کس پستی کی طرف لے جارہے ہیں۔ مولوی محمدحسین صاحب اور ان ہی جیسے بعض علماء اہل حدیث کی روش کا یہ نتیجہ ہوا کہ موجودہ جماعت اہل حدیث کا عام رجحان فروعی مسئلوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔“

مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم لکھتے ہیں:(۳۱)

”اہل حدیث کے نام سے اس وقت بھی جو تحریک ہے حقیقت کی رو سے وہ قدم نہیں نقش قدم ہے۔ مولانا اسماعیل شہید جس تحریک کو لے کراٹھے تھے وہ فقہ کے چند مسائل نہ تھے بلکہ امامت کبریٰ، توحید خالص اور اتباع نبی کریم … کی بنیادی تعلیمات تھیں مگر افسوس ہے کہ سیلاب نکل گیا اور باقی جو رہ گیا ہے وہ گزرے ہوئے پانی کی فقط لکیر ہے۔“

مولوی محمد حسین بٹالوی کی پوری پالیسی میں شمس العلماء شیخ الکل میاں نذیرحسین ممدو معاون بلکہ سرپرست و سرخیل رہے،اور صادق پور کی بجائے مرکزقیادت دہلی و لاہور منتقل ہوگیا۔ پھر بیسویں صدی کے آغاز پر دسمبر ۱۹۰۶/ میں بمقام آرہ (بہار) آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس وجود میں آئی جس کے سب سے فعال کارکن مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری تھے۔ اہل حدیث کانفرنس کی کارروائی کم وبیش مولوی محمدحسین بٹالوی ہی کے انداز پر رہی۔

انگریز یا سکھ

تحریک مجاہدین کے سلسلے میں ایک امر کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ بعض لوگوں نے یہ بحث چھیڑی ہے کہ تحریک مجاہدین کا مقصد سکھوں کا استیصال تھا یا انگریزوں کے اقتدار سے چھٹکارا حاصل کرنا۔

حقیقت یہ ہے کہ تحریرک مجاہدین کا مقصد حکومت الٰہیہ کا قیام اور مسلمانوں کے گئے ہوئے اقتدار کو واپس لانا تھا۔

ہمارے خیال سے تحریک مجاہدین کی اساس شاہ عبدالعزیز دہلوی کے اس فتوے پر ہے جس میں انھوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا ہے۔(۳۲) مولانا مہرصاحب نے مکاتیب شاہ اسمٰعیل شہید سے اس کے متعلق ناقابل تردید شہادتیں پیش کی ہیں۔(۳۳)

اس سلسلے میں انھوں نے باقاعدہ جہاد کا منصوبہ بنایا اور ایک طریق کار وضع کیا کہ پہلے سکھوں کا خاتمہ کرنا چاہئے۔ اور پھر انگریزوں کی طاقت سے نمٹنا چاہیے چنانچہ اس کے بدیہی آثار و قرائن موجود ہیں۔ سکھوں(۳۳) کے بعد انھوں نے مسلسل انگریزوں سے مقابلہ کیا اور حکومت برطانیہ پریشان ہوگئی حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کا مقصد مسلمانوں سے زیادہ تو انگریز مورخ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے سمجھا ہے اورآور انڈین مسلمانس“ میں واضح کردیا۔

واقعہ یہ ہے کہ یہ شوشہ بھی خود اپنوں ہی کی طرف سے حکومت برطانیہ کی وفاداری کے سلسلے میں چھوڑا گیا۔ سب سے پہلے سرسیداحمد خاں (ف۱۸۹۸/) نے اور انڈین مسلمانس پر تبصرہ(۳۴) کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ جہاد سکھوں کے خلاف تھا پھر اس تحریک کے خاص رکن مولوی محمد جعفر تھانیسری نے اصل مواد میں ترمیم کرکے انگریزوں کی بجائے سکھوں کا لفظ لکھا اور اس کو مشتہر کیا(۳۵) بعض کوتاہ فہم یا پست ذہنیت رکھنے والے اشخاص تحریک مجاہدین کی اہمیت کم کرنے کے لئے اس قسم کے غیرمعیاری رسالے کبھی کبھی چھاپتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اس کوچے ہی سے نابلد ہیں وہ تحریک مجاہدین کو کیا سمجھیں۔

حواشی:

(۱)         مولانا فضل حق خیرآبادی (ف۱۲۷۸ھ=۱۸۶۱/) نے سب سے پہلے تقویة الایمان کی ایک عبارت ”اس شہنشاہ کی تو یہ شان․․․ کی برابر کے پیدا کرڈالے“ پر امتناع نظیر اورامکان نظیر کی بحث چھیڑی اور ایک مختصر سا رسالہ اس عبارت کے رد میں لکھا، پھر تواس سلسلے میں بہت سے رسالے قلمبند ہوئے اور تقویة الایمان کے مستقل رد لکھے گئے۔ غرض اس تحریک کی مخالفت کے آغاز کا سہرا مولانا فضل حق خیرآبادی کے سر ہے۔ (اعتراضات تقویة الایمان از مولانا فضل حق خیرآبادی۔ قلمی مملوکہ حکیم نصیرالدین ندوی کراچی)ص:۱۔

(۲)        مسائل اربعین وماتہ مسائل (شاہ محمداسحاق ف ۱۲۶۲ھ= ۳۷-۱۸۳۸/) نصیحة المسلمین و رسالہ جہادیہ مولوی خرم علی بلہوری (ف۱۲۷۳ھ= ۱۸۵۶/) ہدایة المومنین رسالہ راہ سنت و رسالہ رد عقائد مشرکین (مولوی اولاد حسن قنوجی (ف۱۲۵۳ھ= ۳۷-۱۸۳۸/) رسالہ تقویٰ، رسالہ کلمات کفر و عقائد نامہ (مولوی سخاوت علی (ف ۱۲۷۴ھ=۱۸۵۸/) رسالہ دعوت و رسالہ رد شرک مولوی ولایت علی (ف ۱۲۶۶ھ= ۱۸۵۲/) رسالہ بت شکن (مولوی عنایت علی ف۱۲۷۶ھ= ۱۸۵۸/) رسالہ تجہیز و تکفین مسلمان کی، (مولوی محمد عمران بدایونی ف ۱۲۷۱ھ=۱۸۵۵/) رفاہ المسلمین (شرح مسائل اربعین، وسعادت دارین (مولوی سعد الدین بدایونی ف ۱۲۸۳ھ=۱۸۶۶/) تحفة المسلمین (ترجمہ مسائل اربعین) ورسالہ عقیقہ (ملا نظام ف ۱۸۹۰/) تذکیر الاخوان (مولوی سلطان خاں شاہ آبادی) تنبیہ الغافلین (ترجمہ و شرح) و ترجمہ مسائل اربعین و تفسیرمقبول (مولوی عبداللہ بن بہادر علی حسینی وغیرہ کتب و رسائل خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

(۳)        جس وقت اللہ کے یہ فرمانبردار بندے (دین وملت کی خاطر میدان جہاد میں اپنی جانیں نچھاور کررہے تھے اس زمانے میں اس تحریک کے سب سے زیادہ مخالف مولانا فضل حق خیرآبادی (ف ۱۲۷۸ھ=۱۸۶۱/) ایجنٹ دہلی کے محکمہ میں سررشتہ دار اور مولوی فضل رسول بدایونی (ف۱۲۸۹ھ=۱۸۷۲/) کلکٹری بدایوں (سہسوان) میں سررشتہ دار تھے، حکومت برطانیہ کی دوراندیشی اور پالیسی ملاحظہ ہو کہ اس نے مسلمانوں کے ذہین اور صاحب علم و فضل طبقے کو سرکاری خدمات کے لئے حاصل کرلیا۔ دہلی میں دبیرالدولہ نواب فرید الدین (ف ۱۲۴۴ھ=۱۸۲۸/) منشی زین العابدین (ف ۱۲۷۳ھ=۱۸۵۶/) مفتی صدر الدین آزردہ (ف ۱۲۸۵ھ=۱۸۶۸/) مولوی فضل امام خیرآبادی (ف ۱۲۴۴ھ=۱۸۲۹/) مولوی محمد صالح خیرآبادی (برادر فضل امام خیرآبادی) منشی فضل عظیم خیرآبادی (فرزند اکبر فضل امام خیر آبادی) مولوی فضل حق خیر آبادی (ف ۱۲۷۸ھ=۱۸۶۱/) بدایوں میں مولوی فضل رسول (ف ۱۲۸۹ھ=۱۸۷۲/) مولوی علی بخش صدرالصدور (ف ۱۳۰۳ھ=۶-۱۸۸۵/) مرادآباد میں مولوی عبدالقادر چیف رامپوری (ف ۱۲۶۵ھ=۱۸۴۹/) الٰہ آباد میں مفتی اسداللہ (ف ۱۳۰۰ھ=۳-۱۸۸۲/) وقاضی عطاء رسول چریا کوٹی۔ کلکتہ میں قاضی نجم الدین خاں کاکوروی (ف ۱۲۲۹ھ=۱۸۱۳/) اوران کے صاجزادگان، قاضی سعید الدین (ف ۱۲۶۲ھ=۱۸۴۶/) مولوی حکیم الدین (ف ۱۲۶۹ھ=۱۸۵۴/) اور قاضی علیم الدین (ف ۱۲۵۷ھ=۱۸۴۱/) وغیرہ مدراس میں قاضی ارتضاء علی گوپاموی (ف ۱۲۷۰ھ=۴-۱۸۵۳/) اور ناسک میں خان بہادر مولوی عبدالفتاح مفتی وغیرہ برصغیر پاک وہند کے وہ اعاظم و افاضل ہیں جنھوں نے منصب افتاء، اقتضاء اور صدر الصدوری کے ذریعے سرکار کمپنی کے انتظام و اقتدار حکومت کو بحال اور مضبوط کیا، ملاحظہ ہو سیرت فریدیہ از سرسید احمد خاں،ص:۴۰۱۸ باغی ہندوستان از عبدالشاہد خاں شروانی،ص:۴۰ علم و عمل (وقائع عبدالقادر خانی) جلد اوّل ص:۲۵۵، ص:۲۵۷ وجلد دوم ص:۱۹۹۶۹۸۷۱۱۳ بیاض مولانا فضل حق خیر آبادی ص۳۴ (مملوکہ حکیم نصیرالدین نظامی دواخانہ کراچی) اکمل التاریخ از محمد یعقوب ضیاء جلدوم ص:۵۱ تذکرہ علمائے ہند، ص:۱۰۸،۱۰۹،۳۴۲،۳۴۴، ۳۴۴، ۵۰۹،۵۱۲،۵۱۳۔ تذکرہ مشاہیر کاکوری ص ۱۲۲،۱۲۳،۱۹۰،۳۸۷،۴۳۳۔ مجاہدین از مولانا غلام رسول مہر (کتاب منزل لاہور ۱۹۵۶/) ص:۱۲۱، ۱۲۴۔

(۴)        مولوی نصیرالدین منگلوی کے حالات کے لئے دیکھئے سرگذشت مجاہدین ص۱۲۳-۱۲۸۔ مولوی سید نصیرالدین دہلوی کے لئے ملاحظہ ہو سرگذشت مجاہدین، ص:۱۳۵-۲۱۳۔

(۵)        سرگزشت مجاہدین ص:۲۰۷

(۶)        سرگزشت مجاہدین ص:۲۹۔

(۷)        ۱۸۵۸/ میں مولانا عنایت علی کے انتقال کے بعد میں تین سال تک مجاہدین کی قیادت میر نصر اللہ اور میر مقصود علی نے کی۔ ملاحظہ ہو ہسٹری آف فریڈم مومنٹ جلد دوم حصہ اوّل، ص:۱۴۶ کراچی ۱۹۶۰/۔

(۸)        اس مقدمے کے واقعات و حالات کے لئے ملاحظہ ہو سرگزشت ص:۳۹۱ و ص:۳۹۵ و تواریخ عجیب (کالاپانی) از مولوی محمد جعفرت تھانیسری (مرتبہ محمد ایوب قادری) کراچی۱۹۱۲/۔

(۹)         ملاحظہ ہو تواریخ عجیب (کالا پانی ص:۲۲۱،۲۲۷۔

(۱۰)       تواریخ عجیب ص:۲۲۷-۲۲۸۔

(۱۱)        تواریخ عجیب،ص:۳۵۲۔

(۱۲)       اس مقدمے کی تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو، ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک از مسعود عالم ندوی حیدرآباد دکن (۱۳۷۱ھ) ص:۱۶۷،ص:۱۸۰ و سرگزشت مجاہدین،ص:۴۱۶،ص:۲۵۔

(۱۳)ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک از مسعود عالم ندوی۔ ص:۱۶۸،۱۶۹۔

(۱۴)خطبہٴ صدارت آنریبل سر عبدالرحیم، اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ علی گڈھ ۱۹۲۵/ (ترجمہ قاضی عبدالرشید) ص۱۲، مسلم یونیورسٹی علی گڈھ۱۹۲۵/۔

(۱۵)ترکوں اور انگریزوں کے سیاسی پروپیگنڈے نے محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کو وہابیت کا نام دے کر بدنام کیا، ہندپاکستان میں انگریزوں نے سید احمد شہید کی تحریک کے حضرات کو وہابیوں کے نام سے مطعون کیا۔ اس سلسلہ میں ملاحظہ ہو ”ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک از مسعود عالم ندوی۔ ص:۱۵،۳۱۔

(۱۶)       ملاحظہ ہو جامع الشواہد فی اخراج الوہابیین عن المساجد مرتبہ وصی احمد سورتی مطبوعہ مطبع ریاض آگرہ)

(۱۷)ایضاً۔

(۱۸)ایضاً، ص:۱۹۔

(۱۹)       اخراج المنافقین من مساجد المسلمین نبی بخش حلوائی (کریمی پریس لاہور)

(۲۰)اکمل التاریخ (جلد دوم) از مولوی محمد یعقوب صاحب، ضیاء القادری بدایونی (۱۹۱۵/) ص:۵۲۔

(۲۱)       صیانة الاناس از حیدر علی ص: ۳، ۴۔ (خطی) رضا لائبریری رامپور)

(۲۲)ملاحظہ ہو طوالع الانوار از مولوی انوارالحق (مطبع صبح صادق سیتاپور ۱۲۹۶ھ) ص:۸۵ و ۹۱ و اکمل التاریخ جلد دوم ص:۲۵

(۲۳)رسالہ اشاعتہ السنہ لاہور جلد۸ نمبر۵،ص:۲۶۱-۲۶۲۔

(۲۴)ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ص۲۹۔

(۲۵)سیرت ثنائی از مولوی عبدالمجید خادم سوہدری (گجرانوالہ ۱۹۵۲/) ص:۳۷۲۔

(۲۶)اس سلسلے میں ملاحظہ ہو اشاعة السنہ لاہور جلد گیارہ شمارہ:۲، ص:۲۶-۳۹ ومآثر صدیقی جلد دوم (لکھنوٴ ۱۹۲۳/) ص: ۱۶۲-۱۶۳۔

(۲۷)اشاعة السنہ (لاہور) جلد ۸ شمارہ۹، ص:۲۶۲۔

(۲۸)اشاعة السنہ (لاہور) جلد ۹ شمارہ نمبر ۷ ص۲۰۵-۲۰۶۔

(۲۹)مولوی حافظ عبداللہ غازی پوری کی سرکار انگلشیہ کی وفاداری کے سلسلے میں ملاحظہ ہو ”شمع توحید“ از مولوی ثناء اللہ امرتسری مکتبہ ثنائیہ سرگودھا سنہ طباعت ندارد، ص:۴۲۔

(۳۰)ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک،ص:۲۹۔

(۳۱)تراجم علماء حدیث ہند از ابویحییٰ امام خاں نوشہروی (مقدمہ از مولانا سیدسلیمان ندوی) دہلی ۱۹۳۸/ ص:۳۸۔

(۳۲)تفصیل کیلئے دیکھئے فتاویٰ عزیزی از شاہ عبدالعزیز دہلوی (مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۱ھ) ص:۱۶-۱۷۔

(۳۳)جماعت مجاہدین از مولانا غلام رسول مہر (کتاب منزل لاہور ۱۹۵۵/) ص:۱۱-۱۶

(۳۴)مولانا محمد میاں مصنف ”علماے ہند کا شاندار ماضی“ نے جلد دوم (ص:۲۷۰-۲۷۷) میں سکھوں کے مقابلہ کو ہنگامی حالات کا تقاضا بتایا ہے۔

(۳۵)ملاحظہ ہو سیداحمد شہید (مہر) ص:۱۵۹-۱۶۲۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 91 ‏، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء

Related Posts