از: جناب ڈاکٹر محمودحسین

وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی

۱۸۵۷/ برصغیر ہند وپاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سال ہے۔ جس طرح نحیف سے نحیف جسم بھی شدید بیماری کی صورت میں ایک نہ ایک مرتبہ اپنی ساری توانائیوں کو سمیٹ کر مرض کو دفع کرنے کے لئے پورا زور صرف کردیتا ہے کم و بیش ایسا ہی واقعہ ۱۸۵۷/ میں پیش آیا جب کہ ہندوپاکستان کے لوگ جو اندرونی زوال اور بیرونی تسلط کی دوہری مار سے پس چکے تھے ایک مرتبہ پھر منظم ومتحد ہوئے اورانھوں نے اجنبی اقتدار کے جوئے کو کاندھے سے اتار پھینکنے کے لئے غیرمعمولی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ افسوس ہے کہ غیرملکی غلبے کے خلاف عوام کے اس مقدس جہاد کو مخالفین نے ایک حقیر واقعہ بنانے کی کوشش کی۔ بغاوت، شورش، ہنگامہ، غدر نہ جانے اور کتنے ایسے نام ہیں جو اس واقعہ کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض تو ناکافی معلومات کا نتیجہ ہوں لیکن بلاشبہ ان میں سے اکثر ذاتی یا قومی مفاد کے پیش نظر تراشے گئے ہیں۔

۱۸۵۷/ سے متعلق جو تاریخی نا انصافی ہوئی ہے اس کا بڑا سبب یہ رہا کہ بدلے ہوئے حالات میں عرصے تک جنگ آزادی کے مشارکین و مشاہدین کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ واقعات کی صحیح تصویر پیش کرتے۔ ظلم و استبداد کے خلاف جہاد میں ہار جانا تاریخ میں کوئی ان ہونی بات نہیں لیکن انگریز حاکموں نے محبانِ وطن کو ان کی ناکامی کے بعد جس ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اس کی مثال کم ملے گی۔

محبان وطن کے خلاف طرح طرح ے بہانے بنائے گئے اور اکثر پر بے بنیاد الزام لگاکر انہیں سنگینوں کا شکار بنایا۔ انگریزوں نے جس طرح سیاست میں برصغیر کے عوام پر ستم ڈھائے اسی طرح علمی طو رپر بھی عوام کے اس جہاد حریت کی وقعت کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی۔ اس کو محض غدر سے تعبیر کیاگیا گویا یہ ایک معمولی شورش تھی جوفوج سے اٹھی اور فوج ہی میں دب کر رہ گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ آغاز تو ایسا ہی ہوا جیسا کہ اکثر بیان کیا جاتا ہے یعنی یہ کہ ہندوستانی فوجیوں کو اپنے حکام کے ساتھ متعدد شکائتیں پیدا ہوگئی تھیں جو رفتہ رفتہ عام فوجی بے چینی کا باعث بن گئیں۔ یہی وہ بے چینی اور بے اطمینانی ہے جو ۱۸۵۷/ میں جنگ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ لیکن چونکہ یہی وہ زمانہ تھا جبکہ برصغیر کے مختلف طبقات نے جو قطع نظر جذبہٴ آزادی کے اور دوسری وجوہ کی بناء پر اجنبی تسلط سے بیزار تھے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ چنانچہ یہ واقعہ جس کا آغاز تو فوجی شورش سے ہوا بالآخر قومی جنگ کی صورت اختیار کرگیا۔ مگر حال کے جن مورخین نے مسئلہ کو اسی طرح سمجھا ہے ان کی تصانیف کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں داستان کی تکمیل اور نتائج کے اخذ کرنے میں اس رول کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جو کہ مسلمان علماء نے اس جنگ آزادی میں ادا کیا۔

محاربہ ۱۸۵۷/ کو جنگ آزادی کہا جائے یا نہ کہا جائے اس کا انحصار بڑی حد تک اس پر ہے کہ جنگ آزادی سے آخر مراد کیا ہے۔ اگر جنگ آزادی کے لئے لازمی شرط یہ ہو کہ سارا ملک بلا استثناء اس میں شامل ہوجائے جیساکہ بعض مصنّفین کا خیال ہے تو پھر ۱۸۵۷/ کے معرکہ کو جہاد حریت سے موسوم کرنا ایک منطقی غلطی ہوگی۔ جنگ آزادی جانچنے کی کسوٹی ہمارے نزدیک رقبہ وآبادی نہیں بلکہ وہ جذبہ ہے جواس جنگ میں کار فرمارہا ہو اگر اس نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو ۱۸۵۷/ کی جنگ کیا بہ لحاظ واقعہ اور کیا بہ اعتبار نتائج برصغیر کی پہلی جنگ آزادی کہلائی جاسکتی ہے۔ رقبہ اور آبادی جو اس سے متاثر ہوئی وہ بھی کم نہ تھی۔

جہاں تک واقعات کا تعلق ہے یہ بھی جانتے ہیں کہ انگریز برصغیر میں تاجروں کی حیثیت سے داخل ہوئے لیکن یہاں کے سیاسی حالات بالخصوص درباری رقابتوں سے فائدہ اٹھاکر پہلے تو انھوں نے دکن میں اپنا عمل دخل بڑھایا اور کچھ عرصے بعد بنگال کے علاقے کے مالک بن بیٹھے۔ البتہ ابتداء ہی سے انگریز پیش قدمی اور توسیع اقتدار کی پالیسی پر کارفرمارہے اور نت نئے طریقوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ سارے برصغیر پر قابض ہوگئے۔

بیرونی غلبے کا فوری اثر یہ پڑا کہ حکمراں طبقہ اقتدار سے محروم ہوگیا اور امراء اپنا اثر و رسوخ کھوبیٹھے۔ سیاسی محرومی اپنے جلو میں معاشی ابتری بھی لئے ہوئے تھی۔ پہلی بڑی معاشی مار زمیندار طبقے پر پڑی جس سے وہ طبقہ بھی متاثرہوا جو ان سے کسی نہ کسی طرح پر وابستہ تھا۔ تاجر و صنعت کار طبقے بھی انگریزی حکومت سے خوش نہیں رہ سکتے۔ ملک کی صنعتیں اور حرفتیں ملک کے نئے حالات میں پنپ نہ سکیں۔ یہاں کی صنعتیں حکومت کی سرپرستی کے بغیر آزاد مقابلے کی تاب نہ لاسکتی تھیں۔ سیاسی و معاشی غلامی میں ظاہر ہے کہ ملکی تہذیب بیرونی اثر سے آزاد نہیں رہ سکتی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی تہذیب رفتہ رفتہ ملک میں اثر و نفوذ کرنے لگی جو دور رس نتائج کا باعث بنی۔ ان حالات میں ایک غیور قوم کا اجنبی حکومت کو للکارنا ایک فطری امر تھا۔

ہندو اور مسلمان طویل سیاسی اور تہذیبی مقاصد میں ہمیشہ سے الگ الگ رہے ہیں لیکن بیرونی غلبے سے آزادی حاصل کرنا ایسا جذبہ تھا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں برابر کے شریک تھے۔ اس موقعہ پر جو نقطئہ اتحاد دونوں قوموں کے لئے قابل قبول ہوسکتا تھا وہ مغل شہنشاہ کی ذات تھی مانا کہ مغل بادشاہ کا وجود اب برائے نام تھا لیکن اس کی قانونی حیثیت اب بھی مسلم تھی۔ مزید برآں عوام کی وفاداری کی دیرینہ روایات بھی مغل خاندان سے وابستہ تھیں۔ ان ہی وجوہ کی بناء پر قیادت کے لئے ہندو اور مسلمان دونوں کی نظریں مغل شہنشاہ پر پڑیں۔ لیکن ملک کی سیاسی بے چینی ابھی منظم تحریک کی پختہ صورت نہ اختیار کرپائی تھی کہ فوج میں بغاوت کی چنگاری اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک شعلے کی شکل میں برصغیر کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس جنگ میں امیر وغریب، عالم وجاہل سب ہی شامل تھے۔ مردتو مرد عورتوں نے بھی اس موقعہ پر غیرمعمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا۔

نتائج کے اعتبار سے بھی یہ جنگ برصغیر میں پہلی جنگ آزادی کہلانے کی مستحق ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انگریزوں کو نکال باہر کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن ان کی یہ ناکامی عوام کے جذبہٴ حریت کو پامال نہ کرسکی۔ بیرونی اقتدار کے خلاف جذبہ روز بروز بڑھتا رہا ہے حصول آزادی کی متواتر کوششیں مختلف سمتوں میں جاری رہیں جس کا پھل بالآخر مکمل آزادی کی صورت میں ۱۹۴۷/ میں ملا۔

تاریخ میں اختلاف رائے ایک معمولی امر ہے یہ تحقیق حق میں کسی طرح حارج نہیں تاریخی مساعی میں اختلاف رائے کا پایا جانا ایک اعتبار سے ضروری بھی ہے۔ علم تاریخ میں ایک فرد کی کوشش بالکل ناکافی ہوتی ہے کیونکہ کسی مورخ کی آنکھ میں اتنی تیزی نہیں کہ واقعہ کو اس کے پورے پس منظر میں دیکھے مختلف آنکھوں کی مدد ہی سے وہ بصیرت حاصل ہوسکتی ہے جس سے واقعہ کی ماہیت کو اچھی طرح دیکھا جاسکتا ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر سے مسئلے کے سمجھنے میں الجھاؤ ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن دلائل کی تنقیدی جانچ سے اس الجھاؤ کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کسی فی الحقیقت تاریخ بنیادی طور پر ایک ایسا علم ہے جس میں تنقید کے ذریعہ ہی سے حقیقت تک پہنچا جاتا ہے۔ جہاں تک ۱۸۵۷/ کا تعلق ہے اس پر اب تک جو کام ہوئے ہیں اور خاص طور پر ۱۸۵۷/ میں صدسالہ یادگار کے موقع پر جو کتابیں شائع ہوئی ہیں اپنی اپنی جگہ پر مستحسن ہیں لیکن ان کو کافی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ قطع نظر اختلاف رائے کے جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ابھی تک کوئی ایسا مبسوط کام نہیں کیاگیا ہے جس میں مسلمان علماء کے کارناموں کو بیان کیاگیا ہو۔ ناکامی کے بعد محبان وطن پرجو جھوٹے مقدمات چلائے گئے اور ان کے خلاف بربریت اور وحشت کے جو افسانے گھڑے گئے وہ سب مورخ کی ناقدانہ جانچ کے محتاج ہیں۔ ضرورت ہے کہ مورخین اس طرف متوجہ ہوں۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 91 ‏، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء

Related Posts