از: محمد شمیم اختر قاسمی، ریسرچ اسکالر شعبہٴ دینیات (سنی)، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی
دارالعلوم دیوبند نے ایسی کئی اہم اور نابغہٴ روزگار ہستیاں پیدا کی ہیں جن کی خدمات جلیلہ سے تاریخ ہند کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ انہیں میں ایک اہم اور مقبول شخصیت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کی بھی ہے۔ آپ نے نہ صرف دارالعلوم دیوبند کی مسند حدیث پر رونق افروز ہوکر تشنگان علوم نبوت کو سیراب کیا؛ بلکہ رشدوہدایت کا بھی چراغ روشن کرکے لاکھوں مسلمانوں کے قلب ودماغ کو معمور و منور فرماکر اور ان کا رشتہ خالق کائنات سے مضبوط ومستحکم کیا۔ اسی کے ساتھ ہندوستانی علماء کے متحدہ پلیٹ فارم جمعیة علماء ہند کی مسند صدارت پر بیٹھ کر مسلمانوں کی ایسی قیادت و رہنمائی کی جس کی نظیر نہیں ملتی، اورجس کی وجہ سے مسلمانوں کے وقار کو بڑی تقویت ملی۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان سے لاقانونی اور غیرمنصفانہ نظام کی بیخ کنی میں بھی صف اوّل میں رہے ، اور اس طرح ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔
ہندوستان کو آزاد ہوئے بہت عرصہ بھی نہ گزرا تھا اور بالخصوص مسلمان آرام کی سانس بھی نہ لینے پائے تھے کہ برادران وطن کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ تعصب وتنگ نظری کا سلسلہ شروع ہوگیا، جگہ جگہ فرقہ وارانہ فساد کی وبا پھوٹنے لگی، ان کے مساجد معابد پر حملے کیے جانے لگے، ان کی مذہبی تعلیم پر پابندی لگائی گئی۔ اس وقت جمعیة علماء ہند کے افق سے مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نمودار ہوئے اور فتنہ پرور جماعتوں اور فرقہ پرست طاقتوں کا تعاقب کیا جس سے مسلمانوں کے اندر امید واطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ مگر ان کے انتقال کے بعد قومی قیادت کا میدان خالی ہوگیا اور حالات بھی دگرگوں ہونے لگے۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کی نظر انتخاب مولانا حسین احمد مدنی کے فرزند سعید صالح نوجوان مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ پر پڑی اور بلا کسی تذبذب اور تردد کے ان کو اپنا امیر اور جمعیة علماء ہند کا صدر بنادیا گیا۔ اس منصب جلیلہ پر فائز ہونے کے بعد آپ نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ محتاج بیان نہیں، مختصر یہ کہ اپنے نامور باپ کی ہرگوشہ میں جانشینی کرکے بڑی حد تک اس کا حق ادا کردیا۔ آپ نے اپنی زندگی کا نصب العین بھی انہیں الفاظ میں بیان کیا تھا کہ:
”میرے والد ماجد حضرت شیخ الاسلام نے ہمیں ایمان ویقین اور تحصیل واشاعت دین کے ساتھ وطن عزیز سے تعلق،آزادی سے محبت اورانسانوں کی خدمت کی جو راہ دکھائی تھی میری کوشش یہی ہے کہ جب تک زندہ رہوں ان عنوانات پر زندگی کی داستان ترتیب دیتا رہوں۔“
ان کے زمانہ صدارت میں جب بھی ملک میں کوئی ناگہانی واقعہ رونما ہوا، یا مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کی گئی یا ان کی عزت و آبرو پر ڈاکہ ڈالا گیا، یا ان کے مساجد ومعابد پر حملے کئے گئے یا پھر ان کی تعلیم گاہوں پر پابندی لگائی گئی تو مولانا بے چین ومضطرب ہوجاتے، اور جب تک اس کا انسداد نہ کرلیتے چین سے نہ رہتے۔ ان محاسن اور قربانیوں نے انہیں جلد ہی عوام وخواص میں اتنا محبوب بنادیا کہ وہ قوم وملت کے ہوگئے اور قوم ملت ان کے لیے ہوگئی۔ بقول شخصے: مولانا کی قیادت ملت کی امنگوں کا ترجمان تھی تو ملت بھی ان کی محبت وعقیدت کے سرور میں ڈوبی ہوئی تھی۔
یوں تو مولانا اسعد مدنی رحمہ اللہ نے مسلمانان ہند کی فلاح و بہبود اور ان کی تعمیر و ترقی کے بہت سے امور انجام دئیے ہیں۔ مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی اور بہتری پر خاصا زور دیا ہے۔ نہ صرف دینی تعلیم پر توجہ مبذول فرمائی بلکہ عصری علوم میں بھی مہارت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔ اور اسے دین ودنیا دونوں ہی کے لیے ترقی کا زینہ قرار دیا۔ جو لوگ اپنی غریبی اور مفلوک الحالی کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے سے معذور ومجبور تھے ان کے لیے بھی مواقع فراہم کیے۔ اسی کے ساتھ ذمہ دارانِ ادارہ سے اپیل کی کہ وہ اپنے اداروں میں تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنائیں، اور ان کے لیے مفید لائحہ عمل تجویز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی مسلمانوں کی ماتحتی اور سرپرستی میں چلنے والے دینی وعصری تعلیم گاہوں پر فرقہ پرست طاقتوں نے انگشت نمائی کی یا ان کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کی تو اس کے تحفظ و بقا کے لیے مولانا میدان میں نکل آئے اور جمعیة علماء ہند کے پلیٹ فارم سے اس کا دندان شکن جواب دیتے، جس سے فسطائی طاقتوں کے ارادے پست ہوجاتے۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی الزام و اتہام اور فتنوں کی زد میں رہی، جس میں کسی نہ کسی طرح حکومت وقت کا عمل دخل ضرور رہا ہے۔ کبھی اس کے اقلیتی کردار پر حملہ کیاگیا تو کبھی اسے دہشت گردی کا مسکن بتایا گیا، تو کبھی اس کے تعلیمی معیار کو ناقص ٹھہراکر اس کی ڈگری کو مشکوک قرار دیاگیا۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں متعدد بار یہ مسئلہ زیربحث آیا کہ یونیورسٹی سے مسلم کا لیبل ہٹادیا جائے کیوں کہ اس سے اقلیتی فرقے کی نمائندگی ہوتی ہے۔
اس کے برعکس بنارس ہندویونیورسٹی بھی ہے جس کے متعلق اس قسم کی نہ کوشش کی گئی نہ اس کے خلاف کبھی کوئی آواز اٹھی۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ۱۹۱۶/ میں بنارس ہندویونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور اس کے لیے ایکٹ کا جو ڈھانچہ تیار گیا تھا۔ ہندومسلم فرق کی رعایت سے وہی ڈھانچہ تھا جو بعد میں مسلم یونیورسٹی کے لیے بنایاگیا۔ چنانچہ اسی ایکٹ میں اس امر کی صراحت تھی کہ علی گڑھ محمڈن کالج ہی یونیورسٹی میں تبدیل کردیاگیا ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ تعلیم اور انتظام کے اعتبار سے جو اغراض ومقاصد کالج کے تھے وہی اغراض ومقاصد اب یونیورسٹی کے ہوں گے۔ چنانچہ یہاں جدید اور مغربی علوم وفنون کے ساتھ اسلامی علوم وفنون کا بھی خاص اہتمام ہوگا۔ انتظامی اعتبار سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اسی ایکٹ میں اس بات کی بھی صراحت تھی کہ کورٹ یونیورسٹی کی سب سے بڑی اورموثر مجلس حاکمہ ہوگی اوراس کا ممبر کوئی غیرمسلم نہ ہوگا۔ وائس چانسلر براہ راست کورٹ کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ اسی ایکٹ پر کافی عرصہ سے عمل ہوتا رہا اور اس پر کسی کو اشکال بھی نہ ہوا۔ ۱۹۵۱/ میں جب ہندوستان جموریہ ہوا تو اس وقت مسلم یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کی گئی اور یونیورسٹی میں غیرمسلموں کے داخلے کے لیے دروازے کھول دئیے گئے۔ پھر ۱۹۶۵/ اور ۱۹۷۲/ میں یونیورسٹی ایکٹ میں تبدیلیاں کی گئیں اس کے خلاف ۱۹۶۸/ میں عزیزپاشا اور کچھ دیگر نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تو فاضل عدالت عظمیٰ نے علی گڑھ یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ ماننے سے ہی انکار کردیا۔ جس کے خلاف ملک گیر تحریک چلی، مسزاندرا گاندھی کو مسئلے کی اہمیت اور نزاکت اور اقلیتی کردار ختم کردینے کی غلطی کااحساس ہوا تو دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد انھوں نے ایکٹ میں ترمیم کرکے یونیورسٹی کے اقلیتی اور تاریخی کردار کو بحال کردیا۔ اس وقت سے لے کر ۲۰۰۵/ تک یونیورسٹی اپنے آب و تاب کے ساتھ چلتی رہی۔ اسی سال موجودہ حکومت نے مسلمانوں کے لیے پچاس فیصدی ریزرویشن کا ڈھونگ رچ کر اس کے اقلیتی کردار پر سوالیہ نشان لگادیا۔اس طرح ایک بار پھر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اسے اقلیتی ادارہ ماننے سے ہی انکار کردیا۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں جاکر اٹکا ہوا ہے، مسلمان اس وقت کشمکش سے دوچار ہیں، حکومت وقت بھی تماشائی بنی عدالت کے فیصلے کا انتظار کررہی ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ وہ کورٹ پر دباؤ ڈالتی کہ وہ جلد یونیورسٹی کے معاملہ کو رفع دفع کرے تاکہ بے چینی دور ہو۔
یونیورسٹی کی اقلیتی اور تاریخی کردار کی بازیافت کے لیے شروع سے جمعیة علماء نے اہم رول ادا کیا ہے اور جب بھی یونیورسٹی پر کوئی برا وقت آیاتو اس کے خلاف آواز بلند کرنے اور اس کے حقوق دلوادینے میں یہ جماعت پیچھے نہیں رہی ہے۔ بالخصوص فدائے ملت مولانا اسعد مدنی صاحب نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ محتاج بیان نہیں ہے اور جسے یونیورسٹی حلقے نے بھی سراہا ہے۔ مولانا کے اس خیرخواہانہ اور ہمدردانہ اقدام سے بالخصوص اس خیال اور نظریے کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ علماء مسلمانوں کو عصری علوم کے حصول سے مانع ہوتے ہیں اور اسے شجر ممنوعہ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں جمعیة کی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نعمانی لکھتے ہیں:
”اگست ۱۹۷۲/ میں مسلم یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر حملہ ہوا تو جمعیة علماء ہند نے مارچ ۱۹۷۳/ میں ایکٹ کے خلاف آواز اٹھائی اور دہلی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کنوینش کا انعقاد بھی کیا۔“
آپ کو نہ صرف مسلمانوں کی متحدہ جماعت کی صدارت کا اعزاز حاصل تھا؛ بلکہ آپ حکومت کے ایوانوں میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی کا حق رکھتے تھے۔ تین ٹرم تقریباً اٹھارہ سال تک مولانا راجیہ سبھا کے ممبر رہے۔ اس لیے مسلمانوں کے مسائل کو حکومت تک پہنچانے کا اور اس سلسلہ میں تبادلہ خیال کا آپ کو خوب موقع ملا۔ ایسا کم ہی ہوا کہ مولانا نے جس اہم اور نازک مسئلے پربحث کی اس پر توجہ نہ دی گئی ہو۔ یہ مولانا کا ایک بڑا وصف تھا کہ ”جو چیز ایک دفعہ ان کی فکر کا حصہ ہوجاتی مولانا اس کے لیے سرگرم ہوجاتے اور اس راہ کی تمام تر مشکلات کو اقدامی سطح پر بہرصورت عبور کرتے اور بالآخر کامیاب بھی ہوتے۔“
اس پس منظر میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کے متعدد مسائل کو مولانا پارلیمنٹ کے جلسے اور بڑے سے بڑے مجمعے میں بڑی دور اندیشی کے ساتھ پیش کرتے اور اس کے مثبت و منفی پہلوؤں سے بھی اعلیٰ حکام کو خبردار کرتے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ مسلم یونیورسٹی کو بعض حقوق اور مراعات سے محروم رکھنے کے لیے اجلاس میں شریک بیشتر ممبران مصر رہتے اور مولانا اپنی بات اور مانگ پر اٹل جس کے لیے وہ متعدد طریقے استعمال کرتے اور بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو لے کر پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی ہوئی۔ اسی دوران ایک کانگریسی لیڈر نے کہاکہ مسلم یونیورسٹی سے لفظ مسلم نکال دیاجائے، اس پر مولانا برہم ہوگئے اور سخت لب ولہجہ میں کہا کہ تم بنارس ہندو یونیورسٹی سے لفظ ہندو نکال دو ، میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لفظ مسلم کھرچ دوں گا اور کانگریس کو سیکولر کالیبل بھی اپنی پارٹی سے ہٹانا ہوگا۔ مولانا کے اس جواب پر سارے لوگ خاموش ہوگئے جبکہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ اس پارٹی کے معاون تھے۔
فدائے ملت ایک فعال اور متحرک آدمی تھے، ان کے عزائم میں پختگی تھی، قوم وملت کا ان کے دل میں بڑا درد تھا، وہ ہرممکن کوشش کرتے کہ مسلمان فلاح و ترقی کی بلندی کو چھولیں اور ان کا جس بڑی تنظیم یاجماعت سے آخر عمر تک تعلق رہا اس کا بھی بنیادی مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کے لیے فلاح وبہبود کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ جہاں کہیں کوئی ان کے حقوق سلب کرنے یا ان کی آزادی پر پابندی لگانے کی کوشش کرے اس کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ مولانا کی قیادت کے پورے عرصہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ چیز صاف نظر آتی ہے کہ جب بھی ایسا کوئی نازک وقت مسلمانوں پر آیا تو انھوں نے انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے اس کے انسداد کی کوشش کی اور ضرورت پڑی تو پورے ملک کے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کرنے سے بھی نہیں چوکے۔ دہلی کے متعدد مشہور مقامات پر مسلمانوں کو جمع کرکے حکومت کو مسلمانوں کی طاقت اور ان کے عزائم سے باخبر کیا۔ باوجود اس کے ایسا بھی ہوا ہے کہ مولانا جس مقصد کے تحت تحریک چلارہے ہیں کسی نہ کسی مقام پر لوگ آپ سے جدا ہوجاتے، جس سے مولانا کو بڑی تکلیف ہوتی کیوں کہ اجتماعیت میں طاقت کے ساتھ فلاح وکامیابی بھی ہے۔ پھر بھی مولانا کا تحریک سرد نہیں ہوتی وہ تن تنہا منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہتے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ مولانا کے ساتھ اس وقت بھی ہوا کہ مولانا یونیورسٹی کے اقلیتی حقوق کی بحالی کی جنگ لڑرہے ہیں مگر علی گڑھ والوں کا انہیں تعاون نہیں مل رہا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا یونیورسٹی کی تعمیر و ترقی اوراس کے اقلیتی کردار کی بحالی کے کتنے خواہاں تھے اور ان کی معلومات اس سلسلے میں کتنی گہری تھی، چنانچہ مشہور عالم دین اور عربی کے پروفیسر بدرالدین الحافظ لکھتے ہیں کہ:
”۱۹۷۳/ میں جب علی گڑھ میں ایم اے کرنے کے سلسلے میں مقیم تھا تو گرمیوں کی تعطیلات میں دیوبند مولانا وحیدالزماں کیرانوی کے ساتھ چند روز قیام رہا۔ اس دوران کئی بار دارالشفا میں حضرت سے نیاز حاصل ہوا۔ ابتدائی ملاقات میں جب انہیں معلوم ہوا کہ آج کل میں علی گڑھ زیر تعلیم ہوں تو آپ نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے مسئلہ پر تفصیلی گفتگو شروع کردی اور پورے معاملہ پر روشنی ڈالتے ہوئے اس سلسلے میں جمعیة کی جدوجہد کا ذکر کیا۔ مگر ساتھ ہی اس پر کبیدہ خاطر نظر آئے کہ علی گڑھ والوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ یہ شاید پہلا ہی موقع تھا کہ مولانا مرحوم کی زبان سے علی گڑھ کے بارے میں اتنی تفصیل سنی۔ مجھے حیرت تھی کہ یہ دارالعلوم کے خالص عالم ہیں اور انہیں اوّل تو مسلم یونیورسٹی سے اتنی دلچسپی کیوں اور پھر اقلیتی کردار سے متعلق اتنی گہری معلومات بھی رکھتے ہیں۔“
جیساکہ ذکر کیاگیا کہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو کالعدم کرنے کی کئی بار کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی انتظامیہ، اساتذہ اور طلبا نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ اسی طرح متعدد بار حکومت کی طرف سے یونیورسٹی کے بعض اہم امور پر پابندی کی بھی بات سامنے آئی جس سے طلبا اور اساتذہ کے اندر ہیجان کی کیفیت پیدا ہوجاتی۔ جس کے دفاع کے لیے تحریک چلائی جاتی تو بالخصوص طلباء برادری مولانا مرحوم سے رجوع کرتے اس وقت مولانا ان کی صحیح سمت میں رہنمائی فرماتے، جیساکہ مولانا کے ایک نیاز مند جو یونیورسٹی کے بھی طالب علم تھے لکھتے ہیں:
”علی گڑھ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف جو ۱۹۶۵/ کا بل آیا تو یونیورسٹی اورملک میں ہیجان برپاہوگیا۔ ۱۹۶۵/ میں دو جنگ یادرکھنے کی ہیں۔ ایک انڈوپاک جنگ اور ایک علی یاورجنگ (وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی) اس پرہنگامہ جاری رہا۔ میں ۱۹۷۱/ میں داخل ہوا جہاں دس سال رہا۔ یونین حال کی طرف سے اقلیتی کردار کی جنگ میں ہر جگہ شریک رہا۔ اس دور میں جب بھی ہمارا کوئی وفد دلی جاتا تو مسجد عبدالنبی جاکر مولانا کا سہارا ضرور لیتا۔ مولانا اس تحریک میں شانہ بشانہ شریک رہے اورہمیشہ دلجوئی فرمائی۔“
یوں توفدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی کے تعلقات یونیورسٹی سے ورثے میں ہے، مگر اس میں استحکام اس وقت ہوا جب شیخ الاسلام سے ملنے یونیورسٹی کے طلبا کا ایک وفد دیوبند پہنچا۔ اتفاق سے مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اس وقت دیوبند سے کسی سفر پر تھے۔ یہ وفد وہاں پہنچا تو مولانا اسعد مدنی نے اس کی ضیافت فرمائی اور اسی دوران انہیں یونیورسٹی سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل ہوئیں۔ پھر تومولانا کی زندگی میں یونیورسٹی رچ بس گئی اور بیشتر مجالس میں اس کا ذکر خیر کرتے رہے۔ چنانچہ اس ابتدائی تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر ریاض الرحمن شیروانی لکھتے ہیں:
”ایک موقع ایسا آیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نیشنلسٹ طلبا نے محسوس کیا کہ دوسری درسگاہوں کے ہم خیال طلباء سے رابطہ قائم کرنا ضروری ہے اور اس مقصد سے ان کی نظر انتخاب فطری طور پر سب سے پہلے دارالعلوم دیوبند کی طرف اٹھی۔ چنانچہ مارچ ۱۹۴۷/ میں مسلم یونیورسٹی کے نیشنلسٹ مسلم طلبا کا ایک سہ رکنی وفد دیوبند گیا۔ اس وفد کے اراکین ضیاء الحسن فاروقی (بعدہ پروفیسر شعبہٴ اسلامیات جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی) سعید اختر (بعدہ مالک ومدیر سہ روزہ مدینہ بجنور) اور خاکسار راقم تھے۔ چوں کہ ضیاء صاحب کی حضرت مولانا حسین احمد مدنی سے قرابت ہوتی تھی، اس لیے ہم تینوں دیوبند پہنچ کر سیدھے مولانا مدنی کے دولت کدے پر چلے گئے، حضرت مولانا اس وقت دیوبند میں تشریف نہیں رکھتے تھے، اس مہمان داری کے فرائض ان کے فرزند سعید سید اسعد مدنی صاحب نے جو ابھی طالب علم ہی تھے انجام دئیے۔ ہمارا قیام غالباً وہاں دو تین دن رہا اور اس مختصر مدت میں خاک سار راقم کی ان سے اچھی دوستی ہوگئی۔ مارچ کا خوش گوار موسم تھا، چاندنی راتیں تھیں، ہم نے دیوبند کی ریلوے لائن کے قریب ٹہل ٹہل کر اپنی دوستی کو مستحکم کیا۔
اس ابتدائی تعلقات نے اتنی وسعت اورہمہ گیری اختیارکی کہ بتدریج مولانا کا حلقہ علی گڑھ میں بڑھتا گیا، اور مولانا کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوگیا، جب بھی یہاں تشریف لائے پروفیسر شیروانی کے مہمان بنے۔ اس دوران مولانا سے یہاں کے طلبا اوراساتذہ نے علمی و روحانی فیض حاصل کیا۔
مولانا حفظ الرحمن کے بعد قیادت کی کش مکش شروع ہوئی تو اس کی ہمدردیاں اپنے قدیم دوست مولانا سید اسعد مدنی کے ساتھ تھیں، کچھ تو ذاتی تعلقات کی بنا پر، کچھ اس واسطے کہ اس کی نظر میں ہندوستان کی جدجہد آزادی میں دیوبند کے مدنی خاندان کا حصہ دوسرے سب خاندانوں سے زیادہ رہا تھا، اور کچھ اس خاطر کہ اس کی خواہش تھی کہ اب ملک وملت کی قیادت پرانی نسل کی جگہ نئی (یعنی ہماری) نسل کے ہاتھ میں آنی چاہیے۔ اس معاملے میں کسی قدر اپنے دوست مولانا اسعد مدنی کی خدمت بھی انجام دی۔ اردو کے ایک معروف وممتاز اخبار کے مدیر شہر، جو راقم الحروف کے عزیز دوست تھے، اس مسئلے میں گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھے، یعنی ابھی یہ طے نہیں کرسکے تھے کہ وہ اس کش مکش میں مفتی عتیق الرحمن صاحب کا ساتھ دیں یا مولانا اسعد مدنی کا۔ اسعد مدنی صاحب نے راقم الحروف سے خواہش کی وہ کوشش کرے کہ اس اخبار کا وزن ان کے پلڑے میںآ جائے، کوشش کی گئی اور کامیابی ہوئی۔“
مولانا کا حلقہ ارادت وسیع تھا، جہاں آپ پہنچتے لوگ آپ سے ملاقات کے لیے بے تاب ہوجاتے۔ علی گڑھ میں بھی آپ کے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد ہے۔ فضلاء دارالعلوم جو یہاں طالب علم ہیں یا تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی محفلوں اور مجلسوں میں ہمیشہ مولانا کا ذکر خیر ہوتا رہتا ہے۔ اسی عقیدت اور یونیورسٹی سے ہمدردی کے تئیں یونیورسٹی انتظامیہ نے آپ کو یہاں کی بااختیار مجلس کورٹ کا ممبر بنایا۔ آپ یونیورسٹی کورٹ کی ہرمجلس میں شریک ہوتے اور اپنے مفید مشوروں اورآراء سے یونیورسٹی انتظامیہ کو نوازتے اور ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیتے کہ یہاں کا نظام بہتر سے بہتر بنایا جائے تاکہ طلبا کے لیے ترقی کے امکانات روشن ہوں۔
جمعیة علماء ہند کا ترجمان اخبار الجمعیة دیکھئے اس میں مولانا کی دیگر سرگرمیوں کے ساتھ یونیورسٹی کے حوالے سے آئے دن خبر شائع ہوتی۔ جب کبھی کوئی یونیورسٹی کے وقار کو مجروح کرنے کی بات سامنے آتی تو فوراً مولانا کا بیان اس کے خلاف شامل ہوتا۔ جس میں آپ کبھی سخت لب ولہجہ اختیار کرتے تو کبھی نرم۔
اب مولانا اس دنیا میں نہیں رہے (اللہ ان کی قبر کو نور سے بھردے) اس وقت بھی یونیورسٹی کا اقلیتی کردار داؤ پر لگا ہوا ہے اس کی بحالی کے لیے یونیورسٹی حلقہ کوشش میں لگاہوا ہے، اب یہ ذمہ داری مولانا ارشد مدنی صاحب پر عائد ہوتی ہے کہ وہ جمعیت کے پلیٹ فارم سے اس کے حقوق کی بحالی کی جدوجہد کریں یہاں سے بلند ہونے والی آواز میں ایسی طاقت ہے کہ حکومت کے ایوان میں سنسنی پیداہوجاتی ہے اور وہ مجبور ہوجاتی ہے مثبت اختیار کرنے کے لیے۔ یہ نہ صرف جمعیة کارناموں میں شمار ہوگا بلکہ اس سے یونیورسٹی حلقہ میں بھی جمعیة کی پذیرائی ہوگی۔ خود مولانا کے لیے نیک نامی کا سبب ہوگا۔
سید حامد صاحب کے زمانہ وائس چانسلری میں یونیورسٹی کے ایک معروف استاذ کے کسی بیان پر بالخصوص اقامتی حالوں میں افراتفری مچ گئی اور طلباء نے وائس چانسلر سے مطالبہ کیا کہ انہیں یونیورسٹی سے معطل کیا جائے۔ مگر حامد صاحب نے ایسا نہیں کیا، جس کے نتیجہ میں سخت ہنگامہ ہوا۔ لڑکے سڑکوں پر آگئے اور اسٹرائک شروع کردی، اس اسٹرائک کو ختم کرنے کے لیے وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے اندر پی۔ اے ۔ سی کو بلوالیا۔ اسی افراتفری کے دوران پی۔ اے ۔ سی کی گولی سے ایک طالب علم شہید ہوگیا۔ اس کے بعد یونیورسٹی میں جو ہونا تھا وہ ہوا۔ حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جارہے تھے اسی دوران مولانا اسعد مدنی صاحب یہاں تشریف لاتے ہیں اور طلباء کو اپنی ناصحانہ گفتگو سے اس بات پر راضی کرتے ہیں کہ وہ اسٹرائک ختم کردیں۔ اس سے نہ صرف طلباء کی تعلیم متاثر ہوگی بلکہ یونیورسٹی کا وقار بھی مجروح ہوگا۔ مولانا کے بیان کے مطابق طلباء نے تو اسٹرائک ختم کردی، مگر ان کی جو مانگیں تھیں اس سلسلے میں وائس چانسلر صاحب سے بات کی مگر انھوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ اس پورے واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں:
”رات کو گیارہ بجے کے بعد وائس چانسلر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے ملاقات کا موقع دیا اور تقریباً چالیس منٹ ہم نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ہر طریقہ سے معاملات کو نپٹائیے، یہ طلبہ ہیں، نوجوان ہیں، ان کو کچھ تو آپ راضی کریں گے، کم سے کم سسپینشن کیجیے، ملازمت سے علیحدگی نہیں ہے، یہ تو کمیشن فیصلہ کرے گا جرم ہے کہ نہیں، لیکن اتنا تو کردیجیے کہ معاملہ نمٹ جائے۔ آپس میں بات چیت کرکے فضا ٹھیک ہو۔ لیکن انھوں نے قطعی طور پر ہم سب لوگوں کی درخواست کو رد کردیا اور کہا کہ بالکل نہیں، جو ہمیں کرنا تھا پہلے کردیا۔ اب میں نہیں مانتا۔ اس طریقہ سے ان کا جوطریقہ تھا وہ نہایت سخت تھا، بات چیت کرنے سے بالکل گریز، الگ، اور اس فضا میں فورسیز کے ذریعہ وہ یونیورسٹی کو چلانا چاہتے ہیں، یہ علی گڑھ کے حال اور مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ تعلیمی اداروں میں فورسیز کا اور پولیس کا نہ جانا بہت عمدہ ہے اور جانا بہت خطرناک ہے اور بالفرض مجبوری ہو تو کم سے کم مدت تک۔ آج ایک سال کے قریب ہوا جاتا ہے اوراس سے زیادہ وہاں پولیس کا پڑاؤ ہے، یہ مسئلہ ہے۔ اس طرح سے نظام کو چلایا جارہا ہے۔ اس لیے مجھے افسوس ہے اور میں اس بات کو کہنا چاہتا ہوں کہ یونیورسٹی کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں بات چیت کی، افہام و تفہیم کی فضا چلے۔ صرف طاقت کے بل پر چلانا یہ بہت نامناسب ہوگا اور اس سے علی گڑھ یونیورسٹی کو اور اس سے تعلق رکھنے والے سبھی لوگوں کی امیدوں پر پانی پھرے گا اور نقصان ہوگا۔“
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 91 ، رجب -شعبان 1428 ہجری مطابق اگست2007ء