دارالعلوم دیوبند کا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم و تربیت

از: مولانا شوکت علی قاسمی بستوی

استاذ دارالعلوم دیوبند وناظم عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ

الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاة والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین محمد وآلہ وصحبہ أجمعین وبعد!

اسلام اور علم: اسلام دین رحمت ہے جو ساری انسانیت کی دینی و دنیاوی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے۔ اسلام مکمل ضابطہٴ حیات اور دستور زندگی بھی ہے جس میں زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے، لیکن اس سے مستفید اور فیض یاب ہونے کیلئے علم کی ضرورت ہے۔ علم ہی وہ کنجی ہے جس سے اسلام کے دینی، علمی، ثقافتی، ملی اور روحانی اثاثے تک رسائی ہوسکتی ہے، اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ محسن انسانیت، سرور عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر پہلی وحی میں درج ذیل پانچ آیات نازل ہوئیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے پڑھنے کا حکم فرمایاہے:

”اقرأ باِسم رَبّک الذی خَلَقَ ، خَلَقَ الانسانَ مِن عَلَقٍ، اِقْرأ وربُّک الاَکرَمُ ، الذی علَّمَ بالقَلَمِ، علَّمَ الانسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ“ (۱)

          سرکار دوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ”انما بُعِثْتُ مُعَلِّمًا“ (۲) مجھے بھیجا ہی گیا ہے معلّم بناکر۔

          علم کی اسی اہمیت کے پیش نظرمحسن انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکی زندگی میں تمام تر دشواریوں کے باوجود قرآن کریم کی تعلیم کا نظم فرمایا، پھر مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد، مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی، تو اس میں ایک مخصوص صفہ (چبوترہ) اس لئے بنایاگیا تاکہ صحابہ کرام وہاں قیام فرماکر، قرآن وحدیث اور دینی مسائل کی تعلیم حاصل کرسکیں، صفہ: اسلامی تاریخ کا پہلا مدرسہ قرار پایا۔ مشکوٰة نبوت سے براہ راست فیض یاب ہونے والے یہ حضرات صحابہ، جزیرة العرب ہی نہیں بلکہ دنیا کے اطراف و اکناف میں پہنچے اور قرآن و حدیث کے انوار و برکات سے دنیا کو معمور فرمایا۔ مسجد کے زیر سایہ دینی تعلیم و تربیت کا نظام قائم کیا، جہالت و ناخواندگی کا قلع قمع کیا اور علوم قرآن وحدیث کی روشنی سے چپے چپے کو فیض یاب اور مستنیر کیا، امام ابومحمد عبدالرحمن بن ابی احاتم رازی نے کتاب الجرح والتعدیل کے مقدمہ میں لکھا ہے:

”حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، عالم اسلام کے اطراف واکناف، بلاد وامصار اور سرحدوں میں امارت، قضاء اور تبلیغ احکام کے سلسلہ میں پھیل گئے، اور ان میں سے ہر ایک نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے جو کچھ سنا، دیکھا اور یاد کیا تھا سب کو عام کیا، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا، اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق عمل کیا، لوگوں کو فرائض، احکام، سنن، حلال و حرام کی تعلیم کے لئے، حسن نیت اور تقرب خداوندی کے جذبے کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کردیا اور اسی میں زندگی بسر کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھالیا۔(۳)

حضرات صحابہٴ کرام کے اسوئہ حسنہ کوامت کے بعدکے افراد نے بھی مشعل راہ بنایا اور دینی تعلیم کی نشرواشاعت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں، خود ہندستان میں جب مسلمانوں کے قدم پہنچے تو انھوں نے یہاں کے چپے چپے کو علم کی روشنی سے مالا مال کردیا، ہر دور میں اسلامی علوم کی تعلیم و اشاعت کا خصوصی نظام قائم رہا، سلاطین ہند نے دینی تعلیم کے فروغ کے لئے انتظامات کئے، جگہ جگہ حکومت کے زیر انتظام و نگرانی مدرسے قائم کیے گئے، سلطان محمد تغلق کے زمانہ میں صرف دہلی میں ایک ہزار مدرسے تھے، دیگر سلاطین کے عہد میں بھی دینی تعلیم کی نشرواشاعت کا اہتمام جاری رہا۔(۴)

مغلیہ دور حکومت میں بھی تعلیم کی ترویج کا خاص انتظام کیاگیا، علماء ومشائخ کا بڑا پاس ولحاظ تھا، مدارس کے لیے جاگیریں وقف تھیں، علماء کرام کے وظائف جاری تھے۔ ان اسلامی مدارس میں بنیادی طور پر جن علوم و فنون کی تعلیم دی جاتی تھی ان میں، صرف ، نحو، بلاغت، فقہ، اصول فقہ، منطق، فلسفہ، کلام، حدیث، اصول حدیث، تفسیراور اصول تفسیر شامل تھے۔ کبھی ان فنون کے ساتھ ہیئت، حساب، اقلیدس، طب، ادب، انشاء، فرائض، اخلاق، تصوف اور مناظرہ وغیرہ کی تعلیم بھی دی گئی تھی۔(۵)

اس قدیم نصاب تعلیم کو پڑھ کر جو عظیم شخصیات پیدا ہوئیں ان میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اور حضرت حجة الاسلام شاہ ولی اللہ دہلوی سب سے فائق اور ممتاز ہیں۔ قدیم نصاب میں شامل جن علوم و فنون کا پہلے تذکرہ کیاگیا، ان میں وقفہ وقفہ سے، تغیر و تبدل ہوتا رہا ہے، حضرت امام اکبر شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی نے جس نصاب کے ذریعہ تعلیم حاصل کی اس کی درسی کتابوں کا تذکرہ انھوں نے اپنی خودنوشت سوانح: الجزء اللطیف میں یوں کیاہے:

”نحو میں کافیہ، شرح جامی۔ منطق میں شرح شمسیہ، شرح مطالع۔ فلسفہ میں شرح ہدایت الحکمة، کلام میں شرح عقائد نسفی مع حاشیہ خیالی اور شرح مواقف، فقہ میں شرح وقایہ، ہدایہ (کامل) ہیئت وحساب میں بعض مختصر رسائل، طب میں موجز القانون، حدیث میں مشکوٰة المصابیح سوائے کتاب البیوع سے کتاب الآداب کے تھوڑے حصے تک، صحیح بخاری کتاب الطہارة تک، تفسیر میں: بیضاوی اور تفسیر مدارک کا ایک حصہ۔“ (۶)

اکثر کتابیں آپ نے اپنے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب سے ہی پڑھیں، پھر حجاز مقدس تشریف لے گئے اور شیخ ابوطاہر مدنی وغیرہ سے استفادہ کیا۔

حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری فرماتے ہیں کہ:

”حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ، سرزمین ہند کے ان اکابر میں سے ہیں، جن کی نظیر نہ صرف اپنے عصر میں اور نہ صرف ہندوستان میں؛ بلکہ بہت سے قرون وممالک اسلامیہ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، حضرت موصوف بقول حجة الاسلام مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی، بانی دارالعلوم دیوبند، ان افراد میں سے ہیں کہ سرزمین ہند میں اگر صرف شاہ ولی اللہ ہی پیداہوئے، تو ہندوستان کے لئے یہ فخر کافی تھا۔(۷)

علامہ شبلی نعمانی تاریخ علم الکلام میں لکھتے ہیں کہ: ابن تیمیہ اور ابن رشد کے بعد خود انہیں کے زمانہ میں مسلمانوں میں جو عقلی تنزل شروع ہوا تھا اس کے لحاظ سے یہ امید نہ رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب دل و دماغ پیدا ہو، لیکن قدرت کو اپنی نیرنگیوں کا تماشا دکھانا تھا کہ اخیر زمانے میں، شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جن کی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی، ابن رشد کے کارنامے بھی ماند پڑگئے۔(۸)

درس نظامی: حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے جس نصاب کے مطابق تعلیم پائی تھی وہی نصاب جزوی فرق کے ساتھ ان کے عہد میں دینی مدارس میں رائج تھا، اس میں پہلے بھی اصلاح و ترمیم ہوئی اور بعد میں بھی جزوی ترمیمات کی گئیں لیکن نصاب کی روح باقی رہی، بعد میں یہی نصاب ”درس نظامی“ کے نام سے موسوم ہوا کیوں کہ اسے حضرت شاہ صاحب کے ہم عصر اور جلیل القدر فاضل حضرت ملا نظام الدین صاحب سہالوی (پیدائش: ۱۰۸۵ھ، وفات ۱۱۶۱ھ) نے فرنگی محل لکھنوٴ کے مدرسے کے لیے قدیم نصاب میں چند تبدیلیوں اور کتابوں کے اضافے کے بعد مرتب کیا تھا، ملا نظام الدین سہالوی، حضرت اورنگ زیب عالمگیر کے عہد کے محقق اور بلند پایہ عالم تھے، فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کے لیے مقرر مجلس علمی کے وہ اہم رکن تھے، درس نظامی میں شامل فنون اور کتابیں حضرت مولانا عبدالحئی حسنی سابق ناظم ندوة العلماء لکھنوٴ کی تصریح کے مطابق حسب ذیل تھیں:

علم صرف: میزان، منشعب، پنج گنج، زبدة، صرف میر، فصول اکبری اور شافعیہ ابن حاجب۔

علم نحو: نحومیر، شرح مأة عامل، ہدایة النحو، کافیہ، شرح ملا جامی۔

بلاغت: صغریٰ، کبریٰ، ایساغوجی، تہذیب، شرح تہذیب، قطبی، میرقطبی۔

منطق: سلم العلوم، میر زاہد رسالہ، میرزاہد ملاجلال۔

فلسفہ: شرح میبذی علی ہدایة الحکمة، شرح صدرا ، شمس بازغہ، ملامحمود جون پوری۔

ریاضی: خلاصة الحساب، باب الصحیح، تحریر اقلیدس کا مقالہ اول۔

فقہ: شرح وقایہ کا نصف اوّل، اور ہدایہ کا نصف ثانی۔

اصول فقہ: نورالانوار، تلویح، مقدمات اربعہ تک، اورمسلم الثبوت، مبادی کلامیہ تک۔

علم کلام: تفتازانی کی شرح عقائد، تا بحث سمعیات۔

محقق دوانی کی شرح عقائد کا جزء اوّل، میرزاہد شرح مواقف تا بحث امور عامہ۔

تفسیر : جلالین شریف، بیضاوی سورئہ بقرہ۔ تا بحث امور عامہ۔

مناظرہ: رشیدیہ۔

حدیث: مشکوٰة المصابیح تا کتاب الجمعہ۔(۹)

حضرت ملانظام الدین کے مرتب کردہ اور رائج کردہ اس نصاب تعلیم کو معقولات ومنقولات میں گہرائی و رسوخ اور علوم و فنون متداولہ میں فضل وکمال کے حصول کا ذریعہ قرار دیاگیا اور ملک کے بیشتر مدارس میں اسے قبول عام حاصل ہوا، اس میں جہاں اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ اسلامی علوم و فنون میں مہارت پیدا ہو، وہیں دنیاوی ضروریات کا بھی قدرے لحاظ تھا، اوراسی نصاب سے بعض عصری علوم پڑھ کر حکومتی اداروں اور دفاتر میں لوگوں کو ملازمت بھی مل جاتی تھی۔ حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی کے مطابق اس نصاب میں دفتری زبان فارسی نثر و انشاء وغیرہ کی بیسیوں کتابیں داخل اور حساب وخطاطی پر بھی توجہ اسی لئے دی جاتی تھی تاکہ کاروبار حکومت اور دفتری ضروریات کیلئے بھی افراد تیار ہوسکیں۔ یہ نصاب ۱۸۳۵/ تک ملک کے بیشتر مدارس میں رائج رہا۔(۱۰)

۷/مارچ ۱۸۳۵/ لارڈ میکالے کی صدارت میں مشرقی زبانوں کی جگہ انگریزی زبان میں تعلیم کے مسئلہ کو طے کرنے کیلئے بنی کمیٹی کا اجلاس ہوا، اراکین میں اختلاف رائے تھا، ایک فریق انگریزی زبان میں تعلیم دئیے جانے کا مخالف تھا دوسرا حامی، دونوں فریق کے ووٹ برابر ہوئے تب لارڈمیکالے نے اپنے فیصلہ کن ووٹ انگریزی زبان کی تعلیم کی تائید میں دیا اور اس طرح انگریزی کے اجراء کا فیصلہ ہوگیا،اور لارڈ میکالے کا نظریہ تعلیم ملک پر تھوپ دیاگیا۔

اس تعلیمی پالیسی کے پس پردہ کیا مقاصد تھے وہ لارڈ میکالے کی زبانی سنئے:

”ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہئے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان مترجم ہو اور یہ ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہو، مگر مذاق رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔“(۱۱)

حضرات اکابر دیوبند نے لارڈ میکالے کے نظریہٴ تعلیم کو ناکام بنانے اور اعلیٰ تعلیمی و تربیتی مقاصد کے لیے دارالعلوم دیوبند قائم فرمایا، کہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی، ایرانی، ترکستانی، افغانی وغیرہ ہوں لیکن ذہن و فکر اور دل و دماغ کے اعتبار سے حجازی اور محمدی ہوں۔

دارالعلوم دیوبند کا قیام: برطانوی سامراج کے خلاف ۱۸۵۷/ کی جدوجہد آزادی ناکام ہوچکی تھی، علماء حق کو چن چن کر قتل کیا جارہا تھا، سلطنت مغلیہ کا خاتمہ ہوچکا تھا، شاطران فرنگ پورے برصغیر پر اپنا قبضہ جماچکے تھے، اسلامی سطوت خاک میں مل چکی تھی، مسلمانوں کے دین و ایمان پر شب خوں مارا جارہا تھا، اسلامی تہذیب کے نقوش مٹنے لگے تھے، پوری ملت اسلامیہ مایوسی و کس مپرسی کا شکار تھی، اسلامی نظام تعلیم ختم ہوچکا تھا، برطانوی تعلیمی پالیسی کا نفاذ ہورہا تھا، برصغیر کو دوسرا اسپین بنانے اور اسلام اور مسلمانوں کو دیس نکالا دینے کی تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں کہ دیوبند کے افق سے امید کی روشن کرن پھوٹی، اللہ تعالیٰ نے برصغیر میں سرمایہٴ ملت کی نگہبانی، اسلام اور علوم اسلامیہ کی حفاظت کا سامان پیدا فرمایا اور حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی (متوفی ۱۲۹۷ھ) اوران کے رفقاء کار حضرات کے دلوں میں دارالعلوم دیوبند کی شکل میں اسلامی قلعہ کی تعمیر کا الہام فرمایا اور ۱۵/محرم ۱۲۸۳ھ، مطابق ۳۰/مئی ۱۸۶۶/ کو ایک مبارک و مسعود ساعت میں دیوبند میں اس کی داغ بیل ڈال دی گئی۔

یہ داغ بیل، کن مبارک ہاتھوں سے ڈالی گئی، سنئے حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ صاحب فرماتے ہیں:

”یہ صالح ہستیاں منتخب روزگار تھیں، خدارسیدہ تھیں، انہیں نور بصیرت حاصل تھا، یہ عرفانِ شریعت سے آراستہ تھیں اوریہ اس موٴمنانہ فراست، حکیمانہ صلاحیت اور ملہمانہ بصیرت کا کرشمہ تھا کہ خداوند قدوس کے حکم سے دیوبند کی خاک پر علوم نبوت کی ایک درسگاہ عالم وجود میں آگئی، بادی النظر میں یہ ایک حقیر درس گاہ تھی لیکن فی الحقیقت یہ علوم معرفت کا عظیم سرچشمہ تھا اس میں بڑی جامعیت تھی، بڑی ہمہ گیریت تھی، یہ ایک دانش کدہ تھا، علم و عرفان کا مرکز عظیم اورامن و تقویٰ کا مظہر جلیل تھا، فکر وعمل کی بہترین جلوہ گاہ تھی، اور اس طائفہ ولایت کے سرخیل حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی تھے، کون محمد قاسم؟ جو اشارئہ ربانی کے رمزشناس تھے، جن کے باطنی محاسن اور جن کے اخلاقی مکارم نے کفر کی ظلمتوں کا سینہ چیرکر اس میں نور ایمان پیوست کیا تھا، اور ان کے باطنی شعور اور فکری بلوغ سے ظلمت کدئہ ہند میں وحی الٰہی کی روشنی پھیلانے کا انتظام ہورہا تھا، پھر یہ اسلام کا بطل جلیل تنہا نہ تھا اس کی معاونت کے لیے دیگر رجال کار بھی تھے وہ کون؟ وہ حاجی سید عابد حسین تھے وہ مولانا ذوالفقار علی تھے وہ مولانا فضل الرحمان تھے، یہ وہ بندگان خدا تھے جن کی اصابت فکر، جن کی جلالت علم اور جن کی فراست و فہم پر ماہ و پروین گواہ تھے۔(۱۲)

دارالعلوم دیوبند کیاہے؟: دارالعلوم دیوبند علوم کتاب وسنت کا امین، متاع دین و دانش کا نگہبان، اسلامی تعلیمات و روایات کا پاسبان، علم و عرفان کا سنگم، ہندوستان میں تحفظ دین کی اولین کوشش کا مظہر جمیل، علماء حق کے جذبہٴ ایثار وقربانی کی لازوال یادگار، اکابر کی آہ سحرگاہی و دعائے نیم شبی کا ثمرہ اور اسلام کی بقاء و تحفظ کا وہ عظیم مرکز ہے جس نے اسلامی علوم و فنون کی تعلیم و اشاعت، ملک وملت کی دینی ودنیاوی قیادت، تزکیہ اخلاق، وعظ وتذکیر، تصنیف وتالیف، صحافت وخطابت، دعوت وارشاد، اور ملک کی آزادی کے سلسلے میں جو زریں خدمات انجام دیں ہیں وہ تاریخ کا روشن باب ہے، قیام دارالعلوم کے وقت منظم کوشش جاری تھی کہ ہندوستان سے اسلام اور مسلمانوں کو رخت سفر باندھنے پرمجبور کردیا جائے، یہ دارالعلوم ہی تھا جس نے منظم سازش کو ناکام بنایا اور ہندوستان کو دوسرا اندلس بنانے سے بچالیا۔

قیام کے اغراض و مقاصد: دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بنیادی مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ لارڈمیکالے نے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف جو نظام تعلیم نافذ کیاتھا اسے ناکام بناکر اسلامی علوم وفنون کی حفاظت کی جائے۔ ایسے جاں نثار و سرفروش علماء کی کھیپ تیار کی جائے جو سخت سے سخت حالات میں علوم کتاب و سنت کی تعلیم واشاعت، اسلامی تعلیمات کی حفاظت، ملک و ملت کی تعمیر و ترقی اور مسلمانوں کی اصلاح کی خدمات انجام دے سکیں، دارالعلوم دیوبند کے دستور اساسی میں دارالعلوم کے قیام کے مقاصد درج ذیل بیان کیے گئے ہیں:

(۱)    قرآن مجید، تفسیر، حدیث، عقائد وکلام اور ان علوم کے متعلقہ ضروری اور مفید فنون آلیہ کی تعلیم دینا، مسلمانوں کو مکمل طور پر اسلامی معلومات بہم پہنچانا اور رشد وہدایت اور تبلیغ کے ذریعہ اسلام کی خدمت انجام دینا۔

(۲)   اعمال واخلاق اسلامیہ کی تربیت اور طلبہ کی زندگی میں اسلامی روح پیداکرنا۔

(۳)   اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور دین کا تحفظ اور اشاعت اسلام کی خدمت بذریعہ تحریر و تقریر بجالانا اور مسلمانوں میں تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ سے خیرالقرون اور سلف صالحین جیسے اخلاق واعمال اور جذبات پیدا کرنا۔

(۴)   حکومت کے اثرات سے اجتناب واحتراز، اور علم وفکر کی آزادی کو برقرار رکھنا۔

(۵)   علوم دینیہ کی اشاعت کے لیے مختلف مقامات پر مدارس عربیہ قائم کرنا اور ان کا دارالعلوم سے الحاق۔

مقاصد تاسیس سے ہم آہنگ نصاب تعلیم: دارالعلوم دیوبند کاقیام امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کی تحریک دعوة واصلاح کی بنیاد پر مسلم معاشرے کی دینی، ملی اور دعوتی ضرورتوں کی تکمیل، علوم کتاب و سنت کی حفاظت و اشاعت، دینی عقائد و شعائر کی صیانت اور سرمایہٴ ملت کی پاسبانی اور دیگر مذکورہ بالا اغراض ومقاصد کے لیے عمل میں آیاتھا، اس لیے اس کا نصاب تعلیم خالص دینی تجویز کیاگیا، یہ وہی نصاب تھا جو درس نظامی کے نام سے موسوم تھا، اسی میں خاصا ردوبدل کرکے اسے دارالعلوم دیوبند کے لیے تجویز کردیاگیا، پھر ۱۲۸۳ھ میں نصاب تعلیم پر نظر ثانی کی گئی، فارسی نصاب کو عربی سے الگ کردیاگیا اور عربی کا نصاب اس طرح مقرر کیاگیا کہ اس دور کے ذہین طلبہ اس کو چھ سال میں مکمل کرلیں، مگر پھر ۱۲۹۰ھ میں دوبارہ غور کیاگیا اور عربی نصاب تعلیم کو آٹھ سالہ بنادیاگیا، دارالعلوم کی رودادوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پھر ۱۳۰۲ھ میں دوبارہ نصاب تعلیم زیرغور آیا اوراس میں جزوی ردوبدل کیاگیا اس کے بعد بھی مختلف اوقات میں اس طرح کی ترمیمات کی جاتی رہیں۔

نصاب تعلیم کے سلسلہ میں حضرات اکابر دیوبند کے طرز عمل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ انھوں نے نصاب تعلیم کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا تھا پہلے مرحلے میں جسے اس دور میں شعبہ فارسی و ریاضی کہا جاتاتھا اور جسے آج کی اصطلاح میں مدرسہ ابتدائیہ کہنا چاہیے، ان تمام چیزوں کی رعایت تھی جن کی ایک انسان کو اپنی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے، اس دور میں چونکہ فارسی ملک کی رائج زبان تھی اس لیے مدرسہ ابتدائیہ میں فارسی ادب، بلاغت اور انشاء کا عنصر غالب تھا، لیکن اس کے علاوہ حساب، تاریخ، جغرافیہ، اقلیدس، اخلاق تصوف وغیرہ کے ذریعہ طالب علم کو اتنا علم اور تربیت کے ذریعہ اس کو ایسا مزاج دیا جاتا تھاکہ اگر وہ تعلیم منقطع کردے تو معاشرے کا ایک تعلیم یافتہ دیندار فرد شمار کیا جائے اور اگر وہ علوم عصریہ کی راہ اختیار کرے تو دین سے بیزار نہ ہو اور علوم عربیہ عالیہ میں داخل ہو تو اکابر دارالعلوم کو اسلام کی مختلف النوع خدمات کے لیے جن مجاہدین اور علماء راسخین کی ضرورت ہے ان کا فرد کامل بن جائے۔

اردو دینیات و فارسی کا نصاب: دارالعلوم دیوبند میں شعبہ اردو دینیات اور فارسی میں ۶ سالہ نصاب آج بھی رائج ہے اس نصاب میں حروف شناسی، بنیادی عقائد، گنتی، قرآن شریف، اردو، دینیات، کلمہ حفظ کرانا، نمازوں کی عملی مشق، ہندی، جغرافیہ، حساب، تاریخ اسلام، قواعد اردو، فارسی، انگلش، ادب فارسی، ادب اردو، سائنس، معلومات عامہ، تاریخ اکابر دارالعلوم وغیرہ مضامین ہیں۔ (مطبوعہ نصاب درجہ دینیات و فارسی، دارالعلوم)

عربی درجات کا نصاب: عربی درجات کے لیے آٹھ سالہ نصاب کچھ تغیرات کے بعد وہی درس نظامی ہے، اس نصاب کو منتخب کرنے کی وجہ اس کی خصوصیات ہیں کہ اس کے پڑھنے والوں میں دقت نظر، اور قوت مطالعہ پیداہوجاتی ہے یعنی اگر کوئی محنتی اور باذوق طالب علم اس نصاب کو ذوق و شوق اور تحقیق کے ساتھ مکمل کرلیتاہے تو اس کو اگرچہ فراغت کے ساتھ ہی تحقیق کا درجہ حاصل نہیں ہوجاتا لیکن اس میں یہ صلاحیت ضرور پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ آئندہ اپنی جدوجہد اور مطالعہ سے جس فن میں چاہے کمال پیدا کرسکتا ہے، اس نصاب کی کتابیں حضراتِ علماء متاخرین کی مرتب کردہ ہیں اوران میں یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے کہ اختصار کے ساتھ کتاب اپنے موضوع کے تمام مباحث و مسائل و جزئیات پر محیط ہو، تاکہ طالب علم زیردرس موضوع کی تمام بحثوں پر حاوی ہوجائے۔

حضرت مولانا عبدالحئی صاحب حسنی لکھنوی سابق ناظم ندوة العلماء لکھنوٴ فرماتے ہیں: اس (درس نظامی) نصاب کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ طالب علموں میں امعان نظر اور قوت مطالعہ پیدا کرنے کااس میں بہت لحاظ رکھا گیا ہے اور جس کسی نے تحقیق سے پڑھا ہو تواس کو پڑھنے کے ساتھ ہی اگرچہ کسی مخصوص فن میں کمال حاصل نہیں ہوجاتا لیکن یہ صلاحیت ضرور پیدا ہوجاتی ہے کہ آئندہ اپنی محنت سے جس فن میں چاہے اچھی طرح کمال پیدا کرے۔(۱۳)

ماضی میں اسی نصاب تعلیم سے ایسے نابغہٴ روزگار علماء پیدا ہوئے جن کے رسوخ فی العلم، مقام تحقیق اور کمال علم کا پورے عالم اسلام نے اعتراف کیا ہے۔ حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی رقم طراز ہیں:

”بحمداللہ اس وقت بھی ہندوستان کے قدیم نصاب سے جو لوگ پیدا ہورہے ہیں ہندوستان ہی نہیں ہندوستان کے باہر بھی اسی علم میں جس میں ہندوستان کی بضاعت سب سے زیادہ مزجاة سمجھی جاتی تھی، یعنی فن حدیث، اسی کے متعلق قسطنطنیہ کے فاضل جلیل جو کمالی عہد سے پہلے غالباً کسی ممتاز دینی منصب سے سرفراز تھے، ان کا نام علامہ محمدزاہد ابن الحسن کوثری ہے۔ خاکسار نے ان کے چند رسائل مختصرہ دیکھے ہیں جن سے ان کی تبحراور علمی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے اس وقت ان کا شمار، اسلامی ممالک خصوصاً حنفی دائرے کے ممتاز ترین علماء میں ہے اس ترکی اور مصری فاضل نے حضرت الاستاذ العلامہ الامام مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب صدر دائرة الاہتمام دارالعلوم دیوبند کی شرح مسلم (فتح الملہم) جب دیکھی تو مولانا کو ایک خط لکھا جو شرح مسلم جلد ثالث کے آخر میں چھاپ دیاگیاہے، اس خط میں علامہ کوثری مولانا کو خطاب کرکے اعتراف کرتے ہیں، ”انتم یامولانا فخر الحنفیة فی ہذا العصر حقا“ چودہویں صدی میں سارے حنفی ممالک کا فخر ایک ہندی عالم، بیرون ہند کا ایک جلیل القدر و مسلم الثبوت فاضل قرار دیاگیا ہے۔ (۱۴)

علام اسلام کے بلند پایہ مفسر، محقق عالم اور صاحب طرز علامہ سید رشید رضا دارالعلوم دیوبند تشریف لائے، جلسہ استقبالیہ میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے عربی زبان میں برجستہ خطاب فرمایا اور دارالعلوم دیوبند کے علمی مذاق و مزاج کی تشریح فرمائی، تو حضرت علامہ رشید رضا بے حد متاثر ہوئے، جس کا اظہار انھوں نے اپنی جوابی تقریر میں بھی کیا اور اپنے مجلہ ”المنار“ میں بھی اپنے گراں قدر تاثرات تحریر فرمائے۔

جنرل سلیمان لکھتے ہیں: سات سال کے درس یعنی درجہٴ فضل کے ایک ہندوستانی طالبعلم اپنے سر پر جو آکسفورڈ کے فارغ التحصیل طالب علم کی طرح علم سے بھرتاہوا ہے دستار فضیلت باندھتا ہے اوراسی طرح ․․․ سقراط،ارسطو، افلاطون، بقراط، جالینوس اور بوعلی سینا وغیرہ پر گفتگو کرسکتا ہے جس طرح آکسفورڈ کا کامیاب طالب علم۔ (۱۵)

دارالعلوم دیوبند کا مزاج و مذاق: اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے اس نصاب تعلیم کو پڑھ کر اوراس کے اکابر رحمہم اللہ کے فہم و فراست، زہد و تقوی، اخلاص و للہیت اور خدمت خلق وغیرہ کمالات سے استفادہ کے نتیجے میں ایسی نابغہٴ روزگار اور عبقری شخصیات پیداہوئیں جو کسی اورادارے سے پیدا نہیں ہوئیں، اس کی وجہ دارالعلوم دیوبند کے امتیازات و خصوصیات ہیں، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ: پہلی خصوصیت یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند ایک درس گاہ نہیں بلکہ ایک خاص نظریہ اورایک طرز عمل اور تحریک کا نام ہے، اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ دین سمجھانے کے لیے کتاب اللہ اور رجال اللہ دونوں بھیجتا رہا ہے، اکابر دیوبند نے بھی نصاب تعلیم پر اکتفاء نہ کیا؛ بلکہ علمی و دینی تربیت پر بھی پوری توجہ دی، یہاں سے فارغ ہوکر نکلنے والے صرف ظاہری علوم سے آراستہ نہیں ہوتے بلکہ وہ عملی اعتبار سے بھی سچے اور پکے مسلمان ہوتے تھے، جن کے چہرے دیکھ کر خدا یاد آجاتا تھا جن کی ہرنقل و حرکت اسلام کی نمائندگی کرتی تھی، دن کے وقت یہاں علوم کے چرچے ہوتے اور رات کے وقت یہاں کا گوشہ گوشہ اللہ کے ذکر و تلاوت قرآن سے گونجتا تھا، دوسری خصوصیت یہ ہے کہ علمائے دیوبند فضل وکمال تبحرعلمی کے ساتھ ساتھ تواضع وللہیت کا پیکر تھے، امانت و تقویٰ کا مجسمہ تھے، اسی طرح دارالعلوم دیوبند کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اس نے اپنے مسلک اعتدال کی طرف دعوت اور دوسروں پر تنقید کے سلسلہ میں پیغمبرانہ اسلوب اختیار کیا جس میں مخالف کو زیر کرنے کے بجائے اس کی دینی خیرخواہی کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ (۱۶)

دارالعلوم نے دنیا کو کیا دیا: دارالعلوم دیوبند اور اس کا فکر، جامعیت کبریٰ محمدیہ کا وارث اور سہ گانہ مقاصد بعثت تلاوت قرآن کریم، کتاب وحکمت اور تزکیہ کاامین و داعی رہا ہے، دیوبند کی تشکیل جن پرنوراور مبارک بنیادوں پر ہوئی اور منہاج نبوت کا جو عظیم ورثہ اسے میسرآیا اس کی وجہ سے دیوبندیت کا ہیولی، قرآن و سنت کی سلف صالحین کے محتاط رنگ میں تشریح، فقہ حنفی کی محدثانہ طرز میں توضیح، سلوک و تصوف کی طریق نبوت کے مطابق تصریح اور معارف و حقائق دینی کی حکیمانہ پیشکش، توحید خالص، اتباع سنت، حب الٰہی عشق رسول اور جملہ اہل سلاسل کے احترام سے وجود میں آیا، غیرت ایمانی نے احقاق حق، ابطال باطل، اشاعت دین، حفاظت ناموس رسالت رد بدعات اور حریت و جہاد کا جذبہ بخشا، دیوبندیت کے ان بنیادی جواہر کی بناء پر ان اعاظم رجال اور اساطین علم و عمل اور نفوس قدسیہ کو وجود بخشا، قرون متاخرہ میں ان کی مثال شاذ ہے بیسیوں ایسی ہستیوں کے نام بلا تکلف لیے جاسکتے ہیں جن میں ہر ایک بذات خود جامعہ علم، دائرئہ فضیلت، مجمع الفضائل، مرجع خلائق اوراپنی ذات میں انجمن بلکہ امت تھی، علوم و فنون کی ریاست و امامت انہیں زیبا تھی، ورع و تقویٰ نے ان سے زینت پائی تھی۔

اگرایک طرف تعلیم کے رخ سے احادیث مبارکہ کا تداول اور چلن اور صحاح ستہ بلکہ دیگر بعض کتب احادیث کا دور دورہ، بستی بستی، قریہ قریہ پھیل گیا۔ قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیر کا ذوق گھر گھر پہنچا، عربی زبان و ادب کو فروغ نصیب ہوا۔ احناف کی فقہی مستند کتابوں کا چلن مدرسہ کی ضرورت ٹھہرا، عقلی ونقلی علوم میں مہارت، سرمایہٴ افتخار بنی تو دوسری طرف اکابر دیوبند کے سلاسل تصوف و سلوک اقصائے عالم میں پھیل گئے اور اصلاح و تجدید کے علمبرداروں نے معاشرے کی اصلاح اور مسلمانوں کی دینی وملی رہ نمائی کا گراں قدر فریضہ انجام دیا۔ (الرشید، دارالعلوم دیوبندنمبر)

نصاب دارالعلوم پر ایک نظر: جیسا کہ پہلے عرض کیاگیا، اکابر دیوبند نے دارالعلوم کیلئے جو نصاب تعلیم پسند فرمایا وہ بنیادی طور پر ”درس نظامی“ ہے، لیکن یہ وضاحت ضروری ہے کہ دارالعلوم کا نصاب بعینہ درس نظامی نہیں ہے بلکہ اس میں خاصا حذف و اضافہ کرکے ہی اسے نافذ کیا تھا پھر مرحلہ وار اس میں تغیرات اور اچھی تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔

اس وقت جو نصاب تعلیم دارالعلوم دیوبند وملحقہ مدارس میں جاری ہے یہ وہ نصاب ہے جو ۱۴۱۵ھ میں بعض جزوی ترمیمات کے بعد مرتب کیاگیا ہے۔ مورخہ ۲۰،۲۱/محرم ۱۴۱۵ھ کو دارالعلوم دیوبند میں مدارس اسلامیہ عربیہ کا کل ہند اجتماع منعقد ہوا جس میں دیگر موضوعات کے علاوہ نصاب تعلیم بھی زیر بحث آیا اور اجتماع نے اپنی تجویز (۱) میں ایک نمائندہ نصاب کمیٹی کی تشکیل کی سفارش کی جو نصاب تعلیم پر غور کرے اور مجوزہ ترمیمات و اضافات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک جامع نصاب کا خاکہ تیار کرے، چنانچہ پہلے مجلس تعلیمی دارالعلوم دیوبند نے نصاب پر غور کیا اور بعض جزوی ترمیمات کی سفارش کی پھر حضرات اساتذہ دارالعلوم کی ایک ۹ نفری کمیٹی نے غور و خوض کے بعد اور کچھ ترمیمات کیں، بعد ازاں نمائندہ نصاب کمیٹی کے ارکان حضرت مولانا قاری محمد اطہر صاحب مبارک پوری، حضرت مولانا رشید الدین صاحب مرادآباد، حضرت مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی استاذ تفسیر دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ، حضرت مولانا محمد سلمان صاحب مظاہری ناظم اعلیٰ مظاہر علوم سہارنپور، حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب گجرات، حضرت مولانا محمدرضوان صاحب قاسمی حیدرآباد، حضرت مولانا محمد اشتیاق صاحب مظفرپور پٹنہ، حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب مدراس، حضرت مولانا نوح صاحب کیرالا، حضرت مولانا مشہود صاحب دہلی، حضرت مولانا احمد علی صاحب آسام، اور حضرت مولانا عبدالحق صاحب آسام، اور ۹/اساتذئہ دارالعلوم نے حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب زیدمجدہم مہتمم دارالعلوم دیوبند کی صدارت میں منعقد اپنی نشستوں میں ۱۹/جمادی الاولیٰ ۱۴۱۵ھ کو طویل غور و خوض کیا اور نصاب تعلیم کا ایک خاکہ مرتب کیا، اساتذئہ دارالعلوم میں جو حضرات بحیثیت رکن شریک رہے وہ ہیں: حضرت مولانا نصیراحمد خاں صاحب صدرالمدرسین، حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری، حضرت مولانا قمرالدین صاحب گورکھپوری، حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی، حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری، حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب، حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی، حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی، حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصور پوری، حضرت مولانا نورعالم امینی صاحب، راقم السطور شوکت علی قاسمی بستوی بھی تمام مجلسوں میں شریک رہا۔ یہ مجوزہ نصاب ۲۰،۲۱،۲۲/ جمادی الاولیٰ کے کل ہند اجلاس مدارس اسلامیہ عربیہ میں پیش ہوکر منظور ہوا، اور دارالعلوم اور ملحقہ مدارس میں جاری ہوا۔

درجات عربیہ کا یہ ۸ سالہ نصاب ہے، ذیل میں جماعت وار مضامین کا جائزہ پیش ہے۔

سال اول میں: سیرت رسول کریم، صرف، نحو، تمرین عربی، تجوید پارئہ عم حفظ، تصحیح مخارج کے ساتھ ربع اوّل۔

سال دوم میں: نحو، صرف، تمرین عربی، فقہ، منطق (آسان منطق) مرقات، تجوید مع مشق پارئہ عم، خوش نویسی۔

سال سوم میں: ترجمہ قرآن کریم، سورہ قٓ سے آخر تک، حدیث، فقہ، نحو، عربی ادب، تمرین عربی، اسلامی اخلاق، منطق (شرح تہذیب) تجوید۔ مطالعہ: خلافت راشدہ۔

سال چہارم میں: ترجمہ قرآن سورئہ یوسف سے سورئہ ق تک، حدیث، بلاغت، اصول فقہ، منطق (قطبی) تاریخ خلافت بنی امیہ، خلافت عباسیہ، خلافت ترکیہ، مبادی: علم مدنیہ، جغرافیہ عالم، جغرافیہ جزیرة العرب، تجوید، پانچ پاروں کا اجراء۔

سال پنجم میں: ترجمہ قرآن از ابتداء تا ختم سورئہ یونس، فقہ، بلاغت، اصول فقہ۔علم ادب: عقائد، منطق (سلم)، تجوید، تاریخ سلاطین ہند، سلطان محمود غزنوی سے ۱۹۴۷/ تک۔

سال ششم میں: تفسیر جلالین، فقہ، اصول تفسیر، اصول فقہ، عربی ادب، تجوید، فلسفہ (مبادی الفلسفہ بعدہ میبذی) مطالعہ سیرت (اصح السیر)

سال ہفتم میں: حدیث شریف، اصول حدیث، فقہ، عقائد، فرائض، تجوید، مطالعہ: المذاہب الاسلامیہ۔

سال ہشتم میں: کتب حدیث: بخاری شریف، مسلم شریف، ترمذی شریف، ابوداؤد شریف، نسائی شریف، ابن ماجہ شریف، طحاوی شریف، شمائل ترمذی شریف، موٴطا امام مالک، موٴطا امام محمد ان کے علاوہ تجوید و مشق۔

بڑے شدومد سے یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ: دارالعلوم دیوبند وملحقہ مدارس میں قدیم فرسودہ درس نظامی رائج ہے جس میں معقولات کی کتابوں کی بھرمار ہے اورکتب دینیہ خال خال ہیں کہاجاتا ہے کہ: اس نصاب میں قرآن کریم کی تفسیر کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے، لے دے کے صرف تفسیر جلالین اور بیضاوی شریف کا کچھ حصہ شامل نصاب ہے، لیکن آپ ملاحظہ فرمائیں تیسری جماعت سے ہی تفسیر (ترجمہ قرآن) داخل ہے، سال سوم، چہارم وپنجم میں قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر شامل ہے۔ اس طرح تین سالوں میں پورے قرآن کریم کا اردو ترجمہ مختصر تفسیر اور نحوی و صرفی اجراء وغیرہ مکمل کرایا جاتاہے۔ پھر تجوید سال اول سے سال ہشتم تک ہر سال لازمی ہے، اسی طرح فقہ کی کتابیں سال اول و ہشتم کے علاوہ تمام جماعتوں میں ہیں اور ہشتم یعنی دورئہ حدیث شریف میں بھی فقہ السنہ امتیازی شان سے پڑھایا جاتا ہے۔ نیز سیرت، اخلاقیات عقائد کی کتابیں بھی خاصی تعداد میں شامل نصاب ہیں۔ درس نظامی کاایک نقص یہ بھی بیان کیا جارہا ہے کہ اس میں تاریخ داخل نہیں ہے، آپ نے دیکھا دارالعلوم کے نصاب میں اسلامی اور ملکی تاریخ کی کتابیں کئی داخل ہیں۔ پہلے درس نظامی میں کل دو ہی کتابیں حدیث کی رہی ہوں گی، لیکن اب تو کل ۱۳ / کتابیں ہیں۔ تین دورئہ حدیث سے قبل اور باقی دورئہ حدیث میں، اور حدیث شریف تو دارالعلوم دیوبند میں اس شان سے بحمداللہ پڑھائی جاتی ہے کہ شاید ہی کہیں اور اس طرح پڑھائی جاتی ہو، اوراس طرح شب و روز قال اللہ و قال الرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صدائیں شاید ہی کہیں بلند ہوتی ہوں، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔

ایک بات یہ بھی کہہ دی جاتی ہے کہ دارالعلوم میں ادب عربی پر توجہ نہیں ہے۔ پہلے درس نظامی میں واقعی یہ خلا تھا لیکن اللہ تعالیٰ جزاء خیر عطا فرمائے، استاذ گرامی، عربی زبان وادب کے عبقری ومثالی معلم حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب قاسمی کیرانوی کو۔ انھوں نے تمرین عربی کا مکمل کورس تیار فرمایا، مختلف معاجم اور لغات، مرتب فرمائیں اور عربی زبان و ادب کے فروغ کا سامان پیدا فرمادیا، اب سال اول و دوم و سوم میں مسلسل تمرین عربی داخل ہے، اور حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب کی نفحة العرب، حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کی القرأة الواضحة کے تینوں حصے، حضرت مولانا نورعالم صاحب امینی کی مفتاح العربیہ، اسی طرح بہت سے ملحقہ مدارس میں مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں صاحب کی قصص النّبیین، القرأة الراشدہ وغیرہ کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں، ضرورت ہے کہ دیگر مدارس کے ذمہ داران بھی اس جانب خصوصی توجہ مبذول فرمائیں، رہیں منطق وفلسفہ کی کتابیں تو دارالعلوم کے نصاب میں منطق کی کل پانچ اور فلسفہ کی ۲ ہی کتابیں موجود ہیں۔ بعض کرم فرما حضرات کا اصرار ہے کہ یہ بھی کیوں رکھی جائیں؟ انہیں بھی نکال دیاجانا چاہیے، تو اس بارے میں حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کا ارشاد نقل کردینا بہتر ہوگا۔

فرماتے ہیں: منطق اور فلسفے کی تعلیم سے متعلق بعض حضرات یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ یونانی فلسفے کے زوال کے بعد ان مضامین کو پڑھانے کی چنداں حاجت باقی نہیں رہی، لیکن ہمارے نزدیک یہ بات بوجوہ درست نہیں، ان مضامین کی اہمیت کے لئے تنہا یہ بات بھی کافی ہے کہ ہمارے اسلاف کی کتابوں کا عظیم الشان ذخیرہ بالخصوص اصول فقہ انہیں علوم کی اصطلاحات اور منطقی انداز واسلوب پر مشتمل ہے، اس کو ٹھیک سمجھنے اور اس سے استفادے کے لئے منطق اور فلسفہ کی واقفیت ضروری ہے، آج تفسیر کبیر جیسے دریائے علم سے استفادہ اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ انسان منطق اور فلسفہ کا علم رکھتا ہو، لہٰذا ان مضامین کا یکسر ختم کردینا ہمارے نزدیک نقصان دہ ہوگا۔ لیکن ان مضامین کو اسی حدتک پڑھانا چاہئے جس حد تک وہ اسلامی علوم کے لیے زینے کا کام دیں۔(۱۸) (باقی آئندہ)

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 91 ‏، جمادی الاولی 1428 ہجری مطابق جون2007ء

Related Posts