ای کوڈ (E Code) کی شرعی حیثیت ناپاک چیزوں کی ملاوٹ کا شرعی حکم (۱)

از:             مولانا اسلم اللہ خاں

مدرس الجامعة الاسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور

آج کل بازار میں بکثرت ایسی چیزیں فروخت ہورہی ہیں، جن کے بارے میں مشہور کردیاگیا ہے کہ ان میں خنزیر کی چربی کی ملاوٹ ہے، جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں کہ آیا ایسی چیزوں کا استعمال شرعاً جائز ہے یا نہیں، اگر ناجائز ہے تو پھراس سے بچنے کی کیا شکل اور کیا تدبیر ہے، خاص کر ایسے وقت میں جب کہ ایسی چیزیں دھڑا دھڑ فروخت ہورہی ہیں اور ہر جگہ دستیاب ہیں اور لوگ ان کے استعمال کے عادی ہوگئے ہیں، تو پھر ان سے کیونکر بچا جاسکتا ہے۔

یہ وہ سوال ہے جس کو اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ خوب مشہور کیاگیا، لیکن طرفہ تماشہ اور عجوبہ ہے کہ اخبارات و رسائل اور پمفلٹ وغیرہ کے ذریعہ اسے خوب اچھالا اور پھیلایا جارہا ہے، لیکن کوئی بندئہ خدا یہ زحمت گوارا کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے کہ علماء کی طرف رجوع کرتا اور صورت حال کی وضاحت کرکے اس مسئلہ کی شرعی تحقیق معلوم کرکے پہلے اپنا اطمینان کرلیتا، پھر علماء کے مشورہ سے اسے شائع کرتا اور پھیلاتا۔

نئے درپیش مسائل اور شریعت کی تعلیم

شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ معاشرے میں جب اس قسم کی کوئی نئی صورت پیش آئے تو آدمی پر تین باتیں فرض ہیں:

پہلا فرض: یہ کہ جو افواہ یا اڑتی ہوئی خبر پہنچی ہے، اس کی تحقیق کرکے ٹھوس ثبوت فراہم کرے، محض سنی سنائی یا کہیں سے بے تحقیق پھیلائی گئی بات پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینا شریعت کے بھی خلاف ہے اور عقلمندی اور شائستگی کا بھی شیوہ نہیں ہے، قرآن مجید کا ارشاد ہے: ﴿یٰآیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْ اِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبا فَتَبَیَّنُوْا أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَة فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ﴾ (ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی غیر معتبر شخص کوئی خبر لیکر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو ایسا نہ ہوکہ تم نادانی کی وجہ سے کسی قوم کو ضرر پہنچادو پھر اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے) یہاں صورت حال یہ ہے کہ یہ معاملہ اب تک پایہٴ ثبوت تک نہیں پہنچا، خود اخبارات و رسائل میں شائع کرنے والوں کو اس کا پتہ نہیں، کہ یہ ملاوٹ کہاں اور کن کمپنیوں میں ہورہی ہے، اور کس نے اس کی تحقیق کی ہے، حتی کہ اخبارات میں اس قسم کے مضامین کی اشاعت کی وجہ سے ماحول میں بے چینی پیدا ہوئی تو شہر کے بعض ذمہ دار علماء نے ماہرین سے رجوع کرکے اس سلسلہ میں تحقیق کی تو انھوں نے دوباتوں کی وضاحت کی، ایک یہ کہ ملک میں کسی کمپنی میں یہ ملاوٹ ہرگز نہیں ہورہی ہے، دوسرے یہ کہ بیرونی ملکوں میں بھی یا بیرونی کمپنیوں کی طرف بھی یہ انتساب بلاسند و ثبوت ہے، جس کی ہمیں تحقیق نہیں۔

دوسرا فرض: شریعت کی دوسری تعلیم یہ ہے کہ ایسے درپیش مسائل میں علماء سے استصواب کئے بغیر اپنی طرف سے مسئلہ بتانا اور پھر اسے لوگوں میں پھیلاکر خواہ مخواہ ماحول میں تشویش اور بے چینی پھیلانا ناجائز ہے، قرآن مجید کا حکم ہے ﴿فَاسْئَلُوْا أَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ﴾ (ترجمہ: تم اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے) (سورة النحل:۴۳)

دوسری آیت ﴿وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلی الرَّسُوْلِ وَاِلی أُولِي الْأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْہُمْ﴾ (ترجمہ: اوراگر اسی خبر کو پہنچادیتے رسول اللہ … کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو ان میں سے فہم رکھنے والے ہیں، تو ان میں جو ایسے حضرات ہیں جو اس سے استخراج کرلیتے ہیں، وہ اس کو جان لیتے ہیں) (سورة النساء:۸۳)

          تیسرا فرض: اسلام کی تیسری تعلیم یہ ہے کہ مسلمان کے سامنے جب شرعی حکم واضح ہوجائے تو اپنی رائے اور عندیہ کو کالعدم سمجھتے ہوئے شرعی حکم کو برضا ورغبت اور بے چوں و چرا تسلیم کرلے ﴿ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِي أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (ترجمہ: پھر اپنے دلوں میں کسی بھی طرح کی تنگی محسوس نہ کریں اور پورا پورا تسلیم کرلیں) (سورة النساء: ۶۵) بہرحال مذکورہ صورت حال کو جب خوب مشتہرکیا گیا تو اس کی وجہ سے فضا میں بے چینی اور خلجان پیدا ہونا اور ماحول میں تشویش پھیلنا ایک فطری بات ہے، لہٰذا اس تشویش کو ختم کرنے اور صورت حال کو سمجھنے کی اور اس کے شرعی حکم کی تحقیق کی سخت ضرورت محسوس کی جارہی تھی، اسی احساس کا نتیجہ یہ ایک بے ربط اور مختصر سا مضمون ہے۔

مذکورہ اشیاء کی چار صورتیں ہیں:

ملاوٹ کی پہلی صورت

(۱) یہ ہے کہ کسی چیز کے بارے میں تحقیق سے ثابت ہو کہ اس میں خنزیر کی چربی ملی ہوئی ہے اور پھر اسے پاک کرنے کے باوجود چربی کے آثار یا اوصاف یا شکل و صورت اور مزے کا شائبہ باقی ہو۔

اس صورت کا حکم بالکل واضح ہے کہ خنزیر بہ جمیع اجزاء ناپاک اور حرام ہے، اس لئے اسے پاک کرنے کی خواہ جتنی شکلوں کو استعمال کیا جائے یا جتنے مراحل سے اسے گذارا جائے، اگر چربی اپنی شکل اور اوصاف کے ساتھ رہ جائے تو ظاہر ہے کہ اس کے حرام اور ناپاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اس لئے کہ کسی چیز کو پاک کرنے اور دھونے یا اس طرح فلٹر کرنے سے کہ اس کے اوصاف اور حقیقت باقی رہ جائے، ماہیت میں کوئی تبدیلی نہ آئے، حکم میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی وہ ناپاک چربی ہی ہے اور حرام ہے، مثال کے طورپر منتخبات نظام الفتاویٰ میں درج ہے۔

مفتی نظام الدین صاحب کا فتویٰ

(سوال) بعض مقامات پر پیشاب کو پکاکر اس کی شوریت کو نکال کر نمک بنادیا جاتا ہے، شرعی نقطئہ نظر سے اس کا استعمال درست ہے یا نہیں:

(جواب) پیشاب شوریت وغیرشوریت بہ جمیع اجزاء نجس لعینہ اور غیرمباح الشرب والاکل ہے، اس لئے شوریت نکال دینے کے بعد بھی بقیہ اجزاء ناپاک و نجس ہی باقی رہیں گے اور ان کا استعمال ناجائز ہی رہے گا۔

مولانا خالد سیف اللہ صاحب کا فتویٰ

جدید فقہی مسائل میں (ص:۳۹) مولانا خالد سیف اللہ رقم فرماتے ہیں: پیشاب فلٹر کرنے کی وجہ سے غالباً اپنی حقیقت نہیں کھوتا، بلکہ محض اس کے بدبودار اجزاء نکال لئے جاتے ہیں، اس لئے وہ ناپاک ہی رہیں گے، ان کا پینا وضو غسل وغیرہ کیلئے استعمال کرنا جائز نہ ہوگا اور وہ جسم کے جس حصہ پر لگایا جائے، اسے ناپاک ہی سمجھا جائے گا، مذکورہ عبارتوں سے یہ نتیجہ خود بخود نکل آتا ہے کہ مذکورہ اشیاء میں اگر خنزیر یا دیگر حرام گوشت کی چربی کی آمیزش واضح ہوتو پھر اسے جتنا بھی فلٹر اور صاف کیا جائے نجس اورحرام ہی رہے گا۔

ملاوٹ کی دوسری شکل

(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ خنزیر یا کسی حرام چربی کی آمیزش اور ملاوٹ تو ثابت ہو، لیکن اسے اس طرح مختلف مراحل سے گذارا جائے کہ اب یہ نہ چربی معلوم ہوتی ہے، نہ اس کا مزہ، نہ اس کی شکل و صورت، بلکہ اس کی حقیقت، رنگ و روپ، سب بدل جائے اور وہ کچھ اور ہی نظر آئے تو اس کے بارے میں تقریباً تمام فقہاء کا یہی مذہب ہے کہ اس پر حکم لگاتے ہوئے موجودہ صورت کو دیکھا جائیگا، سابقہ صورت پر ہرگز حکم نہیں لگایا جائیگا۔ اسے فقہاء کی اصطلاح میں انقلاب ماہیت اور انقلاب عین اور استحالہ کہتے ہیں، کہ ایک چیز اپنی حقیقت کھودے اور دوسری حقیقت اپنالے۔

بظاہر یہ تعجب خیز بات ہے کہ ایک چیز کے بارے میں اس کی سابقہ حقیقت کے معلوم ہوتے ہوئے کہ وہ ناپاک اورنجس تھی اوراسے صرف نظر کرتے ہوئے موجودہ صورت کو دیکھتے ہوئے اس پر طاہر اور پاک ہونے کا حکم لگایا جائے، بظاہر نفاست مزاج اور عقل کے خلاف معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فقہاء کی یہ تحقیق کائنات کے فطری اصول اور غامض حکمتوں اور مصلحتوں پر اور انسانوں کی سہولت اور خیرخواہی پر مبنی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ دنیا دارالانقلاب ہے، یہاں کی کوئی چیز ہمیشہ ایک حال پر قائم نہیں رہتی مشہور اور مسلم جزئیہ ہے کہ ”العالم متغیر“ دنیا کی ہر چیز تغیرپذیر ہے، ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف بدلتی رہتی ہے، شاعر مشرق فرماتے ہیں: ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانہ میں“       اس لیے پاک چیز جب ناپاک ہوجاتی ہے“

مثلاً پاک صاف اور شفاف پانی اور شربت پیشاب بن جاتا ہے اور بہترین خوشبودار اور لذیذ اور مزیدار کھانا فضلہ اور نجاست بن جاتا ہے، تو کون عقلمندگوارا کرے گا کہ پیشاب پاخانہ کو محض اس لئے پاک صاف کہہ دے کہ یہ بہترین شربت اورمزیدار کھانا تھا، اسی طرح بسا اوقات ناپاک چیز بدلتے بدلتے پاک صاف حالت اختیار کرلیتی ہے۔

ابن تیمیہ کی وضاحت

علامہ ابن تیمیہ نے اس پر بڑی تفصیل سے بحث فرمائی ہے کہ زمین پر پیشاب، پاخانہ، لید وغیرہ نجاستیں پڑتی رہتی ہیں اور زمین ناپاک ہوجاتی ہے، لیکن دھوپ اورہوا اور دوسری چیزیں ان نجاستوں کو مٹاکر پھر خالص مٹی بنادیتی ہیں تو اس پر نماز پڑھنا سب جائز ہوجاتا ہے، کیونکہ نجاست کی حقیقت اب مٹ گئی اور اب وہاں صرف مٹی رہ گئی ہے (وأما طین الشوارع فمبني علی أصل وہو أن الارض اذا أصابتہا نجاسة ثم ذہبت بالریح أو الشمس أو نحو ذلک ہل تطہر الأرض علی قولین أحدہما أنہا تطہر وہو مذہب أبي حنفیة وغیرہ وأما استحالة النجاسة کرماد السرجین النجس والزبل النجس یستحیل تراباً ففي ہذہ المسئلة قولان أحدہما أن ذلک طاہر وہو قول أبي حنفیة وأہل الظاہر وہو الصحیح الراجح)

اسی طرح ندیوں اور سمندروں میں ہزاروں آدمیوں اور جانوروں کی غلاظتیں اکٹھی ہوتی رہتی ہیں، لیکن پانی میں مل کر اپنی حقیقت کھودیتی ہیں اور خالص پانی بن جاتی ہیں، رنگ بو مزہ کچھ بھی نہیں رہتا تو ہر آدمی بے جھجک ایسے پانی کا استعمال کرتا اور کسی طرح کی قباحت یا کراہت محسوس نہیں کرتا، اسی طرح فرماتے ہیں:

”وتنازعوا فیما اذا صارت النجاسة ملحا في الملاحة أو صارت رماداً أوصارت المیتة والدم والصدید تراباً کتراب المقبرة فہذا فیہ قولان في مذہب مالک وأحمد․ أحدہما أن ذلک طاہر کمذہب أبي حنیفة وأہل الظاہر․ والثانی أنہ نجس کمذہب الشافعی․

والصواب أن ذلک کلہ طاہر اذا لم یبق شیء من أثر النجاسة لا طعمہا ولا ریحہا ولا لونہا لأن اللّٰہ أباح الطیبات وحرم الخبائث وذلک یتبع صفات الأعیان وحقائقہا فاذا کانت العین ملحاً أو خلا دخلت في الطیبات التی أباحہا اللّٰہ تعالیٰ ولم تدخل في الخبائث التی حرمہا اللّٰہ وکذلک التراب والرماد وغیر ذلک لایدخل فی نصوص التحریم واذا لم یتناولہا أدلة التحریم لا لفظا ولا معنی لم یجز القول بتنجسہ وتحریمہ فیکون طاہرًا“ (ص:۴۸۱-۴۸۲)

اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ جب نجاست نمک کی کان میں گرکر نمک بن جائے یا جل کر راکھ ہوجائے یا یہ کہ مردہ اور خون پیپ وغیرہ مٹی میں مل کر مٹی بن جائے، جیسے کہ قبر کی مٹی میں ہوتا ہے تو اس صورت میں دو قول ہیں، امام مالک اور امام احمد کے قول میں ایک یہ کہ یہ سب کی سب چیزیں پاک ہوجائیں گی، یہی امام ابوحنیفہ اور اہل ظاہر کا مذہب ہے۔

دوسرا قول یہ کہ یہ سب چیزیں ناپاک ہیں، جیسے کہ امام شافعی کا ارشاد ہے، لیکن صحیح اور درست بات یہی ہے کہ یہ سب چیزیں پاک شمار ہوں گی، جب کہ ان میں سابقہ نجاست کاکوئی نشان اور اثر باقی نہ رہ جائے نہ رنگ ہو نہ بو نہ مزہ۔

جواز کی وجہ اور دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیا اور پاک ہونا نہ ہونا چیز کی حقیقت اور اس کی ذات کے تابع ہوتا ہے اور یہ چیز (جو پہلے نجاست تھی) اب نمک کی حقیقت اور نمک کی ذات بن گئی، پہلے شراب تھی تو اب اس نے سرکہ کی صفت اور حقیقت کو اپنا لیا تو پاکیزہ چیزوں میں داخل ہوگئی، جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے، ان ناپاک اور گندی چیزوں میں شامل نہیں رہی، جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، اسی طرح مٹی اور راکھ وغیرہ اشیاء تحریم کی نصوص میں داخل نہیں ہوتی، نہ حرام چیزوں کالفظ ان پر بولاجاتاہے نہ ان کی حقیقت ان پر صادق آتی ہے تو پھر ان کو ناپاک اور حرام قرار دینے کاکوئی معنی اورمطلب نہیں ہوتا، اس لئے لامحالہ یہ پاک اور حلال ہوں گی۔

ایک جگہ فرماتے ہیں: وذلک أن اللّٰہ حرم الخبائث التي ہي الدم والمیتة ولحم الخنزیر ونحو ذلک فاذا وقعت ہذہ في الماء أو غیرہ واستہلکت لم یبق ہناک دم ولا میتة ولا لحم خنزیر أصلاً کما أن الخمر اذا استہلکت في المائع لم یکن الشارب لہا شاربًا للخمر والخمرة اذا استحالت بنفسہا وصارت خلاً کانت طاہرة باتفاق العلماء وہذا علی قول من یقول ان النجاسة اذا استحالت طہرت أقوی کما ہو مذہب أبي حنفیة وأل الظاہر وأحد القولین في مذہب مالک وأحمد فان انقلاب النجاسة ملحا ورمادا ونحو ذلک ہو کانقلابہا ماء فلافرق بین أن تستحیل رماداً أو ملحاً أو تراباً أو ماءً أو ہواء ونحو ذلک واللّٰہ تعالیٰ قد أباح لنا الطیبات، وہذہ الأدہان والألبان والأشربة الحلوة والحامضہ وغیرہا من الطیبات والخبیثة قد استہلکت واستحالت فیہا فکیف یحرم الطیب الذی أباحہ اللّٰہ تعالیٰ، ومن الذي قال انہ اذا خالطہ الخبیث واستہلک فیہ واستحال قد حرم؟ ولیس علی ذلک دلیل لا من کتاب ولا من سنة ولا اجماع ولا قیاس ․

پھر آگے فرماتے ہیں: فالحکم اذا ثبت بعلة زال بزوالہا کالخمر لما کان الموجب لتحریمہا ونجاستہا ہي شدة المطربة فاذا زالت بفعل اللّٰہ تعالیٰ طہرت․ (ص:۵۰۱-۵۰۲)

ترجمہ: (نجس چیزیں اپنی حقیقت بدلنے کے بعد پاک ہوجانے کا حکم لگانا) یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گندی چیزوں کو حرام قرار دیا، جیسے خون، مردار، سور کا گوشت وغیرہ۔ جب یہ چیزیں پانی میں یا دوسری پاک چیزوں میں مل کر اپنی شناخت ختم کردیں اور جس چیز میں ملی ہیں، اس کی حقیقت میں مل جائیں، تو اب نہ خون ہے، نہ مردار، نہ خنزیر کا گوشت، کچھ بھی نہ رہا صرف پانی یا وہ پاک چیز رہ گئی جس میں یہ ضم ہوگئی ہیں، جیسے کہ شراب جب سرکہ وغیرہ میں گرنے کے بعد سرکہ یا شربت وغیرہ بن گئی تواس کے پینے والے کو شراب پینے والا نہیں کہا جائے گا؛ بلکہ سرکہ یا شربت پینے والا ہی کہاجائے گا، یہ سب ان حضرات کے قول کے اعتبار سے ہے جو کہتے ہیں کہ نجاست جب اپنی شکل و صورت بدل دے تو پاک ہوجاتی ہے، جیسے کہ امام ابوحنیفہ اہل ظاہر اورامام مالک اور امام احمد کی ایک روایت ہے، اس لئے کہ نجاست کا نمک بن جانا یا جل کر راکھ ہوجانا، ایسے ہی ہے، جیسے یہی نجاستیں پانی میں مل کر پانی بن جائیں، پس راکھ ہونے نمک ہونے میں اور پانی یا ہوا بن جانے میں کوئی فرق نہیں۔ (سب میں استہلاک اور استحالہ ہی پایاجارہاہے)

اور یہ تیل دودھ میٹھے یا کھٹے مشروبات (جن میں مل کر نجاستیں اپنی حقیقتیں ختم کرلیتی ہیں اور تیل اور دودھ شربت وغیرہ پاک چیزوں کی شکل اپنالیتی ہیں) بلاشبہ یہ پاک چیزیں ہیں، ان کے اندر جو ناپاک چیزیں ملی تھیں وہ ختم ہوگئیں، اب صرف دودھ ہی رہ گیا تو کوئی شخص کیسے دودھ نمک اور مشروبات کو حرام کہنے کی جسارت کرسکتا ہے، جن کو اللہ نے پاک اور حلال قرار دیا ہے۔

رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ پاک چیز میں جب ناپاک کی ملاوٹ ہوجائے تو اگرچہ کہ وہ ناپاک چیز آگے اپنی شکل بدل دے اور اسی پاک چیز میں مدغم ہوجائے، تب بھی اس ناپاک کی ملاوٹ کی وجہ سے پاک چیز بھی ناجائز ہوجائے گی، یہ ایسی بودی اورناقابل التفات بات ہے، جو نہ قرآن سے، نہ حدیث سے، نہ اجماع امت سے اور نہ ہی قیاس سے یا دلائل شرعیہ سے ثابت ہے، اس کی کسی طرح کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں، اس لئے یہ بے بنیاد بات ہے، پھر آگے فرماتے ہیں کہ جب کوئی حکم کسی علت اور بنیاد پر مبنی اور موقوف ہوتا ہے تو جب تک وہ بنیاد ہے، اس پر حکم باقی رہے گا، جب وہ بنیاد ختم ہوجائے تو وہ حکم بھی ختم ہوجائے گا، جیساکہ شراب جب سرکہ بن جائے تو حرمت کی بنیاد شراب ہونے پر تھی جب شراب ہی نہ رہی صرف سرکہ رہ گیا تو وہ حرمت کا حکم بھی ختم ہوگیا اور وہ پاک چیز شمار ہوگئی۔

غنیة المستملی کی توضیح

فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں میں اس پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے، علامہ ابن امیر الحاج غنیة المستملی شرح منیة المصلی (ص:۱۶۵) باب الآثار میں فرماتے ہیں: ولو أحرقت العذرة أو الروث فصار کل منہما رمادا أو مات الحمار فی الملحة وکذا ان وقع فیہا بعد موتہ وکذا الکلب أو الخنزیر لو وقع فیہا فصار ملحاً أو وقع الروث ونحوہ فی البئر فصار حمأة زالت النجاسة وطہر عند محمدؒ خلافا لأبی یوسفؒ فان عندہ الحرق لا یطہر العین النجسة بل یبقی الرماد نجساً لأنہ أجزاء تلک النجاسة فتبقی النجاسة من وجہ فلحقت بالنجس من کل وجہ احتیاطاً واختار صاحب الہدایة فی التجنیس قول أبي یوسفؒ وأکثر المشائخ اختاروا قول محمد وعلیہ الفتویٰ لأن الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وقد زالت بالکلیة فان الملح غیر العظم واللحم فاذا صارت الحقیقة ملحا ترتب علیہ حکم الملح وکذا الرماد حتی لو أکل الملح أو صلی علی ذلک الرماد – جاز نظیرہ : النطفة نجسة فتصیر علقة وہی نجسة وتصیر مضغة فتطہر وکذا الخمر تصیر خلاً فعلم أن استحالة العین تتبع زوال الوصف المرتب علیہا وعلی قول محمد فرّعوا طہارةَ صابون صُنع من دہن نجس وعلیہ یتفرَّع ما لو وقع انسان أو کلب فی قدر الصابون فصار صابونا یکون طاہرًا لتبدل الحقیقة)

(ترجمہ: اگر نجاست کو یا گوبر کو جلایا جائے پس وہ دونوں راکھ بن جائیں یا گدھا نمک کی کان میں گرکر نمک بن جائے یا مرکر اس میں پڑجائے، اسی طرح کتا اور سور اس میں گرجائیں اور نمک بن جائیں یا گوبر یا اسی طرح کی کوئی نجس چیز کنویں میں پڑجائے اور کیچڑ بن جائے تو نجاست کا حکم ختم ہوجائے گا اور وہ پاک ہوجائے گی امام محمد کے نزدیک، برخلاف امام ابویوسف کے، کیونکہ ان کے نزدیک جلاناناپاک چیز کو پاک نہیں بناتا، بلکہ وہ راکھ ناپاک ہی رہے گی، اس لئے کہ یہ اسی نجاست کے اجزاء ہیں، تو نجاست ایک طرح سے باقی رہ جائے گی تو احتیاطا اس کے نجس ہونے کا حکم لگایا جائے گا، صاحب ہدایہ نے تجنیس میں امام ابویوسف ہی کے قول کو اپنایا ہے اوراکثر مشائخ نے امام محمد کے قول کو اختیار کیا ہے اوراسی پر فتویٰ بھی ہے، اس لئے کہ شریعت نے نجاست کے وصف پر ناپاک ہونے کاحکم لگایا تھا اور وہ وصف بالکلیہ زائل ہوچکا ہے، اور دوسری حقیقت اور دوسرا روپ اپناچکا ہے، اس لئے کہ نمک ہڈی یا گوشت نہیں ہوتا، پس جب اس چیز کی حقیقت ہی نمک یا راکھ ہوگئی تو اس پر نمک اور راکھ کا ہی حکم لگے گا، حتی کہ اگر کوئی یہ نمک کھالے، یا اس راکھ پر نماز پڑھے تو جائز ہوجائیگا، اس کی مثال نطفہ کی سی ہے کہ نطفہ نجس ہے اور پھر وہ خون کا ڈلا بن جاتا ہے تو وہ بھی نجس ہوتا ہے اورپھر گوشت بن جاتا ہے تو پاک ہوجاتا ہے، اسی طرح شراب سرکہ بن جاتی ہے، پس معلوم ہوا کہ ایک چیز کا بدل جانا اس وصف کے چلے جانے یا ختم ہوجانے کے تابع ہوتا ہے، جس وصف پر نجاست کا حکم تھا اور امام محمد ہی کے قول پر فقہاء نے اس صابون کے پاک ہونے کا مسئلہ نکالا، جو ناپاک تیل سے بنایاگیا ہے اوراسی پر یہ صورت بھی متفرع ہوتی ہے کہ اگر انسان یا کتا صابون کی دیگ میں گرجائے، پھر صابون بن جائے تو پاک ہوجائے گا حقیقت کے بدل جانے کی وجہ سے (کہ وہاں اب کوئی آدمی یا کتا نہیں رہا صرف صابون رہ گیا ہے)

علامہ شامی نے اسی عبارت کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش فرماکر ناپاک تیل سے بنے صابون کی طہارت پر استدلال کیاہے اور یہ نتیجہ اخذ فرمایا ہے: فعرفنا أن استحالة العین تتبع زوال الوصف المرتب علیہا․

چیز کا بدلنا اس وصف کے ختم ہوجانے کے تابع ہے، جس صفت پر نجاست کاحکم مرتب ہوتا ہو، اس صفت کے ختم ہوجانے سے گویا اصل چیز بدل گئی اور موجودہ صورت حال کا حکم لگے گا، (فتاویٰ عالمگیری:۱/۴۴) پر مرقوم ہے: تخلل الخمر في خابیة جدیدة طہرت بالاتفاق․ آگے (۴۵) پر مرقوم ہے: الحمار أو الخنزیر اذا وقع في الملحة فصار ملحاً أو بیر بالوعة اذا صار طینا یطہر عندہما خلافا لأبی یوسف، نیز آگے ہے:

جعل الدہن النجس فی الصابون یفتی بطہارتہ لأنہ تغیر (ترجمہ: شراب نئے مٹکے میںآ کر سرکہ بن جائے تو بالاتفاق پاک ہے، گدھا یا سور نمک کی کان میں گرکر نمک بن جائے یا کیچڑ کے کنویں میں پڑکر کیچڑ بن جائے تو امام اعظم اورامام محمد کے نزدیک پاک ہوجائیں گے، برخلاف امام ابویوسف کے، آگے فرماتے ہیں ناپاک تیل صابون میں مل کر صابون بن جائے تو اس کے پاک ہونے کافتویٰ دیا جائے گا، اس لئے کہ اس میں انقلاب اور تبدیلی ظاہر ہوگئی۔

اس مسئلہ کے سمجھنے کے لئے ماضی میں پیش آمدہ ایک مسئلہ سے مدد ملے گی وہ یہ کہ اسی طرح مغربی ممالک سے صابون کے بارے میں یہی افواہ مشہور ہوئی (اور اب بھی مشہور ہے( کہ وہاں صابون میں خنزیر کی چربی ملائی جاتی ہے۔

مولانا لدھیانوی کی رائے

(سوال) مردار اور حرام جانوروں کی چربی کے صابون سے طہارت ہوتی ہے اور نمازیں درست ہوتی ہیں یا نہیں؟

(جواب) ناپاک چربی کااستعمال جائز نہیں تاہم ایسے صابون کا استعمال کرنا جس میں یہ چربی ڈالی گئی ہو جائز ہے، کیونکہ صابون بن جانے کے بعد اس کی ماہیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ (ملاحظہ ہو آپ کے مسائل اوران کا حل: ۲/۷۱)

عزیز الفتاویٰ کافتویٰ

(سوال) صابون شحم نجس (ناپاک چربی) سے بنایاہوا پاک ہے از روئے کتاب وجہ اس کی تبدیل ماہیت بیان کی جاتی ہے؟

(جواب) یہ تو کتب فقہ میں مصرح ہے کہ علت طہارت صابون میں تغیر انقلاب عین ہے، جس جگہ یہ علت پائی جائے گی حکم طہارت دیا جائے گا۔ (دارالعلوم دیوبند کے مفتی اوّل کے فتاویٰ، عزیز الفتاویٰ مرتبہ مفتی محمد شفیع ملاحظہ ہو: ۱/۱۹۰)

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ

(سوال) صابون شحم نجس سے بنایا ہوا پاک ہے از روئے کتاب وجہ اس کی تبدیل ماہیت بیان کی جاتی ہے؟

(جواب) یہ تو کتب فقہ میں تصریح ہے کہ علت طہارت صابون میں تغیر انقلاب عین ہے، جس جگہ یہ علت پائی جائے گی حکم طہارت دیا جائے گا، یوں تو ہر ایک مرکب میں خاصیت اور اثر پیدا ہوتا ہے،اس کو انقلاب عین نہ کہا جائے گا۔ (فتاویٰ دارالعلوم:۱/۳۰۲)

پھر آگے (۱/۳۰۵) پر فرماتے ہیں:

(سوال) بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ ناپاک تیل کا اگر صابون بنایا جائے تو پاک ہے؟

(جواب) یہ مسئلہ درمختار میں جس میں بایں عبارت مذکور ہے: ویطہر زیت تنجس صابونًا اور وجہ اسکی انقلاب عین (ماہیت) ہے شامی میں اس قول کے تحت مذکور ہے: وعلیہ یتفرع ما لو وقع انسان أو کلب في قدر الصابون فصار صابونا یکون طاہرا لتبدل الحقیقة․

یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ خنزیر کی حرمت دوسری حرام چیزوں کے بالمقابل اشد ہے، اس کے جواب میں فتاویٰ محمودیہ میں مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ خنزیر اورمردار دونوں کے گوشت کی حرمت برابر ہے (قل لا أجد فیما أوحی الی) سے دونوں کی حرمت نص قطعی سے بلکہ ایک ہی آیت سے ثابت ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ: ۶/۳۷۱)

حضرت مفتی نظام الدین صاحب کا فتویٰ

(سوال) مغربی ممالک سے جو صابون آتے ہیں ان کے متعلق سننے میں آتا ہے کہ ان میں ناپاک اجزاء اور خنزیر کی چربی کا استعمال ہوتا ہے اس طرح کے صابون سے کپڑے صاف کرنا کیسا ہے اور کپڑے پاک رہیں گے یا ناپاک؟

(جواب) مغربی ممالک سے آئے ہوئے صابون میں جب تک حرام چربی یا سور کی چربی کا ملا ہوا ہونا دلائل شرعیہ سے ثابت اور یقینی نہ ہوجائے اس وقت تک ان کے استعمال کو ناجائز نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اصل اشیاء میں حلت اوراباحت ہے، البتہ اس کے استعمال سے ان حالات میں اجتناب کرنا تقویٰ اوراحتیاط کہا جاسکتا ہے۔ جعل الدہن النجس فی صابون یفتی بطہارتہ لانہ تغیر والتغیر یطہر عند محمد ویفتی بہ لعموم البلوی․ (نظام الفتاویٰ: ۱/۲۴)

حضرت مولانا خالد سیف اللہ کی تحقیق

مولانا نے اس پر واضح روشنی ڈالی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک چیز ہے کسی شئے کی ماہیت اور حقیقت کو تبدیل کردینا اور دوسری اس کا تجزیہ کرنا اگر کسی چیز کی حقیقت ہی یکسربدل دی جائے تواس کے احکام بھی بدل جائیں گے اور اگر محض اس کے بعض اجزاء اسی طرح الگ کرلئے جائیں تو اس کی وجہ سے اس کے احکام نہیں بدلیں گے، مثلاً پاخانہ جلاکر راکھ کردیا جائے تو اب وہ راکھ ناپاک شمار نہ ہوگی، شراب میں نمک ڈال کر سرکہ بنادیاجائے تو اس کی حرمت اور ناپاکی ختم ہوجائے گی۔

مغربی ممالک سے جو صابون آتے ہیں ان کے بارے میں کبھی کبھی اس قسم کی اطلاعات بھی سننے کو ملتی ہیں کہ ان میں ناپاک اجزاء سور کی چربی وغیرہ کا استعمال کیاجاتا ہے، اول تو یہ یقینی اور معتبر اطلاع نہیں ہوتی محض ظن و گمان کے درجہ کی چیز ہوتی ہے اور شریعت اس قسم کے اندیشہ ہائے دراز کو پسند نہیں کرتی۔

دوسرے فقہاء نے اسکو دو وجوہ سے پاک قرار دیا ہے ایک یہ کہ ایسے ناپاک اجزاء صابون میں مل کر اپنی حقیقت کھودیتے ہیں اور کوئی ناپاک شئے جب اس حدتک بدل جائے کہ اپنی اصل حقیقت ہی کھودے تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں،مثلاً منی ناپاک ہے وہ خون بن جائے تو بھی ناپاک ہے، اس کے بعد جب گوشت بن جائے تو اب پاک ہے کہ حقیقت بدل چکی ہے، مشک ناپاک خون ہے، لیکن جب مشک بن گیا تو پاک ہے، غیر ماکول اللحم جانوروں کی ہڈیاں بھی حرام ہیں، مگر جب ان کا نمک بنادیا گیا تو اب حلال ہیں۔

دوسرے اس کے استعمال کی اس قدر کثرت ہے کہ اس سے احتراز دشوار ہے، ایسی چیز کو فقہاء کی اصطلاح میں عموم بلوی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے حکم میں ایک گنانرمی پیدا ہوجاتی ہے، اس کا تقاضا بھی ہے کہ ایسے صابونوں کا استعمال جائز اور درست ہو، علامہ شامی کا بیان ہے الخ (جدید فقہی مسائل: ۱/۱۰۸-۱۱۵)                                                                                                                                                                                                                                    (باقی آئندہ)

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد: 90 ‏،ذیقعدہ 1427 ہجری مطابق دسمبر2006ء

Related Posts