لطائف علماء دیوبند قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ (۳)

از: سعید الظفر ٹانڈوی،متعلّم دورئہ حدیث شریف، دارالعلوم دیوبند

طلبہ کی عظمت

خودداری اور عزت نفس کا تحفظ انسان کا بنیادی حق ہے۔ تربیت کے زمانے میں مربی اوراستاذ کو اس کا خاص لحاظ رکھنا چاہئے کہ تربیت حاصل کرنے والے کی عزت نفس کو ٹھیس نہ لگے، اور وہ عزت نفس کا پاسدار بن جائے۔ چنانچہ حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ اس کاپورا اہتمام فرماتے تھے کہ طلبہ جو مہمانان رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ان کے اکرام میں کوئی کمی نہ آجائے اور وہ عزت نفس کو برقرار رکھ سکیں۔ ملاحظہ فرمائیے ایک واقعہ:

ایک مرتبہ کسی طالب علم کو کھلی ہوئی روٹی لاتے ہوئے آپ نے دیکھ لیا،اس کو پاس بلایا اور پوچھا، تمہارا کھانا کہاں مقرر ہے۔ طالب علم نے آپ ہی کے کسی رشتہ دار کا نام لیا۔ حضرت امام ربانی نے فرمایا اچھا اب وہاں سے کھانا نہ لانا، ہمارے گھر سے آیا کرے گا۔ ادھر اہل خانہ سے ناراضی کے کلمات کہلا بھیجے کہ افسوس اس وجہ سے تاکہ بیچارے پردیسی علم دین حاصل کرنے تمہاری روٹیوں پر پڑے ہیں، ان کو دروازے کا فقیر سمجھ کر ایسا برتاؤ کیاگیا، سوکیا مضائقہ ہے ”ملک خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست“ تم اپنی روٹی اپنے پاس رکھو۔ ان کا خدا ان کے لئے دوسرا انتظام کرے گا۔ وہ عفت مآب بی بی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عذرات پیش کرکے خطا معاف کرائی ”کہ حضرت آئندہ کبھی ایسا نہ ہوگا، آپ دیکھیں گے کہ دسترخوان میں کھانا ڈھک کر تعظیم کے ساتھ طلبہ کے سامنے پیش کیا کروں گی۔“

عذر و تقصیر آپ نے منظور فرمالیا اوراس وقت طالب علم سے کہا کہ اب وہیں سے کھانا لایا کرو جہاں سے لاتے تھے۔ (تذکرہ الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۱،ص:۱۴۱)

اسم بے مسمّیٰ

بسا اوقات نام کا اثر شخصیت پر ہوتا ہے اور عادات واخلاق میں اس کا ظہور ہوتا ہے۔ اور کبھی یہ ثابت ہے کہ بعض اوقات اثرات الٹے نظر آتے ہیں۔ دیکھئے واقعہ۔

مولوی محمد سہول صاحب ایک بار کسی مسئلہ پر حجت کرنے لگے۔ اعتراض پر اعتراض اور شبہ پر شبہ۔ جب تقریر طویل ہوئی تو فرمایا تمہارا نام سہول کس نے رکھ دیا تم میں سہولت بالکل بھی نہیں۔ تمہارا نام ہونا چاہئے ”سئول“ کہ بہت سوال کرنے والا۔ (تذکرہ الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲،ص:۷۴)

علماء کرام کا امتحان

جس طرح اللہ تعالیٰ نے رنگ روپ میں فرق رکھاہے،اسی طرح سوچ اور فکر، عقل کی گہرائی اور گیرائی، امتیاز و سلوک اور اخلاق میں قابل محسوس تفاوت رکھا ہے اوریہ فرق کسی خاص طبقہ، خاص علاقہ کے لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ کالا، گورا ہر انسان اس فرق کو محسوس کرتا ہے۔ اسی عقل و شعور کے اختلاف کا ثمرہ ہے کہ ایک شئی ایک کے نزدیک پسندیدہ ہے تو وہی چیز دوسرے کے یہاں مکروہ و ناپسندیدہ اور تیسرے کے یہاں زاویہٴ جواز میں ہے۔ ملاحظہ فرمائیے علماء کرام کے متعدد زوایہٴ فکر:

ایک روز ارشاد فرمایا کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور مولانا فخرالدین صاحب چشتی اور حضرت مرزا جان جاناں رحمة اللہ علیہم اجمعین تینوں کا ایک زمانہ تھا اور تینوں حضرات دہلی میں تشریف رکھتے تھے۔

ایک شخص نے چاہا کہ تینوں حضرات اتفاق سے ایک شہر میں موجود ہیں، ان کا امتحان لینا چاہئے کہ کس کا مرتبہ بڑا ہے۔ یہ شخص اول شاہ ولی اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کہ حضرت کل کو آپ کی میرے یہاں دعوت ہے، قبول فرماویں اور نوبجے دن کے غریب خانہ پر خود تشریف لاویں۔ میرے بلانے کے منتظر نہ رہیں۔ شاہ صاحب نے فرمایا بہت اچھا۔ اس کے بعد وہ شخص مولانا فخرالدین صاحب کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ ساڑھے نوبجے میرے بلائے بغیر مکان پر تشریف لاویں اور ماحضر تناول فرماویں۔ یہاں سے اٹھ کر یہ شخص مرزا جان جاناں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ کاروبار کے سبب حاضر خدمت نہ ہوسکوں گا۔ پورے دس بجے دن کو غریب خانے پر تشریف لے آویں۔ تینوں حضرات نے دعوت قبول فرمائی۔ اور اگلے روز ٹھیک وقت مقررہ پر اس شخص کے مکان پر پہنچ گئے۔ اول نوبجے شاہ صاحب تشریف لائے۔ اس شخص نے ان کو ایک مکان میں بٹھایا اور چلاگیا۔ ساڑھے نوبجے مولانا تشریف لائے ان کو دوسرے مکان میں بٹھایا۔ پھر دس بجے مرزا صاحب تشریف لائے ان کو تیسرے مکان میں بٹھایا۔ غرض تینوں حضرات علیحدہ علیحدہ مکان میں بٹھائے گئے کہ ایک دوسرے کو اطلاع بھی نہ ہوئی۔ جب تینوں حضرات بیٹھ گئے تو یہ شخص پانی لے کر آیا، ہاتھ دھلائے اور یہ کہہ کر چلاگیا کہ ابھی کھانا لے کر حاضر ہوتا ہوں۔ کئی گھنٹے گزرگئے اوراس شخص نے خبر نہ لی۔ آکر یہ بھی نہ دیکھا کہ کون گیا اور کون بیٹھا ہے۔ جب ظہر کا وقت قریب آگیا اور اس نے سوچا مہمانوں کو نماز بھی پڑھنی ہے۔ تو اول شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور شرمندہ صورت بناکر عرض کیا۔ کیا کہوں گھر میں تکلیف ہوگئی تھی اس لئے کھانے کا انتظام نہ ہوسکا۔ دوپیسہ نذر کئے اورکہا ان کو قبول فرمائیے۔ شاہ صاحب نے خوشی سے دو پیسے لے لئے اور فرمایا کیا مضائقہ ہے بھائی گھروں میں اکثر ایسا ہوہی جاتا ہے۔ شرمندہ ہونے کی کوئی بات نہیں۔ یہ فرماکر چل دئیے۔ پھر یہ شخص مولانا فخرالدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہی عرض کیا جو وہاں کہا تھا اور دو پیسے نذر کئے۔مولانا نے فرمایا بھائی فکر کی کیا بات ہے اکثر گھروں میں ایسے قصہ پیش آجاتے ہیں اورکھڑے ہوکر نہایت خندہ پیشانی سے تعظیم کے ساتھ رومال پھیلادیا۔ دو پیسے کی نذر قبول فرمائی اور رومال میں باندھ کر روانہ ہوئے۔ دونوں کو رخصت کرکے یہ شخص حضرت مرزا جان جاناں کی خدمت میں پہنچا اور وہی عذر بیان کرکے دو پیسے نذر کئے۔ مرزا صاحب نے پیسے تو اٹھاکر جیب میں ڈال لئے اور پیشانی پر بل ڈال کر فرمایا کچھ مضائقہ نہیں، مگر پھر ہمیں ایسی تکلیف مت دیجیئو۔ یہ فرماکر تشریف لے گئے۔ اس شخص نے یہ قصہ اور بزرگوں سے بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ مولانا شاہ فخرالدین صاحب فن درویشی میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں کہ انھوں نے وہ نذر خندہ پیشانی کے ساتھ تعظیم سے کھڑے ہوکر قبول فرمائی اوران سے کم درجہ شاہ ولی اللہ صاحب کا ہے کہ کھڑے تو نہیں ہوئے مگر بخوشی نذر قبول فرمایا۔ اور تیسرے درجہ پر مرزا صاحب ہیں کہ نذر کی مقبولیت کے ساتھ ملال بھی ظاہر فرمایا۔ یہ قصہ نقل فرماکر حضرت امام ربانی نے ارشاد فرمایا کہ اس زمانے کے بزرگوں کا یہی حال تھا۔ مگر میرے نزدیک تو حضرت مرزا صاحب کا درجہ بڑھاہوا ہے کہ باوجود نازک مزاج ہونے کے اتنا صبروتحمل فرمایا اور ”کچھ مضائقہ نہیں“ جواب عطا فرمایا۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ مکتبہ الشیخ سہارنپور،ج:۲، ص:۲۵۷)

اتفاق

لفظ ”اتفاق“ اردو میں کسی شئے کے پردئہ عدم سے اچانک وجود میں آجانے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ بولا جاتا ہے ”اتفاق سے وہ مرگیا، اتفاق سے فلاں آگیا“ وغیرہ اور تاریخ گواہ ہے کہ اتفاق ہی ہوتا ہے کہ بزرگانِ دین کی ایک معمولی نظر بھی انسان کو کامل بنادیتی ہے، لیکن ان سب کا شمار اتفاق کے زمرے میں ہی ہوتا ہے۔ عموماً جان بوجھ کر ارادةً ایسے کمالات کا ظہور بہت ہی کم ہوتا ہے۔ اسی کو سنئے امام ربانی کی زبان سے:

ایک بار ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں ایک نظر میں پایہٴ کمال پر پہنچا دیجئے۔ ہم سے سخت مشقت نہیں ہوسکتی اور اس پر بعض بزرگوں کے قصے پیش کرتے ہیں۔ اس کی تو ایسی مثال ہے کہ ایک شخص جنگل میں جارہا تھا اتفاقاً ٹھوکر لگی، گرگیا۔ اٹھ کر جو دیکھا تو ایک دیگچہ نظر آیا۔ اس کو کھود کر نکالا تو زروسیم سے بھراپایا۔ اب اس کو سن کر اگرکوئی شخص جنگلوں میں گرتا پھرے کہ اسی طرح خزانہ مل جائے تو کیا ہاتھ آسکتا ہے۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند،ج:۲،ص:۳۱۷)

یاجوج وماجوج

یہ چرخ نیلی فام پر اور اس پر بکھرے ہوئے تارے ، سورج کی ضیا پاش کرنیں اور نرم و نازک پانی پر بچھی ہوئی زمین کی بساط اوراس کی چھاتی پر اونچے اونچے پہاڑ، اور اسی بساط ارض پر چلتے پھرتے انسان، دندناتے ہوئے جانور، اٹکھیلیاں کرتی ہوئی ہرنیں، چہچہاتے ہوئے پرندے، جھومتے ہوئے درخت اور صحیفہ کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کے وجود کا گواہ ہے۔اسی تناظر میں دیکھئے حضرت امام اعظم رحمة اللہ نے فرمایا کہ قدرت کی ان نشانیوں کو دیکھ کر ہی اللہ پر ایمان لانا ضروری ہے اگرچہ کسی نبی کی بعثت کا علم انسان کو نہ ہوا ہو۔ اس لئے کوئی بھی ہوشمند خدا کے وجود سے انکار نہیں کرسکتا اوراس کا وجود تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ اب ملاحظہ فرمائیے امام ربانی کا ایک عجیب و غریب نکتہ:

ایک مرتبہ یاجوج و ماجوج کا تذکرہ تھا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے دریافت کیا کہ حضرت! یاجوج و ماجوج حق تعالیٰ کو بھی جانتے ہیں یا بالکل ہی جاہل ہیں؟ آپ نے بے ساختہ فرمایا جانتے کیوں نہیں۔حدیث میں آیاہے کہ جب ان شاء اللہ کہیں گے تو اگلے دن دیوار کو چاٹ کر باہر نکل آئیں گے۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کو جانتے ہیں۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ مکتبہ الشیخ سہارنپور،ج:۲،ص:۱۷۹)

میں نہیں جانتا

ہندوستان ایک مذہبی ملک ہے یہاں کی غالب اکثریت اوہام پرست اور بت پرست ہے۔ اسی اوہام پرستی نے تعویذات کو جنم دیا۔ تعویذات کی ابتداء کیسے اور کہاں سے ہوئی؟اس کے بارے میں میں کوئی حتمی بات تو نہیں کہی جاسکتی، البتہ ویدوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھے وید کے کال میں کچھ ایسے اعداد کے اشارات ملتے ہیں، جن سے تعویذات کی ابتداء کا سراغ ملتا ہے۔ اس میں تعویذات، نقوش اور منتروں کا عظیم ذخیرہ ہے۔ یہ تعویذات یہودیوں میں منتقل ہوئے اور ان کے احبار اور رہبان نے ان کو اختیار کیا۔ یہود کی کتابوں میں جو نقوش ملتے ہیں وہ حساب جمل کے قاعدے سے لکھے ہیں اور وہ اب تک رائج ہیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ کے شروع دور میں تعویذات کے رواج یا استعمال کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے۔ غالباً سب سے پہلے علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ (متوفی ۹۱۱ھ) نے ایک مختصر رسالہ تصنیف فرمایا جس میں کچھ ایسے اعداد اور نقوش لکھے جو اب تک رائج ہیں اور بڑی حدتک نقوش و تعویذات میں اضافے بھی ہوئے۔ الغرض پھر اس کا اس حد تک عام رواج ہوا کہ عقیدت میں سرشار اوہام پرست قوم کو چند نے عظیم نقصان پہنچایا لیکن خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والوں کی وجہ سے عوام کو مفاد پرستوں کے استحصال سے چھٹکارا ملا۔ جہاں تک تعویذات کے ار ونفوذ کا تعلق ہے، وہ درحقیقت عقیدت کے نازک احساسات و نفسیات کے نتائج ہوتے ہیں اور ”انا عند ظن عبدک“ کواس سلسلہ میں دلیل بنایا جاسکتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ بیان کرنے والا اپنے بیان سے متفق اور مطمئن ہے یا نہیں؟ دیکھئے اس کی واضح مثال:

”مولوی یعقوب الدین فرماتے تھے، میرے ایک دوست کی، کہ وہ حضرت کے خادم تھے، ایک جگہ نسبت قرار پائی۔ وہ لڑکی تھی حسینہ وجمیلہ۔ قبل از نکاح ہی ان کو غائبانہ اس کے ساتھ بیحد محبت ہوگئی تھی۔ اتفاق سے اعزاء میں کچھ رنجش ہوگئی اور یہ خطبہ منقطع ہوگیا۔ نسبت کے ٹوٹتے ہی ان کی حالت غیر ہونے لگی جو جس نے بتایا پڑھا اورجو جس نے کہا وہ کیا،مگر کچھ کارگر نہ ہوا۔ آخر جب جان پر آبنی تو گنگوہ آئے اور روکر عرض کیا کہ حضرت شرم کے سبب کچھ کہہ نہیں سکا مگر جب زندگی سے مایوس ہوگیا، تو عرض کئے بغیر چارہ نہیں۔ اس کے بعد اپنا قصہ اور حال بیان کیا۔ حضرت نے حسب عادت فرمایا بھائی مجھے تو عملیات آتے نہیں۔ یہ رودئیے اور باصرار تمنا کی کہ کچھ لکھ کر عطا فرمادیں۔ اس وقت حضرت نے پرچہ پر کچھ لکھا اور فرمایا، لو اسے بازو پر باندھ لینا۔ تعویذ لیکر یہ وطن واپس آئے اور بازو پر باندھا۔ خدا کی شان اسی ہفتہ میں باہممی رنجش ختم ہوگئی اور لڑکی کے ورثاء خود بخود راضی ہوکر نکاح پر مصر ہوئے۔ چنانچہ فوراً نکاح ہوا اوراسی دن لڑکی رخصت ہوکر انکے گھر آگئی۔ لوگوں کو نہایت تعجب ہوا کہ اتنی کس طرح کایا پلٹ گئی آخر یہ سوچ کر کہ گنگوہ گئے تھے کوئی مجرب نقش لیکر آئے ہیں ان کے ہم جولیوں نے اصرار کیا کہ بازو سے کھول کر نقش دکھاؤ، اسے نقل کریں۔ ہر چند انھوں نے انکار کیا۔ مگر وہ باز نہ آئے اور ان کو پکڑکر چھاتی پر چڑھ بیٹھے، جبراً بازو کا تعویذ چھینا اور کھول کر دیکھا تو اس میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی۔ ”یا الٰہی میں نہیں جانتا اور یہ نہیں مانتا۔ یہ تیرا بندہ اور غلام، تو جانے اور تیرا کام“ (تذکرة الرشید مطبوعہ مکتبہ الشیخ سہارنپور، ج:۲، ص:۲۹۵)

گیہوں کا دانہ

یہ اسلام کا طرہٴ امتیاز ہے کہ وہ مردوزن کے مسائل میں تفریق و امتیاز نہیں برتتا، بلکہ جس سے جو مسائل متعلق ہیں انکو بے کم و کاست بیان کرتا ہے۔ ان کا تعلق ظاہر سے ہویا وہ مسائل اندرون سے متعلق ہوں۔ چونکہ ان کا دارومدار زندگی کے گوشوں سے ہے۔ اس لئے مسائل میں خفا نہیں ہے۔ کسی سائل نے جو سوال کیا اس کو تشفی بخش جواب دیاگیا چنانچہ ایک انصاری عورت نے حضرت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے احتلام کے بارے میں سوال کیا؟ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب مرحمت فرمایا، حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو عورت کے احتلام پر تعجب بھی ہوا تھا اور پوچھا تھا کہ کیا عورتوں کو بھی احتلام ہوتا ہے؟

اس سلسلہ میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری عورت کی ستائش بھی فرمائی کہ وہ مسائل پوچھنے میں حجاب نہیں کرتیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسائل کا جواب دینا چاہئے خواہ سوال کیسا ہی ہو۔ اس میں حجاب کو راہ نہیں دینی چاہئے۔ یہی حال ہمارے اکابر کا تھا کہ انھوں نے مسائل بیان کرنے میں اور سائلوں کے سوال کا جواب دینے میں جھجک محسوس نہیں کی۔ ملاحظہ فرمائیے اس کی مثال:

ایک بھرے مجمع میں حضرت کی کسی تقریر پر ایک نوعمردیہاتی بے تکلف پوچھ بیٹھا کہ حضرت جی عورت کی شرمگاہ کیسی ہوتی ہے؟ اللہ رے تعلیم! سب حاضرین نے گردنیں نیچے جھکالیں مگر آپ مطلق چیں بہ جبیں نہ ہوئے بلکہ بے ساختہ فرمایا جیسے گیہوں کا دانہ۔“ (تذکرة الرشید مطبوعہ مکتبہ الشیخ سہارنپور،ج:۲، ص:۱۰۰)

تلاق اور طلاق

محسن انسانیت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہان کیلئے رحمة للعالمین بناکر بھیجے گئے۔ آپ کا قلب مبارک امت کے تئیں رحم و کرم، حلم و بردباری، عفو و درگزر جیسے اوصاف سے لبریز تھا۔ چنانچہ سیرت کی کتابوں میں آپ کا رحم و کرم، وسعت ظرفی اور اعلیٰ اخلاق گالیاں دینے والوں اور کانٹے بچھانے والوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ آپ کبھی قصور وار پر ناراض ہوتے نہیں دیکھے گئے بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ فرماتے ”اسے کیا ہوگیا ہے؟“ یا ”اس کی پیشانی خاک آلود ہو“۔ اپنے لئے نہ کبھی غصہ کرتے اورنہ بدلہ لیتے۔ لیکن تاریخ کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب تک ظلم و ستم، طعن و تشنیع کا تعلق صرف ذاتِ اطہر تک رہا تو سب کے ساتھ ”لاتثریب علیکم الیوم“ والا معاملہ رہا، مگر جہاں اس کا تعلق شریعت سے ہوا یا ہتک اسلام ہوتی تو آپ کے غصہ کو کوئی شئے نہ روک سکتی تھی جب تک اس کا بدلہ نہ لے لیتے۔ یہی حال احیاء سنت میں ہمارے اکابر کا رہا ہے۔

چشم عبرت سے ملاحظہ ہو واعظ امت کا واقعہ:

ایک بار کسی شخص نے طلاق کے متعلق کوئی مسئلہ دریافت کیاتھا اس کا جواب دے کر یہ قصہ نقل فرمایا کہ ایک واعظ صاحب یہاں تشریف لائے۔ بڑے زور و شور سے وعظ فرماتے رہے ان کے اہل و عیال بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ایک روز اپنی بیوی کو طلاق دے بیٹھے، اوراس زور سے کہ دور تک آواز پہنچی لیکن اس کے بعد علیحدگی نہیں کی اور ساتھ رہتے رہے ایک دن میرے پاس بھی آئے۔ میں نے پوچھا طلاق دینے کے بعد جواز کی صورت آپ نے کیا اختیار کی۔ واعظ صاحب بولے میں نے تلاق (ت) سے دی ہے، طلاق (ط) سے نہیں دی ہے۔ مجھے غصہ آگیا میں نے کہا کہ اگر اخیر میں (خ) بھی ملادی جائے تو کیا مفتی تمہارے موافق فیصلہ دے سکتا ہے۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ مکتبہ الشیخ سہارنپور،ج:۲، ص:۲۹۱)

آواز سے شناخت

حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے اوصافِ ظاہری اور باطنی کے علاوہ ایک خاص صفت ذکاوت حس بطورِ خاص عطا فرمائی تھی۔ آپ اپنی حس کے ذریعہ صرف آواز اور خوشبو سے اشیاء میں امتیاز فرمالیا کرتے تھے۔ مزید برآں اپنے اور غیر ہونے کا فرق آپ محسوس فرمالیا کرتے تھے۔ عقل دریائے حیرت واستعجاب میں غوطہ زن ہے کہ یہ سب مادی آنکھوں کو پائے یار پر نچھاور کرنے سے پہلے تو حاصل تھا ہی۔ بعد میں بھی عمر کے آخری لمحہ تک رہا ۔

ملاحظہ فرمائیں ایک اہم واقعہ:

ایک دن دو شخص خانقاہ میں آئے اور حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ سے مصافحہ کرکے بیٹھ گئے۔ حضرت نے دریافت فرمایا کون؟ انھوں نے عرض کیا کہ حضرت ہم آپ کے مرید ہیں۔ بے ساختہ آپ نے فرمایا نہیں تم میرے مرید نہیں۔ انھوں نے پھر عرض کیا حضرت آپ کو یاد نہیں رہا مگر حضرت نے پھر وہی ارشاد فرمایا کہ نہیں تم میرے مرید نہیں۔ انھوں نے پھر عرض کیا کہ حضرت آپ کو یاد نہیں رہا۔ مگر حضرت نے پھر وہی ارشاد فرمایا کہ نہیں تم ہرگز مرید نہیں۔ آخر دونوں حضرات حجرے سے باہر آئے اور مولوی کفایت اللہ صاحب کے پاس بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ اسی اثناء میں کہنے لگے کہ ”مولوی صاحب یہاں کھانا بھی ملے گا یا نہیں“؟ مولوی کفایت اللہ صاحب اس سوال پر چونکے! اور کہا کہ میاں لنگر تو یہاں ہے نہیں کہ جس کا جی چاہے کھائے۔ حضرت کے مہمان جو آتے ہیں وہ کھانا بھی کھالیتے ہیں باقی خیر صلا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آنے والے مسافر بھی تھے صاف گو۔ یہ صاف گوئی کا جواب سن کر بولے ”میاں ہم نے تو کھانے کے واسطے یہ ڈھنگ ڈالے تھے مگر مولوی صاحب پہچان گئے۔“ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲، ص:۱۲۱)

علمی نکتہ

خوش طبعی کیلئے مذاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اس پر ہمارے اکابر علماء کا بھی عمل رہا ہے۔ لیکن تحصیل علوم کے رسیا ان بزرگانِ دین نے مذاق اور تفریحی کلمات میں بھی علمی نکات ودیعت کئے۔ دیکھئے مختصر واقعہ:

ایک بار مولوی ولایت حسین صاحب حاضر خدمت ہوئے۔ جب مصافحہ کیا تو حضرت نے حسب عادت شریفہ پوچھا کون؟ انھوں نے جواب دیا ولایت۔ آپ نے فرمایا سیدھا ”ولی“ کیوں نہیں کہتے۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند،ج:۲، ص:۷۴)

(باقی آئندہ)

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ11، جلد: 90 ‏،شوال المکرم1427 ہجری مطابق نومبر2006ء

Related Posts