از: محمد ابراہیم قاسمی، استاذ ادب جامعہ فرقانیہ گونڈہ
حالیہ چند سالوں سے ہندوستان کا میڈیا مسلسل اسلام اورمسلمانوں کے خلاف زہر افشانیاں کرتا رہا ہے، اسلام کی شبیہ مسخ کرکے جہاد، پردہ، نکاح، طلاق، خلع، اور نان و نفقہ جیسے بنیادی مسائل کو ایسے منفی انداز میں پیش کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہ حقوق انسانی کے اوپر بدنما داغ اور کاری ضرب ہیں دوسرے ان باتوں کو سچ گمان کرتے ہی ہیں اپنے بھی ان سازشوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہودیت اور عیسائیت روزاول ہی سے اسلام کے خلاف صف آرا ء رہی ہے؛ لیکن اس وقت دنیا کی تمام اقوام مذہب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی میں یہودیت اور عیسائیت کی ہمنوا وہم رکاب ہوگئی ہیں۔ اسلام اورمسلمان مذہبی، سیاسی، ثقافتی، اقتصادی، ذہنی ہمہ جہت اور چوطرفہ حملے جھیل رہے ہیں۔ ڈنمارک کے اخبار میں قابل اعتراض اور اہانت آمیز کارٹون کی اشاعت امریکی صدر بش کا اسلام کے خلاف دل آزار بیان، جس میں انھوں نے افغانستان اور عراق میں جاری امریکہ مخالف شورش کو ”اسلامی فاشزم“ کا لقب دیا ہے، عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا پوپ بینڈکٹ کاجرمن یونیورسٹی میں ایک بازنطینی بادشاہ مینوئل دوئم کا اسلام اور پیغمبراسلام … کے خلاف زہر آلود اور دل خراش جملہ: ”مجھے بتاؤ کہ پیغمبر اسلام نے کیا نئی بات کہی ہے اور اسلامی تعلیمات میں بدی اور غیرانسانی تعلیمات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اوریہ کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا ہے“ کا حوالہ دینا اور اس کی آڑ میں اسلام اور پیغمبر اسلام … پر رکیک حملے کرنا، ہندوستانی میڈیا کا عمرانہ اور گڑیا والے مسئلہ کو اتنی شدت سے اچھالنا، ۱۶/ستمبر ۲۰۰۶/ ہفتہ کی شب اور اتوار کو پورے دن اسٹار نیوز چینل پر روپئے کے عوض من چاہا فتوی کے عنوان سے مفتیان کو دکھانا۔ یہ سب ایک بڑی منظم شازش کا پتہ دیتی ہیں، جو اسلام، مسلمانوں، علماء ومفتیان اور مدارس دینیہ کو بدنام کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔
یورپ تو بہت پہلے اسلام کی دشمنی میں اندھااور مخالفت میں ساری حدیں پار کرچکا ہے، اس کو اسلام دشمنی کی اس اندھی دھن میں پنے معاشرے کی بھی فکر نہیں رہی، وہ ہر اس عمل کو فروغ دینے اور پروان چڑھانے کی تگ و دو میں رہتا ہے، جو اسلامی ضابطوں کے خلاف ہو،اسلام کی ضد میں بہت ساری انسانی واخلاقی قدروں کو ٹھکراکر حیوانی اور شیطانی عمل کواپنالیاہے۔
ادھر ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلق سے اخبارات اور نیوز چینلوں کا متعصبانہ رویہ ایک عام ہندو ذہنیت کا نتیجہ تو ہے ہی، لیکن بعض نیوز چینلوں کی وابستگی اورمالی معاملات ان تنظیموں اور افراد سے بھی ہیں، جنھوں نے اسلام دشمنی کو اپنا شیوہ بنا رکھا ہے، ایسے اخبارات اورنیوزچینل ان خبروں کو خاص طور سے تلاش کرلاتے ہیں، جن کے منفی اثرات مسلمانوں کے مفاد پر پڑسکتے ہیں۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اسٹار نیوز چینل آسٹریلیا کے عیسائیوں کا ہے، جنھوں نے اسلام دشمنی کو اپنا ایجنڈا بنارکھا ہے وہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف آئے دن نئی نئی سازشیں کرتے رہتے ہیں اورانھیں بدنام کرنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
یہ میڈیا کا کمال ہے کہ دہشت گردی،اسلام اور مسلمان کو مترادف بنادیا ہے۔ دہشت گردی کا نام آتے ہی اسلام اورمسلمانوں کا نام آنا ضروری ہے ایک بہت بڑی تعداد دہشت گردی اور اسلام کوجداتصور نہیں کرتی ہے۔ جہاں کہیں کسی بم دھماکہ یا نقض امن کے معاملہ میں کوئی مسلمان گرفتار ہوا تو میڈیا والوں کی بہار آجاتی ہے۔ اس خبر کو اتنی اہمیت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ گویا اسی خبر کا انتظار تھا۔ میڈیا بلا کسی تحقیق کے سب سے پہلے گرفتار شدہ کو خوں خوار کا لقب دے ڈالتا ہے اور اس کا تعلق کسی نہ کسی دہشت گرد تنظیم سے جوڑ دیتا ہے، پھر تجزیہ اور تبصرہ کے ذریعہ اس کا جرم ایسا ثابت کرتا ہے کہ غریب کو دفاع میں کہنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
مسلمانوں کے خلاف میڈیا صرف دہشت گردی کے حوالے سے ہی سرگرم نہیں ہے بلکہ ان کے افکار و خیالات، مذہبی نظریات، دینی روایات، عائلی نظام و معاملات: نکاح، طلاق، خلع، وراثت و وصیت، نان اورنفقہ ہر ایک کوبراہ راست نشانہ بنارہا ہے۔ عمرانہ اور گڑیا والے معاملہ میں میڈیا کا یہ کردار بہت نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے، اسی کے ساتھ اس وقت مستند مذہبی و دینی اداروں، روحانی پیشواؤں اور علماء و مفتیان کا بھی مذاق اڑیا جانے لگا ہے۔ انھیں بے حیثیت اوران کے خلاف منفی تجزئیے اور تبصرے کرکے پیش کیا جاتا ہے، تاکہ ان کی حیثیت عرفی متاثر ہو اور عوام سے ان کا مضبوط رشتہ کمزور پڑجائے۔
۱۶/ ستمبر کو اسٹار نیوز چینل کا ”اسٹنگ آپریشن برائے فتویٰ“ انھیں منصوبہ بند مکروہ ورکیک سازشوں کی ایک کڑی ہے، جو برصغیر میں مدارس اسلامیہ، علماء کرام اور اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف کی جارہی ہیں، تاکہ مدارس اسلامیہ،مفتیان کرام، علماء اسلام اور خود مذہب اسلام کو مخدوش اور داغدار کیا جاسکے ہندوستانی مسلمانوں میں جو تدین، مذہبیت، دینی وضع داری،اسلامی اقدار و روایات کی پاس داری، شعائر اسلام کی پابندی اور عمل آوری پائی جارہی ہے، وہ انھیں مدارس اسلامیہ اور علماء کرام کی دین ہے ہندوستان کے مخلصانہ اور بے لوث خدمت کرنے والے مدارس اوران کی کوکھ سے جنم لینے والے رسوخ فی الدین زہد و تقویٰ، ایثار واخلاص، دینی حمیت و غیرت، درویشانہ صفت اور فقیرانہ شہنشاہیت کے حامل علماء کرام اور مفتیان عظام ہی یہاں کے مسلمانوں کے رشتوں کو دین و مذہب، اسلام اور پیغمبر اسلام … کے ساتھ جوڑ رکھا ہے اور ان کے تعلقات کو مستحکم و پائے دار بنارکھا ہے۔ اور جب تک مسلم عوام کا ربط و تعلق علماء اورمدارس سے استوار رہے گا اور علماء درویشانہ صفت اور فقیرانہ شہنشاہیت پر قائم رہیں گے، ان میں زہد وتقوی، ایثار و اخلاص اور دینی حمیت وغیرت باقی رہے گی، اس وقت تک اسلام دشمن عناصر مسلمانوں میں الحاد و دہریت پھیلانے اور انھیں اسلامی اقدار و روایات سے بیزار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ اس لیے اسلام دشمن طاقتوں نے اپنا رخ مذہبی مقدس مقامات، دینی مدارس، اسلامی تنظیموں و اداروں، ان سے وابستہ شخصیات اور علماء و مفتیان کی طرف کردیا ہے۔ عالم اسلام پر سیاسی، اقتصادی اور فوجی برتری اور قبضہ کے بعد اب مسلمانوں کو دینی، علمی اور عملی سطح پر مفلوج کرکے تفوق و برتری حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنے نوجوانوں کی خفیہ تربیت کررہی ہیں، جنھیں عالم، مفتی، حافظ داعی،مبلغ اور پیش امام بناکر مسلمانوں میں بھیجیں گی؛ تاکہ وہ اسلام کی غلط تاویل و تشریح کرکے عام مسلمانوں کے دلوں میں بٹھاسکیں۔ خواجہ شبیرالزماں صاحب ایک سروے کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ کٹر عیسائیوں اور ذی اونسٹ گروپ کی ہر ممکن کوشش اسلام کے فروغ کو روکنا ہے۔ اس کے لیے طویل ترین پروگرام ترتیب دئیے گئے ہیں اور عرصہٴ دراز سے اس پر عمل درآمد ہورہا ہے۔ یہاں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ایسا نہیں ہے کہ عیسائیوں اور صہیونیوں کا یہ سازشی گروپ اپنے پروگرام میں ناکام ہے۔ نہیں۔ سیاسی طور پر وہ مسلم ممالک پر قابض ہے۔ اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کے لیے اور جامع پروگرام کے تحت امریکہ نے پانچ ہزار کروڑ ڈالرس رقم مختلف ناموں سے اس پروگرام کی کامیابی کے لیے نکالی ہوئی ہے۔ اس پروگرام کے تحت یہودی و عیسائی نوجوانوں کو جن کی تربیت خفیہ مقام پر کی جارہی ہے انھیں مفتی، فقیہ، عالم دین اورحفاظ و مسجد کے پیش امام کے طور پر دنیا کے مسلم ممالک میں متعین کرنا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ عالم، مفتی اور حفاظ و مساجد کے پیش امام حضرات کے ساتھ عزت و احترام کا معاملہ ہے۔ ان کے بنیادی عقائد، قرآنی آیتوں کی غلط تشریح و تاویل حضور مقبول سرورکائنات محمد … کے متعلق ان حضرات کے ان فلسفوں پر عام آدمی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کریگا جس کے تحت پیغمبر آخر الزماں … سے عوام کی محبت میں کمی لانا، ان کے نام کیلئے وارفتگی اوران کے نام پر فدا ہونے کے جذبوں کا سلادینا ہے“ (راشٹریہ سہارا ۲۸ ستمبر)
یہ پروگرام عملی طور پر شروع بھی ہوگیا ہے؛ چناں چہ ایک آوارہ کم عقل عورت کو نماز جمعہ کے لیے پیش کرنا اور کچھ مصنوعی علماء کی اس میں شرکت اوراس کی تائید، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تائید کرنے والے وہی علماء ہوں، جن کی تربیت یہودیت و عیسائیت کے اداروں نے خفیہ طور پر کی ہے، اسی ضمن کی ”الفرقان“ نامی کتاب بھی ہے۔ جسے (نعوذ باللہ) قرآن کریم کے متبادل کے طور پر پیش کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ مختلف طریقوں سے مساجد و مدارس میں دست درازی اور دراندازی کا سلسلہ جاری ہے، برطانیہ نے ٹیوب ٹرین بم دھماکہ کراکر مدرسوں اورمسجدوں میں مداخلت کی راہ ہموار کرلی ہے، چنانچہ بہت سی مسجدوں کے ائمہ اور مدرسوں کے غیرملکی علماء واساتذہ اور طلبہ کو نکال باہر کردیا ہے اب وہاں مساجد میں ایسے ائمہ اور مدارس میں ایسے علماء و اساتذہ کا تقرر کیا جارہا ہے جو حکومت کی راگ الاپیں گے۔ فرانس، جرمن، ایتھوپیا، یونان اورامریکہ میں، مسلمانوں کی دینی سرگرمیوں اور مدارس و مساجد پر پابندیاں لگنی شروع ہوگئی ہیں۔
مدارس و مساجد کے خلاف ان عالمی سازشوں کے تناظر میں ”اسٹنگ آپریشن برائے فتویٰ“ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے،جس میں دیگر مدارس کے ساتھ خاص طور سے دارالعلوم دیوبند کو نشانہ بنایاگیا ہے اور اس کی مرکزی حیثیت کو متاثر کرنے اوراس کی معتبریت پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ چناں چہ حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب کے علاوہ دیگر مفتیان کرام کے ساتھ بار بار دارالعلوم کا نام چسپاں کیاگیاکہ یہ بھی دارالعلوم کے پڑھے ہوئے ہیں، انھوں نے بھی دارالعلوم سے افتاء کی تعلیم حاصل کی ہے وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند اپنی بے لوث خدمات اپنی افادیت واہمیت، اپنے صاف شفاف کردار اور دینی و مذہبی معاملات میں صاف گوئی کی بنیاد پر مسلم امہ کے دلوں میں ایک باوقار مقام رکھتا ہے، مسلمانوں کو اس پر بھرپور اعتماد و اعتبار ہے، وہ دینی و عائلی مسائل میں اسی کو آخری اتھارٹی سمجھتے ہیں، ہر نازک موڑ پر ان کی نگاہیں اسی کی طرف اٹھتی ہیں اور ٹک ٹکی باندھ کر دیکھتی ہیں۔ مسلمان دارالعلوم کی آواز کو بہت عزت واحترام کے ساتھ سنتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان تنظیموں اور افراد کو جو اسلام کے خلاف زہر افشانیاں کرتے رہتے ہیں اور خاص طور سے مسلمانوں کے تشخص کو مٹانے کے لیے ان کے عائلی مسائل کو چھیڑتے رہتے ہیں دشواریوں اور اپنے ناپاک منصوبوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چناں چہ عمرانہ اور گڑیا کے مسئلہ میں دارالعلوم کے فتوی کو لے کرانسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا نے زمین و آسمان کی طنابیں ایک کردی تھیں، پورے ملک میں ایک ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ لگتا ایساتھا کہ کوئی جنگ چھڑگئی ہے اوراب اس سے زیادہ اہم کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اس سلسلے میں بسیار کوششوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود انھیں کوئی کامیابی نہیں ملی، بلکہ دارالعلوم کے ایک خاموش فتویٰ کو برتری حاصل رہی۔
اس وقت خاص طور پر دارالعلوم دیوبند کو نشانہ بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سپرم کورٹ میں نظام قضاء اور نظام افتاء کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہے، جس میں دارالعلوم دیوبند کو بھی فریق بنایا گیا ہے اور یہ مطالبہ کیاگیا ہے کہ دارالافتاء اور شعبہٴ افتاء کی تعلیم کو بند کیا جائے، اس مقدمہ کی سماعت عنقریب متوقع ہے، اس موقع پر مدارس، علماء اور ارباب فتویٰ سے اعتماد اٹھانے والی مذکورہ سازش اس مقدمہ کو متاثر کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔
آئیے ایک نظر روپئے کے عوض من چاہا فتویٰ پر ڈالتے چلیں کہ حقیقت کیا ہے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چینل پر بار بار جو یہ دکھایا اور کہا گیا: من چاہا فتویٰ، خواہش کے مطابق فتویٰ اور عوام کے دل میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی گئی کہ مدارس و مفتیان کا کوئی اعتبار نہیں رہ گیا ہے اب یہ روپئے میں بکنے لگے ہیں۔ روپیہ دے کر منشاء و خواہش کے مطابق ان سے غلط فتویٰ حاصل کیا جاسکتا ہے، تو اس سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ کوئی فتویٰ کسی کی خواہش اورمنشاء کے مطابق غلط نہیں دیاگیا ہے۔ اندراج کے رجسٹروں کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ تمام فتاویٰ اپنی جگہ پر صحیح ہیں اور عین شریعت کے مطابق ہیں۔ قرآن و حدیث اور شریعت اسلامیہ کے خلاف فتویٰ حاصل کرنے میں، اسٹنگ آپریشن کے عملہ کو، کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اورانشاء اللہ آئندہ بھی کوئی کامیابی نہیں ملے گی۔ مدرسہ خادم الاسلام کے حوالے سے جو ڈبل بیڈ کے ناجائز ہونے کی بات کہی گئی ہے، اس کا انتساب غلط ہے، خود ہاپوڑ کے مفتی ریاست علی صاحب نے بتایا کہ:
”اس طرح کا کوئی فتویٰ نہیں دیاگیا، ہم نے ڈبل بیڈ کے جواز کافتویٰ دیا اور وہ ہمارے پاس تحریری شکل میں موجود ہے کوئی بھی شخص آکر دیکھ سکتا ہے“ (ترجمان دیوبند اکتوبر)
دوسری بات چینل پر یہ کہی اور دکھائی گئی کہ روپئے کے عوض فتاویٰ لیاگیا ہے، مفتیان رشوت خور ہوگئے ہیں اور پورے پروگرام میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ جو فتوے حاصل کیے گئے ہیں رشوت اور روپئے کے بدلے میں حاصل کیے گئے ہیں۔ تو اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اسٹنگ آپریشن والے جتنے دارالفتاویٰ سے فتویٰ حاصل کیے ہیں وہاں کسی فتویٰ کے عوض کسی سے بھی کوئی رقم اور فیس نہیں لی جاتی ہے ہر ایک کو فتویٰ مفت دیا جاتا ہے، بلکہ کسی بھی دارالافتاء میں فتویٰ کے لیے کوئی فیس متعین نہیں ہے اور ماضی میں بھی کوئی ایسی روایت نہیں رہی ہے۔ پھر یہ کہ اسٹنگ آپریشن کے عملہ نے روپئے دے کر جن مسائل پر فتویٰ حاصل کیا ہے۔ کیا انھیں رقم خرچ کیے بغیر فتویٰ حاصل کرنے میں کوئی دشواری یا رکاوٹ تھی۔ یہ تو کہیں سے بھی سوالات لکھ کر دے دیتے یا کسی کے ہاتھ بھیج دیتے تو انھیں بیٹھے بٹھائے جوابات اور فتاویٰ مل جاتے۔ دارالعلوم میں تو روزانہ چھوٹے بڑے پچاسوں مسائل کے جوابات تحریری اور زبانی طور پر دئیے جاتے ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ کسی سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا جاتا ہے۔ تو یہاں لینے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔
اب بات یہ رہ جاتی ہے کہ جنھیں روپئے لیتے ہوئے دکھایاگیا، اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس سلسلے میں مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ کے مفتی ریاست علی صاحب کو جب رقم پیش کی گئی، تو انھوں نے سختی سے انکار کردیا ہے اور کہا کہ یہاں فتویٰ کے عوض کوئی رقم نہیں لی جاتی ہے۔ پھر جب دینے والوں نے بہت اصرار کیا تو مفتی صاحب نے کہا کہ اگر دینا چاہتے ہو تو مدرسہ میں دے دو، مدرسہ میں ایک انویٹر کی ضرورت ہے، چناں چہ انھوں نے وہ رقم دو قسطوں میں مدرسہ کو دے دی، جس کی مختلف تاریخوں میں دو رسیدیں دی گئیں اور اس میں لکھا ہوا ہے بمد انویٹر۔
یہی صورت حال مدرسہ امینیہ دہلی میں پیش آئی کہ اسٹنگ آپریشن کے عملہ نے جب اس مدرسہ کے مفتی عبدالرحمن صاحب کو ہدیہ کے نام پر تین ہزار(۳۰۰۰) کی رقم پیش کی اور اصرار کیا تو انھوں نے ہدیہ قبول کرنے سے انکار کردیااور سختی سے منع کردیا۔ پھر انھوں نے ایک ہزار مدرسہ کے لیے پیش کیے تو مدرسہ کے لیے ان سے یہ رقم لے لی گئی اورانھیں فوراً رسید بناکر دے دی گئی، جس کی فوٹوکاپی اور وضاحت 20/9/2006 میں دہلی کے اخبارات میں چھپ چکی ہے۔ اس منظر کو ٹی وی پر دکھاکر یہ کہا گیا کہ مفتی صاحب کو فتویٰ کے عوض تین ہزار روپئے دئیے گئے۔ دیکھئے شمار کررہے ہیں۔
میرٹھ کے ایک مدرسہ کے ذمہ دار مفتی خورشید کے ہاتھ میں جو رقم دکھائی گئی اس کی صورت یہ ہے کہ مفتی خورشید سے فتویٰ حاصل کرنے کے بعد جب انھوں نے رقم دینے کی کوشش کی تو انھوں نے لینے سے انکارکردیا پھر انھوں نے وہاں زیر تعمیر ایک عمارت کی مد میں دینا چاہا تو اس پر مفتی خورشید صاحب نے کہا کہ ابھی رہنے دیں ہم خود آپ کی قیام گاہ پر آکر مدرسہ کی ضروریات رکھیں گے، مگر انھوں نے زبردستی نوٹ پکڑا دئیے اوراس منظر کی تصویر لے لی گئی۔
میرٹھ کے مدرسہ جامعہ محمودیہ کے مفتی کوکب کا نام لیاگیا ہے جب کہ ٹی وی پر جو تصویر دکھائی گئی ہے وہ مفتی کوکب کی نہیں تھی یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مدرسوں کے خلاف سازش کی گئی ہے اور عوام کو علماء و مدارس سے کاٹنے اور دور کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
اسٹنگ آپریشن میں صرف ایک مثال ہے جہاں ہدیہ کے طور پر رقم لی گئی ہے اور وہ دینے والوں کے مسلسل اصرار اور امر شرعی و سنت سمجھ کر مفتی نادر صاحب نے رقم قبول کرلی اور وہ اس سازش کو سمجھ نہ سکے کہ اتنی موٹی رقم بلا کسی تعارف کے کیوں ہدیہ میں دی جارہی ہے۔
جہاں تک دارالعلوم دیوبند کا تعلق ہے تویہ دنیا جانتی ہے۔ یہاں ہندوستان کا سب سے موٴقر اور معتبر دارالافتاء قائم ہے اور سیکڑوں سال سے زائد عوام و خواص ہر ایک کی بلاکسی عوض مفت فقہی ضروریات پورا کررہا ہے ہر کس و ناکس کوئی بھی یہاں تحریری یا زبانی طور پر مسائل معلوم کرسکتا ہے اور استفتاء کرکے فتویٰ لے سکتا ہے۔ یہاں مستقل پانچ مفتیان کرام اسی ذمہ داری پر مامور ہیں، محررین دفتر کا عملہ اور تدریب فتاویٰ کے طلبہ الگ ہیں۔ یہاں کبھی کسی فتویٰ پر نہ کوئی فیس متعین کی گئی اور نہ کوئی رقم لی گئی ہے بلکہ یہ مدرسہ کے قانون میں جرم ہے اگر کسی کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ فتویٰ کے عوض رقم لی ہے تو برخاست کردیا جائے گا۔
حضرت الاستاذ حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب کے سلسلے میں جب یہ خبر سنائی گئی کہ مفتی صاحب نے ایک فتویٰ کے بدلے میں پانچ ہزار روپیہ لیا ہے۔ تو مجھے کسی صورت میں یقین نہیں آرہا تھا اس لیے کہ میں حضرت مفتی صاحب کی زیر تربیت تین سال دارالافتاء میں رہا ہوں اور میں نے مفتی صاحب کو بہت قریب سے دیکھا ہے حضرت مفتی صاحب جہاں ایک طرف رسوخ فی العلم، زہد و تقویٰ، دیانت داری، اخلاص وللہیت اور صاف شفاف کردار کے حامل ہیں وہیں دوسری طرف معاملات اور فقہ و فتاویٰ میں بہت محتاط ہیں بہت سوچ سمجھ کر فتویٰ دیتے ہیں اور مفتی بہ اقوال سے ایک سرمو نہیں ہٹتے ہیں تو روپیہ لینے اورمن چاہا فتویٰ دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ لیکن شروع میں، ٹی وی دیکھنے والے یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ ان لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ ہم نے اپنی آنکھ سے ٹی وی پر لیتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھنے والے یہ کہنے پر مجبور بھی تھے؛ اس لیے کہ جو ماحول بناکر دکھایا گیا، جو سرخیاں لگائی گئیں اورجو عنوانات قائم کیے گئے درمیان میں وقفہ وقفہ سے جن منفی تجزیوں اور تبصروں کا سہارا لیاگیا کہ ان مفتیوں کے ساتھ کیا معاملہ اور برتاؤ کیا جائے، جنھوں نے رشوت لے کر غلط فتویٰ دیا ہے۔ اس طرح کے سوال پر تبصرہ نگاروں نے سخت تبصرے بھی کئے کہ ایسے مفتیوں کو سولی پر لٹکادیا جائے، ان کے چہروں کو سیاہ کرکے شہروں میں گھمایا جائے۔ انھوں نے مسلمانوں اور قوم کی ناک کاٹ دی ہے۔ ان کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور فوراً مدرسہ سے انھیں برطرف کیا جائے، ہمیشہ کے لیے ان کی فتویٰ نویسی پر پابندی لگائی جائے۔ اگر کسی نے تبصرے میں مثبت انداز اختیار کرنے کی کوشش کی تو اناؤنسر نے فوراً اسے کاٹ دیا، اس ماحول میں لوگوں نے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی؛ بلکہ جو باتیں انھیں سنائی گئیں اور جعل سازی کرکے جو منظر انھیں دکھایا گیا اسی پر یقین کرتے چلے گئے۔
حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب کاکردار بہت صاف شفاف ہے انھوں نے رقم نہ مدرسہ کے لیے لی اور نہ اپنے لیے بلکہ اس رقم پر ہاتھ تک بھی نہیں لگایا۔ بہت سختی سے منع کردیا اور کہا کہ یہاں فتویٰ کے عوض کوئی فیس نہیں لی جاتی ہے کیا روپئے سے مجھے خریدنا چاہتے ہو، حضرت مفتی صاحب کا تحریری بیان جسے تحقیقاتی کمیٹی میں پیش کیا۔ حسب ذیل ہے:
”میرے ساتھ فتویٰ لینے والوں کا جو واقعہ پیش آیا وہ من و عن یہ ہے کہ ۷/مئی ۲۰۰۶/ کو چوتھے گھنٹے کے آخر میں تین آدمی دارالافتاء میں آئے۔ میں ان میں سے کسی کو نہیں پہچانتا تھا، انھوں نے کریڈٹ کارڈ کے بارے میں ایک تحریری سوال مجھے دیا۔ میں نے اس کا جواب لکھ دیا، سوال و جواب کی نقل ہم رشتہ ہے۔ فتویٰ مکمل ہونے کے بعد انھوں نے مجھے کچھ روپئے نذرانہ پیش کرنا چاہا میں نے سختی سے انکار کیا کہ یہاں یہ کام نہیں ہوتا ہے، ہم لوگ فتویٰ پر کسی سے کوئی ہدیہ نہیں لیتے یہ رشوت ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کو بطور ہدیہ دے رہے ہیں، فتویٰ کی اجرت نہیں دے رہے ہیں۔ میں نے کہا کیا آپ پیسوں کے بدلے میں ہمیں خریدنا چاہتے ہیں میں ہرگز نہیں لوں گا۔ حضرت مفتی محمود حسن صاحب بلندشہری بھی میری یہ گفتگو سن رہے تھے ان سے معلوم کرسکتے ہیں۔ مگر ٹی وی والوں نے یہ مکاری کی کہ میرے انکار کی آوازکو بالکل پست کردیا جو سنائی نہیں دے رہی ہے اور اس کے ساتھ اذان کو جوڑ دیا جب کہ صبح ساڑھے دس بجے کسی نماز کا وقت نہ تھا۔ دوسری مکاری یہ کی کہ جائز کو ناجائز کہہ دیا۔
غرض کہ انھوں نے پیسے میرے ہاتھ میں نہ دئیے، نہ میں نے لیے۔ ٹی، وی چینل میں بھی روپئے میرے ہاتھ میں دینا اور مجھے اپنے ہاتھ میں لینا نہیں دکھایا گیا۔ غور سے ٹی وی دیکھنے والوں نے مجھے یہی بتایا پھر میں نے بھی غور سے دو دو مرتبہ دیکھا۔ جب کیمرہ جاری ہے تو میرے ہاتھ میں پیسوں کالینا دینا کیوں نہیں دکھایا جب کہ دوسرے مفتیوں کے ہاتھ میں دینا لینا صاف طورپر دکھایا گیا ہے۔
رہی وہ رقم جو اپنے بیگ میں رکھتے ہوئے دکھائی گئی وہ رقم میری اپنی تھی، جو میری تجارتی کتابوں کی کلیم بک ڈپو سے تھوڑی دیر پہلے آئی ہوئی تھی اور میں نے اپنے ڈیکس کے دراز میں رکھ لی تھی، اٹھتے وقت میں نے اپنے معمول کے مطابق اپنا قلم، موبائل اور ایرمشین اپنے بیگ میں رکھی اور وہ رقم مبلغ 6500/= روپئے بھی رکھے۔ کلیم بک ڈپو والوں سے معلومات کرسکتے ہیں مستفتی حضرات نے اپنے کیمرے سے اس کا فوٹولے کر رشوت کے الزام کے ساتھ جوڑ دیا ہے، جو ان کی ظالمانہ اور دارالعلوم کی عزت کے خلاف سازش ہے۔ یہ خبیث حرکت کرکے مجھے اور دارالعلوم کو بدنام کرنے اور عوام کو بدظن کرنے کی ناپاک سازش کے تحت کیاگیا، جس میں انشاء اللہ ان لوگوں کی ناکامی اور شکست ہوگی۔
میں فتویٰ نویسی کا کام چھیالیس سال سے کررہا ہوں اورالحمدللہ کسی سے ایک پیسہ بھی فتویٰ کے عوض میں نہیں لیا ہے۔ بہت موٹی سی بات ہے کہ رشوت تو وہاں لی جاتی ہے جہاں شریعت کے خلاف اور سائل کی مرضی کے مطابق فتویٰ دیا جائے۔ ہم نے سائل کی مرضی کے مطابق مسئلہ نہیں لکھا ہے بلکہ اصل شریعت کے مطابق لکھا ہے۔ اس میں پیسے لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“
یہ واقعہ صبح ساڑھے دس بجے پیش آیا اور حضرت مفتی صاحب کو جو رقم دی گئی انھوں نے اس کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا اور بالکل قبول نہیں کیا، اس کے گواہ حضرت مفتی محمود حسن صاحب بلندشہری ہیں، جن کی نشست حضرت مفتی صاحب کے سامنے تقریباً دو گز کے فاصلہ پر ہے ان کی تحریری شہادت حسب ذیل ہے:
”۷/مئی ۲۰۰۶/ بروزاتوار ایک فتویٰ (ڈاک بہی ۵۵۸، جواب ۵۰۷) پر تصدیقی دستخط کرانے کے لیے ایک شخص میرے پاس آیا،اس نے اپنا نام عمران بتایا اس کے ساتھ اور بھی لوگ تھے اس فتویٰ پر میں نے دستخط کردئیے یہ وقت تقریباً ساڑھے دس بجے صبح کا تھا عمران اور اس کے ساتھی جو غالباً دو تھے تینوں میرے پاس سے اٹھ کر مفتی حبیب الرحمن صاحب کے پاس جاکر بیٹھ گئے، میری نشست گاہ مفتی صاحب کے قریب ہی میں ہے میں نے دیکھا اور سنا کہ وہ لوگ مفتی صاحب کو رقم دینے کی پیش کش کررہے ہیں حضرت مفتی صاحب نے بہت سختی بلکہ ڈانٹ کر ان کو منع کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب ہمارے یہاں نہیں ہوتا، ان لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ اگر آپ فتویٰ پر معاوضہ نہیں لیتے تو ہمارے طرف سے ہدیہ کے طورپر قبول کرلیں مفتی حبیب الرحمن صاحب نے اس پیش کش کو بھی شدت سے رد کردیا۔“
یہ لکھا جاچکا ہے کہ یہ پروگرام جس طرح ترتیب دیاگیا تھا اور جن منفی تجزیوں اور تبصروں کے ماحول میں نشرکیاگیاایک خالی الذہن کو اس کو دیکھ کر حقیقت کایقین ہوتا ہے۔اس پروگرام کے نشر ہوتے ہی ٹیلی فون کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، ٹیلی فون کرنے والے وہی کہہ رہے تھے جو انھیں دکھایا اور سنایاگیا اس لیے گرامی قدر عالی جاہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مدظلہ مہتمم دارالعلوم دیوبند نے معاملہ کی تحقیق اوراس کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ یہ تحقیقاتی کمیٹی پوری تحقیق،مکمل چھان بین، اور ہرپہلو سے اس کا جائزہ لے کر جس نتیجہ پر پہنچی وہ حسب ذیل ہے:
”اسٹار نیوز چینل کی بنیاد پر ۱۷/ستمبر کو جناب مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب کو معطل کیاگیا تھا، تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سے ثابت ہوا کہ وہ خبر خلاف واقعہ اور ایک منصوبہ بند سازش کاحصہ تھی، اس سلسلے میں تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے مفتی صاحب موصوف کے بیان صفائی کو درج ذیل نکات کی بنیاد پر صحیح قرار دیا ہے:
(۱) فتویٰ دینے سے پہلے لین دین کی کوئی بات نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مستفتی کے حسب منشاء غلط فتویٰ دیاگیا ہو بلکہ مفتی صاحب نے صحیح فتویٰ دیا، جس کے بعد مستفتی نے بطور نذرانہ رقم دینے کی کوشش کی اورمفتی صاحب نے اس کو بھی مسترد کردیا۔
(۲) پورے منظر میں مفتی صاحب،مستفتی کی طرف سے پیش کی جانے والی رقم وصول کرکے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ اگر مفتی صاحب نے رقم اپنے ہاتھ میں لی ہوتی تو یہ منظر سب سے اہم تھا، جو ٹی، وی میں نمایاں طور پر دکھایا جاتا۔ اور جناب مفتی حبیب الرحمن صاحب کو جو بیگ میں روپئے رکھتے ہوئے ٹی وی پر دکھایا گیا ہے وہ ایک کتب خانہ سے آئی ہوئی ان کی ذاتی رقم تھی، جس کی تصدیق کتب خانہ سے ہوگئی ہے۔
(۳) یہ واقعہ ۷/مئی ۲۰۰۶/ کو دن کے ساڑھے دس بجے پیش آیا جو کسی اذان کا وقت نہیں ہے جب کہ سی، ڈی میں مفتی صاحب کے رقم لینے سے انکار اوراس پر ناگواری کے الفاظ کو دبانے کے لیے اذان کی آواز جوڑدی گئی، جو کھلی ہوئی جعل سازی ہے۔
(۴) دارالافتاء میں موجود فتویٰ کی نقل دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ چینل نے فتویٰ کی جو عبارت دکھائی ہے اس میں ایک جگہ اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے۔
پھر یہ کہ خود محمد عمران نامی شخص (جومستفتی کے ساتھ آیا تھا) نے اسٹار ٹی وی پر اپنی غلطی کا اعتراف کیا ہے اوراس نے صاف طور پر کہا ہے کہ میں نے مفتی صاحب کو رقم دلوانے کی کوشش کی مگر مفتی صاحب نے اس کو لینے سے انکار کردیا۔ نیز مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ اور مدرسہ امینیہ کشمیری گیٹ دہلی کے بارے میں مذکورہ بالا چینل کی فریب کاری عالم آشکارا ہوچکی ہے کہ چندہ کے طورپر دی گئی رقم کو فتویٰ کا عوض ظاہر کیا، جب کہ چندہ کی رسیدیں معمول کے مطابق مستفتیوں کو دی گئیں مگر ”بے نقاب“ والوں نے ان کو نہیں دکھایا۔
یہ تمام امور اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اسٹار نیوز چینل کا پروگرام ”بے نقاب“ منصوبہ بند سازش کا حصہ تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر سازشوں کاجو سلسلہ جاری ہے اس کے پیش نظر اس قسم کی سازش یوں بھی غیرمتوقع نہیں کہی جاسکتی، جب کہ یہاں دو باتیں اور غور طلب ہیں ایک تویہ کہ برصغیر میں اسلام کی بقا و تحفظ کا کام چوں کہ مدارس اسلامیہ کے ذریعہ ہورہا ہے اس لیے ان کے خلاف سازشوں کا تسلسل امر واقعہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اس وقت سپریم کورٹ میں نظام قضاء و نظام افتاء کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہے، جس میں دارالعلوم دیوبند کو بھی فریق بناکر دارالافتاء اورافتاء کی تعلیم بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس مقدمہ کی سماعت عنقریب متوقع ہے، اس موقع پر علماء وارباب فتویٰ سے اعتماد اٹھانے والی مذکورہ سازش اس مقدمہ کو متاثر کرنے کی ایک کوشش بھی معلوم ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں اس وقت اس مذموم سازش کا ایک اہم مقصد یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رمضان شریف کے موقع پر مدارس و علماء سے مسلمانوں کو بدظن کردیا جائے تاکہ وہ ان سے برداشتہ خاطر ہوکر ان مدرسوں کی امداد بند کردیں اوریہ مدارس ختم ہوجائیں۔ اس طرح خود مسلمانوں کے ہاتھوں مدارس کو بند کراکے اپنے مذموم مقصد کو پورا کرلیا جائے۔
اس لیے عام مسلمانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ اسلام دشمنوں کی اس سازش کو سمجھیں اور حسب سابق مدارس کی امداد کا سلسلہ جاری رکھیں۔
اسٹار نیوزچینل کی فریب کاری واضح ہوجانے کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ جناب مفتی حبیب الرحمن صاحب کے تعطل کو ختم کرکے ان کو بحال کردیا جائے چنانچہ موصوف کو منصب افتاء پر بحال کردیاگیا ہے۔“
(جاری کردہ دفتر اہتمام دارالعلوم دیوبند ۱/۹/۱۴۲۷ھ = ۲۵/۹/۲۰۰۶/)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ11، جلد: 90 ،شوال المکرم1427 ہجری مطابق نومبر2006ء