از: سعید الظفر ٹانڈوی، متعلّم دورہٴ حدیث شریف، دارالعلوم دیوبند
فاتحہ کی روح
عرب کے ظلمت کدہ میں اسلام کا آفتاب طلوع ہوا اور پورے عرب معاشرے کو برائیوں کی گندگی سے پاک و صاف کردیا، چاروں طرف اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اشاروں پر جان نچھاور کرنے والے پیدا ہوگئے۔ برائیاں کافور ہوگئیں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کیلئے اس امت کی رہنمائی کے واسطے بے نظیر تعلیمات اور مخصوص کامیابی اور فوز وفلاح کے طریقے چھوڑ کر دنیا سے سفر آخرت اختیار فرمایا۔
لیکن خلفاء راشدین کے مبارک دور ہی میں طرح طرح کے فتنہ سراٹھانے لگے اور بدعات و خرافات جنم لینے لگے۔ الغرض معاشرہ میں گندگی سرابھارنے لگی۔ اس میں کچھ ہاتھ غیروں کے رہے اور کچھ اسلام کے نادان دوستوں کے۔ لیجئے بدعت کی ایجاد کا ایک رخ ملاحظہ فرمائیے۔
رسومات کا تذکرہ تھا کسی شخص نے دریافت کیا کہ حضرت مروجہ فاتحہ کی ابتداء کیوں کر ہوئی۔ فرمانے لگے میاں! کسی مسجد میں ملا رہتا تھا، محلہ بھر کی روٹیاں اس کے پاس جمع ہوتی تھیں۔ اس نے ذہنوں میں ڈالنا شروع کیا کہ کھانے پر پڑھ کر مردوں کو ثواب پہچاتا ہوں۔ محلہ والے ان پڑھ اورجاہل یوں سمجھتے تھے کہ ثواب پہنچانے کی کوئی ترکیب ہوگی، جو ہر کسی کو نہیں آتی۔
ایک دن کوئی بڑھیا روٹی لے کر آئی تو ملا جی موجود نہ تھے۔ بیچارہ ایک مسافر بیٹھا تک رہا تھا، اس کو ترس آیا اوراس کو روٹی دیدی کہ لو میاں جی یہ میری بیٹی کو ثواب پہنچے گا مسافر نے لے کر کھانی شروع کردی کہ اتنے میں ملا جی آگئے۔ دیکھا تو ساجھی بیٹھا ان کا حق نگل رہا تھا۔ تن بدن میں آگ لگ گئی۔ قہر درویش بجان درویش کچھ بولے نہیں، حجرے میں گئے اور موٹا سا ڈنڈا نکال کر مسجد میں آکر دیوانہ وار دیواروں کو چھیتنا شروع کیا ادھر آئے دھم اِدھر بھاگے دھم، مخبوط الحواس بنے ہوئے، سر کے بال بکھیرے بینٹی کے سے بیسیوں چکر لگادئیے اور ساتھ میں بکواس بھی کی کہ نہیں جانے کی کھڑی تو رہ لے چکھ مزا۔ غرض محلہ والوں نے جو شور سنا تو بھاگے ہوئے آئے کہ ملاجی کو جنون ہوگیا۔ لوگ ہیں کہ ملاجی کو کولی بھرتے ہیں اور ملا جی ہیں کہ آپے سے باہر ان کے ہاتھوں سے نکل نکل کر اُسی سونٹہ بازی اور بکواس میں سرگرم ہیں۔ آخر جب تھک گئے تو لگے پسینہ پوچھنے۔ محلہ والوں نے جو ہوش میں آیا دیکھا تو پوچھا ”ملا جی کیا ہوگیا تھا“؟ کہنے لگے ہوکیاگیا تھا تم جاہلوں نے مجھے آج مرواچھوڑا ہوتا، کوئی کم بخت فاتحہ کی روٹیاں لائی اوراجنبی اناڑی آدمی کو دے گئی، جسے نہ محلوں کے مردوں کی خبر نہ یہاں رہے تو مردوں کی شناخت بھی ہو ناواقف آدمی پہنچائے تو کیونکرپہنچائے، آخر ساری روحیں جمع ہوگئیں اور لگیں باہم لڑنے، وہ کہے میراہے وہ کہے میرا۔ جس بیچاری کو پہنچانی تھی اس کے ہاتھ سے چھینے لیویں،جب ڈنڈا لے کر نکلا تو مارنے بہکانے اور بڑھیا کی لونڈیا کا پیچھا چھڑانے میں خون پسینہ ایک ہوگیا، خدا خدا کرکے فتح پائی۔ اگر ایک دفعہ اور ایسا ہوا تومیں مرمٹا۔ محلہ والوں پر اس ڈھنگ کا اتنا اثر ہوا کہ کچھ ٹھیک نہیں، سب کو یقین ہوگیا کہ میاں ہمیشہ کا رہتا ملا سب کی روحوں سے واقف ہے یہ جس کو پہنچائے اس کو پہنچے ہے، اجنبی آدمی کو کھانا دینا تو ضائع ہی کرنا ہے جب اسے مردہ ہی معلوم نہیں تو پہنچائے گا کیسے۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب، دیوبند،ج:۲،ص:۹۷)
میں فقیر ہوں
اسلام کی بے نظیر تعلیمات میں سے ایک تعلیم سلام ہے جو محبت و اخوت اور دعا کا سب سے بڑا اوراہم ذریعہ ماناگیا ہے۔ سلام شعائر اسلام میں سے ہے، دیندار مسلمان کی علامت ہے اور بقول حضرت امام غزالی رحمة اللہ علیہ کہ انسان السلام علیکم کہنے سے ترک کلام کے گناہ سے نکل جاتا ہے۔ دیکھئے ترک سلام پر حضرت کی تنبیہ۔
ایک مرتبہ ایک صاحب آئے اور بولے ”حضرت سلامت“ آپ کے چہرے پر غصے کا اثر ظاہر ہوگیا اور فرمایا ”مسلمانو! اسلام چاہئے، یہ کون ہے حضرت سلامت والا“ اس شخص نے عرض کیا میں کچہری میں رہتا ہوں وہی عادت ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا ”یہاں تو کوئی کچہری نہیں ہے بھائی میں تو فقیر آدمی ہوں۔“ (تذکرہ الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲،ص:۷۲)
اکرام علم
میں سمجھتا ہوں کہ روئے زمین پر علم سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں ہوگی، یاکوئی اس کی قیمت ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ علم اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے اور یہ صفت خاص بندوں کو ہی دی جاتی ہے، تعلیم کی بدولت انسان شرافت کے اعلیٰ معیار پر ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ کسی اہل فکر کا قول ہے کہ جس آدمی میں علم نہیں ، وہ آدمی نہیں جانور ہے اورجس گھر میں کوئی علم والا نہیں، وہ گھر نہیں، جانوروں کا تھان ہے اورجس ملک میں علم کا رواج نہیں، وہ ملک نہیں، حیوانات کا جنگل ہے۔ علم کا تقابل کسی چیز سے نہیں کیاجاسکتا، چنانچہ لارڈ میکالے کا قول ہے کہ اگر روئے زمین کی بادشاہت مجھے دیدی جائے اور میرا کتب خانہ مجھ سے لے لیا جائے تو میں اس پر ہرگز رضامند نہ ہوسکوں گا اور دعا کرتا تھا کہ مروں تو کتب خانے میں مروں۔
ہمارے اکابر نے جتنی علم کی قدر کی اس سے کہیں زیادہ اہل علم کا اکرام کیا، کیونکہ کسی کا قول ہے کہ ستارے آسمان کا زیور ہیں اور تعلیم یافتہ انسان زمین کی زینت۔ دیکھئے ذیل کے واقعہ میں حضرت کی عملی زندگی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کوئی دولت مند حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے چونکہ اخلاص لے کر آئے تھے اس لئے حضرت نے ضیافت کی۔ اتفاق سے مولانا محمودحسن صاحب اس روز وہاں حاضر تھے، دوپہر کو جب دسترخوان بچھا اور حضرت مہمان کو لیکر کھانا کھانے بیٹھے تو مولوی صاحب وہاں سے سرکے۔ مبادا رئیس مہمان کو میرے ساتھ کھانا ناگوار ہو، حضرت نے پیچھے ہٹتے دیکھا تو فرمایا آتے کیوں نہیں؟مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آپ نوش فرمائیں، ہم بعد میں کھالیں گے۔ حضرت سمجھ گئے اور بے ساختہ فرمایا یہ نہیں ہوسکتا کہ تم ساتھ نہ کھاؤ اگران کو تمہارے ساتھ کھانا ناگوار ہوتو یہ اٹھ جائیں مجھے ان سے کیا لینا، تمہارے ساتھ تو میری موت زندگی کا ساتھ ہے، اتنا سنتے ہی مولوی صاحب دسترخوان پر آبیٹھے۔ (تذکرہ الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲،ص:۷۹)
حسن تنبیہ
رحم وکرم، شفقت، عقل ودانائی، حاضرجوابی، حلم وبردباری، بلند اخلاق اعلیٰ ظرف وغیرہ اوصاف ہمارے اکابر کا طرئہ امتیاز رہے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ اصلاح ظاہر و باطن میں حسن تنبیہ اور حکمت سے کام لیا ۔ روئے زمین پرعلم اور حکمت کاچولی دامن کا ساتھ ہے، ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے۔
حضرت شعبی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ کوئی شخص ملک شام کے آخر سے چل کر یمن کے آخر تک محض اس لئے جائے کہ حکمت کا ایک بول سن لے، تو میرے نزدیک اس کا سفر ضائع نہیں گیا۔ ملاحظہ فرمائیے تنبیہ میں حکمت کا لحاظ۔
ایک مرتبہ چند آدمی آپ کے پاس بیٹھے تھے، جن کے کپڑے میلے اور عرق آلود ہونے کی وجہ سے بو آتی تھی، آپ دل شکنی کے اندیشے سے ان کو صاف طور سے فرما نہ سکے ۔ مولوی محمد یحییٰ صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا: ”میاں مولوی یحییٰ کبھی نہا بھی لیا کرو“ دیکھو بدن میں پسینہ کی بو آنے لگی ہے۔ (تذکرہ الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲،ص:۷۷)
بے ادب
”با ادب بانصیب، بے ادب بے نصیب“ مشہور مقولہ ہے۔ یہ مشاہدہ ہے کہ بے ادب بے نصیب اور پراگندہ خاطر ہوتا ہے۔ یوں تو ہر مجلس میں اس مجلس کا لحاظ کرتے ہوئے بیٹھنا چاہئے، لیکن خصوصاً علماء اور صلحاء کی مجلس میں اس کا خاص لحاظ رکھنا ضروری ہے، تاکہ اس مجلس کے فیوض و برکات سے دامن خالی نہ رہے۔
ایک دفعہ ایک صاحب تشریف لائے، حضرت اس وقت بیت الخلاء تشریف لے گئے تھے آنے والے مسافر کچھ ایسے مغرور و جری تھے کہ بیٹھے ہوئے مجمع سے نہ سلام نہ دعاء، مونڈھا اٹھا، سب سے آگے بڑھا، حضرت کی چارپائی کے پاس جابیٹھے۔ حضرت استنجے سے فارغ ہوکر تشریف لائے تو دورہی سے انھوں نے پکارا ”جناب آداب“ حضرت نے بے ساختہ جواب دیا ”کون بے ادب ہے جن کو شریعت کا ایک ادب بھی نہیں معلوم“ (تذکرہ الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲،ص:۷۱)
شیعوں کی حاضری
ہم نے اب تک آپ کی خدمت میں حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے ذکاوت حس، فراست ایمانی وغیرہ کے بے بدل واقعات پیش کئے۔ اور آپ نے اس میں حیرت انگیز نکات، علمی شگوفے، فرحت آمیز واقعات ملاحظہ فرمائے۔ ان واقعات کے پس منظر میں ایک قلب سلیم اور مادیت سے بے نیاز ایسی نظیر ملتی ہے،جس سے فاسد عقیدہ رکھنے والوں کے چہرے ظاہر ہوجاتے ہیں اور حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ پر اس کی دسیسہ کاری واضح ہوجاتی ہے۔ دیکھئے شیعوں کی کھلتی پول۔
ایک مرتبہ دو شخص اجنبی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام، مصافحہ کے بعد بیعت کی تمنا ظاہر کی۔ آپ نے فرمایا دورکعت پڑھو۔ حضرت کے اس ارشاد پر تھوڑی دیر تو دونوں صاحب گردن جھکائے بیٹھے رہے۔ پھر چپکے ہی اٹھ کر چل دئے جب دروازے سے باہر ہوئے تب حضرت نے فرمایا۔ دونوں شیعہ تھے۔ میرا امتحان لینے آئے تھے۔ حاضرین میں سے بعض آدمی اس کی تحقیق کو ان کے پیچھے گئے اور معلوم کیا توواقع میں رافضی تھے۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ مکتبہ الشیخ سہارنپور،ج:۲، ص:۲۲۷)
مولوئی نصرانی
حدیث شریف میں آتا ہے ”المرء مع من احب“ آدمی کا حشر اور انجام اسی کے ساتھ ہوگا جس کو وہ پسند کرتا ہے۔ اس فانی دنیا میں اگر انسان صلحاء اور علماء کے طور طریقوں کو پسند کرتا ہے، تو انجام کار آخرت میں انہیں کے ساتھ ہوگا۔ اور اگر فاسق و فاجر لوگوں کے طریقہٴ زندگی میں وہ لطف لیتا ہے اور انہیں کی راہ اپناتا ہے۔ تو حدیث کی روشنی میں یہ کہنا زیادتی نہیں ہوگی کہ وہ شخص اپنے ہی محبوب کا دار آخرت میں ہم سفر ہوگا۔ دیکھئے دار فانی میں ہی اس کی مثال:
ایک بار منشی صاحب نے دریافت کیا کہ حضرت بیعت کس کس گناہ سے فسخ ہوجاتی ہے۔ آپ نے فرمایا حدیث میں آیا ہے ”المر مع من احب“ پس جب تک اپنے محبوب کے مطابق رہے گا، بیعت بھی رہے گی۔ اور مخالفت کرے گا، تو فسخ ہوجائے گی۔
اس باب میں ارشاد فرمایا کہ کانپور میں کوئی نصرانی جو کسی اعلیٰ عہدہ پر تھا، مسلمان ہوگیاتھا۔ مصلحتاً چھپائے ہوئے تھا۔اتفاق سے اس کا تبادلہ کسی دوسری جگہ کو ہوگیا۔ اس نے ان مولوی صاحب کو جن سے دین اسلام کی باتیں سیکھی تھیں، اپنے تبادلہ سے مطلع کیا اور تمنا کی کہ کسی دیندار شخص کو مجھے دیں، جس سے علم دین حاصل کرتا رہوں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے ایک قابل شاگرد کو اس کے ساتھ کردیا کچھ عرصہ بعد جب یہ نصرانی بیمار ہوا، تو اس نے مولوی صاحب کے شاگرد کو کچھ روپے دئیے اور کہا کہ جب میں مرجاؤں اور عیسائی مجھے اپنے قبرستان میں دفن کرآویں، تو تم رات کو جاکر مجھے قبر سے نکالنا اور مسلمانوں کے مقبرے میں دفن کردینا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب مولوی صاحب کے شاگرد نے حسب وصیت رات کو ان کی قبر کھولی تو دیکھا کہ اس میں وہ نصرانی تو ہے نہیں، البتہ مولوی صاحب پڑے ہیں۔ وہ سخت پشیمان ہوا کہ یہ ماجرا کیا ہے، میرے استاذ یہاں کیسے؟ آخر دریافت سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب نصرانیوں کے طور طریق پسند کرتے اوراچھا جانتے تھے۔ (تذکرہ الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲،ص:۳۱۵)
بے وضو تلاوت
اللہ والوں کے دل مسلسل ریاضت اور مجاہدات کی وجہ سے صاف و شفاف آئینہ کے مثل ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی فراست ایمانی سے اشیاء و معاملات اور واقعات کے حقائق تک پہنچ جاتے ہیں۔ حقیقتیں ان پر منکشف ہوجاتی ہیں۔ یہ حقائق بیش بہا معلومات کا خزانہ ہوتے ہیں۔ دیکھئے آئینہٴ شفاف کا عکس جمیل۔
ایک بار منشی ابراہیم خاں صاحب نے دریافت کیا کہ حضرت قرآن شریف کے بے وضو پڑھتے تو جی ہچکچاتا ہے اور وضو سے ہر وقت رہا نہیں جاتا۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ورق گردانی بجائے ہاتھ کے چاقو یا کسی اور چیز سے کر لیا کرو اور بڑا قرآن مجید رکھو، چھوٹا قرآن رکھنا مکرو ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہینڈن ایک ندی ہے قریب مدرسہ شاہ عبدالرحیم دہلوی کے۔ ایک دفعہ اس ندی کی ایک ڈھانگ گری اس میں سے ایک لاش جوں کی توں نکلی، جس کا کفن میلاتھا اور وہ وہاں سے بہہ کر عین دھار میں ٹھہرگئی کچھ دیر کے بعد دوسری دھانگ گری اور اس میں سے بھی ایک لاش نکلی جن کا کفن بالکل صاف تھا کہیں داغ دھبہ بھی نہ تھا۔ وہ پہلی لاش سے مل کر دھاری دار چلدی جیسے کوئی کسی کا منتظر ہو۔ اور دونوں مل کر روانہ ہوجاویں۔ لوگوں نے ان لاشوں کی تحقیقات شروع کردی۔ جستجو کے بعد ایک بڑھیا نے بتایا کہ یہ دونوں قرآن کے حافظ تھے۔ اس کے بعدامام ربانی نے ارشاد فرمایا اب ایسا قیاس جاتا ہے کہ جس کا کفن صاف تھا وہ باوضو تلاوت کرتا ہوگا اور دوسرا بے وضو۔ (تذکرہ الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲،ص:۳۱۵)
مرگئے مردود
”مرگئے مردود، فاتحہ نہ درود“ یہ عام کہاوت ہے جو عموماً ایسے لوگوں کیلئے بولتے ہیں،جن کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور گمنامی میں دنیا سے رخصت ہوگئے ہوں، لیکن حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ نے اس محاورہ کا پردہ یوں اٹھایا ہے:
ایک بار ارشاد فرمایا: اس اصطلاح کے معنی کہ ”مرگئے مردود نہ فاتحہ نہ درود“ گڑھی عبداللہ خان میں جاکر معلوم ہوئے کہ فاتحہ فقراء کے کھانے کو، کہ خدا کیلئے کیا جاوے، کہتے ہیں۔ اور اس کے اگلے دن جوبرادری کاکھانا ہوتا ہے اس کو درود کہتے ہیں۔ (تذکرہ الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲،ص:۳۱۳) (باقی آئندہ)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10، جلد: 90 ،رمضان المبارک1427 ہجری مطابق اکتوبر2006ء