از: سعید الظفر ٹانڈوی، متعلّم دورہٴ حدیث شریف، دارالعلوم دیوبند
ذکاوتِ حس
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی شکل و صورت الگ الگ بنائی اسی طرح سب کے ذہن بھی مختلف بنائے غور و فکر اور سوچ وچار کے زاوئیے بھی الگ الگ ہیں، کوئی حساس ہے تو کوئی بے حس، کوئی ذکی ہے تو کوئی بودا، ذکاوت وذہانت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ معدود ے چند تو ایسے ذکی الحس ہوتے ہیں کہ ان کی نظیر بھی نہیں ملتی، علامہ ابن الجوزی کی ایک کتاب کا نام ہے ”کتاب الاذکیا“ اس میں مشہور ذہین و فطین اور ذکی الحس لوگوں کے واقعات لکھے ہیں۔ علامہ ذہبی نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کو دنیا کے ذکی ترین لوگوں میں شمار کیا ہے، ان کے الفاظ ہیں: ”کان من أذکیاء بنی آدم“
حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے واقعات پڑھ کر بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ اپنے معاصرین میں نہایت ذکی تھے۔ باوجود اس کے کہ حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کی مادی آنکھیں جواب دے چکی تھیں البتہ ذکاوت اور دل کی آنکھیں روشن تھیں۔ ملاحظہ فرمائیے ذکاوت حس کے حیرت انگیز واقعات:
(۱) ایک بار مولانا یحییٰ(۱) صاحب اپنے بھتیجے مولانا محمد الیاس(۲) صاحب (بانی تبلیغ) کو لیکر آئے، اس وقت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نابینا ہوچکے تھے۔ اور حضرت الیاس صاحب کی عمر نو، دس سال کے قریب ہوگی، بھتیجے کو مجلس کے ایک کنارے چپکے سے بٹھادیا تاکہ حضرت کو علم نہ ہو، جمعہ کا دن تھا، اس دن خاص طور سے ملاقاتیوں کی کثرت ہوتی تھی۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد حضرت گنگوہی نے گردن اٹھائی اور فرمایا کہ بچے کا سانس معلوم ہوتا ہے تب انہیں بتانا پڑگیا کہ مولانا یحییٰ صاحب کا بھتیجہ آیا ہوا ہے۔ (مولانا رشید احمد گنگوہی،ص:۱۸۲)
حضرت گنگوہی کے ذکاوت حس کے واقعات بہت ہیں، ان میں سے ایک آپ کے ملاحظہ سے گزر چکا ہے، ہماری کوشش یہ ہے کہ اس عنوان کے ذیل میں چند واقعات مزید آپ کے سامنے کردئیے جائیں، اس سے نہ صرف یہ کہ ذکاوت حس کا اندازہ ہوگا بلکہ ذہن اس طرف بھی منتقل ہوگا کہ ان واقعات کو کرامات کے زمرہ میں شمار کرلیا جائے۔ ملاحظہ فرمائیے ایک حیرت انگیز واقعہ:
ایک مرتبہ بعد نماز مغرب نمبردار فضل حق صاحب کا لڑکا اکرام الحق بھی لوگوں کے ساتھ حضرت گنگوہی کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ تو نظر سے معذور تھے آپ کو خبر نہ تھی کہ کون کون موجود ہیں، جب مجلس سے اٹھ کر مکان تشریف لے جانے لگے اور ادھر سے گزرے جہاں اکرام الحق بیٹھا ہوا تھا تو آپ وہاں ٹھہرگئے اور فرمایا کہ نمبردار کی بوآرہی ہے تب لوگوں نے بتایا کہ حضرت نمبردار کا لڑکا اکرام الحق ہے۔ (مولانا رشید احمد گنگوہی،ص:۱۸۳، مطبوعہ شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند)
ذکاوت حس کے ذیل میں جوں جوں ہم آگے بڑھتے جارہے ہیں ہماری حیرت و استعجاب میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اگر اس مادی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو شاید باید اس دور میں کوئی ایسا شخص نظر آجائے، جس کی ذکاوت حس اس قدر تیز ہو کہ جس کو ماچس جلانے کی بو بھی محسوس ہوجائے اور گندھک جلانے پر استفسار بھی ہو۔ پڑھئے ذیل کا واقعہ اور آپ بھی ہماری طرح حیرت کے دریا میں غوطے لگائیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ذکاوت حضرت گنگوہی کے امتیازات میں سے ہے۔ آئندہ آپ ایسے واقعات بھی پڑھیں گے جو حضرت گنگوہی کے ذکاوت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے کی واضح دلیل ہے۔ جس کی شہادت یہ واقعہ دے رہا ہے۔
حضرت ایک بار مسجد میں تشریف لے گئے فرش پر قدم رکھتے ہی فرمایا مسجد میں گندھک کی بو کیوں ہے، لوگ حیرت زدہ ادھر ادھر تلاش کررہے ہیں کہیں کوئی چیز نہیں ملی، کچھ دیر کے بعد اس راز سے پردہ اٹھاکہ مسجد کے اندر جس سے یہ چراغ جلایا جاتا تھا اس کی یہ بو تھی۔ (ماچس) (مولانا رشید احمد گنگوہی، ص:۱۸۴)
اب تک آپ ذکاوت حس کے کئی واقعات ملاحظہ کرچکے ہیں، یقینا رب کریم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کو بعض لوگوں سے بھی اشرف بنایا اور ان کو کچھ ایسی چیزیں قدرت نے بطور خاص ودیعت کی ہیں کہ جس کی بناء پر یقین سا ہوتا ہے کہ قدرت نے ان کی بطور خاص تربیت فرمائی ہے۔ قدرت کا شاہکار اور کرشمہ سازی پوری طرح ان میں رونما ہوتی ہے، صرف شکل و صورت ہی نہیں بلکہ عقل و دانائی اور ذکاوت حس کے واقعات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں، ایسی قدآور شخصیات اپنے معاصرین پر سبقت لے گئیں۔ جیسا کہ آپ حضرت گنگوہیکے صرف چند واقعات پڑھ کر حیرت میں ہیں۔
حضرت گنگوہی نے اپنی مادی آنکھیں تو عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں رو روکر پائے یار پر نچھاور کردیں۔ مگر آپ کے دل کی آنکھیں روشن تھیں، جیساکہ ہم نے ماقبل میں بیان کیا۔ اس نورِ قلب کی وجہ سے حضرت کو ایسی دقیق اور باریک چیزوں کا صرف بو آنے سے علم ہوجاتا تھا، کہ جس کا علم تندرست و توانا انسان کو حد درجے کوشش کرنے کے بعد حاصل نہیں ہوتا ہے، اور وہ اپنی مادی آنکھوں کے ساتھ بھی بے آنکھوں کا رہتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے اس کی تصدیق کرتا ایک اور واقعہ۔
حضرت گنگوہی کے مہمان سہ دری میں بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے حالانکہ دسترخوان اٹھاکر بوریہ جھاڑ دیا جاتا تھا، مگر حضرت تشریف لاتے تو جو کھانا کھایا جاتا اس کا نام لے کر فرمادیتے کہ فلاں شئی کی خوشبو آتی ہے۔ ایک مرتبہ کھانا کھانے میں آپ نے فرمایا کہ اس میں کوتھمیر کی خوشبو آتی ہے، ہر چند غور کیا مگر مجمع میں سے کسی کواحساس نہ ہوا۔ تحقیق کیا تو معلوم ہوا کہ پکتی ہانڈی میں پانچ چار پتہ ڈال دئیے گئے تھے۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند،ج:۲،ص:۸۳)
حضرت گنگوہی کی بصیرت اب آپ حضرات پر روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے اور اس میں ذرہ برابر کوئی شک نہیں رہ گیا کہ آپ اپنے معاصرین پر علم وعمل کے ساتھ ساتھ ذہانت و بصیرت میں بھی خاص امتیاز رکھتے تھے۔
ہم نے ابھی بیان کیا تھا کہ حضرت گنگوہی انسان کی سانسوں اور بے جانوں کی خوشبوؤں سے متعین فرمادیتے تھے، اور ان کی آمد و رفت اور ان کی حرکات و سکنات کی نشاندہی فرمادیا کرتے تھے، اس کے متعلق ایک واقعہ:
مولوی محمد یحییٰ صاحب فرماتے تھے کہ عرصہ ہوا میری یہ عادت تھی کہ جب حضرت مکان تشریف لے جاتے تو میں آپ کے تکیہ پر سر رکھ کر لیٹ جاتا اور آپ کے پاؤں کی آہٹ پاتے ہی اٹھ جاتا، دو ایک بار تو ایسا ہوگیا، حضرت نے کچھ نہ فرمایا۔
ایک مرتبہ تکیہ پر سر رکھ کر لیٹے تو فرمایاکہ بچے کی بوآتی ہے، اس کے بعد میں نے آپ کے تکیہ پر کبھی سر نہیں رکھا۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب، ج:۲، ص:۸۳)
حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے انتقال کے واقعہ کو ایک زمانہ گزرگیا، لیکن آج بھی آپ اہل ذکاء کے دل و دماغ پر سوار ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ آج بھی ذہانت و فطانت کے بوستاں کی ہم کو سیر کرارہے ہیں۔ تاریخ میں ذہانت و فطانت کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عصر حاضر میں ذہین و ذکی لوگوں کی بے حد کمی ہے، جس طرح یہ زمانہ علمی انحطاط کا شکار ہے اسی طرح ذکاوتِ حس سے تقریباً خالی ہے۔ لیکن معدودے چند ہستیاں ماضی قریب میں ایسی گزری ہیں جو متقدمین کا کفارہ بن کر سامنے آئی ہیں۔ ذرا حضرت گنگوہی کی ذکاوت حس کا یہ نادر واقعہ تو دیکھئے۔
عبدالرحمن فرماتے تھے، مجھے چائے کا بہت شوق تھا اور اپنے ہاتھ سے پکایا کرتا تھا۔ حضرت جب چائے پیتے تو فرماتے کہ چائے میں کچھ پانی کا ذائقہ آتا ہے۔ میں نے ایک روز دل میں فیصلہ کیا، اچھا آج اس قدر پکاؤں گا کہ بھاپ بن جائے چنانچہ کئی گھنٹہ تک پکایا، جب تیار ہوئی اور حضرت کو پلائی، فرمایاکہ کچھ پانی کا ذائقہ تو اس میں بھی ہے، میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ وہم کا درجہ ہے۔ پھر مجھے خیال ہوا کہ میں نے اس میں کچھ دودھ گھر سے لاکر ڈالا تھا جو کڑھا ہوا تھا، پوچھوں کہیں اس میں تو پانی نہ تھا۔ آخر گھر جاکر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ گھر کے لوگوں نے اس میں کچھ پانی ڈال دیا تھا۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲، ص:۱۸۲)
اور من جملہ انہیں میں سے ایک یہ واقعہ بھی پیش خدمت ہے:
حضرت گنگوہی ایک مرتبہ استنجاء کیلئے بیت الخلاء تشریف لے گئے، گولہ کے قریب پہنچے تو ٹھٹکے اور فرمایا کہ تمباکو کی بو آتی ہے، آپ تو یہ فرماکر چلے گئے۔ خادم نے غور کے ساتھ دیکھا تو پان کی پیک پڑی ہوئی تھی جو خشک ہولی تھی، غرض اس کو کھرچا اور زمین کو صاف کردیا گیا، واپس تشریف لائے تو فرمایا اب نہیں ہے۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲، ص: ۷۶)
فراست ایمانی
حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کو قدرت نے بصیرت سے نوازا تھا، اور یہی نہیں بلکہ آپ راہ سلوک و طریقت میں بھی امتیاز و خصوصیات حاصل کرکے شہرت اور بلندی کو بھی اپنا تابع بناچکے تھے۔ آپ کے زمانے کے بڑے بڑے اہل علم اور اولیاء اللہ آپ کے علم وعمل اور فراست ایمانی کے قائل تھے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا دل و دماغ عطا فرمایا تھا کہ جس چیز کو بڑی بڑی جماعتیں مل کر بھی محسوس نہ کرسکتی ہوں، اس کو صرف آپ اپنی فراست ایمانی سے معلوم کرلیتے تھے، اور کشف اسرار کے بعد اہل زمانہ انگشت بدنداں اور محو حیرت ہوجاتے تھے۔ دیکھئے اس کی ترجمانی کررہا ہے چھوٹا سا یہ واقعہ۔
حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے سوانح نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک پریشان حال شخص حضرت گنگوہی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے بیعت کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا تم کو بیعت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لئے میں بیعت نہیں کرسکتا۔ وہ رونے لگا، لیکن آپ نے اس کو مجلس سے اٹھادیا اور اب اس نے حضرت گنگوہی کے خدام سے روروکر خوشامدیں کرنا شروع کیں اور کہا کہ آپ لوگ میرے حال پر رحم کریں میری سفارش کردیں کہ حضرت مجھے بیعت فرمالیں، اس کی حالت زار دیکھ کر سفارش کرنے والوں نے اس کی سفارش بھی کردی، مگر حضرت گنگوہی کو اقرار میں نہ بدلواسکے اور یہی فرمایا کہ میرے گھر سے اس کا کھانا نہیں آئے گا۔ اس کو یہاں سے نکال دو، اس کے باوجود وہ شخص نہایت بے تابی کے ساتھ اپنی تمنا اور آرزو کا لوگوں سے اظہار کرتا رہا اور بسا اوقات روتا رہتا تھا۔ اس کی اس حالت پر قریب قریب تمام متوسلین کو ترس آجاتا تھا، حتی کہ حضرت گنگوہی کے ایک مقرب ترین خادم نے اس کو اپنے گھر پر ٹھہرالیا اور اس کے ہر طرح کے آرام کا بندوبست کیا اور اس کو بیعت کرانے کا وعدہ کیا، لیکن وہ اپنی سفارش میں کامیاب نہ ہوسکے بلکہ زجر و توبیخ کا سامنا کرنا پڑا، تب ان کے دل میں کھٹک پیدا ہوئی اور اس کا راز جاننے کی کوشش کی، وہ ایک کتاب جزدان میں رکھ کر ہمیشہ اپنی گردن میں لٹکائے رہتا تھا۔
ایک دن اس کو کتاب میں کچھ لکھتے ہوئے دیکھ لیا، جب اس شخص کی نظر ان پر پڑی تو جلدی سے کتاب بند کرکے جزدان میں ڈال لیا اور گردن میں حمائل کرلیا، میزبان کا شک قوی ہوگیا، جب وہ ایک دن بے خبری کی نیند سورہا تھا تو بہت آہستگی سے اس کی جزدان نکالی اور کتاب کھول کر دیکھی، تو وہ کتاب نہیں وہ اس کی ذاتی ڈائری تھی جس میں وہ روز مرہ کی یاد داشت لکھا کرتا تھا۔ اس میں اس نے افسران بالا کو جواب تک رپورٹیں بھیجی تھیں اس کا بھی اندراج تھا، ان تمام حقائق کا انکشاف ہوا تو ان کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی، وہ محکمہ سی، آئی، ڈی کا آدمی تھا، وہ حضرت گنگوہی کی ذکانت و فطانت پر حیرت زدہ رہ گئے اور انکار بیعت کی وجہ از خود سمجھ میں آگئی۔ (مولانا رشید احمد گنگوہی مطبوعہ شیخ الہند اکیڈمی دیوبند، ص: ۱۸۴)
اسی زمرے کا یہ واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
ایک بار ایک نام نہاد جوان صالح بزرگوں کی وضع کا لباس زیب تن کئے ہوئے تشریف لائے، سلام ومصافحہ کے بعد موٴدبانہ بیعت کرلینے کی درخواست پیش کی۔ حضرت گنگوہی نے کچھ تأمل فرمایا، انھوں نے دوبارہ درخواست کی، آپ نے نہایت ملائمت سے فرمایا آپ کسی اور کے پاس تشریف لے جائیں، مجھے کیا آتا ہے، آپ جیسے جیسے انکار فرماتے، ویسے ویسے ان کا اصرار بڑھتا جارہا تھا، آخر میں حضرت گنگوہی نے صاف انکار فرمادیا اور فرمایا میں بیعت نہیں کروں گا، اب اس کے بعد گفتگو کی گنجائش نہیں رہی، تو وہ مایوس ہوکر، اداس شکل وصورت بناکر مجلس سے اٹھے اور چلے گئے۔
کچھ دنوں کے بعد ڈاک آئی، مولانا یحییٰ کاندھلوی ایک ایک خط نکال کر آپ کو سناتے اور پھر رکھ دیتے۔ پھر ایک لمبا چوڑا خط اٹھایا اس کی چند سطریں سنائیں پھر سرسری نظر پورے خط پر دوڑائی تو دیکھا کہ پورا خط سب و شتم گالیوں اور ناشائستہ الفاظ سے بھرا ہوا ہے۔ حضرت گنگوہی نے فرمایا سناؤ کیوں خاموش ہوگئے؟ انھوں نے عرض کیا حضرت! یہ تو مغلظات سے بھرا ہوا ہے۔ حضرت گنگوہی نے فرمایا کیا یہ اس شخص کا نہیں ہے جو چند دنوں قبل بیعت ہونے کے لئے آیا تھا اور تم نے اس کی سفارش کی تھی؟ اس کے دل میں جو تھا وہ اس کی زبان پر آگیا اور اس کے قلم نے اگل دیا۔ (حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، مطبوعہ شیخ الہند اکیڈمی دیوبند، ص:۱۸۴)
حضرت گنگوہی کا دل مسلسل مجاہدات اور ریاضت کی وجہ سے صاف شفاف ہوگیا تھا، اس میں گناہوں کی کالک کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا، اسی وجہ سے آپ پر معمولی معمولی باتوں کا بھی بہت اثر ہوتا تھا اور لوگوں کے احوال آپ کے قلب مبارک پر منعکس ہوجاتے تھے، اس کو آپ دوسرے الفاظ میں فراست ایمانی اور کشف سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
ایسے بہت سے واقعات تاریخ میں ملتے ہیں جیسا کہ آپ نے ابھی ملاحظہ فرمایا اور اب اسی سلسلہ کا ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔
ایک مرتبہ ایک نابینا شخص آپ کی خانقاہ میں آیا اور اپنے اخلاص و اشتیاق زیارت کا بہت ہی مبالغہ کے ساتھ اظہار کیا اور کہاکہ پاپیادہ میرٹھ سے روانہ ہوکر گنگوہ پہنچا ہوں صرف اس لئے کہ اللہ کا نام سیکھوں، یہاں تک کہ اہل خانہ اس کے عاشقانہ شوق سے متاثر ہوئے اور حسب وسعت خاطر ومدارات کی، جب اذان ہوئی اور حضرت مسجد میں تشریف لائے تو اس شخص نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھائے، حضرت نے ہاتھ جھٹک دئے اور بہت ہی بے پروائی کے ساتھ اپنے سے علیحدہ کردیا۔ ہر چند کہ اس نے اپنی طلب کا سچا ہونا اور مدت دراز سے زیارت کا متمنی و آرزو مند ہونا ظاہر کیا مگر حضرت نے اتنی بھی توجہ نہیں فرمائی جتنی کسی فارغ الذہن اجنبی آنے والے کی جانب ہوتی تھی، جنھوں نے اس نووارد کو اس کی لسّانی گریہ تصنع کے سبب حضرت کا عاشق زار سمجھا تھا ان کو تعجب بھی ہوا مگر کسی کو ہمت نہ تھی کہ لب ہلائے، بعض مخلصین نے سفارش بھی کی کہ حضرت نابینا مایوسی کے سبب بہت پریشان ہے مگر حضرت کو سفارش بھی ناگوار گزری اور غصہ کے ساتھ فرمایا جب تمہیں معلوم نہیں تو اس کام میں بولا کیوں کرتے ہو اور اس کے قلب کو تو دیکھو دنیا بھری پڑی ہے۔ پھر کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ کچھ عرض کرے، آخر وہ نابینا چلاگیا۔
دس بارہ روز ہی گزرے تھے کہ عرس کا زمانہ آگیا، دیکھا تو نابینا موجود تھے اور قوالی میں خوب خوب حال لاتے تھے۔ صوفی کرم حسین صاحب جو ابتدائی قصہ دیکھ چکے اور متعجب ہوئے تھے، یہ حالت دیکھ کر دم بخود رہ گئے اور موقع پاکر نابینا سے کہنے لگے میاں! حضرت کے ساتھ شوق وولولہ کہاں گیا۔
یا بایں شورا شوری یا بایں بے نمکی
بیچارے تھے راست گو، کہنے لگے بھیا یہ تو یاروں کے دھندے ہیں، خیال تھا کہ تمہارے میاں صاحب پر سکہ جم جائے گا تو آؤ بھگت کے ساتھ چند روز گزر جائیں گے پھر عرس کا وقت آئے گا اور یہاں حال، قال میں سرم بند میگا باقی کیسا شوق اور کیسی تمنائے زیارت، ہم تو سیاح آدمی ہیں یوں ہی گزارتے پھرتے ہیں۔
نے خادم ہیچ کس نہ مخدوم کسے
گو شاد بزی کہ خوش جہانے دارد
(تذکرة الرشید مطبوعہ مکتبہ الشیخ سہارنپور، ج:۲، ص: ۲۰۴)
حفاظت و تواضع
اولیاء اللہ کی خاص صفات میں سے ایک صفت تواضع ہے، یہی وہ ایک واحد صفت ہے کہ جس کے بدلے اللہ تعالیٰ اپنے عاشق کیلئے تمام اہل زمین کے قلوب مسخر فرمادیتے ہیں اور بے پناہ محبت ان دلوں کو اپنا مسکن بنالیتی ہے۔ من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ اسی صفت کی جھلک حضرت گنگوہی کے اس واقعہ میں دیکھئے:
حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ ایک مرتبہ حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے کہ بارش آگئی سب طلباء کتابیں لے کر اندر کو بھاگے، مگر مولانا سب طلباء کی جوتیاں جمع کررہے تھے کہ اٹھاکر لے چلیں، لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے۔ (ارواح ثلثہ مطبوعہ کتب خاہ نعیمیہ دیوبند، ص:۳۲۱)
تسخیر
حقیقت پسند لوگ ایسا ذومعنی مذاق کرتے ہیں، وہ مذاق بھی ہوتا ہے اور حقیقت بھی مگر اس مذاق میں آدابِ زندگی کا پورا لحاظ ہوتا ہے؛ چنانچہ ایسا مذاق جو حقیقت پر مبنی ہو احادیث کی کتابوں میں ملتا ہے۔ مثلاً آپ … اونٹ مانگنے والے ایک صحابی سے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں تمہیں اونٹ کا بچہ سواری کیلئے دے سکتا ہوں، وہ صاحب حیران ہوئے، تو آپ … نے یہ فرماکر ان کی حیرانی دور فرمادی کہ ہر اونٹ اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے۔
حضرت گنگوہی بھی ایسا مذاق کرتے تھے دیکھئے ایک واقعہ:
مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ سے مولانا عبدالرحیم صاحب نے یا ان کی موجودگی میں کسی نے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ تسخیر کا عمل جانتے ہیں۔ فرمایا ہاں! جبھی تو میرے ہاں مولانا عبدالرحیم جیسے لوگ آتے ہیں۔ (ارواح ثلثہ مطبوعہ نعیمیہ دیوبند، ص:۳۲۱)
عزتِ نفس
عزت نفس کے مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انسان عزم و استقلال کا پختہ ہو، قوت فیصلہ اٹل ہو، ارادوں میں تزلزل کا شائبہ تک نہ ہو اور پتھر کی لکیر ثابت ہو۔
دیکھئے عزت نفس کی پاسداری:
ایک مرتبہ مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ کی پھوپھی بیمار تھیں۔ آپ ان کی تیمارداری میں تھے جس طبیب کے یہاں آپ تشریف لے جاتے تھے وہ بہت نخرے کرتا تھا، مولانا کو غصہ آگیا اور طب کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا اور اچھے طبیب ہوئے۔ جب مولوی مسعود احمد صاحب طب پڑھ کر تشریف لائے ہیں تب آپ نے اس کام کو چھوڑ دیا کہ اب بھائی مسعود آگئے ان سے رجوع کریں۔ (ارواح ثلثہ، مکتبہ نعیمیہ دیوبند، ص:۳۱۷)
حسن تدبیر
تکلف کرنے والا انسان ہمیشہ پریشان رہتا ہے، نہ وہ اپنے مقصد کو پورے طور سے حاصل کرسکتا ہے، اور نہ ہی ان کو زندگی میں سکون ملتا ہے۔ البتہ جو لوگ تکلف سے دور رہتے ہیں، وہ ہشاش بشاش اور حصول مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہر طرح کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے اور اس کو وہ حسن تدبیر سے پورا بھی کرتے ہیں۔ استاذ ”ذوق“ نے اس بارے میں بہت اچھی بات کہی ہے۔
اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام میں ہیں وہ تکلف نہیں کرتے
دیکھئے ذیل کے واقعہ میں بے تکلفی نے ہی بدنظمی سے بچالیا۔
مولانا محمد یعقوب رحمة اللہ علیہ کے قطب الدین ایک صاحبزادے تھے۔ ان کی شادی لکھنوٴ میں ہوئی تھی اور ولیمہ نانوتہ میں۔ مولانا نے بڑی خوشی میں ولیمہ کیا تھا اور اس میں پلاؤ زردہ بہت اچھا پکوایا تھا۔ کھانے میں ذرا دیر ہوگئی تھی جمعہ کا دن تھا۔ گاؤں والے بھی جمعہ میں آئے تھے۔ تو مولانا نے فرمایا کہ پہلے ان گاؤں کے آدمیوں کو کھلادو ان کو دور جانا ہے گھر کے آدمی پھر کھالیں گے۔ جب ان کو کھانے بٹھایا تو چاروں طرف سے زردے کی مانگ ہونے لگی، مولانا پریشان ہوئے۔ کیونکہ زردہ بہ نسبت پلاؤ کے تھوڑا پکتا ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کو بھی اس کی خبر ہوئی۔ تو مولانا فوراً تشریف لائے اور مجمع میں آکر فرمانے لگے کہ یہ پلاؤ بھی کھانے کے ہی واسطے پکاہے اور زردہ اندازے سے پکا ہے اور کھلانے والوں کو حکم دیا کہ اب پلاؤ دو، زردہ نہ دو، بس سب دم بخود ہوگئے پھر کسی نے نہ مانگا اور کام حسن و خوبی سے انجام کو پہنچ گیا۔ (اسی شانِ انتظام) کی وجہ سے ہی لوگ مولانا کو متشدد کہتے تھے) (ارواح ثلثہ مطبوعہ نعیمیہ دیوبند، ص: ۳۱۶)
(بقیہ آئندہ )
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد: 90 ،شعبان1427 ہجری مطابق ستمبر2006ء