از: بلال احمد قاسمی شیرکوٹی
سیاسی ملفوظات
حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحب سنبھلی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ۱۹۳۵/ کے حج بیت اللہ شریف میں بندہ بھی حضرت کے ہمراہ تھا۔ مدینہ منورہ میں حضرت کے بھائی مولانا سید احمد صاحب نے حضرت سے فرمایا یہاں مرکز (مدینہ منورہ) کی حالت خراب ہے اور آپ لوگ ہندوستان میں مزے اڑا رہے ہو۔ حضرت نے جواباً ارشاد فرمایا جی ہاں۔ ہندوستان میں بھی مرکز (مدینہ منورہ) کی خاطر پڑا ہوں۔ ہندوستان ہی ایسی جگہ ہے کہ اگر وہ آزاد ہوگیا تو مرکز بھی ٹھیک ہوجائے گا اور تمام بلادِ اسلامیہ آزاد ہوجائیں گے۔
(راقم)
میں کہتا ہوں وہ لوگ حضرت مدنی کی سیاسی بصیرت ملاحظہ فرمائیں۔ جو کہتے ہیں کہ علماء سیاست سے کیا واقف؟ حضرت نے آزادیٴ ہند سے ۱۲/ سال قبل ایسی بات فرمائی کہ جس کا راز ۱۹۴۷/ میں ظاہر ہوا کہ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ تمام ممالک اسلامیہ آزاد وسربلند ہونے لگے۔
(۲) طلباء کے ایک جلسہ میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا جہاد تلوار ہی سے نہیں ہوتا بلکہ جہاد کے متعدد ذرائع ہیں یہ مذہبی جلسے بھی کفر کے خلاف جہاد ہیں۔
(۳) ایک جلسہ میں ارشاد فرمایا کہ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اس لیئے ہر انسان کو اس کے حصول کیلئے کوشش کرنی چاہئے اگر کوئی چیونٹی بن کر محض کاٹ ہی سکتا ہو تو اُسے کاٹنا چاہئے۔
(۴) ارشاد فرمایا فریضہ جہاد ادا کرنے اور اس کو عمل میں لانے کے لئے کوئی خاص قسم کے ہتھیار اور خاص طریقہ جنگ کی قید نہیں ہے بلکہ ہر وہ عمل اور ہر وہ ہتھیار جو دشمن کو زک پہنچاسکے اور دشمن کے اقتدار و شوکت میں ضرر رساں ہوسکے وہ اختیار کرنا لازم اور واجب ہے۔
(۵) حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا میرے پاس ایسی تحریرات موجود ہیں جن میں انگریز نے کہا ہے کہ ہم ہندوستان کو اپنے فائدے و غرض سے تقسیم کرارہے ہیں۔
(۶) حضرت نے فرمایا: مکمل آزادی اسلام و مسلمانوں کا مطمح نظر ہونا چاہئے۔ قواعدِ شرعیہ کی بنا پر اگر مسلمان اس سے غافل ہوئے تو عند اللہ ماخوذ ہوجانے کے مستحق ہوں گے۔ مسلمانوں پر حسب طاقت ضروری ہے کہ وہ اِس راہِ آزادی میں گامزن رہیں ہماری جب تک جان میں جان ہے اپنی طاقت کے موافق آزادی کے لئے سعی و کوشش کریں گے خواہ کوئی ہمارا ساتھ دے یا نہ دے۔ اللہ ہمارا ولی و ناصر ہے۔ واقعتا ہندوستان کی آزادی ایسے ہی مخلص جانباز محبین وطن علماء کرام رحمہ اللہ کی رہین منت ہے۔
حضرت کے علمی ملفوظات
(۱) حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحب سنبھلی رحمة اللہ علیہ یہی فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت سے سوال کیا کہ ۔ کیا سورئہ کافرون میں تکرار الفاظ تاکید کے لئے ہے۔ ارشاد فرمایا: تاکید بھی ہے۔ اور تاسیس تاکید سے اولیٰ ہے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ مکہ میں دو قسم کے کافر تھے۔ ایک وہ جو بتوں کو بالذات معبود سمجھتے تھے اور دوسرے وہ جو بالصفات معبود سمجھتے تھے یعنی بالذات اِلٰہ نہیں مانتے تھے البتہ الوہیت کی صفات میں شریک سمجھتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے مکرر ارشاد فرماکر ان دونوں فرقوں کا ابطال فرمایا ہے۔
(۲) حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت سے سوال کیا۔ کہ غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالین کا ترجمہ۔ حضرت مولانا شاہ رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ علیہ وغیرہ نے بدل اور مبدل منہ کا کیا ہے اور حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ نے موصوف اور صفت کا ترجمہ کیا ہے۔ تو کیا منعم علیہم، مغضوب و ضال بھی ہوئے ہیں، تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک منعم علیہم بھی ضال اور مغضوب ہوئے ہیں۔ جیسا کہ یہود ونصاریٰ اولاً منعم علیہم تھے بعد میں مغضوب وضال ہوگئے ۔
(۳) ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تعلیم ہی کا کارخانہ بنایاء عَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَاءَ اِس آیت سے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے معلم باری تعالیٰ عز اسمہ اور طالب علم حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔
تقریر بخاری شریف میں فرمایا کہ سوال ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں وحی نازل ہونے سے پہلے کس شریعت کے مطابق عبادت فرماتے تھے۔
جواب دیا جاتا ہے ۔ (۱) آپ کو اللہ تعالیٰ نے عبادت کا طریقہ الہام فرمادیا ہوگا۔ (۲) یا آپ نے اپنے اجتہاد سے معلوم کرلیا ہوگا۔ (۳) یا آپ شریعت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوں گے اِس لئے کہ زمانہ فترت میں انبیاء سابقین کی شریعت منسوخ نہیں ہوتی۔
(۴) حضرت نے ارشاد فرمایا کہ وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَہَدیٰ الآیة میں ضال کے معنی گمراہ کے نہیں ہیں بلکہ ضال کے معنی لاعلم کے ہیں۔ آیت کا ترجمہ یہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ناواقف کار پایا تو واقف کار بنادیا۔
(۵) اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوتَ وَالحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً․ اس آیت کے بارے میں حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ موت کو اولاً اس وجہ سے ذکر کیاگیا ہے کہ انسان اپنی حیاتِ دنیوی کو عارضی سمجھے اور موت سے غافل نہ ہو۔
(۶) ایک صاحب نے آپ کے ملفوظات کے جمع کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اسلاف و بزرگان کے ملفوظات و تصانیف عمل کے لئے ناکافی ہیں۔ (حضرت کی تواضع کا اندازہ لگائیں)
(۷) درسِ بخاری شریف میں فرمایا کہ اخلاص فی العبادات کے تین درجے ہیں: (۱) ثواب کی نیت اور عذاب کے خوف سے کرنا۔ (۲) رضائے الٰہی کے لئے کرنا۔ (۳) اُن دونوں سے بالاتر ہوکر اللہ تعالیٰ کو مستحق عبادات سمجھتے ہوئے اس کی تابعداری اور عبادت کرنا۔ اُس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اخلاص کا یہ سب سے اُونچا درجہ ہے۔
(۸) ترمذی شریف کے درس میں فرمایا کہ علم اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت ہے اسی صفت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء میں کبر اور حسد زیادہ ہوتا ہے۔
(۹) درس بخاری شریف میں ارشاد فرمایا کہ شیخ کامل کو اپنے مرید سے ایسی محبت ہوتی ہے جیسے ماں باپ کو اپنی اولاد سے۔
(۱۰) آپ سے سوال کیاگیا کہ شیخ کو مرید کی اصلاح کرنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے یا نہیں۔ ارشاد فرمایا ہاں ہوتی ہے مگر ایسی ہی جیسے ماں کو بچے کا پاخانہ صاف کرنے میں ہوتی ہے۔
(۱۱) ایک مرتبہ ختم بخاری شریف کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ اصلاح نفس کے لئے اشتغال بالحدیث سب سے اقرب ذریعہ ہے اور اس کے بعد فیوض الحرمین میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کا مشاہدہ بیان فرمایا کہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مزار مقدس پر حاضر ہوکر مشاہدہ کیا کہ جو لوگ اشتغال بالحدیث رکھنے والے ہیں اُن کے قلب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک تک نورانی دھاگوں کا سلسلہ جاری ہے۔
(۱۲) آپ نے ارشاد فرمایا کہ قوتِ شہوانیہ سے بھی دل میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا سہل علاج اپنی منکوحہ شرعیہ سے خلوة صحیح کرنا ہے۔ اس سے بھی تزکیہ نفس ہوتا ہے۔
(۱۳) ایک تقریر میں آپ نے فرمایا یہ علاقہ دیوبند، سہارنپور اور مظفرنگر وغیرہ دو آبہ کا علاقہ ہے اور یہ علاقہ ولی خیز ہے۔ اس علاقہ میں ہر زمانے میں اولیاء پیدا ہوتے چلے آئے ہیں، دارالعلوم دیوبند کا وجود بھی اِن ہی اولیاء اللہ کی توجہات کا سبب ہے۔
(۱۴) ذکر روحی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ قلب کی توجہ الی اللہ کا نام ہے۔ کہ ہر وقت انسان کا یہ تصور رہے ہُو مَعَکُم اَیْنَمَا کُنْتُمْ تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے قلب میں ہر وقت اِس تصور کا پیدا ہونا آسان نہیں ہے کہنے کو تو ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر مفہوم نہایت وسیع رکھتا ہے ذکر روحی کی حقیقت عملی زندگی ہی میں آکر معلوم ہوسکتی ہے۔
(۱۵) مولانا حبیب الرحمن صاحب مرحوم سے ارشاد فرمایا کہ میں نے سلوک اور تصوف آسان کردیا ہے۔ (فائدہ) معلوم ہونا چاہئے کہ ریاضت و مجاہدات کا منشاء رضائے الٰہی حاصل کرنا ہے اور اِس کا مدار اخلاص پر ہے۔ جتنا جس کے پاس اخلاص ہوگا اس کی عبادات اگر کمیت کے اعتبار سے کم ہوں مگر کیفیت کے اعتبار سے زیادہ ہوں گی۔ تو حضرت شیخ الاسلام ذکر و فکر اور مراقبہ پر اپنی توجہات کے ذریعہ سالک کے قلب میں اخلاص پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تھوڑی سی مدت میں ۱۶۶ حضرات خلفاء و مجازین بیعت ہوگئے۔
(۱۶) آپ نے درس بخاری شریف میں ارشاد فرمایا کہ معمولاتِ ذکر و فکر و مراقبہ میں مداومت بھی بڑی کرامت ہے۔ اَلْاِسْتِقَامَةُ فَوقَ الکَرَامَةِ استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے۔
(۱۷) آپ نے ارشاد فرمایا کہ وساوس اور خطرات کا قلب میں پیدا ہونا ایمان کی علامت ہے اس لئے کہ چور اسی گھر میں جاتا ہے جہاں کچھ مال ہوتا ہے۔ لہٰذا وساوس و خطرات کی وجہ سے معمولات کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ اور حتی الوسع برے خیالات کے دفعیہ کی کوشش کرنی چاہئے۔
(۱۸) آپ نے فرمایا کہ آدمی اس وقت تک پختہ دین دار نہیں بن سکتا جب تک کہ بلاؤں ، مصیبتوں میں نہ گھرا ہو۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ انسان کی آزمائش اس کی دین داری کے مطابق ہوتی ہے جو جتنا دین میں پختہ ہوتا ہے اس کی اتنی ہی سخت آزمائش ہوتی ہے۔
(۱۹) درس بخاری شریف میں ارشاد فرمایا کہ اہل بدعت دیوبندیوں کو دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جتنا درود شریف دیوبندی پڑھتے ہیں کوئی دوسرا نہیں پڑھتا۔ مثلاً اِس دارالحدیث میں تقریباً ڈھائی سو طلبہ شریک درس ہیں اور صبح سے شام تک یہاں درسِ حدیث ہوتا ہے۔ اور ہر حدیث میں کم سے کم ۳/۴ مرتبہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ضرور آتا ہے جس پر سب حاضرین درود شریف پڑھتے ہیں اگر تمام اوقات کے درود شریف کا شمار کیا جائے تو لاکھوں تک تعداد پہنچ جائے گی اور یہی سلسلہ بارہ مہینے تک جاری رہتا ہے۔ اندازہ لگائیے کس قدر درود شریف پڑھا جاتا ہے۔
اللہم صل وسلم علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین․
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد: 90 ،شعبان1427 ہجری مطابق ستمبر2006ء