بہ قلم مولانا نور عالم خلیل امینی
رئیس تحریر الداعی و استاذ ادب عربی، دارالعلوم دیوبند
عرصہٴ دراز سے (جس میں ۳/ماہ یعنی از شبِ ۵-۶/نومبر ۲۰۰۵/ تا شام ۶/فروری ۲۰۰۶/، مطابق سنیچر – اتوار: ۲-۳/ شوال ۱۴۲۶ھ تا سموار: ۷/محرم ۱۴۲۷ھ، مستقلاً موت و حیات کی کش مکش سے دوچار رہے) بیماری سے نبرد آزما رہنے کے بعد، بالآخر مردِ آہن مولانا سید اسعد مدنی نے موت کے آگے سپر انداز ہوکر ۶/فروری ۲۰۰۶/ کی شام کو ۵ بج کر ۳۵ منٹ پر، دہلی کے اپولو ہسپتال میں آخری سانسیں لے لیں اور اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔ اللہ پاک نے ان کے لیے جتنی زندگی مقدر کررکھی تھی، اس سے ایک لمحہ بھی زیادہ وہ کیوں کر جی سکتے تھے:
عمر بھر زیست کے ہم راہ اجل جاتی ہے
تاک میں رہتی ہے یک لخت نگل جاتی ہے
دنیامیں ہر آن موت و حیات کی پنجہ آزمائی جاری رہتی ہے۔ زندگی پر موت کی یقینی فتح ایک غیرمعمولی واقعہ ہے؛ لیکن ہر وقت اور ہر جگہ اورہر موسم میں پیش آنے کی وجہ سے زندوں کا ایک ہی لمحے میں مردہ ہوجانا اور پھر لوٹ کے کبھی نہ آنا، ایک عام سا واقعہ بن گیا ہے، جس پر کسی کی توجہ مرکوز نہیں ہوتی؛ لیکن جب کوئی ایسا اِنسان دنیا سے منھ موڑ لیتاہے، جس کی زندگانی خود اُس کے لیے اور دوسروں کے لیے مفید تھی، تو اِفادیت کے بہ قدر، دنیا والوں کو اُس کے چلے جانے کا غم ہوتا ہے اور اُس کو کھودینے کے بعد؛ اُس کی قدر و قیمت کا احساس زیادہ ہوتا ہے، خصوصاً تب جب اُس کا کوئی جانشیں نظر نہیں آتا اور صلاحیت و اِفادیت کے حوالے سے، اس کے بعد کسی بے جوڑ اِنسان پر مجبوراً انحصار کرنا پڑتا ہے۔ کچھ اسی طرح کااِحساس مولانا سید اسعد مدنی کے اُٹھ جانے کے بعد ہورہا ہے۔ مولانا کی کمی پورے ملک میں شدّت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔
مولانا رحمة اللہ علیہ کے کاموں کی بہت سی سمتیں تھیں۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ اُنھوں نے مدینہ منورہ میں گزارا جہاں ان کے خاندان کے لوگ متوطّن ہیں۔ پھر دارالعلوم میں مدرس ہوئے۔ اِس عرصے کی کوئی تفصیل مجھے معلوم نہیں؛ اس لیے اِس حوالے سے میں کوئی گفتگو نہیں کرسکتا۔ تدریس سے از خود سبک دوشی کے بعد، وہ جمعیة علما کی قیادت کے میدان میں آگئے، جو اُن کے فکر و عمل کی دوسری سمت تھی۔ جمعیة علما کی نظامت سے صدارت تک کے دور میں (جس پر وہ وفات تک فائز رہے) ملک و ملت کی سطح پر دو مرکزی خدمتیں انجام دیں:
(الف) مسلمانوں کے حقوق کی دست یابی اور نا اِنصافیوں کے اِزالے کی ہمہ گیر کوششیں اور اِسلامی اِداروں اور مراکز اور تعلیم گاہوں اورمساجد و مقابر و مزارات کی حفاظت کے لیے زبردست اور جامع جدوجہد، جس میں وقتاً فوقتاً غیرمعمولی بھیڑ والے جلسوں، مظاہروں اور طویل المیعاد تحریکوں کے ساتھ ساتھ، صدرِ جمہوریہ، وزیر اعظم اور متعلقہ وزرا و حکام و افسران سے ملاقاتوں اور خطوط کے ذریعے ارتباطِ مسلسل شامل ہوتا۔
(ب) مسلم کش فسادات پر حکومتِ وقت سے پرزور اور موٴثر احتجاج اور ساتھ ہی متاثرین کی تعمیری اور ٹھوس مدد اوراس کے لیے قریہ بہ قریہ اور کوبہ کو مسلسل چکر اور دوڑ دھوپ۔ نیز قدرتی آفات کے موقع سے مصیبت زدگان کی ہمہ جہت مدد اور حکومت کو ان کی داد رسی کے لیے جھنجھوڑنا۔
مولانا نے دونوں سطحوں پر عمل کے لیے ہمیشہ جمعیة علما کی تاسیسی روح اور اُس کے اولین قائدین کے عملی و نظری طرزِ عمل سے روشنی کے حصول کے ساتھ ساتھ، اپنی ہمت و عزیمت، دور رس منصوبہ بندی اور نتیجہ خیز حکمتِ عملی سے فائدہ اٹھایا۔ نیز ملک کے سیکولر کردار، دستور کے مزاج اور مختلف المذاہب باشندگانِ ملک کے لیے اس کی شفقت ریز ملائمت سے نہ صرف استناد کیا؛ بلکہ ہمیشہ، ہر جگہ، ہر موقع سے اُس کی دہائی دی اور ملک کے سیکولر ضمیر پر ایسی زبردست دستک دی کہ مسلمانوں کے خلاف عصبیت، نفرت اور دشمنی سے مسموم فضا میں، جو انتہا پسند اور جارحانہ جذبات رکھنے والی ہندو جماعتوں اور افراد نے بنائی ہے، اُن کی بات زیادہ یا کم ضرور سنی گئی اور اس کا نتیجہ دیر یا سویر ضرور نکلا۔
اِسی نقطے کو پیشِ نظر رکھتے ہوے مولانا نے ہندی مسلمانوں کے مسائل کو ہندوستان کے اربابِ حل وعقد کے سامنے کبھی بھی صرف مسلمانوں کے مسائل کی حیثیت سے پیش نہیں کیا۔ بلکہ ان میں سرکاری اور عوامی سطحوں پر مرکز توجہ بنانے کے لیے، ملک کے سیکولر کردار کے حوالے کو اتنی شدت کے ساتھ اُجاگر کیا کہ بعض اُن برادرانِ وطن زعما کو، جو سیکولر زعما کی دوسری صف سے تعلق رکھنے اور صفِ اوّل کے زعما سے تربیت پانے کے باوجود، سیکولرزم کی روح سے کسی غرض یا مرض یا مجبوری کی وجہ سے اِغماض کرنے لگے تھے، سیکولرزم کا بھولا ہوا سبق پھر یاد آگیا۔
اپنے اکابر مجاہدین آزادی (خواہ مشائح دیوبند ہوں یا دگر بانیانِ جمعیت) کی طرح اُن کا ایمان تھا کہ آزاد ہندوستان میں، محض مسلم اِکائی کی بات، محض مسلم اِکائی ہونے کی حیثیت سے منفردانہ طور پر نہیں سنی جائے گی اور اگر خدا نہ خواستہ بعض نادان مسلم سیاست دانوں کی طرح، مسلم مسائل اور حقوق کی لڑائی کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ جس سے برادران وطن کی رائے عامہ کو یہ محسوس ہو کہ مسلمان اِس ملک کے سارے ہندؤں کو (جن کی اکثریت کے ہاتھ میں ہی ملک کی نکیل ہے اور رہے گی) دشمن محض ہی تصور کرتے ہیں اور اُن سے دو دو ہاتھ کرلینے کے لیے تیار ہیں تو اِس طرزِ عمل سے آزاد ہندوستان میں کوئی بھلا نہ ہوگا اور نہ کوئی حق حاصل کیا جاسکے گا۔ ہندوستان میں اقلیت (جس میں مسلمان بھی شامل ہیں) اور اکثریت کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ یہ مستحضر رکھنا ضروری ہے کہ ملک کی تقسیم سے (خواہ اِس کا ذمے دار کوئی ہو: ہندو یا مسلمان یا دونوں) اور قیامِ پاکستان سے اکثریت یعنی ہندؤں کے ضمیر کو خواہی نہ خواہی چوٹ لگی ہے۔ اکثریت کے بہت سے نادان افراد (جن کی تعداد انتہا پسند اور جارحیت پیشہ ہندو قائدین و زعما کی شب و روز کی جہد مسلسل کی وجہ سے بھیانک طورپر بڑھتی جارہی ہے) یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی اقلیت کو پاکستان کی شکل میں حق یا انعام مل چکا ہے؛ لہٰذا اب جو یہ باقی ماندہ ملک ہندوستان کے نام سے ہے، صرف اکثریت کاحق یااس کی بلا شرکتِ غیرے ملکیت ہے۔ مسلمانوں کو، اپنا حق لے لینے کے بعد بھی اگر یہیں رہنے پراِصرار ہے، تو ملک کا دستور سیکولر ہو یا لچکدار، دو نمبر کا شہری بن کے رہنا پڑے گا اوراب تک آئین کو بدلنے، اس کی سیکولر روح کو ختم کردینے کی بھی یہ عناصر مانگ کررہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان دو نمبر کا شہری بن کر رہنا از خود گوارا نہیں کریں گے، تو وطنی حقوق کی تقسیم میں ہم ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں اور اگر مسلمان زیادہ بے لگام ہوں گے، تو ہمارے پاس فسادات، مسجدوں پر قبضہ کرلینے اور انھیں مندر ثابت کردینے، نیز مسلمانوں کے سرکار سے مدد یافتہ اِداروں کا اقلیتی کردار سلب کرلینے، جیسے بہت سے کار گر اسلحے موجود ہیں۔ اِسی کے ساتھ مسلمانوں کے دینی اِداروں اور جماعتوں اور افراد کو دہشت گرد قرار دے کر، ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی مشق اور ستم اِیجادی کا ہنر بھی ہمیں معلوم ہے۔ سرکاری ملازمتوں، سرکاری حقوق و واجبات کی تقسیم کے اِداروں کے مناصب تک پہنچنے کی راہیں، مسلمانوں پر آہستہ آہستہ اور بالآخر بالکلیہ بند کردینے کے عمل سے ہمیں کون روک سکے گا؟ قانون سازی کے اِداروں اور انتظامیہ میں بھی ہم ہی ہیں، عملی طور پر دو نمبر کی شہریت کی حامل اقلیت آٹے میں نمک کے برابر ہے؛ لہٰذا عملاً جو ہم چاہیں گے وہی ہوگا۔
مولانا مدنی مذکورہ تلخ حقیقت کا اتنا اِدراک رکھتے تھے، جو واقعہ یہ ہے کہ کسی معاصر قائد کو حاصل نہ تھا؛ اس لیے وہ مسلمانوں کے سارے مسائل کی ہر لڑائی، اقلیتوں اورمسلمانوں کے تئیں ملک کے دستور کی تصریحات اور تقاضوں کی روشنی میں، سیکولر ہندؤں کو ساتھ لے کر، ہنرمندی سے لڑتے تھے اور جیت جاتے تھے یا جیتنے کی راہ ہموار کردیتے تھے۔ اللہ نے انھیں برادرانِ وطن کے سیکولر مزاج طبقے کو قریب رکھنے کا بڑا سلیقہ دیا تھا اور یہ طبقہ بھی مولانا کی سیکولر مزاجی پرپوری طرح مطمئن تھا۔ بڑے سے بڑے ہندو لیڈر کو مولانا سے کوئی وحشت نہ ہوتی تھی کیوں کہ اس کو مولانا کی وطن پرستی پر مکمل اعتماد تھا اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ مسلمانوں کی زیادہ معتبر نمایندگی کا حق رکھتے ہیں۔
مسلمانوں میں گروہی عصبیت اور مسلکی تحاسد اور تباغض کی بیماری نہ ہوتی تو دگر زعمامولانا مدنی سے ہراختلاف کے باوجود، اُن کی اِس کام یاب حکمتِ عملی سے فائدہ اٹھاکر، اِس ملک میں مسلمانوں کے آیندہ مسلمان باقی رہنے کی راہ، بڑی حد تک آسان بناسکتے تھے؛ لیکن افسوس ہے کہ لوگ موت سے پہلے ہی جیتے جی بھی ایک دوسرے سے علاحدہ اور ذہنی و جسمانی طور پر دور رہنا چاہتے ہیں، حالانکہ موت دوری پیدا کرنے کے لیے کافی ہے:
کَفَیٰ بِالْمَمَاتِ فُرْقَةً وَتَنَائِیَا
بلکہ متعدد مسلم جماعتوں کے لوگ تو مولانا کی اِس کارگر حکمتِ عملی کو ”مداہنت“ اور ”نیم دروں اور نیم بروں“ کی پالیسی سے تعبیر کرتے تھے، تاکہ ان کی ناکردگی پر پردہ پڑا رہے۔ یہ لوگ یہ نہ سوچتے تھے کہ مولانا اپنی تدبیر سے ملت کے لیے جو کچھ کرلیتے ہیں یہ لوگ اس کا عشر عشیر بھی کیوں نہیں کرپاتے؟۔
میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے غیرمسلم سیکولر زعما و قائدین بھی، حالیہ زمانے میں مولانا مدنی کو، ملک کے سیکولر کردار کی بقا کی جنگ کے ہراول دستے کا ممتاز سپاہی تصور کرتے تھے؛ اِسی لیے اُن کی موت کے بعد ہفتہ عشرہ تک جس طرح قومی اور علاقائی سطح کے بڑے اور چھوٹے مسلمانوں سمیت غیرمسلم زعما و قائدین کی بڑی تعداد، جمعیة کے مرکزی آفس واقع آئی ٹی او دہلی کے علاوہ ان کے دیوبند کے دولت کدے پر، پارٹی، انتساب اور وفاداری سے اوپر اُٹھ کرآتی رہی اور ان کی روح کو جذباتی انداز میں والہانہ طور پر خراجِ عقیدت اور ان کے اہل خانہ اور افرادِ خاندان کو دلاسا دیتی اور تعزیت کرتی رہی، اُس کی مثال ہندوستان کے کسی اور مسلم زعیم و قائد کے حوالے سے اِس دورِ آخر میں پیش نہیں کی جاسکتی۔ لوگوں کو قطعاً اندازہ نہ تھا کہ مولانا سے مسلمانوں و علما و دعاة کے علاوہ، غیرمسلم زعما کی اتنی بڑی تعداد، اِس درجہ تعلق رکھتی ہے کہ وہ اُن کی وفات کے بعد اُن کی کمی کو اِس شدت سے محسوس کرے گی کہ ان کی خاکی دربار میں اُن کا تانتا لگا رہے گا۔
مولانا مدنی نے تین میقاتوں (۱۹۶۸ تا ۱۹۷۴/، ۱۹۸۰ تا ۱۹۸۶/، ۱۹۸۸ تا ۱۹۹۴/) میں ۱۸ سال تک، کانگریس کی نام زدگی پر، راجیہ سبھا (ایوانِ بالا)کی رکنیت کی ذمے داری انجام دی اور اِس منصب کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل کی طرف ملک کے سب سے بڑے مقتدرہ اِدارے کی توجہ مرکوز کرنے کے لیے اِستعمال کیا۔ یہاں بھی اُنھوں نے ملک کے سیکولر دستور کو ہی اساس بنایا اور اپنی تقریروں، تجویزوں اور مباحثوں میں اسی کو پیشِ نظر رکھا۔ لفظی جذباتیت، بے اساس و بے فائدہ جوش سے احتراز کیا؛ کیوں کہ اِس سے اکثریت کے اربابِ اختیار اور اصحابِ حل و عقد متاثر نہیں ہوتے؛ لیکن ضرورت کے مطابق اُن کی وطنی غیرت اور قومی وفاداری کو بہت بار سلیقے سے للکارا، چنانچہ اُن کی بہت سی باتیں سنی گئیں۔ پارلیامنٹ کی اُن کی تقریریں چھپ چکی ہیں اُنھیں پڑھا جاسکتا ہے۔
مولانا نے خدا کی تقدیر کے بہ موجب علمی اشغال کو اپنا وظیفہٴ حیات نہیں بنایا؛ لیکن خدا نے اُنھیں میدانِ قیادت و سیادت میں جو کام کرنے کی توفیق بخشی، اُس میں فتح مندیوں نے بے طرح اُن کے قدم چومے۔ ملک و ملت کے عام مفاد کے علاوہ اُنھوں نے جمعیة علما اور دارالعلوم دیوبند سے عوام کے رشتوں کو مضبوط تر کیا اور ہماری جماعت کے علما و خواص کومسائل کے اِحساس، ابلتے ہوئے خطرات کے اِدراک، مشکلات کے حل کے طریقوں کے متوازن اورمستقیم مسلک پر جمنے کے نقطے پر یک جا کرکے ہمت اور ولولے کے ساتھ سرگرم عمل رہنے کا حوصلہ دیا اور اِس مسلکِ حق کو چیلنج کرنے والے دینِ صحیح کے نام نہاد علم برداروں کو نہ صرف چیلنج دیا؛ بلکہ متعدد بار اُنھیں رگیدا، دوڑایا اور اُن کی صفوں میں زلزلہ پیدا کردیا۔
مولانا مدنی میدانِ عمل کے آدمی تھے، اُن کا ذہنی سانچہ اِسی کے لیے تشکیل ہوا تھا۔ محض آفس، دفتر اور کسی مرکز میں بیٹھ کر کاغذات کی ورق گردانی کرنا اور کسی پرسکون کمرے میں بیٹھ کر قرطاس و قلم کا رشتہ جوڑنے کے عمل پر انحصار کرنا، ہے تو اپنی جگہ مفید اور دیرپا اور دور رس عمل اور جو لوگ اِس کے لیے مخلوق ہوئے ہیں، اُن کے لیے یہ کام آسان ہے اور میدانِ عمل کی ضربِ کلیمی سے سہل تر ہے؛ مگر بعض دفعہ اِس کا وہ فائدہ مرتب نہیں ہوتا، جو میدانِ کار میں نکل کر ایک ظالم، ایک بے اِنصاف، ایک بے لگام جابر اور ایک جارحیت شعار سچائی کے دشمن اور تیرگی کے علم بردار پر بڑھ کے وار کرنے والے کے ذریعے مرتب ہوتا ہے۔
مولانا اِقدامی آدمی تھے، وہ آگے بڑھ کے حملہ کرنا جانتے تھے، دفاعی پوزیشن کبھی قبول نہ کرتے تھے۔ اُنھوں نے اپنے ہم مسلکوں کو بھی یہی راہ دکھائی اوراس پر چلنے کا گر اُنھیں بتایا۔ کانفرنسوں، سیمیناروں اور جلسوں کے علاوہ دارالعلوم دیوبند میں اُس کے دورِ نو میں، متعدد باطل فرقوں اور منحرف جماعتوں کے داؤ پیچ کو جاننے کے لیے، محاضرات کا پائدار نظام قائم کروایا جو ہنوز معمول بہ ہے۔ اُنھوں نے مسیحی برطانوی استعمار کے کاشت کردہ نبوتِ محمدی کے حریف کافر فرقہ: قادیانیت کی توڑ کے لیے دارالعلوم میں باقاعدہ ختم نبوت کے شعبے کی تاسیس کا مشورہ دیا جو اب پہلے سے زیادہ تازہ دم ہے۔
مولانا سید اسعد مدنی کی ایک بڑی صلاحیت، اِنسان شناسی تھی۔ وہ بہت جلد سمجھ جاتے تھے کہ متعارفین اور لائق افراد میں سے کون کس خوبی اور خرابی کا آدمی ہے۔ جمعیة علما کی قیادت کے منبر سے سال ہا سال جو ملکی وملی کارنامے اُنھوں نے انجام دیے، اُن میں بہت بڑا رول اُن کی انسان شناسی اور لیاقت کے عرفان کا رہا ہے۔ اُنھوں نے انگنت کام کے آدمیوں کی دریافت کی اور اُن سے مختلف الانواع کام لیے۔ لائق انسانوں کا حصول جتنا مشکل کام ہے اِس کو اہل دانش اچھی طرح جانتے اور اِس سے بھی زیادہ مشکل اُن سے کام لینا ہے۔ ہر لائق آدمی میں ایک طرح کی ”نالائقی“ بھی ہوتی ہے آپ کو ایسا کوئی آدمی اِس روئے زمین پر ہرگز نہ ملے گا جو صرف لائق ہو۔ صرف لائق فرشتے ہوتے ہیں اور انبیا اور اُن کے اصحاب۔ زندگی جینے، برتنے اور کام کرنے سے یہ تجربہ ہوا کہ جوآدمی جتنا لائق ہوتا ہے اس میں اسی درجہ ایک طرح کی ”نالائقی“ ضرور ہوتی ہے۔ صرف نالائق میں غالباً اِس طرح کی ”نالائقی“ ہوتی ہی نہیں جو لائق کا وجہِ امتیاز ہوتی ہے۔ کام لینے والا ذمے دار، افسر اور آقا لائق کی لیاقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس کی ”نالائقی“ کو ہنرمندی کے ساتھ نہ صرف گوارا کرتا ہے؛ بلکہ بعض دفعہ اس کو اپنا رنگ دکھانے کا موقع بھی دیتا ہے؛ کیوں کہ لائق کی یہ ”نالائقی“ اُس کی شخصیت کی کلید ہوتی ہے۔ اب اگراس کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی جائے تو لائق کے لیے، لیاقت کے حوالے سے اپنا رول ادا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
میں نے لائق کی جس ”نالائقی“ کی طرف اشارہ کیا ہے اُس کی تعبیر آپ کسی لفظ سے کرلیں ”نازو نخرے“ ”خود اعتمادی“ ”ایک قسم کی دیوانگی“ ”اِحساسِ اِفادیت“ اور دگر جو موزوں الفاظ ملیں، نالائقی کی جگہ ڈال سکتے ہیں؛ لیکن لائق میں ایسا کچھ ہوتا ضرور ہے۔
مولانا نے بہت متنوع کام کیے؛ لہٰذا متنوع الاستعداد لوگوں کی ”نالائقی“ سے اُنھیں سابقہ ہوا اور انھوں نے ہشیاری کے ساتھ اُن کی استعداد اور لیاقت سے کام لیاجو واقعی اُن کی بڑائی کی دلیل ہے۔ مجھے دارالعلوم کے ایک لائق اہل کار نے (جو اَب مرحوم ہوچکے ہیں) ایک بار بڑی اچھی بات کہی: مولانا ! اچھاافسر اور ذمّے دار وہ نہیں ہوتا جو خود بہت کام کرے؛ بلکہ کامیاب اور لائق افسر وہ ہوتا ہے جو دوسروں سے زیادہ کام لے لے۔ کام لینا زیادہ لیاقت کی دلیل ہے۔ خود محنت کرنا اور بہت کام کرنا اِحساسِ ذمّے داری کی تو دلیل ہے، افسر ہونے کی دلیل نہیں۔ قائد اور افسر کے لیے پہلی صفت کا حامل ہونا ضروری ہے، دوسری صفت کا حامل ہونا ضروری نہیں، ہاں اگر پہلی صفت کے ساتھ دوسری صفت بھی ہو تو یہ سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے۔
مولانا کاوشِ دشتِ جنوں کے سپاہی اور اِس دشت کے فائز المرام راہی تھے۔ وہ تیز روی سے اِس طرح لپکنا جانتے تھے کہ کسی لمحے کو پیچھے مڑنے کا موقع نہ ملتا تھا وہ معاصر قائدین میں اِس امتیاز کی وجہ سے اپنی واضح شناخت رکھتے تھے۔ وہ کسی منزل پہ جاکر دم لینے کے قائل نہ تھے اور نہ تلووں سے کانٹوں کے نکالنے کی سوچتے تھے۔ وہ اِس شعر کے مصداق تھے۔
کاوشِ دشتِ جنوں ہے ہمیں اِس درجہ پسند
کبھی تلووں سے جدا خارِ مغیلاں نہ ہوا
جو باتوفیق آدمی اِس قسم کاہوتا ہے، وہ عموماً تیز روی کی وجہ سے کسی پڑاؤ، یا وقفے پر اِیمان نہیں رکھتا۔ اِس طرح کا آدمی ایک خاص قسم کا مزاج رکھتا ہے کہ بڑھے چلو اور دائیں بائیں نہ دیکھو چہ جائے کہ پیچھے؛ کیوں کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرنا ہمت شکن ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رفقاے سفر میں سے بہت سے لوگ اُس سے بچھڑ جاتے ہیں یا وہ خود اُن سے بچھڑ جاتا ہے، بالآخر بچھڑاؤ یا پچھڑاؤ آپسی شکوہ سنجی اور بددلی کا باعث بنتی ہے۔ جو آدمی جس درجہ بڑے اور بہت کام کا ہوتا ہے، اُس کی زندگی میں خواہی نہ خواہی پچھڑاؤ اور بچھڑاؤ کا مرحلہ ضرور پیش آتا ہے۔ یہ مرحلہ قدرتی طور پر مولانا کو بھی اپنی زندگی میں پیش آیا؛ لیکن یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کی بات ہے کہ انھوں نے متعدّد بچھڑے ہوؤں کو موت سے پہلے ہی گلے لگالیا اور پچھڑے ہوؤں کے پاس از خود پہنچ گئے اور یک جائی کے بعد ہی اس دنیا کو الوداع کہا۔
بہر کیف مولانا مدنی بہت کام کے آدمی تھے، کام کے آدمی سے بھول چوک، کوتاہی کسی سے اتفاق، کسی سے اختلاف کے مراحل ضرور پیش آتے ہیں۔ کام کی کثرت اور تنوّع کے بہ قدر راہِ عمل میں اِن مراحل کی کثرت بھی ہوجاتی ہے۔ مولانا نے بہت اور متنوّع کام کیے؛اِس لیے یہ مراحل دگر فعّال قائدین کی طرح اُنھیں بھی پیش آئے۔ کام کرنے والے اِنسان کے لیے اصل ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ وہ دین و شریعت کے مطابق اپنی دانست میں صحیح سمت کا تعیّن کرکے چلتا رہے۔ جب وہ چلے گا اور مسلسل چلے گا توہوسکتا ہے کہ ٹھوکر بھی کھائے اور گر بھی جائے۔ جو چلتا ہی نہیں وہ کیا خاک گرے گا۔ ہم سے غلطی یہاں سے ہوتی ہے کہ ہم ہر داعی، قائداور عالم کے متعلق یہ باور کرلیتے ہیں کہ اِس کا خمیر ملکوتیت سے اُٹھایا گیا ہے، حالاں کہ وہ ہمارے ہی طرح کا اِنسان ہوتا ہے، جب ہم سے غلطی ہوتی ہے تواس سے غلطی کا صدور کیوں ممکن نہیں؟
مولانا کا ایک غیرمعمولی کمال یہ بھی ہے کہ سیکولر مزاج زعماے سیاست و قائدینِ حکومت، اُن کے اہل کاروں اور اُن کے مشیروں سے ضرورت کی حد تک موٴثر اور طاقت ور تعلق اور رابطے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ایک عالم باعمل کی شان اور ایک داعی اِلی اللہ کی پہچان کے ساتھ شان دار دین دارانہ زندگی گزاری؛ بلکہ اُن کی شناخت ہی بہت بڑے حلقہٴ اِرادت و عقیدت والے شیخ و مربی کی تھی، جو مرتے دم تک قائم رہی۔ عبادت و ریاضت کا ان کا معمول کبھی ناغہ نہ ہوتا تھا۔ سیاست کی گلی میں اتنی کثرت سے آمد و رفت کے باوجود، دین کے سارے تقاضوں کو نمایندہ عالم و داعی کی شناخت کے ساتھ پورا کرتے رہنا مولانا سید اسعد مدنی رحمة اللہ علیہ کا معاصر علماء و مشایخ کے درمیان بڑا امتیاز تھا۔ وہ بہ یک وقت مربی و عالم، سیاست داں و سیاست راں، قائد و زعیم، مصلح و مربی، اجتماعی خدمت گزار، فرقِ باطلہ و جماعات منحرفہ سے فاتحانہ لوہا لینے والے اور اندرونِ ملک و بیرونِ ملک زبردست عوامی و سرکاری مقبولیت کی حامل شخصیت کے مالک تھے۔ یہ امتیاز مولانا کو ورثے میں ملا تھا اپنے عظیم والد دارالعلوم دیوبند کے فرزندِ جلیل شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نوّر اللہ مرقدہ سے۔
یہ راقم دارالعلوم دیوبند کی طالبِ علمی سے قبل مولانا سید اسعد مدنی کو بالکل ہی جانتا نہ تھا، کبھی نام بھی نہ سنا تھا۔ دارالعلوم میں داخلے کے بعد عربی زبان کے سب سے بڑے عبقری معلم اور باتوفیق خدمت گزار مولانا وحید الزماں کیرانوی کے تعلیم عربی زبان کے حلقے میں شامل ہوگیا۔ چند روز گزرے ہوں گے کہ مولانا کی زبان سے مولانا مدنی کا اتنا اور اِس اِس طرح تذکرہ سنا کہ کان ان کی عظمت کے قائل ہوگئے۔ جب تک دارالعلوم کا طالب علم رہا مولانا مدنی کی بھرپور، مسلسل اور متنوّع سرگرمیوں کے مشاہدے یا اس کی سماعت اور تذکرے کا دور رہا: مولانا مدنی آرہے ہیں، جارہے ہیں؛ آنے والے ہیں، جانے والے؛ فلاں کام چھیڑنے والے ہیں؛ فلاں تحریک برپا کرنے والے ہیں؛ فلاں پروگرام کی ابتدا کرنے والے ہیں؛ فلاں ملک کے سفیر اور ڈپلومیٹ کو دارالعلوم لانے والے ہیں؛ فلاں ملک کے طویل سفر پر جانے والے ہیں؛ فلاں خطے کے طویل دورے کے بعد آج اُن کی واپسی ہے۔
آج یہ شور یک لخت تھم گیا ہے اور ہمیشہ کے لیے۔ امید اِس پر قائم ہے کہ ہر چھوٹے اور بڑے کو بہرکیف یہاں سے جانا ہے۔ از آدم تا ایں دم ان گنت لوگ جاچکے ہیں، دنیا اسی طرح قائم ہے، جب تک خدا کی مرضی ہے قائم رہے گی۔ ماضی کے مقابلے حاضر میں اورحاضر کے مقابلے مستقبل میں ہمیشہ ہی لائق افراد کو دنیا روتی رہی ہے اور آیندہ بھی روتی رہے گی اور کارگہِ حیات اِسی طرح چلتا رہے گا؛ مگر مولانا کے متعلق بار بار یہ شعر پڑھنے کو جی چاہتا ہے:
بچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے ”شہر“ کو ویران کرگیا
اگر ”شہر“ کی جگہ آپ ”ملک“ پڑھ دیں تو زیادہ موزوں اور حسبِ واقعہ ہوگا۔
مولانا رحمة اللہ علیہ کے ساتھ ایک پرلطف صحبت حرمین شریفین میں اُس وقت ملی جب مکہ مکرمہ میں رابطہٴ عالمِ اِسلامی کی تاسیس کے ۲۵ سالہ جشن اور گولڈن جوبلی تقریبات میں دارالعلوم دیوبند کے حلقے سے مولانا بہ حیثیت صدر جمعیة علماء ہند اور راقم الحروف بہ حیثیت اسلامی صحافی اور اہل قلم شریک ہوے۔ یہ کانفرنس ”الدَّعْوَةُ الاِسْلاَمِیَّةُ وَسُبُلُ تَطْوِیْرِہَا نَظرةً اِلَی الْمُسْتَقْبل“ کے عنوان سے ۱۸-۲۲/صفر ۱۴۰۸ھ مطابق ۱۱-۱۵/اکتوبر ۱۹۸۷/ کے عرصے میں ہوٹل انٹر کونٹینینٹل مکہ مکرمہ کے موٴتمر ہال میں ہوئی۔ مولانا کو دو روز قبل اور مجھے دو روز بعد دعوت نامہ بذریعہ تار ملا؛ اس لیے مولانا افتتاحی نشست میں پہنچ گئے جو خادم حرمین شریفین مرحوم شاہ فہد کی سرپرستی اور صدارت میں منعقد ہوئی تھی۔ میں دوسرے روز پہنچ سکا۔ اتفاق سے جیسے ہی ہوٹل کی بیرونی گیلری میں راقم نے قدم رکھا، سب سے پہلے مولانا ہی اچانک مل گئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کل سے ڈاکٹر عبدالحلیم عویس مصری تمہیں کئی بار معلوم کرچکے ہیں کہ شیخ نور عالم آرہے ہیں کہ نہیں؟ بڑااچھا ہوا کہ تم آگئے۔ سامنے ہی بِطَاقَةُ الضَّیْف (گیسٹ کارڈ) کی تیاری کا کارنر تھا مولانا ساتھ لے گیے اور نہ صرف کارڈ کی تیاری؛ بلکہ مہمان بہ حیثیت اِسلامی صحافی واہل قلم کی ساری کارروائیوں کی تکمیل تک ساتھ رہے، پھر اُس وقت کی نشست میں شرکت کے لیے چلے گئے۔ بعد میں بار بار ملاقات ہوتی رہی اور خبر خیریت دریافت کرتے رہے۔ مدینہ منوّرہ میں ہوائی اڈے پر ہی فرمادیا کہ دیکھو تم بہ حیثیت صحافی اور قلم کار مدعو ہو، اِسی لیے تمہیں مکہ مکرمہ میں بھی اکیلے کا کمرہ ملا تھا، یہاں بھی یہی ہوگا، ہم چوں کہ محض ”ضیفِ مشارک“ (شرکت کنندہ مہمان) ہیں؛ اِس لیے مکہ مکرمہ میں ہمارے ساتھ ایک چینی یا فلپائنی کو ٹھہرادیا گیاتھا، مفاہمت میں پریشانی ہوتی تھی، یہاں تم اپنے ساتھ ہی ہمارانام کروالینا، اِس سے ہم دونوں کو سہولت ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی کیاگیا۔ مولانا بہت خوش ہوے اور بہت دعائیں دیں۔ اللہ انھیں اپنی جنت میں نوازے اور تمام حسنات کو دو چند کرے اور سیئات کو جن سے کوئی فردِ بشر خالی نہیں حسنات میں تبدیل کرکے اعلیٰ مقام نصیب کرے، آمین۔
رفتید ولے نہ از دلِ ما
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد: 90 ،صفر1427 ہجری مطابق مارچ2006ء