از: مولاناعصمت اللہ نظامانی

جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن۔کراچی

            فقہائے احناف میں ایسی جلیل القدر، عظیم الشان اور علمی اعتبار سے بلند پایہ ہستیاں گزری ہیں جو تمام فقہی مسالک کے لوگوں کے لیے قابلِ تعظیم رہی ہیں اور جن کے علمی رسوخ اور پختگی کی گواہی معاصرین؛ بلکہ مخالفین نے بھی دی ہے۔ ایسی ہی قابلِ قدر ہستیوں میں سے ایک ”علامہ شرنبلالی“ بھی ہیں۔

            فقہ کا ادنیٰ سا طالبِ علم بھی ان کی فقاہت اور دینی علوم،خصوصاً فقہ میں ان کی لازوال خدمات سے ناآشنا نہیں ہوگا۔ علامہ شرنبلالی نے پوری زندگی اسلام اور مسلمانوں کی خدمت اورعلمِ دین کی نشر واشاعت میں گزاری، یہی وجہ ہے کہ ان سے علمی استفادہ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور ان کی تصانیف بھی عدد میں کسی کتب خانے سے کم نہیں۔ذیل میں ہم علامہ شرنبلالی کا مختصر تعارف اور ان کے علمی مقام کا تذکرہ کریں گے۔

نام ونسب اور ولادت

            ان کا مکمل نام ”حسن بن عمار بن علی شرنبلالی مصری“ہے، ابو الاخلاص لقب تھا، مصر کی ”شبرا بلولی“ نامی ایک بستی میں ان کی پیدائش ہوئی تھی؛ لہٰذا اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے انھیں ”شرنبلالی“کہا گیا، ان کی ولادت سن۹۹۴ھ میں ہوئی۔(۱)

حصولِ علم کے اسفار

            علامہ شرنبلالی کی عمر جب چھ سال کی ہوئی تو ان کے والد انھیں مصر کے مشہور شہر قاہرہ لے کرآئے، وہاں انھوں نے قرآن پاک حفظ کیا اور پھر علمِ دین حاصل کرنے میں مشغول ہوئے، آپ کے ابتدائی اساتذہ میں شیخ محمد حموی اور شیخ عبد الرحمن مسیری شامل ہیں۔ بعد ازاں انھوں نے عالمِ اسلام کی مشہور ومعروف دینی درس گاہ ”جامع ازہر“جاکر اعلی تعلیم حاصل کی اور اپنے دور کے مایہ ناز فقہاء ومحدثین کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے۔(۲)

استاذہ و شیوخ

            علامہ شرنبلالی نے بڑے بڑے علماء اور مشائخ سے تعلیم حاصل کی، جن میں سے چند یہ ہیں:

            ۱-         امام عبد اللہ نحریری

            ۲-         علامہ محمد محبی

            ۳-         علی بن غانم مقدسی

            علامہ نے ان تین اساتذہ سے علم فقہ میں خصوصی استفادہ کیا۔

            ۴-        شیخ محمد حموی

            ۵-         شیخ عبد الرحمن مسیری

            ان کے علاوہ اور بھی متعدد ائمہ فن سے تعلیم حاصل کی۔ (۳)

شاگرد وتلامذہ

            آپ نے کافی عرصہ درس وتدریس کی خدمت سرانجام دی، جس کی وجہ سے طلبہ ایک بڑی جماعت نے آپ سے استفادہ کیا، جن میں علامہ احمد عجمی، سید احمد حموی،شیخ شاہین ارمناوی اور علامہ اسماعیل نابلسی سرفہرست ہیں۔(۴)

علم فقہ میں مہارت

            علامہ شرنبلالی کا طرئہ امتیاز اور معاصرین پر سبقت اور فوقیت کی اصل وجہ یہ ہے کہ انھیں علم فقہ میں مہارت تامہ حاصل تھی، فقہی اصول وقواعد پر گہری نظر تھی اور فرعی مسائل کا احاطہ کیے ہوے تھے، اسی بنا پر وہ اپنے زمانے میں فقہ وفتاوی میں مرجع خلائق بنے رہے۔انھوں نے متون، شروح اور فتاوی یعنی علمِ فقہ کے ہر شعبہ میں کتابیں تصنیف کیں اور ایسی عمدہ ،جامع اور ٹھوس عقلی ونقلی دلائل پر مشتمل کتب تالیف کیں کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے اور انھیں خراجِ تحسین دیے بغیر نہیں رہتا۔

تالیفات

            آپ کثیر التصانیف تھے، مختلف علوم وفنون میں بہت سی گراں قدر کتابیں تالیف کیں، جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

            ۱-         مراقی السعادات فی علمی التوحید والعبادات

            ۲-        نور الإیضاح

            پھر اس کی دو شرحین لکھیں: ایک ”مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح“ اور دوسری ”امداد الفتاح“، ان میں سے پہلی مختصر؛ جب کہ دوسری شرح طویل ہے۔

            ۳-        إمداد الفتاح شرح نور الإیضاح

            ۴-        مراقی الفلاح بإمداد الفتاح شرح نور الإیضاح

            یہ کتاب فقہ حنفی میں اصول اور مأخذ کا درجہ رکھتی ہے، اس کی اہمیت کے پیشِ نظرمشہور فقیہ علامہ طحطاوی نے اس کا حاشیہ لکھا۔

            ۵-        غنیة ذوی الأحکام حاشیة درر الحکام لملا خسرو

            یہ ایک بے مثال حاشیہ ہے جو انھوں نے ملاخسرو کی معروف فقہی کتاب ”درر الحکام“ پر لکھا تھا، علامہ محبی اس حاشیہ سے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

            وصَنَّفَ کُتبًا کثیرةً فی المذہب وأجلَّہا حاشیتُہ علی کتاب الدرر والغرر لمنلا خسروا واشتہرت فی حیاتہ وانتفع الناس بہا وہی أکبر دلیل علی ملکتہ الراسخة․(۵)

            علامہ شرنبلالی نے فقہ حنفی میں بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں سب سے جلیل القدر ملا خسرو کی کتاب”درر اور غرر“ پران کا حاشیہ ہے، یہ حاشیہ علامہ کی زندگی میں ہی مشہور ہوگیا تھا اور لوگ اس سے منتفع ہوئے، یہ حاشیہ ان کے راسخ ومضبوط فقہی ملکہ اور استعداد کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

            ۶-        شرح منظومة ابن وہبان

            ۷-        اتحاف ذوی الاتقان بحکم الرہان

            ۸-        الرحمانیة الحسنیة فی مذہب السادة الحنفیة

            یہ کتاب علامہ شرنبلالی کے تقریباً ساٹھ(۶۰)فقہی رسائل کا مجموعہ ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔(۶)

علامہ شرنبلالی کا مقام اولیائے کرام کی نظر میں

            دینی علوم کی نشر واشاعت کے ساتھ ساتھ علامہ شرنبلالی باطنی اوصافِ حمیدہ سے بھی آراستہ تھے، علماء کے حلقے میں آپ کاجو بلند مقام تھا وہ تو اپنی جگہ؛ مگرصلحاء اور مجذوب قسم کے لوگوں کی نظر میں بھی آپ کا مقام عالی تھا؛ چنانچہ علامہ شرنبلالی اور ان صلحاء واولیائے کرام کے درمیان گفتگو چلتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ ان میں سے ایک نے علامہ شرنبلالی سے کہا:

            یا حسن! من ہذا الیوم لا تشتر لک ولا لأہلک وأولادک کسوة․(۷)

            اے حسن!آج سے تم اپنے لیے اور اپنے گھروالوں اور اولاد کے لیے کپڑے مت خریدنا۔

            چنانچہ اس دن کے بعد علامہ شرنبلالی کے پاس عمدہ قسم کے کپڑے آتے رہتے تھے؛ اس لیے انھیں کپڑاخریدنے کی کبھی نوبت نہیں آئی۔

اہلِ علم کی آپ سے متعلق آرا

            ۱- موٴرخِ شہیر محمد امین محبی، علامہ شرنبلالی سے متعلق تحریر فرماتے ہیں: وہو أحسن المتأخرین ملکةً فی الفقہ وأعرفُہم بنصوصِہ  وقواعدِہ  وأنداہم قَلَّمَا فی التحریر والتصنیف․(۸)

            ۲- فضل اللہ محبی آپ کے بارے میں رقم طراز ہیں:

            والشیخُ العمدةُ الحسن الشرنبلالی مصباحُ الأزہر وکوکبہ المنیر المتلالی لورآہ صاحب السراج الوہاج لاقتبس من نورہ․․․ کان أحسن فقہاء زمانہ․(۹)

            یعنی علامہ شرنبلالی جامع ازہر کا ایک چراغ اور اس کا روشن چمکتا ستارہ ہیں، اگر صاحبِ ”سراج وہاج“ انھیں دیکھتے تو ان کے نور سے روشنی حاصل کرتے ․․․ الخ۔

            اور پھر کئی سطروں میں علامہ شرنبلالی کی بہترین انداز میں تعریف کی۔

            ۳- علامہ عبد الحئی لکھنوی لکھتے ہیں: کان من أعیانِ الفقہاء وفضلاءِ عصرہ وممن سار ذکرہ  وانتشر أمرُہ  وکان المعولُ علیہ فی الفتاوی․(۱۰)

            اور بھی بہت سے حضرات نے ان کی تعریف کی ہے اور ان کی علم فقہ میں مہارت کا اعتراف کیاہے۔

وفات

            علامہ شرنبلالی نے پوری زندگی علم کی نشر واشاعت میں گزاری؛ بالآخررمضان المبارک، سن ۱۰۶۹ھ کو بمقام قاہرہ جمعہ کے دن عصر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔انتقال کے وقت ان کی عمر تقریباً ۷۵سال تھی۔(۱۱)

#         #         #

حواشی

(۱)                          الأعلام للزرکلي (۲/۲۰۸)، الناشر: دارالعلم للملایین، ط: ۲۰۰۲م

(۲)                          خلاصة الأثر في أعیان القرن الحادي عشر، محمد أمین المحبي (ص:۲/۳۸)، الناشر: دار صادر- بیروت

(۳)                          معجم الموٴلفین، عمر رضاک ہالة (۳/۲۶۵)، الناشر: داراحیاء التراث العربي- بیروت

(۴)                          التتمة الجلیلة لطبقات الحنفیة، صلاح محمد أبو الحجاج، (ص:۱۳)، رقم الترجمة؛ ۲۹۸، الناشر: مرکز العالمي للدراسات

(۵)                          خلاصة الأثر في أعیان القرن الحادي عشر، محمد أمین المحبي، (ص:۲/۳۸)

(۶)                          إرشاد الحنفي إلی أخبار أحمد الحموي، صلاح محمد أبو الحجاج، (ص:۱۰)، الناشر: مرکز العالمی للدراسات وتقنیة المعلومات/ والأعلام للزرکلي (۲/۲۰۸)

(۷)                          خلاصة الأثر في أعیان القرن الحادي عشر، محمد أمین المحبي، (ص:۲/۳۹)

(۸)                          خلاصة الأثر في أعیان القرن الحادي عشر، محمد أمین المحبي، (ص:۲/۳۸)

(۹)                          المصدر السابق

(۱۰)                الفوائد البہیة في تراجم الحنفیة للکنوي، (ص:۵۸)، الناشر: دار السعادة مصر

(۱۱)                خلاصة الأثر في أعیان القرن الحادي عشر، محمد أمین المحبي، (ص:۲/۳۹)- والأعلام للزرکلي، (۲/۲۰۸)

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts