سوال: سونے چاندی یا زیورات کی خرید وفروخت قرض (اُدھار) جو کہ سال چھ مہینے کی میعاد پر ہو، جائز ہے کہ نہیں وضاحت فرماکر ممنون فرمائیں۔

والسلام مع الاحترام

محسنہ خاتون

محلہ بڑضیاء الحق، دیوبند

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

            الجواب وباللّٰہ التوفیق:- روپے پیسے (مروجہ کرنسی) کے عوض سونا، چاندی یا اُن کے زیورات کی ادھار خرید وفروخت جائز ہے؛ بہ شرطیکہ ادھار کی مدت اور قسطوں کا تعین کرلیاجائے اور خریدے ہوئے سونا، چاندی یا اُن کے زیور پرمجلس عقد میں مشتری کا قبضہ ہوجائے، روپیہ پیسہ (کرنسی) کے ساتھ سونا، چاندی یا زیورات کا بھی ادھار رہنا جائز نہیں؛

            کیوں کہ روپے پیسے یا کسی بھی ملک کی کرنسی کا، سونا، چاندی یا اُن کے زیورات کے ساتھ تبادلہ راجح ومفتی بہ قول کے مطابق بیع صرف نہیں ہے؛ کیوں کہ کرنسی ثمن خلقی نہیں ہے؛ بلکہ فلوس کی طرح ایک ثمن اعتباری ہے؛ بلکہ آج کل کی کرنسیوں کا ثمن اعتباری ہونا زیادہ واضح ہے؛ کیوں کہ ان کی ذاتی قدر وقیمت فلوس سے بھی کم ہوتی ہے، انھیں ثمن بنانے والی چیز اصطلاح واعتبار کے سوا کچھ نہیں ہے اور فلوس کے بارے میں فقہا نے صراحت فرمائی ہے کہ ان کا باہم تبادلہ یا ان کا سونے چاندی کے ساتھ تبادلہ بیع صرف نہیں ہے؛

            لہٰذا کرنسی کا، سونا، چاندی یا اُن کے زیورات کے ساتھ تبادلہ بھی بیع صرف نہ ہوگا، پس جب یہ تبادلہ بیع صرف نہیں ہے تو ان کا باہم ادھار تبادلہ بھی جائز ہوگا؛ البتہ مجلس عقد میں کسی ایک عوض پر قبضہ ضروری ہے، دونوں عوض کا ادھار رہنا جائز نہیں؛ تاکہ بیع الکالیٴ بالکالیٴ (ادھار کی بیع ادھار سے) لازم نہ آئے۔

            وقید بالذہب والفضة لأنہ لو باع فضة بفلوس أو ذہبا بفلوس فانہ یشترط قبض أحد البدلین قبل الافتراق لا قبضہما کذا فی الذخیرة وقدمناہ عند قولہ في باب الربا: ”وصح بیع الفلس بالفلسین“ (البحرالرائق ۶:۳۲۴ عن الذخیرة، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

            تتمة تي أحکام الفلوس: تد المحیط: لو باع الفلوس بالفلوس أو بالدراہم أو بالدنانیر فنقد أحدہما دون الآخر جاز، وان افترقا لا عن قبض أحدہما جاز (المصدر السابق، ص:۲۱۹، ۲۲۰)․

            قولہ: ”وان افترقا لا عن قبض أحدہما جاز“: قال الرملي: صوابہ: لا یجوز (منحة الخالق علی البحر الرائق)، ومثلہ فی الدرالمختار (مع رد المحتار، کتاب البیوع، باب الربا، ۷:۴۱۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)․

                                                وسئل الحانوتي عن بیع الذہب بالفلوس نسیئة، فأجاب بأنہ یجوز اذا قبض أحد البدلین لما فی البزازیة: لو اشتری مائة فلس بدرہم یکفي التقابض من أحد الجانبین․ قال: ومثلہ ما لو باع فضة أو ذہبًا بفلوس کما في البحر عن المحیط (رد المحتار، کتاب البیوع، باب الربا، ۷:۴۱۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)              

فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم محمودحسن بلندشہری غفرلہ ۲۳/۳/۱۴۴۳ھ=۳۰/۱۰/۲۰۲۱ءالجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند دارالافتاء دارالعلوم دیوبند

=======================

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:

            مسئلہ یہ ہے کہ میں نے خضر بن انور نامی شخص سے بتاریخ ۱۳/۱۱/۱۳۸۴ ہجری میں سترہ لاکھ تومن (ایرانی پیسہ) قرض لیاتھا اب ۱۴۰۰ ہجری تقریباً سولہ سال بعد میں قرض ادا کرنا چاہتا ہوں اور آج کل کے تومن (ایرانی پیسہ) کی قیمت اُس وقت کے مقابلے میں بہت کم ہے تو میں یہ قرض اُس وقت کے تومن کی قیمت سے اداکروں یا اِس وقت کے تومن کی قیمت سے۔ لہٰذا اس مسئلے کی مکمل وضاحت کتب فتاویٰ کی روشنی میں وضاحت کیجیے۔

            اس مسئلے کا دارالافتاء دارالعلوم قاسمیہ بلخ افغانستان سے اس طرح جواب دیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ مسئلے میں قرض کی ادائیگی موجودہ تومن سے کی جائے اور اُس وقت کی تومن کی قیمت جو بلند تھی اس کا اعتبار نہ کیا جائے۔

            ان الدیون تقضی بامثالہا علی معنی أن المقبوض مضمون علی القابض، لأن قبضہ بنفسہ علی وجد التملک ولرب الدین علی المدیون مثلہ․ رد المحتار ج۵/۶۷۵، الاشباہ والنظائر ج۱/۲۲۵، بذل المجہود فی حل سنن أبی داوٴد ج۱۱/۴۷․

                                                والقرض ہو ان یقرض الدراہم والدنانیر أو شیئًا مثلیا دأخذ مثلہ فی ثانی الحال، فتاوی ہندیہ ج۵/۳۶۶․

                                                القرض یجب فی الشریعة الاسلامیة ان تقضی بامثالہا․ والذی یتحقق من النظر فی دلائل القرآن والسنة ومشاہدة معاملات الناس ان االمثلیة مطلوبة فی القرض ہی المثلیة فی المقدار والکمیة دون المثلیة فی القیمة والمالیة․

                                                بحوث فی القضایا فقہیة معاصرة/۱۷۴․

            اس فتوی کے بارے میں دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی کیا رائے ہے۔

            المستفتی: عبدالہادی قاسمی

            افغانستان

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

            الجواب وباللّٰہ التوفیق:- قرض میں مثل کی واپسی ہوتی ہے خواہ اُس کی قیمت گھٹ جائے یا بڑھ جائے، یعنی: قرض میں جو چیز لی گئی، واپسی کے وقت اُس کا مثل دیاجاتا ہے، جس میں صرف اُس کی کمیت اور مقدار کا لحاظ کیاجاتا ہے، مالیت کا اعتبار نہیں ہوتا؛ لہٰذا اگر آپ نے خضربن انورنامی کسی شخص سے سوالہ(۱۶) سال پہلے سترہ(۱۷) لاکھ تومان (ایرانی ریال) لیے تھے تو اب سولہ سال بعد بھی سترہ لاکھ تومان ہی کی واپسی واجب ہے، اشیا کی گرانی ومہنگائی کے نتیجے میں اس وقت سترہ لاکھ تومان کی جو مالیت کم ہوچکی ہے، اُس کا کچھ اعتبار نہ ہوگا؛ البتہ قرض دینے والے نے ایک ضرورت مند کو اللہ تعالیٰ کی رضا وخوش نودی کے لیے قرض دے کر جو اُس کی مدد کی ہے، اس کا اُسے آخرت میں بہت ثواب ملے گا اوراگر قرض لینے والے نے استطاعت کے باوجود قرض کی ادائیگی میں غیرمعمولی تاخیر کی ہے تو اُسے اس کا گناہ ہوگا اور سوال نامے میں دارالافتا دارالعلوم قاسمیہ بلخ (افغانستان) کا جو جواب نقل کیاگیا ہے، وہ صحیح و درست ہے۔

            (ہو) لغة ما تعطیہ لتتقاضاہ، وشرعًا: ما تعطیہ من مثلي لتتقاضاہ، وہو أخصر من قولہ: (عقد مخصوص) أي: بلفظ القرض ونحوہ (یرد علی دفع مال)․․․․ (مثلي) خرج القیمي (لآخر لیرد مثلہ) خرج نحو ودیعة وہبة (وصح) القرض (في مثلي) ہو کل ما یضمن بالمثل عند الاستہلاک (لا في غیرہ) من القیمیات کحیوان وحطب وعَقار وکل متفاوت لتعذر المثل (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، فصل في القرض، ۷:۳۸۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۵:۱۹۷، ۱۹۸، ت: الفرفور، ط:دمشق)

                                                ولو استقرض فلوسًا نافقةً وقبضہا فکسدت فعلیہ رد مثل ما قبض من الفلوس عددًا في قول أبي حنیفة  وأبي یوسف، وفي قول محمد علیہ قیمتہا․․․․․․․ ․ ولو لم تکسد ولکنہا رخصت أو علت فعلیہ رد مثل ما قبض بلا خلاف لما ذکرنا من أن صفة الثمنیة باقیة (بدائع الصنائع، کتاب البیوع، فصل في حکم البیع، ۷:۱۹۰، ط: دارالحدیث، القاہرة)․

                                                سئلت عن رجل أقرض آخر مقدارًا من الریال المجیدي وقت رواجہ بثلاثین قرشًا، ثم رد المستقرض لہ مثل المقدار الذي استقرضہ منہ بعد أن نزل الی عشرین قرشًا فامتنع المقرض من قبولہ وطلب منہ صرفہا علی سعر ثلاثین قرشًا، فہل لہ ذلک؟ فالجواب أنہ لیس الامتناع من قبول مثلما دفع کما في البہجة عن المجموعة الجدیدة، وفي نتیجة الفتاوی ما نصہ: والمقبوض علی وجہ القرض مضمون بمثلہ اہ، وفیہا نقلًا عن جامع الفصولین: والواجب في القرض ودُّ المثل اہ، وفي رد المحتار: لو کانت الدراہم فضتہا خالصة أو غالبة کالریال الفرنجي في زماننا فالواجب رد مثلہا وانکانفي بلدة أخری؛ لأن ثمنیة الفضة لا تبطل بالکساد ولا بالرخص أوالغلاء، قال: ویدل علیہ ما قدمناہ عن کافي الحاکم من أنہ لا ینظر الی غلاء الدراہم ولا الی رخصہا اہ واللّٰہ تعالی أعلم (الفتاوی الکاملیة في الحوادث الطرابلسیة، کتاب البیوع، باب القرض، ص:۹۲)․

                                                سئل في رجل استقرض من آخر مبلغًا من الدراہم وتصرف بہا، ثم غلا سعرہا، فہل علیہ رد مثلہا؟ الجواب: نعم، ولا ینظر الی غلاء الدراہم ورخصہا کما صرح بہ في المنح في فصل القرض مستمدًا من مجمع الفتاوی (تنقیح الفتاوی الحامدیة، کتاب البیوع، باب القرض، ۱:۲۵۹)․

            بہشتی زیور میں ہے:

            مسئلہ: جس زمانہ میں روپے کے دس سیر گیہوں ملتے تھے، اُس وقت تم نے پانچ سیر گیہوں قرض لیے، پھر گیہوں سستے ہوگئے اور روپے کے بیس سیر ملنے لگے، تو تم کو وہی پانچ سیر گیہوں دینا پڑیں گے، اسی طرح اگر گراں ہوگئے تب بھی جتنے لیے ہیں، اُتنے ہی دینا پڑیں گے (مکمل ومدلل اختری بہشتی زیور عکسی، ۵:۳۰،۳۱، مسئلہ:۲، مطبوعہ: کتب خانہ اختری متصل مظاہرعلوم سہارن پور)

            اور فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

            سوال: یوسف کا قرض بشیر پر ہے، غالباً اب سے چودہ پندرہ سال ہوئے، اب تک قرض ادا نہ کرسکا، اب دیتا ہے، یوسف کہتا ہے کہ جس سال میں نے قرض دیا تھا، اس وقت چاندی کا بھاؤ دو یا ڈھائی روپیہ تولہ تھا، اب میں اتنی چاندی کے نوٹ لوں گا، کم نہیں لے سکتا، یہ خیال محمد یوسف کا درست ہے یا نہیں؟

            الجواب حامدًا ومصلیًا: اب سے چودہ، پندرہ برس پہلے قرض جتنے نوٹ لیے تھے اتنے ہی نوٹ واپس کرنے کا حکم ہے، چاندی کا بھاؤ تیز ہوجانے کی وجہ سے قرض کے نوٹ زیادہ لینا درست نہیں (فتاویٰ محمودیہ جدید، باب القرض: قرض کا بیان، ۱۶:۴۰۵،۴۰۶، سوال: ۷۹۷۴، الف، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل)

فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم محمودحسن بلندشہری غفرلہ ۱۰/۴/۱۴۴۳ھ=۱۶/۱۱/۲۰۲۱ءالجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند دارالافتاء دارالعلوم دیوبند

=======================

            سوال:کنیڈا میں بہت سی کمپنیاں ہیں جواب حلال نیل پالش فروخت کرتی ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ پانی نیل پالش کے ذریعے گھس کر ناخونوں تک پہنچ سکتا ہے؛ اس لیے آپ اس نیل پالش سے وضو کرسکتے ہیں، جس برانڈ کے بارے میں ، میں پوچھ رہا ہوں وہ ہے :

/https://www.maya-cosmetics.com

کیا آپ براہ کرم مشورہ دے سکتے ہیں کہ کیا یہ جائزہے؟ اور میں اپنے ناخونوں پر اس نیل پالش سے وضوکرسکتی ہوں؟

شبانہ، ٹورنٹو، کناڈا

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

            الجواب وباللّٰہ التوفیق:- (۱،۲): نیل پالش میں عام طور پر ایسی تہہ اور پرت جمتی ہے، جو ناخن کے اوپری حصے تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہوتی ہے اور آپ جو نیل پالش ذکر کررہی ہیں، وہ ہم نے دیکھی نہیں، نیز ہمیں اُس کے اجزا کی تحقیق نہیں ہے؛ اس لیے کمپنی کے محض دعوے کی بنا پر اس نیل پالش کے استعمال کو جائز کہنا اوراس کے ساتھ وضو اور غسل کو صحیح و درست قرار دینا مشکل ہے، اس قسم کی بعض نیل پالش کے بارے میں جمعیة علما کے، زید، این (جنوبی افریقہ) نے تجرباتی ٹیسٹ کیا تو نتیجہ کمپنی کے دعوی کے برخلاف نکلا، یعنی: وہ نیل پالش بھی عام نیل پالشوں کی طرح ناخن کے اوپری حصہ تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ تھی، آپ اس سلسلہ میں حضرت مفتی ابراہیم ڈیسائی کا وہ فتوی ملاحظہ کرسکتی ہیں، جس کی لنک حسب ذیل ہے:

http://www.askimam.org/public/question_detail/25327

            والثالث- من شروط صحة الوضوء والغسل- زوال ما یمنع وصول الماء الی الجسد لجرمہ الحائل کشمع و شحم (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوی، ص:۶۲، ط: دارالکتب العلمیة بیروت)․

                                                ومفادہ عدم الجواز اذا علم أنہ لم یصل الماء تحتہ، قال فی الحلبة: وہو أثبت․ قولہ: ”ان صلبًا“: ․․․․ أي: ان کان ممضوغا مضغا متأکدا بحیث تداخلت أجزاوٴہ وصار لزوجة وعلاکة کالعجین، شرح المنیة․ قولہ: ”وہو الأصح“: صرح بہ في شرح المنیة، وقال: لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورة والحرج اہ، ولا یخفی أن ہذا التصحیح لا یخالف ما قبلہ فافہم (رد المحتار، کتاب الطہارة، ۱:۲۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱:۵۱۴،۵۱۵، ت: الفرفور، ط: دمشق)

فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم محمدنعمان سیتاپوری غفرلہ ۹/۳/۱۴۴۳ھ=۱۶/۱۰/۲۰۲۱ءالجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، وقار علی غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند دارالافتاء دارالعلوم دیوبند

=======================

            سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:

            رمضان کے ۳۰روزے مکمل کرلینے کے بعد اگر چاند نظر نہ آئے تو عیدالفطر کا کیا حکم ہے؟

            علامہ شامی نے (۳/۳۲۱-۳۲۲، کتاب الصوم، مکتبہ دارالکتاب، دیوبند) میں اس سے متعلق کافی اختلاف نقل کیا ہے، اس سلسلے میں راجح قول کیا ہے؟ کیا مطلع کے ابرآلود ہونے اورنہ ہونے کے اعتبار سے حکم میں کچھ فرق ہے یا دونوں صورتوں میں ایک ہی حکم ہے، علامہ شامی کی بحث کی پیش نظر مفتی بہ قول کی تعیین فرماکر ممنون ومشکور فرمائیں۔

المستفتی: محمد حبان بیگ علی گڑھی

شعبہٴ ترتیب فتاویٰ دارالعلوم دیوبند

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

            الجواب وباللّٰہ التوفیق:- (۱-۴): اگر رمضان کا ثبوت رویت عامہ سے ہو ا یا شعبان کے تیس دن پورے ہوکر ہوا تو ۳۰/روزے مکمل ہونے پر بلاکسی تگردد افطار جائز؛ بلکہ واجب ہوگا اوراگر رمضان کاثبوت ۲/عادل (ثقہ) آدمیوں کی خبر سے ہوا اور ۳۰/روزے مکمل ہونے پر چاند نظر نہیں آیا اور مطلع صاف نہیں ہے تو اس صورت میں بھی بالاتفاق افطار کا حکم ہوگا اوراگر مطلع صاف ہے تو اس صورت میں بھی راجح یہی ہے کہ افطار کا حکم ہوگا۔

            اور اگر رمضان کا ثبوت صرف ایک عادل کی خبر سے ہوا ہے، یعنی: جن صورتوں میں ایک عادل کی خبر سے رمضان ثابت ہوجاتا ہے، جیسے: مطلع صاف نہ ہو اور ۳۰/روزے مکمل ہونے پر چاند نظر نہیں آیا اور آسمان صاف نہیں ہے تو اس صورت میں بھی متعدد فقہا کی صراحت کے مطابق بالاتفاق افطار کا حکم ہوگا اور اگر مطلع صاف ہوتو حضرات شیخین کے نزدیک افطار جائز نہیں؛ جب کہ حضرت امام محمد اس صورت میں بھی افطار جائز فرماتے ہیں اور راجح شیخین کا قول ہے، اور فتاویٰ محمودیہ اور علم الفقہ میں بھی اسی کو اختیار کیاگیا ہے (فتاویٰ محمودیہ، ۱۰:۱۳۴، جواب سوال:۴۸۰۴، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل بہ حوالہ رد المحتار، علم الفقہ، ص:۴۱۹، مطبوعہ: دارالاشاعت کراچی)، نیز درمختار وشامی اور عالمگیری وغیرہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے اور علامہ امیر کاتب اتقانی نے جو امام محمد کے قول کو اصح قرار دیا ہے، اس کے بارے میں علامہ شامی فرماتے ہیں:

            ”وجینئذ فما في غایة البیان في غیر محلہ؛ لأنہ ترجیح لما ہو متفق واللّٰہ علیہ تأمل“ (رد المحتار، اول کتاب الصوم، ۳:۳۶۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۶:۲۵۰، ت: الفرفور، ط: دمشق)

فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم محمدنعمان سیتاپوری غفرلہ ۲/۳/۱۴۴۳ھ=۹/۱۰/۲۰۲۱ءالجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، وقار علی غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند دارالافتاء دارالعلوم دیوبند  

=======================

————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2،  جلد: 106 ‏، جمادی الثانی۔رجب المرجب 1443ھ مطابق جنوری۔فروری 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts