از: حضرت مولانامفتی محمد امین پالن پوری مدظلہ العالی

استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

تلخیص واضافہ: ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی

            اسم گرامی: (حضرت مولانا مفتی) سعیداحمد بن یوسف بن علی بن جیوا (یحییٰ) بن نورمحمد (شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند)

            ولادت باسعادت: (محفوظ نہیں ، اندازے سے) ۱۹۴۰÷/۱۳۶۰ھ۔

            جائے پیدائش: کالیڑہ، ضلع: بناس کانٹھا، شمالی گجرات، آبائی وطن: ڈبھاڈ گائوں کی نئی بستی مجاہد پورہ،رہائش گاہ: ڈبھاڈکی سرحدمیں ،مستقل رہائش گاہ: محلہ اندرون کوٹلہ، دیوبند۔

            تعلیم: (۱) مکتب کالیڑہ، اساتذہ: مولانا دائود چودھریؒ، مولانا حبیب اللہ چودھریؒ، مولانا ابراہیم جونکیہؒ (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم آنند، گجرات) ہیں ۔

            (۲) دارالعلوم چھاپی، میں (چھ ماہ) اپنے ماموں : مولانا عبدالرحمن شَیْراؒ اور دیگراساتذہ سے فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ، پھر ماموں کے ساتھ ان کے وطن جونی سیندھنی میں فارسی کی تکمیل ہوئی۔

            (۳) پالن پور میں مصلح امت حضرت مولانا محمدنذیرمیاں ؒ کے مدرسہ میں عربی کی ابتدائی اورمتوسط کتابیں پڑھیں ، حضرت مولانا مفتی محمد اکبر صاحب اور مولانا محمد ہاشم بخاریؒ آپ کے استاذ ہیں ، جو بعد میں دارالعلوم دیوبند میں استاذ ہوے۔

            (۴) مظاہرعلوم سہارن پور: ۱۳۷۶ھ تا ۱۳۷۸ھ حضرت علامہ صدیق احمد صاحب جمویؒ، مولانا محمد یامینؒ صاحب سہارنپوری، حضرت مولانا مفتی محمد یحییٰ صاحب سہارنپوری،  حضرت مولانا مفتی عبدالعزیز صاحب رائے پوری اور حضرت مولانا وقار علی صاحب بجنوری رحمہم اللہ سے منطق وفلسفہ، نحو اور دیگر علوم کی کتابیں پڑھیں ۔

            (۵) دارالعلوم دیوبند:  شوال۱۳۷۹ھ میں داخلہ لیا اور ۱۳۸۲ھ تک ہدایہ اولین،  جلالین، الفوزالکبیر، تصریح، بست باب، شرح چغ مینی، رسالہ فتحیہ، شمسیہ، علم ہیئت کی کتابیں ، مشکوٰۃ المصابیح، ہدایہ آخرین، تفسیر بیضاوی اور دورئہ حدیث شریف کی کتابیں پڑھیں ۔

            اساتذہ: حضرت مولانا سیّداختر حسین صاحب دیوبندی، حضرت مولانا بشیراحمد خاں صاحب بلندشہری، حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلندشہری، حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندی، حضرت مولانا عبدالجلیل صاحب کیرانوی، حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظمی، حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ صاحب، حضرت مولانا فخرالحسن صاحب مرادآبادی، حضرت مولانا محمد ظہور دیوبندی، حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی،  حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی، حضرت مفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری، حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندی، شیخ محمود عبدالوہاب محمود مصری رحمہم اللہ تعالیٰ۔

            دورئہ حدیث شریف میں پہلی پوزیشن سے کامیابی حاصل ہوئی، صحیح مسلم میں نمبرات پینتالیس ہیں بقیہ ساری کتابوں میں پورے (صد فی صد) پچاس پچاس ہیں ۔

            ۱۳۸۲ھ میں تکمیل افتاء میں داخلہ لیا، اسی سال شیخ محمود عبدالوہاب محمود مصریؒ سے حفظ قرآن کا آغاز فرمایا اور اپنے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کو حفظ کرایا، اگلے سال ارباب انتظام نے فتویٰ نویسی کے لیے معاون افتاء کی حیثیت سے تقرر کیا، مستقل تقرر میں بعض لوگوں نے روڑے اٹکائے تو حضرت علامہ بلیاویؒ نے فرمایا: ’’مولوی صاحب! گھبرائو نہیں ، اس سے اچھے آئوگے‘‘، چنانچہ نوسال بعد ۱۳۹۳ھ میں درجۂ وسطیٰ الف کے استاذ کی حیثیت سے تقرر ہوگیا۔

            منصبِ شیخ الحدیث وصدرالمدرسین: حضرت الاستاذ شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی علالت اور معذرتِ تدریس کے بعد ۱۷؍ربیع الاوّل ۱۴۲۹ھ بروز چہارشنبہ مجلس تعلیمی نے صحیح بخاری جلد اوّل کی تدریس آپ سے متعلق فرمائی، اس کے بعد سے رجب ۱۴۴۱ھ تک آپ نے تیرہ سال بخاری شریف کا درس دیا، اس کے بعد اسی سال ۲۱؍شعبان المعظم کو مجلس شوریٰ نے پہلی نشست میں صدرالمدرسین کا عہدہ تفویض فرماتے ہوئے دوسری نشست میں شرکت کی دعوت دی، الحمدللہ اس عہدے پر بھی وقار وتمکنت کے ساتھ وفات تک فائز رہے۔

            زیردرس کتابیں : ۱-مسلم الثبوت، ۲-ہدایہ مکمل، ۳-سلم العلوم، ۴-ہدیہ سعیدیہ، ۵-جلالین مکمل، ۶-الفوزالکبیر، ۷-ملاحسن، ۸-شرح عقائد جلالی، ۹-مسامرہ، ۱۰-دیوان متنبی، ۱۱-میبذی، ۱۲-بیضاوی سورئہ بقرہ اور (پارہ۲۱تا ۲۵)، ۱۳-مشکوٰۃ المصابیح مکمل، ۱۴-نخبۃ الفکر، ۱۵-حسامی (بحث قیاس) ۱۶-سبعہ معلقہ، ۱۷-موطا مالکؒ، ۱۸-دیوان حماسہ، ۱۹-تفسیر مظہری (۱۶ تا ۲۰)، ۲۰-سراجی، ۲۱-نسائی، ۲۲-تفسیر مدارک (پارہ ۶ تا ۱۰)، ۲۳-موطا محمدؒ، ۲۴-ترمذی (جلد اوّل)، ۲۵-ابوائود، ۲۶-صحیح بخاری مکمل، ۲۷-مسلم (جلد اوّل)، ۲۸-مقدمہ ابن الصلاح، ۲۹-مناظرہ رشیدیہ، ۳۰-ابن ماجہ، ۳۱-طحاوی، ۳۲-حجۃ اللہ البالغہ۔

             تدریس کے ساتھ ۱۳۹۵ھ اور ۱۴۰۲ھ میں دارالافتاء کی نگرانی اور فتویٰ نویسی کی خدمات بھی انجام دی ہیں ۔

            مجلس تحفظ ختم نبوت کی نظامت: ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی نظامت کا سہرا آپ کے سر تھا، مجلس کے قیام کے روز اول سے اپنی وفات تک آپ نے اس کوبحسن و خوبی انجام دیا اور زندگی کی آخری تقریر بھی ’’ختم نبوت کے اثبات‘‘ پر فرمائی۔

            تصانیف: ۱-ہدایت القرآن (آٹھ جلد)، ۲-تحفۃ القاری (گیارہ جلد)، ۳-تحفۃ الالمعی (آٹھ جلد)، ۴-زبدۃ الطحاوی (عربی)، ۵-رحمۃ اللہ الواسعہ، ۶-تہذیب المغنی (غیرمطبوعہ)، ۷-افادات نانوتوی، ۸-افادات رشیدیہ، ۹-الفوزالکبیر (عربی)، ۱۰-العون الکبیر شرح عربی الفوز الکبیر، ۱۱-فیض المنعم، ۱۲-تحفۃ الدرر، ۱۳-حیات امام ابودائود، ۱۴-حیات امام طحاوی، ۱۵-مشاہیر محدثین وفقہائے کرام اور تذکرہ راویانِ کتب حدیث، ۱۶-مبادی الفلسفہ (عربی)، ۱۷-معین الفلسفہ، ۱۸-مبادی الاصول (عربی)، ۱۹-معین الاصول، ۲۰-مفتاح التہذیب، ۲۱-آسان منطق، ۲۲-آسان صرف، ۲۳-آسان نحو، ۲۴-آسان فارسی قواعد، ۲۵-محفوظات  (بچوں کے لیے آیات واحادیث کا مجموعہ) تین حصے، ۲۶-آپ فتویٰ کیسے دیں ؟، ۲۷-کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟، ۲۸-اسلام تغیرپذیر دنیا میں ، ۲۹-نبوت نے اسلام کو کیا دیا؟، ۳۰-ڈاڑھی اور انبیاء کی سنتیں ، ۳۱-حرمت مصاہرت، ۳۲-تسہیل ادلۂ کاملہ حواشی وعناوین، ۳۳-ایضاح الادلہ، ۳۴-حواشی امداد الفتاویٰ (جلد اوّل)، ۳۵-تحقیق وتعلیق حجۃ اللہ البالغہ (عربی)، ۳۶-شرح علل ترمذی، ۳۷-وافیہ حاشیہ عربی کافیہ، ۳۸-ہادیہ شرح کافیہ، ۳۹-علمی خطبات (دوجلد)، ۴۰-دین کی بنیادیں اور تقلید کی ضرورت، ۴۱-عصری تعلیم، ۴۲-جلسۂ تعزیت اور اس کا شرعی حکم، ۴۳-ارشاد الفہوم شرح سلوم العلوم، ۴۴-کامل برہان الٰہی (چار جلد)، ۴۵- فقہ حنفی اقرب الی النصوص ہے۔ (متعدد کتابوں کے ترجمے فارسی، پستو، انگریزی، بنگالی، برمی اور دیگر زبانوں میں ہوچکے ہیں )

            اولاد واحفاد: ۱- مولوی مفتی حافظ رشید احمد مرحوم ان کے دو فرزند: (۱)مفتی حافظ مسیح اللہ، (۲)حافظ سمیع اللہ۔

            ۲-         حافظ سعید مرحوم، ان کے دو فرزند: (۱)حافظ حبیب اللہ، (۲)مجیب اللہ اور دو دختر: (۳)حافظہ نجیبہ، (۴)حافظہ فاطمہ۔

            ۳-         مولوی حافظ وحید احمد، ان کے فرزند: (۱)حافظ سعد اللہ اور دختر: (۲)فرحہ۔

            ۴-         مولوی حافظ حسن احمد، ان کے فرزند: (۱)حافظ حسان، دختر: (۲)حافظہ بشریٰ، (۳)حافظہ حسنیٰ، (۴)حافظہ سُعدیٰ۔

            ۵-         مولانا حافظ حسین احمد، ان کے فرزند: (۱)محمد، دختر: (۲)حافظہ سلمیٰ۔

            ۶-         مولانا حافظ ابراہیم، ان کے فرزند: (۱)حافظ یحییٰ،(۲) انیسہ،(۳)اریبہ۔

            ۷-        حافظ قاسم احمد، ان کے فرزند: (۱)حافظ عاصم،(۲) رشدیٰ۔

            ۸-         حافظہ عائشہ: ان کے فرزند: (۱)محمد، دختر: (۲)حافظہ فائزہ، (۳)حافظہ فوزیہ، (۴)حافظہ مبشرہ۔

             ۹-        مولانا حافظ محمد: ان کے فرزند: (۱)رشید، (۲)حافظہ نجمہ۔

            ۱۰-       مولانا حافظ احمد سعید: ان کے فرزند: (۱)حافظ حفیظ، (۲)یوسف، دختر: (۳)زینب۔

            ۱۱-        حافظہ فاطمہ: فرزند:(۱) نعیم، دختر:(۲) نُعمی،(۳) عُظمی۔

            ۱۲-       حافظ  عبداللہ: (۱)عائشہ، (۲)سعدیہ۔

            ۱۳-       حافظ عبید اللہ۔ ان کی ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہے۔

            صلبی اولاد تیرہ ہیں اور سب حافظ ہیں ، پوتے، پوتی، نواسے اور نواسیوں میں اٹھارہ حافظ ہیں اور بہوئوں میں پانچ حافظہ ہیں ، اس طرح خاندان میں کل چھتیس (۳۶) حفاظ ہیں ۔

            زیارت حرمین: آٹھ مرتبہ حرمین شریفین کی زیارت نصیب ہوئی، چار بار حج اور چاربار عمرے کے لیے، ایک عمرہ پچاس بار طواف کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، اہلیہ محترمہ ساتھ تھیں ۔

            اسفار: ہندوستان کے علاوہ بنگلہ دیش، پاکستان، افریقہ، امریکا، کناڈا، برطانیہ، ترکی، قطر، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات، فیجی اور سمرقند وغیرہ کے اسفار دینِ حنیف کی تبلیغ کے لیے کیے۔

            بیعت وخلافت: شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریاؒ سے بیعت ہوئے، مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ کی مجالس میں شرکت کی، حضرت مولانامفتی مظفرحسین صاحب مظاہریؒ نے دیوبند تشریف لاکر اجازت بیعت عنایت فرمائی، پھر تحریری اجازت نامہ ارسال فرمایا۔

            وفات حسرت آیات: ۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹؍مئی ۲۰۲۰÷ روز سہ شنبہ بہ وقت صبح: ساڑھے چھ پونے سات کے درمیان۔ بہ مقام: نیوسنجیونی ہاسپٹل ملاڈ، ممبئی۔

            نماز جنازہ: ’’محراب مسجد‘‘ کے باہر؛ امامت فرزند ارجمند: مولاناحافظ وحید احمد نے کی۔

            تدفین: قبرستان اوشیورہ، جوگیشوری، ممبئی ۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :7-6،    جلد:104‏،  شوال المكرم – ذی القعدہ 1441ھ مطابق جون –جولائی 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts