حفظ وقراء ت کے طلبہ اور اساتذہ سے چند گزارشات

از: مولانامحمد شاکر عمیر معروفی قاسمی مظاہری

احیاء العلوم مبارک پور، اعظم گڑھ

            تعطیلِ کلاں کے بعد اب شوال المکرم میں تعلیمی سالِ نو کی آمد آمد ہے، طلبہ سالانہ چھٹی گزار کر مدارس وجامعات کا رخ کیے ہوئے ہیں ، اب مدارس وجامعات میں پھر سے قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں بلند ہونے کو ہیں ، کوئی طالب علم شعبۂ ناظرۂ قرآن کریم میں داخلہ لے رہاہوگا، کوئی شعبۂ تحفیظ القرآن الکریم میں ، کوئی شعبۂ تجوید وقراء ت میں اور کوئی شعبۂ فارسی میں ، کوئی شعبۂ عربی میں اور کوئی عالمیت وفضیلت کے بعد تکمیلات کا متمنی ہوگا، الغرض ہر ایک اپنے اپنے درجات میں داخلے کی فکر میں ہوگا، مگر ان سب درجات میں سب سے زیادہ فضیلت کا حامل وہ شعبہ ہے جس کا تعلق قرآن کریم کی تعلیم وتعلم سے ہو، کیوں کہ بلاشک وشبہہ قرآن کریم کا سیکھنا اور سکھاناعملِ خیر اور کارِ ثواب اور باعثِ سعادت دارین ہے، خواہ ناظرہ کی شکل میں ہو یا حفظ وقراء ت اور اس کی تفسیر کی شکل میں ، بہر صورت حدیثِ نبوی علی صاحبہا الصلاۃ والسلام ’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ کا مصداق ہے۔

            یہ طلبہ اپنے اپنے اوقات میں فارغ ہوکر حافظ قرآن، قاریٔ قرآن اور عالمِ دین ومفتیٔ شرعِ متین بنتے ہیں ، کتنے حفاظ کرام ایسے ہیں جو الفاظِ قرآن کے حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ مجود قرآن اور عالمِ معانی قرآن بھی ہیں اور دین کا خاصا علم ان کے سینوں میں محفوظ ہے، اور خدا کا شکر ہے کہ وہ ان علوم پر عمل پیرا بھی ہیں۔

            مگر مساجد میں امامت کی گراں بار ذمہ داری اکثر ایسے حفاظ کے ہی حوالے ہوا کرتی ہے، جو یا تو سرے سے عالم ہی نہیں ہوتے، یا عالم تو ہوتے ہیں مگر قرآن وحدیث کا سطحی علم رکھنے والے، جنہیں نماز میں مختلف مسائل: فرائض، واجبات، سنن، مستحبات، مکروہات اور وجوہاتِ سجدۂ سہو کا علم ہی نہیں ہوتا، سالوں سے امامت کا فریضہ انجام دینے کی ذمہ داری پر مامور ہیں ، مگر جیسی تیسی نماز پڑھا کر حجرۂ شریفہ میں تشریف لے جانا ایک عادت سی بن گئی ہے، اور کسی کی مثبت اور قرآن وحدیث اور فقہ وفتاویٰ کی روشنی میں صحیح رہنمائی کے باوجود اپنی غلط عادتِ مستمرہ چھوڑکر سنت کے مطابق نماز پڑھانے کی طرف نہیں آتے، خدا جانے انہیں سنت کے مطابق نماز پڑھنے اور پڑھانے سے کون سی چیز مانع ہے؟

            جب کہ امامت بڑی ذمہ داری اور رسول اللہ … کی نیابت کا مقام ہے، امام تمام مقتدیوں کی نمازوں کا ذمہ دار اور کفیل ہوتا ہے، رسول اللہ… کا ارشادگرامی ہے: ’’الإمامُ ضَامِنٌ‘‘۔ [ترمذی، ابوداؤد] یعنی امام ضامن ہے۔

            مطلب یہ ہے کہ امامت کرنے والا اپنے مقتدیوں کی نماز کا کفیل اور صحت وفساد کے اعتبار سے ذمہ دارہوتاہے۔ (عمدۃ القاري للعیني، مرقاۃ المفاتیح للقاري)

            حضرت ابو علی ہمدانیؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عقبہ بن عامرؓ کے ساتھ سمندری سفر میں تھے پھر کسی نماز کا وقت ہوگیا تو ہم نے حضرت عقبہؓ سے درخواست کی کہ آپ نماز پڑھادیں کیوں کہ آپ صحابیٔ رسول ہیں اس لئے امامت کے زیادہ حقدار ہیں ، انہوں نے نماز پڑھانے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں نے حضور اقدس … کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’مَنْ أَمَّ النَّاسَ فَأَصَابَ فَالصَّلاۃُ لَہ ولَہُمْ، ومَنْ انْتَقصَ مِنْ ذٰلِکَ فَعَلَیْہِ ولَاعَلَیْہِمْ‘‘ یعنی جو شخص لوگوں کی امامت کرے اور ٹھیک ٹھیک امامت کرے تو وہ نماز امام اور مقتدی دونوں کے حق میں مفید ہے اور جس نے امامت کے حق میں کوتاہی کی اس کا وبال سب اسی پرہے، مقتدیوں پر نہیں۔ (ابوداؤد  ۱/۸۶، ابن ماجہ ۶۹)

             حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ تین لوگوں پر رسول اللہ… نے لعنت فرمائی ہے جس میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جو کسی قوم کی امامت کرائے جب کہ وہ لوگ اس کو ناپسند کررہے ہوں ، حدیث کے الفاظ ہیں : رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَہُمْ لَہ کَارِہُوْنَ۔ [ترمذی]

            اور بقول علامہ ابن ملکؒ ناپسندیدگی کی وجہ امام کا بدعتی ہونا، یافاسق و فاجرہونا، یا ناواقف وجاہل ہونا اور نماز کے مسائل وغیرہ سے بے خبر ہونا ہو۔ [شرح المصابیح لابن المَلک]

            ابن ماجہ وغیرہ کی روایت میں ہے کہ: ایسے امام کی نماز اس کے سر سے ایک بالشت اوپر نہیں چڑھتی(بارگاہِ الٰہی میں قبول نہیں ہوتی) جس کو لوگ ناپسند کرتے ہوں۔

            شراحِ حدیث لکھتے ہیں کہ یہ اس وقت ہے جب کہ اکثر علما حضرات اس کو ناپسند کرتے ہوں ، اس کے فسق وفجور اور دینی تساہلی وسستی کی وجہ سے۔ (مرقاۃ المفاتیح)

            اس سلسلہ میں طلبہ واساتذۂ حفظ وقراء ت کے تعلق سے چند گزارشات ہیں :

            (۱)       اساتذۂ کرام کی طرف سے اول دن سے ہی طلبہ کے اندر اخلاص کا جذبہ پیدا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔

            (۲)       شروع سے ہی اساتذہ طلبہ کے اندر ماننے کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش فرمائیں ، تاکہ حق بات ماننا ان کی عادت بن جائے۔

            (۳)      حفظ وقراء ت سے فارغ ہونے والے طلبہ کی امامت اور مسائلِ امامت کے تعلق سے خصوصی رہنمائی بلکہ عملی مشق کرائی جائے اور سنت کے مطابق نماز پڑھانے کا عادی بنانے کی فکر کی جائے، اس سلسلہ میں ذمہ دارنِ مدارس کی مدرسین سے مشورہ کے بعد جو ترکیب تجویز ہو اس کے مطابق عمل کیاجائے ۔

            (۴)      طلبہ کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی جائے کہ اللہ رب العزت کے یہاں ’’حسنِ عمل‘‘ کی اہمیت ومقبولیت ہے، محض کثرتِ عمل کی نہیں ، چنانچہ مفسرین نے’’الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا‘‘ کے ذیل میں حضرت فضیل بن عیاض ؒ کا قول لکھاہے کہ ’’عمل جب تک دو صفت کے ساتھ متصف نہ ہو قابلِ قبول نہیں : ایک اخلاص کے ساتھ انجام دیاجائے، دوسری صفت یہ ہے کہ سنت کے مطابق اداکیاجائے۔ (تفسیر بغوی)

            (۵)      امامت کی ذمہ داری اور اس کی غیر معمولی اہمیت سے واقف کرایاجائے، اس سلسلہ میں احادیث وآثار اور اکابر کے تقویٰ و احتیاط کے سبق آموز قصے سنائیں جائیں۔

            (۶)       حضراتِ قرائے کرام زیادہ تر پنج گانہ نماز میں مسنون قراء ت کا لحاظ کرکے ہی سورتوں کی مشق کرانے کا اہتمام فرمایاکریں اور وقتاًفوقتاً اس کا زبانی تذکرہ بھی کردیاکریں ، بلکہ نماز میں انہیں مسنون سورتوں کے پڑھنے کی تاکید فرماتے رہیں۔

            (۷)      طلبہ کونہایت اہتمام کے ساتھ بتائیں کہ قیامت کے دن انسان اپنے اعمال کے حساب میں پریشان ہوگا، وہ دوسروں کے بوجھ کو کیوں کر برداشت کرپائے گا، لہٰذا خلافِ سنت نماز پڑھا کر، لغو امور اورمکروہات وغیرہ کا ارتکاب کر کے نماز پڑھانے کی عادت بنالینے سے جو تمام مقتدیوں کاگناہ اپنے سر پڑے گا انسان اس کا کیسے تحمل کرپائے گا!!!!!

             (۸)      فرض نمازوں کی امامت ہو یا نمازِتراویح کی، قرآن کریم اس انداز سے پڑھاجائے کہ قرآن کی لعنت سے بچ کر اس کے فوائد وثمرات سے مالا مال ہوں ، بعضے حفاظ تراویح میں قرآن اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ بسا اوقات الفاظ وحروف کا پتہ ہی نہیں چلتا، اس طرح قرآن ایک مذاق بن کر رہ جاتاہے اور پڑھنے والے پر لعنت کرتاہے، امام غزالیؒ نے حضرت انس بن مالکؓ کا فرمان نقل کیا ہے : ’’رب تال للقرآن والقرآن یلعنہ‘‘ یعنی بعضے قرآن پڑھنے والے ایسے ہواکرتے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت بھیجتاہے۔

            (۹)       امام غزالیؒ نے حاملین قرآن کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے اندر تواضع اورنرمی ہونی چاہئے، چیخ وپکار اور شور وہنگامہ سے دور رہناچاہئے اور سخت مزاجی بھی نہیں ہونی چاہئے۔ (احیاء علوم الدین)

            (۱۰)     طلبہ کو چاہئے کہ اساتذۂ کرام کی رہنمائی میں نماز کی کوئی معتبر ومستند کتاب مکمل سمجھ کر پڑھ لیں اور اس کے مطابق عمل کرتے رہیں ، اور وقتاً فوقتاً حسبِ ضرورت مسائل کی معلومات حاصل کرتے رہیں۔

            (۱۱)      وہ طلبہ جنہیں کسی مسجد میں تراویح پڑھاناہے وہ اگر ایک رکعت میں ایک رکوع سے زیادہ قرآن پڑھنا چاہتے ہوں تو مصلیوں کی رضامندی کا ضرور خیال رکھیں ، ورنہ زیادہ قرآن پڑھنا صحیح نہ ہوگا۔

            (۱۲)     وہ طلبہ جو مستقل کسی مسجد کے امام نہیں ، صرف نمازِتراویح کی امامت ان کے سپرد ہوتی ہے تو ایسے طلبہ کو بھی نماز کے مکمل مسائل سیکھنے ضروری ہیں ، اگر اس کا پہلے سے اہتمام نہ ہوسکا تو ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ رمضان سے دس پندرہ دن پہلے کسی معتبر عالم سے مسائل کا سمجھنا شروع کردیں اور ان کے بتائے ہوئے طریقہ پر تراویح کی نماز پڑھائیں۔ 

            (۱۳)     طلبہ کو اساتذۂ کرام کا ممنون ومشکور ہوناچاہئے اور ان کی رہنمائیوں پر خوشی کا اظہار کرنا چاہئے اور ہمیشہ ان کا احسان مند رہناچاہئے اور ان سے خوب خوب استفادہ کرناچاہئے۔

            (۱۴)     طلبہ کو چاہئے کہ اساتذۂ کرام کے طریقۂ کار کا اپنے آپ کو کامل پابند بنالیں ، کسی بھی امر میں اپنے کو مستثنیٰ نہ گردانیں ، اس طرح کرنے سے تکبر کی راہ مسدود ہوتی ہے اور ایسا طالب علم تواضع کے قریب تر ہوتاہے۔

            (۱۵)     طلبہ کو چاہئے کہ اپنے اندر فروتنی وانکساری پیدا کریں ، ہر بڑے کا ادب واحترام کریں ، اور صحیح وحق بات کے اعتراف میں ترقی ونجات سمجھیں ، کسی بات پر احساسِ شرمندگی کی وجہ سے اڑجانا سوائے عزت نیلام کرنے اور اپنی وقعت گھٹانے اورخسارہ اٹھانے کے کچھ نہیں ہے۔

            (۱۶)     طلبہ اپنی ظاہری وضع وقطع درست رکھیں ، بطور خاص ڈاڑھی اور بال شرعی رکھنے کا اہتمام کریں ، لباس وغیرہ بھی علما اور صلحاوالا ہو اور طور وطریقہ بھی نیکو کاروں والا۔

            (۱۷)     ہمیشہ خدمتِ دین واسلام سمجھ کر امامت وغیرہ کی ذمہ داری لی جائے اور بہت احتیاط سے اس ذمہ داری کو اداکیاجائے، لایعنی اقوال واعمال سے کلیۃً اجتناب کیاجائے اور اپنا وقار باقی رکھتے ہوئے قوم کی صحیح رہنمائی کی جائے، اس سلسلہ میں آنے والی پریشانیوں کا صبر وتحمل اور بردباری کے ساتھ مقابلہ کیاجائے اور اور عند اللہ ماجور ہونے پر راضی رہاجائے۔

            اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب طلبہ کی صحیح رہنمائی فرمائے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے والا بنائے، اور دارین میں کامیابی سے ہمکنار فرمائے، آمین۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 5-6،  جلد:103‏،  رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء

*    *    *

Related Posts