(۱)

نام کتاب          :           المذاہب الفقہیۃ من المراجع الأصلیۃ

مؤلف             :           مولانا ابوعدنان نعمان بن الحسن الدغنوی القاسمی

زیرنگرانی         :           حضرت مولانا ریاست علی بجنوری قدس سرہ

وحضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم

صفحات            :           ۶۴۰

ناشر                :           کاشانۂ رحمت دیوبند

تبصرہ               :           محمد سلمان بجنوری

====================

            یہ کتاب مختلف مسائل میں ائمۂ اربعہ کے مذاہب ودلائل کے موضوع پر لکھی گئی ہے، جیساکہ معلوم ہے یہ موضوع ہمارے مدارس میں کتب حدیث وفقہ کے درس سے تعلق رکھتا ہے، ہمارے مدارس میں حدیث اور فقہ کی کتابوں میں حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے اقوال اور دلائل پر گفتگو کی جاتی ہے اور پھر حنفی مذہب کی ترجیح ثابت کی جاتی ہے، اس مقصد کے لیے اساتذہٴ کرام کو مختلف شروح حدیث اور فقہی مراجع کو کھنگالنا پڑتا ہے اور طلبہ کو اپنے امتحان کی سہولت کے لیے ان کے نوٹس یا خلاصے تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، گذشتہ کچھ عرصے میں خاص طور سے طلبہ کی ضرورت کو سامنے رکھ کر متعدد کتابیں یا کتابچے بازار میں آئے ہیں جن میں یا تو امتحانی سوالات کو سامنے رکھا گیا ہے یا اجمالی طور پر مذاہب ودلائل اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔

            لیکن ایسی کتابیں عموماً نو آموز لوگوں کے قلم سے آئی ہیں اس لیے مفید ہونے کے باوجود ان کی استنادی حیثیت، خاص طور سے بیان مذاہب میں ان پر اہل علم کا اعتماد نہیں ہوتا۔ زیر نظر کتاب اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر بالکل منفرد اور مستند انداز میں لکھی گئی ہے، اس میں تمام ائمہ کے مذاہب انہی کے مذہب کی کتابوں سے تحقیق کے بعد نقل کیے گئے ہیں پھر دلائل بھی اصل مراجع سے پیش کیے گئے ہیں اور بیان مذاہب میں نیا انداز اختیار کیاگیا ہے کہ جس مسئلے میں جو ائمہ متفق ہیں اس کو عنوان میں ظاہر کیاگیا ہے۔ اس طرح یاد کرنا بھی آسان ہوتا ہے اور ائمہ کا اختلاف بھی کم دکھائی دیتا ہے۔

            اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ مؤلف نے یہ کتاب مذکورہ بالا دو، نامور، محدثین کی نگرانی میں لکھی ہے، ان میں سے حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ تو اس کی اشاعت سے پہلے رحلت فرماگئے؛ البتہ حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم کی تقریظ سے اس کی پیشانی مزین ہے۔ حضرت نے اس کتاب پر اپنے اعتماد کااظہار کرتے ہوئے تحریر فرمایاہے کہ ’’مجموعی اعتبار سے یہ کتاب اپنے موضوع پرمنفرد انداز کی کتاب ہے، جو طلبہ ہی نہیں اساتذہ کے لیے بھی مرجع کا کام دے گی۔

            مؤلف نے اپنی محبت کی بناء پر راقم سے بھی چند سطور اپنی کتاب پر لکھوائی ہیں ، آسان معلوم ہوتا ہے کہ وہیں سے اپنے تاثرات کا خلاصہ نقل کردیا جائے۔

            ’’اس کتاب کی خصوصیات جو احقر نے محسوس کی ہیں وہ اختصار کے ساتھ حسب ذیل ہیں :

            (۱)یہ کتاب اپنے وقت کے دوصاحب نظر علماء اور علوم حدیث کے میدان کی مسلمہ شخصیات: حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا ریاست علی بجنوری نوراللہ مرقدہ کی نگرانی میں لکھی گئی ہے۔

            (۲) اس کتاب میں تمام ائمہ کے اقوال ومذاہب، متعلقہ مذاہب کے معتبر مراجع سے براہ راست نقل کیے گئے ہیں۔

            (۳) کسی بھی مذہب کے مختلف اقوال میں سے راجح قول کی تعیین کی گئی ہے۔

            (۴) اس کتاب میں جتنے بھی مسائل پر کلام کیاگیا ہے ان میں صرف مذہب حنفی ہی نہیں ؛ بلکہ مذاہب اربعہ کے اقوال مستند طریقہ پر جمع ہوگئے ہیں ، جس کی وجہ سے دیگر مذاہب کے بیان میں غلطی سے بچنا آسان ہوگیا ہے۔

            (۵) اس کتاب کی ترتیب بھی نرالی ہے اس میں مسائل کو اس انداز سے بیان کیاگیا ہے کہ کسی مسئلہ میں کون کون سے ائمہ ایک ساتھ ہیں ، اس انداز کی وجہ سے ائمہ کا اختلاف جتنا زیادہ محسوس کیا جاتا ہے اس سے کم نظر آتا ہے۔

            (۶) اگر ائمہ احناف (امام اعظم اور صاحبین) کا آپس میں اختلاف ہے تو اس کو حواشی میں ذکر کردیاگیا ہے۔

            (۷) طریقۂ استدلال خاص طور پر بیان کیاگیا ہے جس سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ کس حدیث سے مسئلہ کس طرح ثابت کیاگیا ہے۔

            (۸) ہر مذہب کے کم از کم تین دلائل بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

            (۹) مذہب احناف کی ترجیح کی بنیادوں کو واضح کیاگیا ہے۔

            (۱۰) انداز بیان سادہ اور آسان ہے، بے جا تطویل سے احتراز کیاگیا ہے۔

            مجموعی اعتبار سے یہ کتاب ایک علمی اور تحقیقی کتاب ہے جس پر مؤلف اورناشر دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ اس کو قبول عام عطاء فرمائے، آمین!

====================

(۲)

نام کتاب          :           گلدستۂ ولیؔ

شاعر               :           جناب مولانا ولی اللہ ولیؔ قاسمی بستوی زیدمجدہٗ

انتخاب و ترتیب  :           مولوی محمود الرحمن قاسمی بستوی، متعلّم دارالعلوم دیوبند

صفحات            :           ۸۶             قیمت:درج نہیں

ناشر                :           مکتبہ ولی دیوبند 9823346318

تعارف نگار       :           مولانااشتیاق احمد قاسمی ، مدرس دارالعلوم دیوبند

====================

            انسانی طبیعت میں خالق برحق نے مختلف قسم کی صلاحیتیں رکھی ہیں ، انھیں صلاحیتوں نے آج دنیا کو ترقی کی معراج پر پہنچادیاہے، اکثر طبیعتیں موزون اور نغمہ پسند ہوتی ہیں ؛ جب کہ بعض طبیعتیں غیرموزون اور نغمہ نفور ہوتی ہیں ؛ موزون طبیعت میں اشعار منجذب ہوجاتے ہیں اور غیرموزون کو اشعار پڑھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ جناب مولانا ولی اللہ ولیؔ وستوی مدظلہ کی طبیعت موزون اور نغمہ پسند ہے، نظمیہ کلام ان کی زبان سے اچھلتے، کودتے، دوڑتے اور ناچتے ہوئے جاری ہوتے ہیں کہ دریا کی روانی سے تشبیہ بھی رفتار کی کمی کی شکایت کرتی ہے، شاید موصوف کو نثر سے زیادہ نظم پر قدرت حاصل ہے، ایسا پُرگو، زود گو اور قادر الکلام اسلامی ادب کا نظمیہ شاعر دیوبندی معاصرین میں نظر نہیں آتا، حضرت قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کی پُرگوئی ماضی میں بڑی معروف تھی، کل پندرہ مجموعے ملتے ہیں ، جن سے ان کی برجستہ گوئی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جناب انور صابری دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ بھی بڑے زود گو شاعر تھے، فی البدیہہ کلام سامعین کو مسحور کردیا کرتے تھے، ولیؔ بستوی کی نظمیہ شاعری اور زودگوئی ہر باذوق کو متاثر کرتی ہے، اگرچہ احساسِ لطیف پر مبنی، استعارات، کنایات، محاسنِ معنویہ کی بو قلمونی، کلام کی بالیدگی اور تہ داری ویسی نہیں جیسی اقبالؔ اور حفیظؔ وغیرہ کے یہاں ہے، یا ان کے ہم رتبہ شعرا کے کلام میں ہے؛ لیکن ان کی نظمیہ تصانیف کی کثرت سے کوئی بھی قاری متاثر ہوے بغیر نہیں رہتا، جو لوگ نظم اور شعر میں فرق جانتے ہیں وہ ولیؔ بستوی کے کلام کو پڑھیں تو ان کو شعری خصوصیات چاہے نہ ملیں ؛ لیکن نظمیہ خصوصیات سے ان کی شاعری پُرنظر آئے گی، اس مجموعہ میں موصوف کے کلام کا انتخاب شائع کیا گیا ہے، حمد، نعت، دعا، مدح صحابہ، ترانہ، سہرا (قصیدہ) کے ساتھ مختلف عناوین پر نظمیں شاملِ اشاعت ہیں ، ان کو پڑھ کر قاری ولیؔ بستوی کی پاکیزہ شاعری اور اسلامی ادب میں ان کے مقام کو ضرور بلند پائے گا، انتخاب وترتیب میں ناپختگی اور نوخیزی بھی موجود ہے، فہرست دینا مناسب تھا، اس کا نہ ہونا بھی اسی قبیل سے ہے۔

            ولیؔ بستوی کا یہ مجموعہ ایسا ہے کہ اس کے مطالعے کے بعد ان کی شاعری کے شش جہتی تعارف کی ضرورت نہیں رہتی، یہ ایسا شہد ہے جس میں مکھیوں نے رنگ، برنگ کے پھول اور قسم قسم کے پھلوں کو چوس کر سب کاست اور روح جمع کردیا ہے۔ اب آئیے اور براہِ راست چکھ کر بتائیے کہ ولیؔ کا عطر مجموعہ کیسا ہے؟ اور ان کے گلدستہ میں کتنے قسم کے پھول ہیں پھر ان میں گلِ سرسبد کہاں ہے؟

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 5-6،  جلد:103‏،  رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء

*    *    *

Related Posts