بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد قاسمی
مدرس دارالعلوم دیوبند
غیرافسانوی ادب میں ’’سوانح‘‘ پسندیدہ صنف ہے،اردو میں اس صنف کی روایت تقریباً ڈیڑھ سو سال پرانی ہے، سوانح عربی زبان کا لفظ ہے، ’’سانحہ‘‘ کی جمع ہے،جس کے معنی ہیں : ظاہر ہونے والی چیز اور پیش آنے والا واقعہ، سانحہ حادثہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے؛ لیکن یہ معنی یہاں مراد نہیں لیاجاتا، جب سوانح میں ’’عمری‘‘ کا لاحقہ بڑھا دیاجاتاہے تو اس کا تعلق حالاتِ زندگی سے ہوجاتا ہے، پوری زندگی کی سرگزشت جس میں نرم وگرم، تلخ وشیریں اور اچھے بُرے واقعات پیش کیے جاتے ہیں اور جب سوانح کے ساتھ ’’نگاری‘‘ کا لاحقہ لگتا ہے تو اس کے معنی حالاتِ زندگی لکھنے کے ہوتے ہیں ، انگریزی زبان میں اس کے لیےBio graphy کا لفظ بولا جاتاہے، Bioکے معنی حیات اور graphy کے معنی نگاری (لکھنا) ہے، یعنی حالات زندگی لکھنا۔ ’’انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا‘‘ میں سوانح عمری کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’سوانح عمری ایسا بیانیہ ہے جو کسی فرد کی زندگی اور شخصیت کی باز آفرینی اور اس کے عمل کو شعوری اور فن کارانہ انداز میں قلم بند کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘
سوانح عمری کا تعلق تاریخ سے ہے، کسی بھی بڑے آدمی کی سوانح عمری میں اس کے پورے ماحول اور ان سے وابستہ افراد کا ذکر ہوتا ہے، اس کے جلو میں اس عہد کی تاریخ وتہذیب سمٹ آتی ہے، سوانح نگار مصوری کے ساتھ مؤرخ کا کام بھی کرتا ہے، جو سوانح جتنی دیانت داری سے لکھی جاتی ہے وہ اتنی ہی قیمتی ہوتی ہے۔
استاذ محترم ڈاکٹر نسیم الدین فریس صدر شعبۂ اردو مانو حیدرآباد نے تقریباً دس تعریفات کا خلاصہ اس طرح رقم فرمایاہے:
’’سوانح عمری سے مراد ہے عمر (عہد یا دور) نسل اور ماحول جیسے اثر ڈالنے والے عوامل کے حوالے سے کسی شخص کی داخلی اور خارجی زندگی کے تمام پہلوئوں کا ایسا جامع، مفصل اور معروضی مطالعہ جو اس کی زندگی کے ارتقا اور اس کے ظاہر وباطن کو روشنی میں لاکر اس کی ایک قد آدم اور جیتی جاگتی تصویر پیش کرے، سوانح ایک ایسی دستاویز ہے جس میں کسی انسان کی ولادت سے لے کر وفات تک کے تمام حالات وواقعات، افکار وافعال زمان و مکان کی صراحت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں ۔ سوانح کے کینوس (نقاشی) پر زمان ومکان کے تناظر میں کسی انسان کی چلتی پھرتی متحرک تصویر اس طرح سرگرم فکر اور مصروفِ عمل نظر آتی ہے کہ اس کی سیرت وشخصیت اور سرگزشت کے تمام پہلو ہمارے سامنے آجاتے ہیں ۔‘‘ (غیرافسانوی ادب، نصاب ایم، اے اردو مانو، ص۱۳۴)
جو سوانح عمری اعتدال کے ساتھ لکھی جاتی ہے،اس میں صاحب سوانح کی پوری تصویر موجود ہوتی ہے، کامیاب سوانح نگار قاری کو صاحب سوانح سے اتنا قریب کردیتا ہے کہ ذاتی ملاقات سے بھی اتنی قربت حاصل نہیں ہوپاتی، سوانح عمری میں موضوع کوئی شخصیت ہوتی ہے، شخصیت کا ایک خارجی پہلو ہوتا ہے اور ایک داخلی، خارجی کو ظاہراور داخلی کو باطنی بھی کہہ سکتے ہیں ، انسان کا ظاہر ایک کو نظر آتا ہے؛ لیکن باطن پوشیدہ رہتا ہے، ہر کسی کو نظر نہیں آتا، سوانح نگار انسان کے ظاہر کے ساتھ باطن کا بھی مطالعہ کرتا ہے، اچھا سوانح نگار وہی کہلاتا ہے جو داخلی اور باطنی کائنات میں جھانک کر حقائق قلم بند کرے، سوانح نگاری میں انسان کے علمی مرتبے کے ساتھ فکری، معاشی، سیاسی اور سماجی مرتبے کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، سوانح ہر شخص کی لکھی جاسکتی ہے؛ مگر عام طور سے سوانح نگار ممتاز اور نمایاں شخصیات کو موضوع بناتا ہے خواہ وہ قومی رہنمائی میں ممتاز ہوں یا مذہبی اور علمی پیشوائی میں ؛ چنانچہ سوانح، جہاں نقاد،ادیب، شاعر، فلسفی کی لکھی جاتی ہے وہیں صحافی، مقرر، دولت مند کے ساتھ ہر اس شخص کی لکھی جاتی ہے، جس سے سوانح نگار کو عقیدت، محبت اور تعلق ہو۔
سوانح نگاری میں اعتدال اور توازن بہت ضروری ہے، کبھی سوانح نگار صاحب سوانح سے عقیدت میں غلو کی حد تک پہنچا ہوا ہوتا ہے تو غیرمستند غلو پسندانہ باتیں لکھ مارتا ہے، واقعیت کی دنیا میں جس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، فارسی کی مثل مشہور ہے: ’’پیراں نمی پرند، مریداں می پرانند‘‘ (ترجمہ: پیر نہیں اڑتے، مرید انھیں اڑاتے ہیں )
اگر کوئی عقیدت کیش مرید اپنے پیر کی سوانح لکھتا ہے تو داخلی دنیا کے بہت سے عیوب کو اپنے دامن عفو ودرگزر میں چھپالیتا ہے اورایسے اوصاف وکرامات سوانح میں لکھ دیتا ہے جس سے قاری صاحبِ سوانح کو اس کے مرتبے سے بڑا سمجھنے لگتا ہے، کبھی جاہ وحشمت کی طلب یا تملق وچاپلوسی میں بھی غلو پسندانہ سوانح سامنے آتی ہے۔
اس کے برخلاف کبھی سوانح نگار کو صاحبِ سوانح کے نظریات سے ہم آہنگی نہیں ہوتی ایسی صورت میں ہنرعیب نظرآنے لگتا ہے، حضرت امام شافعی (۷۶۷-۸۲۰ء) کا ایک شعر ہے:
عَیْنُ الرِّضا عَن کُلِّ عیبٍ کلیلۃٌ ٭ وَلٰکِنَّ عَیْنَ السُّخْطِ تُبْدِی الْمَسَاوِیا
ترجمہ: رضامندی کی آنکھ ہرعیب سے اندھی ہوتی ہے؛ لیکن ناراضگی کی آنکھ برائیوں کو ظاہر کرتی ہے۔
اگر سوانح نگار اور صاحب سوانح کے نظریات میں ہم آہنگی نہ ہو تو نظریاتی اختلاف کی وجہ سے شخصیت کے محاسن عیب بن جائیں گے؛ یہی وجہ ہے کہ مغربی مصنّفین نے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اپنی کتابوں میں غلط بیانیوں سے کام لیا ہے، کبھی سوانح نگار کو صاحب سوانح کی زندگی کے چند پہلو سے مناسبت ہوتی ہے ایسی صورت میں جس پہلو سے مناسبت نہیں ہوتی وہ تشنہ رہ جاتی ہے، مثلاً کوئی مناظر اور صوفی حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی پر لکھنا شروع کرے تو وہ عیسائیوں اور غیرمسلموں سے مناظرے کو بیان کرے گا، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے تعلق اور مجاہدات کو لکھے گا؛ مگر محدث اور فلسفی ہونے کے پہلو کو یا تو چھوڑ دے گا یا اس پر سیرحاصل بحث نہیں کرے گا، اسی طرح عظیم تعلیمی نظام برپا کرنے کی تحریک اور انگریزوں کے خلاف مجاہدانہ کارناموں کو بھی چھوڑ دے گا؛ حالاں کہ زندگی کے مذکورہ پہلو حضرت نانوتوی کا امتیاز ہیں ۔
سوانح نگاری کے لیے مواد کی فراہمی
سوانح نگار کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مواد کی فراہمی کا ہوتا ہے، اگر کوئی سوانح نگار ایسی شخصیت پر لکھنا چاہے، جس کے سلسلے میں مواد نہ ملتا ہو یا کم ملتا ہو تو وہ کامیابی کے ساتھ سوانح نہیں لکھ سکتا، یہی وجہ ہے کہ شیکسپیئر، کالی داس، ولیؔ اور میرؔ کی اچھی سوانح اب تک وجود میں نہ آسکیں ، جن میں شخصیت کے سارے پہلو سامنے آگئے ہوں ۔ اگر سوانح نگاری سے متعلق مواد موجود ہوتو اس کو اچھے اسلوب اور ترتیب سے جمع کرنا آسان ہوتا ہے، سوانحی مواد مطبوعہ اور غیرمطبوعہ تصانیف سے حاصل ہوتے ہیں ،اسی طرح صاحبِ سوانح کے خطوط، روزنامچے، بیاض اور یاد داشتوں سے بھی سوانحی مواد حاصل کیاجاتا ہے، دستاویزات میں بھی سوانحی مواد کا ذخیرہ ہوتا ہے، مثلاً دارالعلوم دیوبند کے کسی استاذ یا ملازم کے سلسلے میں یہاں کے ’’محافظ خانے‘‘ میں بہت سی چیزیں مل جاتی ہیں کہ کب ملازمت ملی؟ کس عہدے پر تقرر ہوا؟ ترقی کی ترتیب کیا رہی؟ اگر تنزل ہوا تو کیوں ؟ تنخواہ کا گریڈ کیا تھا؟ کون کون سی کتابیں کب کب پڑھانے کو ملیں ؟ میونسپلٹی سے ولادت ووفات کا رجسٹر، وصیت نامہ، بیع نامہ، مقدمات کی مسلیں ، راشن کارڈ، آدھار کارڈ، پین کارڈ، پاسپورٹ، مختلف چیزوں کے لائسنس، مزارات کے کتبات اور مقبروں پر لگی لوحوں سے بھی مدد ملتی ہے۔
جس خاندان سے تعلق تھا،اس پر لکھی گئی کتابوں سے نسبی اور خاندانی احوال معلوم ہوتے ہیں ،اگر صاحبِ سوانح ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ پر آتے ہوں تو اس کے آڈیو اور ویڈیو رکارڈ سے سوانحی مواد حاصل ہوسکتا ہے، اہلِ خاندان، عزیز وقریب اور معاصرین سے بھی بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں ، سوانح نگار ذاتی مشاہدات بھی لکھتا ہے، صاحبِ سوانح کے اقوال وافعال، گفتار وکردار اور عقائد ونظریات پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
مولوی ذکاء اللہ دہلوی نے ملکہ وکٹوریہ اور پرنس البرٹ کی سوانح عمری لکھی،اس کے لیے انھوں نے متعدد انگریزی کتابوں ، ذاتی خطوط، معاصرین کے خطوط، خاکوں ، تذکروں اور روزنامچوں سے مواد حاصل کیا۔
سوانح عمری محض معلومات کا دفتر نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ تخلیقی عمل ہے، اس میں جمالیاتی عناصر اور ادبی محاسن کا ہونا بھی ضروری ہے، ماہرین نے سوانح نگاری کی ادبی اہمیت کو متعین کرنے کے لیے تین امتیازات لکھے ہیں :
(۱) موضوع
(۲) مواد
(۳) اسلوب
موضوع کاانتخاب اور مواد کی فراہمی کے بعد مواد میں اخذ وترک کا عمل کیاجاتا ہے۔ سوانح نگار محض ایسی باتیں لیتا ہے جس سے شخصیت کے کسی پہلو پر روشنی پڑتی ہو، شخصیت کی تعمیر اور اس کی مکمل تصویر کشی میں مدد گار ثابت ہو، ظاہری حالات کے ساتھ اندرونی کیفیات کو بھی شامل کرنا ضروری ہے، خوبیوں کے ساتھ کمزوریوں کو بھی ذکر کیا جاتا ہے؛ تاکہ قاری نیکی میں فرشتہ نہ سمجھ بیٹھے یا بدی کا مجسمہ نہ سمجھ لے، ڈاکٹرجانسن کی رائے میں جو لوگ تعلق اوراحترام کے پردے میں غلطیوں اور خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ یقینا غلطی کرتے ہیں اور سچائی کو تکلف اور تصنع پر قربان کرتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کمزوریوں کو دکھانے سے صاحبِ سوانح اور ان کے عقیدت مندوں کو تکلیف پہنچے گی وہ یہ نہیں سوچتے کہ حقیقت پسندی اور حق شناسی کی وجہ سے صداقت کی حفاظت ہوگی۔ (غیرافسانوی ادب ص۱۳۷)
یک طرفہ مداحی سوانح کو بے جان کردیتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی مدلل اور مربوط کیوں نہ ہو، عقیدت مندی اعلی سوانح نگاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، عقیدت مندی کے پیچھے عزت واحترام کے جذبات ہوتے ہیں ؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حقائق سے آنکھیں موند لی جائیں یا اچھائیوں سے آنکھیں اندھی کرلی جائیں ، اعتدال بہرحال مطلوب ہے۔
سوانح میں اسلوب بھی معتدل ہوتاہے نہ تو تاریخ کی طرح بالکل سادہ اور بے لطف ہوتا ہے اور نہ ہی افسانوی تحریر کی طرح تخیلاتی اور رنگین بیانی سے لبریز؛ بلکہ سوانح نگار کے قلم میں تازگی، شگفتگی اور ادبی دلکشی ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح حفظ مراتب کا خیال رکھنا بھی لازم ہے، شوخی اور بے احتیاطی برتی جائے تو سوانح کا معیار گرجاتا ہے۔ ڈپٹی نذیراحمد نے ’’امہات الامہ‘‘ عیسائی پادریوں کے کثرت ازدواج پر اعتراض کے جواب میں لکھی؛ لیکن اسلوب ایسا اختیار کیاجو ازدواج مطہرات کی شان کے خلاف تھا، موصوف ناول نگاری میں تو کامیاب تھے؛ مگر سوانح نگاری میں ٹھوکر کھاگئے۔
اردو میں حالی اور شبلی اولین سوانح نگار ہیں ، حالی کی حیاتِ سعدی، یادگار غالب اور حیاتِ جاوید بہت مشہور ہے اور شبلی کی المامون، الفاروق، الغزالی اور سیرت النعمان کو بڑی قبولیت حاصل ہوئی۔
تذکرہ
تذکرہ (یادداشت) عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی جمع ’’تذاکِر‘‘ آتی ہے،اس کے لغوی معنی ہیں : ضرورت کے وقت یاد لانے والی چیز، یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں ’’ٹکٹ‘‘ اجازت نامہ اور پاس پورٹ کو بھی تذکرہ کہتے ہیں ۔ اردو میں اس کی جمع ’’تذکرے اور تذکروں ‘‘ آتی ہے، اردو میں سب سے پہلے ۱۸۵۶ء میں تذکرہ کا لفظ ’’کلیاتِ ظفر‘‘ میں استعمال ہوا ہے۔
(www.urduencyclopedia.org)
اردو ادب کی اصطلاح میں ’’تذکرہ‘‘ اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں شعراء کے حالات اور نمونۂ کلام جمع کیے گئے ہوں ۔ تذکرہ نگاروں کے سامنے تذکرہ نگاری کا بنیادی مقصد شاعروں کے کلام اور مختصرحالات کو محفوظ کرنا تھا، اسی کے ساتھ شاعروں کے کلام پر بھی گفتگو کرتے تھے کہ اس میں یہ خوبی ہے اور اس میں یہ خرابی ہے،اسی کو عامیانہ تنقید بھی کہہ سکتے ہیں ؛ اس لیے تذکرہ میں تنقیدی مواد بھی ملتے ہیں اور خاکہ کے نقوش واشارات بھی پائے جاتے ہیں ۔ ان اشاروں سے نقاد کو سوچنے کی راہیں ملتی ہیں اور تنقیدی بصیرت میں مدد ملتی ہے، تذکرہ نگار شاعر کی زندگی کے ان پہلوئوں کو بھی لکھ دیتا ہے جو اس کے نزدیک نمایاں ہوتے ہیں ۔ شعری نظریات، معیارات اور شاعر کی حیثیت کی تعیین میں تذکرہ کامواد بڑا معاون ثابت ہوتا ہے۔ تذکرہ سے ادیبوں کے آپسی رشتے اور ان کا خاندانی اور سماجی پس منظر معلوم ہوتا ہے، بعض سیاسی اور ملکی حالات کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوجاتی ہیں ۔
اردو شعراء کا پہلا تذکرہ ’’گلشن ہند‘‘ کو کہاجاتا ہے، جسے فارسی زبان میں مرزا علی لطف نے ۱۸۰۱ء میں لکھا تھا؛ جب کہ میرتقی میرؔ کے ’’نکاتِ شعراء‘‘ کی تصنیف ۱۸۵۲ء میں ہوئی، اس کے فوراً بعد ۱۸۵۳ء میں ’’تذکرئہ ریختہ گویاں ‘‘ فتح علی حسین گردیزی نے اور ’’مخزنِ نکات‘‘ قائمؔ چاندپوری نے تصنیف کی۔ محمدحسین آزاد کی ’’آب حیات‘‘ (۱۸۸۰ء) کو بھی اردو شاعروں کا تذکرہ کہاجاتا ہے؛ لیکن اس کو شعروادب کی پہلی تاریخی کتاب کہنا زیادہ بہتر ہے، اس میں تاریخی ادوار، زبان میں بہ تدریج تبدیلی اور اردو کے تہذیبی منظر ناموں پر بحث کی گئی ہے، ان چیزوں کا تعلق تاریخ سے ہے، بعض تذکروں میں شاعرات کا ذکر کیاگیا ہے مثلاً ’’گلدستۂ نازنیناں ‘‘ دُرگا پرشاد نادرؔ دہلوی نے مرتب کیا، ’’بہارستانِ نار‘‘ فصیح الدین رنجؔ میرٹھی نے مرتب کی اور صفابدایونی نے ’’شمیم سخن‘‘ کے نام ۱۸۷۲ء میں شاعرات کا تذکرہ لکھا۔ (ادبی تنقید، نصاب ایم، اے اردو مانو ص۸)
خاکہ
خاکہ فارسی زبان کا لفظ ہے،اس کے معنی ہیں ڈھانچہ، حدود کی لکیریں کھینچ کر بنائے گئے نقشے کو بھی خاکہ کہتے ہیں (فیروزاللغات) خاکہ گویا قلمی تصویر ہوتا ہے، جس شخصیت کا خاکہ تیار کیاگیاہو وہ حقیقی بھی ہوسکتی ہے اور خیالی بھی۔ اردو ادب کی اصطلاح میں خاکہ کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے: ’’کسی شخصیت کے ناک نقشے، عادات واخلاق،اطوار وکردار کو سیدھے سادے الفاظ میں مبالغہ کی آمیزش کے بغیر تحریر میں لانا‘‘۔ خاکے میں افکار وخیالات کے نقوش بھی ابھرتے ہیں ، خاکہ کو الفاظ کی تصویر بھی کہہ سکتے ہیں جو بے ساختہ انداز میں شروع ہوکر غیرروایتی انداز میں ختم ہوجاتی ہے، اس سلسلے میں انور ظہیرخان نے اپنی کتاب ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے:
’’خاکہ میں شخصیت کو اس کے اصلی چہرے مہرے، رفتار وافکار اور احوال و آثار کے ساتھ، شگفتہ، شیریں ، سلیس ورواں پیرائے میں پیش کیاجاتا ہے، جہاں دال میں نمک کے برابر تخیل کی کارفرمائی تو ہوسکتی ہے؛ لیکن ابہام مبالغے اور غلو کی آمیزش ناقابلِ قبول ہوتی ہے۔‘‘ (مت سہل ہمیں جانو ص۱۰)
خاکہ نگاری میں شخصیت کے سارے پہلوئوں کو ذہن میں رکھاجانا ضروری ہے،خاکہ نگار اپنی تنقیدی رائے دینے سے پرہیز کرے، شخصیت کے ذہنی میلان ورجحان کا ذکر کرے، جزئیات نگاری سے بھی اسی طرح احتراز کرے، جس طرح خاکہ نگارمبالغہ آمیزی سے بچتا ہے۔ خاکہ بیانیہ اسلوب میں لکھاجاتا ہے، ضرب الامثال اور روزمروں کی آمیزش سے اسلوب کی پُرکاری، اثرانگیزی اور شگفتگی بڑھ جاتی ہے، اس میں بے جا طوالت اور لفاظی عیب شمار ہوتی ہے۔
خاکہ کے اجزائے ترکیبی میں : اختصار، وحدتِ تأثر، کردار نگاری،واقعہ نگاری، منظرکشی اور زبان وبیان کو شمار کیاجاسکتا ہے۔اگر ایجاز واختصار نہ ہوتو خاکہ، سوانح میں شمار ہوجائے گا، خاکہ نگار کا مقصد قاری کے ذہن پر شروع سے اخیرتک ایک تأثر مرتسم کرنا ہوتا ہے، خاکہ کردار نگاری کے بغیر بے روح جسم کی طرح ہوگا؛ اس لیے شخصیت کی انفرادی خصوصیات اور کارناموں کا ذکر کرنا بھی اس میں ضروری ہوتا ہے، خاکہ کی تیاری میں واقعات سے مدد لی جاتی ہے، واقعات کا انتخاب، ربط و تسلسل اور توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ حرکات وسکنات، شخصیت کے خدوخال اور امتیازات کی منظرنگاری بھی خاکہ میں کی جاتی ہے، اس سے قاری کی توجہ اور رغبت بڑھتی ہے اور خاکہ نگار مصوری میں کامیاب ہوتا ہے اور شخصیت خیالات کے کینوس میں چلتی پھرتی نظر آنے لگتی ہے اوریہ سب کچھ زبان وبیان کے بغیر ناممکن ہے۔ (دلّی والے ص۲۵، ڈاکٹر صلاح الدین،اردو اکادمی دہلی ۱۹۸۶ء، آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ ص۹، ۱۶، اردو اکادمی دہلی ۲۰۰۹ء)
خاکہ نگاری کے نقوش مولوی محمدحسین آزاد کی ’’آب حیات‘‘ میں موجود ہیں ، مرزا فرحت اللہ بیگ اہم خاکہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں ، ’’نذیراحمد کی کہانی کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی‘‘، ’’وصیت کی تعمیل‘‘ (مولوی وحیدالدین سلیم کا خاکہ) و ’’دلّی کا ایک یادگار مشاعرہ‘‘ ڈاکٹر رشید احمد صدیقی کے خاکے بھی کافی مشہور ہوئے؛ ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ ’’ہم نفسانِ رفتہ‘‘ کے نام سے انھوں نے خاکے لکھے، خواجہ حسن نظامی، آغاحیدر حسن، مولوی عبدالحق، شاہد احمد دہلوی، اشرف صبوحی، جوش ملیح آبادی، مالک رام، عصمت چغتائی، شوکت تھانوی، شورش کاشمیری، خواجہ غلام السیدین، مولانا عبدالماجد دریابادی، ڈاکٹر عبادت دہلوی، مجتبیٰ حسین، انتظارحسین، یوسف ناظم، عابدسہیل وغیرہ مشہور خاکہ نگار ہیں ۔ (اردو میں خاکہ نگاری مشمولہ اردو نثر کا فنی ارتقاء ڈاکٹر فرحان فتح پوری ص۳۶۴-۳۷۳، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی ۲۰۱۵ء، اردو ادب میں خاکہ نگاری ص۹-۱۰، ایجوکیشنل بک ہائوس دہلی ۲۰۱۳ء)
باہمی فروق
سوانح، تذکرہ اور خاکہ کے تعارف اور روایت کو جاننے کے بعد ان کے باہمی فرق کو جاننا مشکل نہیں ہے، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اگر ہم غور کریں تو ہمیں درج ذیل فروق سمجھ میں آئیں گے:
۱- ’’سوانح عمری‘‘ جزئیات کے ساتھ پوری زندگی کو محیط ہوتی ہے، ’’تذکرہ‘‘ میں پوری زندگی کا ذکر نہیں ہوتا، خصوصاً شاعروں کے تذکروں میں ان کی شاعرانہ خصوصیات امتیازات ہوتے ہیں ، شخصیت کا ذکر صرف ان کے لازمی اوصاف کے ساتھ ہوتا ہے اور ’’خاکہ‘‘ میں پوری شخصیت کے اجمالی خدوخال کی صورت گری ہوتی ہے۔ اس میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ شخصیت کے علمی فتوحات اور ہمہ جہت کارناموں کا جائزہ لیا جائے؛ جب کہ سوانح میں پوری گنجائش ہوتی ہے۔
۲- سوانح میں مواد کی فراہمی کے ذرائع وسیع تر ہوتے ہیں ، ’’تذکرہ‘‘ میں تذکرہ نگار نمونۂ کلام کے ساتھ اپنی پسند اور ناپسند کو لکھتا ہے، ’’خاکہ‘‘ میں خاکہ نگار زندگی کے واقعات کو بنیاد بناکر اپنے مشاہدات، تأثرات اور قیاسات کو شامل کرتا ہے۔
۳- سوانح میں مضحک عناصر کی بھی گنجائش ہوتی ہے؛ لیکن خاکوں میں ایسے عناصر سے توازن بگڑجانے کا خطرہ رہتا ہے، ہاں ! اگر قلم کار پُرکار ہوتو شگفتگی اور تازگی کے لیے مزاحیہ عناصر شامل کرنے کے ساتھ توازن بھی برقرار رکھ لیتا ہے۔
۴- سوانح میں خاکہ اور تذکرہ بھی کسی قدر شامل ہوتے ہیں ؛ مگر خاکہ اور تذکرہ میں سوانح کے سمانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔
۵- اگر شخصیت سے غلو کی حد تک عقیدت ہے، یا نفرت ہے یا زندگی کے کسی پہلو سے ہم آہنگی نہیں ہے تو سوانح غیرمعیاری ہوجاتی ہے؛ مگر خاکہ میں اختصار کی وجہ سے عام طور سے بات یہاں تک نہیں پہنچتی، زندگی کے حساس پہلو ضرور ذکر ہوجاتے ہیں ؛ اس لیے کہ خاکہ نگار نہ تو مبالغہ کرتا ہے اورنہ ہی اپنی تنقیدی رائے پیش کرتا ہے، جزئیات نگاری بھی اس کے ذمہ نہیں ہوتی، اس کے باوجود اگر زندگی کے اہم گوشے نہ لکھے جائیں تو ایسا خاکہ ناقص کہلائے گا۔ اور رہا ’’تذکرہ‘‘ تو اس میں ہمہ جہتی کی گنجائش نہیں ہوتی۔
۶- سوانح عمری میں ولادت سے وفات تک کی ساری تفصیلات ہوتی ہیں ، اس کی ترتیب زندگی کے مراحل سے اخذ کی جاتی ہے، ’’تذکرہ‘‘ میں یہ بات نہیں ہوتی،اگر بہت سی شخصیات کے تذکرے ہوں تو اکثر حروفِ تہجی کی ترتیب پر مرتب ہوتے ہیں اور بعض کی ترتیب سنین وفات اور مرتبوں کے لحاظ سے ہوتی ہے۔
۷- سوانح اور خاکہ میں قلم کار اپنی تنقید ذکر نہیں کرتا؛ جب کہ تذکرہ میں اس کی گنجائش ہوتی ہے۔
۸- ’’سوانح‘‘ کے لیے ’’تذکرہ‘‘ کا لفظ بھی بولا جاتا ہے، جیسے تذکرۃ الرشید، تذکرۃ الخلیل، تذکرۃ العابدین، تذکرۃ الانور، تذکرہ مولانا محمد عاقل وغیرہ؛ مگر اس کے برعکس استعمال نظر نہیں آتا؛ البتہ سوانح اور خاکہ ایک دوسرے کے لیے نہیں بولے جاتے ہیں ۔ کبھی سوانحی اجزاء کو معروضی (اوبجکٹیو) انداز میں لکھتے ہیں اوراس کے لیے ’’سوانحی خاکہ‘‘ کا مرکب لفظ بولتے ہیں ، اس انداز تحریر سے پوری شخصیت بہ یک نظر قاری کے سامنے آجاتی ہے، کم وقت میں پوری شخصیت سے تعارف ہوجاتا ہے۔
————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 1، جلد:103، ربیع الثانی – جمادی الاول 1440ھ جنوری 2019ء
٭ ٭ ٭