از:  مولانا محمد اسرارالحق قاسمیؒ

            فی زمانہ اسلام اور مسلمانوں پر الزامات کے شدید حملے کیے جارہے ہیں ۔الزامات کے یہ حملے میڈیا کے ذریعے کیے جارہے ہیں ۔چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک ۔دونوں کے توسط سے اسلام کو بدنام کرنے کاعمل جاری ہے۔مارکیٹ میں ایسی بہت سی کتابیں موجود ہیں ، جن میں اسلام اورمسلمانوں کو نشانہ بنایاگیاہے۔ٹی وی پر روزبہ روز اسلام پر اعتراضات کیے جاتے ہیں ۔ڈبیٹس کے نام پر مسلمانوں کوکوسا جاتاہے اور اسلام کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ سب منصوبہ بند طریقے سے ہوتاہے۔ جان بوجھ کر ایسے موضوعات کا انتخاب کیاجاتاہے جن پر سوالات اٹھائے جاسکیں اور ڈبیٹس میں حصہ لینے والے مسلمانوں کو گھیرکر لاجواب کیاجاسکے۔اس پر مستزاد یہ کہ اسلام کی نمائندگی کرنے کے لیے عام طورپر ان علماء کو دعوت دی جاتی ہے جن کا مطالعہ محدود ہوتاہے یاجو اختصار کے ساتھ عقلی اور نقلی دلائل سے اپنی بات کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور دوسرے شرکاء کے ذریعے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب نہیں دے پاتے۔اس پر مزید ستم یہ ہوتا ہے کہ ٹی وی اینکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہوتاہے۔وہ بھی بڑھ چڑھ کر سوال کرتاہے اور علماء کو لاجواب کرنے کی کوشش کرتاہے۔اگر بعض علماء صحیح انداز سے جواب دیتے ہیں اوراپنی بات کومتاثر کن اور ٹھوس دلائل کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو ان کی بات کو اینکر کاٹ دیتاہے اور دوسرے مخالف شریک ِ بحث کی طرف چلاجاتا ہے۔مجموعی طورپر وہ مسلمانوں کو لاجواب اور اسلام کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرتاہے؛ تاکہ ناظرین یہ اندازہ لگالیں کہ مسلمانوں اور اسلام کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اوراسلام کمزور مذہب ہے ۔ٹی وی چینلوں پر ایسی درجنوں بحثیں دیکھی جاسکتی ہیں ۔اسلام اور مسلمانوں کے لیے یہ وقت بڑا صبرآزما ہے کہ وہ مخالف ماحول میں کیا کریں ؟

            جن موضوعات کو آج کل زیر بحث لایاجارہاہے، ان میں بعض کا تعلق عورتوں سے ہے۔ خواتین کے حوالے سے کبھی تین طلاق، کبھی حلالہ ، کبھی برقع اور کبھی دوسرے پہلوئوں پر بحثیں کرکے یہ دکھایا جاتاہے کہ مسلم معاشرے میں عورتیں مظلوم ہیں ۔ان پر ظلم و تشدد کیاجاتاہے، حلالہ کی آڑمیں ان کا جنسی استحصال کیاجاتاہے، انھیں تعلیم حاصل کرنے سے روکا جاتاہے، ان کو ترقی نہیں کرنے دی جاتی، انھیں گھروں میں قید کرکے رکھاجاتاہے، زبردستی برقع پہنایاجاتاہے اور بات بات پر انھیں مارا پیٹا جاتاہے۔یہ تاثرات ٹی وی پر ہونے والے مباحثوں سے سامنے آتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی اسی طرح کی باتیں کی جاتی ہیں ۔بات صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہتی؛ بلکہ درپردہ اسلام کو آڑے ہاتھوں لیاجاتاہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ا سلام نے عورتوں کو عزت نہیں دی اور انھیں ترقی سے روکا ہے۔مباحثوں اور اس طرح کے پروپیگنڈے کا اثریہ ہے کہ غیر مسلم سوسائٹیوں میں لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مسلمان عورتوں پر تشدد کے پہاڑ توڑتے ہیں اوراسلام میں عورتوں کے لیے اہم مقام نہیں ہے۔ یہ خیالات صرف ناخواندہ افراد کے نہیں ہیں ؛ بلکہ تعلیم یافتہ حضرات کے بھی ہیں اور ان طلبا وطالبات کے بھی جو کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ اس طرح کے رجحانات اب بہت سے ان مسلمانوں کے بھی بنتے جارہے ہیں جو غیراسلامی ماحول میں رہتے ہیں اور اسلامی تعلیم ان کے پاس نہیں ہے۔

            قرآن وحدیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ اسلام نے خواتین کو اعلی مقام سے نوازا ہے۔ان کا حد درجہ خیال رکھاہے۔ان کوکامیاب کرنے کے مواقع دیے ہیں اور ماحول کو ان کے لیے سازگار کیا ہے۔ اگر خواتین کی عظمت وحقوق کی بات اسلام اور دیگر مذاہب کے تناظر میں کی جائے تواس نتیجہ پر پہنچنا آسان ہوگا کہ اسلام نے دیگر مذاہب سے زیادہ عورت کا احترام کیا ہے، اسے عزت دی ہے اور اسے فلاح یاب کرنے کے لیے بہترین تعلیمات پیش کی ہیں ۔اگر صنف نازک کے حوالے سے اسلام کے مقابلے جدید نظریات کو دیکھا جائے اور حقوق انسانی کی بات کرنے والی تنظیموں کے خیالات کا جائزہ لیا جائے تو وہ اسلام کے مقابلے میں بہت کم دکھائی دیتے ہیں ۔

            بعثتِ اسلام سے قبل عورتوں کے ساتھ نہایت سوتیلا برتائو کیاجاتا تھا اور اس وقت موجود مذاہب خواتین کے تحفظ میں ناکام ثابت ہورہے تھے؛ بلکہ ان کے بعض خیالات خواتین کی بابت ایسے تھے جن سے خواتین کے مقام پر ضرب لگتی ہوئی د کھائی دے رہی تھی۔اسلام نے عورتوں کے بارے میں پاکیزہ تعلیمات پیش کیں اور نھیں سماج میں مساوی حقوق عطا کیے۔ اگر وہ بچیاں ہیں تو اسلام میں ان کی پرورش وتربت پر توجہ دلائی گئی اور اس کی فضیلتیں بیان کی گئیں ۔ بعثتِ اسلام سے قبل عرب کے معاشرے میں نومولود بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتھا۔اسلام نے اس مجرمانہ روایت کو یکسر ختم کردیا اور بچیوں کی پرورش پر خاصی توجہ دلائی ۔دورانِ پرورش لڑکے اور لڑکی کے درمیان کسی بھی طرح کی تفریق سے منع کیا۔جب لڑکیاں بڑی ہوئیں اور ان کی شادی ہوگئی تو اسلام نے شوہروں کو تاکید کی : ’’وعاشروہن بالمعروف‘‘ اور ان کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرو۔ شوہروں کے ذمے ان کا نان ونفقہ متعین کیا کہ شوہر کمائے اور اپنی بیوی کے اخراجات کو پورا کرے۔یعنی عورتوں کو کمانے کے دوران آنے والی بہت سی پریشانیوں سے محفوظ کردیا گیا۔وہ آرام سے گھر میں رہ سکتی ہیں اور کمانے کی فکر سے آزاد ہیں ۔اس کے باوجود اگر وہ تجارت وملازت کرنا چاہتی ہیں تو انھیں روکا بھی نہیں گیا۔ اچھے ماحول میں وہ تجارت وملازت بھی کرسکتی ہیں ۔غورکرنے کا مقام یہ ہے کہ انھیں تجارت وغیرہ کی بھی اجازت ہے کہ وہ معاشی ترقی کرسکتی ہیں اوراگر وہ معاشیات کے حصول کے لیے بہت سے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتیں تو یہ ان کے اوپر ہے۔شوہر تو ان کاخرچ پورا کرنے والا ہی ہے۔یہ نظریہ عورتوں کے حق میں ہے؛ لیکن معاندینِ اسلام اس نظریے کو عورت مخالف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام عورتوں کو گھروں میں قید کردیتاہے، انھیں ملازمت نہیں کرنے دیتا اورآگے بڑھنے سے روکتاہے۔اسے ذہنی فساد ہی کہا جاسکتاہے کہ مثبت بات کو منفی بناکر پیش کیاجارہاہے۔

            جب عورت ماں بنتی ہے تو اسے اور اہم مقام عطاہوتاہے۔ اس کے درجات کو بلند کردیا جاتا ہے ، خاندان میں اس کی عزت مزید دوبالا ہوتی ہے۔ایک طرف وہ اپنے شوہر کی چہیتی ہوتی ہے، وہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتا ہے ۔اس کے حقوق کا خیال رکھتا ہے، اس کو خرچ دیتاہے۔ دوسری طرف اس کے بچے اس کا احترام کرتے ہیں ، خدمت کرتے ہیں اور بہترین سلوک کرتے ہیں ۔اسلام میں ماں کے مقام ومنصب کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتاہے کہ ایک بار ایک صحابی پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معلوم کرنے لگے کہ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أمُّک، (تیری ماں )، اس کے بعد ان صحابی نے دوبارہ سوال کیا کہ ثُمَّ مَنْ؟ پھر کون۔آپ ؐنے ارشاد فرمایا: ثُمَّ أمُّک (پھر تیری ماں ) اس کے بعد صحابی ؓ نے عرض کیا ثُمَّ مَنْ؟ آپؐ نے فرمایا  ثُمَّ أمُّک ،پھر تیری ماں ۔اس کے بعد صحابی نے معلوم کیا ثُمَّ مَنْ؟ آپ ؐنے فرمایا :  ثُمَّ أبُوکَ اَدْنَاکَ۔ پھر تیرے باپ اور رشتہ دار۔ غورکیجیے حسن سلوک کی پہلی حق دار ماں ہے۔ دوسرے نمبر پر بھی ماں ہے۔تیسرے نمبر پر بھی ماں ہے اور چوتھے نمبر پر باپ، پھر دیگر اعزاواقارب ۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولاد کے لیے لازم ہے کہ وہ ترجیحی طورپر اپنی والدہ کی خدمت کرے اور اس کے ساتھ حسن کامعاملہ کرے۔عورتوں کو تینوں حیثیتوں میں خاصی اہمیت دی گئی۔یعنی جب وہ بچی تھی، تب اس کا خیال رکھاگیا۔جب وہ شادی شدہ ہوئی تو اس کو عزت عطاکی گئی اور جب وہ ماں بنی تو اس کو احترام واعزاز سے نوازاگیا ۔

            اگر ابدی کامیابی کے لحاظ سے عورتوں کی بات کریں تو عورت کو وہ تمام چیزیں عطاکی گئیں جو مردں کو دی گئیں ۔مثال کے طورپر پانچ وقت کی نماز مردو ں پر فرض کی گئی تاکہ وہ ’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ پر پورے اترسکیں اور اپنے مقام و منصب کو بڑھاسکیں تو عورتوں کو بھی پانچ وقت کی نمازیں دی گئیں ۔ایک بھی کم نہیں کی گئی اور نہ زیادہ۔ مردوں پر رمضان کے پورے مہینے کے روزے فرض کیے گئے۔اس طرح عورتوں پر بھی رمضان کے پورے مہینے کے روزے فرض کیے گئے۔زکوۃ صاحبِ نصاب مردوں پر فرض کی گئی تو صاحبِ نصاب عورتوں پر بھی زکوۃ فرض کی گئی۔قربانی صاحب نصاب مردوں پر واجب ہے تو صاحبِ نصاب عورتوں پر بھی واجب ہے۔اسی طرح حج بیت اللہ ان مسلمانوں پرزندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو مَنِ اسْتَطَاعَ إلَیْہِ سَبِیْلاً کے تحت آتے ہیں ۔ تو جو عورتیں اپنے پاس اتنی مالیت رکھتی ہیں یااتنی طاقت رکھتی ہیں کہ امن کے ساتھ مکہ پہنچ سکیں تو ان پر بھی حج پر فرض ہے۔ گویاکہ ہر جگہ اسلام نے عورتوں کو مساویانہ حقوق عطاکیے۔ عزت کا معاملہ ہویاعبادت کا معاملہ ، ہر جگہ عورتوں کواہمیت دی گئی۔ اور اگر کہیں کوئی رخصت دی گئی تو وہ ان کی سہولتوں کے لیے اور اگر کسی چیز کاانھیں پابند بنایا گیا تو ان کے فائدے کے لیے، جیسا کہ پردے کے معاملے کو لے لیجیے ۔ ’پردہ‘عورت کے حق میں ہے ، مخالفت میں نہیں ۔ عورت اس طرح بہت سی ہوس ناک نظروں سے محفوظ ہوجاتی ہے اور بہت سی خطرناک وارداتوں سے تحفظ کا بھی پردہ ذریعہ ہے۔یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ آج کا میڈیا عورتوں کے تعلق سے اسلام کی تعلیمات کو غلط طورپر پیش کررہا ہے اور انھیں ورغلا ہورہا ہے۔انھیں آزادیٔ نسواں کے نام پر غیر محفوظ کرنے پرآمادہ کررہا ہے۔ ان کو جرائم کا شکار بنانا چاہتا ہے۔ عورتوں کو بڑی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کیا چیز ان کے حق میں ہے اور کیا چیزان کی مخالفت میں ہے؟ دورِ حاضر میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف جو سازشیں رچی جارہی ہیں ، ان سے بھی چوکنا رہنا چاہیے اور یہ بات ذہن میں بٹھانی چاہیے کہ اسلام کسی کے ساتھ ناانصافی وزیادتی نہیں کرتاہے۔جولوگ اسلام کے خلاف باتیں بنارہے ہیں ،انھیں یاتو اسلام کی تعلیمات سے کماحقہ واقفیت نہیں یاپھر وہ عناد اور دشمنی میں ایسا کررہے ہیں ۔اسلام کی تعلیمات کے سنجیدہ مطالعے سے حقیقتِ حال خود واضح ہوجاتی ہے؛اس لیے دوسروں کے الزامات یا باتوں پر یقین کرنے سے بہتر ہے کہ خود اسلام کا مطالعہ کیاجائے اور عورتوں کے تعلق سے اسلام کیا باتیں پیش کرتاہے ، ان کوگہرائی سے دیکھاجائے۔  

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1،  جلد:103‏،  ربیع الثانی – جمادی الاول 1440ھ جنوری 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts