مشاجرات صحابہؓ کے معاملہ میں امت کا عقیدہ اور عمل

از:  حضرت مولانا مفتی محمدشفیع عثمانی رحمہ اللہ

            لفظ ’’مشاجرہ‘‘ شجر سے مشتق ہے جس کے اصل معنی: تنے دار درخت کے ہیں جس کی شاخیں اطراف میں پھیلتی ہیں باہمی اختلافات ونزاع کو اسی مناسبت سے مشاجرہ کہاجاتا ہے کہ درخت کی شاخیں بھی ایک دوسری سے ٹکراتی اور ایک دوسرے کی طرف بڑھتی ہیں۔ حضرات صحابۂ کرامؓ کے درمیان جو اختلافات پیش آئے اور کھلی جنگوں تک کی نوبت پہنچ گئی، علماء امت نے ان کی باہمی حروب اوراختلافات کو جنگ وجدال سے تعبیر نہیں کیا؛ بلکہ ازروئے ادب ’’مشاجرہ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے؛ کیونکہ درخت کی شاخوں کا ایک دوسرے میںگھسنا اور ٹکرانا مجموعی حیثیت سے کوئی عیب نہیں؛ بلکہ درخت کی زینت اور کمال ہے۔

ایک سوال اور جواب

            اسلام میں صحابۂ کرامؓ کا درجہ اور مقام جو اوپر قرآن وسنت کی نصوص اور اجماع امت اور اکابر علماء کی تصریحات سے ثابت ہوچکا ہے اس کے بعد ایک قدرتی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صحابۂ کرام سب کے سب واجب التعظیم اورعدل وثقہ ومتقی وپرہیزگار ہیں تو اگر ان کے آپس میں کسی مسئلہ میں اختلاف پیش آجائے تو ہمارے لیے طریق کار کیاہونا چاہیے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دو متضاد اقوال میںدونوں کو صحیح سمجھ کر دونوں ہی کو معمول نہیں بنایا جاسکتا۔ عمل کرنے کے لیے کسی ایک کو اختیار کرنا دوسرے کو چھوڑنا لازم ہے تو اس ترک و اختیار کا معیار کیا ہونا چاہیے۔ نیز اس میں دونوں طرف کے بزرگوں کا ادب واحترام اور تعظیم کیسے قائم رہے گی؛ جب کہ ایک کے قول کو مرجوح قرار دے کر چھوڑا جائے گا۔

            خصوصاً یہ سوال ان معاملات میں زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جن میں ان حضرات کا اختلاف باہمی جنگ وخونریزی تک پہنچ گیا۔ ان میں ظاہر ہے کہ کوئی ایک فریق حق پر ہے، دوسرا خطا پر، اس خطا وصواب کے معاملے کو طے کرنا عمل وعقیدہ کے لیے ضروری ہے؛ مگر اس صورت میں دونوں فریق کی یکساں تعظیم واحترام کیسے قائم رکھا جاسکتا ہے؟ جس کو خطا پر قرار دیا جائے اس کی تنقیص ایک لازمی امر ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ دو مختلف اقوال میں سے ایک کو حق یا راجح اور دوسرے کو خطا یامرجوح قرار دینے میں کسی ایک فریق کی تنقیص لازم ہے۔ اسلاف اُمت نے ان دونوں کاموں کو اس طرح جمع کیا ہے کہ عمل اور عقیدہ کے لیے کسی ایک فریق کے قول کو شریعت کے مسلمہ اصولِ اجتہاد کے مطابق اختیار اور دوسرے کو ترک کیا؛ لیکن جس کے قول کو ترک کیا ہے اس کی ذات اور شخصیت کے متعلق کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں کہا جس سے ان کی تنقیص ہوتی ہو۔ خصوصاً مشاجرات صحابہ میں تو جس طرح امت کا اس پر اجماع ہے کہ دونوں فریق کی تعظیم واجب اور دونوں فریق میں سے کسی کو برا کہنا ناجائز ہے، اسی طرح اس پر بھی اجماع ہے کہ جنگ جمل میں حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ حق پر تھے ان کا مقابلہ کرنے والے خطا پر، اسی طرح جنگ صفین میں حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ حق پر تھے اور ان کے مقابل حضرت معاویہؓ اور ان کے اصحاب خطا پر؛ البتہ ان کی خطائوں کو اجتہادی خطا قرار دیا جو شرعاً گناہ نہیں جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہو؛ بلکہ اصول اجتہاد کے مطابق اپنی کوشش صرف کرنے کے بعد بھی اگر ان سے خطا ہوگئی تو ایسے خطا کرنے والے بھی ثواب سے محروم نہیں ہوتے ایک اجر ان کو بھی ملتا ہے۔

            باجماع امت ان حضرات صحابہؓ کے اس اختلاف کو بھی اسی طرح کا اجتہادی اختلاف قرار دیا گیا ہے جس سے کسی فریق کے حضرات کی شخصیتیں مجروح نہیں ہوتیں۔

            اس طرح ایک طرف خطا وصواب کو بھی واضح کردیاگیا، دوسری طرف صحابہ کرامؓ کے مقام اور درجہ کا پورا احترام بھی ملحوظ رکھا گیا اور مشاجرات صحابہؓ میں کف لسان اور سکوت کو اسلم قرار دے کر اس کی تاکید کی گئی کہ بلا وجہ ان روایات وحکایات میں خوض کرنا جائز نہیں جو باہمی جنگ کے دوران ایک دوسرے کے متعلق نقل کی گئی ہیں۔ ملاحظہ ہوں مشاجرات صحابہؓ کے بارے میں سلف صالحین کے اقوال ذیل:

            تفسیر قرطبی سورئہ حجرات میں آیت  وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا  کے تحت مشاجرات صحابہ پر سلف صالحین کے اقوال کے ساتھ بہترین تحقیق فرمائی ہے جو انھیں کی طویل عبارت میں لکھی جاتی ہے۔

            (۱۴) الْعَاشِرَۃُ – لَا یَجُوزُ أَنْ یُنْسَبَ إِلَی أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ خَطَائٌ مَقْطُوعٌ بِہِ، إِذْ کَانُوا کُلَّہُمُ اجْتَہَدُوا فِیمَا فَعَلُوہُ وَأَرَادُوا اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ، وَہُمْ کُلُّہُمْ لَنَا أَئِمَّۃٌ، وَقَدْ تَعَبَّدْنَا بِالْکَفِّ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ، ولا نَذْکُرَہُمْ إِلَّا بِأَحْسَنِ الذِّکْرِ، لِحُرْمَۃِ الصُّحْبَۃِ وَلِنَہْیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ سَبِّہِمْ، وَأَنَّ اللَّہَ غَفَرَ لَہُمْ، وَأَخْبَرَ بِالرِّضَاء عَنْہُمْ، ہَذَا مَعَ مَا قَدْ وَرَدَ مِنَ الْأَخْبَارِ مِنْ طُرُقٍ مُخْتَلِفَۃٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ طَلْحَۃَ شَہِیدٌ۔ یَمْشِی عَلَی وَجْہِ الْأَرْضِ، فَلَوْ کَانَ مَا خَرَجَ إِلَیْہِ مِنَ الْحَرْبِ عِصْیَانًا لَمْ یَکُنْ الْقَتْل فِیہِ شَہِیدًا، وَکَذَلِکَ لَوْ کَانَ مَا خَرَجَ إِلَیْہِ خَطَاء فِی التَّأْوِیلِ وَتَقْصِیرًا فِی الْوَاجِبِ عَلَیْہِ، لِأَنَّ الشَّہَادَۃَ لَا تَکُونُ إِلَّا بِقَتْلٍ فِی طَاعَۃٍ، فَوَجَبَ حَمْلُ أَمْرِہِمْ عَلَی مَا بَیَّنَّاہُ۔ وَمِمَّا یَدُلُّ عَلَی ذَلِکَ مَا قَدْ صَحَّ وَانْتَشَرَ مِنْ أَخْبَارِ عَلِیٍّ بِأَنَّ قَاتِلَ الزُّبَیْرِ فی النار۔ وقولہ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ’’بَشِّرْ قَاتِلَ ابْنِ صَفِیَّۃَ بِالنَّارِ‘‘۔ وَإِذَا کَانَ کَذَلِکَ فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ طَلْحَۃَ، وَالزُّبَیْرَ غَیْرُ عَاصِیَیْنِ وَلَا آثِمَیْنِ بِالْقِتَالِ، لِأَنَّ ذَلِکَ لَوْ کَانَ کَذَلِکَ لَمْ یَقُلِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی طَلْحَۃَ: ’’شَہِیدٌ‘‘۔ وَلَمْ یُخْبِرْ أَنَّ قَاتِلَ الزُّبَیْرِ فِی النَّارِ، وَکَذَلِکَ مَنْ قَعَدَ غَیْرَ مُخْطِیِٔ فِی التَّأْوِیلِ۔ بَلْ صواب أراہم اللَّہُ الِاجْتِہَادَ۔ وَإِذَا کَانَ کَذَلِکَ لَمْ یُوجِبْ ذَلِکَ لَعْنَہُمْ وَالْبَرَائَۃَ مِنْہُمْ وَتَفْسِیقَہُمْ، وَإِبْطَالَ فَضَائِلِہِمْ وَجِہَادَہُمْ، وَعَظِیمَ غِنَائِہِمْ فِی الدِّینِ، رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ۔ وَقَدْ سُئِلَ بَعْضُہُمِ عَنِ الدِّمَائِ الَّتِی أُرِیقَتْ فِیمَا بَیْنَہُمْ فَقَالَ۔’’تِلْکَ أُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ وَلا تُسْئَلُونَ عَمَّا کانُوا یَعْمَلُونَ‘‘ وسئل بَعْضُہُمْ عَنْہَا أَیْضًا فَقَالَ: تِلْکَ دِمَائٌ طَہَّرَ اللَّہُ مِنْہَا یَدِی، فَلَا أُخَضِّبُ بِہَا لِسَانِی۔ یَعْنِی فِی التَّحَرُّزِ مِنَ الْوُقُوعِ فِی خَطَائٍ، وَالْحُکْمِ عَلَی بَعْضِہِمْ بِمَا لَا یَکُونُ مُصِیبًا فِیہِ۔ قَالَ ابْنُ فَوْرِکٍ: وَمِنْ أَصْحَابِنَا مَنْ قَالَ إِنَّ سَبِیلَ مَا جَرَتْ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ مِنَ الْمُنَازَعَاتِ کَسَبِیلِ مَا جَرَی بَیْنَ إِخْوَۃِ یُوسُفَ مَعَ یُوسُفَ، ثُمَّ إِنَّہُمْ لَمْ یَخْرُجُوا بِذَلِکَ عَنْ حَدِّ الْوَلَایَۃِ وَالنُّبُوَّۃِ، فَکَذَلِکَ الْأَمْرُ فِیمَا جَرَی بَیْنَ الصَّحَابَۃِ۔ وَقَالَ الْمُحَاسِبِیُّ: فَأَمَّا الدِّمَائُ فَقَدْ أَشْکَلَ عَلَیْنَا الْقَوْلُ فِیہَا بِاخْتِلَافِہِمْ۔ وَقَدْ سُئِلَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ عَنْ قِتَالِہِمْ فَقَالَ: قِتَالٌ شَہِدَہُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَغِبْنَا، وَعَلِمُوا وَجَہِلْنَا، وَاجْتَمَعُوا فَاتَّبَعْنَا، وَاخْتَلَفُوا فَوَقَفْنَا۔ قَالَ الْمُحَاسِبِیُّ فَنَحْنُ نَقُولُ کَمَا قَالَ الْحَسَنُ، وَنَعْلَمُ أَنَّ الْقَوْمَ کَانُوا أَعْلَمَ بِمَا دَخَلُوا فِیہِ مِنَّا، وَنَتَّبِعُ مَا اجْتَمَعُوا عَلَیْہِ، وَنَقِفُ عِنْدَ مَا اخْتَلَفُوا فِیہِ وَلَا نَبْتَدِعُ رَأْیًا مِنَّا، وَنَعْلَمُ أَنَّہُمُ اجْتَہَدُوا وَأَرَادُوا اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ، إِذْ کَانُوا غَیْرَ مُتَّہَمِینَ فِی الدین، ونسأل اللّٰہ التوفیق۔ (تفسیر القرطبی ص۳۲۲،ج۱۶)

            یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے؛ اس لیے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اورسب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات سے کفِّ لسان کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہترین طریقے پر کریں؛ کیونکہ صحابیت بڑی حرمت کی چیز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انھیں معاف کررکھا ہے اور ان سے راضی ہے، اس کے علاوہ متعدد سندوں سے یہ حدیث ثابت ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ کے بارے میں فرمایا:

’’ان طلحۃ شہید یمشی علی وجہ الأرض‘‘

            ’’یعنی طلحہ روئے زمین پر چلنے والے شہید ہیں‘‘

            اب اگر حضرت علیؓ کے خلاف حضرت طلحہؓ کا جنگ کے لیے نکلنا کھلا گناہ اور عصیان تھا تو اس جنگ میں مقتول ہوکر وہ ہرگز شہادت کارتبہ حاصل نہ کرتے، اسی طرح اگر حضرت طلحہؓ کا یہ عمل تاویل کی غلطی اور ادائے واجب میں کوتاہی قرار دیا جاسکتا تو بھی آپ کو شہادت کا مقام حاصل نہ ہوتا؛ کیونکہ شہادت تو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی شخص اطاعت ربّانی میں قتل ہوا ہو، لہٰذا ان حضرات کے معاملہ کو اسی عقیدہ پر محمول کرنا ضروری ہے جس کا اوپر ذکر کیاگیا۔

            اسی بات کی دوسری دلیل وہ صحیح اور معروف ومشہور احادیث ہیں جو خود حضرت علیؓ سے مروی ہیں اور جن میں آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’زبیرؓ کا قاتل جہنم میں ہے‘‘

            نیز حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ

            ’’صفیہؓ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو‘‘ جب یہ بات ہے تو ثابت ہوگیا کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ اس لڑائی کی وجہ سے عاصی اور گنہگار نہیں ہوئے، اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور … حضرت طلحہؓ کو ’’شہید‘‘ نہ فرماتے اور حضرت اور حضرت زبیرؓ کے قاتل کے بارے میں جہنم کی پیشین گوئی نہ کرتے۔ نیز ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہے، جن کے جنتی ہونے کی شہادت تقریباً متواتر ہے۔

            اسی طرح جو حضرات صحابہؓ ان جنگوں میں کنارہ کش رہے، انھیں بھی تاویل میں خطاکار نہیں کہا جاسکتا؛ بلکہ ان کا طرز عمل بھی اس لحاظ سے درست تھا کہ اللہ نے ان کو اجتہاد میںاسی رائے پر قائم رکھا۔ جب یہ بات ہے تو اس وجہ سے ان حضرات پر لعن طعن کرنا، ان سے براء ت کا اظہار کرنا اور انھیں فاسق قرار دینا، اُن کے فضائل ومجاہدات اور ان عظیم دینی مقامات کو کالعدم کردینا کسی طرح درست نہیں ہے۔ بعض علماء سے پوچھا گیا کہ اس خون کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو صحابۂ کرامؓ کے باہمی مشاجرات میں بہایاگیا، تو انھوں نے جواب میں یہ آیت پڑھ دی کہ

            تِلْکَ أُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُم مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔

            ترجمہ: یہ ایک امت تھی جو گذرگئی، اس کے اعمال اس کے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں اورتم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیاجائے گا۔

            کسی اور بزرگ سے یہی سوال کیاگیا تو انھوںنے کہا:

            ’’یہ ایسے خون ہیں کہ اللہ نے میرے ہاتھوں کو اس میں (رنگنے سے) بچایا، اب میں اپنی زبان کو ان سے آلودہ نہیں کروںگا۔‘‘

            مطلب یہی تھا کہ میںکسی ایک فریق کو کسی معاملے میں یقینی طور پر خطاکار ٹھہرانے کی غلطی میں مبتلا نہیںہونا چاہتا۔

            علامہ ابن فورکؓ فرماتے ہیں:

            ’’ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے درمیان جو مشاجرات ہوئے ان کی مثال ایسی ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے واقعات  کہ وہ حضرات آپس کے ان اختلافات کے باوجود ولایت اور نبوت کی حدود سے خارج نہیں ہوئے، بالکل یہی معاملہ صحابہؓ کے درمیان پیش آنے والے واقعات کا بھی ہے۔‘‘

            اور حضرت محاسبیؒ فرماتے ہیں کہ:

            ’’جہاں تک اس خونریزی کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا مشکل ہے؛کیونکہ اس میں خود صحابہؓ کے درمیان اختلاف تھا اور حضرت حسن بصریؒ سے صحابہؓ کے باہمی قتال کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایاکہ

            ’’ یہ ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہؓ موجود تھے اور ہم غائب، وہ پورے حالات کو جانتے تھے، ہم نہیں جانتے، جس معاملہ پر تمام صحابہؓکااتفاق ہے، ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس معاملہ میں ان کے درمیان اختلاف ہے، اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔‘‘

            حضرت محاسبیؒ فرماتے ہیں کہ ہم بھی وہی بات کہتے ہیں جوحسن بصریؒ نے فرمائی، ہم جانتے ہیں کہ صحابۂ کرامؓ نے جن چیزوں میں دخل دیا، ان سے وہ ہم سے کہیں بہتر طریقے پر واقف تھے، لہٰذا ہمارا کام یہی ہے کہ جس پر وہ سب حضرات متفق ہوں اس کی پیروی کریں اور جس میں ان کا اختلاف ہو اس میں خاموشی اختیار کریں اور اپنی طرف سے کوئی نئی رائے پیدا نہ کریں، ہمیںیقین ہے کہ ان سب نے اجتہاد سے کام لیا تھا اور اللہ کی خوشنودی چاہی تھی؛ اس لیے کہ دین کے معاملہ میں وہ سب حضرات شک وشبہ سے بالاتر ہیں۔‘‘

            اس طویل عبارت میں علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اہل سنت کے عقیدے کی بہترین ترجمانی فرمائی ہے۔ عبارت کے شروع میں انھوں نے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی شہادت سے متعلق جو حدیثیں نقل فرمائی ہیں، ان سے اس مسئلہ پر بطور خاص روشنی پڑتی ہے، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ دونوں حضرات آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار صحابہؓ میں سے ہیں اور ان دس خوش نصیب حضرات میں آپ کا بھی نام ہے جن کے بارے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر ان کے جنتی ہونے کی خوشخبری دی ہے اور جنھیں عشرئہ مبشرہ کہا جاتا ہے، ان دونوں حضرات نے حضرت عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کرنے کے لیے حضرت علیؓ کا مقابلہ کیا اور اسی دوران شہید ہوئے، آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ احادیث میں ان دونوں حضرات کو شہید قرار دیا۔ دوسری طرف حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علیؓ کے سرگرم ساتھیوں میں سے تھے اور انھوں نے پوری قوت کے ساتھ حضرت علیؓ کے مخالفین کا مقابلہ کیا، آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بھی شہادت کی پیشین گوئی فرمائی، غور کیا جائے تو یہی ارشادات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ان جنگوں میں کوئی فریق بھی کھلے باطل پر نہ تھا؛ بلکہ ہر ایک فریق اللہ کی رضا کے لیے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق کام کررہا تھا، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر یہ اختلاف کھلے حق وباطل کا اختلاف ہوتا تو ہر ایک فریق کے رہنمائوں کے لیے بیک وقت شہادت کی پیشین گوئی نہ فرمائی جاتی، ان ارشادات نے یہ واضح کردیا کہ حضرت طلحہؓ وزبیرؓ بھی اللہ کی خوشنودی کے لیے لڑ رہے تھے؛ اس لیے وہ بھی شہید ہیں اور حضرت عمارؓ کا مقصد بھی رضائے الٰہی کے حصول کے سوا کچھ نہ تھا؛ اس لیے وہ بھی لائق مدح وستائش ہیں۔ دونوں کا اختلاف کسی دنیوی غرض سے نہیں؛ بلکہ اجتہاد ورائے کی بنا پر تھا اور ان میں سے کسی بھی فریق کو مجروح ومطعون نہیں کیاجاسکتا۔

            شرح مواقف مقصد سابع میں ہے:

            (۱۵) وامّا الفتن والحروب الواقعۃ بین الصّحابۃ فالشامیۃ انکروا وقوعہا ولا شک انہ مکابرۃ للتّواتر فی قتل عثمان و واقعۃ الجمل والصفّین وَالْمُعْتَرِفون بوقوعہا منہم من سکت عن الکلام فیہا بتخطیۃ أو تصویب وہم طائفۃ من أہل السنّۃ فإن أرادوا أنہ اشتغال بما لا یعنی فلا بأس بہ إذِ قال الشافعیؒ وغیرہ من السلف تلک دماء طہر اللّٰہ عنہا ایدینا فلنطہر عنہا الخ۔

            ترجمہ: رہے وہ فتنے اور جنگیں جو صحابہؓ کے درمیان واقع ہوئے تو فرقۂ شامیہ نے تو ان کے وقوع ہی کا انکار کردیا ہے اور کوئی شک نہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت اور واقعۂ جمل وصفین جس تواتر کے ساتھ ثابت ہے، یہ اس کا بے دلیل انکار ہے اور جن حضرات نے ان کے وقوع کا انکار نہیں کیا ہے ان میں سے بعض نے تو ان واقعات میں مکمل سکوت اختیار کیااور نہ کسی خاص فریق کی طرف غلطی منسوب کی، نہ حق وصواب یہ حضرات اہل سنت ہی کی ایک جماعت ہیں، اگر ان کی مراد یہ ہے کہ یہ ایک فضول کام ہے تو ٹھیک ہے؛ اس لیے کہ امام شافعیؒ وغیرہ علمائے سلف نے فرمایاہے کہ یہ ایسے خون ہیں جن سے اللہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھا ہے؛ اس لیے چاہیے کہ ہم اپنی زبانوں کو بھی ان سے پاک رکھیں۔

            شیخ ابن الہمام نے ’’شرح مسامرہ‘‘ میں فرمایا:

            واعتقاد أہل السنّۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم وجوبا باثبات اللّٰہ أنہ لکل منہم والکفّ عن الطّعن فیہم الثّناء علیہم کما اثنی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ (وذکر آیات عدیدۃ ثم قال) واثنی علیہم الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ثم سرد احادیث الباب) ثم قال وما جری بین معاویۃ وعلیؓ من الحروب کان مبیناً علی الاجتہاد۔ (شرح مسامرہ ص۱۳۲ طبع دیوبند)

            ترجمہ: اہل سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ تمام صحابہؓ کو لازمی طور پر پاک صاف مانتے ہیں؛ اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے ہر ایک کا تزکیہ فرمایاہے، نیز ان کے بارے میں اعتراضات کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور ان سب کی مدح وثنا کرتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ثنا فرمائی (اس کے بعد چند آیتیں ذکر کرکے فرماتے ہیں) اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی تعریف فرمائی (پھر کچھ احادیث نقل کرکے لکھتے ہیں) اور حضرت معاویہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان جو جنگیں ہوئیں وہ اجتہاد پر مبنی تھیں۔‘‘

            شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے شرح عقیدہ واسطیہ میں اس بحث پر تفصیلی کلام فرمایا ہے ان کے چندجملے یہ ہیں اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

            ویتبروئون من طریقۃ الروافض الذین یبغضون الصحابۃ ویسبّونہم وطریقۃ النواصب الذین یؤذون أہل البیت بقول لاعمل ویمسکون عما شجر بین الصحابۃ ویقولون إن ہذہ الآثار المرویۃ فی مساویہم منہا ما ہو کذب، ومنہا ما قد زید فیہ ونقص وغیروجہہ والصحیح منہ ہم فیہ معذرون أما مجتہدون مصیبون، و اما مجتہدون مخطئون، وہم مع ذلک لا یعتقدون أن کل واحد من الصحابۃ معصوم من کبائر الاثم وصغائرہ بل یجوز علیہم الذنوب فی الجملۃ، ولہم من الفضائل والسوابق ما یوجب مغفرۃ ما یصدر منہم ان صدر حتی أنہم یغفرلہم من السیئات ما لا یغفر لمن بعدہم۔

            ترجمہ: اہل سنت ان روافض کے طریقہ سے براء ت کرتے ہیں جو صحابہؓ سے بغض رکھتے اور  انھیں برا کہتے ہیں، اسی طرح ان ناصبوں کے طریقے سے بھی براء ت کرتے ہیں جو اہل بیت کو اپنی باتوں سے نہ کہ عمل سے تکلیف پہنچاتے ہیں اور صحابہؓ کے درمیان جو اختلافات ہوئے ان کے بارے میں اہل سنت سکوت اختیار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ صحابہؓ کی برائی میں جو روایتیں منقول ہیں ان میں سے بعض تو بالکل جھوٹ ہیں، بعض ایسی ہیں کہ ان میں کمی بیشی کردی گئی ہے اور ان کا صحیح مفہوم بدل دیاگیا ہے اور اس قسم کی جو روایتیں بالکل صحیح ہوں، ان میں بھی صحابہؓ معذور ہیں، ان میں سے بعض حضرات اجتہاد سے کام لے کر حق وصواب تک پہنچ گئے اور بعض نے اجتہاد سے کام لیا اور اس میں غلطی ہوگئی اس کے ساتھ ہی اہل سنت کا یہ اعتقاد بھی نہیں ہے کہ صحابہؓ کا ہر فرد تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے معصوم ہے؛ بلکہ ان سے فی الجملہ گناہوں کا صدور ممکن ہے؛ لیکن ان کے فضائل وسوابق اتنے ہیں کہ اگر کوئی گناہ ان سے صادر بھی ہوتو یہ فضائل ان کی مغفرت کے موجب ہیں؛ یہاں تک کہ ان کی مغفرت کے مواقع اتنے ہیں کہ ان کے بعد کسی کو حاصل نہیں ہوسکتے۔

            کتاب مذکور میں ابن تیمیہؒ ایک مفصل کلام کے بعد لکھتے ہیں:

            اور جب سلف صالحین اہل السنۃ والجماعۃ کا اصول یہ پڑگیا جو اوپر بیان کیاگیا ہے تو اب یہ سمجھیے کہ ان حضرات کے قول کاحاصل یہ ہے کہ بعض صحابۂ کرامؓ کی طرف جو بھی گناہ یا برائیاں منسوب کی گئی ہیں ان میں بیشتر حصہ تو جھوٹ اور افتراء ہے اور کچھ حصہ ایسا ہے جس کو انھوں نے اپنے اجتہاد سے حکم شرعی اور دین سمجھ کر اختیار کیا؛ مگر بہت سے لوگوں کو ان کے اجتہاد کی وجہ اور حقیقت معلوم نہیں، اس لیے اس کو گناہ قرار دیا اور کسی معاملہ میں یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ وہ خطا اجتہادی ہی نہیں؛ بلکہ حقیقتاً گناہ ہی ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا وہ گناہ بھی معاف ہوچکا ہے، یا اس وجہ سے کہ انھوں نے توبہ کرلی (جیسا کہ بہت سے ایسے معاملات میں ان کی توبہ خود قرآن وسنت میں منقول وماثور ہے) اور یا ان کی دوسری ہزاروں حسنات وطاعات کے سبب معاف کردیا گیا اور یا اس کو دنیا میں کسی مصیبت وتکلیف میں مبتلا کرکے اس گناہ کا کفارہ کردیاگیا، اس کے سوا اور بھی اسباب مغفرت کے ہوسکتے ہیں (ان کے گناہ کو مغفور ومعاف قرار دینے کی وجہ یہ ہے ) کہ قرآن وسنت کے دلائل سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں اس لیے ناممکن ہے کہ کوئی ایسا عمل ان کے نامۂ اعمال میں باقی رہے جو جہنم کی سزا کا سبب بنے اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ صحابۂ کرامؓ میں سے کوئی شخص ایسی حالت پر نہیں مرے گا جو دخول جہنم کا سبب بنے تو اس کے سوا اور کوئی چیز ان کے  استحقاق جنت میں مانع نہیں ہوسکتی۔

            اور عشرہ مبشرہ کے علاوہ کسی معین ذات کے متعلق اگرچہ ہم یہ نہ کہہ سکیں کہ وہ جنتی ہے جنت ہی میںجائے گا؛ مگر یہ بھی تو جائز نہیںکہ ہم کسی کے حق میں بغیر کسی دلیل شرعی کے یہ کہنے لگیں کہ وہ مستحق جنت کا نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا کہنا تو عام مسلمانوں میں سے بھی کسی کے لیے جائز نہیں جن کے بارے میںہمیں کسی دلیل سے جنتی ہونا بھی معلوم نہ ہو۔ ہم ان کے بارے میں بھی یہ شہادت نہیں دے سکتے کہ وہ ضرور جہنم میں جائے گا تو پھر افضل المومنین اور خیار المومنین (صحابہ کرام) کے بارے میں یہ کیسے جائز ہوجائے گا اور ہر صحابی کے پورے اعمال ظاہرہ وباطنہ کی اور حسنات وسیئات اور ان کے اجتہادات کی تفصیلات کا علم ہمارے لیے بہت دشوار ہے اور بغیر علم وتحقیق کے کسی کے متعلق فیصلہ کرنا حرام ہے اسی لیے مشاجرات صحابہؓ کے معاملہ میں سکوت کرنا بہتر ہے؛ اس لیے کہ بغیر علم صحیح کے کوئی حکم لگانا حرام ہے۔ انتہی‘‘ (شرع عقیدہ واسطیہ ص۴۵۶-۴۵۷)

            اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے صحیح روایت سے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔

            (۱۹) ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے سامنے حضرت عثمان غنی پر تین الزام لگائے۔ ایک یہ کہ وہ غزوئہ احد میں میدان سے بھاگنے والوں میں تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ غزوئہ بدر میں شریک نہیں تھے۔ تیسرے یہ کہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہ تھے۔

            حضرت عبداللہ نے ان تینوں الزاموں کا جواب یہ دیا کہ بیشک غزوئہ احد میں فرار کا صدور ان سے ہوا؛ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی معافی کا اعلان کردیا۔ مگر تم نے پھر بھی معاف نہ کیا کہ اس کا ان پر عیب لگاتے ہو۔ رہا غزوئہ بدر میں شریک نہ ہونا تو وہ خود آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوا اور اسی لیے آپ نے عثمان غنی کو غانمین بدر میں شمار کرکے ان کا حصہ لگایا اور بیعت رضوان کے وقت وہ حضور ہی کے بھیجے ہوئے مکہ مکرمہ گئے تھے اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس بیعت میںشریک کرنے کے لیے خود اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دے کر اپنے دست مبارک سے بیعت فرمائی اور ظاہر ہے کہ خود عثمان غنی حاضر ہوتے اور ان کا ہاتھ اس جگہ ہوتا تو بھی وہ فضیلت حاصل نہ ہوتی؛ کیونکہ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک اس سے ہزاروں درجہ بہتر ہے۔‘‘

            اس واقعہ میں غور کروکہ تین الزاموں میں سے ایک الزام کو صحیح مان کر یہ جواب دیا کہ اب وہ ان کے لیے کوئی عیب نہیں؛ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کردیا ہے۔ باقی دو الزاموں کا غلط بے اصل ہونا بیان فرمادیا۔ اس کو نقل کرکے ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہی حال تمام صحابہ کا ہے ان کی طرف جو کوئی گناہ منسوب کیا جاتا ہے یا تو وہ گناہ ہی نہیں ہوتا بلکہ حسنہ اور نیکی ہوتی ہے اور یا پھر وہ اللہ کا معاف کیا ہوا گناہ ہوتا ہے (شرح عقیدہ واسطیہ ص۴۶۰ -۴۶۱)

            (۲۰) علامہ سفارینی نے اپنی کتاب الدرۃ المضئیہ میں، پھر اس کی شرح میں  اس مسئلہ پراچھا کلام کیاہے اس کا ایک حصہ یہاں نقل کیاجاتاہے، پہلے متن کتاب کے دو شعر لکھے ہیں۔

واحذر من الخوض الذی قد یزری، بفضلہم مما جری لو تدری

            اور پرہیز کرو صحابہ کرام میں پیش آنے والے جھگڑوں میں دخل دینے سے جس میں ان میں سے کسی کی تحقیر ہوتی ہو۔

            فانہ عن اجتہاد قد صدرَ فاسلم ازل اللّٰہ من لہم ہجر

            کیوںکہ ان کا جو عمل بھی ہوا ہے اپنے اجتہاد شرعی کی بنا پر ہوا ہے تم سلامتی کی راہ اختیار کرو۔ اللہ ذلیل کرے اس شخص کو جو ان کی بدگوئی کرے۔

            اس کے بعد اس کی شرح میںفرمایا:

فَإِنَّہُ أَیِ التَّخَاصُمُ وَالنِّزَاعُ وَالتَّقَاتُلُ وَالدِّفَاعُ الَّذِی جَرَی بَیْنَہُمْ کَانَ عَنِ اجْتِہَادٍ قَدْ صَدَرَ مِنْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْ رُؤُسِ الْفَرِیقَیْنِ، وَمَقْصِدٍ سَائِغٍ لِکُلِّ فِرْقَۃٍ مِنَ الطَّائِفَتَیْنِ، وَإِنْ کَانَ الْمُصِیبُ فِی ذَلِکَ لِلصَّوَابِ وَاحِدہما وَہُوَ عَلِیٌّ رِضْوَانُ اللَّہِ عَلَیْہِ وَمَنْ وَالَاہُ، وَالْمُخْطِیُٔ ہُوَ مَنْ نَازَعَہُ وَعَادَاہُ، غَیْرَ أَنَّ لِلْمُخْطِیِٔ فِی الِاجْتِہَادِ أَجْرًا وَثَوَابًا، خِلَافًا لِأَہْلِ الْجَفَائِ وَالْعِنَادِ، فَکُلُّ مَا صَحَّ مِمَّا جَرَی بَیْنَ الصَّحَابَۃِ الْکِرَامِ وَجَبَ حَمْلُہُ عَلَی وَجْہٍ یَنْفِی عَنْہُمُ الذُّنُوبَ وَالآثَامَ، فَمُقَاوَلَۃُ عَلِیٍّ مَعَ الْعَبَّاسِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا لَا تَقْضِی إِلَی شَیْنٍ، وَتَقَاعُدُ عَلِیٍّؓ عَنْ مُبَایَعَۃِ الصِّدِّیقِؓ فِی بَدْئِ الْأَمْرِ کَانَ لِأَحَدِ أَمْرَیْنِ: إِمَّا لِعَدَمِ مَشُورَتِہِ کَمَا عَتَبَ عَلَیْہِ بذَلِکَ، وَإِمَّا وُقُوفًا مَعَ خَاطِرِ سَیِّدَۃِ نِسَائِ الْعَالَمِ فَاطِمَۃَ الْبَتُولِ مِمَّا ظَنَّتْ أَنَّہُ لَہَا، وَلَیْسَ الْأَمْرُ کَمَا ہُنَالِکَ، ثُمَّ إِنَّ عَلِیًّاؓ بَایَعَ الصِّدِّیقَؓ عَلَی رُؤسِ الْأَشْہَادِ، فَاتَّحَدَتِ الْکَلِمَۃُ وَلِلَّہِ الْحَمْدُ وَحَصَلَ الْمُرَادُ، وَتَوَقُّفِ عَلِیٍّ عَنْ الِاقْتِصَاصِ مِنْ قَتَلَۃِ عُثْمَانَؓ، إِمَّا لِعَدَمِ الْعِلْمِ بِالْقَاتِلِ، وَإِمَّا خَشْیَۃَ تَزَایُدِ الْفَسَادِ وَالطُّغْیَانِ، وَکَانَتْ عَائِشَۃؓ وَطَلْحَۃؓ وَالزُّبَیْرؓ وَمُعَاوِیَۃؓ  رضی اللّٰہ عنہم وَمَنِ اتَّبَعَہُمْ مَا بَیْنَ مُجْتَہِدٍ وَمُقَلِّدٍ فِی جَوَازِ مُحَارِبَۃِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ سَیِّدِنَا أَبِی الْحَسَنَیْنِ، الْأَنْزَعِ الْبَطِینِ رِضْوَانُ اللَّہِ تعالی عَلَیْہِ۔

وَقَدِ اتَّفَقَ أَہْلُ الْحَقِّ أَنَّ الْمُصِیبَ فِی تِلْکَ الْحُرُوبِ وَالتَّنَازُعِ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ عَلِیٌّؓ مِنْ غَیْرِ شَکٍّ وَلَا تَدَافُعٍ، وَالْحَقُّ الَّذِی لَیْسَ عَنْہُ نُزُولٌ أَنَّہُمْ کُلُّہُمْ رِضْوَانُ اللَّہِ عَلَیْہِمْ عُدُولٌ، لِأَنَّہُمْ مُتَأَوِّلُونَ فِی تِلْکَ المخاصمات مُجْتَہِدُونَ فِی ہَاتِیکَ الْمُقَاتَلَاتِ، فَإِنَّہُ وَإِنْ کَانَ الْحَقُّ عَلَی الْمُعْتَمَدِ عِنْدَ أَہْلِ الْحَقِّ وَاحِدًا، فَالْمُخْطِیُٔ مَعَ بَذْلِ الْوُسْعِ وَعَدَمِ التَّقْصِیرِ مَأْجُورٌ لَا مَأْزُورٌ، وَسَبَبُ تِلْکَ الْحُرُوبِ اشْتِبَاہُ الْقَضَایَا، فَلِشِدَّۃِ اشْتِبَاہِہَا اخْتَلَفَ اجْتِہَادُہُمْ، وَصَارُوا ثَلَاثَۃَ أَقْسَامٍ: قِسْمٌ ظَہَرَ لَہُمُ اجْتِہَادًا أَنَّ الْحَقَّ فِی ہَذَا الطَّرَفِ، وَأَنَّ مُخَالِفَہُ بَاغٍ فَوَجَبَ عَلَیْہِ نُصْرَۃُ الْمُحِقِّ، وَقِتَالُ الْبَاغِی عَلَیْہِ فِیمَا اعْتَقَدُوہُ، فَفَعَلُوا ذَلِکَ، وَلَمْ یَکُنْ لِمَنْ ہَذَا صِفَتُہُ التَّأَخُّرُ عَنْ مُسَاعَدَۃِ الإِمَامِ الْعَادِلِ فِی قِتَالِ الْبُغَاۃِ فِی اعْتِقَادِ، وَقِسْمٌ عَکْسُہُ سَوَائً بِسَوَائٍ، وَقِسْمٌ ثَالِثٌ اشْتَبَہَتْ عَلَیْہِمُ الْقَضِیَّۃُ، فَلَمْ یَظْہَرْ لَہُمْ تَرْجِیحُ أَحَدِ الطَّرَفَیْنِ، فَاعْتَزَلُوا الْفَرِیقَیْنِ، وَکَانَ ہَذَا الِاعْتِزَالُ ہُوَ الْوَاجِبُ فِی حَقِّہِمْ، لِأَنَّہُ لَا یَحِلُّ الإِقْدَامُ عَلَی قِتَالِ مُسْلِمٍ حَتَّی یَظْہَرَ مَا یُوجِبُ ذَلِکَ، وَبِالْجُمْلَۃِ فَکُلُّہُمْ مَعْذُورُونَ وَمَأْجُورُونَ لَا مَأْزُورُونَ، وَلِہَذَا اتَّفَقَ أَہْلُ الْحَقِّ مِمَّنْ یُعْتَدُّ بِہِ فِی الإِجْمَاعِ عَلَی قَبُولِ شَہَادَاتِہِمْ وَرِوَایَاتِہِمْ، وَثُبُوتِ عَدَالَتِہِمْ، وَلِہَذَا کان عُلَمَائنَا کَغَیْرِہِمْ مِنْ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَمِنْہُمُ ابْنُ حَمْدَانَ فِی نِہَایَۃِ الْمُبْتَدِئِینَ یَجِبُ حُبُّ کُلِّ الصَّحَابَۃِ، وَالْکَفُّ عَمَّا جَرَی بَیْنَہُمْ کِتَابَۃً وَقِرَائَۃً وَإِقْرَائً وَسَمَاعًا وَتَسْمِیعًا، وَیَجِبُ ذِکْرُ مَحَاسِنِہِمْ وَالتَّرَضِّی عَنْہُمْ وَالْمَحَبَّۃُ لَہُمْ وَتَرْکُ التَّحَامُلِ عَلَیْہِمْ، وَاعْتِقَادُ الْعُذْرِ لَہُمْ، وَأَنَّہُمْ انما فَعَلُوا مَا فَعَلُوا بِاجْتِہَادٍ سَائِغٍ لَا یُوجِبُ کُفْرًا وَلَا فِسْقًا، بَلْ ورُبَّمَا یُثَابُونَ عَلَیْہِ، لِأَنَّہُ اجْتِہَادٌ سَائِغٌ، ثُمَّ قَالَ وَقِیلَ: الْمُصِیبُ عَلِیٌّؓ، وَمَنْ قَاتَلَہُ فَخَطَؤُہُ مَعْفُوٌّ عَنْہُ۔ وَإِنَّمَا نَہَی عَنِ الْخَوْضِ فِی النَّظْمِ (ای فی نظم العقیدۃ عن الخوض فی مشاجرات الصحابۃ) لِأَنَّ الإِمَامَ أَحْمَدَ کَانَ یُنْکِرُ عَلَی مَنْ خَاضَ وَیُسَلِّمُ أَحَادِیثَ الفَضائِل، وَقَدْ تَبَرَّأَ مِمَّنْ ضَلَّلَہُمْ أَوْ کَفَّرَہُمْ، وَقَالَ: السُّکُوتُ عَمَّا جَرَی بَیْنَہُمْ۔ (شرح عقائد سفارینی ص۳۸۶ ج۲)

            ترجمہ: اس لیے کہ جو نزاع وجدال اور دفاع وقتال صحابہؓ کے درمیان پیش آیا وہ اس اجتہاد کی بنا پر تھا جو فریقین کے سرداروں نے کیا تھا اور فریقین میں سے ہر ایک کا مقصد اچھا تھا، اگرچہ اس اجتہاد میںبرحق فریق ایک ہی ہے اور وہ حضرت علیؓ اور ان کے رفقا ہیں اور خطا پر وہ حضرات ہیں جنھوں نے حضرت علیؓ سے نزاع وعداوت کا معاملہ کیا؛ البتہ جو فریق خطا پر تھا، اسے بھی ایک اجر وثواب ملے گا، اس عیقدہ میں صرف اہل جفا وعناد ہی اختلاف کرتے ہیں، لہٰذا صحابہ کرامؓ کے درمیان مشاجرات کی جو صحیح روایات ہیں ان کی بھی اس میں تشریح کرنا واجب ہے جو ان حضرات سے گناہوں کے الزام کو دور کرنے والی ہو، لہٰذا حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ کے درمیان جو تلخ کلامی ہوئی وہ کسی کے لیے موجب عیب نہیں، نیز ابتداء میں حضرت علیؓ نے جو حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیںکی تھی، وہ دو باتوں میں سے کسی ایک وجہ سے تھی، یا تو اس لیے کہ ان سے مشورہ نہیں لیاگیا تھا، جیسا کہ خود انھوں نے اسی پر رنجیدگی کا اظہار فرمایا، یا پھر اس سے حضرت فاطمہؓ کی دلداری مقصود تھی جو یہ سمجھتی تھیں کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے جو حصہ مجھے ملنا چاہیے، وہ ملے پھر حضرت علیؓ نے بلاشبہ تمام لوگوں کے سامنے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی بات ایک ہوگئی اور مقصد حاصل ہوگیا۔

            اسی طرح حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کا قصاص لینے میںجو توقف سے کام لیا وہ یاتو اس بنا پر تھا کہ یقینی طور سے قاتل معلوم نہ ہوسکا یا اس لیے کہ فتنہ فساد میں اضافہ کا اندیشہ تھا اور حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت معاویہؓ اور ان کے متبعین نے حضرت علیؓ کے مقابلہ میں جنگ کرنے کو جوجائز سمجھا اس میں ان میں سے بعض حضرات مجتہد تھے اور بعض ان کی تقلید کرنے والے۔

            اور اس بات پر اہل حق کا اتفاق ہے کہ ان جنگوں میں حق بلاشبہ حضرت علیؓ کے ساتھ تھا اور وہ عقیدئہ برحق جس پرکوئی مصالحت نہیں ہوسکتی، یہ ہے کہ یہ تمام حضرات صحابہؓ عادل ہیں؛ اس لیے کہ ان تمام جنگوں میں انھوں نے تاویل اور اجتہاد سے کام لیا؛ اس لیے کہ اہل حق کے نزدیک اگرچہ حق ایک ہی ہوتا ہے؛ لیکن حق تک پہنچنے کے لیے پوری کوشش صرف کرنے اوراس میں کوتاہی نہ کرنے کے بعد کسی سے غلطی بھی ہوجائے تو وہ ماجور ہی ہوتا ہے، گناہ گار نہیں۔

            اور درحقیقت ان جنگوں کا سبب معاملات کا اشتباہ تھا، یہ اشتباہ اتنا شدید تھا کہ صحابہؓ کی اجتہادی آرا مختلف ہوگئیں اور وہ تین قسموں میں بٹ گئے، صحابہؓ کی ایک جماعت تو وہ تھی جس کے اجتہاد نے اسے اس نتیجہ تک پہنچایا کہ حق فلاں فریق کے ساتھ ہے اور اس کا مخالف باغی ہے، لہٰذا اس پر اپنے اجتہاد کے مطابق برحق فریق کی مدد کرنا اور باغی فریق سے لڑنا واجب ہے؛ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور ظاہر ہے کہ جس شخص کا حال یہ ہو اس کے لیے ہرگز مناسب نہیں تھا کہ وہ امام عادل وبرحق کی مدد اور باغیوں سے جنگ کے فریضے میں کوتاہی کرے۔ دوسری قسم اس کے برعکس ہے اور اس پر بھی تمام وہی باتیں صادق آتی ہیں جو پہلی قسم کے لیے بیان کی گئی ہیں، صحابہؓ کی ایک تیسری جماعت وہ تھی جس کے لیے کچھ فیصلہ کرنا مشکل تھا اور اس پر یہ واضح نہ ہوسکا کہ فریقین میں سے کس کو ترجیح دے یہ جماعت فریقین سے کنارہ کش رہی اور ان حضرات کے حق میں یہ کنارہ کشی ہی واجب تھی؛اس لیے کہ جب تک کوئی شرعی وجہ واضح نہ ہو، کسی مسلمان کے خلاف قتال کا اقدام حلال نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ تمام صحابہؓ معذور اورماجور ہیں، گناہ گار نہیں، یہی وجہ ہے کہ اہل حق کے تمام قابل ذکر علماء کا اس پر اجماع ہے کہ ان کی شہادتیں بھی قبول ہیں اور ان کی روایات بھی اور ان سب کے لیے عدالت ثابت ہے۔ اسی لیے ہمارے ملک کے علماء نے — اور ان کے علاوہ تمام اہل سنت نے — جن میں ابن حمدانؒ (نہایۃ المبتدئین) بھی داخل ہیں، فرمایا ہے کہ

            تمام صحابہؓ سے محبت رکھنا اور ان کے درمیان جو واقعات پیش آئے ان کو لکھنے، پڑھنے، پڑھانے، سننے اور سنانے سے پرہیز کرنا واجب ہے اور ان کی خوبیوں کا تذکرہ کرنا، ان سے رضامندی کا اظہار کرنا، ان سے محبت رکھنا، ان پر اعتراضات کی روش کو چھوڑنا، انھیں معذور سمجھنا اور یہ یقین رکھنا واجب ہے کہ انھوں نے جو کچھ کیا وہ ایسے جائز اجتہاد کی بنا پر کیا جس سے نہ کفر لازم آتا ہے نہ فسق ثابت ہوتا ہے؛ بلکہ بسا اوقات اس پر انھیں ثواب ہوگا اس لیے کہ یہ ان کا جائز اجتہاد تھا۔ پھر کہتے ہیں بعض حضرات نے کہا ہے کہ حق حضرت علیؓ کے ساتھ تھا اور جس نے ان سے قتال کیااس کی غلطی معاف کردی گئی ہے۔ اور الدرۃ المضیئہ کی نظم میں جو مشاجرات کے معاملہ میں غور وبحث سے منع کیاگیا ہے، وہ اس لیے کہ امام احمدؒ اس شخص پر نکیر فرمایا کرتے تھے جو اس بحث میں الجھتا ہو اور فضائل صحابہ میں جو  احادیث آئی ہیں، انھیں تسلیم فرماکر ان لوگوں سے برا ء ت کا اظہار کرتے تھے جو صحابہ کو گمراہ یا کافر کہتے ہیں اور کہتے تھے کہ (صحیح طریقہ) مشاجرات صحابہؓ میں سکوت اختیار کرنا ہے۔

            یہ مختصر مجموعہ ہے سلف وخلف،متقدمین ومتاخرین علماء امت کے عقائد واقوال کا جن میں تمام صحابہ کرام کے عدل وثقہ ہونے پر بھی اجماع واتفاق ہے اور اس پر بھی کہ ان کے درمیان پیش آنے والے مشاجرات میںخوض نہ کیا جائے یا سکوت اختیار کریں، یا پھر ان کی شان میں کوئی ایسی بات کہنے سے پرہیز کریں جس سے ان میں سے کسی کی تنقیص ہوتی ہو۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts