—از:  مجاہدِ اسلام حضرت مولانا شاہ اسمٰعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ—

            ابوبکر صدیق اور عمر فاروق اور عثمان اور علی اور طلحہ اور زبیر اور عبدالرحمن اور سعد اور سعید اور ابوعبیدہ اور ابوہریرہ اور انس اور بلال اور معاویہ اور سوا ان کے سب مہاجر مکہ اور انصارِ مدینہ کے اور جہاد کرنے والے حضرت کے ساتھ مل کر جو اُحد اور بدر اور حدیبیہ اور خیبر وغیرہ کی لڑائیوں میں حضرت کے شریک تھے بالعموم اور جس مسلمان نے حضرت سے ملاقات کی اور اسی ملاقات کے عقیدے پر وفات پائی وہ سب ہی اصحاب ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کہ ان کی ثنا اور صفت اور خوبیاں قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں۔

            ان سے محبت رکھنا اور ان کی راہ پر چلنا ایمان کی علامت اورنشانی ہے۔ پھر جو کوئی ان کو برا جانے یا ان کو نہ مانے تواس نے گویا قرآن وحدیث کا انکار کیا۔ اس کا ٹھکانہ دوزخ اور بی بی خدیجہ اور حفصہ اور عائشہ اور بی بی زینب اور بی ام سلمہ اور بی بی ام حبیبہ اور بی بی جویریہ اور بی بی میمونہ اور بی بی ریحانہ زید کی بیٹی اور بی بی ریحانہ شمعون کی بیٹی اور بی بی ماریہ قبطیہ وغیرہ حضرت کی بیبیاں اور فاطمہ زہرا اور رقیہ اور ام کلثوم حضرت کی بیٹیاں اور علی مرتضیٰ اور حضرت عثمان باحیا حضرت کے داماد اور ام کلثوم وغیرہ حضرت کی نواسیاں اور جس کو بیٹا کرکے پالا تھا حضرت نے اور اسامہ اور ان کا بیٹا وغیرہ اور ان کی اولاد یہ سب رضی اللہ عن کلہم اجمعین حضرت کے اہل بیت اور عترت میں داخل ہیں۔ ان کی محبت رکھنا اور ان کے راہ اور رویے کو اختیار نہ کرنا اسلام اورایمان کے نقصان میں ہے۔ اس واسطے کہ ان کی تعریف اور مدح خصوصاً اور عموماً قرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔

            جو شخص  معاذ اللہ ان کو بُرا جانے۔ اس نے گویا قرآن وحدیث کا انکار کیا۔ پھر اس کا سوائے دوزخ کے کہاں ٹھکانہ ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا مالک خالق ہے اس کی محبت رکھنا اور اس کے حکم پر چلنا فرض ہے اوراس کا حکم ہے کہ میرے محبوب رسول مقبول کی محبت رکھو اور اس کے کہنے پر چلو تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اطاعت فرض عین ہوئی۔

            سو قطع نظر اور دلیلوں سے جس کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہوگی تو وہی شخص اُن سے بھی محبت کرے گا جن سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت رکھی تھی اور یہ بے شک وشبہ یقینی بات ہے کہ جو مسلمان حضرت کے ساتھ رہتے تھے اور صلاح ومشوروں میں شریک ہوتے تھے، دین مسلمانی کا انھیں کی کوششوں سے جاری ہوا حضرت کے وقت میں اور بعد حضرت کے گویا وہ لوگ پیغمبر کی پیغمبری کے کام میں مددگار تھے۔

            اور جو شخص  حضرت کے گھر کے تھے، بیبیاں اور اولاد اورنواسے وغیرہ جن کا ذکر اوپر مذکور ہوا ان سب سے حضرت کو محبت تھی؛ بلکہ سارے مکہ اور مدینہ کے مسلمانوں سے؛ بلکہ بالکل ملک عرب سے محبت تھی تو جس کو حضرت سے محبت ہوگی وہ ان سب کی بھی محبت رکھے گا پھر ان اصحاب اور اہل بیت کی تعظیم کرے گا اور راہ اور رویہ ان کا اختیار کرے گا پھر جس قدر اس کو حضرت سے زیادہ محبت ہوگی اسی قدر ان سب سے بھی اس کو محبت زیادہ ہوگی۔

            اور جاننا چاہیے کہ حضرت کے اصحاب یا اہل بیت اگر بُرے ٹھہریں تو مسلمانی کا دین بھی جھوٹا ٹھہرے اس واسطے کہ قرآن اور حدیث مسلمانی کی بنیاد، انھیں کے واسطہ سے پچھلے لوگوں کو پہنچا۔ پھر اگر وہ بُرے تھے تو ان کی بتائی ہوئی قرآن وحدیث کا کیا اعتبار اور جب قرآن وحدیث بے اعتبار ہوگیا تو دین مسلمانی سب جھوٹ ٹھہرا۔ تو جو شخص ان کو بُرا جانے وہ گویا اپنے آپ کو مسلمان نہیں جانتا اور اپنے ایمان ہی سے انکار کرتا ہے؛ بلکہ دین اسلام کا انکار کرتا ہے۔

            اصحاب اور اہل بیت کی خوبیاں اور بزرگیاں قرآن وحدیث میں بہت مذکور ہیں۔ اس مقام پر کئی آیتیں اور حدیثیں مذکور ہوئی ہیں۔ سچے مسلمان کا عقیدہ درست کرنے کے واسطے اس قدر بھی کافی ہے۔ سننا چاہیے۔

            قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ: وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیِّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ المُنْکَرِ۔

            ترجمہ: فرمایا اللہ تعالیٰ نے یعنی سورئہ اعراف (۱۵۷)  میں کہ میری رحمت شامل ہے ہر چیز کو سو وہ لکھ دوںگا ان کو جوڈر رکھتے ہیں اور دیتے ہیں زکوٰۃ اور جو ہماری باتیں یقین کرتے ہیں جو تابع ہوتے ہیں اس رسول کے جونبی ہے امی جس کو پاتے ہیں اپنے پاس لکھا ہوا تورات اور انجیل میں بتاتا ہے ان کو نیک کام اور منع کرتاہے بُرے کاموں سے۔

            ف: یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چند میری رحمت سب چیز کو شامل ہے؛ مگر خاص کرکے ان لوگوں کے واسطے وہ رحمت لکھ دوں گا جو لوگ امّی نبیؐ پر یقین لائے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کی رفاقت کی کہ ہجرت میںان کا ساتھ دیا کہ مکہ سے گھر چھوڑ کر حضرت کے ساتھ مدینے کو گئے اور وہ لوگ جنھوںنے مدینہ میں پیغمبر کو جگہ دی اور مدد کی اورقرآن نورانی جو پیغمبر کے ساتھ نازل ہوا، اس کے تابع ہوئے اور اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور خدا کے حکم پر یقین کرتے ہیں اوراپنے نبی کا حال توریت اور انجیل میں دیکھ کر نبی پر ایمان لائے کہ وہ نبی ان کو نیک کام بتاتا ہے اور بُرے کاموں سے منع کرتا ہے اور پاک چیزیں حلال بتاتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کہتا ہے اور گناہوں کے بوجھان پرلدے ہوئے تھے اور باپ دادا کے رسوم کی پھانسیاں جو ان کے گلے میں تھیں، سو اتارتا ہے۔ سو وہ لوگ مراد کو پہنچے کہ جنتی ہوئے۔ پھر اب جو کوئی ان کو بُرا کہے اور ان پر طعن کرے تو گویا اللہ کی رحمت پر طعن کرتا ہے اوراس آیت کا منکر ہے۔

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts