—از:  حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ—

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضرات صحابہؓ ہی کی زندگی معیار ہوسکتی ہے؛ کیونکہ یہی وہ مقدس طبقہ ہے جس نے براہِ راست فیضانِ نبوت سے نور حاصل کیا اوراسی پر آفتابِ نبوت کی کرنیں بلاکسی حائل وحجاب کے پڑیں؛ اس لیے قدرتی طور پر جو ایمانی حرارت اور نورانی کیفیت ان میں آسکتی تھی وہ بعد والوں کو مسیر آنی  طبعاً ناممکن تھی؛ اس لیے قرآنِ حکیم نے من حیث الطبقہ اگر کسی پورے کے پورے طبقہ کی تقدیس کی ہے تو وہ صحابۂ کرامؓ ہی کا طبقہ ہے۔ اس نے انھیں مجموعی طور پر  رَاضِی مَرضِی اور رَاشِد ومُرْشَد  فرمایا، ان کے قلوب کو تقویٰ وطہارت سے جانچا پرکھا، بتلایا اور انھیں کے رکوع وسجود کے نورانی آثار کو جو اُن کی پیشانیوں پر بہ طور گواہ نمایاں تھے، ان کی عبودیت اورہمہ وقت سرنیاز خم کیے رہنے کی شہادت کے طور پر پیش فرمایا۔ اس لیے امت کا یہ اجماعی عقیدہ مسلسل اور متواتر چلا آرہا ہے کہ صحابہؓ کل کے کل عَدول اور متقن ہیں، ان کے قلوب نیات کے کھوٹ سے بَری ہیں اور ان کا اجماع شرعی حجت ہے، جس کا منکر دائرئہ اسلام سے خارج ہے؛ اس لیے بہرحال صحابہؓ ہی کے مقدس طبقہ کو بلا جھجک کہا جاسکتا ہے کہ وہ کمالاتِ نبوت کے آئینہ دار اور جمالاتِ رسالت کا مظہر اتم ہے۔ حضورؐ کے عاداتِ کریمہ، خصائل حمیدہ، شمائل فاضلہ، اخلاق عظیمہ اور شریعت کے تمام مسائل ودلائل اور حقائق و آداب کا علماً و عملاً سچا ترجمان ہے اوراس لیے ان کی راہ کا اتباع اک بے غل و غش اور مطمئن راستہ ہے، جو امت کو ہر گمراہی سے بچاسکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ:

            من کان مُسْتَنًّا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْمَاتَ فإن الحیّ لا تؤمنُ علیہ الفتنۃ أولٰٓئِک أصحابِ محمّد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانو أفضل ہٰذہ الأمۃ أبرہا قلوبا وأعمقہا علما وأقلہا تکلفًا اختارہم اللّٰہ لصحبۃ نبیہ ولإقامَۃ دینہ فاعرفوا لہم فضلہم واتّبعوہم علی أثرہم وتمسّکوا بما استطعتم من اخلاقہم وسیرہم فانّہم کانوا علی الہدی المستقیم (رواہ رزین، مشکوٰۃ، ص۳۲)

            ترجمہ: ’’جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے وہ ان کی راہ اختیار کر جو اس دنیا سے گذرچکے ہیں اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ ہیں جو اس اُمت کا سب سے افضل ترین طبقہ ہے قلوب ان کے پاک تھے علم ان کا گہرا تھا تکلف وتصنع ان میں کالعدم تھا اللہ نے انھیں اپنے نبی کی صحبت اور دین کے برپا کرنے کے لیے چن لیا تھا؛ اس لیے ان کی فضیلت وبرگزیدگی کو پہچانو ان کے نقش قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو؛ اس لیے کہ وہی ہدایت کے سیدھے راستے پر تھے‘‘۔

            اور یہ بھی ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام کی ذاتِ اقدس زندگی کے ہر شعبے کے ہر پہلو کی خبر کی جامع تھی اور ذات بابرکات کو حق تعالیٰ نے سارے ہی علمی وعملی کمالات کا منتہا اور آخری نقطئہ فیض بنایا تھا ممکن نہ تھا کہ اُمت کا ہر ہر طبقہ جس کی قابلیتیں اور علمی وعملی صلاحیتیں کم و بیش اور متفاوت اور ذہنی پروازیں الگ الگ تھیں کسی طبقہ پر علم کا، غلبہ کسی پر زہد کا، کسی پر تقویٰ وطہارت کا غلبہ، کسی پر افادہ وارشاد کا، کسی پر خلوت کا، تو کسی پر جلوت کی جلوہ آرائی کا پھر معاشرتی لائنوں میں کسی میں تجارت کا ذوق اور کسی میں صنعت وحرفت کا، کسی میں ملازمت کا شوق اور کسی میں دوسرے کاروبار کا۔ ضروری نہ تھا کہ ہر ہر طبقہ نبوت کے ہر ہر رُخ کو پورے پورے غلبہ اوریکسانیت کے ساتھ اپنی اپنی مخصوص زندگیوں کا جوہر بناسکے اور براہِ راست اس تک پہنچ سکے؛ اس لیے حق تعالیٰ ان مظاہر نبوت صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ہر ہر طبقہ کے افراد جمع فرمادیے تھے ان میںامیر بھی تھے اور غریب بھی، تاجر بھی تھے اور کاشتکار بھی، صنّاع بھی تھے اوراہل حرفہ بھی، مزدور بھی تھے اور سرمایہ دار بھی، قاضی ومفتی بھی تھے اور محکوم بھی، ملازمت پیشہ بھی تھے اوریکسوبھی، خلوت پسند بھی تھے اور جلوت دوست بھی، اربابِ اقتدار بھی تھے اور پبلک میں بھی، صف شکن بھی تھے اور نفس کش، خواص بھی تھے اور عوام بھی؛ غرض ہر درجہ اور ہر لائن کے لوگ اس مقدس طبقہ میں منجانب اللہ مہیا تھے؛ مگر قدر مشترک ان سب میں کمالِ دین کمالِ اخلاص، کمالِ تقویٰ، کمالِ اتباعِ سنت اور کمالِ محبت خدا  و رسول تھا جو رُوح کی طرح ان کے تمام عادات وافعال اور سارے ہی اخلاق وشمائل میں دوڑا ہوا تھا جس سے وہ ہر وقت سرشاراور اس کے عرفانی نشہ میں مست ومستغرق تھے۔ ان کی تجارت وملازمت، صنعت وحرفت، دولت وشوکت، امارت وغربت، عبادت وریاضت، جہاد ودعوت، دین ودیانت کے معیاری مقام سے ذرہ بھر بھی گری ہوئی یا ہٹی ہوئی نہ تھی اور بالفاظ دیگر اتباع واخلاص کی وجہ سے سرتاپا دین ہی دین تھی؛ اس لیے دین کے اتباع کے ساتھ دنیا کے جس طبقہ پر دین کا جو رنگ بھی غالب ہو اور وہ دیانت کے جس رنگ میں بھی اپنی زندگی گزارنا چاہے، اُسے صحابہؓ کی زندگی میں وہ نمونہ مل جائے گا جو اس دائرہ کی سنت نبوی سے مستنیر ہوگا اور اس کی پیروی کرکے ایک انسان جس شعبۂ زندگی میں بھی بڑھنا چاہے اتباعِ سنت کے دائرہ سے باہر نہ ہوگا۔ پس حق تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس جامع دین کے دریا کے جو مشرق ومغرب میں پھیلا ہوا ہے، گھاٹ ہزاروں بنادئیے جو ہر سَمت اور ہر گوشہ میں ہیں، ان کی سمتیں مختلف ہیں، رُخ الگ الگ ہیں؛ لیکن پانی ایک، اس کا ذائقہ ایک اوراس کی خوشبو واحد ہے۔اگر اس عالمی دریا کا ایک ہی گھاٹ اور ایک ہی مشرب (جائے آبِ نوش) ہوتا اور مشرق ومغرب کے لوگ پابند کیے جاتے کہ وہ اسی ایک گھاٹ پر پہنچ کر پانی پئیں اور جمع کریںتو اس عالمی اُمت کے لیے زندگی دوبھر اور وبالِ جان ہوجاتی؛ اس لیے حق تعالیٰ نے صحابہؓ کی زندگی کے اتنے ہی نمونے بنادئیے جتنے زندگی کے گوشے اور اللہ تک پہنچنے کے رُخ ہوسکتے ہیں؛ تاکہ اپنے اپنے ذوق کے مطابق ہر ہر اُمتی ان مختلف الجہات مشربوں اور رخوں سے اسلام کا آبِ حیات پیتا رہے اور اپنی روح کو سیراب کرتا رہے۔

            مبارک ہیں وہ لوگ جو صحابۂ کرامؓ کی زندگیوں پر چلیں اور ان زندگیوں کو پیش کرکے دنیا کو اس پر چلائیں کہ یہی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زریں نصیحت کی سچی پیروی اور کتاب وسنت کا صحیح اتباع ہے۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts