از: مولانایحییٰ نعمانی
ناظم: دار العلوم الصفہ، لکھنؤ
ترکی اپنی عظیم تاریخ اور جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے مسلم ممالک میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے، گذشتہ چند سالوں میں، ترکی نے تقریباً پون صدی کے مذہب بیزار جبریہ نظام کے بعد، خوشگوار تبدیلی کا ذائقہ چکھا ہے اور وہ بظاہر ایک ایسے راستہ پر گامزن ہوا ہے جس کا اہل ایمان کو انتظار تھا، موجودہ صدر رجب طیب اردوگان کے آنے کے بعد ان تبدیلیوں کی رفتار میں تیزی آئی ہے جس کے نتیجے میں ترکی اور اس کے حالات سنجیدہ غور وفکر کا موضوع بنتے جارہے ہیں، پیش نظر مضمون اسی قسم کے غور وفکر کا نتیجہ ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص مضمون کے ہر لفظ سے اتفاق کرے؛ لیکن موضوع کی دلچسپی اور مضمون کی سنجیدگی کے پیش نظر شائع کیا جارہا ہے۔ (مدیر)
ترکی کے انتخابات میں رجب طیب اردوغان صاحب کی واضح جیت پر عموما اسلامی حلقوں اور مسلم ممالک میں مسرت واطمینان کا اظہار کیا گیا۔ موجودہ حالات میںامت مسلمہ کے لیے یہ کوئی بڑی کامیابی اور فتح چاہے نہ ہو؛ لیکن بڑی خوشی کی بات ضرور ہے۔ ہم ہزیمت وادبارکے جس دور میں جی رہے ہیں، اس میںکسی اچھی خبر کے لیے مدتوں کان ترستے رہتے ہیں،جب ہر صبح، صبحِ الم اور ہر شام، شامِ غم ہے، تو کچھ عجب نہیں جو چھوٹی سی کامیابی امید کے چراغ روشن کرنے لگے یا بادِ نسیم کا ہلکا سا جھونکا سازِ دل کے تار چھیڑ دے اور بلبل نغمہ سنج ہو اٹھے ۔ مسلسل شکست وریخت اور بربادیوں کے ہجوم سے دل رنجور اور جسم چور ہیں۔ ہر کس وناکس مشق ستم کے لیے تیار ہے۔ دوسرے تو کیوں رحم کھاتے؟ اپنوں نے ہی ظلم واستبداد کی زنجیروں میں ملکوں اور قوموں کو کسا ہوا ہے۔ اور دشمنوں کی گودوں میں بیٹھ بیٹھ ہمارے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔ پھرکیوں نہ کسی ایسے کو دیکھ کے آنکھیں ٹھنڈی ہوں جو دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا ہے اور جہد للبقاء میں ثابت قدم وظفریاب ہے۔
صرف خوشی ومبارک باد دینے کے بجائے، آج کی مجلس میںہم اُس کامیابی کی اصل نوعیت جاننے اور اس سے اپنے لیے سبق ونمونہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جو ترکی کے عوام ، ’’جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی‘‘ اور بلا شبہ اس کے زبردست قائد اردوغان صاحب نے، ان کے پیشرو دین کے داعیوں اور سیاست اور سماج میں جد وجہد سے چمٹے رہنے والے اہل صبرو عزیمت اور اہل ایمان وحکمت مجاہدانِ ملتِ ترک نے حاصل کی ہے۔
یہ ایک بڑی چشم کشا وسبق آموز داستان ہے، اس میں عصر حاضر کے چیلنجز اور امت مسلمہ کی کمزور پوزیشن کے مطابق راہ عمل کی بہترین نشاندہی ہے۔ اس میں سبق ہے کہ ممکنہ مواقع چاہے کتنے چھوٹے اور حق وحریت کے حصول کے امکانات چاہے کتنے معمولی ہی کیوں نہ ہوں ان کو استعمال کرنا اور وہیں سے کام شروع کرنا ہی کامیابی اور ظلم واستبداد سے نجات کا واحد راستہ ہے۔ نہ امکانات کو چھوڑ دینا راستہ ہے اور نہ امکانات اور مواقع سے زیادہ کی کوششیں نتیجہ خیز طریقہ ہے۔ یہی دانائی وحکمت کا تقاضہ ہے اور یہی سنت رسول کی بصیرت۔
ترکی، ظالم عالمی طاقتوں کے منصوبہ اور پروجیکٹ کا مکمل نمونہ تھا۔ پہلے مالیاتی سازشوں سے اس کی معاشیات کی کمر توڑی گئی۔ اس کو اپنے دشمنوں کا دست نگر بنایا گیا۔ اس پرکمال اتاترک اور اس کی ’’اتحادو ترقی پارٹی‘‘ کے دونمہ یہودی اور منافق حکمراں مسلط کیے گئے۔ عام مسلم قوموں کی طرح دینی واخلاقی کمزوری کا شکار ترکی معاشرہ دوست ودشمن اور نفع ونقصان کی سمجھ کھو چکا تھا، اس کے پاس ان زبردست سازشوں کے مقابلے کی کوئی سبیل نہیں تھی۔ اصول واخلاق اور دین وملت کے بجائے وہ مادی ’’ترقی‘‘ اور نیشنلسٹ ’’اتحاد‘‘ کے سراب کے پیچھے بھاگ پڑا۔ پھر جو ہوا اس سے آپ واقف ہیں۔ پوری قوم کو غلام اور مرتد بنانے کا عمل تیزی سے کیا گیاا اور جبرو استبداد کے شکنجوں سے کام لیا جانا شروع ہوا۔ مسجدیں بند، اذانیں موقوف، دینی حلیہ جرم اور قرآن کی تعلیم ممنوع قرار دی گئی۔ ترکی زبان کے ریشے ریشے میں اسلامیت کا نم تھا، اپنی اسلامی جڑوں سے اس کو کاٹنے کے لیے بالجبر اس کا رسم الخط لاطینی کروایا گیا۔ مغرب نے اپنے لیے جمہوری نظام اور عوام کی آزادی کو جس قدر پسند کیا ہے، اس نے اس سے کہیں زیادہ اس کا اہتمام کیا ہے کہ مسلم ممالک میں کہیں بھی وہ پنپ نہ سکے۔ ترکی اس کا بھی ایک نمونہ تھا۔ اسلام دشمن اور منافق عناصر کو ملک کی تمام با اثر پوزیشنوں پر معین کیا گیا، خاص طور سے اس کا اہتمام کیا گیا کہ ملک میں ایک طاقت ور فوج ہو، وہ اسلام دشمن ہواور اس کے ہر بیج کو کچلنے کے لیے ہر دم مستعد رہے۔
دو نسلیں نہیں گزریں تھی کہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس جبری کفر کے تسلط سے ترکی تہذیبی طور پر مکمل مغربی ملک بن گیا، جس میں اسلامیت خاکستر کی چنگاری کی طرح تھی، مگر دبی اور چھُپی تھی۔ عوام شریعت کی پابندیوں سے آزاد اور مغربی طرزِ بود وماند کے عادی ہو گئے۔ اور اس بات کا حقیقی ڈر تھا کہ یہ صورت حال زیادہ دن باقی رہ گئی تو ملتِ ترک کا رشتہ اسلام سے بالکل ہی کٹ جائے گا۔
ان حالات میں ترکی کے مخلصان اسلام نے کام شروع کیا۔
(۱) انھوںنے دوسری اسلامی اقوام کے برخلاف اس نوشتۂ دیوار کو پڑھنے میں دیر نہیں لگائی کہ قوم عملا اسلام سے دور ہو چکی ہے۔ ایمان ویقین کے بجائے دین کے صرف رسمی مظاہر بچے ہیں، نظام تعلیم، ذرائع ابلاغ اور مغرب کے بین الاقوامی غلبے نے مسلمانوں کی اکثریت کو شدت سے متأثر کیا ہے۔ یہ وقت کسی ہمہ گیر مکمل اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انقلابی تحریکیں چلانے کا نہیں ہے۔بلکہ قوم کے ایمان کو بچانے کا ہے۔ اس لیے کہ جب آپ کی قوم کی اکثریت ایسے کسی انقلاب کو اپنے اوپر عملا نافذ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تو آپ کس بودگی پر ظلم وجبر کی قوتوں کا مقابلہ کریں گے۔ ہر مسلم ملک میں مغربی طرز کی آزاد زندگی اور لادینی فکر وخیال کے لوگ ہی معاشروں میں قیادت ورہنمائی کے مراکز پر قابض ہیں، خصوصا نوجوان نسل کا فکری قبلہ مکہ وحجاز کے بجائے کب کا لندن وپیرس بن چکا ہے۔ یونیورسٹیوں سے لے کر اخبارات تک ہر طرف انہی کی دعوت کا شور اور انہی کے کلچر کی تبلیغ ہے۔
(۲) انھوں نے ایک دوسری حقیقت کو بھی محسوس کیا اور سمجھ لیا۔ اگرچہ وہ عریاں سامنے کھڑی تھی مگر دوسرے لوگ اپنی جذباتیت اور رومانویت کی وجہ سے اسے دیکھنے سے منہ چراتے رہے۔ یعنی یہ کہ مسلم معاشرے اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ اخلاقی قوت دم توڑ چکی ہے۔ اتحاد پارہ پارہ ہے۔ نفاق ومکر اور ضمیر فروشی نے ان کو مغرب کی مضبوط اقوام، برق نما (Dynamic) ذہانتوں اور منظم حکومتوں سے دو بدو کشمکش کے لائق نہیں چھوڑا ہے۔ بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں نے اقتدار وحکومت کے تمام مراکز کو اندر سے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ حکمراں طبقہ یہاں تک کہ افواج تک ایجنٹوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسلامی ممالک میں کہیں سیاسی استحکام نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے طے کیا کہ یہ وقت زور آزمائی کا نہیں،قوم کی تعمیر نو کا ہے۔
لہٰذا انھوں نے سب سے پہلے اپنی کل توجہ قوم میں پھر سے اسلام پر یقین، اور اس سے محبت پیدا کرنے پر لگائی۔ اس طرز وطریق کے بانی ترکی کے مردِ مجاہدشیخ بدیع الزمان سعید نورسی تھے۔ انھوں نے اپنے حالات کے لحاظ کرتے ہوئے حکمراں طبقات کے ساتھ مزاحمت سے کلی پرہیز کیا۔ ان کو قید وبند اور جلا وطنی کی پے بہ پے صعوبتیں اٹھانی پڑیں، مگر انھوں نے اپنے رسائل اور تربیتی حلقوں کے ذریعے ایک خاموش دینی انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔ جوسیلاب کی طرح نہیں، مدھم پھوار اورشبنم کی طرح گل ولالہ کو سیراب کرتا رہا۔
مشہور نومسلم امریکی دانشور محترم مریم جمیلہ نے اب سے ۵۳ سال پہلے شیخ نورسی کی تحریک اور دوسری اسلامی تحریکوں کے مقابلے اس کی کامیابی کے راز کو بیان کیا تھا۔ایک امریکی جریدے کو لکھے گئے خط میں وہ لکھتی ہیں:
بدیع الزماں نورسی کی طاقت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ انھوں نے اپنی مشکلات اور مجبوریوں کو سمجھ لیا تھا، اور مسلمان جن حالات میں مبتلا ہیں ان کا حقیقت پسندانہ اندازہ کرلیا تھا، انھوں نے احیائے اسلام کے دوسرے مسلمان راہنماوں کی طرح اسلام کے عالمگیر سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کے شاندار منصوبے تیار نہیں کیے، جن پر عمل کرنے کا مستقبل قریب میں اس وقت تک کوئی امکان نہیں جب تک کہ نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی اکثریت اہل ایمان کو بے رحمی کے ساتھ کچلتی رہے گی، اور جب تک موجودہ سماجی خرابیاں، اجنبی اور ملحدانہ نظام تعلیم اور دیگر ذرائع ابلاغ، جن کے نقصاندہ اثرات سے والدین کو اپنے معصوم بچوں کو بچانا بھی ممکن نہیں، ختم نہ ہوجائیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آج ایک بھی ریاست ایسی نہیں جس کو اسلامی کہا جاسکے، کوئی قوم، کوئی گروہ، حتی کہ ایک خاندان بھی ایسا نہیں ہے جس کو پوری طرح مسلمان کہا جاسکے۔
جب مسلمان نوجوانوں کی اکثریت نے اسلام پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہو، اور مغربیت کو ذوق وشوق سے اور بغیر کسی تنقید کے اندھوں کی طرح قبول کررہے ہوں تو ایسی صورت میں متحدہ اسلامی دنیا، اسلامی بلاک، اور اسلامی اتحاد کی بات کرنا بے معنی ہے۔ بدیع الزماں صاحب کی صاحب بصیرت نگاہ نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ ایسے ماحول میں عملی سیاست میں حصہ لینا کار عبث اور بے نتیجہ ہوگا۔ وہ جانتے تھے کہ صرف سیاسی قوت حاصل کرلینے سے اسلام کا احیا نہیں ہوسکتا۔ وہ سمجھتے تھے کہ سیاسی انقلاب، اسلامی انقلاب کا راستہ نہیں ہے، کیوں کہ ایسے اسلامی انقلاب کو جوابی انقلاب کے ذریعہ ناکام بنایا جاسکتا ہے، اور اس کشمکش کا نتیجہ مزید تشدد اور جبر واستبداد ہوگا۔ لہٰذا:
انھوں نے دانشمندی سے کام لے کر ایک سخت، بے لچک تنظیم قائم کرنے سے احتراز کیا، کیوں کہ اس قسم کی تنظیم پر ایک صاحب اقتدار آمر آسانی سے پابندی لگاسکتا ہے، اس کے راہ نماوں کو قید کرسکتا ہے، اور ان کو پھانسی دے سکتا ہے۔ ایسی تنظیم کے دفتروں کو سر بمہر کیا جاسکتا ہے، اور اس کے لٹریچر کو ممنوع قرار دیا جاسکتا ہے، سعید نورسی نے اس کے برخلاف تبلیغ واشاعت اور اپنی کتابوں کے ذریعہ ہزاروں ترکوں کے دلوں میں ایمان کی جڑیں مضبوط کردیں۔ یہ ایسی تحریک تھی جس پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی تھی، اور ایک ظالم ترین استبداد بھی اس کی تعلیمات کو پھیلنے سے نہیں روک سکتا تھا۔
نورسی تحریک کا طریق کار ایک استبدادی نظام کے تحت، جو مسلمان ملکوں کا مقدر بن چکا ہے، زندگی گزارنے والے مختلف طبقوں کے لوگوں میں کام کرنے کے لیے انتہائی موزوں ہے، دوسرے ملکوں کی اسلامی تحریکوں کے برخلاف اس نے مخالفانہ ماحول میں پروان چڑھنے کی صلاحیت ثابت کردی ہے۔ اس دعوے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ آج ترکی میں جو کچھ اسلام باقی ہے بدیع الزماں سعید نورسی کی انتھک اور بے لوث جد وجہد کا نتیجہ ہے، انھوں نے اس بات کا احساس کرلیا تھا کہ جدید دور کے انسان کی سب سے بڑی ضرورت اس میں اخلاقی وروحانی بیداری پیدا کرنا ہے، اور یہ کہ نوجوانوں کو دوسری تمام چیزوں سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان کے انداز فکر کو مادہ پرستی سے روحانیت کی طرف موڑ دیا جائے، رسائل نور اسی مقصد کے لیے وقف ہیں، دوسری اسلامی تحریکوں کے مقابلے میں جن کو یا تو صاحب اقتدار لوگوں نے دبادیا یا وہ بے حرکت اور غیر موثر بن گئیں اس نورسی تحریک نے اللہ تعالی کی مدد سے محیر العقول کامیابی حاصل کی ہے‘‘
ماخوذ از: ترکی کا مرد مجاہد، از: ثروت صولت، مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی
اس تحریر کی خاص اہمیت یہ ہے کہ مریم جمیلہ صاحبہ جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کی تحریک سے بہت واقف اور ان کی قیادتوں سے بہت مربوط تھیں۔ جب کسی کوترکی کی اس تحریک ودعوت کی کامیابی کے معیار اور تاثیر کی قوت کا اندازہ نہیں تھا، مریم جمیلہ اس کو ایک زیادہ کامیاب، با اثر اور نتیجہ خیز نمونے کے طور پر دیکھ رہی تھیں۔
شیخ بدیع الزماں سعید نورسی کے طریق کار میں ’’شکوہِ ترک مانی‘‘ تو نہیں تھا، مگر، کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ’’ذہنِ ہندی‘‘ ضرور تھا۔ ترکی میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کا سلسلۂ تصوف(عموما حضرت شاہ غلام علی دہلویؒ کے واسطے سے) عام تھا، وہی گویا روحانی مرکز اور سرچشمہ تھا اور مکتوبات مجددیہ ہی (جو تجدید واحیاء دین کی حکمت سے معمور اور سلوک وارشاد کا پورا نصاب ہیں) دینی و روحانی فکرکی اساس تھے۔ رسائل نور ہمارے ان مشائخ کی حکمت سے بھرے پڑے ہیں۔
حضرت مجدد صاحبؒ کے دور میں بھی حکمراںاکبر بزور طاقت کفر مسلط کرنے پر آمادہ تھا۔ تفصیل کا موقعہ نہیں مگر مختصر یہ کہ ملک ارتداد کے خطرے سے دوچار تھا۔ کافری عزت مند اور مسلمانی ذلیل ہورہی تھی۔ حضرت مجدد صاحب نے نہ بادشاہ کی تکفیر کی۔ نہ بغاوت کے امکانات پائے۔ بس خاموش اور تاریخ کی ایک منفرد کوشش میں مشغول ہوگئے۔ ان کے مکتوبات نے وہ کام کیا جو لشکر نہیں کر سکتے۔ کچھ بعید نہیں کہ حضرتِ مجددؒ کے اسی نمونے کو سامنے رکھ کر شیخ بدیع الزماں نورسیؒ نے مکتوبات ورسائل ہی کو اپنا ذریعہ بنایا ہو۔ جن کی قلمی کاپیاں تیار کی جاتیں اور ملک میں پھیلائی جاتیںتھیں۔ اور انہی سے دین کے داعی اور ملت میں استقامت کے حاملین تیار کیے جاتے رہے۔
خیر! وقت گزرتا رہا اور دھیرے دھیرے ترکی ایک خاموش ذہنی انقلاب کی طرف بڑھتا رہا، جس کو دین دشمن فوج اور کمالی حکمراں بھی روک نہیں سکے۔ لیکن دینی سرگرمیوں پر پابندیاں برقرار رہیں۔ اہل دین اپنی کمزورپوزیشن سے واقف تھے۔وہ جانتے تھے کہ وہ یورپ کے دروازے پر ہیں۔بین الاقوامی طاقتیں ان کے معاملے میں شدید حساس ہیں۔ تاریخ نے ان کے ان خدشات کو یقین اورتجربے میں بدل دیاتھا۔ مگر وہ احتیاط کے ساتھ تعلیم وتربیت کا کام کرتے رہے۔
ان حالات میںاردوغان صاحب نے قوم کے سامنے ایک نیا سیاسی تجربہ رکھا۔ وہ جانتے ہیں کہ ترکی میں ایک بڑی تعداد آزاد خیال لبرلس کی ہے جو سیاست اور ملکی قوانین میں اسلام کو قبول کرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ اس کی تعلیم جس نظام ونصاب سے اورتربیت جس ماحول میں ہوئی ہے اس نے اس کی ذہنی ساخت ایسی بنا دی ہے کہ وہ خالص متشرّع قسم کی حکومت اورٹھیٹھ اسلامی نظام زندگی سے متنفر ہے۔ اور آج بھی اس نصاب ونظام اور میڈیا میں کوئی بڑی تبدیلی نا ممکن ہے۔ اس لیے ان کی جماعت نے اپنے دینی رجحانات کو قطعا نہ چھپاتے ہوئے بھی، صاف اعلان کیا کہ ان کا سیاسی ایجنڈا نہ اسلامی حکومت کا قیام ہے، نہ خلافت کا احیا، نہ پین اسلامزم کا نعرہ اور نہ جہاد وشہادت کی منزلیں۔ بلکہ وہ موجودہ ترکی کے سیکولر ڈھانچے اور دستور کے اندر رہتے ہوئے ایک ایسا ترکی قائم کرنا چاہتے ہیں، جہاں عدل وانصاف، معتدل معیشت، خوشحالی اور لازمی طورپر مذہبی آزادی ہو۔
انھوں نے اس مرحلے میں یہی حکمت عملی ضروری سمجھی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: وقت کے معروضی حالات، خصوصا بین الاقوامی طاقتوں کی سطوت وقوت، ان کا معاشی تسلط، اور داخلی نفوذ اور اپنی قوم کی ذہنی ومزاجی رجحانات اور اس کے متنوع طبقوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، جتنا ممکن ہو بس اتنا ہی کرنے کے منصوبے بنائے جائیں۔ اس طرح انھوں نے اپنی قوم کے ان طبقات کو بھی ساتھ میں لینے میں کامیابی حاصل کر لی جو ان سے متفق تو نہیں تھے، مگر استبداد وجبر کے حامی بھی نہیں تھے۔
دوسری طرف انھوں نے ایک مختصر مدت میں اپنے لائق وفائق رفقاء اور پارٹی کے کیڈر کے ذریعے ملک کو ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔ اقتصادی طور پر ترکی تیز ترین رفتار سے ترقی کر رہا ہے، اور اس کی یہ ترقی نچلی سطحوں پربھی اس طرح نظر آرہی ہے کہ ترکی میں بھلے ہی دنیا کے سرفہرست مال دار شہزادے اور تاجر خاندان نہ ہوں، لیکن نچلی سطح پر خوش حالی میں اضافے کو تمام بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے تسلیم کیا ہے۔ نظم ونسق مغربی ممالک کے معیار پر ہے۔ عوامی بہبود وفلاح اور صحت ورفاہ عامہ میں وہ بلا شبہ ہر مسلم ملک بلکہ تمام غیر ترقی یافتہ ممالک سے فائق ہے۔ اس وقت انقرہ میں یورپ کا سب سے بڑا عوامی ہسپتال زیر تعمیر ہے جس میں تقریبا ۴۰۰۰ بستروں کا انتظام ہوگا۔ تعلیم کے شعبے میں ترکش یونیورسٹیاں اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے یورپ کے طلبہ کے لیے بھی باعث کشش بن چکی ہیں۔ غرض ان لوگوں نے ثابت کیا کہ وہ محض اس لیے اقتدار نہیں چاہتے کہ وہ اسلام پسند ہیں اور اس لیے مسند اقتدار پر ان کے علاوہ کسی اور کی جگہ نہیں۔ بلکہ انھوں نے ثابت کیا کہ وہ ملک میں بہتر نظام، اور ترقی پذیر زندگی کی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ دوسروں سے زیادہ امین بھی ہیں اور کہیں فائق صلاحیتوں کے مالک بھی۔
اس طرح ترکی ایک ایسا ملک بن سکا جہاں اب اسلام پر عمل اور اس کی دعوت کا استقبال ہے۔ مسجدیں اور قرآنی حلقے آباد ہیں۔ داعیان دین کے لیے کھلے امکانات ہیں۔ عوام میں دینی رجحان بڑھ رہا ہے۔ سیاسی طور پر اس نے ایک بین الاقوامی وزن حاصل کیا ہے۔مشرق وسطیٰ میں وہ طاقت کا توازن پیدا کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ مسلم ممالک کے منافقانہ رویے کے درمیان اس کے حکمراں فلسطین کے مسئلے میںجرأت کے ساتھ علم حق بلند کرتے ہیں۔
اس حقیقت کو پاکستان کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بہت پہلے ہی اچھی طرح محسوس کیا اور ایک خطاب میں رجب طیب اردگان اور ان کی پارٹی کی حکمت عملی کی نہایت تعریف کرتے ہوئے فرمایا :
اس پارٹی نے اسلام کا نام نہیں لیا،اسلام کے نام کے نعرے نہیں لگائے ، جلسے جلوس اسلام کے نام پر نہیں کیے ، کام سارے اسلام کے کیے، سب سے پہلے تو انھوں نے یہ کیا کہ لوگوں کو ان کی زندگی میں سہولتیں پیدا کیں ، جو مصیبت آئی ہوئی تھیں معاشی تباہی و بربادی کی، بد نظمی پھیلی ہوئی تھی ، ترقی ملک کی رکی ہوئی تھی ، پسماندہ ملک بن گیا تھا اس نے اپنے شہروں کو ترقی دینا شروع کی ، لوگوں کو شہری سہولتیں فراہم کیں ، ۔۔۔۔ لوگ بہت خوش تھے ، اور بلدیاتی حکومتوں سے بہت خوش تھے ، سڑکیں بنا لی تھیں ، ہوٹل اچھے بنا لیے تھے، تفریح گاہیں بنا لی تھیں، اس میں مسجدوں کی تعمیر کا بھی کچھ کام کروالیا تھا۔۔۔۔۔ حکمت سے ، اس طریقے سے کام کیا، بلدیاتی انتخاب میں جب دیندارلوگوں کی حکومت کا یہ انداز لوگوں نے دیکھا تو جو مرکزی حکومت کے ملکی سطح پر انتخابات ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وہ لوگ جو دیندار لوگ تھے برسر اقتدار آگئے ،اور آج کل وہی برسر اقتدار ہیں ، ۔۔۔۔ صورت شکل سے کوئی نہیں پہچان سکتا کہ یہ عرب ہیں، ترکی ہیں یا انگریز ہیں ، داڑھی صاف ہے ، وہی کوٹ پتلون لباس ہے، لیکن کام وہ اللہ والوں کا کررہے ہیں ، وہاں کے لوگ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ یہ لوگ اعلیٰ درجہ کے ولی اللہ ہیں، صدر اور وزیر اعظم اور وزیر خارجہ دین کا کام کر رہے ہیں ۔
———————–
غور طلب نقطہ یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب تمام اسلامی ممالک میں دینی کوششیں کمزور پڑتی جارہی ہیں، حکومتوں کا نفاق اور اہل دین پر ظلم وستم بڑھتا جارہا ہے۔ترکی کیوں کر ایک مختلف منظر پیش کررہا ہے۔ یہی وہ قیمتی سبق ہے جس سے موجودہ مشکلات کے حل کی راہ نظر آتی ہے۔
(۱) اس کی سب سے پہلی اور بنیادی وجہ ان حضرات کا حقیقت پسندانہ نقطئہ نظر اور Practical Approach ہے۔ ان کے پیش نظر دو حقیقتیں رہی ہیں:
(الف) پہلی یہ کہ ترکی مکمل طور پر ایک آزاد ملک نہیں ہے، دیگر مسلم ممالک کی طرح اس میں مغربی ممالک کی ایجنسیوں کا نفوذ اور مضبوط پکڑ ہے، فوج اور مقتدرہ میں غیر اسلامی عناصر بہت طاقتور ہیں۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ اس وقت کا پہلا کام صرف اتنا ہے کہ ترکی میں آزادی، عدل، اور شفاف سیاسی نظام قائم ہو۔ ملک کو فوج کے تسلط سے آزاد کیا جائے۔ قومی ادارے مستحکم اور آزاد ہوں۔ اس کے بر خلاف معاصر مسلم تحریکوں نے امت مسلمہ کے انتشار اور مسلم ممالک کی ہمہ جہتی کمزوریوں کا اندازہ لگانے میں بہت غلطی کی ہے۔ ان کو اپنے ممالک میں مغربی ایجنسیوں کے نفوذ اور طاقت کو مد نظر رکھنا ہو گا۔ ہمارے علماء اور اہل دین کے لیے یہ بہت سبق آموز پہلو ہے۔ یہی ترکی جس میں ’’عدالت وترقی پارٹی‘‘ نے زبر دست کامیابی حاصل کی اور جو سالہا سال سے ایک مضبوط گہری سیاسی بنیاد رکھتی ہے، اسی ترکی کے’’ اندر سے کمزور‘‘ ہونے اور اس میں ’’دوسروں‘‘ کی طاقت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ فوج نے جب بغاوت کی تو پتہ چلا کہ آدھی فوج کسی اور کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی اور اس کی وفاداری پر یقین نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انقلاب تو آہی چکا تھا، بس ذرا سا بچ گیا۔ یہ تو ہمارے ممالک کی کمزوری کا حال ہے کہ آپ کی فوج ہی آپ کی نہیں۔ کیا ایسے ممالک کو آزاد کہا جاسکتا ہے؟ کیا کسی مغربی ملک میں اس کا تصور کیا جاسکتا ہے؟ اور جو آزاد نہ ہو وہ آزاد ہونے سے پہلے اگر آزادی برتنے لگتا ہے تو سزا بھی پاکر رہتا ہے۔ ’’ترکِ دانا‘‘ نے اس حقیقت کو تسلیم کر کے کام کی حکمت عملی بنائی ہے۔
حقیقت پسندی کے اس طرز کے علاوہ کوئی راستہ ہمارے لیے نہیں ہے، کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم ممالک اندر سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک کو آزاد سمجھنا پرلے درجے کی سادگی وناواقفی ہے۔ مغربی ایجنسیوں نے ہر ملک اور اس کے ہر ادارے میں پکڑ بنا رکھی ہے۔ ہمارے ملکوں کے تخت پلٹنا ، کرسیاں الٹنا، حکم رانوں کے قتل اور فوجی انقلابات ان کے لیے کوئی ناممکن کام نہیں ہیں۔ تو پھر مسلم ممالک کے لیے پہلا کام یہ ہے کہ وہ عوام کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر اور (Common Minimum Programme) بنا کر اپنے آپ کو آزاد اور مستحکم کریں۔پھر کچھ اور سوچیں۔ جب تک مسلم ممالک داخلی طور پر مستحکم اور ان کے ریاستی ادارے، مثلا فوج، عدلیہ، خفیہ ایجنسیاں، سیاسی جماعتیں اور پالیسی ساز ادارے مضبوط، آزاد اور دنیا کی بڑی طاقتوں اور خصوصا ان کی ایجنسیوں کے نفوذ سے محفوظ نہیں ہو جاتے یہ ممالک ( آج کی طرح) مسلسل شکست وریخت کے شکار رہیں گے، ان کے وسائل دوسروں کی قوت وشوکت میں اضافے کا ذریعہ بنتے رہیں گے اور اس وقت تک نہ ان ممالک میں آزادی آسکتی ہے نہ دینی جدوجہد کو سلامتی مل سکتی ہے۔ اس لیے کام کی فطری اور لازمی ترتیب یہی ہے کہ مسلم ممالک میں اہل دین تمام طبقات کو ساتھ لے کر پہلے اندرونی آزادی اور استحکام حاصل کریں۔ اس کے بعد حکومت وسیاست میں دینی رنگ شامل کرنے کے مرحلے کے بارے میں سوچیں۔ اس فطری ترتیب کو نظر انداز کرنا وہ مہلک غلطی ہے جس نے ہمارا بڑا خانہ خراب کیا ہے۔
(ب) ان حضرات نے دوسری یہ حقیقت سامنے رکھی کہ برسہا برس کی غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ خود ترک معاشرے میں (دیگر مسلم ممالک کی طرح) اسلام کے حوالے سے زبردست فکری انتشار ہے۔ مغربی طرز تعلیم نے اس کی بڑی تعداد کو مغربی تہذیب وطرز کا عاشق اور مادی افکار کا اسیر بنا دیا ہے۔ اس لیے اگر ہم نے ان طبقات کو جو، چاہے ایمانی واعتقادی خلل اور کمزوریوں کے شکار ہیں مگر، بہرحال مسلمان ہیں، نظر انداز کیا اور ملک میں اپنے فکر کے مطابق ہی چلنا چاہا تو ’’غیر‘‘ اور ’’دشمن‘‘ ان کو طبقوں کو ہمارے خلاف استعمال کرلے گا، اور ترکی اس داخلی کشمکش سے کبھی بھی آزاد نہیں ہوپائے گا۔
یہ عصر حاضر کے حالات کانہایت اہم پہلو ہے۔ جب مسلم ممالک میں زبردست فکری وذہنی انتشار ہے۔ مغربی استعمار اور پھر مغربی تعلیم نے خود ہمارے عوام کو دینی تحریکوں سے نفور کر رکھا ہے۔ وہ اگرچہ عقیدے کے مسلمان ہوں مگر عملی طور پر شرعی زندگی گزارنے کو تیار نہیں، ایسی صورت حال میں اہل دین جب سیاست کے مقابلوں میں دوسرے مسلمانوں کے حریف بن کر سامنے آتے ہیں اور کرسیِ اقتدار کو چھیننے کے لیے الیکشنی مقابلے ہوتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ دین کو بھی دیگر مسلم طبقات کا، خواہی مخواہی، حریف اور (معاذ اللہ) دشمن بنا دیتے ہیں۔ یہ کیسا خطرناک معاملہ ہے؟ دین کبھی اس پوزیشن کو قبول نہیں کرسکتا کہ اس کے داعی وحامل خود مسلمانوں کے حریف بن جائیں اور اقتدار کی دوڑ میں دیگر مسلم گروہوں سے مسابقت میں مبتلا ہوں۔کاش مسلم ممالک کے اہل دین اس پر غور کرتے۔ آپ دین کا نام لے کر اقتدار کی دوڑ میں دیگرمسلمان پارٹیوں اور طبقات سے مقابلہ کریں گے تو اُن پارٹیوں اور ان کے زیر اثر مسلمانوں کو اسلام سے دور اور اس کے داعیوں اور حاملوں کا مقابل ودشمن بنائیں گے۔اس سے بڑا اور کیا نقصان دین ودعوت کا ہو سکتا ہے؟
محترمان من! اقامت دین کا راستہ یہ نہیں ہے۔ راستہ یہ ہے کہ آپ قوم میں دین کو ایسا محبوب بنا دیں، اور عملی دین داری کی ایسی ہوا چلا دیں کہ تمام گروہ دین کی رعایت کرنا ضروری سمجھیں۔ اور اہل دین کی دینی کوششوں اور محنتوں میں تعاون کریں۔ اس طرح یقینا اللہ چاہے گا تو وہ وقت ضرور آئے گا جب پوری قوم مکمل اسلام کو گلے لگائے گی۔ اور اس کی شریعت کی بالادستی قائم ہونے میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
(۲) دوسرا ایک سبق یہ ہے، اور خصوصا ملت اسلامیۂ ہند کے لیے بھی: ہم دیکھ رہے ہیں کہ ترک معاشرے کی سیاسی ومعاشرتی قیادت دین سے ہمدردی اور عملی تعلق رکھنے والی ایک جدید تعلیم یافتہ نسل کے ہاتھ میں ہے۔ جس کا علماء ومشائخ سے تعلق ہے اور وہ بھی اس کی مثبت دینی صفات کی قدر افزائی کرتے ہیں۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ رسمی دینی حلقہ ہی سیاست وتمدن کے تمام شعبوں میں ملت کی نمائندگی کرتا نظر آئے۔
کیوں ایسا نہیں ہے کہ ہمارے سیاسی وتمدنی مسائل کے لیے عام مسلمانوں میں سے لوگ ایک نہایت شریفانہ تربیت پاکر سامنے آئیں، جن کا اہل دین سے حسن ظن اور دینی استفادے کا تعلق ہو۔ مگر وہ عام دین سے دور مسلمانوں اور غیر مسلم حلقوں میں رسائی اور پذیرائی رکھتے ہوں۔ ترکی کے مشائخ نے یہی کام کیا ہے۔
ہمارے یہاں جدید تعلیم یافتہ طبقے سے مسلمانوں کو جو قیادت ورہنمائی، ملّی مزاحمت میں رفاقت اور سرد وگرم حالات میں ہم سازی ملنی چاہیے، عموما نہیں ملتی۔ یہ ملت کی بڑی محرومی ہے کہ ہمارے جو لوگ جدید دنیا کے آلات ووسائل سے لیس اور اس کے مزاج ومذاق کے مطابق جد وجہد کی اہلیت رکھتے ہیں، ملت ان کی خدمات سے بڑی حد تک محروم ہے۔ علم جدید کے دائرے کے کچھ لوگ میدان میں آتے بھی ہیں تو پہلا کام دین کے مسلّمات میں کتر بیونت اور مشق اجتہاد فرمانے کا کرنے لگتے ہیں! کچھ محترم دانشوروں کی تعداد ضرور اس سے مستثنیٰ ہے، مگر عموما سب کام علماء اور دینی رہنمائی کے کام کے لوگوں کے ہی حصے میں آتا ہے۔ اس کے اسباب چاہے جو ہوں، مگر یہ صورت حال ہم کو کمزور ثابت کر رہی ہے۔ ملک میں قانونی ودستوری کوششیں ہوں یا غیر مسلم سماجی اور سیاسی گروہوں سے مکالمہ، یا مشترکہ مقاصد کے لیے ان کے ساتھ جدوجہد، سب کام علماء ہی کرتے ہیں۔یہاں تک کہ آخری درجے کی بات ہے کہ مسلمانوں میں عصری تعلیم کے فروغ کی کوششوں کا بیڑہ بھی اس طبقے نے ہی اٹھایا ہوا ہے۔ یہ بڑی نااہلی اور بے عملی کی بات ہے۔ موجودہ ملت ترک ہم کواپنی اس کمی کا شدت سے احساس دلاتی ہے۔کاش جلد یہ صورت حال تبدیل ہو۔
(۳) تیسری ایک نہایت اہم وجہ اور ہے۔ ترکی کی قوم ایک بہتر اخلاقی شعور ومعیار کی حامل ہے۔ وہاں قیادتوں کی سطح پر اس طرح ضمیر فروشی اور ذلیل کردار نہیں ہے جیسا دوسرے ممالک میں بار بار نظر آتا رہا ہے۔ دشمنوں کو ہر سازش کے لیے سیاسی قوتوں بلکہ دینی قیادتوں تک میں افراد مل جاتے ہیں۔ مصر میں ہزاروں نہتھے عوام کے خون سے رنگین جو انقلاب آیاجس نے جمہوریت کو قتل کیا اور آزادیوں کو دفن۔ اس کی پذیرائی کے لیے ازہر کا فتویٰ بھی تھا اور سلفی جماعت حزب النور کی تائید بھی۔ اور پھر بے شرمی کی حد کہ اسلامی دلائل کے ساتھ۔ یہ بے غیرتی! وہ بھی جبہ ودستار کے ساتھ؟؟
اس کے برخلاف ترکی کا حال ابھی نظر آیا ہے۔حالیہ انتخابات کے موقعے پر مغرب نے ہر کوشش ہی تو کر لی ہو گی کہ اردوغان نہ جیت پائیں۔ آخر انتخابات سے پہلے ہی بین الاقوامی میڈیا نے اندیشے ظاہر کرنے شروع کیے کہ انتخابات منصفانہ ہونا مشکل ہیں۔ کوشش تھی کہ کسی طرح پھر دخل اندازی کا موقعہ ملے۔ ہزاروں مبصرین کو بھیجا گیا، نتائج کے اعلانات کے بعد افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ الیکشن مشتبہ ہیں۔پروپیگنڈے کے ذریعے ملک میں بے اطمینانی پیدا کرنے اور ترکی میں تقسیم وتفریق کی آگ بھڑکانے کی سازش شروع ہوئی۔ اگر اپوزیشن ذرا ساتھ دے دیتی تو عوام کے دل میں شبہات پیدا ہوجاتے اور سازشوں کا کھیل شروع ہوجاتا ۔مگر حریف امیدوار محرم انچے صاحب سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو انھوں نے ایسی سازشوں کے پنپنے کا امکان ہی ختم کردیا۔ انھوں نے پوری اخلاقی جرأت سے جواب دیا:
’’اردوغان کو واضح اور مکمل اکثریت ملی ہے۔ ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگوں نے انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ اگرآپ اس کو نہیں قبول کریں گے تو کسے قبول کریں گے؟؟ اگر میں ان نتائج کو قبول نہ کروں اور سڑکوں پر احتجاج کروں تو یہ جمہوریت نہیں ہو گی، یہ اس کا مذاق ہوگا۔ کل اردوغان نے ایک بات کہی، مجھے بڑی اچھی لگی۔ انھوں نے کہا کہ ترکی میں ۸۰ فی صد ووٹ پڑے ہیں ۔ جن ممالک میں ۳۰ فی صد لوگ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں وہ ہمیں جمہوریت کا سبق نہ پڑہائیں‘‘۔ اردوغان سے بہت سی باتوں میں میرے اختلافات ہیں۔ مگر ان کا مطلب یہ نہیں کہ ترکی منقسم ہے۔ ہر گز نہیں! کوئی ہمیں تقسیم نہیں کر سکتا۔
یہ قوم کی مضبوطی کی علامتیں ہیں۔ ایسی ہی مضبوطی اس وقت نظر آئی جب فوج نے بغاوت کی تھی۔ کسی سیاسی طاقت نے اس کی تایید کر کے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ عوام اپنی آزادیوں اور حق وانصاف کے لیے پہاڑ بن گئے۔ مغربی ممالک کی اصل طاقت ان کے مقتدر طبقات کی یہی اصول پسندی اور حق شناسی میں ہم پر واضح فوقیت ہے۔ ہم کو مسلم معاشروں میں اصول پسندی، ایمان داری اور حق شناسی کی قدروں کو فروغ دیے بنا کسی کامیابی کا خواب دیکھنا چھوڑنا ہوگا۔ ہم ہندی مسلمانوں کے لیے بھی یہی سبق ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ملت پر کچھ گزر جائے، ہم کو ہر وقت اپنی تنظیموں اور اپنی شخصیت کے مفادات وامکانات ہی مقصود رہتے ہیں۔ اس چیز نے ہم کو غیروں کا حقیر کھلونا بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزی کے ساتھ دعا ہے کہ ہم کو اس بیماری سے محفوظ رکھے۔
————————–
جاننا چاہیے کہ ترکی سازشوں اور داخلی وبیرونی خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ اس لیے خصوصی طور پر اس کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ ذہن میں ترکی سے متعلق کچھ خدشات بھی ہیں، کچھ قابل اصلاح پہلو بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن جو اصل پیغام اور سبق حاصل کرنا تھا وہ ان کے تذکرے کے بغیر بھی مکمل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کاش ان سطروں کا جو عرصے کے غور وفکر کا نچوڑ ہیں دینی وملی حلقوں میں سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے اور ان میں اگر کچھ مفید چیزیں ہوں تو قبول کیا جائے۔
—————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 9، جلد:102، ذی الحجہ1439ھ- محرم 1440ھ مطابق ستمبر 2018ء
٭ ٭ ٭