از:  شایان احمد صدیقی

متعلّم تخصص فی علوم الحدیث، بنوری ٹائون کراچی

جلالت شان

            علامہ نیمویؒ نے صرف چوالیس سال کی عمر پائی۔ آپ نے پچیس سے زیادہ وقیع علمی یادگار چھوڑی ہیں۔ آپ کی تصنیف’’ آثار السنن‘‘ کو شہرت دوام حاصل ہے۔ تفسیر، حدیث، ادب، فقہ، طب ، شاعری کوئی ایسا علمی عنوان نہیں جس پر آپ کی تحقیقات نے اہل علم سے داد وصول نہ کی ہو اور امت آپ کے تبحر علمی پر اعتماد نہ کرتی ہو۔ آپ کے شیوخ اور اساتذہ سے لے کر ہم عصر حضرات اہل علم تک سب ہی نے آپ کی تحقیقات کو وقعت نظر سے دیکھا ہے اور داد تحسین پیش کی ہے۔ یہاں چند اہل علم کی رائے پیش کی جاتی ہے جس سے آپ کی جلالت شان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

            حضرت شاہ محمد عبد الحق مہاجر مکیؒ: علامہ نیمویؒ نے’’ آثار السنن‘‘ کے چند مطبوعہ اجزا حضرت مولانا شاہ عبد الحق الہ آبادی مہاجر مکیؒ کی خدمت میں دعا اور ان روایات کی اجازت سند کے لیے مکہ مکرمہ بھیجے تو حضرت مولانا شاہ عبدالحقؒ نے مسجد حرام میں ہاتھ اٹھا کر کتاب اور مؤلف کی مقبولیت کے لیے دعا فرمائی اور اپنی طرف سے تمام علوم وفنون اسناد تفسیر، حدیث فقہ اور تصوف واوراد کی تحریری سند بھی ارسال فرمائی۔

            حضرت شاہ عبد الحق نے اپنی تحریری اجازت میں علامہ نیمویؒ کے متعلق لکھا:

            ’’التمس منی الشیخ الفاضل السابق فی حلیۃ الفضائل الباذل فی تحصیل العلوم الشریعۃ الجہد المشمر فی اقتناصہا عن ساعد الجد مولانا العلامۃ الفہامۃ المحقق المدقق المولوی محمد ظہیر احسن ادام اللہ بقائہ وزاد کل یوم فی مصاعد الفضل ارتقائہ الإجازۃ فیما تجوز لی روایتہ وتصح لی درایتہ فاحببتہ لذلک‘‘(۷)

            شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ: شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے علامہ نیمویؒ کے متعلق ارشاد فرمایا:’’علامہ نیمویؒ علم حدیث میں اپنے استاد علامہ عبد الحی لکھنویؒ سے فائق ہیں‘‘(۸)۔

            حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ: حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ علامہ نیمویؒ کے ہم عصر ہیں۔ آپ نے علامہ نیموی کے علمی مقام کا اعتراف فرمایا ہے۔ علامہ کشمیریؒ نے مسئلہ رفع یدین پر اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’نیل الفرقدین‘‘ میں علامہ نیمویؒ کی تحقیقات کو قال الشیخ النیموی کہہ کر نقل فرمایا ہے۔

            حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ علامہ نیمویؒ کے علوم وتحقیقات سے بہت متاثر تھے۔ آپ نے علامہ نیموی کی شان میں عربی میں ایک لاجواب قصیدہ لکھا جو’’ آثار السنن‘‘ کے ساتھ مطبوعہ ہے۔ علامہ کشمیری کا یہ قصیدہ عربی ادب کا ایک شاہکار ہے۔اس کا کچھ حصہ مولانا عبد الرشید فوقانی نے القول الحسن میںبھی نقل کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

رویت وطبت نفسا فی ارتواء

وعدت فازدری ماء السماء

بحبی ذا المناقب والمعالی

شریف المجد غطریف العلاء

کریم الخلق محمود السبحایا

خلیقا للحامد والثناء

وحید العصر محسود الندید

سدید القول فی حسن الصفاء

رفیع القدر ذو القدر الرفیع

باعلال الروایۃ وانتقاء

ظہیر الحق مولانا الظہیر

اضاء الأرض فی نور اھتداء

ولا تستطیع انور مدح فضلہ

مرام ذاک فی غیر الرجاء

فمد لہ الإلٰہُ ظلیل ظل

وجازاہ بخیر من جزاء(۹)

            ترجمہ: (علامہ نیموی کے فیوضات سے ) میں سیراب ہو گیا اور جان سیرابی سے پاکیزہ ہو گئی، اور( اب ان کی مدح کا حق ادا کرنا) یوں گویا آسمان کے پانی (بارش) کی توہین کر رہا ہوں۔

            خوبیوں والے، اعلی مرتبے والے، بلند مرتبہ والوں کے سرداراور بلندیوں کے بڑے کی محبت کی وجہ سے۔

            وہ یکتائے زمانہ ہمسروں کے رشک، حسن وکمال میں صاف گو ہیں۔

            روایات کے نکات اور تحقیق میں نہ صرف بلند مرتبہ ہیں، بلند مرتبہ ہونے ہی کے لائق ہیں۔

            مولانا ظہیر الحسن حق کے مددگار ہیں، ان کی رہنمائی سے روئے زمین کو روشن کر دیا ہے۔

            ان کے مقام کی تعریف انور کے بس میں نہیں، (ان کی تعریف کرنا) حقیقت کے بجائے محض باتیں ہیں۔

            پس ان کے عظیم الشان فیض کو اللہ تعالی بڑھاتا  رہے، اور اپنے انعامات میں سے بہترین انعام سے انھیں نوازتا رہے۔

            حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒلکھتے ہیں: ’’حضرت استاذ (علامہ کشمیری) فن حدیث میں علامہ ممدوح (علامہ نیموی) کا مقام بہت بلند مانتے تھے اور معرفت علل واسانید میں ہندوستان کے کسی دوسرے عالم کو ان کا عدیل ومثیل نہیں قرار دیتے تھے۔ اس عاجز کو خوب یاد ہے یہاں تک فرماتے تھے کہ مولانا ظہیر احسن صاحب مولانا عبد الحئی صاحب (لکھنوی فرنگی محلّی) کے شاگرد ہیں لیکن صناعت حدیث میں ان سے بہت فائق ہیں‘‘(۱۰)۔

            شہزادہ مرزا زبیر الدین زبیرؔ: شہزادہ مرزا زبیر الدین زبیر بادشاہان مغلیہ کی اولاد سے ہیں۔ اپنے وقت کے مشہور صاحب دیوان شاعر تھے۔ شاعری میں علامہ نیموی سے اصلاح لیتے تھے۔ اپنے دیوان ’’چمنستان سخن‘‘ المعروف دیوان زبیر مطبوعہ ۱۳۱۶ھ؍۱۸۹۸ء میں علامہ نیموی ؒکے متعلق فرماتے ہیں:

جب سے شوق نیموی سے ہے تلمذ اے زبیر

پایہ کیسا بڑھ گیا تقریر کا تقدیر کا

زنگ آلودہ ہے گو جوہر میری شمشیر کا

پر نبیرہ خاص ہوں سلطان عالمگیر کا

حضرت شوق کا ہے فیض زبیر

تجھ میں ایسی جو خوش بیانی ہے

            نواب کلب علی خان بہادر مرحوم: نواب کلب علی خان بہادر والئی رامپور اہل علم کے قدردان تھے۔ جب فن لغت میں علامہ نیموی کی ازاحۃ الاغلاط دیکھی تو آپ کی علمیت اور فنی گرفت کی تعریف کی اور دربار رامپور میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دعوت دی اور خوش آمدید کہا۔

            مولانا حسرؔت موہانی اور دیگر شعراء : علامہ نیموی کی کتاب ’’ازاحۃ الاغلاط‘‘ کو اردو کے مشہور شاعر اور ادیب علامہ حسرؔت موہانی نے ۱۹۱۸ھ میں اردو پریس علی گڑھ سے شائع کیا۔ اردو، فارسی کے شعراء اور ادباء بھی آپ کے نیازمند تھے۔مولانا حسرؔت موہانی اور علامہ محمد اقبال مرحوم کے استاد داغؔ دہلوی مرحوم کے علامہ نیموی سے نیاز مندانہ تعلقات تھے  (۱۱)۔ 

            علم حدیث کی طرف میلان: ابتداء میں علامہ نیمویؒ پر ذوق شعر وادب کا غلبہ تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ادبی شغف کی نذر کر دیا تھا۔ غزل، قصائد اور مثنوی لکھ کر اس فن میں خوب نام کمایا۔’’ ازاحۃ الاغلاط، اصلاح، سرمہ تحقیق، ایضاح، نغمہ راز، سوز وگداز، یادگار وطن اور سیر بنگال‘‘ وغیرہ لکھ کر اساتذہ فن کی صف میں اپنی جگہ بنائی؛ لیکن مشیت ایزدی کچھ اور تھی، قسام ازل نے آپ کو اس کام کے لیے پیدا نہیں کیا تھا۔ قدرت کو ان سے بڑا کام لینا تھا؛اس لیے خواب میں حضور … کی زیارت ہوئی اور تعبیر کی صورت میں یہ بات ذہن نشین کرائی گئی کہ تم حدیث کی خدمت کرو گے، علامہ نیمویؒ نے ’’التعلیق الحسن‘‘ میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’انی رایت ذات لیلۃ فی المنام أنی أحمل فوق راسی جنازۃ النبی ﷺ فعبرت ھذہ الرویا الصالحۃ بأن أکون حاملا لعلمہ إن شاء اللہ العلام۔ثم شمرت عن ساق الجد واشتغلت بالحدیث حتی وفقنی اللہ لتالیف آثار السنن‘‘۔

            ’’میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ نبی … کا جنازہ اپنے سر پر اٹھائے ہوا ہوں، میں نے اس متبرک خواب کی تعبیر یہ نکالی کہ میں ان شاء اللہ علم حدیث کا حامل ہوں گا۔ پھر میں نے کمر کس لی اور حدیث میں مشغول ہو گیا۔ یہاں تک کہ خدا نے مجھے آثار السنن کی تالیف کی توفیق بخشی‘‘۔

            اسی طرح جیسے جیسے خواب میں حضور … کی زیارت ہوتی رہی آپ کا علم حدیث سے اشتغال بڑھتا گیا۔ اس کے علاوہ علامہ عبد الحئی لکھنویؒ جیسے محدث کی صحبت اور خاندانی ماحول نے اس شوق پر مہمیز کا کام کیا۔

             آثار السنن کی تالیف کا پس منظر: علامہ نیمویؒ کے دور میں تقلید اور عدم تقلید کے مابین ایک جنگ جاری تھی اور ہر سو اس بحث کے چرچے تھے۔ طرفین سے اس موضوع پر کتابیں لکھی جارہی تھیں۔ مناظروں کا بازار گرم تھا۔ عدم تقلید کے قائلین کی جانب سے دیگر دلائل کے ساتھ ساتھ حنفیت کو رائے اور قیاس پر مبنی گردانا جارہا تھا۔ خود علامہ کے استاد عبد الحئی لکھنویؒ اور نواب صدیق حسن خانؒ کے مابین تحریری مناظرے ہوے۔دوسری جانب احناف کے ذخیرئہ احادیث میں کوئی ایسی کتاب موجود نہیں تھی جو خالص محدثانہ رنگ میں ہوتے ہوئے بھی حنفی مسلک کی بھی مؤید ہوتی۔ محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ لکھتے ہیں:

            ’’ہندوستانی علمائے اسلام میں حنفی نقطہ نظر سے غالباً سب سے پہلے شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے ایک مجموعۂ احادیث ’’فتح المنان فی تائید مذہب النعمان‘‘ کے نام سے تالیف فرمایا۔ یہ مجموعہ تقریبا ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے؛ مگر وہ فقہی رنگ میں لکھی گئی ہے اور اس میں یہی رنگ نمایاں ہے۔ ہندوستان کے ایک اور عالم جن کا سکہ بلادِ اسلامیہ میں بیٹھا ہوا ہے سید مرتضی بلگرامی زبیدیؒ ہیں انھوں نے بھی اس نقطہ نظر سے ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’ عقود الجواہر المنیفۃ‘‘ ہے۔ اس میں فقہی مباحث نہیں ہیں؛ مگر اس کے ساتھ وہ جرح وتعدیل رواۃ اور نقد احادیث کے فنی مباحث سے بھی قریب قریب خالی ہے‘‘۔

            ان حالات میں اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ حدیث شریف میں کوئی ایسی کتاب مرتب کی جائے جس میں مختلف کتب حدیث سے ایسی روایات جمع کی جائیں جو فقہ حنفی کی موید ہوں؛ چنانچہ علامہ نیمویؒ نے’’ آثار السنن‘‘ کی تالیف کا کام شروع کیا اور جرح وتعدیل روات اور فنی مباحث سے یہ ثابت کر دیا کہ فقہ حنفی کی بنیاد محض قیاس اور رائے پر نہیں؛ بلکہ اس کی اساس قرآن وحدیث ہے۔ علامہ نیمویؒ اس صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے یوں گویا ہیں:

            ’’یہ تو ظاہر ہے کہ حدیث میں پہلے ’’بلوغ المرام‘‘ یا ’’مشکوۃ شریف‘‘ پڑھائی جاتی ہے اور ان کے مؤلف شافعی المذہب تھے۔ ان کتابوں میں زیادہ تر وہی حدیثیں ہیں جو مذہب امام شافعی کی مؤید اور مذہب حنفی کے خلاف ہیں۔ بیچارے طلبہ، یہ ابتدائی چیزیں پڑھ کر مذہب حنفی سے بد عقیدہ ہو جاتے ہیں۔ پھر جب صحاح ستہ کی نوبت آتی ہے تو ان کے خیالات اور بھی بدل جاتے ہیں۔ علمائے حنفیہ نے کوئی ایسی کتاب قابل ذکر تالیف ہی نہیں کی کہ جس میں مختلف کتب احادیث کی وہ حدیثیں ہوں جن سے مذہب حنفی کی تائید ہوتی ہے۔ آخر بیچارے طلبہ غیر مقلد نہ ہوں تو کیا ہوں۔ فقیر نے انھیں خیالات سے حدیث شریف میں’’ آثار السنن‘‘ نامی ایک کتاب تالیف کی ہے‘‘(۱۲)۔

            علامہ محمد یوسف بنوریؒ ’’الاتحاف لمذھب الاحناف‘‘ میں ان عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:

’’وکان رجال من مشتغلین بالحدیث نزعت منہم نزعۃ من الطعن فی أدلۃ مذھب فقیہ الأمۃ أبی حنیفۃ رحمہ اللہ بأنہا تخالف الأحادیث الصحیحۃ فاضطر إلی تألیف فی جمع روایات صحیحۃ توافو مذھب الإمام من مؤلفات خاصۃ فی الأحکام وسماہ آثار السنن‘‘(۱۳)۔

            ’’علم حدیث سے شغف رکھنے والے کچھ حضرات امام ابو حنیفہؒ پر طعن کرنے لگے کہ یہ صحیح احادیث کے مخالف ہیں، تو ان کو (حضرت نیموی) ان روایات صحیحہ کے جمع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی جو خاص طور پر احکام میں امام کے مذہب کے موافق ہوں۔ انھوں نے اس تالیف کا نام آثار السنن رکھا‘‘۔

             ذخیرہ کتب حدیث: اس عظیم الشان کتاب کی تالیف کے لیے کتب حدیث، کتب اسماء الرجال اور کتب فقہ کے ایک بڑے ذخیرہ کی ضرورت تھی جسے مآخذ اور مراجع کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ اس لیے علامہ نیمویؒ نے اس کتاب کی تالیف سے پہلے کتابوں کی فراہمی کاکام شروع کیا۔ کتابوں کی فراہمی دقت طلب عمل تھا، اس کے لیے موصوف نے زر کثیر صرف کیے، ہندوستان کے اسفار کیے، اخبارات کے ذریعے منادی کروائی کہ کسی صاحب کے پاس حدیث کا کوئی نایاب قلمی نسخہ ہو تو اس سے مطلع فرمائیں۔ اس تمام تر جد وجہد کا یہ نتیجہ نکلا کہ آپ کے ذاتی کتب خانہ میں حدیث، اصول حدیث، نقد حدیث، فقہ، اصول فقہ اور اسماء الرجال کی اہم کتابیں جمع ہوگئیں۔ اس کے علاوہ چند ایسی قلمی کتابیں بھی ہاتھ آگئیں جو ہندوستان کیا عرب میں بھی کمیاب تھیں اور ان کے دیکھنے کواہل علم کی آنکھیں ترستی تھیں(۱۴)۔

            اس مساعی جمیلہ کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ آپ کی رسائی ان کتب خانوں تک ہو گئی جہاں نادر ونایاب کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا؛چنانچہ جب مشہور عالم شیخ سعید بنارسی نے آپ کی تصنیف ’’حبل المتین‘‘ کے حوالہ جات پر اعتراضات کیے اور دریافت کیا کہ آپ نے اپنی کتاب میں ’’معجم کبیر‘‘، ’’مسند راہویہ‘‘، اور ’’مسند حمیدی‘‘ کے جو حوالے دیے ہیں وہ آخر کہاں موجود ہیں تو آپ نے انہیں لکھا:

            ’’ پنجاب کے شہر بھاولپور میں جناب شمس الدین مرحوم کا نامی کتب خانہ ہے۔ انھیں کے کتب خانے میں معجم کبیر بخط ولایت موجود ہے۔ ہندوستان میں ایک نہیں مسند حمیدی کے تین نسخے ہیں۔ ایک نسخہ مکرمی جناب مولانا مولوی محمد سعید صاحب مفتی عدالت عالیہ حیدر آباد کے کتب خانہ میں ہے۔ دوسرا نسخہ میرے مکرم دوست جناب مولوی شیخ احمد مکی جن کا اکثر قیام بھوپال میں رہتا ہے ان کے پاس ہے؛ مگر یہ نسخہ پورا نہیں ناقص ہے۔ تیسرا نسخہ شفیقی مولوی عبد الحق صاحب ساکن کرنول ضلع مدراس کے پاس ہے۔ میں نے وہ حدیث اسی کرنول کے نسخے سے نقل کی ہے۔ اس میں بعینہ وہ روایت موجود ہے۔ مسند راہویہ کا اگر آپ کو پتہ نہیں تو مجھ سے سنیے کہ قاہرہ کے کتب خانہ میں یہ کتاب موجود ہے‘‘(۱۵)۔

            آخر میں تحدیث نعمت کے طور پر لکھتے ہیں:

            ’’اللہ کے فضل وکرم سے ایسے ایسے نامی کتب خانوں کی اطلاع رکھتا ہوں کہ بڑے بڑے شائقین حدیث کو جن کی خبر تک نہیں اور بے شک میرے لیے بڑا فخر ہے کہ ایسی ایسی نایاب کتابیں نظر سے گذریں ہیں کہ جن کو دیکھنے کو لوگوں کی آنکھیں ترستی رہتی ہیں‘‘(۱۶)۔

            آغاز تالیف اور طباعت:علامہ نیمویؒ نے آثار السنن کی تالیف کا آغاز ۱۳۰۶ھ سے کچھ قبل کیا اور مشاغل کی کثرت، نایاب کتابوں کی فراہمی میں دقت اور علائق زمانہ کے باوجود ۱۳۱۳ھ میں کتاب الصلوۃ تک مکمل کر دیا۔ صاحبزادہ مولانا عبد الرشید فوقانی ’’القول الحسن‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’إن النیموي قد شرع في کتابہ آثار السنن فی السنۃ السادسۃ بعد الألف وثلاث مأۃ من الھجرۃ النبویۃ، بل من قبیلھا وفرغ من تحریر اٰخر أبواب الصلاۃ من ذلک الکتاب فی الثالثۃ عشر بعد الألف وثلث مأۃ‘‘۔

            ’’ علامہ نیمویؒ نے اپنی کتاب آثار السنن کی تالیف کا کام ۱۳۰۶ھ سے کچھ قبل شروع کیا اور ابواب الصلوۃ کی تکمیل سے ۱۳۱۳ھ میں فراغت پائی‘‘۔

            اگرچہ کتاب الصلوٰۃ تک تالیف کا کام ۱۳۱۳ھ میں مکمل ہو گیا تھا؛ لیکن اس کی طباعت کا شرف پہلی بار ۱۳۲۱ھ میں احسن المطابع عظیم آباد کو حاصل ہوا۔ مولوی عبد القادر صاحب مالک مکتبہ نے مصنف کی نگرانی میں عابد حسین صاحب سے جلی اور شاندار کتابت کراکے شائع کرایا تھا۔ اس کی قیمت صرف ایک روپیہ علاوہ محصول ڈاک رکھی گئی تھی؛ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طباعت کے اخراجات بہت حد تک خود مصنف کو برداشت کرنے پڑے اور اتنی رقم نہیں تھی کہ مکمل کتاب الصلوۃ یکبارگی شائع کرائی جاسکے؛ اس لیے علامہ نیمویؒ نے اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ اس بارے میں آپ خود لکھتے ہیں:

            ’’ بیشتر مؤلف کا قصد تھا کہ پوری کتاب جلد اول کتاب الصلوٰۃ تک چھپوا کر شائع کی جائے مگر بوجہ کثرت مخارج وقلت مداخل زیور طبع کا پورا بندوبست نہ ہو سکا، بعض بعض حضرات خیر اندیشان مذہب نے اس کے طبع میں مالی اعانت بھی فرمائی ہے؛ مگر وہ رقم چند اجزا کے لیے کافی تھی اور اس ضخیم کتاب کے چھپوانے میں زر کثیر درکار ہے؛ اس لیے مؤلف کا قصد ناتمام ہی رہااور ادھر علمائے زمانہ نے اپنا بے حد اشتیاق ظاہر فرما کر سخت تقاضا شروع کیا، چاروناچار جلد اول کے دو حصے کر کے اول جس میں اکثر ابواب الصلوۃ اور معرکۃ الآراء مباحث درج ہیں، شائع کیا جاتا ہے ‘‘۔

            اس کتاب کی تصحیح اور پروف ریڈنگ کا کام بھی علامہ نیمویؒ نے انجام دیا اور ۱۴۵ اغلاط کی فہرست مرتب کر کے اسے کتاب سے منسلک کروایا۔

            جزاول کی طباعت کے بعد کافی دنوں تک جز ثانی کی طباعت کی نوبت نہیں آسکی۔ تاخیر کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے خود آپ رقم طراز ہیں:

            ’’ دوسرے حصے کے اشتیاق میں برابر خطوط آتے رہے؛ مگر اس کی اشاعت میں حد سے زیادہ تاخیر ہوئی۔ سبب یہ کہ مؤلف امسال مختلف امراض میں بہت بیمار رہا۔ حصہ اول کے جس قدر نسخے فروخت ہوئے ان کی قیمت معالجہ اور ذاتی اخراجات میں صرف ہوتی گئی اور کوئی دوسرا سامان اس کے طبع کا نہ ہو سکا۔ سن گذشتہ میں رئیس ڈھاکہ نے اس کے چھپوا دینے کا وعدہ کیا تھا؛ مگر ایفائے وعدہ کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔ غرضے کہ مہینوں میں یہ حصہ عدم سامان زیور طبع کی وجہ سے اور مؤلف کی علالت کے سبب سے پڑا رہا، آخر تحریک بعض اہل فضل وعمائد ارباب دین، حضرات دربھنگہ نے چندہ کر کے اس کے طبع کامل کی اعانت فرمائی، جن کی ہمتِ عالیہ کی وجہ سے آج یہ دوسرا حصہ بھی بفضلہ تعالی چھپ کر نظر افروزِ عالم ہوتا ہے‘‘۔

            یہ دوسرا حصہ بھی احسن المطابع نے چھاپا تھا، جس میں مصنف نے اکانوے غلطیوں کی فہرست الگ سے لگوائی تھی، اس حصہ میں علامہ نیمویؒ کی ان تحقیقات کو بھی داخل کردیا گیا تھا جو حصہ اول کی طباعت کے بعد مصنف نے کی تھیں، وہ اغلاط بھی چھوٹے چھوٹے پرزوں میں جگہ جگہ رکھ دیئے گئے جن کا علم مصنف کو طباعت کے بعد ہوا۔

            گو یہ ایڈیشن اغلاط سے پاک نہیں؛ لیکن پھر بھی غنیمت ہے۔ اس کے اخیر میں علامہ کشمیریؒ کے دو قصیدے بھی شامل ہیں جو انھوں نے علامہ نیمویؒ کی شان میں کہے تھے۔

            قبول عام:’’آثار السنن‘‘ جب زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئی تو علمائے کرام نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنی تصنیفات اور تالیفات میں اس کے اقتباسات کو قول فیصل کے طور پر نقل کرنے لگے۔ حضرت شاہ عبد الحق مہاجر مکیؒ کو علامہ نیمویؒ نے جب اس کتاب کا نسخہ بھیجا تو آپ بہت مسرور ہوئے اور اجتماعی دعا فرمائی۔

            قسطنطنیہ کے مشہور حنفی عالم محمد زاہد کوثریؒ نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’قد الف کتابہ آثار السنن فی جزئیین لطیفتین وجمع فیھما الأحادیث المتعلقۃ بالطہارۃ والصلاۃ علی اختلاف مذاھب الفقہاء وتکلم علی کل حدیث منہا جرحا وتعدیلا علی طریقۃ المحدثین وأجاد فیما عمل کل الإجادۃ‘‘(۱۷)۔

            ’’انھوں نے اپنی کتاب آثار السنن کو دو حصوں میں تالیف کیا اور اختلاف مذاہب فقہاء کے ساتھ طہارت اور صلوۃ سے متعلق احادیث کو اس میں جمع کیا اور تمام احادیث پر محدثانہ طرز پر جرح وتعدیل کی اور خوب کی‘‘۔

            مولانا سید حکیم عبد الحئی ’’نزہۃ الخواطر ‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:

’’واشتغل بقرض الشعر مدۃ طویلۃ ثم وفق اللہ سبحانہ لخدمۃ الحدیث الزریف فشمر عن ساق الجد واشتغل بالحدیث وصنف آثار السنن وھو کتاب نادر غریب‘‘۔

            ’’ وہ مدت دراز تک شاعری میں مشغول رہے، پھر اللہ تعالی نے حدیث شریف کی خدمت کی توفیق بخشی تو کمر ہمت کس لیا اور حدیث میں مشغول ہو گئے اور آثار السنن کی تصنیف کی۔ یہ ایک عجیب وغریب کتاب ہے‘‘۔

            محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ نے اس کتاب کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

            خالص محدثانہ رنگ میں حنفی نقطۂ نظر سے ہندوستان میں جو پہلی کتاب لکھی گئی، جہاں تک مجھے معلوم ہے’’ آثار السنن‘‘ ہے۔ میری نگاہ میں اس کتاب کی بہت قدر وقیمت ہے اور مولانا ظہیر احسن شوقؔ کا تصنیفی شاہکار ہے‘‘۔

            ’’ حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ اپنی تمام تر عبقریت کے باوجود اس کتاب سے بہت متاثر ہوئے اور اس پر حاشیہ بنام ’’الاتحاف لمذہب الاحناف‘‘ لکھا جس کا مفصل تذکرہ ایک مستقل عنوان کے تحت آگے آئے گا۔

            اس کے علاوہ حضرت کشمیری کا معمول یہ بھی تھا کہ جو طلباء دیوبند اور ڈابھیل سے فارغ ہو کر نکلتے تو آپ وصیت فرماتے کہ ہر ایک کے پاس یہ کتاب ہونی چاہیے۔ تمام کتب رجال پر ’’آثارالسنن‘‘ کو ترجیح دیتے اور فرماتے ’’ حضرت نیمویؒ کی تحقیق کی داد ہے‘‘۔

            مولانا محمد نذیر حسین محدث دہلویؒ فرمایا کرتے تھے:

’’إن الأخ النیموی حقق فی بحث الجھر بالتامین ما لم یتحقق أحد من المتقدمین‘‘ ۔

            ’’ بھائی نیموی نے آمین بالجہر کی تحقیق اس انداز پر کی ہے جس انداز پر متقدمین میں سے کسی نے نہیں کی‘‘۔

            مولانا ابو الحسن ندویؒ نے فرمایا:

’’تلقی کتابہ آثار السنن بالقبول وعنی بہ علماء ھذا الشان‘‘ ۔

            ’’ ان کی کتاب آثار السنن مقبول عام ہوئی اور علماء نے اس کی طرف بڑی توجہ دی‘‘۔

            ایک دوسری جگہ یوں رقم طراز ہیں:

            ’’ مولانا ظہیر احسن شوق نیمویؒ کی کتاب’’ آثار السنن‘‘ محدثانہ نقد ونظر اور مذہب حنفی کی تائید میں ایک بلند پایہ تصنیف اور ہندوستان کی فن حدیث کی تصنیفات میں ایک وقیع اور جدید اضافہ ہے‘‘۔

(باقی آئندہ)

٭        ٭        ٭

حواشی

            (۷)  القول الحسن، ص: ۱۵۲۔             (۸)  القول الحسن، ص: ۱۵۰۔ (۹)  آثار السنن، ص: ۱۲۹،۱۳۰، احسن المطابع، عظیم آباد۔

            (۱۰)  تقدس انور، ص: ۳۱۰۔              (۱۱)  التحقیق الحسن، ص: ۱۷۔ (۱۲)  ظہیر احسن النیموی، حیاتہ آثارہ فی الحدیث، ص: ۱۸۴۔

            (۱۳)  مقدمہ اتحاف لمذہب الاحناف للشیخ البنوری۔                                               (۱۴)      القول الحسن، ص: ۱۲۔

            (۱۵)      رد السکین، بحوالہ انوار مدینہ لاہور، جمادی الثانی ۱۴۱۶ھ۔                            (۱۶)      رد السکین۔

            (۱۷)      مقالات الکوثری، ص: ۷۳۔

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 9،  جلد:102‏،  ذی الحجہ1439ھ- محرم 1440ھ مطابق ستمبر 2018ء

٭           ٭           ٭

Related Posts