اعلامیہ کل ہند اجلاس مجلس عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

منعقدہ ۲۳/جمادی الثانیہ ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۲/مارچ ۲۰۱۸ء

بہ مقام: دار العلوم دیوبند

================================

            رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اہم اجلاس، مدارس کے بارے میں حکومت کی منفی پالیسیوں اور اسلام دشمن عناصر کے مخالفانہ پروپیگنڈے کی جانب ذمہ دارانِ مدارس کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے، جس کا سلسلہ یوں تو عرصہ دراز سے جاری ہے؛ لیکن حالیہ عرصے میں اسی ذہنیت کے برسراقتدار آجانے کی وجہ سے مدارس کے لیے اندیشوں میں اضافہ ہوگیا ہے، مدارس اور اُن سے وابستہ سادہ لوح طلباء وعلماء کے طبقے پر دہشت گردی کا الزام لگانے کا سلسلہ تو مدتوں سے جاری ہے، اب اس سے آگے بڑھ کر متعدد صوبائی حکومتوں کی جانب سے مدارس کو بعض مشرکانہ گیتوں یا شرک سے متاثرہ رسوم کی تکمیل کا پابند بنانے کی کوشش کی گئی ہے بعض حکومتوں کی جانب سے امداد یافتہ مدارس کو جمعہ کے بجائے اتوار کے دن چھٹی کرنے یا جمعہ کی نماز کا وقفہ محدود کرنے کا آرڈر دیاگیا اور مدرسہ کا نظام الاوقات مدارس کے عام ماحول سے ہٹ کر اسکولوں کے طرز پر کرنے کا پابند بنایاگیا۔ بعض صوبوں میں نصاب تعلیم میں مداخلت کا راستہ بھی کھول دیا گیا۔

            یہ اور اسی قسم کے بہت سے منفی اقدامات نے مدارس کے تحفظ اور ان کے آزادانہ کردار کی بقاء کے مسئلے کو سنگین بنادیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ اجلاس پہلے تو مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران سے گذارش کرتا ہے کہ وہ پوری بیدار مغزی کے ساتھ اس صورت حال کو محسوس کریں اور اس سلسلے میں کم از کم درج ذیل امور پر توجہ دیں:

            (۱) مدارس کو قانونی پہلو سے مضبوط بنائیں، مدرسہ کی جائیداد کے کاغذات درست رکھیں، رجسٹریشن سے غافل نہ ہوں اور کوئی ایسا رخنہ نہ چھوڑیں جہاں سے کسی سرکاری ایجنسی کو مداخلت کا موقع ملے۔

            (۲) داخلی نظام کو بہتر سے بہتر بنائیں، شورائی نظام کو مستحکم کریں، مالیات کا نظم شفاف رکھا جائے، حسابات کو آڈٹ کرانے کا اہتمام کیا جائے۔

            (۳) مدارس کو ہر قسم کی حکومتی امداد سے محفوظ رکھا جائے۔

            (۴) مدرسہ میں آنے والوں پر نظر رکھی جائے اور اجنبی لوگوں کے بارے میں چوکسی برتی جائے، یہاں تک کہ اگرکوئی اجنبی شخص مدرسہ میں تعاون بھی پیش کرے تو اس کی بھی تحقیق کرلی جائے۔

            (۵) برادران وطن سے اجنبیت دور کی جائے اور ان کو مدارس کے شفاف کردار سے واقف کرانے کی صورتیں اختیار کی جائیں۔

            (۶) معاشرے کی اصلاح سے غفلت نہ برتی جائے۔

            (۷) مدارس آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کا برتاؤ رکھیں، افتراق اور بُعد کی صورت حال کو ختم کریں۔

            (۸) مدارس کے تمام معاملات میں شرعی اصولوں کی مکمل پاس داری کی جائے اور رجوع الی اللہ کا اہتمام کیا جائے۔

            اس کے ساتھ یہ اجلاس حکومت ہند اور صوبائی حکومتوں سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ مدارس کے خلاف ان منفی پالیسیوں پر قدغن لگائی جائے، مدارس اور علماء وطلبہ کو مختلف عنوانات سے ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے، مدارس کے روشن کردار کو سامنے رکھا جائے۔ یہ مدارس تحریک آزادی میں بے مثال قربانیوں کی ایک تاریخ رکھتے ہیں اور آزادی کے بعد بھی ملک کو امن پسند شہری دینے اور ملک کے ا من وامان کو قائم رکھنے میں ان کا اہم کردار ہے۔ ایسے اداروں کی کردارکشی درحقیقت ملک کے ساتھ وفاداری کے بھی منافی ہے۔ حکومت اور برادران وطن اس بات کو سمجھ لیں کہ مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ دراصل اُن طاقتوں کا مشن ہے جو صرف اسلام اور مسلمانوں ہی کی دشمن نہیں؛ بلکہ ہمارے وطن کی بھی بدخواہ ہیں اور ان کے مشن کو طاقت پہنچانا کسی بھی طرح ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہے۔

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  رجب-شعبان ۱۴۳۹ھ مطابق اپریل ۲۰۱۸ء

#             #             #

Related Posts