سوال: میں سرکاری ملازمت کررہی ہوں، میں اپنے شوہر کے بہت زیادہ دباؤ پر اسٹیٹ بینک سے ہاؤس لون لینے پر مجبور ہوگئی تھی، 18000 ماہانہ روپے کی ماہانہ قسط ہے، میرے نام پر کچھ فکس ڈپوزٹ بھی ہے جس پر مجھے سالانہ 50000 سودی پیسے ملتے ہیں جس کو میں استعمال نہیں کرتی ہوں اور ہاؤس لون میں ماہانہ سودی رقم 10000 روپئے ہے تو کیا میں اس50000 سودی روپے کو ہوم لون کی سودی رقم ادا کرنے میں استعمال کرسکتی ہوں۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
اسلام میں سود لینا اور سود دینا دونوں ناجائز وحرام اور لعنت کا کام ہیں، ہاوٴس لون میں سود بھرنا ہوتا ہے اور فکس ڈپازٹ میں سود ملتا ہے؛ اس لیے آپ نے ہاوٴس لون لے کر اور رقم فکس ڈپازٹ کرکے ناجائز کام کیا ہے؛ لہٰذا آپ دونوں گناہوں سے سچی پکی توبہ کریں اور آئندہ پرہیز کریں، اس کے بعد آپ کے اصل سوال کا جواب یہ ہے کہ
اگر آپ نے اپنی رقم کسی سرکاری بینک یا سرکاری ڈاک خانہ میں فکس ڈیپازٹ کی ہے تو آپ فکس ڈیپازٹ کا سود اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے لیے ہوئے ہاوٴس لون کا سود ادا کرنے میں استعمال کرسکتی ہیں اور اگر آپ نے اپنی رقم کسی غیر سرکاری بینک یا ادارے میں فکس ڈیپازٹ کی ہے تو اس کا سود سرکاری بینک سے لیے ہوئے ہاوٴس لون کے سود میں استعمال کرنا جائز نہ ہوگا۔
قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللّٰہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة:۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم،۲:۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷:۳۹۸-۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (ردالمحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع، ۹:۵۵۳)، ویبرأ بردھا ولو بغیر علم المالک، فی البزازیة:غصب دراہم إنسان من کیسہ، ثم ردہا فیہ بلا علمہ برئ، وکذا لو سلمہ إلیہ بجہة أخریٰ کہبة وإیداع وشراء، وکذا لو أطعمہ فأکلہ․․․․ ،زیلعي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الغصب، ۹:۲۶۶، ۲۶۹) ۔
الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم محمدنعمان سیتاپوری غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۸/۳/۱۴۳۹ھ=۸/۱۲/۲۰۱۷ء |
==========================
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حامد کلکتہ کا رہنے والاہے اوریوپی کے مدرسہ میں مدرس ہے، مدرسہ کی طرف سے اہل وعیال کے لیے مکان ملا ہوا ہے جس میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے، گاہ بہ گاہ مختلف مقاصد سے شرعی سفر پرجاتا رہتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ حامد جب شرعی سفر سے لوٹ کر اپنے مدرسہ پہونچے گاتو آیا وہ مدرسہ پہونچتے ہی مقیم ہوجائے گا؟ یا مقیم ہونے کے لیے کم از کم پندرہ دن اسے قیام کی نیت کرنی پڑے گی؟ بالفاظ دیگر حامد کے لیے مدرسہ کی یہ جگہ شرعاً وطن اصلی کی حیثیت رکھتی ہے یا وطن اقامت کی یا کسی اور وطن کی اور یہ کہ اس کی یہ وطنیت وقتی اسفار سے باطل ہوجائے گی یا باطل نہیں ہوگی؟ یا صرف اس وقت باطل ہوگی جب کہ وہ ترک سکونت کی وجہ سے مستقلاً اس جگہ کو چھوڑ کر چلا جائے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دریافت طلب ہے کہ اس سلسلہ میں حامد کے بیوی بچوں کے ساتھ رہنے اور بیوی بچوں کے بغیر تنہا رہنے کی صورت میں حکم ایک ہی طرح کا ہوگا یا مختلف اور جو حکم ہوگا وہ کیا ہے؟
برائے کرم اس استفتاء کا جواب عبارت فقہیہ کی روشنی میں محقق ومدلل تحریر فرماکر ہماری رہنمائی فرمائیں․․․․ جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا․․․ بَیّنُوا و تُوْجَرُوا۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس جگہ آدمی محض ملازمت کی وجہ سے قیام پذیر ہو، وہاں اس کی مستقل قیام اور رہائش کی نیت نہ ہو تو وہ جگہ ملازم کے لیے وطن اصلی نہیں ہوگی خواہ وہ شخص وہاں مع اہل وعیال مقیم ہو یا اہل وعیال کے بغیر تنہا مقیم ہو؛ البتہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی صورت میں وہ وطن اقامت ہوگی اور وطن اقامت مطلق سفر شرعی سے باطل ہوجاتا ہے، خواہ اس جگہ دوبارہ واپسی کا ارادہ ہو یا نہ ہو، نیز مع جملہ سازو وسامان سفر کیا جائے یا کچھ سامان کے ساتھ یا تنہا بغیر سامان کے سفر کیا جائے، بہر صورت مطلق سفر شرعی سے وطن اقامت باطل ہوجاتا ہے، راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے اور کتب فقہ کے متون میں ایسا ہی ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں حامد جب بھی جائے ملازمت سے سفر شرعی پر جائے گا تو اس کا وطن اقامت باطل ہوجائے گا اور آئندہ اگرپندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی نیت سے جائے ملازمت پر آتا ہے تو وہ مقیم ہوگا ورنہ مسافرر ہی رہے گا۔اکابر علمائے دیوبند کا یہی مسلک اور عمل ہے اور اصول افتا کی روشنی میں بھی یہی صحیح اور درست ہے (امدادالمفتین، ص: ۳۲۱، ۳۲۲، سوال: ۲۵۱، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی، فتاوی محمودیہ ۷:۴۹۱ – ۴۹۴، سوال: ۳۵۸۸- ۳۵۹۱،مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل، فتاوی رحیمیہ جدید، ۵: ۱۷۷، سوال: ۲۲۵، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، وغیرہ )۔
الوطن الأصلي ھو موطن ولادتہ أو تأھلہ أو توطنہ (المصدر السابق، ص:۶۱۴)، قولہ:”الوطن الأصلي“: ویسمی بالأھلي ووطن الفطرة والقرار۔ح عن القھستاني۔․․․․․․ قولہ: ”أو توطنہ“:أي: عزم علی القرار فیہ وعدم الارتحال الخ (رد المحتار)، ثم الأوطان ثلاثة: وطن أصلي وھو وطن الإنسان في بلدتہ أو بلدة أخری اتخذھا داراً وتوطن بھا مع أھلہ وولدہ ولیس من قصدہ الارتحال عنھا بل التعیش بھا،․․․․․․ فالوطن الأصلي ینتقض بمثلہ لا غیر، وھو أن یتوطن الإنسان في بلدة أخری وینقل الأھل إلیہا من بلدتہ فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً لہ حتی لو دخل فیہ مسافراً لا تصیر صلاتہ أربعاً (بدائع الصنائع۱: ۴۹۷، ۴۹۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، وھذا الوطن – الوطن الأصلي- یبطل بمثلہ لا غیر، وھو أن یتوطن في بلدة أخری وینقل الأھل إلیھا فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً حتی لو دخلہ مسافراً لا یتم ، قیدنا بکونہ انتقل عن الأول بأھلہ ؛لأنہ لو لم ینتقل بھم ولکنہ استحدث أھلاً في بلدة أخری فإن الأول لم یبطل ویتم فیھما،․․․․ وفی المجتبی: نقل القولین فیما إذا نقل أھلہ ومتاعہ وبقي لہ دور وعقار ثم قال: وھذا جواب واقعة ابتلینا بھا وکثیر من المسلمین المتوطنین فی البلاد ولھم دُور وعَقار فی القری البعیدة منھا یصیفون بھا بأھلھم ومتاعھم فلا بد من حفظھا أنھما وطنان لہ لا یبطل أحدھما بالآخر (البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب المسافر ۲:۲۳۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویبطل وطن الإقامة بمثلہ وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲: ۶۱۴، ۶۱۵،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، من خرج من عمارة موضع إقامتہ قاصداً مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا ․․․․․․․ صلی الفرض الرباعي رکعتین․․․․․․ حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوي إقامہ نصف شھر بموضع صالح لھا فیقصر إن نوی في أقل منہ أو․․․․․․ بموضعین مستقلین (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲:۵۹۹- ۶۰۶)۔
الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم محمدنعمان سیتاپوری غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۱/۳/۱۴۳۹ھ=۱۱/۱۲/۲۰۱۷ء |
—————————————-
دارالعلوم ، شمارہ: 2، جلد:102، جمادی الاولیٰ- جمادی الآخرہ ۱۴۳۹ھ مطابق فروری 2018ء
# # #