از: مولوی محمد ذیشان صدیق
متعلّم جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، پاکستان
موازنہ ایک طبعی ملکہ ہے جسے قدرت کی حکمتِ بالغہ کے تحت مختلف طبائع میں ان کے مقدر کے مطابق ودیعت کیا جاتا ہے اور پھر ہر انسان اسی ودیعت کردہ عطیہ کو اپنی سمجھ بوجھ کے تحت بروئے کار لاتے ہوئے خیر و شر، فائدہ و نقصان کو مد نظر رکھ کر استعمال کر تا ہوا دکھائی دیتا ہے؛ چنانچہ خالق کائنات نے اس عطیہٴ رحمانی کو اس کے صحیح رخ کی جانب پھرنے اور حقائق میں موازنہ کے ذریعہ اسے راہِ ہدایت سمجھانے کے لیے اپنے ازلی کلام میں جو مثالیں پیش کی ہیں وہ حسن بیان میں اپنی نظیر آپ ہیں۔
موازنہ جس قدر منصف مزاج اور حقیقت شناس شخص کا ہو گا اسی قدر موازنہ کی ہوئی اشیاء یا افراد کی حقیقت اور ان کے حقیقی درجہ تک رسائی میں معین و مددگار ہوگا، راقم الحروف کی غرض یہاں موازنہ بین الرجال کے سلسلہ میں جس عظیم شخصیت کی آراء کا پیش کرنا ہے، وہ اپنی علمی لیاقت و پختگی کا اپنے تو اپنے غیروں سے بھی لوہا منواچکے ہیں اور وہ چودہویں صدی ہجری کے نامی گرامی محدث و فقیہ امام العصر حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کی ذات گرامی ہے۔
یہ موازنے اگر چہ اکثر مختصر ہی ہیں، مگر محدثین ، فقہاء، ادباء اور شعراء چہار گانہ جماعتوں کی چوٹی کی شخصیات کے علمی کارناموں کو سامنے رکھ کرکیے گئے ہیں، جو ”خیر الکلام ماقلَّ ودلَّ“ کا حقیقی مصداق ہے اور حضرت شاہ صاحب کی علوم میں گہرائی، ناقدانہ مہارت اور دقتِ نظرکا بہترین آئینہ دار بھی جسے حضرت موصوف نے علمی امانت سمجھتے ہوئے اپنے لائق و فائق تلامذہ کے توسط سے آئندہ آنے والوں کی راہنمائی کے لیے پیش کیے ہیں، جیساکہ ایک مرتبہ خود ہی ذکر فرمایاکہ ”میں سمجھتا ہوں کہ اگر شخصیتوں کے مابین تمہارے درمیان فرق واضح نہ کروں تویہ علمی خیانت ہوگی“؛ چنانچہ علامہ کشمیریکی یہ علمی امانت طالبانِ علم و تحقیق کے استفادہ اور افادئہ عام کے لیے ہدیہ ناظرین ہے ۔
۱- امام مسلمؒ(۱) اور امام نسائی(۲) میں موازنہ:
فرمایا ”تقی الدین سبکی نسائی کو مسلم سے احفظ کہتے ہیں ،میں کہتا ہوں کہ یہ فیصلہ مسلم اور نسائی کی شخصیتوں کے بارے میں تو صحیح ہے؛ لیکن صحیح مسلم سنن نسائی سے اصح ہے“۔(نوادرات کشمیری ، ص۳۸، میمن اسلامک بکس)
۲- حافظ ابن صلاحؒ)۳) اورامام نوویؒ(۴) میں موازنہ:
فرمایا ”ابن صلاح محقق ہیں اور حدیث پر ان کی خوب نظر ہے؛ جب کہ ان کے شاگرد نووی شارح مسلم اس پائے کے نہیں ،نووی ابوحنیفہ کے مسلک کو نقل کرنے میں بھی غلطیاں کرجاتے ہیں میں ان کو مفید کہتا ہوں مفید وہ ہے جو اکابر کے کلام کو سلیقے سے پیش کردے“۔(نوادرات ، ص۴۹)
۳- ابن اثیرؒ(۵)، بدیع الزماں ہمدانیؒ)۶)اور حریریؒ(۷) میں موازنہ:
فرمایا ”ابن اثیر اور مصنف مقاماتِ بدیع کو ادیب مانتا ہوں؛ لیکن حریری کی میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں وہ صرف وقائع نگا رہیں؛ بلکہ بہترین کتا ب اس موضوع پر صاحبِ روح المعانی نے لکھی ہے جس کا نام مقاماتِ خیالی ہے غیر مطبوعہ ہے، میں نے مخطوطہ کا مطالعہ کیا ہے،واضح طور پرکہتا ہوں کہ حریری ان کے گرد پا کو بھی نہیں پہنچا، حریر ی سے تو زیادہ بہتر مقاما تِ بدیع ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ حریری کے یہاں آورد ہی آورد ہے، آمد کانام و نشان نہیں“۔(نوادرات ، ص۲۷)
۴- امام ابن دقیق العیدؒ(۸)، حافظ زیلعیؒ(۹) اور علامہ ابن ہمامؒ(۱۰) میں موازنہ:
فرمایا ”ابن دقیق العید صوفی صافی ہیں، میرا تجربہ ہے کہ اسلاف میں جو احسانی کیفیات کے حامل تھے، وہ معتدل رہے، خود ابن دقیق العید غیر متعصب و انصاف پسند ہیں، بعض مواقع پر ان کی نگارشات حنفیہ کے لیے بڑی کارآمد ہیں،احناف میں سے حافظ زیلعی اسی شان کے آدمی ہیں، ان کی تحریر بڑی متین اور منصفانہ ہوتی ہے، وہ بھی روشن ضمیر صوفیاء میں سے ہیں ۔ ابن ہمام چوں کہ صوفی بھی ہیں اور حنفی بھی،گفتگو تو متین کرتے ہیں؛ لیکن کبھی اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں“۔ (نوادرات ، ص۱۳۲)
۵- حافظ زیلعی اور حافظ ابن حجرؒ(۱۱)میں موازنہ:
فرمایا ”حافظ کی عادت ہے کہ جہاں رجال پر بحث کرتے ہیں کہیں حنفیوں کی منقبت نکلتی ہو تو وہاں سے کترا جاتے ہیں، دسیوں بیسیوں جگہ پر یہی دیکھا۔ ایک روز فرمایا کہ ہمارے یہاں حافظ زیلعی سب سے زیادہ متیقظ ہیں حتی کہ حافظ ابن حجر سے بھی زیادہ؛ مگر کاتبوں کی غلطی سے وہ بھی مجبور ہیں“۔ (ملفوظات محدث کشمیری، ص۱۲۵، ادارہ تالیفات اشرفیہ)
۶- حافظ ابن حجر عسقلانی اورعلامہ عینیؒ(۱۲) میں موازنہ:
فرمایا ”ابن حجر کی شرح فتح الباری فن حدیث پر گہری نظر ، واضح بیان ،ربطِ مسلسل اور مرادات کو مفصل بیان کرنے میں فائق ہے ۔عینی لغوی تحقیق،بسط و شرح ، اکابر علماء کے اقوال نقل کرنے میں بہت آگے ہیں؛ مگر کلام میں انتشار ہے ابن حجر کی طرح مربوط و مرتب نہیں؛ لیکن یہ انتشار چار جلدوں تک ہے بعد میں سنبھل گئے ، بدر عینی نے بعض مواقع پر حافظ الدنیا ابن حجر پر شدید تعقبات کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تبحر میں وہ بھی کم نہیں؛ لیکن فن حافظ ابن حجر ہی کے پاس ہے“۔(نوادرات ، ص۳۰)
۷- صاحب ہدایہ ؒ(۱۳)اور علامہ ابن ہمام میں موازنہ:
فرمایا ”مصنف ہدایہ جب گفتگو کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شہنشاہ کلام کر رہا ہے ا بن ہمام کی نگاہ اصول پر اچھی ہے؛ لیکن ہدایہ کی شرح میں صاحبِ ہدایہ کے سامنے کچھ نظر نہیں آتے“۔ (نوادرات ، ص۲۶)
۸- عارف جامیؒ(۱۴) اور شیخ سعدیؒ(۱۵)میں موازنہ:
فرمایا ”جامی کہ باوجود اس کے ذکائے مفرط رکھتے ہیں؛ لیکن کلام میں آورد ہے؛ جب کہ شیخ سعدی کہ یہاں آمد اور بے ساختگی ہے“۔ (نوادرات ، ص۲۷)
۹- شمس الا ئمہ حلوانی ؒ(۱۶) اور علامہ سرخسی ؒ(۱۷)میں موازنہ:
فرمایا ”فقہاء میں سے شمس الائمہ حلوانی کو شمس الائمہ سرخسی پر ترجیح دیتا ہوں؛کیوں کہ حلوانی مسئلہ مختلف بین الائمہ میں نہایت صحیح قول اختیار کرتے ہیں؛ پس میں بھی ان ہی کے مختار کو لیتا ہوں“۔ (ملفوظات ، ص۱۹۵)
۱۰- صاحب ہدایہ اور قاضی خانؒ(۱۸) میں موازنہ:
فرمایا ”یہ بھی یاد رکھنا کہ میں اگر چہ صاحبِ ہدایہ کا بے حد معترف ہوں؛ لیکن سمجھتا ہوں کہ اگر شخصیتوں کے مابین تمہارے درمیان فرق واضح نہ کروں تو یہ علمی خیانت ہوگی؛ اس لیے واضح کرتا ہوں کہ قاضی خان کو معمولی نہ سمجھنا، وہ تفقہ میں صاحبِ ہدایہ سے بمراحل آگے ہیں، قاسم بن قلوبغا نے قاضی خان کو علمائے ترجیح میں شمار کیا ہے“۔(نوادرات ، ص۲۵۰)
۱۱- ابن رشدؒ(۱۹)، ابن تیمیہ ؒ(۲۰) اور ابن سیناؒ(۲۱)میں موازنہ:
فرمایا”میں کہتا ہوں کہ ابن رشد ، ابن سینا سے زیادہ حاذق ہے اور وہ ارسطو کے کلام کو ابن سینا کے مقابلہ میں زیادہ سمجھتا ہے، ابن تیمیہ فلاسفہ کے مذاہب کو خوب جانتے ہیں، اور منطق اور فلسفہ میں ابن سینا اور ابن رشد سے فائق ہے“۔(نوادرات ، ص۲۰۵)
۱۲- عراقی اور ماوراء النہری احناف میں موازنہ:
فرمایا ”احناف کے دو طبقہ ہیں عراقی اور ماوراء النہری عراقیوں میں قدوری ،جرجانی مشہور ترین ہیں اور علمائے ما وراء النہر میں صاحبِ بدائع الصنائع،فخر الاسلام بزدوی، کرخی، سرخسی،صاحب کنز، صاحب وقایہ، مصنف اصول الشاشی وغیرہ ہیں ، عراقی ابوحنیفہ کے مذہب کو نقل کرنے میں معتمد ترین ہیں اور ما وراء النہر کے علما ء جزئیات کی تخریج اور اجتہاد سے کام لینے میں آگے ہیں“۔(نوادرات ، ص۴۴،۴۵)
۱۳- حافظ ذہبی ؒ(۲۲) اور حافظ ابن حجر مین موازنہ:
فرمایا ”متونِ حدیث اور علل میں تو حافظ صاحب فائق ہیں؛البتہ رجال میں امام ذہبی ان سے آگے ہیں“(فیض الباری،۴/۲۳۸)
۱۴- حافظ ابن حجر اور علامہ سمہودی ؒ(۲۳)میں موازنہ:
فرمایا ”سمہودی ،ابن حجر کے شاگرد ہیں اور ان کی تحقیقات بسلسلہٴ مکہ اور مدینہ اہم ہیں؛ چوں کہ یہ یہاں سکونت کرچکے تھے، ابن حجر حج کے لیے دو بار آئے؛ مگر مقیم نہیں ہوئے اور مقامات کی چھان بین بھی نہیں کی تھی بخلاف سمہودی کے کہ انھوں نے مقیم ہوکر چپے چپے کی تحقیق کی ہے؛ لہٰذا اس سلسلہ میں سمہودی کی تحقیقات ابن حجر کے مقابلے میں راجح ہیں اسے خوب یاد رکھنا“۔ (نوادرات، ۱۶۰،۱۷۳)
۱۵- صدر شیرازی(۲۴) اور شاہ ولی اللہؒ(۲۵)میں موازنہ:
فرمایا ”باوجود تغایر مذہب کے کہ وہ (صدر شیرازی)شیعی ہیں اور میں سنی ہوں، ان کے محقق ہونے کا اقرار کرتا ہوں؛ بلکہ بعض اعتبار سے حضرت شاہ ولی اللہ سے بڑھاتا ہوں، انھوں نے کہا کہ عالمِ آخرت میں جہنمیوں پر مادیت اور جنتیوں پر روحانیت غالب ہو جائے گی، میرے نزدیک یہ بالکل صحیح ہے“۔(ملفوظات ، ص۲۱۶)
۱۶- شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ(۲۶) اور علامہ شامی ؒ(۲۷)میں موازنہ:
فرمایا ”شاہ عبد العزیز صاحب اور علامہ شامی معاصرہیں لیکن تفقہ میں شاہ صاحب بڑھے ہوئے ہیں اور جز ئیات پر حاوی شامی زیادہ ہیں اور نقل کا سامان بھی ان کے پاس زیادہ ہے“۔ (ملفوظات ، ص۲۱۹)
۱۷- علامہ لکھنوی ؒ(۲۸) اور علامہ نیموی ؒ(۲۹)میں موازنہ:
فرمایا ”مولانا ظہیر احسن نیموی حضرت مولانا عبد الحئی لکھنوی فرنگی محلی کے شاگرد ہیں؛ لیکن صناعتِ حدیث میں ان سے بہت فائق ہیں“۔(تقدس انور ، ص۳۱۰، مقالہ مولانا منظور نعمانی ، ناشر: جامعہ عربیہ احسن العلوم کراچی)
ایک مرتبہ فرمایا ”مولانا موصوف (علامہ لکھنوی)نے حواشی و شروحِ احادیث لکھی ہیں؛ لیکن سب میں ناقل ہی ہیں، پچھلی تاویلیں ہی نقل کردیتے ہیں باقی شفاجس کو کہنا چاہیے کہ مسائل میں امام صاحب کے مذہب کو دوسرے مذاہب کے برابر بڑھایا جائے، انصاف سے تو یہ بالکل نابود ہے“۔ (ملفوظات ، ص۲۲۰)
۱۸- صوفیاء اور مناطقہ و فلاسفہ میں موازنہ:
فرمایا ”صوفیاء کی دل پسند باتوں سے قلب و دماغ مطمئن ہوتے ہیں؛ جب کہ مناطقہ و فلاسفہ کے ہفوات سے ایک نہ ختم ہونے والی تشویش پیدا ہوتی ہے ۔ (حیات محدث کشمیری ، ص۱۷۱،ادارہ تالیفات اشرفیہ)
۱۹- صوفیاء اور محدثین میں موازنہ:
فرمایا ”(فارغ التحصیل طالب علم) علماء عارفین کی کتابیں بھی دیکھے، بہت سی جگہ احادیثِ حقیقت کو انھوں نے محدثین سے بھی زیادہ اچھا سمجھا ہے ، مثلا احادیثِ متعلقہ احوال بعد الموت ؛ لیکن جو عارف شریعت سے ناواقف ہو، اس کی کتاب دیکھنا مضر ہوگا“۔ (ملفوظات ، ص۱۵۴)
# # #
حواشی
(۱) مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری النیسابوریّ، أبو الحسین المتوفی:(۲۶۱ھ) امام ، شیخ الاسلام ، ان کی کتاب ”الصحیح“ صحاح ستہ میں دوسرے نمبر پر ہے اور۱۲۰۰۰ احادیث مبارکہ کا مجموعہ ہے، اس کے علاوہ الکنی والأسماء، الأفراد والوحدان، الأقران، أوہام المحدثین، التمییز بھی ان کتابیں ہیں ۔(الاعلام،۷/۲۲۱)
(۲) أحمد بن علی بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر بن دینار، أبو عبد الرحمن النسائی ،(المتوفی۳۰۳ھ) امام ، شیخ الاسلام ، ان کی کتاب المجتبیٰ المعروف بسنن النسائی صحاح ستہ میں شامل ہے اس کے علاوہ بھی ان کی چند تالیفات ہیں جن میں السنن الکبری، الضعفاء والمتروکون، خصائص علیّ وغیرہ شامل ہیں ۔ (الاعلام ،۱/۱۷۱)
(۳) عثمان بن عبد الرحمن (صلاح الدین) ابن عثمان بن موسی الشہرزوریّ أبو عمرو، تقیّ الدین، المعروف بابن الصلاح، امام ، محدث ، فقیہ، دمشق میں مدرسہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث رہے اور وہیں فوت ہوئے ، ان کی کتاب معرفة انواع علم الحدیث المعروف بمقدمة ابن الصلاح علم اصول حدیث میں اساسی حیثیت رکھتی ہے، اس کے علاوہ أدب المفتی والمستفتی ، طبقات الفقہاء الشافعیة ، شرح الوسیط بھی ان کی تالیفات ہیں۔ (الاعلام ،۴/۲۰۸)
(۴) یحییٰ بن شرف بن مری بن حسن الحزامی الحورانی، النووی، الشافعیّ، أبو زکریا، محیی الدین (المتوفی۷۶۰ھ) امام ،محدث ، فقیہ، دمشق کے رہنے والے تھے بیسیوں کتابوں کے مؤلف ہیں جن میں تہذیب الأسماء واللغات ، منہاج الطالبین، المنہاج فی شرح صحیح مسلم ، التقریب والتیسیر ، ریاض الصالحین من کلام سید المرسلین مشہور و معروف ہیں ۔(الاعلام،۸/۱۴۹)
(۵) نصر اللہ بن محمد بن محمد بن عبد الکریم الشیبانیّ، الجزری، أبو الفتح، ضیاء الدین، المعروف بابن الأثیر الکاتب (المتوفی۶۳۷ھ)مشہور ادیب ہیں اور اس فن میں کئی یاد گاریں چھوڑیں، جن میں المثل السائر فی أداب الکاتب والشاعر ، کفایة الطالب فی نقد کلام الشاعر والکاتب ، الوشی المرقوم فی حل المنظوم ، البرہان فی علم البیان ، اور کچھ رسائل بھی ہیں جو رسائل ابن الاثیر کے نام سے بیروت سے شائع ہوئے ہیں ۔ (الاعلام، ۸/۳۱)
(۶) أحمد بن الحسین بن یحییٰ الہمدانی أبو الفضل (المتوفی۳۹۸ھ)مشہور ادیب و شاعرہیں علامہ حریری اپنے مقامات میں انہی کے اسلوب کے ناقل ہیں، ان کی کتابوں میں مقامات مشہورومعروف ہے، اس کے علاوہ ان کے رسائل بھی ہیں اور اشعارپر مشتمل دیوان بھی۔ (الاعلام ،۱/۱۱۵)
(۷) القاسم بن علی بن محمد بن عثمان، أبو محمد الحریری البصری (المتوفی۵۱۶ھ) ان کی کتاب المقامات الحریریة بر صغیر کے مدارس عر بیہ میں شامل نصا ب ہے، اس کے علاوہ بھی ان کی کچھ کتابیں ہیں جن میں درة الغواص فی أوہام الخواص ، ملحة الإعراب ، توشیح البیان ، دیوان رسائل وغیرہ شامل ہیں۔(الاعلام ،۵/۱۷۷)
(۸) محمد بن علی بن وہب بن مطیع، أبو الفتح، تقیّ الدین القشیری المعروف بابن دقیق العید(المتوفی۷۰۲ھ)،امام ، مجتہد ، اصولی ، دقیقہ سنجی و نکتہ شناسی میں اپنی نظیر آپ ہیں، کئی کتابوں کے موٴلف ہیں جن میں:إحکام الأحکام ،الإلمام بأحادیث الأحکام، الإمام فی شرح الإلمام ، الاقتراح فی بیان الاصطلاح معروف ہیں(الاعلام ، زرکلی،۶/۲۸۳)
(۹) عبد اللہ بن یوسف بن محمد الزیلعی، أبو محمد، جمال الدین (المتوفی۷۶۲ھ)فقیہ ، محدث، فقہ حنفی کی معروف و متداول کتاب ہدایہ کی احادیث کی تخریج پر نصب الرایہ کے نام سے مشہو ر کتاب تالیف کی ہے جس کی تلخیص حافظ ابن حجر نے ”الدرایہ“کے نام سے کی ہے ، اس کے علاوہ تفسیر کشاف کی احادیث کی تخریج کو بھی مستقل تالیف کی صورت میں مرتب کیا ہے ۔(الاعلام ،۴/۱۴۷)
(۱۰) محمد بن عبد الواحد بن عبد الحمید ابن مسعود، السیواسی ثم الإسکندری، کمال الدین، المعروف بابن الہمام ( المتوفی۸۶۱ھ) امام، فقیہ ، محدث ، اصولی ، قاہرہ میں فوت ہوئے، فقہ حنفی کی معروف کتاب ہدایہ کی ضخیم شرح فتح القدیر کے نام سے تالیف کی ہے اس کے علاوہ التحریر، المسایرة فی العقائد المنجیة فی الآخرة، زاد الفقیربھی ان کی تالیفات ہیں (الاعلام،۶/۲۵۵)
(۱۱) أحمد بن علی بن محمد الکنانی العسقلانی، أبو الفضل، شہاب الدین، ابن حَجَر (المتوفی۸۵۲ھ) امیر المؤمنین فی الحدیث، مؤرخ،ادیب ، شاعر ، کئی سال تک مصر کے قاضی رہے ، ڈھیر ساری کتابوں کے مؤلف ہیں جن میں الدرر الکامنة فی أعیان المائة الثامنہ،لسان المیزان، تقریب التہذیب ، الإصا بة فی تمییز أسماء الصحابة ، تہذیب التہذیب ،بلوغ المرام من أدلةالأحکام اور ان کے علاوہ کئی کتابوں کے مؤلف ہیں۔ (الاعلام ،۱/۱۷۸)
(۱۲) محمود بن أحمد بن موسی بن أحمد، أبو محمد، بدر الدین العینی الحنفی ( المتوفی۸۵۵ھ)محدث ، فقیہ ، لغوی ، کئی معروف و متداول کتابوں کے مؤلف ہیں جن میں عمدة القاری فی شرح البخاری ، مغانی الأخیار فی رجال معانی الآثار، نخب الأفکار فی تنقیح مبانی الأخبار، البنایہ فی شرح الہدایہ شامل ہیں۔(الاعلام ،۷/۱۶۳)
(۱۳) علی بن أبی بکر بن عبد الجلیل الفرغانی المرغینانی، أبو الحسن برہان الدین ، امام ، فقیہ ، محدث ، مفسر ، ان کی کتاب ہدایہ شرح بدایة المبتدی فقہ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب ہے، اور بر صغیر کے مدارس اسلامیہ میں شامل درس ہے جس کی درجنوں شروحات عربی میں لکھی گئی ہیں اس کے علاوہ الفرائض، التجنیس والمزید، مناسک الحج، مختارات النوازل بھی ان کی تالیفات ہیں (الاعلام ،۴/۲۶۶)
(۱۴) یحییٰ بن عبد الرحمن بن أحمد المدنی الشہیر بالجامی (المتوفی۱۲۱۵ھ)معروف ادیب ، شاعر، صوفی ہیں ان کی کتاب الفوائد الضیائیہ شرح الکافیہ پاک و ہند کے مدارس عربیہ میں زیر درس ہے (الاعلام ،۸/۱۵۳)
(۱۵) شیخ شرف الدین، مصلح ، سعدی شیرازی ؒ(المتوفی۶۹۱ھ) ان کی دو کتابیں گلستان اور بوستان عالمی شہرت کی حامل ہیں اول نثرکی صورت میں ہے اور ثانی منظوم ہے اور یہ دونوں کتابیں بر صغیر کے مدارس عربیہ میں زمانہ قدیم سے داخل درس رہی ہیں اور دونوں کی فارسی کے علاوہ کئی دوسری زبانوں میں بھی شروحات لکھی گئی ہیں۔(کشف الظنون،۱/۲۴۴،۲/۱۵۰۴)
(۱۶) عبد العزیز بن أحمد بن نصر بن صالح الحلوانی البخاری، أبو محمد، الملقب بشمس الأئمة (المتوفی۴۴۸ھ) امام ، فقیہ ، فقہا ء حنفیہ میں بڑی شہرت کے حامل ہیں ان کی کتابوں میں النوادر، الفتاوی، شرح أدب القاضی وغیرہ شامل ہیں ۔ (الاعلام ،۴/۱۳)
(۱۷) محمد بن أحمد بن سہل، أبو بکر، شمس الأئمة السرخسی (المتوفی۴۸۳ھ)امام ، فقیہ، فقہ حنفی کی مشور کتاب المبسوط انہی کی تالیف کردہ ہے جو انھوں نیکوئیں میں قید رہ کر زبانی املاء کروائی تھی اس کے علاوہ شرح الجامع الکبیر، شرح السیر الکبیر، الأصول وغیرہ بھی ان کی تالیفات ہیں۔ (الاعلام،۵/۳۱۵)
(۱۸) حسن بن منصور بن أبی القاسم محمود بن عبد العزیز، فخر الدین، المعروف بقاضی خان (المتوفی۵۹۲ھ)مشور فقیہ ہیں ان کے فتاوی فقہاء حنفیہ کے ہاں بڑی اہمیت کے حامل ہیں اس کے علاوہ بھی ان کے بعض تالیفات ہیں جن میں شرح الزیادات، شرح الجامع الصغیر وغیرہ شامل ہیں ۔(الاعلام ،۲/۲۲۴)
(۱۹) محمد بن أحمد بن محمد بن رشد الأندلسی، أبو الولید(المتوفی۵۹۵ھ) معروف فلسفی ، ارسطو کی کتابوں کو عربی میں منتقل کیا ،پچاس کے قریب کتابوں کے مؤلف ہیں جن میں فلسفہ ابن رشد، منہاج الأدلة، بدایة المجتہد ونہایة المقتصد، تہافت التہافت، شرح أرجوزة ابن سینا وغیرہ شامل ہیں۔(الاعلام،۵/۳۱۸)
(۲۰) أحمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام الحرانی الدمشقیّ الحنبلی، أبو العباس، تقی الدین ابن تیمیہ (المتوفی۷۲۸ھ)إمام، شیخ الإسلام ، مفسر ، اپنے بعض تفردات کی بناء پر کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں ،کئی ساری کتابوں کے مؤلف ہیں جن میں السیاسة الشرعیة ، منہاج السنة، الصارم المسلول علی شاتم الرسول، مجموعة الرسائل والمسائل ، الفتاوی الکبری مشہور و معروف ہیں۔ (الاعلام،۱/۱۴۴)
(۲۱) الحسین بن عبد اللہ بن سینا، أبو علی(المتوفی۴۲۸ھ)منطق ،فلسفہ ،طبعیات وغیرہ میں انتہائی شہرت کے حامل ہیں ان کی کتابوں میں القانون ،المعاد ، الشفاء ، أسرار الحکمة المشرقیة ، الإشارات وغیرہ شامل ہیں۔(الاعلام ،۲/۲۴۱)
(۲۲) محمد بن أحمد بن عثمان بن قایماز الذہبی، شمس الدین، أبو عبد اللہ (المتوفی۷۴۸ھ) امام ، مؤرخ ،علم رجال میں ان کی شہرت محتا ج بیان نہیں اور اس فن میں درجنوں کتابیں تالیف کیں، اور کل تصانیف سو کے لگ بھگ ہیں ،جن میں تاریخ الاسلام ، سیر اعلام النبلاء ، میزان الاعتدال، المغنی فی الضعفاء ، تذکرة الحفاظ ، الکاشف وغیرہ شامل ہیں ۔ (الاعلام ،۵/۳۲۵)
(۲۳) علی بن عبد اللہ بن أحمد الحسنی الشافعیّ، نور الدین أبو الحسن (المتوفی۹۱۱ھ) مؤرخ مدینہ ، مصر کے رہنے والے تھے پھر مستقل مدینہ کو اپنا مسکن بنادیا اور وہیں فوت ہوئے ان کی کتابوں میں وفاء ألوفا بأخبار دار المصطفیٰ ، خلاصة ألوفا وغیرہ شامل ہیں (الاعلام ،۴/۳۰۷)
(۲۴) محمد بن إبراہیم بن یحییٰ القوامی الشیرازی، الملّا صدر الدین (المتوفی۱۰۵۹ھ)فلسفی ، فارسی الاصل ، کئی کتابوں کے مؤلف ہیں جن میں ”الأسفار الأربعة“ سب سے زیادہ شہرت کی حامل ہے اور اس کے علاوہ أسرار الآیات، شرح أصول السکاکی، الشواہد الربوبیة ان کی تالیفات میں شامل ہے ۔(الاعلام ،۵/۳۰۳)
(۲۵) أحمد بن عبد الرحیم الفاروقی الدہلوی الہندی الملقب شاہ وَلیُّ اللہ ،(المتوفی۱۱۷۶ھ)مسند الہند ، امام ، محدث ، فقیہ ، عربی اور فارسی کی بیسیوں کتابوں کے مؤلف ہیں جن میں بعض کتابیں پاک و ہند کے مدارس عربیہ میں شامل نصاب ہیں چند معروف کتابوں کے نام یہ ہیں الفوز الکبیر فی أصول التفسیر، حجةاللہ البالغة، إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء، المسوّی من أحادیث الموطأ، فتح الرحمن فی ترجمة القرآن وغیرہ (الاعلام۱/۱۴۹)
(۲۶) عبد العزیز بن أحمد (ولیّ اللہ)بن عبد الرحیم العمری الفاروقی الملقب سراج الہند ،(المتوفی۱۲۳۹ھ)امام، محدث، فقیہ ، مفسر، حضرت شاہ ولی اللہ کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہوئے ،کئی کتابوں کے مؤلف ہیں جن میں تفسیر فتح العزیز،تحفہ اثنا عشریہ ، بستان المحدثین کی شہرت محتاج بیان نہیں۔(الاعلام ، ۴/۱۵)
(۲۷) محمد علاء الدین بن محمد أمین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الحسینی الدمشقیّ الحنفی (المتوفی۱۳۰۶ھ)متاخرین فقہاء حنفیہ میں نہایت معتمد مانے جاتے ہیں مدتوں شام میں قاضی رہے ان کی کتاب الرد المحتار المعروف بالفتاوی الشامیہ فقہ حنفی کا بجا طور پر موسوعہ ہے اس کے علاوہ قرة عیون الأخیار ، معراج النجاح شرح نور الإیضاح، الہدیة العلائیة بھی ان کی تالیفات ہیں۔(الاعلام ،۶/۲۷۰)
(۲۸) عبد الحی بن عبد الحلیم بن أمین اللہ بن محمد أکبر اللکھنوی ، (المتوفی۱۳۰۴ھ)علامہ ، محدث ، فقیہ ، بر صغیر میں شامل نصاب کئی کتابوں کے حواشی ان کے تالیف کردہ ہیں ان کے علاوہ بھی چھوٹی بڑی کئی کتابوں کے مؤلف ہیں جن میں الفوائد البہیہ، الرفع والتکمیل، الاجوبة الفاضلة ، السعایہ کی شہرت محتاج بیان نہیں (نزہة الخواطر ،۸/۱۲۶۹)
(۲۹) ظہیر أحسن بن سبحان علی الحنفی النیموی العظیم آبادی (المتوفی۱۳۲۲ھ)محدث ، فقیہ ، علامہ، ایک عرصہ تک شعر و شاعری کا شغف رہا پھر حدیث شریف کی طرف متوجہ ہوئے ، ان کی کتاب آثار السنن برصغیر کے مدارس عربیہ میں شامل نصاب ہے ، اس کے علاوہ بھی ان کی کچھ تالیفات ہیں جن میں أوشحةالجید فی تحقیق الاجتہاد والتقلید ، الحبل المتین وغیرہ شامل ہیں (نزہة الخواطر،۸/۱۲۵۶)
——————————————–
دارالعلوم ، شمارہ: 1، جلد:102، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء
# # #