مفتیِ اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ حیات وخدمات (۲)

بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

ریسرچ اسکالر شعبہٴ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

ایک غلط تاریخی روایت: راقم الحروف یہاں یہ بات عرض کرنا مناسب سمجھتا ہے کہ علمائے دیوبند کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں یہ بات دیکھنے اور سننے کو ملی کہ ”حضرت مفتی عزیزالرحمن عثمانی دیوبندی رحمة اللہ علیہ کو رات کے وقت مذکورہ بالا آیت میں اشکال پیش آیا اور آپ نے راتوں رات گنگوہ کا سفر کیا اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے تہجد کے وقت برجستہ جواب دیا۔ حضرت مفتی فضیل الرحمن ہلال# عثمانی مدظلہ العالی نے بھی اپنے دادا کی مختصر سوانح (فقیہ اعظم) میں اس واقعہ کو لکھاہے، یہ ساری تفصیلات بے اصل ہیں، صحیح بات وہ ہے جو حضرت مفتی اعظم نے خود اپنے قلم سے تحریر فرمائی ہے کہ ایک عریضہ (خط) کے جواب میں اس اشکال کا جواب عنایت فرمایا تھا۔

فقہ وفتاویٰ پر آپ کی دست رس: علم حدیث کے ساتھ فقہ وفتاویٰ میں بھی قدرت نے آپ کو غیرمعمولی دست رس عطا فرمائی تھی، حالاتِ حاضرہ کے مشکل ترین مسائل کو آپ نہایت ہی آسان انداز میں حل فرمادیا کرتے تھے، چند ہی دنوں میں آپ کے لکھے ہوئے فتاویٰ ہندوبیرون ہند میں متعارف ہوکر مقبول عام ہونے لگے۔

            حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں:

            ”بڑے بڑے اہم فتاویٰ جن کو مرتب کرنے میں اگر آج کے مفتی اور ماہر علماء مشغول ہوں تو مراجعتِ کتب کے بعد بھی شاید دنوں اور ہفتوں کی سوچ بچار کے بعد بھی فتویٰ کا وہ سہل عنوان اختیار نہ کرسکیں گے جو حضرت ممدوح قلم برداشتہ اس طرح بے تکلف لکھ جاتے تھے جیسے روز مرہ کی معمولی باتیں ڈائری میں لکھ دی جاتی ہیں۔“

            آگے لکھتے ہیں:

            ”کوئی مسئلہ جب عُقدئہ لا ینحل ہوجاتا تھا اور علماءِ وقت آپ کی طرف رجوع فرماتے تھے تو آپ کا جواب آپ کی خدادا د علمی بصیرت اور فقہ فی الدین کے سبب قاطعِ شک وشبہات ہوتا تھا؛ بلکہ عموماً ایسے مسائل میں آپ کا اسمِ گرامی سامنے آجانا ہی علمائے عصر کے لیے تسلی وطمانینت کا باعث ہوتا تھا۔“ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۱/۲۷)

فتویٰ نویسی کی مدت اور تعدادِ فتاویٰ: حضرت مفتی اعظم کا تقرر ۱۳۰۹ھ میں ہوا، اس کے اگلے سال دارالافتاء کا قیام عمل میںآ یا اور آپ کے ذمہ فتویٰ نویسی کا کام سپرد ہوا، تب سے مسلسل چھتیس سال (۱۳۴۷ھ) تک آپ فتویٰ نویسی کرتے رہے۔

            آپ کے فتاویٰ کی صحیح تعداد معلوم نہیں، بہت سے فتاویٰ کو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ نے ”عزیز الفتاویٰ“ کے نام سے شائع فرمایاہے اور دارالعلوم دیوبند سے ”فتاویٰ دارالعلوم دیوبند“ کی اٹھارہ جلدیں شائع ہوچکی ہیں، سب آپ ہی کے قلم سے لکھے ہوئے ہیں، وہ فتاویٰ جو دارالافتاء کے ریکارڈ میں منقول ہیں، اُن کی تعداد سینتیس ہزار، پانچ سو اکسٹھ (۳۷۵۶۱) ہے، یہ گنتی سوالات کے لفافوں کے لحاظ سے ہے، مسائل کی تعداد کے لحاظ سے نہیں؛ ہر مستفتی ایک لفافے میں چند سوالات پوچھتا ہے، کسی میں دو، کسی میں چار اور کسی میں ان سے زیادہ سوالات ہوتے ہیں، اتفاق سے ہی کسی لفافہ میں ایک سوال ہوتا ہے،اس طرح اگر دیکھا جائے تو حضرت مفتی اعظم کے لکھے ہوئے فتاویٰ کی تعداد لاکھ سے متجاوز ہوجائے گی۔

            اس کے علاوہ یہاں ایک اور بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ جب دارالعلوم میں دارالافتاء کا آغاز ہوا تو ابتدائی انیس سالوں تک (۱۳۱۰ھ تا ۱۳۲۹ھ) نقول محفوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کیاگیا۔ گویا فتویٰ نویسی کی آدھی مدت ایسی ہے جس کا ریکارڈ محفوظ نہیں ہے، اس طرح حضرت کے فتویٰ کی تعداد نفس الامر میں دوڈھائی لاکھ سے کم نہیں ہوگی، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

(تفصیل کے لیے دیکھیے، فقیہ اعظم، ص:۱۴-۱۵)

تدریسی خدمات: کسی بھی فقیہ کے اندر فتویٰ نویسی کی صلاحیت اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی؛ جب تک کہ وہ قرآن وسنت کا گہرا علم نہ رکھتا ہو، فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث، تفسیر، اصولِ تفسیر اور دیگر علوم میں جب تک گہرائی وگیرائی نہیں ہوتی اس وقت تک فتویٰ نویسی جیسی حساس ذمہ داری آدمی ادا نہیں کرسکتا۔

            حضرت مفتی اعظم افتاء کے ساتھ درس وتدریس کا شغل بھی رکھتے تھے، وہ ابتدائی دور تھا،اس وقت مفتی مدرس بھی ہوتا تھا، حضرت مفتی اعظم نے فقہ، حدیث اور تفسیر سب کے اسباق پڑھائے ہیں، بڑی بڑی باریک تحقیقات جو آپ کے ذہن رسا کی پیداوار ہوتی تھیں اُن کو کبھی اپنی طرف منسوب نہیں فرماتے تھے؛ بلکہ بہ طور احتمال ارشاد فرماتے: ”اس مسئلہ میں ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے۔“ حالاں کہ وہ ان کی تحقیق ہوتی تھی؛ مگر کبھی بھی یوں نہیں فرماتے تھے کہ اس مسئلہ میں میری رائے اور تحقیق یہ ہے۔

            حضرت مفتی اعظم کے سینتیس سالہ دور میں جتنے طلبہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے سب نے آپ سے کسبِ فیض کیا ہے۔

            حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ نے بھی آپ سے متعدد کتابیں پڑھی ہیں، فرماتے ہیں:

            ”مجھے سعادت حاصل ہے کہ میں نے جلالین شریف، موطا امام مالک، موطا امام محمد اور طحاوی شریف حضرت اقدس سے پڑھی ہے۔“ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱/۴۳، مکتبہ دارالعلوم دیوبند)

قلمی خدمات: حضرت مفتی اعظم کا حقیقت ریز قلم ہر وقت متحرک رہا، آپ نے روزانہ آنے والے سوالات کے جواب بھی قلم بند فرمائے، جب ماہ نامہ”القاسم“ اور ماہ نامہ” الرشید“ کو علمی مضامین کی ضرورت پیش آئی، بلاتاخیر مضمون لکھ کر حاضر کردیا، کسی عربی کتاب کے اردو ترجمہ کی ضرورت محسوس کی تو اس سے بھی صرفِ نظر نہیں فرمایا، آپ کے بہت سے اہم فتاویٰ مذکورہ بالا دونوں ماہ ناموں میں طبع ہوتے رہے؛ غرض یہ کہ حضرت کا اشہبِ قلم علمِ دین کی اشاعت اور اسلام کی صحیح اور معتدل ترجمانی کے لیے ہر لمحہ متحرک اور رواں دواں رہا، درج ذیل نگارشات سے اس کا اندازہ کیاجاسکتا ہے:

            ۱- ”منحة الجلیل في بیان ما في معالم التنزیل“ حضرت مفتی اعظم کا مقام فقہ کی طرح علم تفسیر وحدیث میں بھی کافی بلند تھا، اسی وجہ سے آپ نے کئی تفسیروں کے ترجمے کیے، ان میں علامہ حسین بن مسعود بغوی (۱۰۴۴-۱۱۲۲ھ) کی مشہور ومعروف تفسیر بھی ہے، اس کا نام ”معالم التنزیل“ ہے،اس کو اہلِ علم ”تفسیر بغوی“ سے یاد کرتے ہیں، اس کی افادیت کا ہر ایک اعتراف کرتا ہے، خصوصاً حلِ لغات میں یہ تفسیر بے مثال مانی جاتی ہے۔ حضرت مفتی اعظم نے اردو داں حلقوں کو اس سے واقف کرانے کے لیے اس کا ترجمہ کیا، اردو ترجمہ کا نام ”منحة الجلیل في بیان ما في معالم التنزیل“ رکھا، جو ”مطبع باغ کلام نور، آگرہ“ سے شائع ہوکر مقبول عام ہوا۔ اس کا نسخہ ”جامعہ ہمدرد دہلی“ کی لائبریری میں موجود ہے، یہ بات ناچیز کو حضرت مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال# عثمانی مدظلہ العالی نے آج (۲۰۱۷/) سے تین سال پہلے خط کے ذریعہبتائی۔

            ۲- ”تفسیر روح القرآن“: یہ بھی حضرت مفتی اعظم کی تفسیر ہے جو سات جلدوں میں مکمل ہوئی ہے، دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں اس کی چند جلدیں موجود ہیں اس کو ”فیصل پبلشرز دیوبند“ نے دوبارہ شائع کیا ہے۔

            ۳- ”ترجمہٴ تفسیر جلالین“ : علامہ جلال الدین عبدالرحمن بن کمال الدین سیوطیؒ(۸۴۹-۹۱۱ھ) اور علامہ جلال الدین محمد بن احمد محلیؒ(۷۹۱-۸۶۴ھ) کی مشہور ومفید ترین تفسیر جلالین کا بھی آپ نے ترجمہ کیا؛ تاکہ اس کی افادیت کا دائرہ وسیع ہوجائے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی کے تصدیقی کلمات بھی موجود ہیں، یہ سب سے پہلے ۱۳۱۴ھ میں مطبع ریاض ہند اکبرآباد (آگرہ) سے شائع ہوا، اس کو دو بارہ فیصل پبلشرز دیوبند شائع کیا ہے۔

            ۴- ”عزیز الفتاویٰ“: یہ حضرت مفتی اعظم کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے، جو حضرت مفتی محمدشفیع دیوبندی رحمة اللہ علیہ نے مرتب فرمایا ہے۔

            صاحبِ فتویٰ اور مرتب دونوں عظیم ترین صاحبِ قلم اور فقہ وفتاویٰ میں عبقریت کے حامل ہیں، مجموعہٴ فتاویٰ نہایت مفید اور متداول ہے۔ قارئین ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

            ۵- ”فتاویٰ دارالعلوم دیوبند“ (۱۸جلدیں): حضرت مفتی اعظم کے فتاویٰ کی ترتیب کا کام دارالعلوم دیوبند سے نہایت ہی اہتمام سے ہوا، ۱۳۷۴ھ سے باقاعدہ ایک ملازم کے ذریعے کام شروع ہوا، حضرت الاستاذ مفتی ظفیرالدین مفتاحی رحمة اللہ علیہ مفتی دارالعلوم دیوبند نے اس کی بارہ جلدیں مرتب فرمائیں، پھر یہ کام باضابطہ طور پر حضرت الاستاذ مفتی محمد امین پالن پوری مدظلہ کی نگرانی میں آگے بڑھا اور اٹھارہ جلدوں میں فتاویٰ کی تجمیع وتحقیق مکمل ہوئی، مکتبہ دارالعلوم دیوبند نے ان فتاویٰ کو نہایت ہی اہتمام سے شائع کیا اور اہلِ علم اور اصحابِ ذوق تک پہنچایا۔

            اب باضابطہ طورپر ازسرِنو نئی تحقیق کے ساتھ شروع سے جلدیں شائع ہورہی ہیں؛ اس کے لیے باضابطہ شعبہ ہے، اس میں کوڈ لگانے والے، کمپوزنگ کرنے والے، تصحیح و تحقیق کا کام کرنے والے سب کے لیے الگ الگ افراد ہیں، امید ہے کہ مستقبل میں اس شعبہ کا کام اور آگے بڑھے گا اور پھیلے گا۔

            یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اس کام کے اولین محرک حضرت مولانا محمد منظورنعمانی رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند ہیں، موصوف نے حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ کو لکھنوٴ کے ایک سفر میں متوجہ فرمایا، جب حضرت مہتمم صاحب نے اس کام کے لیے حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی سے مشورہ کیاتو آپ نے ’الہامی تجویز“ قرار دیا،اس کے بعدباضابطہ طور پر شوریٰ کی اجازت سے یہ کام شروع کیاگیا، اس کی تفصیل حضرت حکیم الاسلام کی زبانی سنیے:

            ”لکھنوٴ کے ایک سفر کے دوران مولانا محمد منظور صاحب نعمانی مدیر ”الفرقان“ لکھنوٴ وممبر مجلس شوریٰ دارالعلوم کی اتفاقی معیت ریل میں ہوگئی اور ممدوح نے حسنِ اتفاق سے اس تڑپ کا اظہار فرمایا جو احقر کے دل میں پہلے سے موج زن تھی، دورائیں مجتمع ہونے سے قدرتی طور پر اصل رائے اور جذبہ میں قوت پیدا ہوگئی، احقر نے اسی تفصیل سے یہ رائے بہ طور استشارہ اس دور کے شیخ الافتاء حضرت مولانا اعزاز علی صاحب مرحوم کے سامنے رکھی آپ نے نہ صرف اس رائے سے اتفاق ہی فرمایا؛ بلکہ اسے ایک الہامی تجویز بتلاکر میری کافی حوصلہ افزائی فرمائی، جس سے قوت رائے کے ساتھ اس بارے میں عزمِ عمل بھی پیداہوگیا اوراحقر نے ایک باضابطہ تجویز دارالافتاء میں بھیج کر ترتیبِ فتاویٰ کا کام شروع کرادیا۔

            الحمدللہ تھوڑی ہی مدت کے بعد ترتیب فتاویٰ کا ایک معتدبہ ذخیرہ بہ طور نمونہ احقر کے سامنے لایا گیا، عمل کا ایک نمونہ سامنے آجانے پر احقر نے اس خیال کو مجلسِ شوریٰ دارالعلوم کے سامنے رکھا، مجلس نے کافی حوصلہ افزائی کے ساتھ طے کیا کہ اس ذخیرئہ فتاویٰ کی مزید ترتیب اور تفصیل کے لیے ایک مستقل شعبہٴ ترتیب فتاویٰ قائم کیا جائے اور ایک مستقل مرتبِ فتاویٰ کی منظوری دی۔“ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱/۵۹، مکتبہ دارالعلوم دیوبند اشاعت اول)

            ۶- ”چند مضامین“: (۱) حضرت مفتی اعظم نے دارالعلوم کے ماہ نامہ”القاسم“ اور ماہ نامہ ”الرشید“ سے اپنا تعلق ہمیشہ باقی رکھا، ان کے فائلوں میں آپ کے رشحاتِ قلم کی اچھی خاصی مقدار موجود ہے، حضرت مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال# عثمانی رقم طراز ہیں:

            ”اس میں دو طویل مضمون خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، جن کے مجموعی صفحات پانچ سو کے قریب ہیں، ایک مضمون: ”شریعت متکفل جمیعِ سعادات“ کے عنوان سے ہے اور دوسرا مضمون: ”مبدأ اور معاد“ کے عنوان سے ہے۔ یہ دونوں مضمون حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی روشنی میں ان کی تلخیص اور تشریحی نوٹ کے ساتھ ہیں۔“ (فقیہ اعظم، ص:۱۹)

            (۲) ”تذکرة الرشید“ کی دوسری جلد میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کی ذات پر لکھا گیا ایک خاکہ شامل ہے، یہ (صفحہ نمبر ۲۰ تا ۲۹) کل دس صفحات پر مشتمل ہے، اس کا عنوان ہے: ”عند الذکر الصالحین تتنزل الرحمة“ اس میں حضرت گنگوہی کے معمولات،امتیازات، علمی تفوق وبرتری، جرأت ودلیری، اپنے خواب اور حضرت گنگوہی کی تعبیر، ملاقات، مکاتبت ومراسلت کے ذریعے علمی استفادہ وغیرہ کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، اخیر میں ”حیات النبی“ کے سلسلے میں حضرت گنگوہی کے بتائے ہوئے مضمون کو اس طرح بیان فرمایاہے:

            ”موت سب کو شامل ہے؛ مگر انبیاء کی ارواح مشاہدئہ جمال وجلالِ حق تعالیٰ وتقابلِ آفتابِ وجود باری سے اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اجزائے بدن پراُن کا اثر ہوتا ہے کہ تمام بدن حکم روح پیداکرلیتا ہے اور تمام جسم اُن کا عینِ ادراک اور عینِ حیات ہوجاتا ہے اور یہ حیات دوسری قسم کی ہے، اس تحقیق سے نکتہ انَّ اللّٰہَ حَرَّمَ علی الأرضِ أن تَأْکُلَ أَجْسَادَ الأنبیاء (نسائی: ۱۳۷۴، ابوداؤد: ۱۰۴۷) ظاہر ہوتا ہے۔“ (تذکرة الرشید:۲/۲۹)

ادبی ذوق: حضرت مفتی اعظم کو فقہ وفتویٰ کے ساتھ زبان وادب کا بھی نہایت اعلیٰ ذوق تھا، عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں پر عبور تھا اور ان سب میں برجستہ شاعری بھی کیا کرتے تھے، اکثر کسی کی رحلت اور وفات سے متأثر ہوکر آپ نے مرثیائی نظمیں کہی ہیں۔ غالباً ان کا تخلص ”عزیز اور محمود“ تھا۔

            ۱۳۳۷ھ میں حضرت مولانا عبدالرحیم رائے پوری رحمة اللہ علیہ رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی وفات ہوئی، موصوف کی وفات حسرت آیات سے متأثر ہوکر آپ نے عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں مرثیے کہے ہیں، ذیل میں تینوں زبانوں سے ایک ایک نظم بہ طور نمونہ پیش کی جارہی ہے:

عربی مرثیہ

دارالغرور فما لنا من دار ما مرجع الّا بدار قرار
ما ہٰذہ الدنیا مقام، مقیمہا ہل ہٰذہ الّا متاع بوار
ما ہٰذہ الّا معابرُ عابر أو دارُ من لیست لہ من دار
طوبیٰ ان کسب الصلاحَ وحازہ بُشری لمن وقی الشقا بحذار
فات الملأ فما لنا من ملجأ کہف الخلائق بدوہم وحضار
عبد الرحیم امامُنا لما مضیٰ دُکّت جبال العلم بعد قرار
ضاقت أراضینا برحب فنائہا صارت مساعینا ہباء غبار
قد کان شیخًا عارفًا متواضعا ذا منطق عدل وذا فخار
تلّاءٍ قرآنٍ ملازم ذکرَہ مستغفرًا لیلا وبالأسحار
واہاً لہ من سیّد علم عُلا قلَّلَ الکمالَ بعزة ووقار
سادَ التُقاةَ بہدیہ وتقائہ صعِد الکمالَ بتودةٍ ووقار
لَما قضی اشتاقَ رُوٴیةَ ربّہ وافَتْہُ رحمةُ ربّہ الغفار
أولاہُ مولاہُ مراتب قربہ أعطاہ رضواناً جزاءَ خیار
قد قلتُ أقبِلُ راغِبًا تاریخہ لما دعاہ أجاب باستبشار

۱۳۳۷ھ

(ماہ نامہ القاسم دارالعلوم دیوبند، ص۳،۴ ذی الحجہ ۱۳۳۸ھ)

فارسی مرثیہ

شاہِ والا شان شہِ عبدالرحیم بود وردِ نیاز مشتاقانِ خلد
بود از پاکاں ونزدیکانِ حق با ملائک گشت از ارکانِ خلد
بود مشغول عبادت روز وشب شد جزایش راحت وریحانِ خلد
خدمتِ اضیاف بودہ کارِ او چوں زدنیا رفت شد مہمانِ خلد
ہر کہ خدمت کرد اُو مخدوم شد خدمتِ پاکاں دہد ایوانِ خلد
بُود در دنیا بکارِ دیں مقیم نام اُو کردند در دیوانِ خلد
ترک دنیا چوں بحکمِ حق بگفت شد بشارت داخلِ دیوان خلد

۱۳۳۷ھ

اردو مرثیہ

مرشد و رہنما حلیم و کریم حضرت شیخ عصر عبدالرحیم
گوہرِ شاہوار عرفان تھے اور حقیقت کے تھے وہ در یتیم
تھے سراپا تواضع واخلاق حق نے اس کو دیا تھا قلبِ سلیم
ماحیِ بدعت ضلالت تھے حامی سنتِ نبیِ کریم
جانشین رشید عالم تھے قاسم خیر کے حبیب وندیم
یادِ حق میں فنا و مستغرق تھی اسی سے جو تھی امید وبیم
فرد عالم ضیائے ملت و دین ناصح عالم وشفائے سقیم
فانی و باقی و صفی و نقی ہادی و مہدی و رضی و حلیم
تھے سخاوت میں حاتم طائی زہد وتقویٰ میں ان کا مثلِ عدیم
ذکر حق تھاغدائے روحانی فکرِ عقبیٰ تھا پس انیس وندیم
مظہرِ کامل صفاتِ کمال مجمع صبر و شکر و خلقِ عظیم
خدمتِ دیں میں تھے کمر بستہ خادمِ ملت و صراطِ قویم
سالکِ راہِ حق بہ صدق ویقیں طالبِ رحمت و رضائے کریم
مجلسِ علم کے سراجِ منیر محفلِ فقر کے امامِ عظیم
کوہِ حلم و وقار و تقویٰ تھے بحر جود و سخا و لطیفِ عمیم
قطبِ عالم سے فیض تھا ان کا تھی وہی تمکنت وہی تعلیم
مدح و ذم میں جہانیاں یکسر تھے برابر پئے رضائے کریم
قطبِ دور ولایت و ارشاد غوثِ اقطاب و مرشدِ اقلیم
مسجدیں ان کی ذات سے آباد تھے مدارس کے معتمد وندیم
تھے مطاع ومعظم و ذی شان ان کی کرتے ملائکہ ، تکریم
جامعِ علم و حلم و زہد و رضا بحرِ جود و کرم کے درِّ یتیم
خادمِ سنت و کلام مجید قاری و حافظ تقی و حلیم
رافعِ رایت ، شریعت و دیں بائن و کائن و رشید و کریم
ساتھ تھے حق کے باہمہ احوال ان کے سایہ سے بھاگتا تھا رجیم
سایہٴ حق پئے سعید ازل قہر حق از پئے شقی و لئیم
ظلِّ یزداں امام اہلِ ہُدیٰ رحمتِ حق نعیم اہلِ نعیم
اہلِ باطل سے ضد لوجہ اللہ اہلِ حق کے مدام حُبِّ صمیم
حُبِّ حق میں فنا رہے دائم شائقِ وصل وفضلِ رب کریم

عاقبت ان کی ہوگی محمود

سنِ رحلت ہے ”درکِ فوز عظیم“

اردو حمد: اردو زبان میں کہی گئی آپ کی ایک ”حمد“ تذکرة الرشید کی دوسری جلد میں (صفحہ نمبر۲۳ اور ۲۴ پر) لکھی ہوئی ملی، یہ دس اشعار پر مشتمل ہے؛ مگر چوں کہ حضرت مفتی اعظم نے خود اُسے مسلکِ نقشبندی مجددی میں غلوکے وقت کے واردات پر محمول فرمایا ہے؛اس لیے اس کو یہاں نقل کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔

تاریخ گوئی: تاریخ گوئی ایک فن ہے جس میں کسی کی ولادت، وفات اور کارنامے کو ایسے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے حروف کی گنتیوں سے اس کی تعیین ہوجاتی ہے، نظم و نثر دونوں میں تاریخی مواد نکالے جاتے ہیں، حضرت مفتی اعظم کو اس فن میں بھی دست گاہ حاصل تھی، آپ نے بہت سے بزرگوں کی رحلت پر تاریخ گوئی کی ہے، ذیل میں چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

            ۱-          حیدرآباد دکن کے پاکیزہ صفات عالمِ دین بزرگ رئیس جناب مولانا عبدالباقر خاں صاحب کا انتقال ربیع الاول ۱۳۳۶ھ مطابق جنوری ۱۹۱۸/ میں ہوا، اس موقع سے حضرت مفتی صاحب نے اُن کے لیے جہاں مرثیہ نظم فرمایا وہیں، مرثیہ کے ایک مصرع میں تاریخ وفات کو بیان فرمایا ہے:

قُرْبُ قاسِمٍ طیبًا خیرًا لہ         #         حُبِّ قاسم شُد مَراُورا خوش امام

۱۳۳۶ھ

            اس شعر کے پہلے مصرع کے حروف کے اعداد کو اگر جوڑا جائے توہجری کے لحاظ سے تاریخِ وفات نکل آتی ہے۔

            ۲-        حضرت مولانا عبدالرحیم رائے پوری رحمة اللہ علیہ کے لیے آپ نے پانچ مرثیے نظم فرمائے ہیں، ہر ایک میں تاریخِ وفات لکھی ہے، تین مرثیوں کو قارئین ملاحظہ کرسکتے ہیں، ایک عربی، ایک فارسی اورایک اردو زبان میں ہے۔ ذیل میں دو مرثیوں سے صرف مادئہ تاریخ والا حصہ نقل کیاجاتا ہے:

            (الف)  سال رحلت دگر عزیزؔ بگفت   #         طاب حبّ بہار باغ جناں

                                                                                    ۱۳۳۷ھ

            (ب)    چوں زونیا برفت دردل داشت#          حب زاد بہار باغ جناں

                                                                                    ۱۳۳۷ھ

            (ج)      پے سال رحلت بیامد ندا        #         لَقَدْ فَازَ فَوزًا عَظیمًا بما

                                                                                    ۱۳۳۷ھ

            (د)       بیامد پے سال وصلش بحق       #         لَقَدْ فَازَ فَوزًا عَظیمًا ندا

                                                                                    ۱۳۳۷ھ

سلوک و احسان: حضرت مفتی اعظم کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور شرعی علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم بھی عطا فرمائے تھے، طریقت میں آپ نقشبندی مجددی تھے، حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمة اللہ علیہ مہتمم ثانی دارالعلوم دیوبند کی تربیت میں رہے، ریاضت ومجاہدہ سے مزاج میں یکسوئی حاصل ہوگئی، گوشہ نشینی کا لطف آنے لگا۔ اس سلسلے میں آپ کے بہت سے واقعات ہیں، طوالت کے خیال سے ان کو چھوڑا جاتا ہے۔

            غرض یہ کہ حضرت مفتی اعظم کو اپنے شیخ سے خرقہٴ خلافت بھی عطا ہوا تھا، آپ نے سلوک و احسان کی راہ سے بھی خلقِ خدا کی خدمت کی، آج بھی آپ کے خاندان میں آپ کے بتائے ہوئے معمولات کی باقیات نظر آتی ہیں، مسجد عزیز دیوبند میں عام مصلیان بھی اُن سے مستفید ہوتے ہیں۔

دیوبند سے استعفاء اور ڈابھیل میں تقرر:

            دارالعلوم دیوبند کی وہ اسٹرائک جو علامہ انور شاہ کشمیری کے زمانہ میں (۱۳۴۴ھ تا ۱۳۴۷ھ) ہوئی وہ بہت مشہور ہوئی، وہ پہلی اسٹرائک تھی جس میں دس دن تک تعلیم کا سلسلہ منقطع رہا، ابتداءً یہ اسٹرائک طلبہ تک محدود تھی، چند دنوں بعد علامہ کشمیری نے ان کی تائید میں دودن مسجد قدیم میں تقریر فرمائی، احتجاج بڑھتا رہا؛ یہاں تک کہ طلبہ کا اخراج عمل میں آیا، پھر اور شدت آگئی، علامہ کشمیری اور ان کے ہم خیال اساتذہ نے استعفاء دے دیا۔ اسی موقع سے علامہ کشمیری، علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی اور حضرت مفتی اعظم، دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہوکر ڈابھیل تشریف لے گئے تھے، حضرت مفتی اعظم کی عمر کا ستارہ ڈوبنے کو تیارتھا، کچھ ہی عرصہ وہاں رہے، پھر دیوبند تشریف لے آئے اور یہیں رہ کر داعیِ اجل کو لبیک کہا۔

وفات وتدفین: ۱۷/جمادی الثانیہ ۱۳۴۷ھ مطابق یکم نومبر ۱۹۲۸/ شنبہ کی شب دو بجے آپ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے، دس بجے دن میں احاطہٴ مولسری دارالعلوم دیوبند میں آپ کی نمازِ جنازہ حضرت مولانا سید اصغرحسین صاحب نے پڑھائی اور گیارہ بجے ”قبرستان قاسمی“ میں سپردخاک کیے گئے۔ (فقیہ اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی، ص:۵۵، ناشر: جامعہ دارالسلام، مالیہ کوٹلہ، پنجاب ۱۹۹۱/)

#         #         #

مراجع ومصادر

۱-         فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (جلد اوّل) مکتبہ دارالعلوم دیوبند پہلی اشاعت

۲-        فقیہ اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی ، ناشر: جامعہ دارالسلام مالیر کوٹلہ، پنجاب ۱۹۹۱/

۳-        ماہ نامہ”القاسم“ دارالعلوم دیوبند، صفر ۱۳۳۹ھ

۴-        ماہ نامہ” القاسم“ دارالعلوم دیوبند، ذی الحجہ ۱۳۳۸ھ

۵-        تاریخ دیوبند مصنفہ سید محبوب رضوی۔

۶-        حیاتِ شیخ الہند مصنفہ مولانا سیداصغرحسین میاں صاحب

۷-        ماہ نامہ درالسلام مالیرکوٹلہ، مئی، جون ۱۹۹۰/

۸-        تاریخ دارالعلوم دیوبند مرتبہ سید محبوب رضوی مکتبہ دارالعلوم دیوبند

۹-        تذکرة الرشید، مصنفہ مولانا عاشق الٰہی میرٹھی، مکتبہ عاشقیہ میرٹھ۔ پہلی اشاعت

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ: 1،  جلد:102‏، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء

#         #         #

Related Posts