از: حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہ العالی

شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند

انسانوں میں دُرِّنایاب کی کمی ہمیشہ محسوس کی گئی اور انسانی امتیازات متنوع ہیں، ہر امتیاز اپنے اندر کوئی خوبی رکھتا ہے، حضرت مولانا ریاست علی ظفربجنوری قُدِّسَ سِرُّہ بہت سی خوبیوں اور امتیازات کے مالک تھے، لکھنے والے اُن پر لکھیں گے۔ مجھے شخصیات پر لکھا نہیں آتا؛ میرے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قُدِّسَ سِرُّہ سے بھی جب کوئی کسی شخصیت کی سوانح لکھنے کے لیے اصرار کرتا تو حضرت یہی فرماتے تھے کہ مجھے شخصیات پر لکھنا نہیں آتا۔

میری حضرت مولانا ریاست علی صاحب رحمہ اللہ سے لمبی رفاقت رہی ہے، وہ میرے ہم عمر تھے؛ مگر مجھ سے پانچ سال پہلے فارغ ہوگئے تھے؛ اس لیے کہ وہ بہت ذہین تھے اور بہت تیزی سے پڑھا تھا اورمیں ہدایہ اولین سے پہلے مظاہر علوم سہارن پور میں علومِ عقلیہ اور فنون کی بہت سی کتابیں پڑھنے میں لگ گیاتھا؛ اس لیے میں پیچھے رہا تھا؛ حالاں کہ ہم دونوں کی پیدائش ایک سال (۱۹۴۰/) کی ہے۔ میں نے جب دارالعلوم میں آ کر ہدایہ اولین میں داخلہ لیا تو وہ فارغ ہوگئے تھے اور ”گل کدہ“ (دیوبند میں کمال شاہ مسجد کے پاس) میں کمرہ کرایہ پر لے کر رہتے تھے اور ”ایضاح البخاری“ لکھتے تھے، میں نے بھی ”گل کدہ“ میں کمرہ کرایے پر لیاتھا، مجھے دارالعلوم میں سیٹ نہیں ملی تھی، اس وقت سے حضرت مولانا کے ساتھ دید وشنید تھی، پھر زمانے نے کروٹ لی، میں فارغ ہوکر راندیر چلا گیا اور وہ جمعیة علمائے ہند میں ملازم ہوکر چلے گئے، وہاں سے وہ دارالعلوم میں مجھ سے پہلے مدرس ہوکر آگئے، میں ان سے دو تین سال بعد آیا، پھر تقریباً چالیس سال تک ہم دارالعلوم کی خدمت کرتے رہے، حضرت مولانا قدس سرہ نے متعدد عہدے سنبھالے، میں نے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا، میں صرف پڑھاتا رہا؛ مگر میں مولانا کے ساتھ اُن کے کاموں میں شریک رہا، جب وہ شیخ الہند اکیڈمی کے ڈائریکٹر بنے تو میں نے اپنے برادر حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری کے ساتھ مل کر، حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی ”ادلہٴ کاملہ“ کی تسہیل کی، جسے مولانا نے شیخ الہند اکیڈمی سے شائع کیا، پھر مولانا کے اشارے پر میں نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر حضرت شیخ الہند کی ”ایضاح الادلہ“ تیار کی، وہ بھی اکیڈمی سے شائع ہوئی، یہ دونوں کتابیں اکیڈمی کااہم کارنامہ قرار پائیں۔

پھر جب دارالعلوم میں انقلاب آیا تو حضرت مولانا ”رسالہ دارالعلوم“ کے ایڈیٹر بنائے گئے، اس میں میرا کوئی حصہ نہیں تھا؛ کیوں کہ وہ خود بڑے ادیب تھے، میری معاونت کی ضرورت نہیں تھی؛ مگر جب وہ ناظمِ تعلیمات بنائے گئے تو میں نے قدم قدم پر اُن کا ساتھ دیا؛ اس لیے ان کو قریب سے پڑھنے کا موقع ملا، میرے نزدیک ان کا امتیازی وصف اخلاص اور صاف دلی تھا، ان کے دل میں کسی سے بیر نہیں تھا، وہ کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے تھے، ہر ایک کے حق میں وہ خیر چاہتے تھے اور اسی وصف کی وجہ سے اُن کو جو کام دارالعلوم سپرد کرتا تھا بحسن وخوبی انجام دیتے تھے، چیئرمین حضرت مولانا محمد عثمان صاحب (نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند) ان کے حق میں فرمایا کرتے تھے:

”ریاست ایسا پرذہ ہے، جس کو جہاں فٹ کردو فٹ ہوجاتا ہے۔“

حالاں کہ منتظم سے عام طور سے لوگوں کو شکایت ہوتی ہے؛ مگر حضرت مولانا قدس سرہ سے کسی کو شکایت نہیں ہوتی تھی۔ میرے خیال میں اس کی وجہ ان کی صاف دلی تھی، ہزار خوبیوں سے بڑھ کر یہ خوبی تھی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرتِ عامہ تامہ فرمائیں اور ان کو بلند درجات عطا فرمائیں!

—————————————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8-9، جلد:101 ‏،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء

Related Posts