از: حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی مدظلہ
نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند
حضرت مولانا ریاست علی صاحب رحمة اللہ علیہ، دنیا سے اچانک رخصت ہوگئے اور ایسے وقت میں جب کہ دارالعلوم کو ان کی ضرورت تھی اور ان کی بیماری کے باوجود بہ ظاہر ایسا اندیشہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح چلے جائیں گے۔ اُن کی وفات سے طبیعت آج تک متاثر ہے، ایسا اثر شاید ہی کسی اور حادثے کا ہوا ہو اور اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ دارالعلوم کے لیے مفید تر شخصیت تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے، انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد دارالعلوم کے لیے ان سے زیادہ مفید کسی کو نہیں پایا، وہ کسی بھی ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر دارالعلوم کے حق میں سوچتے تھے؛ بلکہ اپنی ذات کو نقصان پہنچاکر دارالعلوم کے مفاد میں مشورہ دیتے تھے۔ گذشتہ پینتیس چالیس سال کے عرصہ پر نظر ڈال کر سوچا جائے تو یاد آتا ہے کہ ہر آڑے وقت میں، دارالعلوم کے سب سے زیادہ وہی کام آئے اور سہارا بنے۔
ان کی ایک عجیب خصوصیت یہ تھی کہ اگر ان سے کسی شخص کی شکایت کی جاتی تووہ اس شخص کو اس طرح افہام وتفہیم کرتے کہ نہ اس کو شکایت کرنے والے سے بدگمان ہونے کا موقع ملتا اورنہ اپنی غلطی سے انکار کی مجال ہوتی۔ اس طرح بہت آسانی سے غلطی کی اصلاح بھی ہوجاتی اور ماحول میں کسی بدگمانی اور دوری پیدا ہونے کا امکان بھی نہ رہتا۔
یہ تو دارالعلوم کے معاملات میں ان کے مثالی طرزِعمل کا خلاصہ ہے، اس کے علاوہ ذاتی اوصاف میں ان کی خوش اخلاقی، وسعتِ ظرفی، مہمان نوازی اور غریب پروری سے تو ہر خاص وعام واقف ہے۔ جو شخص بھی اُن کے پاس آجائے اس کی پریشانی دور کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے۔ اگر ضرورت ہوتو سفارش کردیتے تھے، اگر کوئی اور پریشانی یا مالی ضرورت ہوتو ہر حال میں مدد کرتے تھے، اُن کی اور ان کی اہلیہ مرحومہ کی داد ودہش اور غریب پروری سے، دیوبند کے مردوزن اور خاص وعام سب واقف اور اس کے معترف ہیں (اہلیہ مرحومہ شاید اس وصفِ خاص میں اور فائق تھیں) بسا اوقات کسی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے قرض بھی لیا کرتے تھے، خود مجھے بعض مرتبہ فون کرکے فرمایاکہ فلاں آدمی کو اتنی رقم قرض چاہیے اور امید یہ ہے کہ ادا کردے گا اور اگر آپ کو اس پراعتماد نہ ہوتو آپ مجھے قرض دے دیں، میں اس کو دے دوں گا اور ادائیگی میرے ذمہ ہوگی۔
مولانا مرحوم کے ان اوصافِ حسنہ کایہ اثر ہے کہ ان کے جانے کے بعد ہر شخص ان کا ذکرِ خیر کررہا ہے اور ان کو تعریف کے ساتھ ہی یاد کرتا ہے۔ اور ان کے انھی اوصاف اور خاص طور پر دارالعلوم کے لیے ان کی افادیت واخلاص کا نتیجہ ہے کہ ہماری طبیعت ان کے حادثہٴ وفات سے بہت متاثر ہے۔ اللہ رب العزت ان کی حسنات قبول فرمائے اور اپنے قربِ خاص سے نوازے۔آمین!
—————————————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8-9، جلد:101 ،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء