از: حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم
مہتمم دارالعلوم دیوبند
یہ مضمون ۲۸/شعبان ۱۴۳۸ھ مطابق ۲۵/مئی ۲۰۱۷/ بروز جمعرات، جمعیة علماء ہند کی جانب سے ”مسجد عبدالنبی“ نئی دہلی میں منعقدہ تعزیتی اجلاس کی صدارتی تقریر پر مبنی ہے |
حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمة اللہ علیہ کی مختلف خصوصیات اور ان کے اوصاف وکمالات کو مختلف حضرات نے تحریراً یا تقریراً اپنے اپنے انداز سے بیان کیا ہے اور کررہے ہیں۔ ان سب کا اعتراف کرتے ہوئے، میں نے جو خصوصیات اپنے طورپر محسوس کی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
حضرت مولانا مجھ سے سینئر تھے؛ مگر ہم استاذ تھے یعنی حضرت مولانا سیدفخرالدین احمد مرادآبادی رحمة اللہ علیہ سے ان کو شرفِ تلمذ اور خصوصی تعلق حاصل تھا اور حضرت ان کے اوپر بہت اعتماد فرماتے تھے اور ”ایضاح البخاری“ کی ترتیب اسی اعتماد کا نتیجہ تھی، اور اس ناکارہ کو بھی حضرت مولانا فخرالدین احمد مرادآبادی رحمة اللہ علیہ سے شاگردی کا تعلق رہا اور حضرت کا اعتماد بھی حاصل رہا اور بندے نے بھی مکمل بخاری شریف کی تقریر حرف بحرف لکھنے کی کوشش کی جو محفوظ ہے، میں نے محسوس کیا کہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب رحمة اللہ علیہ نے جو کئی سال تک مسلسل درس کی سماعت کی ہے اور بار بار اسباق کو نوٹ کیا ہے پھر مرتب کرنے کے بعد حضرت رحمة اللہ علیہ کو سنایا ہے تو درحقیقت حضرت مولانا فخرالدین صاحب رحمة اللہ علیہ کے درسِ بخاری کی جوخصوصیات تھیں، ان سب کو اس کے اندر منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔
عام علماء کے لیے عمومی طو رپر اور حضرت مولانا فخرالدین صاحب رحمة اللہ علیہ کے تلامذہ جن کو آج کہیں درسِ بخاری یادرسِ حدیث کی سعادت حاصل ہے، ان کے لیے خاص طور پر ”ایضاح البخاری“ ایک بہت بڑا سرمایہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب رحمة اللہ علیہ کے علمی کارناموں میں اگر کوئی اور چیز نہ ہوتی تو تنہا ایضاح البخاری کی ترتیب ان کو بقائے دوام دینے کے لیے کافی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی وہ سلسلہ جاری ہے،دس جلدیں اس کی مکمل ہوچکی ہیں اور یہ سفراِتمام کی جانب رواں دواں ہے، اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل کی شکلیں پیدا فرمائے۔
علمی کمالات وخصوصیات کے علاوہ، مزاج اور اخلاق کے اعتبار سے مولانا کی زندہ دلی اور خوش مزاجی ایک نمایاں خصوصیت تھی، جس سے ان کا ہر ملنے والا واقف ہے، مجھے رسمی طالب علمی کے بعد سے اس ذمہ داری کے آنے تک اور اس کے بعد مجلسِ تعلیمی میں بار بار ملاقات کا موقع ملا؛ لیکن مولانا کو کبھی عَبُوسًا قمطریرًا نہیں دیکھا، کہ چہرے پر مُردنی چھائی ہوئی ہو، پیشانی پر بل پڑا ہوا ہو، چہرہ سرخ ہورہا ہو، کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا، ہمیشہ مسکراتے ہوئے پایا، ان کی جامع ومختصر گفتگو زندہ دلی اور خوش مزاجی کا پورا پورا مظہر ہوتی تھی۔ اسی کے ساتھ گفتگو میں برجستگی ہوتی تھی، کوئی بات ہوئی فوراً دو لفظوں میں اس کا جواب اور جس طرح پھلجھڑی چھوٹ جاتی ہے، مجلس کے اندر مولانا کی وہ مختصر سی بات سب کے اوپر بھاری ہوجاتی تھی، گفتگو میں بھی سادگی اور مزاج میں بھی سادگی ان کا امتیاز تھی۔
غور وفکر کے بعد جو رائے قائم کرلیتے اس کے اوپر پختہ رہتے، فوراً رائے بھی نہیں دیتے تھے، اگر کوئی مسئلہ، مجلسِ تعلیمی میں یا اساتذہ کے مشورے میں زیرغور ہوتا، حضرت سب کی باتیں خاموشی سے سنتے رہتے اور غور کرتے رہتے تھے، اگر کوئی بات سمجھنے کی ہوتی توسوال کرلیتے؛ لیکن رائے اخیر میں دیتے تھے، جب پوچھا جاتا کہ حضرت آپ کی کیا رائے ہے؟ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ پورے مجمع کی رائے ایک طرف رہ گئی ہے اور مولانا ریاست علی صاحب نے جو رائے اخیر میں پیش کی وہ سب کے اوپر حاوی ہوگئی اور اسی کے مطابق فیصلہ ہوا۔
ایک خاص بات یہ تھی کہ اختلافِ رائے میں بھی حدود پر قائم رہتے تھے، یہ بڑی اہم بات تھی۔ علماء کے درمیان مسائل میں اختلاف کوئی اہم بات نہیں ہے، ائمہ کے درمیان بے شمار مسائل میں اختلاف ہے، یہاں تک کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب رحمة اللہ علیہ نے تو صرف نماز میں تکبیرِ تحریمہ سے سلام تک ائمہ کے اختلافی مسائل شمار کیے تو وہ دوسو کے قریب تھے۔ تو نفسِ اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے، ہاں اختلاف اخلاص کے ساتھ اور دلائل کی بنیاد پر ہونا چاہیے اور اس کی حدود ملحوظ رہنی چاہئیں، نفسانیت نہیں آنی چاہیے۔ اس مضمون کو حضرت شیخ الحدیث کی کتاب ”الاعتدال فی مراتبِ الرجال“ اور حضرت فقیہ الامت مفتی محمودحسن صاحب گنگوہی کی کتاب ”حدوداختلاف“ میں دیکھنا چاہیے۔ مدارس میں علماء کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے؛ لیکن وہ اس وقت زحمت بن جاتاہے، جب اس کو حدود میں نہ رکھا جائے اور اس کا جو طریقہ ہے اسے نظرانداز کردیا جائے۔ مولانا کے یہاں بھی اختلاف رائے ہوتا تھا؛ لیکن بڑی سنجیدگی کے ساتھ۔
مولانا کی ایک خاص صفت، چھوٹوں سے کام لینا اور ان کی ہمت افزائی کرنا تھا، اپنے تلامذہ اور اہلِ تعلق کو ”بیٹے“ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ اگر ان کے پاس کوئی اپنا کام لے کر گیا اوراس میں کچھ کمی کوتاہی بھی ہے تو فوراً نکیر نہیں؛ بلکہ بہت اچھا ماشاء اللہ اچھا کام کیا؛ لیکن اس کو ایسے کرلو تو بہتر ہے۔ اس طرح اس کی اصلاح بھی ہوجاتی اور حوصلہ افزائی بھی۔
مولانا کی یہ شفقت ومحبت اور خوش مزاجی زندگی کی آخری رات تک برقرار رہی؛ بلاشبہ ان کی یہ صفات قابلِ تقلید ہیں جنھیں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے اور دارالعلوم کو اُن کا نعم البدل عطا فرمائے!
—————————————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8-9، جلد:101 ،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء