استاذ محترم حضرت مولانا شیخ عبدالحق اعظمی رحمہ اللہ کی وفات پر، شیخ المشائخ حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی دامت برکاتہم نے، حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کے نام تعزیتی خط تحریر فرمایا، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہاہے۔

باسمہٖ تعالیٰ

اللہ، اللہ، اللہ

من فقیر

حال و دارد مکہ مکرمہ

محترم المقام، واجب الاحترام حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم العالیہ

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ چند دن پہلے احباب میں سے کسی نے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمة اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات کی اطلاع دی۔ فقیر نے ان کے بلندیِ درجات کے لیے حرم شریف میں خوب خوب دعائیں کیں۔ الحمدللہ، جب عزیز القدر، عزیز المقام حضرت مولانا سلمان بجنوری صاحب سے ملاقات ہوئی تو دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ چند الفاظ سپردقلم کرکے آپ کی خدمت عالیہ میں بھی پیش کردیے جائیں۔ اگرچہ فقیر کی کوئی حیثیت نہیں ہے؛ تاہم اکابر علمائے دیوبند کے نام لیواؤں میں تو شامل ہے۔ بقول شخصے

نہ شگوفہ ام، نہ برگم، نہ ثمر، نہ سایہ دارم

ہمہ حیرتم کہ دہقاں، بہ چہ کار کشت مارا

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اللہ کے نیک بندے اپنے انوار وبرکات سمیت جس تیزی سے اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں یہ جگہ ظلمات سے بھر رہی ہے شیاطین اس خلا کو پُر کررہے ہیں، یوں لگتا ہے کہ یہ کمینی دنیا اپنے انجام کو پہنچا چاہتی ہے۔ ایسے حالات میں جب حضرت شیخ الحدیث کی رحلت کی خبر ملی تو دل میں خیال پیدا ہوا              ع

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

یہ بات قابل طمانیت ہے کہ مرحوم نے اپنی زندگی کے تقریباً ستر سال حدیث مبارکہ کی خدمت میں گزارے۔ اپنے متعلقین ومحبین کے دلوں میں بہت اچھی یادیں چھوڑ گئے۔ بقول شخصے         ع

کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں

صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

مرحوم اپنے محبوب حقیقی کے پاس چلے گئے۔ نفس اور شیطان کے مکر سے مامون ہوگئے۔ ان کی موت نے ایک دوست کو دوسرے دوست سے ملادیا۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب․

ہم  نے  اپنے  اکابر  سے  یہ سنا ہے کہ

من احب لقاء اللہ احب اللہ لقائہ․

انسان دنیا میں جتنی لمبی زندگی گزارلے بالآخر ایک دن راہی عدم تو ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد․

حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:

عِشْ ما شئت فانک میت واحبب من شئت فانک مفارقہ

یہ دنیا فنا کے داغ سے داغدار ہے۔ ہر جی کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کل نفس ذائقة الموت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ فقیر اس غم کے موقع پر یہ عرض کرتا ہے کہ

انا للہ وانا الیہ راجعون․ اللّٰھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ․

دارالعلوم کے اساتذہٴ کرام اور طلبا کو اس موقع پر صحابہ کرام کی قلبی کیفیت کو یاد کرکے اپنا غم برداشت کرنا آسان ہوگا کہ صحابہ کرام کو بنی علیہ السلام کی جدائی برداشت کرنا پڑی۔

اصبر لکل  مصیبة  و تجلد                واعلم بان المرء غیر مخلد

فاذا اتتک مصیبة یشجی بھا                فاذکر مصابک بالنبی محمد

ایک بوڑھا اعرابی زندگی موت کی کشمکش کے لمحات میں تھا۔ کسی عزیز نے کہا تمہیں تھوڑی دیر میں موت آجائے گی۔ بوڑھے نے کہا کہ میں مرکر کس کے پاس جاؤں گا۔ عزیز نے کہا: اللہ تعالیٰ کے پاس، بوڑھے نے کہا :کوئی فکر کی بات نہیں، وہ ماں باپ سے زیادہ محبت کرنے والا پروردگار ہے۔ بقول

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی

میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں

فقیر کو یقین ہے کہ مرحوم اپنے رب کے پاس پہنچ کر خوش ہوں گے اور زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوں گے۔

یا لیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی وجعلنی من المکرمین․

اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبر کے ساتھ اس حادثہ کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور زندگی کے بقیہ لمحات شریعت وسنت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

انھیں دیکھنے کی جو لو لگی تو فقیر دیکھ ہی لیں گے ہم

وہ ہزار آنکھ سے دور ہوں وہ ہزار پردہ نشیں سہی

سر طور ہو سر حشر ہو ہمیں انتظار قبول ہے

وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

دعا گو ودعا جو                                                                                                                                                 

فقیر ذوالفقار احمد نقشبندی

کان اللہ لہ عوضا عن کل شیٴ

۲/۱/۲۰۱۷/                                                                                                                                                              

مکہ مکرمہ                                                                                                                                                       

$$$

———————————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء

Related Posts