آہ! شیخ عبدالحق الاعظمی قدس سرہٗ ۱۳۴۷-۱۴۳۸ھ/۱۹۲۸-۲۰۱۶ء شیخ الحدیث دارالعلوم دیو بند

از: مفتی محمد شاکرصاحب قاسمی مدنی (داماد حضرت والا رحمة اللہ علیہ)

استاذ مدرسہ بیت العلوم،سرائے میر، اعظم گڈھ

دیرسے بیٹھا ہوں ہاتھوں میں لیے اپنے قلم

کیا لکھوں، کیسے لکھوں، دل پر ہے طاری شامِ غم

عالی مرتبت ، عالی صفات ، عالی مقام، نمونہ اسلاف ، فنا فی الله، زہد فی الدنیا کے عملی پیکر، جامع کمالات وصفات حمیدہ، استاذ الاساتذہ، حضرت شیخ الحدیث، بندہٴ ناچیز کے خسر حضرت اقدس مولانا عبدالحق صاحب اعظمی نورالله مرقدہ، شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند ۳۰/ربیع الاول کے اختتام اور یکم ربیع الثانی کے آغاز ۱۴۳۸ھ مطابق ۳۰/ دسمبر ۲۰۱۶ء بروز جمعہ بعد نماز مغرب تقریباً سات بجے دیوبند کے مشہور ڈاکٹرڈی، کے، جین کے اسپتال میں اپنے تمام متعلقین کو روتا بلکتا چھوڑ کر مولائے حقیقی سے جاملے۔ ﴿إنَّا لِلہِ وَإنَّا إلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾،”إنَّ لِلہِ مَا أَخَذَ، وَلَہ‘ مَا أَعْطٰی، وَکُلُّ شَيْءٍ عِنْدَہ‘ بِأَجَلٍ مُسَمّٰی، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ“۔

موت وحیات کا فلسفہ درحقیقت خالق کائنات کی قدرت کاملہ کے اظہار اور بندوں کی عاجزی کا غماز ہے، اسی سے مخلوقِ خدا کا فانی ہونا ثابت ہوتا ہے، خواہ وہ اپنے مقام ومرتبہ اور جاہ ومنصب میں کتنا ہی بڑا ہو، بہرصورت اس کو قضاوقدر کا فیصلہ قبول کرنا ہی ہے، اس دنیا میں جو بھی آنکھیں کھولتا ہے، وہ ایک نہ ایک دن بند بھی ضرور کرتا ہے، خدائی اعلان ہے: ”کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ“ (ہرنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے) ،یہ روزانہ کا معمول ہے نہ جانے کتنے لوگ ہرروز اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور دوسروں کی زندگی معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے ؛لیکن جو لوگ حق شناس، خداترس اور عالم باعمل ہوتے ہیں، ان کی رحلت پر اپنوں کے ساتھ زمانہ بھی روتا ہے، زمین روتی ہے، آسمان روتا ہے، حضرت شیخ علیہ الرحمہ کے انتقال پر ملال پر ہرکوئی زبانِ حال سے کہہ رہا ہے : ۔              

اے خطہٴ فردوس کے راہی تو پلٹ آ

رحلت پہ تری غلغلہٴ آہ و فغاں ہے

ذیل میں حضرت والا علیہ الرحمہ کے کچھ حالات ان کی خود نوشت کی مدد سے سپردِ قرطاس کیے جاتے ہیں:

نام ونسب: شیخ عبدالحق بن محمد عمر بن کریم بخش بن محمد علی۔

خاندان:آپ خاندانی طور پر شیخ برادری سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے آباء واجداد شیرازِہند ضلع جونپور کے موضع ظفرآباد سے ہجرت کرکے اعظم گڈھ کے موضع ”بسہی اقبال پور“ آئے ، پھر وہاں سے ضلع اعظم گڈھ کے مشہور قصبہ ”پھولپور“ سے متصل موضع ”جگدیش پور“ آئے اور یہیں سکونت اختیار کرلی۔

ولادت: ۶/رجب المرجب ۱۳۵۱ھ (بحوالہ خودنوشت ؛لیکن خودنوشت کی دیگر مندرجات اور معاصرین کے بقول، نیز انگریزی سنہ ۱۹۲۸ء کی وجہ سے آپ کا ہجری سنہ پیدائش ۱۳۴۷ھ ہی صحیح معلوم ہوتا ہے) مطابق ۱۷/دسمبر ۱۹۲۸ء بروز دوشنبہ آپ کی پیدائش ہوئی۔

جائے پیدائش: ضلع اعظم گڈھ کے جن علاقوں نے علم وعمل کی دنیا میں اپنا نام روشن کیا، ان میں سرِفہرست آپ کی جائے پیدائش ”جگدیش پور“ کا نام نامی بھی ہے، اس سر زمین سے بہت سے نامور علماء ، صلحاء اور اہم شخصیات اٹھیں،اور دنیا کو اپنے علمی وروحانی فیضان سے سیراب کرگئیں، نیز اس سرزمین سے اٹھنے والی تین اہم شخصیات کا بیک وقت ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں اعلیٰ مناصب پر فائز ہونا بھی اس کاطرہٴ امتیاز ہے: (۱) حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمة الله علیہ (شیخ الحدیث )۔ (۲) حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب مدظلہ العالی (استاذ حدیث)۔ (۳)حضرت مولانا قاری ابوالحسن صاحب مدظلہ العالی (سابق صدرالقراء)۔

نشو ونما: آپ نے اپنے والد صاحب رحمة الله علیہ کے سایہٴ عاطفت میں اپنی زندگی کی ابھی چھ (۶) بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ یتیم ہوگئے، تربیت واصلاح اور پرورش ونگہداشت کی ساری ذمہ داری والدہ محترمہ کے سر آپڑی، جس کو وہ بحسن وخوبی انجام دیتی رہیں، بعد میں آپ کی والدہ کا نکاح آپ کے پھوپھی زاد بھائی چودہویں صدی ہجری کے چند نامور علمائے کرام میں سے ایک بڑے عالم، حضرت مولانا ماجد علی صاحب جونپوری رحمہ الله کے شاگرد خاص، جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا ابوالحسن محمد مسلم صاحب نورالله مرقدہ‘ شیخ الحدیث دارالعلوم مئو وشیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڈھ سے ہوگیا، اور انھوں نے آپ کو اپنے زیر عاطفت پوری توجہ کے ساتھ تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کیا، حضرت والا رحمة اللہ علیہ باربار ان کا تذکرہ فرماتے کہ میں جو کچھ بھی ہوں، الله کی رحمت کے بعد حضرت مولانا محمد مسلم صاحب کی تعلیم وتربیت ہی کا اثر ہے۔

حضرت کے بھائی بہن:حضرت کے والد ماجد جناب محمد عمر صاحب علیہ الرحمہ کا پہلا عقد موضع راجہ پور سکرور میں ماموں کی لڑکی سے ہوا ، ان سے ایک لڑکی زہریٰ پیدا ہوئیں، پھر دوسرا عقد موضع مسلم پٹی میں ہوا، ان سے بھی ایک لڑکی زہیرا پیدا ہوئیں، تیسرا عقد موضع کشنی پور متصل مہوارہ میں ہوا، ان سے دو لڑکے عبدالقادر اور عبدالعلی اور ایک لڑکی زبیدہ پیدا ہوئیں، چوتھا عقد جگدیش پور (گاوٴں ہی )میں ہوا، جو حضرت کی والدہ تھیں، ان سے تین لڑکیاں: محمودہ، سیدہ، زاہدہ اور ایک لڑکے عبدالحق (حضرت والا رحمة اللہ علیہ) پیدا ہوئے، محمودہ سب سے بڑی تھیں، سیدہ اور زاہدہ حضرت سے چھوٹی تھیں۔

ابتدائی تعلیم: دیہاتی ماحول کے مطابق حضرت والانے بھی تعلیم کا آغاز گاوٴں کے مکتب ”مدرسہ امدادالعلوم“ سے فرمایا اور جناب حافظ محمد حنیف صاحب رحمة الله علیہ (والد ماجد استاذ القراء حضرت مولانا قاری ابوالحسن صاحب اعظمی سابق صدر القراء دارالعلوم دیوبند) سے ناظرہ قرآن کریم اور معمولی ابتدائی اردو کی تعلیم حاصل کی۔

بیت العلوم میں داخلہ:حضرت والا تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے علاقہ کے مشہور دینی ادارہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڈھ میں یکم ربیع الثانی ۱۳۶۶ھ (بحوالہ رجسٹر داخلہ مدرسہ بیت العلوم ، اور بحوالہ خود نوشت ۱۳۶۵ھ میں) داخلہ لیا، اور عارف بالله شیخ طریقت حضرت مولانا محمد سجاد صاحب رحمة الله علیہ سے سیرت خاتم الانبیاء ، صفائی معاملات، پندنامہ، تیسرالمبتدی، گلزاردبستاں، پنج گنج، علم الصیغہ، نورالایضاح، نحومیر، شرح مأة عامل، ہدایة النحو،کافیہ ، قدوری اور شرح وقایہ وغیرہ کتابیں اور حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب رحمة الله علیہ سے آمدنامہ، فارسی کی پہلی، گلستاں باب ششم، میزان منشعب، مالابدمنہ، منتخب النفائس، شرح جامی بحث اسم وفعل ، سراجی اور تلخیص المفتاح وغیرہ اور حضرت مولانا محمد سعید صاحب رحمة الله علیہ نائب ناظم سے فارسی کی دوسری اور اخلاق محسنی وغیرہ ، اور حضرت مولانا فیض الرحمن صاحب ندوی رحمة الله علیہ سے بقیہ گلستاں، بوستاں مکمل، اور مفتاح القواعد، جناب ماسٹر عین الحق صاحب سے حساب، سفینہٴ اردواور رحمتِ عالم وغیرہ کتابیں ، ۱۸/ شعبان ۱۳۷۱ھ تک پانچ سال چار ماہ کی مدت میں پڑھیں، مدرسہ میں اساتذہ کے نورنظر اور ممتاز طلبہ میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔

دارالعلوم مئو میں داخلہ:اوپر گذرچکا ہے کہ آپ کے والد صاحب کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد آپ کی تعلیمی اور اخلاقی تربیت کے ذمہ دار جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا محمد مسلم صاحب رحمة الله علیہ تھے، جو مدرسہ دارالعلوم مئو میں شیخ الحدیث تھے، انھوں نے مزید تعلیمی سلسلہ کو اپنی نگرانی میں آگے جاری رکھنے کے لیے دارالعلوم مئو میں بلالیا، چنانچہ ۱۳۷۲ھ (خودنوشت کے مطابق ۱۳۷۱ھ) میں دارالعلوم مئو میں داخلہ لے کر متعدد عبقری علمی شخصیات کے چشمہٴ علم وعمل سے خوب خوب سیراب ہوئے ، اس زمانہ میں آپ نے اپنے مشفق مربی جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا محمد مسلم صاحب جون پوری رحمة الله علیہ سے کبریٰ، ایسا غوجی، تہذیب، شرح تہذیب، مرقات، قطبی، سلّم العلوم، ملّاحسن، ہدیہ سعیدیہ، میبذی، مسلم الثبوت، حمدالله، شمس بازغہ اورہدایہ جلد اوّل وثالث ورابع ودیگر کتب معقولات ومنقولات پڑھیں، اور حضرت مولانامفتی نظام الدین صاحب علیہ الرحمہ (جو بعد میں دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی ہوئے)سے ہدایہ ثانی اور سراجی، حضرت مولانا قاری ریاست علی صاحب بحری آبادی غازی پوری رحمة الله علیہ (جوبڑے قاری صاحب کے نام سے مشہور تھے) سے مقامات حریری اور جلالین شریف، حضرت مولانا محمد امین صاحب سے مشکوٰة شریف، حضرت مولانا حکیم منظور احمد صاحب رحمة الله علیہ نائب ناظم سے نورالانوار اور حضرت مولانا محمد مصطفی صاحب رحمة الله علیہ سے خلاصة البیان وغیرہ کتابیں پڑھیں۔

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ:ازہرہند مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے علم وعمل کے بحرناپیدا کنار سے علمی غواصی اور عالمی علمی وروحانی شخصیات سے نورنبوت کوحاصل کرنے کے لیے حضرت والا نے ۵/شوال المکرم ۱۳۷۳ھ کو سرزمین علم وعمل دیوبند کے لیے رختِ سفر باندھا اور دارالعلوم دیوبند میں دورہٴ حدیث شریف میں داخلہ لے کر شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی نورالله مرقدہ سے صحیح بخاری اور جامع ترمذی، حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی رحمة الله علیہ سے صحیح مسلم ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزازعلی صاحب امروہوی رحمة الله علیہ سے سنن ابی داوٴد اور شمائل ترمذی، حضرت مولانا فخرالحسن صاحب رحمة الله علیہ سے سنن نسائی ، موطاامام مالک اور شرح معانی الآثار، حضرت مولانا ظہور احمد صاحب سے سنن ابن ماجہ اور حضرت مولانا محمدجلیل صاحب سے موطا امام محمد پڑھیں، دارالعلوم دیوبند میں بھی اساتذہ کے نورنظر رہے، چنانچہ ۲۸/شعبان ۱۳۷۴ھ کو شیخ الاسلام حضرت مدنی علیہ الرحمہ کے ہمراہ وطن مالوف واپسی ہوئی، حضرت مدنی علیہ الرحمہ ”اکبرپور“ اترگئے اور آپ شاہ گنج تک آکر جگدیش پور تشریف لائے۔

مختلف مشائخ سے اجازت حدیث: دارالعلوم دیوبند کے دورہ حدیث شریف کے تمام اساتذہ کے علاوہ آپ کو مندرجہ ذیل حضرات سے بھی اجازت حدیث حاصل ہے۔

(۱) شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی علیہ الرحمہ سے صحاح ستہ اور مسلسلات کی اجازت۔

(۲) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب علیہ الرحمہ مہتمم دارالعلوم دیوبند سے مسلسلات کی اجازت۔

(۳) ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب محدث اعظمی علیہ الرحمہ سے مکہ مکرمہ میں صحاح ستہ اور اوائل سنبل کی اجازت۔

(۴) حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند سے تین مرتبہ حدیث کی اجازت حاصل ہے۔

تدریسی سرگرمیاں: رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد ”بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْآیَةً“ پر عمل کرتے ہوئے آپ نے خالص درس وتدریس کے میدان میں قدم رکھا اور کسب معاش کے لیے تجارت وغیرہ کسی ذریعہ کو کبھی آزمایا تک نہیں، خود فرمایا کرتے تھے کہ ”میں نے اپنی زندگی میں تدریس کے علاوہ کوئی دوسرا مشغلہ نہیں اپنایا، اور میری خواہش ہے کہ اسی طرح پڑھتے پڑھاتے محبوب حقیقی سے جاملوں“، چنانچہ الله ربّ العزت نے آپ کی دعا حرف بحرف قبول فرمائی اور مختلف اعذار وامراض کے باوجود آپ نے کبھی درس کو ترک نہیں فرمایا اور طلبہ سے فرمایا تھا کہ سنیچر کو درس دوں گا؛ لیکن جمعہ ہی کو داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے راہی ملک بقا ہوگئے، الله اپنی شایانِ شان بہتر سے بہتر بدلہ عنایت فرمائے۔

شیخ الحدیث مطلع العلوم بنارس: جب آپ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد وطن مالوف تشریف لائے، تو ارباب مطلع العلوم بنارس کی نگاہِ انتخاب آپ پر پڑی اور محرم۱۳۷۵ھ میں بحیثیت شیخ الحدیث آپ کی تقرری ہوئی، بخاری شریف کے علاوہ کئی اور اہم کتابوں کا درس آپ سے متعلق تھا، دوسال یہاں درس دینے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اراکین کے نہ چاہتے ہوئے آپ نے استعفا دے دیا اور دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ تشریف لے گئے، مگر ندوہ جانے کے بعد معلوم ہواکہ پڑھی ہوئی کتابیں دوبارہ پڑھنی ہیں اور ماحول بھی راس نہ آنے کی وجہ سے ندوہ کی تعلیم ترک فرمادی، اربابِ مطلع العلوم بنارس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے ہی اصرار کے ساتھ چھ ماہ بعد دوبارہ بحیثیت صدرالمدرسین آپ کو واپس لے آئے۔

اسی زمانہ میں بنارس میں حضرت کے پیٹ کا آپریشن ہوا، اور سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، مسلسل پچیس روز تک داخل اسپتال رہے، استاذ گرامی قدر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی جگدیش پوری مدظلہ العالی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند (جو اس وقت مطلع العلوم بنارس میں حضرت سے شرح جامی وغیرہ پڑھتے تھے) خدمت میں بیس بائیس روز تک رہے، نہانے اور کپڑے بدلنے کے لیے بھی وہاں سے نہ ہٹے، بقول حضرت ”عزیزی مولوی حبیب الرحمن سلّمہ نے پوری خدمت کی“۔ (خود نوشت)

شیخ الحدیث مدرسہ حسینیہ بہار: ماہِ ذی الحجہ ۱۳۸۲ھ میں بغرض تبدیلی آب وہوا رخصت لے کر صوبہ بہار (جھار کھنڈ) کے ضلع گریڈیہہ کے موضع ”کول ڈیہا“ کے مدرسہ حسینیہ تشریف لے گئے اور وہ وہاں نوماہ تک علمی لعل وجواہر لٹائے، پھر شعبان ۱۳۸۳ھ میں تعطیل کلاں کے موقع پر جب وطن مالوف تشریف لائے تو اربابِ مطلع العلوم بنارس پھر بڑے ہی اصرار کے ساتھ مطلع العلوم واپس لے گئے۔

شیخ الحدیث دارالعلوم مئو: غالباً ۱۳۸۸ھ ماہِ شوال المکرم مطابق ۱۹۶۹ء میں اربابِ دارالعلوم مئو کے سخت اصرار کی بناء پر مطلع العلوم بنارس سے ایک سال کی رخصت لے کر دارالعلوم مئو میں بحیثیت شیخ الحدیث ، صدرالمدرسین اور ناظم کتب خانہ تشریف لے گئے، پھر ۱۳۸۹ھ میں حضرت مولانا قاری ریاست علی صاحب کے انتقال کے بعد صدرالمدرسین بنائے گئے، دارالعلوم مئو میں آپ سے متعلق بخاری شریف مکمل، ترمذی شریف مکمل، ہدایہ ثالث اور دیگر فنون کی اہم کتابوں کے درس کے علاوہ دارالافتاء کی ذمہ داری بھی آپ ہی کے ذمہ تھی، تیرہ ہزار سے زائد سوالات کے جواب آپ نے تحریر فرمائے، آپ کے فتاویٰ عموماً مفصل اور مدلل ہوتے تھے، اور بڑی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، تقریباً ۱۴ سال آپ مئو کو اپنے علمی فیضان سے سیراب کرتے رہے، اہل مئو آپ سے قابل رشک تعلق رکھتے تھے ، جو وفات تک برقرار رہا۔

شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند: ۱۴۰۲ھ میں بخاری شریف کے درس کے لیے اراکین شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی نظر انتخاب حضرت والا پر پڑی، چنانچہ دارالعلوم کے لیے فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی علیہ الرحمہ نے براہ راست درخواست کی، پھر اربابِ شوریٰ نے آپ کے نام خط بھی بھیجا، جب دارالعلوم مئو کے ذمہ داران کو یہ خبر ملی تو بے چین ہوگئے اور آپ کو روکنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی، تین مرتبہ جگدیش پور وفد آیا، ایک مرتبہ موقع پاکر آپ کی والدہ کو سمجھایا کہ آپ کو دیوبند جانے سے منع فرمادیں؛ کیوں کہ مئو قریب ہے، ہرہفتہ آپ سے ملاقات ہوجاتی تھی، اگر دیوبند چلے گئے، تو کئی کئی مہینہ بعد گھر واپس آئیں گے، چنانچہ آپ کی والدہ نے سختی سے منع کردیا، لیکن آپ نے اپنی والدہ سے فرمایا کہ میں وعدہ کرچکا ہوں، اگر نہیں گیا، تو وعدہ خلافی اور بڑی بدنامی ہوگی، تو آپ کی والدہ نے اجازت مرحمت فرمائی اور آپ ۹/ذی قعدہ ۱۴۰۲ھ سے دارالعلوم دیوبند میں استاذ حدیث وفقہ وتفسیر مقرر ہوئے، پہلے سال بخاری شریف جلدثانی ، ہدایہ ثالث، موطأامام مالک، مشکوٰة شریف جلدثانی، نخبة الفکر، الاشباہ والنظائر اور تفسیر مظہری کا سبق آپ سے متعلق رہا، اور ”شیخ ثانی“ کے نام سے اس طرح مشہور و معروف ہوئے کہ اسی نام سے آپ علمی دنیا میں جانے اور پہچانے جاتے تھے۔

پھر ۱۴۰۳ھ میں دارالعلوم مئو کے ناظم اعلیٰ صاحب دیگر ارکان مدرسہ کے ساتھ دیوبند تشریف لے گئے اور حضرت کو واپس لانے کے لیے ارباب دارالعلوم دیوبند سے بڑی کوشش کی اور حضرت بھی ایک مدت تک مئو میں رہنے کی وجہ سے انس کی وجہ سے واپس جانا چاہتے تھے، لیکن دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران کسی طرح واپس بھیجنے پر راضی نہ ہوئے، پھر آپ مسلسل ۱۴۰۲ھ سے ۱۴۳۸ھ تک دارالعلوم میں پوری آب وتاب کے ساتھ درس دیتے رہے اور اپنی خواہش کے مطابق خاکِ دیوبند کے پیوند بن گئے۔

وسعت مطالعہ وقوت حافظہ: حضرت بلاکے ذہین اور قوی الحافظہ نیز وسیع مطالعہ کے مالک تھے، استاذ گرامی حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مدظلہ العالی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں کہ ”میں نے دوبجے رات سے پہلے کبھی سوتے ہوئے نہیں دیکھا، جب دیکھو کتاب کے مطالعہ میں غرق رہتے تھے“، آپ کو مختلف کتابوں کی عبارتیں زبانی یاد تھیں اور بوقت ضرورت بالفاظہ پڑھ جاتے تھے، چنانچہ اس کی ایک جھلک ایک واقعہ سے دکھانا چاہوں گا ، ایک مرتبہ آپ کے صاحبزادے مولانا عبدالبرصاحب تراویح پڑھارہے تھے، مقتدیوں میں حضرت والا کے ساتھ یہ ناچیز بھی تھا، دورانِ تلاوت سورہٴ انعام کی آیت نمبر(۱۰۰)”وَجَعَلُوْا لِلہِ شُرَکَاءَ الْجِنَّ“ میں لفظ ”الجنّ“ کو نون کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ، چوں کہ ناچیز حافظ نہیں ہے؛ اس لیے سلام پھیرنے کے بعد کہا کہ ”الجنّ“ شاید نون کے فتحہ کے ساتھ ہے، قرآن پاک میں دیکھ لیں، کسی اور نے تائید کی، تومولانا عبدالبرصاحب نے کہا کہ ہاں، ”جَعَلُوا“ کا مفعول ثانی ہے، اور ناچیز نے کہا کہ ”شُرَکاءَ“ سے بدل ہے، حضرت والا نے خاموشی سے سن کر فرمایا: سامنے الماری سے جلالین نکالو! صاحب جلالین نے دونوں وجہ لکھی ہے، جلالین نکال کر دیکھا، تو دونوں احتمال ذکر تھا، ہم لوگوں کے تعجب کی انتہا نہ رہی کہ تقریباً ۵۰ سال قبل جلالین کا آپ نے درس دیا تھا، اور ابھی تک آپ کے حافظہ میں یہ بات محفوظ تھی۔

علمی کارنامے: حضرت والا کو قدرت نے لکھنے کا بہترین سلیقہ عنایت فرمایا تھا، چنانچہ تیرہ ہزار سوالات (جو سب افتاء سے متعلق تھے)کے جواب میں یہ بات خوب واضح نظر آئی ہے، آپ کے جواب فقہی انداز میں مفصل اور مدلل ہوا کرتے تھے، آپ کے یہ فتاویٰ جناب مولانا عبیدالله شمیم صاحب قاسمی زیدمجدہ‘ (داماد حضرت والا) مرتب کررہے ہیں، ابھی دارالعلوم مئو کے ذمہ داران سے معلوم ہوا کہ دارالعلوم مئو میں اور فتاوے ہیں، الله ربّ العزت جلد ازجلد مکمل طبع ہونے کی صورت پیدا فرمائے ، اسی طرح حضرت والا کو اپنے مربی جامع المنقول والمعقول حضرت مولانا محمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ سے ”شرح تہذیب“ کے متن ”تہذیب“ کا آخری حصہ جو فن کلام سے متعلق ہے اس کا مخطوطہ ملاتھا، اور کبھی طبع نہیں ہوا تھا ، حضرت اس کی تحقیق کی بڑی خواہش رکھتے تھے، لیکن مختلف امراض اور مشغولیوں کی وجہ سے موقع نہیں مل رہا تھا تو بندہ کواپنی نگرانی میں اس کی تحقیق کا مکلف کیا اور الحمدلله ۱۴۳۱ھ مطابق ۲۰۱۰ء میں تصنیف سے تقریباً ۵۰۰سال بعد بنام تہذیب الکلام طبع ہوئی، حضرت بہت ہی خوش ہوئے کہ میری خواہش پوری ہوئی، بہت ساری دعاوٴں سے نوازا اور تمام اساتذہٴ دارالعلوم دیوبند اور عالمی علمی شخصیات کو ہدیہ میں پیش کیا، اسی طرح صحیح بخاری کے حاشیہ پر قیمتی نوٹس اور جامع ترمذی اور شمائل ترمذی کے حل کے لیے عمدہ تعلیقات بھی آپ کے قلم سے وجود میں آئیں، الله تعالیٰ طبع ہونے کی کوئی شکل پیدا فرمائیں،ان تمام کے علاوہ آپ کے لاتعداد شاگرد بھی علمی کارنامے میں شمار ہوں گے جو پوری دنیا میں قال الله و قال الرسول کی صدا بلند کررہے ہیں۔

اعظم گڈھ کے سب سے پہلے قاضی: حضرت والا رحمة الله علیہ نے باقاعدہ افتاء و قضا کے نصاب کو نہیں پڑھا تھا، لیکن اپنی خداداد صلاحیت اور یگانہٴ روزگار اساتذہٴ کرام سے خصوصی استفادہ کی وجہ سے ہرفن میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے ، نیز آپ کے اساتذہ کو آپ پر مکمل اعتماد بھی تھا، چنانچہ اس زمانہ میں آپ کے علاقہ میں کوئی محکمہٴ شرعیہ یا دارالقضاء نہیں تھا، جس کی وجہ سے پیچیدہ مسائل کے حل میں کافی دشواریوں کا سامنا تھا، انھیں مسائل میں سے مفقودالخبر (جس عورت کا شوہرلاپتہ ہوجائے، اس کے نکاح کو باقی رکھنے) کا مسئلہ تھا، مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اور حضرت والا علیہ الرحمہ کے استاذ خاص شیخ طریقت حضرت مولانا محمد سجاد صاحب رحمة الله علیہ اس بارے میں کافی فکر مند تھے، چنانچہ اس مسئلہ کے حل کے لیے مدرسہ ہذا کے سالانہ جلسہ میں حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام صاحب رحمة اللہ علیہ کو دعوتِ شرکت دی؛ لیکن کسی وجہ سے وہ شریک نہ ہوسکے، دوسرے سال پھر دعوت دی اور مدرسہ ہذا کے لائق وفائق سپوت حضرت مولانا محمد اقبال صاحب سیوانی رحمة اللہ علیہ بانی مدرسہ سراج العلوم تیلہٹہ سیوان کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ قاضی صاحب کو جلسہ میں لے کر آئیں، چنانچہ قاضی صاحب تشریف لے آئے اور نکاح وطلاق کے موضوع پر عمدہ تقریر فرمائی، پھر خصوصی مجلس میں حضرت مولانا سجاد صاحب رحمة الله علیہ وغیرہ نے مفقودالخبروغیرہ مسائل کے حل کے لیے قاضی صاحب کے سامنے تجویز پیش کی، تو انھوں نے فرمایا: ایک دارالقضاء بنایا جائے، اس کے کچھ ممبران ہوں، اور قاضی آپ (مولانا سجاد صاحبؒ) ہوں گے؛ لیکن آپ نے اس عہدے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار فرمادیا، پھر اتفاق رائے سے آپ کے شاگرد خاص حضرت والا علیہ الرحمہ کو قاضی بنایا گیا ،اور حضرت مولانا سجاد صاحب ،حضرت مولانا افتخار احمد صاحب جگدیش پوری (استاذ و نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم، سرائے میر، و شیخ الحدیث دارالعلوم مئو، و جامع العلوم کانپور، و مفتاح العلوم بھیونڈی) اورحضرت مولانا محمد ادریس صاحب سرائے میری رحمہم الله اس کمیٹی کے ممبر بنائے گئے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ خطہٴ اعظم گڈھ میں سب سے پہلے قاضی حضرت والا رحمة اللہ علیہ ہی تھے۔

وعظ و خطابت: حضرت والا گونا گوں خصوصیات کے ساتھ فن خطابت پر بھی قدرتِ تامہ رکھتے تھے، آپ کے اندر ایک اچھے واعظ اور ماہر ومشاق خطیب کے جملہ اوصاف موجود تھے، درس وتدریس کے زمانہٴ آغاز سے مجالس وعظ وتذکیر میں جلوہ آرا نظر آتے تھے، ایک ایک رات میں کئی کئی جلسوں میں شرکت فرماتے، اور رات کی نیند وآرام کو قربان کرکے تھکن اور تھکاوٹ کے باوجود الله کے بندوں تک الله کے دین کو پہونچانے کے لیے ”فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ“اور”بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَةً“ پر کمال درجہ عمل پیرا تھے۔

آپ کے وعظ میں عجیب جاذبیت اور کشش ہوتی تھی، کوئی آپ کے وعظ میں تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا تھا کیونکہ آپ کا کلام ”کَلِّمِ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ“ کی مثال ہوا کرتا تھا، یعنی اگر مجمع میں عوام ہوتے تو آپ بالکل عام فہم گفتگو فرماتے تاکہ ہرشخص بآسانی سمجھ سکے، لیکن اگر اہل علم کی مجلس ہوتی تو آپ کے خطاب کا رنگ کچھ اور ہی ہوتا ، خالص علمی اور تحقیقی گفتگو فرماتے، جس سے آپ کے وسیع مطالعہ کا پتہ چلتا تھا۔

غیر مسلمین کا قبول اسلام: حضرت والا اپنے اوصاف وکمالات کو حد درجہ پوشیدہ رکھتے تھے، اپنے کچھ حالات کو ایک ڈائری میں آپ نے لکھ رکھا تھا؛ لیکن وہ ڈائری کسی کو دیکھنے نہیں دیتے تھے، حتیٰ کہ گھروالوں سے بھی چھپاکر رکھتے تھے ، حضرت والا کی رحلت کے بعد جب وہ ڈائری ہم لوگوں نے دیکھی تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہر یانہ، مظفرنگر، میرٹھ، چندی گڑھ، مہاراشٹر، گورکھپور، غازی آباد، بڑہل گنج، بنارس ، مئو اور اعظم گڈھ وغیرہ مختلف جگہوں کے تقریباً پچاس غیرمسلمین آپ کے دست حق پرست پر مشرف باسلام ہوئے،ان کے علاوہ اور حضرات بھی ہیں، جن کا نام درج نہیں، ان شاء الله یہی لوگ آپ کی نجات اور بلندیٴ درجات کے لیے کافی ہیں۔

نمایاں خصوصیات: حضرت ولاتو جلالتِ شان ، علومرتبت ، فہم وفراست ، عظمت وعبقریت، زہدوتقویٰ اور علم وعمل کا پیکر مجسم تھے، اسی وجہ سے ان کے مداحوں اور ثناخوانوں کی ایک قطار نظر آتی ہے، ہرایک سچے دل سے ان کے تفوق کا قائل تھا، جو بھی ملتا گرویدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا، ہرکوئی ان کا شیفتہ و دلدادہ تھا، اور یہ سمجھتا تھا کہ حضرت سب سے زیادہ مجھ سے محبت کا تعلق فرماتے ہیں، اپنے تمام شاگردوں کو حقیقی اولاد کی طرح بہتر مشورہ دیتے، ان کے پڑھانے کے لیے مناسب جگہوں کا انتخاب فرماتے، گرچہ قدرت کی فیاضی نے آپ کو بہت سی خصوصیات سے مالامال فرمایا تھا، لیکن ان تمام اوصاف میں حضرت کا مستجاب الدعوات ہونا ظاہر و باہر ہے ، اور دوسری بڑی خصوصیت جس میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں وہ ناچیز کے علم کے مطابق یہ ہے کہ ہندوستان میں مسندالہند حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی سے لے کر آج تک آپ کے علاوہ کوئی دوسرا بخاری شریف کا اتنے لمبے زمانہ تک درس دینے والا نہیں ملتا، چنانچہ آپ نے مسلسل ۶۶ سال تک اس اہم کتاب کا درس دیا۔

سادگی:آپ کی زندگی میں کوئی تکلف نہیں تھا، سادگی میں آپ کی مثال دی جاتی تھی، دنیاوی ٹھاٹ باٹ اور مصنوعی وضع سے دور کابھی واسطہ نہیں تھا، عیش نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں، بڑے بڑے مہمانوں کے لیے عام چادر ہی بچھی رہتی تھی، حضرت کے حجرہ کی زینت یہ شعر توہراس شخص کو یاد ہوگا جس نے بھی آپ کے کمرہ کی زیارت کی ہوگی۔

ہم غریبوں کی یہی ہے کائنات                       بوریا حاضر ہے شاہوں کے لیے

بیعت و سلوک:حضرت والا اپنے استاذ گرامی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نورالله مرقدہ‘ سے تعلیم کے ساتھ ساتھ روحانی اور تربیتی رہنمائی لیتے رہے اور بعد میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاصاحب کاندھلوی مہاجر مدنی نورالله مرقدہ‘ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور انھیں کے زیرتربیت رہ کر سلوک کی بہت سی منزلیں طے کیں۔

حضرت شیخ الاسلام مدنی علیہ الرحمہ کے خلیفہٴ اجل حضرت مولانا محمود صاحب نورالله مرقدہ‘ اور شیخ الحدیث صاحب رحمة الله علیہ کے صاحبزادے جناب مولانا پیر محمد طلحہ صاحب کاندھلوی مدظلہ العالی نے اعزازی خلافت سے سرفراز فرمایا، ان دونوں حضرات کے علاوہ اور حضرات نے بھی اعزازی خلافت سے نوازا تھا، لیکن اس حوالہ سے حضرت والا زیادہ باتیں بتانے سے گریز فرماتے تھے۔لوگوں کو بیعت بہت کم فرماتے تھے، اکثر کسی بزرگ کے یہاں بھیج دیتے تھے، اسی طرح اپنے مریدین میں بہت ہی مخصوص لوگوں کو خلافت سے نوازا ہے۔

متقی ہونے کی یقینی علامت:انسان کے متقی ہونے کی سب سے بڑی علامت یہی ہے کہ خدا کے نیک بندوں کو اس سے محبت ہو، اور عام مسلمانوں کے دل بھی اس کی طرف اس طرح کھنچتے ہوں ،جیسے آہن پارے مقناطیس کی طرف۔ اور ہرانسان کو اس کی صحبت سے انسیت محسوس ہو؛ بلکہ ہرآدمی اس کو اپنا جگری دوست تصور کرتاہو، چنانچہ بخاری شریف (الأدب/ المِقَةُ مِنَ الله /الرقم:۵۸۰۵)میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ جب کسی بندہ سے محبت فرماتے ہیں، تو جبرئیل علیہ السلام سے کہتے ہیں کہ میں فلاں بندہ سے محبت کرتا ہوں، تم بھی کرو، پھر جبرئیل علیہ السلام ملائکہ میں بھی اعلان کردیتے ہیں کہ فلاں بندہ الله کا محبوب ہے، تم لوگ بھی اس سے محبت کرو، پھر دنیا والوں کے دل میں بھی اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے؛ لہٰذاحضرت والا میں یہ وصف بھی بدرجہٴ اتم ہونے کی وجہ سے خدائے کریم کے کرم سے امید کامل ہے کہ وہ اپنی اعلیٰ جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے گا، اور انبیاء، صدیقین ،شہداء اور صالحین کے جوار میں انھیں جگہ دے گااور یہی لوگ بہترین ساتھی ہیں۔

ازواج واولاد: حضرت کا پہلا نکاح بیساں پورہ نورم میں شیخ محمد احمد عرف سکندر صاحب  کی بڑی لڑکی ام الہدیٰ سے ہوا، آپ کی عمر اس وقت س۱۶ سال تھی اور خود نوشت کے مطابق۱۴ -۱۵ سال تھی، ۱۶ سال ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ کیونکہ آپ کا داخلہ مدرسہ بیت العلوم کے رجسٹر کے مطابق بہ عمر۱۴سال ہوا، اور حضرت کی شادی داخلہ کے دو سال بعد (جب آپ مالابد منہ وغیرہ کتابیں پڑھتے تھے) ہوئی تھی۔

حضرت کی اس بیوی سے دو لڑکیاں: سیدہ ، انیسہ اور ایک لڑکے عبدالحکیم پیدا ہوئے، ۴ / محرم الحرام ۱۳۸۳ھ بروز جمعہ بوقت ۹بجے دن آپ کی اہلیہ ام الہدیٰ کا انتقال ہوگیا۔

پھر تقریباً پانچ ماہ بعد دوسرا عقد شمسیہ خاتون بنت مولانا رفیق احمد صاحب موضع ننداوٴں سے ہوا، نکاح مولانا محمد ادریس صاحب نے پڑھایا، یہ نکاح گریڈیہہ کے زمانہ تدریس میں ہوا۔

حضرت کی اس اہلیہ سے ایک بیٹی امة الله اور ایک لڑکے ابوالحسنات عبدالحئی پیدا ہوئے، لڑکے دوسال بعد ۲۱/صفر ۱۳۹۰ھ برور دوشنبہ بوقت ۸بجے شب داغ مفارقت دے کر ذخیرہٴ والدین بن گئے۔

۱۲/جمادی الثانی ۱۳۹۰ھ ایک اور بیٹی ام الخیر پیدا ہوئیں، لیکن ان کی ولادت میں ماں کا انتقال ہوگیا اور ڈیڑھ گھنٹہ بعد ام الخیر بھی اپنی ماں کے ساتھ دارخیر کی طرف کوچ کرگئیں۔

اہلیہ ثانی کے انتقال کے ۶ماہ ۲۳دن بعد ۱۹/محرم الحرام ۱۳۹۱ھ کو آمنہ خاتون بنارسی سے عقد ہوا ،جوکہ راقم الحروف کی خوش دامن ہیں، الله ان کے سایہ کو تادیر صحت وعافیت کے ساتھ باقی رکھے۔

یہ نکاح فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی علیہ الرحمہ نے پڑھایا تھا۔

حضرت کی اس اہلیہ سے سب سے پہلے ایک لڑکی ” امة العزیز“ پیدا ہوئیں اور ۸یوم بعد انتقال کرگئیں ، اس کے بعد ۲۶/شعبان ۱۳۹۳ھ کو ایک لڑکے عبدالبر سچ #اعظمی (تاریخی نام) پیدا ہوئے، جو بہترین حافظ قرآن اور جید الاستعداد عالم ہیں، تقریباً بیس سال سے مختلف علوم وفنون کی دورہ حدیث شریف تک کی کتابوں کا کامیاب درس دے رہے ہیں ، آپ کا درس طلبہ میں بے حد مقبول ہے، حضرت والا علیہ الرحمہ خود ان کے شاگردوں سے پوچھتے تھے کہ عبدالبر کیسا پڑھاتا ہے؟ جب طلبہ کہتے کہ بہت اچھا تو حضرت کہتے صحیح بتاوٴ! پھر طلبہ کہتے حضرت واقعی بہت اچھا درس دیتے ہیں، تو کافی خوش ہوتے اور مزید ترقی کے لیے خوب دعائیں دیتے، الله حضرت والا کی ہر دعاکو قبول فرمائے۔

۲۹/محرم الحرام ۱۳۹۷ھ مطابق ۲۰/جنوری ۱۹۷۷ء بروز جمعرات دوسرے بیٹے عبدالتواب کی پیدائش ہوئی، پھر ۲۴/ذی قعدہ ۱۳۹۹ھ مطابق ۱۳۷۹ھ کو تیسرے بیٹے عبدالمنعم پیدا ہوئے، یہ بھی بہترین حافظ قرآن اور باصلاحیت عالم ہیں۔

۱۴۰۲ھ ماہ رمضان جمعة الوداع مطابق ۱۹۸۲ء کو چوتھے بیٹے عبدالمتعال کی پیدائش ہوئی اور ۲۷/محرم الحرام ۱۴۰۴ھ مطابق ۴/نومبر ۱۹۸۳ء بروز شنبہ پانچویں بیٹے عبدالمقتدر کی پیدائش ہوئی، اس کے بعد ۸/ذی قعدہ ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۶/جولائی ۱۹۸۶ء بروز بدھ دوسری بیٹی احمدی امة الحق پیدا ہوئیں اور یکم ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ مطابق ۱۹۸۸ء کو تیسری بیٹی محمدی امة الرحمن پیدا ہوئیں ، اس کے بعد ۳/جمادی الاولیٰ ۱۴۱۱ھ مطابق ۲۱/ نومبر۱۹۹۰ء بروز جمعرات آخری بیٹے محمد احمد کی پیدائش ہوئی۔

اس طرح حضرت کی اولاد کی کل تعداد پندرہ ہے ،جن میں آٹھ بیٹے اور سات بیٹیاں ہیں، جن میں سے اس وقت سات بیٹے اور پانچ بیٹیاں بقید حیات ہیں ، الله ہر ایک کو صحت وسلامتی سے رکھے اور اپنے والد کے لیے صدقہٴ جاریہ بنائے۔ (آمین)

مرض الوفات:زندگی کا سفر خواہ کتنا ہی طویل ہوجائے آخرش ایک دن موت کی دہلیز پر پہونچ کر ختم ہوجاتا ہے، زندگی فانی ہے اور فناہی اس کا مقدر ہے، بس موت کوئی بہانہ ڈھونڈتی ہے اور موقع پاتے ہی اپنا لقمہ بنالیتی ہے، چنانچہ حضرت والا تو بہت دنوں سے ضعیفی کے ساتھ معمولی امراض سے گھِرے ہوئے تھے، رات میں طبیعت میں کچھ گرانی محسوس ہوئی اورکئی مرتبہ قے بھی ہوئی، جس کی وجہ سے کافی کمزوری ہوگئی، ہاتھ پیر کام نہیں کررہے تھے ، جمعہ کی نماز کا وقت ہوا تو خادم (مولوی ابوبکر قاسمی ومولوی انعام الحق قاسمی جزاہما اللہ خیر الجزاء) سے فرمایا کہ مسجد لے چلو، ان لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کس طرح نماز پڑھیں گے، بہت کمزوری ہے، فرمایاکہ لیٹ کر بھی تو نماز پڑھ سکتے ہیں، مسجد میں مجھے لٹادو اور پیر قبلہ کی طرف کردو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ نے جماعت کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کی اور حالت عذر میں جماعت کے ساتھ نماز کا عملی نمونہ بھی پیش فرماگئے، عصر سے قبل طبیعت مزید بگڑتی نظر آئی تو لوگ ڈاکٹر کے پاس لے گئے، چیک اپ وغیرہ کے بعد ڈاکٹر نے کہا کوئی تشویش کی بات نہیں ، سب نارمل ہے، حضرت ہوش وحواس میں قرآن پاک کی تلاوت سماعت فرما رہے تھے، فرمایا کہ مجھے بیٹھادو، پھر فرمایا کہ اب لٹادو، اور نہایت ہی خاموشی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے، اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی، کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ حضرت نہیں رہے، یہ کہنا تھاکہ پوری دنیا میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی، ہندوپاک اور بنگلہ دیش وغیرہ دیگر کئی ممالک میں کہرام مچ گیا، حضرت والا تو رخصت ہوگئے، لیکن وہ زبانوں ، دلوں اور تذکروں میں زندہ ہیں، آنکھوں سے اوجھل ہونے کے باوجود ان کی یاد ایک امت کو رُلارہی ہے اور بے چین کیے ہوئے ہے، وہ ذات جو گاوٴں ،شہراور مختلف محفلوں کی نورتھی، جودینی اداروں اور علمی درسگاہوں اور روحانی مجلسوں کی آبرو تھی ، جو حضور میں تھی، اب وہ غیاب میں ہے، سب اسے ڈھونڈ رہے ہیں اور باربار یہ کہہ رہے ہیں۔ #

تیرے بغیر رونق دیوار و در کہاں                   شام و سحر کا نام ہے شام و سحر کہاں

لیکن ہم نے سنا نہیں شاید وہ زبان حال سے یہی کہتے ہوئے رخصت ہوئے ہیں:

ملنے کو نہیں؛ نایاب ہیں ہم

اور جب کوئی نایاب چیز کھوجائے تو حزن وملال اور رنج والم کا ہونا فطری بات ہے، اور اسی فطرت کی ترجمانی جگر مرادآبادی کے اس شعر میں نظر آتی ہے۔ #

جان کر من جملہ خاصانِ میخانہ مجھے                                مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

نماز جنازہ اور تدفین: انتقال کے بعد آپ کا جسدخاکی احاطہ مولسری دارالعلوم دیوبند لایا گیا، حضرت کے چار صاحبزادے، راقم الحروف اور مولانا عبیدالله شمیم صاحب اعظم گڈھ میں تھے اور جنازہ میں شرکت کے لیے بذریعہٴ کار گھر سے نکل چکے تھے؛ اس لیے ذمہ دارانِ دارالعلوم کی طرف سے دوسرے دن بعد نماز ِظہر نمازجنازہ کا اعلان کیا گیا، حضرت کے اولیاء کی طرف سے آپ کے استاذ خاص شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نورالله مرقدہ‘ کے جانشین، استاذ گرامی قدر حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی گئی، عصر کی اذان سے پانچ منٹ پہلے (۵۵-۳پر) نماز جنازہ اداکی گئی، دارالعلوم دیوبند واطراف کے مدارس میں امتحانِ ششماہی کی تعطیل کے باوجود نماز جنازہ میں ایک جم غفیر (ایک اندازہ کے مطابق تیس ہزار لوگوں) نے روتے ہوئے شرکت کی۔

لوگوں کے ازدحام کی وجہ سے بڑی مشکل سے راقم الحروف تھوڑی دیر کاندھا دے سکا، عشاق کے کاندھوں پر آپ کو علماء وصلحاء کے مدفن ”مزارِقاسمی “ لے جایا گیا، آپ کے صاحبزادے عبدالمتعال ومولانا عبیدالله شمیم (داماد) ومولوی ابوبکر وانعام الحق (خادم خاص) کی مدد سے راقم الحروف اور مولانا عبدالبرصاحب نے آپ کی آخری آرام گاہ میں سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے ”مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْرَی“ پڑھ کر قبلہ رو لٹادیا، اور آپ اپنی دیرینہ خواہش کے مطابق اپنے استاذ گرامی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نورالله مرقدہ‘ کی آرام گاہ کے مقابل مشرقی جانب چند گز کے فاصلے پر محوِخواب ہوگئے،” یَا أیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِيْ إلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیّْةً۔ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبَادِيْ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ“۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے             حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے

حضرت والا اپنے رب کریم وغفور کی جوار رحمت میں جاچکے ہیں ، ان کی زندگی بھر کی حسنات، نماز جنازہ میں علماء وصلحاء کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، ملک وبیرون ملک ان کے لیے استغفار وایصال ثواب کے اہتمام اور لاتعداد لوگوں کی طرف سے آپ کے لیے عمرہ کی ادائیگی کے سبب قوی امید ہے کہ وہ اپنی جنت نشاں قبر میں جنت کے مزے لے رہے ہوں گے، اولاد اور تلامذہ کی شکل میں جو صدقہ جاریہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں ، اس پر ملنے والا اجر ان سب پر مستزاد رفع درجات کا ذریعہ ثابت ہوگا، ان شاء الله۔

اللّھُمّ اغْفِرْ لَہُ، وَارْحَمْہُ، وَعافِہ، وَاعْفُ عنْہُ، وَأکْرِمْ نُزُلَہُ، وَوَسِّعْ مَدْخَلَہُ، وَاغْسِلْہُ بِالمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ، وَنَقِّہِ مِنَ الخَطَایَا کمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ۔آمیْن۔

$$$

———————————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء

Related Posts