خطیب العصر حضرت مولانا سیدعبدالمجید ندیم شاہؒ کی حیات و خدمات

از: غازی عبدالرحمن قاسمی

لیکچرار،گورنمنٹ ولایت حسین اسلامیہ ڈگری کالج ملتان

جب سے یہ دنیا معرض وجو د میں آئی ہے تب سے آمد وروانگی کے سلسلے جاری ہیں، جو ذی روح بھی اس فانی دنیا میں آیا ایک دن وہ رخصت ہوگیا اور دو چار دنوں کے بعد اس کا تذکرہ ختم ہوگیا؛مگر کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنی خدمات اور قربانیوں کی بدولت عوام وخواص کے حلقوں میں مدتوں زندہ رہتی ہیں اور اگر ان کی تصنیفات یا خطابات محفوظ ہوں تو پھر یہ سلسلہ نسل درنسل چلتاہے ۔ایسی ہی شخصیات میں ایک نمایاں ترین ہستی خطیب العصر مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ  کی تھی ۔

آپ  ۱۹۴۱ء کو پیدا ہوئے ،سید غلام سرور ابن سید غلام حیدر کے اکلوتے فرزندتھے جو حضرت سید حبیب سلطان کی اولاد میں سے ہیں جن کا مرقد ضلع لورا لائی (کوہ سلیمان)میں ہے۔ ۷سال کی عمر قرآن پا ک حفظ کیا اور فارسی نظم اور صرف کے ابتدائی مراحل مولانا عبدالحق صاحب فاضل دیوبند کے ہاں طے کیے۔ جو حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیر ی،حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی  اور حضرت مولانا بدر عالم کے فیض یافتہ تلمیذ تھے ۔اس کے علاوہ مختلف دینی مدارس، ڈیرہ اسماعیل خان ،لاہور ،کراچی میں تعلیمی عرصہ گزارااور دورہ حدیث قاضی شمس الدین  سے گوجرانوالہ میں پڑھا تکمیل وتخصیص کے آخری دوسال حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری  کے ہاں جامعہ العلوم الاسلامیہ بنور ی ٹاؤن میں گزارے ۔۱۹۶۰ء میں فراغت کے بعد کچھ عرصہ کراچی میں رہے، ۱۹۶۴ء میں عملی زندگی میں قدم رکھا اور حضرت مولانا مفتی محمود  کے فکر سے وابستہ ہوئے اوران کی رفاقت میں قدم آگے بڑھائے ۔

امت مسلمہ  کی ایک امتیازی خصوصی دعوت دین کی ذمہ داری ہے ۔چنانچہ ہردور میں اہل علم نے اس فریضہ کو سرانجام دیا اوررائج الوقت مختلف اسالیب و طرق سے اس عظیم کام کے سلسلہ کو آگے بڑھایا ۔حضرت شاہ صاحب  نے بھی دعوت وتبلیغ کے میدان میں قدم رکھا وطن عزیز پاکستان کے طول وعرض میں دعوت حق لے کر گئے اور بعدازاں بیرون ممالک کے متعدد اسفارکیے اور وہاں بھی اس مقدس فریضہ کو ادا کیا بالخصوص دارالعلوم دیوبند اور جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں بھی خطابت کا موقع ملا ۔آپ کی خطابت کے تقریبا ۵۵ سال بنتے ہیں اس عرصہ میں آپ  نے مختلف عنوانات اور موضوعات پر محققانہ وعالمانہ گفتگو کی تاہم جن موضوعات پر آپ  نے سب سے زیادہ گفتگو کی وہ تو حید ورسالت ،مسئلہ ختم نبوت ،عظمت اصحاب و اہل بیت رسول … اور اصلاح معاشرہ وغیرہ ہیں ۔

آپ سے پہلے بھی بہت سے خطیب گزرے جن میں نمایاں ترین شخصیات شامل ہیں بالخصوص سید عطاء اللہ شاہ بخاری  اور مولانا ابو الکلام آزاد کی خطابت کے حوالے تو آج تک مذہبی لوگوں کے علاوہ خالصتاً سیاسی معاملات پر لکھنے اور بولنے والے صحافی بھی دیتے ہیں ۔آپ  کے ہم عصر خطباء میں بھی قابل ذکر شخصیات گزری ہیں جن میں مولانا ضیاء القاسمی ،مولانا سلیمان طارق، مولانا عبدالحئی عابد،علامہ احسان الٰہی ظہیر،مولانا حبیب الرحمن یزدانی،سید شبیر حسین حافظ آبادی سمیت اور بھی کافی شخصیات ہیں جن کا اختصار کے پیش نظر ذکر حذ ف کیا جاتاہے؛مگر جوانداز اور طریق کار آپ کی خطابت کا تھا وہ بے مثال تھا یہی وجہ ہے کہ مولانا ضیا ء القاسمی اور مولانا حبیب الرحمن یزدانی اور مولانا سلیمان طارق کی نقل کرنے والے جن کو مہذب اصطلاح میں”ثانی قاسمی، ثانی طارق،ثانی یزدانی“کہا جا تاہے ۔بہت سارے لوگ مل جائیں گے ،مگر شاہ صاحب کی بعینہ نقل اور کاپی کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کسی نے آپ کے طرز پر قرآن پاک پڑھنے کی مشق وکوشش کی بھی ہے تو وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوا ۔آپ کا دوران خطابت جو اسلوب ہوتا تھا مختصرا اس کا تذکرہ کیاجاتاہے ۔

۱-  نہایت خوبصورت آواز میں عربی خطبہ پڑھتے اور موضوع کی مناسبت سے آیات تلاوت فرماتے اور اس قدر خوبصورت اور شیریں آواز میں پڑھتے تھے کہ طبیعت اک عجیب سا انبساط اور سرور محسوس کرتی ۔اور گفتگو سے قبل ہی مجمع کی نبضیں آپ کی گرفت میں ہوتی تھیں۔ آپ کی کوئی بھی تقریر سن لی جائے تو اس کا اندازہ کیا جاسکتاہے ۔کیونکہ بعض چیزیں ایسی ہیں جو محسوسات کے قبیل سے ہیں جن کو الفاظ کی قید میں بند کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ تحریر اس کا خاکہ تو ضرور واضح کردے گی؛ مگر پوری کیفیت آشکارا نہیں کرسکے گی ۔جیسا کہ کسی خوبصورت چہرہ کی جامع ومانع تعریف نہیں کی جاسکتی ،کسی پھل کے ذائقے کی مٹھاس یا ترشی کو پوری طرح بیان نہیں کیا جاسکتا ،کسی خوشبودار پھول کی بھینی بھینی خوشبو اور لپٹوں کو الفاظ کا سہارا لے کر بالکلیہ سمجھایا نہیں جاسکتا؛بلکہ اس کا مشاہد ہ چکھ کر یا سونگھ کر محسوس کیاجاسکتاہے ۔ اسی طرح آواز کی خوبصورتی اور ترنم لفظوں میں نہیں سماسکتی ہاں اس کیف وسرور کو سن کر محسوس کیا جاسکتاہے۔اور یہ عقیدت پرمبنی رائے نہیں ہے؛ بلکہ حقیقت ہے جس کو شک ہو وہ آپ  کے بیانات سن کر تائید کردے گا۔

۲- خطبہ مسنونہ کے بعد آپ تاریخ اور مقام (شہر،ضلع اور صوبہ)بتلاتے تاکہ ریکارڈنگ میں آجائے اور جب کسی دوسرے علاقہ تک وہ بیان پہنچے تو سامع کو معلوم ہوجائے کہ کب اور کس جگہ خطاب ہوا تھا،بسا اوقات اسٹیج پر جلوہ افروز خواص کے نام بھی لیتے تھے ،مثلا متعدد بیانات میں حضرت خواجہ خان محمد صاحب ،حضرت مولانا عبدالشکور دین پوری  ودیگر اکابر کے نام ریکارڈ شدہ تقاریر میں ملتے ہیں ۔

۳- دوران گفتگو کہیں جلال کا انداز اختیار کرتے مگر اس میں کمال کا یہ پہلو غالب تھا کہ الفاظ کی صحت وادائیگی اوراتارچڑھاؤ کا بھر پور خیال رکھتے تھے اور اس وقت سامع اپنی رگوں میں خون دوڑتا محسوس کرتا ۔ تو کہیں جمال کا حسن دکھاتے اور ترنم سے کلمات اور جملے ادا کرتے جس سے سامع کو دلچسپی مزید بڑھتی اور موقع ومحل کی مناسبت سے اشعار کو بھی بڑی مخصوص مترنم آواز میں پڑھتے کہ طبیعتیں وجد محسوس کرتیں ۔

۴- قابل اصلاح وجماعت کا صریح تذکرہ کیے بغیر الفاظ کنایہ کا سہارا لیتے ہوئے ”نقد“ کرتے تھے ۔مثلا بدعات ورسومات میں مبتلاکرنے والے کے لیے ”عجم کا بیمار“کہتے اور جن باتوں کی تردید آپ ضروری سمجھتے تھے ان کا برملا اظہار فرماتے تھے؛ مگر اس میں بھی حکمت ودانائی کا عنصر کار فرما ہوتا تھا؛ تاکہ بات سنورنے کی بجائے بگڑ نہ جائے ۔ایک دفعہ پنجاب کے ایک مشہور خطیب جواللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، ایک زمانہ تھا جب ان کا طوطی بولتا تھا، جب بعض معاملات کی وجہ سے جن کے ذکر کا یہ موقع نہیں ہے وہ ایک بڑی جماعت کی رکنیت سے دور ہوئے تو آپ  نے دوران تقریر ایک شعر پڑھ کر اس کی طرف اشارہ کیا ۔

چمن میں رہنے والوں سے ہم صحرانشین اچھے

بہار آ کر  چلی  جاتی  ہے  ویرانی  نہیں  جاتی

جواس واقعہ سے باخبر تھے وہ فورا ًشعر کے پس منظر کو سمجھ گئے ۔

۵- ہر بیان میں اس بات پر زور دیتے کہ آج جتنے بھی غلط کام ہورہے ہیں یہ سب جہالت کا نتیجہ ہیں اگر قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے توواضح معلوم ہوگا کہ قرآن کریم نے جہالت کی تاریکیوں کو نورہدایت کی روشنیوں سے مٹا ڈالا ،چنانچہ مختلف معاشرتی برائیوں کا پس منظر، اسباب بیان کر نے کے بعد پھر قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اس کا تدراک بیان کرتے ۔اس ضمن میں ”سورة یوسف “پرکیاگیاخطاب اگر سن لیا جائے تو اس نکتہ کو سمجھنا مزید آسان ہوگا ۔اور اسی طرح ”اصحاب کہف “کے واقعہ سے جو نتائج نکالے ہیں وہ بھی بہت عمدہ فوائد کے حامل ہیں،بہت سے نئے نکات اور معلومات سامنے آتی ہیں ۔

۶- چونکہ آپ  نے یورپ وایشیاء کے متعدد اسفارکیے تھے؛ اس لیے وہاں دوران مشاہدہ جو حالات ،واقعات سامنے آتے ان کو بھی اپنی تقریر میں بیان کرتے اور بتلاتے آج مغرب کی اس بیماری کا علاج صدیوں پہلے قرآن کریم نے بیان کردیا تھا ۔

۷-آپ کے خطبات میں ”پیغام حق وصداقت “ جوغالباً ۱۹۸۰یا ۱۹۸۱ء میں انڈیا میں ہونے والے خطابات کا مجموعہ ہے، نہایت علم وحکمت کا مجموعہ ہیں جن میں ادبیت ،طرز استدلال اور گفتگو میں باہمی ربط وہ خصوصیات ہیں جو دیگر معاصر علماء کے خطبات سے ممتاز کرتی ہیں۔ ہندوستان کے معروف عالم دین ومفتی حضرت مولانا سید عبدالرحیم لاجپوری  نے جب گجرات، ہندوستان میں پہلی مرتبہ آپ کا بیان سنا تو عش عش کراٹھے ان کی رائے انہی کے الفاظ میں ذکر کی جاتی ہے۔

مفتی صاحب  لکھتے ہیں :

”موصوف کا بیان بڑا ہی پراثر ہے ،انداز دلنشین ایسا کہ مخاطب کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور پورا مجمع ان کی گرفت میں ہوتاہے ،آیات قرآنی کی تلاوت اس قدر پرسوز لہجے میں کرتے ہیں کہ قلوب وجد کرتے ہیں اور اکثر سامعین کی خواہش ہوتی ہے کہ آپ صرف قرآن ہی کی تلاوت کرتے رہیں ،طرز استدلال بڑالطیف اورفرق باطلہ کی دکھتی رگ پکڑ کر خوب اصلاح فرماتے ہیں ،روافض و اہل بدعت کے امراض جلی وخفی کا موثر علاج کرتے ہیں آپ کا بیان احقاق حق وابطال باطل کا خوب صورت نمونہ ہوتاہے ۔“(پیغام حق وصداقت ،خطابات و مقالات)

۸- شاہ صاحب نے از خود جو اصول طے کررکھے تھے ان پر سختی سے کاربند تھے ،مثلا تقریر کے لیے اگر دن کا وقت ہے تو رات کو بیان نہیں کرتے تھے اور جوتاریخ طے ہوگئی اس کے پابند تھے ،آج سے تقریبا پینتیس سال پرانا واقعہ ہے جامعہ قاسم العلوم فقیروالی کے سالانہ جلسہ میں تشریف لائے ،عشا ء کے بعد بیان ہونا تھا؛مگر مولانا سلیمان طارق کی تقریر بارہ بجے کے قریب ختم ہوئی، اسٹیج پر شاہ صاحب کا اعلان ہوا؛مگر آ پ نے اسٹیج پر آنے سے صاف انکار کردیا کہ آپ نے جس دن کی تاریخ لی تھی وہ بارہ بجے کے بعد تبدیل ہوگئی ہے لہٰذا خطاب نہیں ہوگا ،بہت سے لوگوں نے منانے کی کوشش کی؛ مگر آپ اپنے موقف پر اٹل رہے ۔

احقرحضرت شاہ صاحب کے متعدد بیانات کیسٹوں کے ذریعے سن چکا تھا؛مگر پہلی مرتبہ بالمشافہ غالبا ۲۹مارچ ۱۹۹۸ء کو جامعہ مدینة العلوم ڈاہرانولہ ،مولانا قاری اجمل صاحب کے مدرسہ میں سننے کا اتفاق ہوا ،اس وقت آپ کی داڑھی کالی تھی درمیان سے کچھ بال سفید تھے ،تقریبا تین گھٹنے آپ کا خطاب ہوا بہت ہی عمدہ انداز میں آپ  نے گفتگو فرمائی اس دن شاید گلہ کچھ متاثر تھا ؛مگر اس کے باوجود ترنم میں خاص فرق نہیں تھا ۔

دوسری مرتبہ براہ راست آپ کو سننے کااتفاق ۴اپریل ۲۰۰۳ء میں دفتر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کی جامع مسجد میں ہوا ۔حضرت شاہ صاحب  نے جمعہ پڑھایا جس میں احقر اور مولانا ارشد فاروقی (فقیروالی ،ضلع بہاولنگر )اور والد محترم حضرت مولانا محمد قاسم قاسمی ،مہتمم جامعہ قاسم العلوم فقیرالی ضلع بہا ولنگر بھی شریک تھے ۔اور مجمع کا ایک جم غفر شریک تھا ہم لوگ تو قبل از قت جاکر پہلی صفوں پر بیٹھ گئے بعد میں آنے والوں کو اندر مسجد کے ہال میں جگہ نہیں ملی ،شاہ صاحب کا وہ خطاب آج تک ذہن میں گھو م رہا ہے سفید داڑھی ،ہاتھ میں چھڑی اور کھڑے ہوئے کر سوا گھنٹہ کے قریب خطاب کیا اور”قل یا اھل الکتاب تعالو الی کلمة سواء الخ“ آیات اس قدر بلند آواز اورمخصوص انداز ترنم میں پڑھیں کہ وہ کیفیت جب سوچتاہوں تو عجیب وجد کی حالت طاری ہوجاتی ہے اور ا س تقریر میں اشعار بھی ترنم سے آپ  نے کافی پڑھے تھے اور امریکہ کی افعانستا ن پر بربریت اور ظلم وستم پر جو منظر کشی کی کوئی آنکھ نہیں تھی جو نم نہ ہو ،خیرالبیان نزد جامعہ خیرالمدارس ملتان نے اس کی ریکارڈنگ کی تھی، شاید اب بھی اس کے پاس محفوظ ہو حقیقتاً یہ عالم اسلام کے عظیم خطیب کا عظیم الشان بیان تھا ۔احقر کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ جمعہ کے بعد آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنی کتاب ”خطابات ومقالات“ پر چند اشعار اور اس کے بعد دستخط فرما کر وہ نسخہ مجھے عنایت فرمایا جو میرے پا س محفوظ ہے ۔

آپ کی کتاب” خطابات ومقالات“ پر حضرت خواجہ خان محمد صاحب کندیاں شریف اور قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ کی قیمتی آرا ء ہیں ۔اس کتاب کے شروع میں آپ کے مختصر حالات بیان ہوئے ہیں اور اس کے بعد سولہ بیانات ہیں جن میں ،مفاتیح الغیب،صراط مستقیم ،تفسیر سورہٴ یوسف،پیغام قرآن اور دیگر اہم بیانات ہیں ۔

اسی کتاب سے آپ کی تقر یردلپذیر، خطاب لاجواب اور تفہیم کے چند نمونے مختصراً نقل کیے جاتے ہیں ۔ایک مرتبہ پیرس میں کسی عرب نوجوان نے آپ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کر کہا: ”أی شئی فی یدک“ آپ کے ہاتھ میں کیاہے؟آپ نے جواب دیا: ”ھی مذکرة“ جب میں بھول جاتا ہوں تو یہ ذکر الٰہی اور درود شریف کی یاد دلاتی ہے ،اس نے کہا ،آپ … کے ہاتھ میں تھی؟ آپ نے جواب دیا کہ آپ … بھولے ہی کب تھے کہ یاددلانے کی نوبت آتی۔؟ (خطابات ومقالات صفحہ۳۴۳)ایک مرتبہ دوران تقریر کہا کہ جو بوجھ اور امانت زمین وآسمان نہ اٹھا سکے وہ انسان نے اٹھا لیا ،اور پھر دوران گفتگو آیت تلاوت کی ”انہ کان ظلوما جھولا“ ایک چرچ کے نمائندہ نے سوال کردیا ”کہ یہ تو قرآن کریم نے عجیب بات کہہ دی کہ جوبوجھ زمین وآسمان اور پہاڑوں سے نہ اٹھایا جاسکا، وہ انسان نے اٹھالیا تو ظالم اور جاہل بن گیا!“تو جواباً کہا کہ ظالم اور جاہل تھا،بن نہیں گیا،ماضی کا صیغہ ہے ،انسان کی جہالت اور ظلم کے خاتمہ کے لیے تو کتاب نازل ہوئی ”وننزل من القرآن ماھو شفا ء ورحمة للمومنین“پھر مزید مثالوں سے توضیح کی کہ مقناطیس کپڑے اور لکڑی کو نہیں پکڑتا خواہ کعبہ کا غلاف اور چوکھٹ ہی کیوں نہ ہوں، پتھر کو نہیں پکڑتا حجراسود کیوں نہ ہو،سونے چاندی کو نہیں پکڑتا ،لوہے کو ہی پکڑتاہے،کیوں کہ کشش اسی میں ہے ۔قرآن کریم نے آسمانوں ،زمینوں وغیرہ کو نہیں پکڑا ،انسان کو پکڑا کیوں کہ کشش اسی میں تھی ۔اس پادری نے اگلاسوال کیا ،اگرانسان اتنی اچھی مخلوق ہے تو پھر ظلم اورجہل کے جراثیم کیوں پیدا کیے گئے؟تو جواب دیا کہ سراپا خیر مخلوق پہلے سے موجود تھی،اگرانسان میں شر کی صلاحیت نہ ہوتی تو پھر یہ خیر پر مجبور ہوتا ،انسان برائی کرتا نہیں اور فرشتے کرنہیں سکتے یہی فرق ہے۔ اس پادری نے پھر ایک اور سوال کیا ”کہ اگر قرآن کریم انسان سازی کا فارمولاہے تو پھر ہرانسان قیمتی کیوں نہیں ہوتا؟“شاہ صاحب نے جواب دیا بارش برستی ہے؛ مگر ہرزمین سے پھول وکھیتیاں نہیں اگتیں،کہیں کانٹے ،جھاڑیاں،کہیں مفیدبوٹیاں و پودے ،یہ استعداد کی بات ہے، قرآن کی تاثیراور مسیحائی میں کوئی شک نہیں؛ مگر ظرف کی بات ہے ۔(خطابات ومقالات صفحہ تا۴۵۱تا ۴۵۳)

فصاحت وبلاغت اور مرقع ومسجع گفتگو بھی آپ کے خطاب کا حسن تھی، اس کی بھی ایک مثال ذکر کی جاتی جو نئے مقررین کے لیے تو ایک تحفہ ہے ہے۔ایک تقریر میں آیت تلاوت کی ”ولا تھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین“تم( باطل کی چیرہ دستیوں سے )نہ گھبراؤنہ خوف کھاؤ کہ تم ہی سربلند ہو ،اگر تم صاحب ایمان ہو ۔پھر فرمایا:یہی وہ بنیادی روح جو کامیابی کی کلید اور سربلندی کی نوید ہے کہ ایمان ویقین کے معیار پر پورے اترو،پھر دیکھو کہ تمہاری تدبیر اللہ کی تقدیر کا پرتو بن جائے گی ،تم اللہ سے اتنے قریب ہو جاؤ کہ خود تقدیر تمہارے اشارہ ابرو کی منتظر ہو :

کافر  کی یہ  پہچان  کہ آفا ق میں گم ہے

مومن کی یہ شان کہ گم اس میں ہیں آفاق

ہاں وہ مرد مومن ! جو پیکر خاکی ہو ،مگرا س کی پرواز آفاقی ہو ،وہ گفتار وکردار میں اللہ کی برہان ہو،قاری نظر آئے مگر حقیقت میں قرآن،وہ حلقہ یاران میں بریشم کی طرح نرم اوررزم حق وباطل میں مچلتاہوا طوفا ن ہو،وہ ہمسایہ جبرئیل امین ہو ،اس کی ٹھوکروں میں سمرقند وبخارا کی زمین ہو،وہ بے زر ہو مگر بالغ نظر ہو،وہ کار آشیاں بندی سے دور ،مگر احساس وخوئے وفا سے مخمور ہو،سوز صدیق، جلالت فاروق،حیا عثمان،وقوت حیدر کا بحرعمیق لگتا ہو،تدبر معاویہوفقر بو ذر کا وارث نظر آئے ،وہ موت سے نہیں ،موت اس سے ڈرے ،زمانہ اس کونہیں وہ زمانے کو مسخرکرے،ہاں ہاں وہ مرد مومن ،جوخودی کے زور سے دنیاپر چھائے ،مقام رنگ وبوکا راز پائے ،برنگِ بحرساحل آشنا ہو ،مگر کف ساحل سے دامن کھینچتا چلاجائے ،اس کی جلوتوں میں مصطفائی مہکے،اس کی خلوتوں سے کبریائی ٹپکے،جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم ،دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان ،سکندری اس کی ٹھوکر میں ہو ،قلندری اس کے جوہر میں ہو،علم اس کا زیور ہو ،حلم اس کی چادر ہو، وفا اس کی اداہو ،رضا اس کی جزا ہو ،صداقت اس کا محمل ہو ،شہادت اس کی منزل ہو ،دانش اس کی بستی ہو ،عشق اس کی مستی ہو ،باہوش ایسا کہ شام وسحر کو سمجھے ،پرجوش ایسا کہ شمس وقمر کو لپکے،وہ حکمت کا لقمان ہو،بصیرت کا بلال وسلیمان ہو،وہ صاحب جذب دروں ہو،شریک زمرہ لا یحزنوں ہو، قلب حزیں رکھتا ہو،سوز یقین رکھتا ہو،گفتار دلبرانہ ،کردار قاہرانہ رکھتا ہو،نہ تاج وتخت میں نہ لشکر وسپا ہ میں ،جو بات قلند کی بارگاہ میں ہو،اس کی رعنائی فکر پہ روح الامین جھومے ،اس کی حرارتِ ذکر لوح وقلم کو چومے ،وہ کمال تشنگی میں بھی جگر کا خون پی لے ؛مگرکسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کرے ،وہ خلوتوں میں بھی ہو ،صف بہ صف بھی ،سربسجدہ بھی ،سربکف بھی ،نگاہ بلند ،سخن دلنواز، جاں پرسوز رکھتا ہو وہ قادر کا بندہ مگرتقدیر کا نمائندہ ہو، یہی ہے وہ مرد مومن جسے اللہ نے ”انتم الاعلون“ کی بشارت سنائی ہے ۔(خطابات ومقالات صفحہ۷۰۱،۷۱۱)

آ پ کی اور کتابوں میں ،دیار غیر سے دیار حبیب تک ،نوائے درویش ،اسلام اور انسانیت وغیرہ شامل ہیں ۔ابھی چندروز قبل بذریعہ فیس بک علم ہوا کہ شاہ صاحب  کے صاحبزادے مولانا سید فیصل ندیم ،اپنے والد محترم  کے آڈیو ویڈیو بیانات،کتب وغیرہ گوشہ ندیم کے نام سے یوٹیوب ،فیس بک اور ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کررہے ہیں جو کہ شاہ صاحب کے لیے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا ۔

احقر کی جتنی بھی ملاقاتیں شاہ صاحب سے ہوئی ہیں انھیں ایک متحمل مزاج ،عاجزی وانکساری کا پیکر ہی پایاہے ،جامعہ خیرالمدارس کے مایہ ناز استاد جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا شمشاد صاحب مد ظلہ نے اپنا واقعہ خود سنایا کہ پرانی بات ہے کہ ایک مرتبہ ملتان میں آپ کے گھر میں حاضری ہوئی ،کھانے کا وقت تھا خود چیزیں اٹھا کر رکھ رہے تھے شاید کوئی گرم کرنے والی چیز تھی اسے خود اپنے ہاتھوں سے گرم کرکے لائے ۔علم وحکمت اور خطابت کا یہ عظیم شہسوار ۳دسمبر ۲۰۱۵ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔اللہ تعالی حضرت شاہ صاحب کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں اور ان کے درجات بلند فرمائیں!

——————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد:100 ‏، رجب1437 ہجری مطابق مئی 2016ء

Related Posts