حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
ان دنوں سارے چمن کی ہے ہوا بگڑی ہوئی
ہمارا ملک اپنے رقبہ کی وسعت اور آبادی کی کثرت کے لحاظ سے دنیا کا ایک عظیم ترین ملک ہے اور دنیا کے دیگر بڑے ممالک کے برخلاف یہاں ذات ونسل، دین ومذہب اور زبان وتہذیب میں کافی تنوع ہے، ایک ایسا شخص جو ہندوستان سے یکسر ناآشنا ہو، وہ ملک کی مختلف ریاستوں، مثلاً منی پور، آسام، ناگالینڈ، تریپورہ، کیرلا، تامل ناڈو، آندھرا ، راجستھان، مدھیہ پردیش اور کشمیر وغیرہ کی بود باش، رنگ و روپ وغیرہ دیکھ کر قطعی طور پر باور نہیں کرے گا کہ یہ علاقے دہلی، یوپی، بہار وغیرہ کی طرح ایک ہی مملکت کے حصے ہیں۔
ملک کی آبادی کی کثرت ا ور تنوع کی وجہ سے قدرتی طور پر یہاں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں مسائل بھی زیادہ پیدا ہوتے ہیں، جن میں بہت سارے ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں دور کیے بغیر ملک کو ترقی یافتہ تو کیا متمدن ممالک میں بھی شمار نہیں کیا جاسکتا ہے؛ اس لیے حکومت کا یہ اولین فرضِ منصبی ہے کہ پہلی فرصت میں وہ ایسے مسائل کے حل کرنے کی طرف توجہ دے، بصورتِ دیگر حکومت کو بدنامی اور ملک کو زوال اور تقسیمِ دولت سے بچانا ناممکن ہوگا۔
$ مسائل کی اس فہرست میں اہم ترین ملک میں بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتِ حال کا مسئلہ ہے، عہد غلامی میں ملک کی بیشتر دولت پر انگریزوں کا قبضہ تھا اور ہندوستانی کنگال تھے، آج بھی معاشی ناہمواری کا یہی عالم ہے۔ ملک کے بیس فی صد صنعتی، تجارتی اور سیاسی گھرانے یہاں کی اسّی فی صد دولت پر قابض ہیں، بقیہ بیس فی صد دولت میں اسّی فی صد لوگوں کا حصہ ہے، پہلے ملک وقوم کا استحصال سامراج کررہا تھا اور آج اس کی قائم مقامی کی خدمت نام نہاد خدامِ قوم اور محبانِ وطن انجام دے رہے ہیں، رنگا راجن کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق تقریباً بیس فی صد ہندوستانی خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، جو زندگی کے بنیادی وسائل تک سے محروم ہیں، یہ ملک کا ایسا سنگین مسئلہ ہے کہ اس کے دور کیے بغیر ترقی کی تمنا اور ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کردینے کا دعویٰ دیوانے کے خواب اور مجذوب کی بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
$ ایک اہم مسئلہ حفظانِ صحت کا ہے، جو حکومت سے خصوصی توجہ کا طالب ہے، آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہزار زندہ ولادت میں سے چالیس سے پینتالیس بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی صحت کے مسائل سے دوچار ہوکر فوت ہوجاتے ہیں، ولادت کے بعد ہر ایک لاکھ ماؤں میں سے ۱۱۶۷ مائیں مناسب سہولیات کی عدم دستیابی کی بنا پر ہلاک ہوجاتی ہیں، ٹائمس آف انڈیا ۲۲/جولائی ۲۰۱۴/ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال مرض ”ٹی بی“ سے پانچ لاکھ ہندوستانی موت کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں، ۲۰۱۳/ میں ملیریا سے ہندوستان میں ایک لاکھ بیس ہزار اموات ہوئی اور تقریباً ۷۵ ہزار ایڈس سے لقمہٴ اجل بنے، جب کہ ہماری قومی حکومت کی اس جان لیوامسئلہ کی طرف سے بے توجہی کا حال یہ ہے کہ ملک اپنی جی ڈی پی کا ایک فی صد ہی صحت عامہ پر خرچ کرتا ہے اور سالِ رواں میں تو صحت کے بجٹ میں بھاری کمی کردی گئی ہے، سرکاری اسپتالوں میں مناسب معیار کا فقدان اور بدعنوانیوں کا راج ہے؛ اس لیے لوگ مجبور ہوکر پرائیویٹ اسپتالوں کا سہارا لیتے ہیں جو انتہائی بے دردی سے ان کا استحصال کرتے ہیں، اس وقت علاج اس قدر گراں اور مہنگا ہوگیا ہے کہ متوسط طبقہ اس کا متحمل ہوہی نہیں سکتا، کتنے خاندان ایسے ہیں جو علاج کی مہنگائی کی بناء پر مفلوک الحال ہوگئے ہیں، کیا صحت عامہ کی اس زبوں حالی کے ہوتے ہوئے ہمارے ترقی کے نعرہ کو بین الاقوامی برادری فریب نہیں باور کرے گی؟ اور کیا ہندوستانی عوام اس سے مطمئن ہوجائیں گے؟
$ ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ ناخواندگی کا بھی ہے، گزشتہ جولائی میں جاری سماجی معاشی اور ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ ۲۰۱۱/ صاف لفظوں میں بتارہی ہے کہ ملک کی ۳۶ فی صد آبادی ناخواندہ ہے، ۶۴ فی صد خواندہ آبادی کا پانچواں حصہ پرائمری تعلیم مکمل نہیں کرپاتا، ساڑے پانچ فی صد ہائی اسکول تک پہنچتے ہیں اور صرف ساڑھے تین فی صد ہی گریجویشن کرپاتے ہیں۔
ملک کی بیشتر آبادی آج بھی دیہاتوں میں رہتی ہے؛ جب کہ بہت سارے گاؤں اسکول کی سہولیات سے محروم ہیں اور جہاں یہ سہولت پائی جاتی ہے وہاں کے اسکولوں کا تعلیمی معیار اسی مذکورہ رپورٹ کے مطابق یہ ہے کہ درجہ پانچ کے طلبہ درجہ دو کی کتابیں پڑھ نہیں پاتے، پھر علاج کی طرح اعلیٰ تعلیم بھی اس قدر گراں ہوگئی ہے کہ مالی اعتبار سے نیچے درجہ کے لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ پاتے ہیں۔
علاوہ ازیں تعلیمی مشاغل کی انجام دہی کے لیے اطمینان وسکون اور دلجمعی ایک لازمی شرط ہے جس کے لیے تعلیم گاہوں کو خارجی اثرات سے محفوظ رہنا ضروری ہے؛ مگر اب قومی جامعات اور یونیورسٹیوں کے امن وامان پر بھی شب خوں مارنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، تعلیم اور قومی تعلیم گاہوں کی اس پس ماندگی کا ملک کے حکمرانوں کو کوئی احساس نہیں، گویا وہ علوم وثقافت سے محرومی کے باوجود ملک کو مہذب وترقی یافتہ بنانے کا کرشمہ دکھانے کے درپے ہیں۔
$ ہمارے ملک کا ایک زندہ وپائندہ مسئلہ حصولِ انصاف کا بھی ہے، ہمارے نظامِ عدالت کی کیفیت یہ ہے کہ آج ملک کی جیلوں میں تقریباً ڈھائی، پونے تین لاکھ صرف ملزم (مجرم نہیں) ہیں؛ جب کہ عہد غلامی میں حکومت کے قیدیوں میں دوتہائی مجرم اور ایک تہائی ملزم ہوا کرتے تھے، آزاد بھارت میں یہ تناسب الٹ گیا ہے اور اس سے بھی عجیب؛ بلکہ خطرناک بات یہ ہے کہ ان ملزم قیدیوں میں بیشتر ایسے ہیں جو اپنے اوپر عائد الزام کی مقررہ سزا کی مدت سے بھی زائد عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں؛ مگر ان کی رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے، شاید عدل وانصاف کے عنوان سے عدل وانصاف کا یوں مذاق کبھی نہ اڑایا گیا ہو، اس کے علاوہ آج حصولِ انصاف کا سفر اتنا طویل ہوگیا ہے کہ ایوانِ عدالت کے چکر کاٹتے کاٹتے بال سفید ہوجاتے ہیں؛ مگر لیلیٰ مقصود پھر بھی دسترس میں نہیں آتی، مزید براں انصاف کا خرچ ہزاروں نہیں لاکھوں کروڑوں میں پہنچ چکا ہے، جس ملک کی ایک تہائی آبادی دو وقت کی روٹی جٹانے سے قاصر ہو وہ بھلا لاکھوں، کروڑوں میں انصاف خریدنے کا حصولہ کیوں کر دکھاسکتی ہے۔
انتہائی خصوصی توجہ کے طالب مسائل کے علاوہ تحفظِ نسواں اور قومی ہم آہنگی کے مسئلے بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں، آج ملک میں اس صنفِ لطیف کے ساتھ جس طرح کے سلوک وبتاؤ کی خبریں میڈیا کے ذریعہ سنائی دے رہی ہیں، وہ بے حد تشویش ناک ہیں اور ہماری مشرقی تہذیب کے حق میں ایسا ناسور ہیں جن کے مداویٰ کی بروقت موٴثر کوشش نہیں کی گئی تویہ ناسور نہ صرف ہماری تہذیب کو؛ بلکہ خود ہمارے ملک وقوم کو ایسا زہرناک بنادے گا جس سے ہماری ساری ترقیاتی کاوشیں بھسم ہوجائیں گی، اسی طرح ملک میں آباد اکائیوں کی باہمی رواداری وہم آہنگی اور آپسی پیار ومحبت کی قدیم روایات کی پاس داری ملک کی ایکتا کے لیے لازمی ہے۔ ملک میں آباد ہندستانیوں کی باہمی آویزش اور انتشار و اختلاف کے باوجود ملک کی سالمیت کا خواب دیکھنا پہاڑ سے جوئے شیر لانے کے مرادف ہے۔
ملک وقوم کی ہمدرد اور وفادار حکومت ان مسائل سے دانستہ طور پر کبھی بھی چشم پوشی نہیں کرسکتی ہے؛ کیوں کہ ملکوں کی ترقی کی راہیں انھیں سے ہوکر گزرتی ہیں، اب اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ آج ترقی کے کلید ان اہم امور سے صرفِ نظر کرکے حکومت کے حلیف ومددگار ہی نہیں، خود حکومت کے ارکان اور وزرا ”لوجہاد، گھرواپسی، بہولاؤ بیٹی بچاؤ، بیف، وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے“ جیسے لایعنی، فتنہ خیز اور تنازع انگیز نعرے بلند کرکے ملک کی فضا کو مکدر کررہے ہیں، گنگا جمنی تہذیب کے پاسبان وطن عزیز ہندوستان کی ان سست ذہنوں نے اس وقت جو حالت بنادی ہے اسے دیکھ کر ہر محب وطن دل گیر ودردمند ہے اور دنیا نکار رہی ہے کہ آج کل ہندوستان میں نفرت کی سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے؛ مگر یہ لوگ آنکھ کان بند کرکے اپنی جیسی کہے اور کیے جارہے ہیں اور وزارتِ داخلہ کسی خاص وقت کے انتظار میں یہ سب کچھ جان کر انجان بنی ہوئی ہے۔ سیاسی اغراض کے تحت فرقہ وارانہ جذبات کا استحصال کرنے والوں کو اچھی طرح یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ ذات پات اور مذہب کے نام پر جہاں عوام کو ورغلانا اور بہکانا اگرچہ آسان ہے، پھر بھی قومی ہم آہنگی، باہمی روداری اور آپسی بھائی چارے کی جڑیں کافی گہری ہیں، جسے اکھاڑنا آسان نہیں ہے؛ اس لیے بجا طورپر یہ توقع ہے کہ ملک وقوم اپنی قدیم روایات پر مضبوطی سے انشاء اللہ قائم رہیں گے اور فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والے خود اس آگ میں جل کر خاکستر ہوجائیں گے۔
دیدی کہ خونِ ناحق پروانہ شمع را
چنداں اماں نہ داد کہ شب را سحر کند
———————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:100 ، جمادی الاخری1437 ہجری مطابق اپریل 2016ء