از: پروفیسر محمدانس حسان
گورنمنٹ ڈگری کالج، جہانیاں، پاکستان
جس زمانے میں ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا، اسی زمانہ میں علم و فضل اور تحقیق و اجتہاد کا وہ آفتاب طلوع ہوا جس کی دلآویز روشنی سے نہ صرف سرزمین ہندوستان؛ بلکہ پورا عالم اسلام منور ہو گیا۔ یعنی حضرت شاہ ولی اللہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ شاہ صاحب نے اصول تفسیر میں مقدمہ فتح الرحمن ،الفوز الکبیر اور تفسیرفتح الرحمن لکھ کر فن تفسیر کے قدیم طریقہٴ کار کو ایک وسیع افق اور لائحہ عمل عطا کیاجس کی چھاپ بعد کی تفاسیر میں نمایاں نظر آتی ہے۔ شاہ صاحب کے نقش قدم کا اتباع ان کے فرزندان عالی مرتبت نے بھی کیا جن میں ان کے خلف اکبرشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا نام نامی سرفہرست ہے۔
آپ کا نام عبد العزیز اور سراج الہند لقب تھا، والد ماجد حضرت شاہ ولی اللہ اور جد محترم شاہ عبد الرحیم تھے۔ ۲۵/رمضان المبارک ۱۱۵۹ھ/ ۱۰/اکتوبر ۱۷۴۶ء کو بہ وقت سحر پیدا ہوئے، والد بزرگوار نے نام عبد العزیز رکھا، غلام حلیم سے سن ولادت نکلتا ہے(۱)۔ والد ماجد ہی کی خدمت میں آپ کی اصل تعلیم و تربیت ہوئی؛ البتہ بعض امہات کتب کا درس اپنے والد کے ممتاز تلامذہ سے بھی لیا ، جن کی تفصیل انھوں نے خود اس طرح بیان کی ہے:
”جاننا چاہیے کہ اس فقیر نے اس علم (حدیث) اور تمام ہی علوم کو والد ماجد کی خدمت میں رہ کر حاصل کیا؛ لیکن فن حدیث کی بعض کتابیں مثلاً مصابیح و مشکوٰة اور شرح موٴطا جو والد صاحب ہی کی ایک تصنیف ہے حصن حصین و شمائل ترمذی سماعاً اور تحقیق کے ساتھ ان سے پڑھا، صحیح بخاری کا کچھ ابتدائی حصہ بطریق درایت سنا۔ صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کی باضابطہ سماعت تو نہ کر سکا؛ البتہ جب طلبہ ان کتابوں کو ان سے پڑھتے تھے تو میں بھی اس مجلس میں حاضر رہا کرتا تھا، اور حضرت والد کی تحقیقات و تنقیحات کو ان سے سنتا تھا، اس طرح حدیث کے معنی اور اسناد کی باریکیوں کو سمجھنے کا قابل اعتماد ملکہ پیدا ہو گیا۔ بعد ازاں سَمَاع روایت کی اجازت حضرت والد کے ممتاز اصحاب شاہ محمد عاشق پھلتی اور خواجہ محمد امین ولی اللّٰہی سے بھی حاصل کی۔“(۲)
شاہ عبد العزیز صاحب جب سترہ سال کے ہوئے تو ان کے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی وفات ہوئی(۳)۔ پچیس برس کی عمر ہی سے آپ متعدد موذی امراض میں مبتلا رہنے لگے تھے اور آخر عمر تک اس میں گرفتار رہے۔ اوائل عمر ہی میں کثرت امراض کے باوجود شاہ صاحب نے مدة العمر درس و تدریس کا بازار گرم رکھا اور اپنے والد کے جانشین مقرر ہوئے۔
سید مولانا عبد الحئی کا بیان ہے:
”طلبہ کے علاوہ عوام الناس کے افادہ کے لیے ہفتے میں دو مرتبہ سہ شنبہ (منگل) اور جمعہ کو درس گاہ میں مجلس وعظ منعقد فرماتے تھے، جس میں بے شمار شائقین شریک ہوتے تھے۔“(۴)
شاہ عبد العزیز صاحب کو قرآن مجید کے درس سے خاص شغف تھا۔آپ کے نواسے اسحاق بن افضل روزانہ ایک رکوع قرآن مجید ان کی مجلس میں تلاوت کرتے تھے۔ جس کی تفسیر شاہ عبدالعزیز بیان کرتے تھے۔ درس قرآن کا یہ سلسلہ شاہ ولی اللہ صاحب سے چلا آ رہا تھا۔ مقالات طریقت کی روایت کے مطابق حضرت شاہ ولی اللہ کا آخری درس سورة مائدہ کی آیت۔ اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی(۵) پر ہوا تھا۔ وہیں سے شاہ عبد العزیز صاحب نے اپنا درس شروع کیا اس کا اختتام سورة الحجرات کی آیت۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ(۶) پر ہوا۔ آپ کی وفات کے بعد اس سلسلے کو آپ کے نواسے اسحاق بن افضل نے مکمل کیا۔(۷)
غرض شاہ عبد العزیز صاحب کے حلقہٴ درس سے بے شمار فضلاء پیدا ہوئے اور ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گئے ۔شاہ صاحب نے اپنے تمام بھائیوں کے مقابلے میں لمبی عمر پائی۔ چنانچہ اسّی برس کی عمر میں ۹/شوال ۱۲۳۹ھ /۱۸۲۳/ کو یک شنبہ کے روز وفات پائی۔ مختلف شعراء نے تاریخ وفات کہی، جن میں حکیم مومن خان دہلوی کے قطعہ تاریخ اس فن کی ایک نادر مثال ہے۔
دست بیداد اجل سے بے سر و پا ہو گئے
فقر و دین، فضل و ہنر، لطف و کرم، علم و فضل(۸)
شاہ عبد العزیز صاحب نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ امراض کی شدت اور آنکھوں کی بصارت زائل ہونے کے سبب بعض کتابوں کو آپ نے املاء کرایا ہے(۹)۔ اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
تحفہ اثنا عشریہ
یہ فارسی زبان میں رد شیعیت میں بے مثال کتاب ہے، جس کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کا عربی اور اردو میں ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
عجالہ نافعہ
فن حدیث کے متعلقات پر ایک اہم رسالہ ہے۔ یہ بھی فارسی میں ہے اور متداول ہے اور اس کا اردو ترجمہ مع تعلیقات و حواشی چھپ چکا ہے۔
بستان المحدثین
محدثین کے حالات کا ایک مجموعہ ہے۔ فارسی میں ہے متداول ہے۔اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
فتاویٰ
شاہ صاحب کے فتاویٰ کا مجموعہ اہل علم میں کافی مقبول اور متداول ہے اور اس کا بھی اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔
فتح العزیز
یہ ان کی مشہور تفسیری تصنیف ہے، جس کی صرف چار جلدیں دو اول کی اور دو آخر کی ملتی ہیں۔ یہ بھی فارسی میں ہے۔ ان کے علاوہ بلاغت، کلام، منطق اور فلسفے کے موضوعات پر بھی شاہ صاحب نے متعدد رسالے اور حاشیے فارسی اور عربی زبان میں لکھے ہیں(۱۰)۔
یہ تفسیر نامکمل صورت میں پائی جاتی ہے۔ سورة فاتحہ اور سورة البقرہ کی ابتدائی ایک سورت چوراسی آیتوں کی تفسیر پہلی دو جلدوں میں اور آخر کے دو پاروں کی تفسیر علیحدہ علیحدہ جلدوں میں ہیں۔ یہ جلدیں متعدد بار شائع ہو چکی ہیں۔ تفسیر کے مقدمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاہ صاحب کے ایک شاگرد شیخ مصدق الدین عبد اللہ تھے، جن کی تحریک پر یہ تفسیر لکھی گئی اور ان ہی کو شاہ صاحب نے اس کا املاء کرایا تھا اور یہ سلسلہ ۱۲۰۸ھ/۱۷۹۳/ میں مکمل ہوا۔(۱۱)
عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ شاہ صاحب کی تفسیر نامکمل رہ گئی تھی اور جس قدر اس کا حصہ طبع ہوا ہے وہی لکھا گیا تھا؛لیکن مولانا عبد الحئی کا بیان ہے کہ یہ تفسیر کئی ضخیم جلدوں میں تھی جس کا بیشتر حصہ ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی میں ضائع ہو گیا۔ وہ لکھتے ہیں:
”وھو فی مجلدات کبار… ضاع مفظمھا فی ثورة الھند و ما بقی منھا الا مجلدان من اول و آخر․“(۱۲)
لیکن ہمارے خیال میں یہ بات محل نظر اور محتاج تحقیق ہے کہ فتح العزیز کی جلدیں جنگ آزادی میں تلف ہو گئیں؛ کیونکہ اس تفسیر کی اشاعت ۱۸۵۷/ سے کافی پہلے شاہ عبد العزیز کے انتقال کے محض دس سال بعد ۱۸۳۳/ میں کلکتہ سے ہو چکی تھی۔ اسی ایڈیشن کے آخری دو اجزاء جو ایک جلد میں ہیں اور تیسویں پارے کی تفسیر پر مشتمل ہیں کتب خانہ دارالمصنّفین میں موجود ہیں۔ تیسویں پارے کی تفسیر کے آخری صفحات غائب ہیں؛ مگر انتیسویں پارے کی تفسیر مکمل محفوظ ہے۔ جس کے آخر میں ترقیمہ بھی ہے جس سے سن اشاعت کی واقفیت کے ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تیسویں پارے کی تفسیر اس سے پہلے طبع ہو چکی تھی۔ ترقیم کی عبارت یوں ہے۔
”بعد طبع تفسیر سپارہ سی ام عم یتساء لون مسمی بفتح العزیز سپارہ بست و نیم تبارک الذی از تفسیر موصوف بتاریخ غدہ شھر ذی قعدہ ۱۲۴۸ھ از فضل حق سبحانہ وتعالیٰ بطفیل جناب سید الانبیاء شافع روز جزاء و ائمہ ھدی و خلفائی مقتدی صلی اللہ وسلام علیہ در مطبع احمدی واقع شھر چچرہ متعلقہ ضلع ھوگلی بہ تصیحح ایں ذرہ بے مقدار بل لا شی فی الاعتبار اعنی خیر خواہ خلق اللہ خاکسار عبد اللہ ولد سید بھادر علی مرحوم بطبع رسد․“(۱۳)
فتاویٰ عزیزی اور افادات عزیزیہ کے اقتباسات سے یہ ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نے اپنی تحریروں میں فتح العزیز کے غیر مطبوعہ مسودات کے حوالے دیے ہیں؛ مگر فتاویٰ کی ایک عبارت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ مسودات خود شاہ صاحب کے دسترس سے باہر تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
”و ایں فقیر در تحت آیت اُولٰٓئِکَ یُوٴْتَوْنَ اَجْرَھُمْ مَّرَّتَیْنِ(سورة قصص) تحقیق نفیس و نوشتہ کہ ایں وقت نقل آں بسبب دور افتادن مسودات متعذر است“․(۱۴)
سوال یہ ہے کہ یہ مسودات آخر کہاں تھے؟ جہاں تک خود شاہ صاحب کی رسائی ممکن نہ تھی؟ تفسیر فتح العزیز کے مقدمہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا تو درست ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے پہلے سورہٴ فاتحہ اور آخر کے دو پاروں کی تفسیر شیخ مصدق الدین کو املاء کرائی اور بعد میں لوگوں کے اصرار پر سورہ بقرہ کی تفسیر شروع کی؛ مگر یہ کہنا کہ شاہ صاحب نے اٹھائیسویں پارے کے آخر تک پوری تفسیر لکھوا دی محل نظر ہے۔ کیونکہ مقدمے میں سورة بقرہ کے آغاز کا ذکر تو ملتا ہے؛ مگر اسی میں آگے چل کر شاہ صاحب کے دعائیہ الفاظ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس وقت تک بہر حال تفسیر مکمل نہیں ہوئی تھی۔ دعائیہ الفاظ ملاحظہ ہوں:
”و انا ایضاً اسئل من فضلہ ان یوفقنی کما وفقنی لختامہ “․(۱۵)
حکیم محمود احمد برکاتی لکھتے ہیں:
”شاہ صاحب کی تفسیر فتح العزیز صرف سیپاروں کی طبع ہوئی ہے اور مشہور یہی ہے کہ اتنی ہی لکھی تھی؛ لیکن ایک روایت یہ ہے کہ آپ کے شاگرد مولوی یار محمد صاحب نے آپ کے درس قرآن کے کئی دوروں پر اپنے مصحف پر حواشی لکھ لیے تھے، وہ ان کے فرزند مولوی محمد اسحاق کے پاس موجود ہیں، یہ مکمل قرآن مجید کی تفسیر ہے۔ ایک اور روایت ہے کہ حاجی محمد حسین صاحب سہارن پوری مولوی نور اللہ صاحب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب قدس سرہ کی ایک فارسی تفسیر تمام قرآن مجید کی اکبر آباد کے قاضی کے یہاں موجود ہے؛ مگر چھپی نہیں ہے“۔(۱۶)
علاوہ ازیں تفسیر فتح العزیز کے مطالعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شاہ صاحب نے گو اپنی تفسیر کو مکمل نہیں کیا تھا؛ مگر وہ اس کے آرزو مند ضرور تھے۔سورة بقرہ کے تفصیلی ذکر کے درمیان لکھتے ہیں:
”حزقیل کہ از جملہ قبطیان بشرف ایمان شرف شدہ بود وحال او در سورة حم الموٴمن انشاء اللہ مذکور خواھد شد․“(۱۷)
شاہ صاحب کی تحریروں میں تفسیر کے غیر موجود حصوں کے حوالے سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ وہ حصہ ضبط تحریر میں آ ہی چکا تھا؛ کیونکہ مصنّفین کا عام دستور یہ ہے کہ وہ آئندہ جو کچھ لکھنے والے ہوتے ہیں ان کا حوالہ پہلے ہی دے دیتے ہیں؛ مگر پھر عمر کے وفا نہ کرنے یا کسی اور مانع کے سبب وہ حصہ لکھنے سے رہ جاتا ہے اس کی مثالیں قدیم اور بڑے مصنّفین کے یہاں ملتی ہیں۔
تفسیر فتح العزیز کے ناقص رہ جانے کا احساس اہل علم کو شروع ہی سے رہا ہے۔ مقالات طریقت کی روایت کے مطابق نواب سکندر بیگم والیہ بھوپال کو اس کی تکمیل کا خیال پیدا ہوا؛ چنانچہ انھوں نے اس کام کے لیے شاہ عبد العزیز صاحب کے شاگرد مولوی حیدر کو مامور کیا، جنھوں نے علیحدہ علیحدہ پاروں کی صورت میں ستائیس جلدوں میں اس کاتکملہ لکھا۔(۱۸)
چونکہ تفسیر فتح العزیز کی اشاعت علیحدہ علیحدہ پاروں کی صورت میں ہوئی تھی؛ اس لیے غالباً تکملے میں بھی اس امر کو ملحوظ رکھا گیا؛ مگر اس کی صرف چار جلدیں دارالعلوم ندوة العلماء کے کتب خانے میں محفوظ ہیں؛ بقیہ جلدوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا(۱۹)۔ بعض ذرائع سے پتہ چلتاہے کہ مولانا فقیر محمد جہلمی نے تفسیر فتح العزیز کی دس جلدوں میں تلخیص کی تھی جو صوفی عبد الحمید سواتی (گوجرانوالہ۔ پاکستان) کے ذاتی کتب خانے میں موجود ہے۔
تفسیر فتح العزیز کی نمایاں خصوصیات
تفسیر فتح العزیز کی چند نمایا ں خصوصیات درج ذیل ہیں:
(۱) ہر سورة کا عنوان اور مضمون کی وضاحت
(۲) ربط آیات
(۳) نظائر قرآن کا ذکر
(۴) قصص و احکام کے اسرار کا بیان
(۵) لطائف نظمِ قرآن
(۶) حروف مقطعات
واقعہ یہ ہے کہ شاہ عبد العزیز صاحب کی تفسیر گو نامکمل ہے؛ مگر اس میں یہ تمام خصوصیات بدرجہٴ اتم پائی جاتی ہیں۔ ذیل میں اسی ترتیب کے موافق بطور نمونہ چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
سورة البقرہ کی تلخیص شاہ صاحب نے مندرجہ ذیل پانچ نکات میں کی ہے۔
(۱) اثباتِ صانع
(۲) اثباتِ نبوت
(۳) ثبوتِ استقامت
(۴) ثبوتِ مجاہدہ
(۵) اثباتِ معاہدہ
ان کی تشریح کے بعد لکھتے ہیں:
”وہمیں پنجم است کہ خلاصہ مطالب ایں سورة است و باقی امور متممات و مقدمات ایں امور پنجگانہ اند“․(۲۰)
(۱) مضمون کا بیان
اس حوالے سے درج ذیل نکات ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں:
۱- سورة البقرہ (آیت ۱۵۴ سے لے کر آیت ۱۶۱تک) قصہ نمرود میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس نے اپنی ناسمجھی سے حیات و موت کا مقصد خود کو سمجھ لیا تھا۔
۲- واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک ویران آبادی کی از سر نو زندگی ان کو مستبعد معلوم ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے خود ان پر اور ان کی سواری پر اس عمل کو دہرا کر ان کو شرحِ صدر بخشا۔
۳- واقعہٴ ابراہیم علیہ السلام جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مُردوں کے دوبارہ زندہ کیے جانے پر ان کو جب استعجاب ہوا تو اللہ نے سر و بدن کٹے پرندوں میں جان ڈال کر ان کے اطمینان کا سامان فراہم کیا۔
(۲) ربط آیات
شاہ صاحب نے سورة فاتحہ اور سورة بقرہ کے درمیان ربط کی ایسی دل نشین وضاحت کی ہے کہ جس سے ربط آیات اور ربط سورة دونوں ہی کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ لکھتے ہیں:
”سورة فاتحہ مجمل طور پر قرآن مجید کے تمام معانی پر محیط ہے اور سورة بقرہ میں اس اجمال کی تفصیل کا آغاز ہوتا ہے۔ سورة فاتحہ میں آیت اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (الفاتحہ:۵) میں بندے کو ہدایت طلب کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ تو سورة البقرہ میں ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ سے لے کر اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ (البقرہ۲تا۵) تک یہ وضاحت کی گئی ہے کہ دولت ہدایت سے کس قسم کے لوگ سرفراز ہوتے ہیں۔“(۲۱)
(۳) نظائر قرآن
تفسیر فتح العزیز کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کے نظائر بہ کثرت پیش کیے گئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ شاہ عبد العزیز صاحب ”القرآن یفسر بعضہ بعضًا“ کے قائل تھے اور اپنی تفسیر میں انھوں نے اس کا خاص اہتمام کیا ہے۔ قرآن مجید کو وہ اصل محکم سمجھتے تھے اور شریعت کے تمام مآخذ کا سر رشتہ اسی سے جوڑتے تھے وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”پس در حقیقت اصل محکم کہ بہ ہر کس از پیغمبر و امت و مجتہد و عامی لازم الاتباع است․ ہمیں قرآن است و بس“․(۲۲)
اس کے بعد شاہ صاحب نے قرآن مجید کے علاوہ شرعی احکام کے دوسرے مآخذ سنت، اجماع اور قیاس کی مفصل تشریح کی ہے اور ان کو بھی کتاب اللہ کا تابع بتایا ہے۔
(۴) قصص و احکام کے اسرار
تفسیر فتح العزیز کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں واقعات اور احکام کے اسرار و رموز بھی بیان کیے گئے ہیں؛ چنانچہ شاہ عبد العزیز نے مختلف واقعات کے اسرار بیان کیے ہیں، خاص طور پر بنی اسرائیل کے واقعات ان کی بحث و تحقیق کا موضوع رہے ہیں۔ شاہ صاحب نے سورة الفاتحہ کے تمام مطالب کی حکیمانہ تشریح کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
”یہ جاننا چاہیے کہ انسان کے دل میں شیطان تین راہوں سے داخل ہوتا ہے۔ شہوت، غضب اور ہوا۔ شہوت کو بہیمیت، غضب کو سبعیت اور ہوا کو شیطنت کہتے ہیں۔ ان میں بھی غضب شہوت کے مقابلے میں اور ہوا غضب کے مقابلے میں زیادہ قبیح ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان شہوت کے سبب اپنے آپ پر اور غضب کی بناء پر دوسروں پر اور ہوا کے باعث خدا پر ظلم کرتا ہے۔ اس تمہید کے بعد یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں جو تین اسمائے الٰہی مذکور ہیں ان سے یہ تینوں امراض ختم ہوتے ہیں اور سورة فاتحہ کی ساتوں آیتیں ان سے پیدا ہونے والی بد اخلاقیوں کو جڑ سے اکھاڑپھینکتی ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کو پہچان لے گا وہ ہوا کی شیطانیت سے محفوظ رہے گا اور جس کو رحمانیت کا علم نصیب ہو گا وہ غضب سے اپنے آپ کو دور رکھے گا اور جس کو رحیمیت کی بصیرت حاصل ہو گی وہ اپنے نفس پر ظلم کرنا پسند نہ کرے گا“۔(۲۳)
(۵) لطائف نظم قرآن
اس تفسیر کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نظم و ضبط کے لطائف بھی بیان ہوئے ہیں، جو قدم قدم پر ملتے ہیں۔ سورة فاتحہ کی آخری آیت غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ کے تحت لکھتے ہیں:
”یہ جاننا چاہیے کہ مغضوب علیہم کو ضالین سے جو پہلے رکھا گیا ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ یہ طبقہ زیادہ بدتر اور آخرت میں ضالین کے مقابلے میں زیادہ رسوا ہو گا۔ چنانچہ تفسیر میں مغضوب علیہم کی بدبختی کے غلبہ کو ملحوظ رکھنا چاہیے؛ تاکہ قرآنی ترتیب کی خلاف ورزی نہ ہو۔“(۲۴)
(۶) حروف مقطعات پر بحث
اس تفسیر کی چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ حروف مقطعات پر بھی عمدہ بحث کی گئی ہے اور شاہ صاحب نے ان کے مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ سورة البقرہ کی پہلی آیت الم پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”الم اس خاص فیض سے کنایہ ہے جو عالم ناسوت میں عرف و علوم انسانی کے مطابق جلوہ گر ہے، اس نے تذکیر کے ذریعے قساوتِ قلبی کا اور تحدی کے ذریعے فاسد اقوال اور غلط افعال کا مقابلہ کیا اور پوری سورة اس اجمال کی تفصیل و شرح ہے“۔(۲۵)
شاہ صاحب نے اس بحث کے اخیر میں خود اپنی رائے یوں پیش کی ہے:
”الم کا مطلب یہ ہے کہ وہ اصل محکم ہے جس کی پیروی ضروری ہے اور جو منکروں کے لیے معجزہ اور ماننے والوں کے لیے مفید اور واضح دلائل سے روشن ہے اور غلط قسم کے شبہات اور وسوسے زائل و محو کر دیتی ہے۔“(۲۶)
خلاصہٴ کلام یہ کہ شاہ عبد العزیز دہلوی کی تفسیر فتح العزیز کو بر صغیر کے تفسیری ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا جو ملنا چاہیے تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے محققین جہاں برصغیر کی دیگر تفاسیر پر تحقیقی کام سامنے لارہے ہیں، وہیں اس مظلوم تفسیر کی تکمیل و عدم تکمیل کے تنازعے کے حتمی حل سمیت بر صغیر کے مخصوص تناظر میں اس کے خصائص پر بھی کام کریں۔ اس حوالے سے ایک طرف برصغیر میں پائے جانے والے اس کے متفرق مخطوطات کو سامنے رکھ کر ایک مستند نسخہ بنائے جانے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف موجودہ تفسیر کے جدیداور عام فہم اردو ترجمے کے ساتھ ساتھ اس میں پائی جانے والی روایات (بالخصوص اسرائیلی روایات) کی تخریج وتحقیق کی بھی ضرورت ہے۔
$ $ $
حواشی:
(۱) دہلوی،محمد رحیم بخش ، حیات ولی، مکتبہ سلفیہ، لاہور، ص۵۸۷۔
(۲) دہلوی ،شاہ عبد العزیز ،عجالہ نافعہ، ایجوکیشنل پریس،کراچی،۱۹۶۴/ ،ص۱۷-۱۸۔
(۳) دہلوی،محمد بیگ ،مرزا،دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۹۱ھ، ص۴۔
(۴) اردو دائرہ معارف اسلامیہ، لاہور۱۹۷۵/، ج۱۱، ص۶۴۵۔
(۵) المائدہ:۸۔
(۶) الحجرات:۱۳۔
(۷) عبد الحئی، مولانا،نزہة الخواطر، مطبع مجلس دائرة المعارف العثمانیہ، حیدر آباد دکن۱۹۵۷/،ج۷، ص۲۶۹۔
(۸) دہلوی ،محمد بیگ ،مرزا،دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، ص۱۰۔
(۹) عبد الحئی،مولانا،نزہة الخواطر، ج۷،ص۲۷۳۔
(۱۰) ایضاً ،ص۲۷۳-۲۷۴۔
(۱۱) شاہ عبد العزیز، تفسیر فتح العزیز، مطبع حیدری ، ج۱، ص۳،بمبئی،۱۲۹۴ھ۔
(۱۲) عبد الحئی،مولانا،نزہة الخواطر،ص۲۷۳۔
(۱۳) تفسیر فتح العزیز ،مطبوعہ ہوگلی پارہ۲۹،ص۳۲۷۔
(۱۴) فتاویٰ عزیزیہ، ج۲، ص۶۲۔
(۱۵) تفسیر فتح العزیز، ج۱، ص۴۔
(۱۶) برکاتی، محمود احمد، شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان، مجلس اشاعت اسلام، لاہور، ص۱۵۴۔
(۱۷) تفسیر فتح العزیز: ج۱، ص۲۹۴۔
(۱۸) مجموعہ مقالات خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، قرآن مجید کی تفسیریں چودہ سو برس میں، پٹنہ۱۹۹۵/، ص۲۰۴۔
(۱۹) تفسیر فتح العزیز، ج۱، ص۷۸-۷۹۔
(۲۰)تفسیر فتح العزیز، ج۱،ص۶۹۔
(۲۰)تفسیر فتح العزیز،ج ۱، ص۱۱-۱۲۔
(۲۱) ایضاً ، ج۱، ص۶۹۔
(۲۲)ایضاً ، ج۱، ص۱۰۳۔
(۲۳)تفسیر فتح العزیز،ج ۱، ص۷۴۔
(۲۴)ایضاً ، ج۱، ص۶۰۔
(۲۵)ایضاً، ج۱،ص۹۵۔
(۲۶)ایضاً، ج۱،ص۱۰۲۔
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 99 ، جمادی الثانیہ 1436 ہجری مطابق اپریل 2015ء