حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
۱۸۵۷ء کی تیز وتند سیاسی آندھی نے جب ہندوستان میں صدیوں سے روشن اسلامی سلطنت کے چراغ کو گل کردیا اور سرزمین ہند پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار قائم ہوگیا، تو اس عہد کے اہل دل علماء نے اپنی بصیرت سے مستقبل کے اس عظیم الحادی فتنہ کو دیکھ لیا جو اس سیاسی اور مادی انحطاط کے پس پردہ برق رفتاری کے ساتھ ملت اسلامیہ کی جانب بڑھتا چلا آرہا تھا، وہ اپنی فراست ایمانی سے یہ سمجھ رہے تھے کہ اس سیلاب بلاخیز کے آگے بند نہیں باندھا گیا اور اس کے رُخ کو پھیرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو اسلامی عقائد وافکار اور دینی اخلاق وکردار اس طوفان کی موجوں سے ٹکراکر پاش پاش ہوجائیں گے اور وہ مسلم معاشرہ جو صدیوں کی سعی پیہم اور انتھک کوششوں کے بعد وجود میں آیا ہے تشتت وانتشار کی نذر ہوجائے گا۔
ان حضرات نے اپنے تجربہ کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا کہ اس ایمان سوز فتنہ کا مقابلہ جو ایک زبردست اور مستحکم سلطنت کے زیر سایہ پروان چڑھ رہا ہے طاقت و قوت سے نہیں کیا جاسکتا؛ اس لیے ان اللہ کے بندوں نے تحفظ دین اور بقائے ملت کی اس جنگ میں آہنی اور آتشیں اسلحہ کے بجائے علم وللہیت کے ہتھیاروں سے کام لینے کا فیصلہ کیا؛چنانچہ اسباب وذرائع سے یکسر محرومی کے عالم میں اللہ کے اعتماد اور بھروسہ پر الحاد وزندقہ کے اس باد صرصر کے بالمقابل قصبہ دیوبند میں علم وعرفان کا ایک چراغ روشن کردیا، ہندوستان میں تحفظ دین کی اسی اولین کوشش کا مظہر جمیل ”دارالعلوم دیوبند“ ہے جس کا آغاز انتہائی نامساعد حالات میں محض اللہ کے اعتماد پر ہوا تھا، پھر اسی قندیل معلق اور چراغ توکل سے مسلسل چراغ روشن ہوتے گئے، یہاں تک کہ علم ونور کا یہ سلسلہ پھیلتے پھیلتے پورے برصغیر پر چھاگیا اور اس کی ضیاپاش کرنوں نے مسیحی مشنری کی برپا کی ہوئی ظلمتوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا، اور اسلامیان ہند کو ایک ایسے مہیب اور خطرناک فتنے سے بچالیا جس سے اس کا تشخص وامتیاز ہی نہیں وجود خطرے میں پڑگیا تھا۔
دارالعلوم کا یہی ایک کارنامہ نہیں ہے کہ اس نے برٹش امپائر میں برپا الحاد واسلام کے معرکہ میں قیادت کا کردار ادا کیا ہے؛ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی تہذیب واقدار اور اسلام کی مقدس شخصیتوں کے خلاف برصغیر میں جتنی تحریکیں بھی وجود میں آئی ہیں خواہ وہ مسیحیت کے نام سے آئی ہوں یا شدھی وسنگھٹن کے عنوان سے، چاہے وہ قادیانیت وبہائیت کا لبادہ اوڑھ کر میدان میں آئی ہوں، یا رافضیت ورضاخانیت کے لباس میں اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے کے درپے ہوئی ہوں،العلوم دیوبند نے ایسی ہر باطل اور گمراہ تحریکوں کا آگے بڑھ کر مقابلہ کیا ہے اور اسلام کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کرکے دین کے تحفظ کی اہم ترین خدمت انجام دی ہے۔
ان دفاعی جدوجہد کے ساتھ دارالعلوم دیوبند نے اپنی ایک سو اٹھاون سالہ زندگی میں ہزاروں ایسے افراد پیدا کیے، جنھوں نے تعلیم دین، تزکیہٴ اخلاق، تصنیف، افتاء، صحافت، خطابت، تذکیر، تبلیغ، مناظرہ، حکمت، طب وغیرہ فنون علم میں بیش بہا خدمات انجام دیں، پھر ان خدمات کا دائرہ کسی خاص خطہ میں محدود نہیں ہے؛ بلکہ برصغیر کے ہر ہر گوشہ اور دیگر بلاد بعیدہ کے ہر ہر حصہ میں پہنچ کر انھوں نے دین خالص کا پیغام پہنچایا، خلق خدا کو جہل کی تاریکی سے نکال کر نور علم کی دولت سے ممتاز کیا اور تحفظ دین کی تحریک کو آگے بڑھایا اور دینی وعلمی موضوعات پر لٹریچر کا ایسا عظیم الشان ذخیرہ تیار کردیا کہ بغداد وقرطبہ کی علمی سرگرمیوں کی یاد تازہ ہوگئی۔
دارالعلوم دیوبند کا یہ امتیاز بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ عوامی چندہ سے تعلیمی نظام چلانے کا طریقہ اسی کا ایجاد کردہ ہے، دارالعلوم کے قیام سے پہلے برصغیر میں جتنے دینی ادارے تھے ان کا وجود وبقا حکومت یا امراء ورؤسا کی داد ودہش کا مرہون منت ہوتا تھا، ان مدارس کا عوام سے براہ راست کوئی ربط نہیں ہوا کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ اسلامی حکومت کے ختم ہوتے ہی جونپور، لکھنوٴ، دہلی وغیرہ کی علمی انجمنیں اجڑگئیں، علماء وطلبہ نان شبینہ کے محتاج ہوکر کسب معاش کے لیے اِدھر اُدھر منتشر ہوگئے؛ جبکہ دارالعلوم نے کبھی کسی حکومت یا ریاست کے درپر جبہ سائی کو پسند کیا؛ بلکہ اس نے اپنا سرمایہٴ حیات توکل علی اللہ اور خدا کے صالح بندوں کے مخیرانہ جذبات کو قرار دیا اورآج تک وہ اپنے اس امتیاز وکردار پر پامردی اور مضبوطی کے ساتھ قائم ہے اور ایک نہیں متعدد بار حکومت وقت کے عظیم عطیات کو شکریہ کے ساتھ رد کرچکا ہے۔
برصغیر کو غلامی کی لعنت سے نجات دلانے میں بھی دارالعلوم کا بنیادی کردار رہا ہے؛ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ برادرانِ وطن کے دلوں میں آزادیٴ کامل کا جذبہ پیدا کرنے والے اکابر دارالعلوم اور اس کے فضلاء ہی ہیں، اس سلسلے میں حضرت شیخ الہند اور ان کے تلامذہ حضرت شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد مدنی، حضرت مولانا عبیداللہ سندھی، حضرت مولانا منصور انصاری، حضرت مولانا عزیر گل، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی وغیرہ کی جدوجہد اور مساعی جمیلہ سے کون انکار کرسکتا ہے۔
غرضیکہ دارالعلوم دیوبند نے کتاب وسنت کی اشاعت اسلامی تہذیب وثقافت کے بقا وتحفظ اور مذہبی وسیاسی فتنوں سے ملت اسلامیہ کو خبردار رکھنے میں جو ہمہ گیر وحیرت انگیز کارنامہ انجام دیا ہے وہ مدارس اسلامیہ کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔
خدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ دارالعلوم اپنی ان تمام خصوصیات کے ساتھ آج بھی کتاب وسنت اور تحفظ دین کی کوششوں میں مصروف ہے، چنانچہ بعض طالع آزما سیاسی بازی گروں کے درپردہ اشارے پر جب قادیانیت کے مردہ لاشے میں پھر سے جان ڈالنے اور ایک سوئے ہوئے فتنہ کو جگاکر مسلمانوں میں بے دینی و انتشار برپا کرنے کی سازش رچی گئی تو دارالعلوم نے بروقت اس فتنہ کے سر کچلنے کے لیے اپنی فوج میدان میں اتاردی، ایرانی انقلاب کے زیرسایہ رافضیت نے جب اپنا دام تزویر بچھایا تو دارالعلوم نے آگے بڑھ کر امت مسلمہ کی رہنمائی کی، بابری مسجد کی تاریخی وشرعی حیثیت سے قوم کو باخبر کرنے میں بھی دارالعلوم نے قابل قدر کردار ادا کیا، بابری مسجد کی شہادت کے بعد امت کی صحیح رہنمائی کے لیے بھی دارالعلوم دیوبند نے کامیاب جدوجہد کی، غرضیکہ دارالعلوم اپنی بساط اور حدود میں رہ کر ملت کی علمی فکری اور تعمیری خدمت میں مصروفِ عمل ہے؛ لیکن اگر کسی کو دارالعلوم کی یہ خدمات نظر نہیں آتیں تو اس میں دارالعلوم کا نہیں خود اس کی بصارت وبصیرت کا قصور ہے۔
دارالعلوم دیوبند نے اپنے اسی قائدانہ کردار کے تحت جب یہ محسوس کیا کہ موجودہ عہد میں مدارس اسلامیہ کو مزید فعال ومتحرک اور ان کی خدمات کے دائرہ کو وسیع تر بنانے کی ضرورت ہے، تو اس نے جولائی ۱۹۹۴ء میں ولی اللّٰہی منہاج پر قائم ملک کے مدارس کا ایک نمائندہ اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا؛ چنانچہ اس کی دعوت وتحریک پر لبیک کہتے ہوئے وقت کے اکابرعلماء نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس میں شرکت کی اور غور وفکر اور باہمی تبادلہ آراء کے بعد متعدد اہم اور بار آور قرار داد بھی منظور کیں، جن میں ایک مفید ترین تجویز دارالعلوم دیوبند کی زیرنگرانی ”کل ہند رابطہ مدارس“ سے متعلق بھی تھی؛ چنانچہ اسی تجویز پر عمل درآمد کرتے ہوئے اکتوبر ۱۹۹۴ء میں دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام ”کل ہند مدارس“ کا اجتماع دارالعلوم دیوبند کے احاطہ میں منعقد ہوا، جس میں باقاعدہ ”کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ“ کا قیام عمل میں آگیا، اہل نظر جانتے ہیں کہ اس رابطہ کے قیام سے مدار س کو کام کرنے کا تازہ جذبہ اور راہ میں آجانے والے سنگ وخشت اور خاروخش کو حسن تدبیر سے ہٹادینے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔
ملک کے بدلے ہوئے سیاسی وفکری ماحول میں گذشتہ ماہ رابطہ کی مجلس عاملہ، مجلس عمومی اور اجلاس عام تین اجتماعات ہوئے، حالات کے تقاضے کو محسوس کرتے ہوئے ملک کے تقریباً تمام صوبوں کے رابطہ سے وابستہ مدارس کے ارباب ہل وعقد کے علاوہ ملک کے اصحاب فکر علماء کے ایک معتد بہ تعداد نے اس میں شرکت کی اور نہایت کشادہ ذہنی، بالغ نظری اور جرأت ایمانی کے ساتھ آیندہ کے اقدامات کے سلسلے میں فیصلے کیے۔
اس موقع پر ملک کے مدارس سے وابسطہ علماء اور دیگر عمائدین نے جس گرم جوشی اور فراغ حوصلگی کا اظہار کیا، نیز ان سے گفت وشنید کے بعد راقم الحروف کو یہ اندازہ ہوا کہ موجودہ حالات وواقعات سے انھیں تشویش ضرور ہے؛ مگر وہ حائف ومایوس نہیں ہیں؛ بلکہ ان میں اس سنگین ونازک ترین صورتِ حال سے کامیابی کے ساتھ گذرجانے کا جذبہ وحوصلہ ہے جس سے پتہ چل رہا ہے کہ ہندی مسلمان پریشان حال تو ہے؛ مگر بے جان نہیں، جو ایک خوش آئند بات ہے۔
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا باد حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
—————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 99 ، جمادی الثانیہ 1436 ہجری مطابق اپریل 2015ء