از: مولانا محمد پرتاپ گڑھی، فیض العلوم، نیرل

کوئی بھی چیز جب تک اپنے دائرہ میں ہوتی ہے ؛تبھی تک وہ اچھی ہوتی ہے۔ خدانخواستہ وہ چیز اگر اپنے حدو داور دائرے سے نکل گئی؛تو وہی چیزبعض مرتبہ بدترین” شر“ کی صورت اختیار کرلیتی ہے؛اسی لیے کہا گیا ہے کہ” ہروہ خیر جو اپنے حدسے نکل جائے ؛شرہے“۔ چنانچہ بچہ سے محبت رکھنافطری جذبہ اور طبعی عمل ہے ؛لیکن محبت میں آکر” دوا“ بچے کو نہ پلانا، یاحصول علم کے لیے اسے اسکول ومدرسہ نہ بھیجنا یہ خیر نہیں؛ شرہے ، بچہ کے ساتھ بھلائی نہیں؛ برائی ہے، محبت نہیں؛ ظلم ہے۔ چونکہ یہ وہ محبت ہے ؛جو اپنے حدوداور دائرہ سے باہر ہے ۔

تہذیب جدید کے ٹھیکہ داروں نے بے حیائی اوربے غیرتی کو فروغ دینے کے لیے عورتوں کے حقوق کے عنوان سے ایسے پرًفریب سبزباغ تیار کردئے ہیں ؛جونہ صرف اپنے دائرہ وحدود سے باہر ہیں؛بلکہ ان کے اسباب بھی اپنے دائرہ سے باہر ہیں؛جس کی وجہ سے انسانی نظام زندگی میں شدید قسم کی بے چینی اور بدنظمی پیداہوتی چلی جارہی ہے ۔

مردو عورت کو اللہ تعالی نے ایک دوسرے کے لیے پیدافرمایا ہے ،دونوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے آئندہ آنے والی نسل کی نہ صرف بقاکا سامان کریں ؛بلکہ ان کو بہترسے بہتر انسان بنانے اوران کی تہذیب وتعلیم کی راہ میں اپنی گراں قدر خدمات انجام دیں؛ اسی لیے اللہ تعالی نے ان کی جسمانی ساخت جدارکھی ۔مرد کو سخت مشقت اور محنت کے کام تفویض ہوئے ؛اس لیے اس کو جسم کی صلابت اور عقل کی پختگی عطاہوئی ؛عورتوں کے ذمہ نرم ونازک کام متعین ہوئے ؛اس لیے اس کو لطیف جسم ،نرم طبیعت اورعقلی ضعف ملا۔یہی نہیں ؛بلکہ مردووں اورعورتوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے انتہائی کشش اور جذب کا مادہ بھی رکھا؛تاکہ یہ مشکل ترین مرحلہ بحسن وخوبی انجام پزیر ہو ؛ البتہ اس کشش اورجذب سے متمتع و لطف اندوز ہونے کے لیے نکاح اورشادی کی حد متعین کردی اورعورت کو حکم دے دیا کہ وہ اپنے حسن وجمال کو اسی حد کے اندر ظاہر کریں؛ورنہ یہ حسن وجمال ان کے استحصال کا سبب بن جائے گا ۔

مگرجنسی تاجروں نے عورتوں کو لاکربازار میں کھڑاکردیااور بے حیائی وبے غیرتی کا طوفان برپا کردیا؛چنانچہ جب اس طرف سے حدود کی خلاف ورزی ہوئی اور قدم دائرہ سے باہر نکلا، پھر کشش و جذب نے اپنا رنگ دکھایا؛تو جانب مخالف کی طرف سے بھی حدود سے تجاوز ہوا۔مگر ظالموں نے قانون یکطرفہ بنایا اورکہاکہ عورتیں چاہے جتنی حدیں پار کرجائیں؛ ان پر کوئی داروگیر نہیں ؛البتہ اگر مردوں نے اپنے کو قابو میں نہیں رکھا ؛توان کے خلاف کاروائی ہوگی ۔اس غیر منصفانہ فیصلہ اور ظالمانہ کاروائی کی وجہ سے مردوعورت ایک دوسرے کے لیے وبالِ جان اور ہلاکت کا باعث بن گئے ، جن کو اللہ نے ایک دوسرے کے انس کے لیے پیدا کیا تھا؛ وہ ایک دوسرے کے لیے باعثِ وحشت بنتے جارہے ہیں۔اور یہ ایک ایساانسانی المیہ ہے ؛جس پر اگر قابو نہ پایا گیا ؛تو انسانیت تباہ ہوجائے گی ۔پچھلے دنوں اس سلسلے میں ایک اہم خبر یہ آئی تھی:

دست دارزی کے الزام کا خوف مرد پائلٹوں کو کام کے مقررہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر مجبور کررہاہے ؛جس کی وجہ سے مسافروں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔ ضابطے کے مطابق پائلٹ یا معاون پائلٹ اسی وقت ”کاک پیٹ“سے نکل سکتا ہے ؛جب عملے کا کم ازکم ایک رکن کاک پیٹ میں موجود ہو۔اس کا مقصد یہ ہے کہ جہاز اڑانے والاشخص اگراچانک بیمار پڑ جائے تو وہاں کوئی شخص موجود ہو ؛جو حالات کو سنبھال سکے اوردوسرے پائلٹ کو فور ی طور پر بلاسکے ۔مگر دیکھایہ جارہا ہے کہ خانگی” ایئر لائنس“ کے مرد پائلٹ ”ایئر ہوسٹس“(میز بان خواتین) کو باہرہی رکھتے ہیں۔انھیں ڈر ہے کہ کہیں کوئی ایئر ہوسٹس ان پر کوئی الزام نہ لگا دے اورانھیں بدنامی اور جوابدہی کا سامنا کرنا پڑے۔ان کے مطابق ”اگر الزام غلط ہواتب بھی صفائی دینے اور اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے میں کافی پریشانی کا سامنا کرپڑسکتا ہے۔کئی پائلٹوں نے جسٹس گنگولی اور ترون تیج پال جیسے ہائی پروفائل معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاان واقعات نے انھیں اپنے ”تحفظ“ پر مجبورکردیا؛بھلے ہی اس کی وجہ سے کچھ دیر کے لیے مسافروں کی خان خطرے میں پڑجائے (انقلاب بمبئی:۹/۱/۱۴ء)

آپ حیران نہ ہوں ؛درحقیقت یہ نتیجہ ہے اس عریانی وبے حیائی کے طوفان کا؛ جو انسانی فطرت اوراسلامی طبیعت سے بغاوت کرتے ہوئے آزادی اور روشن خیالی کے نام پر برپاکیا گیا تھا۔اورجسے آج مسلمان بھی ترقی کا راز سمجھ کر درآمد کرنے کی کوشش کررہاہے ۔

      معاشرے میں بے حیائی اور بے شرمی کے سد باب کے لیے پچھلے سال ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی نونین کی پارلیمنٹ میں ایک رپورٹ پیش ہوئی تھی ،یہ رپورٹ ڈچ ممبر ”کارتیکا تمارا“نے تیار کی تھی۔انھوں نے کہا :”میرے پاس اس بات کا کوئی جواب موجود نہیں کہ ہم کس طرح عورت کو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس دلاسکیں گے یا اپنے بچوں کو بے حیائی کے اس چنگل سے کیسے آزاد کراسکیں گے “۔بے حیائی کی یلغار پر برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی گزشتہ سال چیخ اٹھے تھے ۔انھوں نے برطانیہ کے تمام گھروں میں تمام فحش ویب سائٹس پر پابندی اور اس مقصد کے لیے” فیملی فرینڈلی فلٹرز“سمیت مختلف تدابیر اختیار کیے جانے کا اعلان کیا تھا ۔

ان واقعات اورحالات سے یہ حقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ فطری اور طبعی حدود سے تجاوز کے نتیجہ میں پیدا شدہ بے حیائی کے کلچر نے جو سنگین صورت حال اختیارکرلی ہے ؛اس کا شدید احساس ہونے کے باجود اس سے نجاب پانا اب مشکل ثابت ہورہا ہے ۔ ہرمعقول شخص سمجھ سکتا ہے کہ صنفی معاملات میں فطر ت کے منافی یہ رویہ معاشرہ کو مکمل طور پر تباہ کررہا ہے اورمغربی تہذیب کے بارے میں اقبال مرحوم کی یہ پیش گوئی حقیقت بنتی نظر آرہی ہے :

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 99 ‏، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء

Related Posts