از: مفتی محمد فیاض قاسمی
رہوا،رامپور،وارث نگر،سمستی پور
ڈاکٹروں کی تحقیق اور علمی حلقوں میں یہ بات زیر بحث چلتی چلی آرہی ہے کہ اگر کوئی شخص پیدائشی طور پر لاعلاج بیماری میں مبتلاہے یا عمر کے کسی بھی اسٹیج پر وہ مہلک مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کی حالت ایک زندہ نعش کی ہوجاتی ہے کہ وہ خود سے اپنی کوئی بھی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ سارا کام اس کے قریبی رشتہ داروں کی مدد سے انجام پاتا ہے۔ تکلیف بھی اتنی شدید کہ مریض ہروقت آہ وبکا کرتا رہتا ہے۔ اسے موت آتی ہے اور نہ ہی شفا نصیب ہوتی ہے۔ اس کی تکلیف اس کے رشتہ داروں سے دیکھی نہیں جاتی اور اس کی وجہ سے اس کے احباب ہر وقت پریشان رہتے ہیں۔ بعض مریضوں کو تو مرض کی شدت کم کرنے کے لیے دواوٴں اور دیگر جدید مشینوں کی مدد سے مستقل طور پر بے ہوشی میں رکھا جاتا ہے؛ تاکہ اس کی تکلیف میں مزید اضافہ نہ ہو۔ اس طرح کی صورت حال میں مریض یا اس کے رشتہ دار یہ چاہتے ہیں کہ ایسے میں مریض کا زندہ رہنا نہ رہنے کے برابر ہے، تو پھر کیوں نہ اسے مناسب تدابیر کے ذریعہ موت کے آغوش میں پہنچا دیا جائے؛ تاکہ جہاں مریض کو ناقابلِ برداشت تکالیف سے نجات مل جائے گی وہیں، اس کے رشتہ داروں کوبھی پریشانیوں سے چھٹکارا مل جائے گا، جو مریض کی دیکھ بھال اور اس کی خدمت کی وجہ سے ہوا کرتی ہے۔ اسی عمل کو موت بجذبہٴ شفقت یعنی یوتھینزیا (Euthanasia) کہا جاتا ہے، تھوڑی سی تمہید وتعارف کے بعد اس کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
اللہ پاک نے اپنی تمام تر مخلوقات میں سب سے افضل انسان کو بنایا اور اسے اکرام سے بھی نوازا،”وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنیِ اٰدَمَ“۔ انسان کی خلقت اور تکریم کے ساتھ ساتھ اللہ نے مقصد کی تعیین بھی کردی کہ انسان اور جنات کی تخلیق ہم نے اپنی عبادت کے لیے کی ہے، فرمایا ”وَمَاخَلَقْتُ الجِنَّ والاِنسَ اِلاّلِیَعْبدُونِ“۔
تحسین خلقت، تعیین مقصد اور تکریم اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان کا پاس ولحاظ ہمہ وقت رکھا جائے، تبھی بندگی بندگی کہلائے گی۔ اگر اس کے خلاف کوئی ایسی راہ اختیار کی جائے جس میں مذکورہ امور کی پامالی ہو، تو پھر گویا خالق کی خلقت میں تصرف کرنا ہے، جوکہ سراسر ظلم ہے۔
یوتھینزیا یعنی مہلک اور تکلیف دہ مرض کو جھیل رہے مریض پر رحم کرتے ہوئے اسے مصیبت سے نجات دلانے کے لیے موت کی نیند سُلادینا دونوعیت کا ہوسکتا ہے: عملی اور غیر عملی۔
(۱) پہلی صورت عملی: جس میں مریض کو کسی دوا وغیرہ کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دینا ہے۔ اس کی حیثیت اسلا م میں قتل کی ہے اور شریعت مطہرہ اس کی اجات نہیں دیتی۔ اللہ پاک نے فرمایا: ”لا تَقْتُلُوْ ا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ“ (سورہ انعام آیت ۱۵۱) یعنی کسی بھی جان کو ناحق قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ حدیث پاک میں وضاحت ہے کہ قتل کا جواز صرف تین وجوہ سے ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ قتل کرنا حرام ہے۔ ”لایَحِلُّ دَمُ اِمرِیٴٍ مسلمٍ اِلّا بِاِحْدَیٰ ثَلاثٍ، کُفْرٌ بَعدَ الایمانِ، وَزِناً بعدَ اْلاحصانِ، قتلُ نفسٍ بغیرِ حقٍ“ (تفسیرکبیر ج۱۳، ۱۴/ ص۲۳۳) یعنی کسی کا خون حلال ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا ہو؛شادی شدہ تھا پھر زنا کیا ہو؛ یا کسی نے ناحق کسی کو قتل کردیا ہو۔ صرف ان ہی تینوں صورتوں میں اس طرح کے مجرم کو قتل کرنا جائز ہے۔ ان کے علاوہ کسی کی جان لینے کے جو بھی حربے اختیار کیے جائیں، وہ ناحق اور ناجائز ہوں گے۔
نیز انسان کو اللہ پاک نے پید اکیا ہے؛ لہٰذا انسان اللہ کے ہاتھ کی تعمیر شدہ عمارت ہے اور اللہ کی عمارت گرانے اور ڈھانے والا ملعون ہے۔”اَلاٰدمِیُ بُنیانُ الرَّبِ مَلعونٌ مَن ھَدَمَ بنیانَ الربِ“ الحدیث (تفسیرکبیر ج۱۹،۲۰ ص۲۰۰)۔ یعنی خالق کی خلقت میں تصرف کرنا لعنت کا باعث ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح بندہ پر اللہ کا حق ہے اور وہ حق یہ ہے کہ بندہ اس کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ ”قال علیہ السلام: حَقُّ اللہِ عَلیَ العِبادِ اَنْ یَعْبُدُوْہُ وَلا یُشرِکُوْا بِہ شَیئًا“ (تفسیرکبیرج۱۹،۲۰ ص۲۰۰) اب اگر کسی کو ناحق موت تک پہنچا دیا جائے تو گویا اس نے اللہ کا حق جو اس بندے پر تھا، اس کو چھین لیا اور اس کی عبادت سے اسے محروم رکھا۔ مریض اگرچہ حالت مرض میں ہے تب بھی وہ اللہ کے حق (عبادت) کو کسی نہ کسی حیثیت سے پورا کررہا ہے؛ لہٰذا اس کو موت آنے سے پہلے عملی طور پر موت کی نیند سلا دینا اللہ کے حق کی حق تلفی ہوگی۔
فتاوی شرعیہ میں ایک سوال ہے: ”کیا ایسا مریض جو اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا ہو تو اس کو عملی طریقہ سے موت تک پہنچانا جائز ہے“؟ اس کے جواب میں لکھا ہے کہ کسی بھی ذریعہ سے مریض کو قتل کرنا حرام قطعی ہے اور ایسا کرنے والا قاتل اور جو شخص ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے یا اس پر آمادہ کرتاہے وہ بھی اس گنا ہ عظیم میں شریک ہوگا۔ (الفتاوی الشرعیہ، ج۴ص ۴۵۱ باب التداوی)
مریض گرچہ طویل عرصہ سے مرض کو جھیل رہا ہے جو اس کے لیے سخت تکلیف کا باعث ہے؛ لیکن ایسی حالت میں زندہ رہنا بھی اس کے لیے فائدہ سے خالی نہیں ہے؛ کیوں کہ مسلمان کو جب بھی کوئی تکلیف، غم، مصیبت اور اذیت پہنچتی ہے حتی کہ اگر اسے کانٹا بھی چبھ جاتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ پاک اس کے گناہوں کو معاف کردیتے ہیں۔ گویا بیماری میں مبتلا ہونا بھی مغفرت الہی کا ذریعہ ہے، لہٰذا مریض کی مغفرت کی راہ مسدود نہ کی جائے۔ ”عَن اَبِی سَعِیدٍ عَنِ النبیِ صلی اللہ علیہ وسلم قال مَا یُصِیبُ المسلمَ مِن نَصبٍ ولا وَصَبٍ وَلاَھَمٍّ ولا حُزْنٍ ولا اَذیً وَلا غَمٍّ حَتٰی الشَوکَةَ یُشاکُھا اِلّا کَفَّرَ اللہُ بِھا مِنْ خَطَایَاہُ“ متفق علیہ (مشکوةج۱، ص۱۳۴) ایک دوسری روایت میں ہے”مامِن مُسلمٍ یُصِیْبُہ اَذی مِنْ مَرضٍ فَما سِواہُ اِلّا حَطَّ اللہُ بِہ سَیِّئاتِہ کَما تُحُطُ الشَجرةُ وَرَقَھا (مشکوة۱۳۴)
نیز فقہاء کے اصول سے بھی ایسے عمل کی اجازت نہیں ملتی ہے۔ ”اِذا تَعارضَ دلیلُ تَحریمِ القَتلِ ودلیلُ اِباحَتِہ فَقَدْ اَجمَعُوا علٰی اَنّ جانِبَ الحُرمةِ راجحٌ“ یعنی جب کسی کے قتل کے حرام اور حلال ہونے کی دلیل متعارض ہوجائے تو ایسی صورت میں جانبِ حرمت کو ترجیح ہوگی۔ یہ ٹھیک ہے کہ یوتھینزیا کے مریض کو اس کی گرانبار زندگی سے اور اس کے اعزا واقربا کو اس کی طویل پریشانیوں سے نجات دلانے کے لیے ایسے مریض کو موت تک پہنچادینا مناسب اور مباح معلوم ہوتا ہے؛ لیکن اسبابِ قتل میں سے کسی سبب کے نہ پائے جانے کی وجہ سے قتل کی حرمت بھی معلوم ہوتی ہے، لہٰذا ایسے تعارض کے وقت حرمت کی دلیل کو راجح قرار دے کر حرمت کا حکم لگایا جائے گااور اسے موت تک پہنچادینے والے اسباب کے اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(۲) دوسری صورت (غیرعملی): جس میں مریض کو موت تک پہنچانے کے لیے اس کے مرض کے علاج کو ترک کردیا جائے؛ تاکہ وہ خود ہی مرجائے؛ یہ حربہ بھی جائز نہیں۔ اللہ پاک نے جب بیماری پیدا کی ہے تو اس کے علاج کی صورتیں بھی پیدا فرمائی ہیں۔ ہر مرض کا علاج موجود ہے۔ ضرورت ہے تلاش اور صحیح تشخیص کی۔”عَن اَبِی الدَّرْداءِ قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اِنَّ اللہ اَنزلَ الدَاءَ والدَواءَ، جَعلَ لِکُلِ داءٍ دواءً فَتَدَاوَوْا، ولاتَدَاوَوْا بِحرامٍ“ (رواہ ابوداوٴد، شرح الطیبی ج۹/ص ۲۹۶۳)
یعنی یہ گمان رکھنا کہ فلاں بیماری جو مریض کو لاحق ہے، اس کا علاج ممکن نہیں اور اس کے لیے کوئی دوا یا شفاکی چیز تیار نہیں کی گئی، یہ خیال فاسد ہے اور حدیث کے خلاف ہے۔ شریعت مطہرہ اس کے پیش نظر علاج کرانے کی ترغیب دیتی ہے۔ فقہا ومحدثین نے علاج کرانے کو مستحب قرار دیا ہے؛ کیوں کہ خود آپ … نے علاج کرایا ہے۔ ایک مرتبہ آپ … سے لوگوں نے دریافت کیا:یا رسولَ اللہ! کیا ہم علاج نہ کرائیں؟ تو آپ … نے فرمایا؛ کیوں نہیں، اللہ کے بندو! علاج کراوٴ؛ کیوں کہ اللہ پاک نے کوئی بیماری ایسی نہیں پیدا کی جس کے لیے شفانہ ہو۔ یعنی ہر مرض کی دوا موجود ہے۔ ”عن اُسامةَ بنِ شریکٍ قال، قالوا: یا رسول اللہ، اَفَنَتَدَاوٰی؟ قال نَعَمْ، یاعَبدَاللہِ تَداوَوا، فاِن اللہ لَمْ یَضعْ داءً اِلاّ وَضعَ لہ شِفاءً، غَیرَ داءٍ واحدٍ، اَلھَرمِ۔ رواہ احمد والترمذی وابودواوٴد (شرح الطیبی ج۹/۲۹۶۲)
یہ حقیقت ہے کہ دوا فی نفسہ شافی نہیں؛ بلکہ شفا دینے والا خالق حقیقی اللہ ہے؛ لیکن دنیا دارالاسباب ہے؛ اس لیے اسباب اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی توکل کے پیش نظر علاج کرانا ترک کردیتا ہے تویہ بھی جاننا چاہیے کہ توکل کے کئی درجات ہیں، ان میں کون سا توکل معتبر ہوگا۔ لہٰذا اگر کوئی توکل کرکے زہر پی لے یا پہاڑ سے کودجائے یا ٹرین کے نیچے آجائے تو ایسا توکل نص قطعی کے خلاف ہوگا۔ اللہ نے فرمایا: لاتُلقُوا بِاَیْدِیکم اِلی التَھْلُکَةِ۔
نیز ضررکو زائل کرنے والے اسباب کی تین قسمیں ہیں: یقینی، ظنی، وہمی۔ کوئی مرض ایسا لاحق ہوجائے کہ ترک علاج کی وجہ سے اس مریض کا ہلاک ہونا یقینی ہو، تو ایسی صورت میں توکل کی وجہ سے یا روپے پیسے خرچ ہونے کے خوف سے یا اقربا کی پریشانی کے باعث مریض کے علاج کو چھوڑ دینا جو موت تک پہنچانے والا ہو، جائز نہیں۔ ”اِن الاَسْبابَ المُزِیلةَ لِلضَررِ تَنقَسمُ الی مقطوعٍ بِہ کالماءِ المُزیلِ لِضَررِالعطشِ والخُبزِ المزیلِ لضرر الجُوعِ ․․․․الخ اَما المَقطوعُ بِہ فَلَیسَ تَرْکُہ مِنَ التَوَکُّلِ بَلْ تَرکُہ حَرامٌ عِندَ خَوفِ المَوتِ (اوجزالمسالک ج۶/ص ۳۱۱)
گو علاج کرانا واجب نہیں؛ لیکن مریض کو یوں ہی بلا علاج کے یا علاج موقوف کرکے چھوڑ دینا کہ وہ موت کے منہ میں چلا جائے، یہ بھی تو انسانی حمیت اور تکریم کے خلاف ہے۔ ایسی صورت میں انسان ایک بے قیمت سامان کی مانند ہوجائے گا اور اس کی کوئی اہمیت، کوئی مقام اور قدر باقی نہیں رہے گا، جوکہ اللہ کی مشیت اور تخلیق کے منافی ہے۔ ہرکسی کی جان سستی ہوجائے گی۔ وہ سمجھے گا کہ اسے مرنا ہی ہے اور مرنے دیا جائے؛ غرض ایسا عمل رسول اللہ … کی تعلیم (عیادت) اور اسلام کی روح مسخ کرنے کے مترادف ہوگا؛ کیوں کہ اسلا م نے ہمیں ہمدردی، غمگساری، اخوت ومحبت اور ”مَنْ کَانَ فِی حَاجةِ اَخِیہِ کان اللہُ فی حاجتِہ وَمَن فَرجَ عَن مسلمٍ کُربةً فرج اللہ عنہ کربةً مِن کُرَبٍ یَومَ القِیامةِ“ کا درس دیاہے۔ لہٰذا ایسے خلاف شرع مقاصد کے لیے ترک معالجہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔
—————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1، جلد: 99 ، ربیع الاول1436 ہجری مطابق جنوری 2015ء