از: مولانامحمدنجیب قاسمی سنبھلی

علماء امت کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اسلاممیں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر نماز وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر کبھی کوئی نماز وقت پر ادا نہ کرسکے تو اسے پہلی فرصت میں پڑھنی چاہیے۔ ہماری اور ہمارے علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ امتِ مسلمہ کا ہر ہر فرد وقت پر نماز ادا کرنے والا بن جائے اور ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں؛ کیونکہ اسی میں ہماری اور تمام انسانوں کی اخروی کامیابی مضمر ہے؛ جیساکہ خالق کائنات نے سورة الموٴمنون آیات (۱ ۔ ۱۱)میں بیان فرمایا ہے۔

نماز بالکلیہ نہ پڑھنے والوں یا صرف جمعہ وعیدین یا کبھی کبھی پڑھنے والوں کا قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی حکم کیا ہے؟ سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمیننے اپنی کتاب ﴿حکم تارک الصلاة﴾ میں فقہاء وعلماء کی مختلف آراء تحریر کی ہیں : حضرت امام احمد ابن حنبل  فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کافر ہے ۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اگر توبہ کرکے نماز کی پابندی نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی  کہتے ہیں کہ نماز کو چھوڑنے والا کافر تو نہیں؛ البتہ اس کو قتل کیا جائے گا۔ حضرت امام ابوحنیفہ  فرماتے ہیں کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا؛ البتہ حاکم وقت اس کو جیل میں ڈال دے گا اور وہ جیل ہی میں رہے گا، یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز شروع کردے یا پھر وہیں مرجائے۔

قرآن وحدیث میں وارد نماز کی وقت پر ادائیگی کی خصوصی تاکید کے باوجود بعض مرتبہ نماز فوت ہوجاتی ہے، کبھی بھول سے، کبھی کوئی عذر لاحق ہونے کی بنا پر اور کبھی محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وافعال کی روشنی میں جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کا اتفاق ہے کہ تمام فوت شدہ نمازوں کی قضا کرنی چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اگر نماز وقت پر ادا نہ کرسکیں تو بعد میں اس کو پڑھیں، اختصار کے مدنظر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ایک حدیث ذکر کررہا ہوں: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کو بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے فوراً پڑھ لے، اس کا سوائے اس کے کوئی کفارہ نہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے نماز قائم کرو میری یاد کے واسطے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) بعض روایات میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح وارد ہوئے ہیں: جو شخص نماز کو بھول جائے یا اس کو چھوڑ کر سوجائے ، اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے اسے پڑھے۔ حدیث کی مشہور کتاب ترمذی میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو بھی نماز کو بھول جائے یا اس سے سو جائے تو وہ جب بھی یاد آئے اس کو پڑھ لے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ تاخیر سے سونے کی عادت بناکر فجر کی نماز کے وقت سوتے رہنا گناہ کبیرہ ہے۔ دیگر احادیث کی روشنی میں اس حدیث میں سوتے رہنے سے مراد یہ ہے کہ نماز وقت پر پڑھنے کے اسباب اختیار کیے؛ مگر کسی دن اتفاق سے آنکھ نہ کھل سکی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام نے بعض نمازیں وقت کے نکلنے کے بعد ادا فرمائی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہٴ کرام کے ساتھ غزوہٴ خیبر سے واپس ہورہے تھے، رات میں چلتے چلتے جب نیند کا غلبہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رات کے اخیر حصہ میں ایک جگہ قیام فرمایااور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نگہبانی کے لیے متعین فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  لیٹ گئے اور صحابہ بھی سو گئے۔ جب صبح قریب ہوئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ (تھکان کی وجہ سے) اپنی سواری سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے ، پس آپ پر نیند غالب ہوئی اور وہ بھی سو گئے اور سب حضرات ایسے سوئے کہ طلوعِ آفتاب تک نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھ کھلی اور نہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی، نہ کسی اور صحابی کی۔جب سورج طلوع ہوا اور اس کی شعاعیں ان حضرات پر پڑیں تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بیدار ہوئے اور گھبراکر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اٹھایا۔ پھر صحابہٴ کرام کو آگے چلنے کا حکم دیا، صحابہٴ کرام اپنی سواریاں لے کر آگے بڑھے اور ایک جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جو نماز کو بھول جائے اس کو چاہیے کہ وہ یاد آنے پر اس کو پڑھ لے۔ (صحیح مسلم)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوہٴ خندق کے دن آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اب تک عصر نہ پڑھ سکا حتی کہ سورج غروب ہونے کو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میں نے بھی عصر نہیں پڑھی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضوکیا، ہم نے بھی وضو فرمایا اور پھر غروب آفتاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہلے عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری) بعض احادیث میں مذکور ہے کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک سے زیادہ نمازیں فوت ہوئی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں وقت نکلنے کے بعد پڑھا۔

مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ اگر ایک یا ایک سے زیادہ نماز فوت ہوجائے تو فوت شدہ نمازوں کا پڑھنا لازم وضروری ہے۔ تفصیلات کے لیے امام نووی کی صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح (شرح مسلم ج۱ ص ۲۷۷) اور ابن حجر عسقلانی  کی صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح (فتح الباری ج۲ ص ۶۹ ۔ ۷۰) کا مطالعہ کریں۔ بھول یا عذر کی وجہ سے وقت پر نماز ادا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ان شاء اللہ۔ لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کردے تو یہ بڑا گناہ ہے، اس کے لیے توبہ ضروری ہے۔ توبہ کے ساتھ جمہور علماء کی رائے ہے کہ اس کو نماز کی قضا بھی کرنی ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل  کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ قصداً وعمداً نماز چھوڑنے پر بھی نماز کی قضاء کرنی ہوگی۔ شیخ ابو بکر الزرعی (۶۹۱ھ۔۷۵۱ھ) نے اپنی کتاب (الصلاة وحکم تارکھا) میں تحریر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل  نے کہا کہ اس شخص پر بھی نماز کی قضا واجب ہے جو قصداً نماز کو چھوڑدے؛ مگر قضاء سے نماز چھوڑنے کا گناہ ختم نہ ہوگا؛ بلکہ اسے نماز کی قضاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی۔ علامہ قرطبی (متوفی ۶۷۱ھ) نے اپنی مشہور ومعروف تفسیر (الجامع لاحکام القرآن ج ۱ ص ۱۷۸) میں یہی تحریر کیا ہے کہ جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے شخص پر قضاء واجب ہے، اگرچہ وہ گناہ گار بھی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ  نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل  کے نزدیک جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر قضاء واجب ہے ۔ غرضیکہ اگر کسی شخص کی ایک یا متعدد نمازیں قصداً چھوٹ جائیں تو اللہ تعالیٰ سے معافی کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنی ضروری ہے؛ کیونکہ جمہور علماء حتی کہ چاروں ائمہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی کہا ہے، صرف زمانہٴ قدیم میں جناب داوٴد ظاہری اور موجودہ زمانہ میں اہلِ حدیث حضرات نے اختلاف کیا ہے۔ اور جن بعض علماء نے نماز کے جان بوجھ کر ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے واجب نہ ہونے کا جو فیصلہ فرمایا ہے وہ اصل میں اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نقطئہ نظر میں جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ اب جب کافر ہوگیا تو نماز کی قضاء کا معاملہ ہی نہیں رہا؛ لیکن جمہور علماء کی رائے ہے کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر نہیں؛ بلکہ فاسق یعنی گناہ گار ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے ورنہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد دائرہٴ اسلام سے خارج ہوجائے گی۔

صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے اور ریاض الصالحین کے مصنف امام نووی  نے شرح مسلم میں تحریر کیا ہے کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص نماز کو عمداً ترک کردے اس پر قضاء لازم ہے۔ بعض علماء نے مخالفت کی ہے؛ مگر بعض علماء کی یہ رائے اجماع کے خلاف ہونے کے ساتھ دلیل کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔ نیز انھوں نے تحریر کیا ہے کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ بلا عذر چھوٹی ہوئی نماز کی قضاء واجب نہیں، اور انہوں نے یہ خیال وگمان کیا کہ نماز کا چھوڑنا اس سے بڑا گناہ ہے کہ قضاء کرنے کی وجہ سے اس کے وبال سے نکل جائے؛ مگر یہ قول کے قائل کی غلطی وجہالت ہے۔ (شرح مسلم ج۱ ص ۲۳۸)

علامہ عبد الحئی حنفی لکھنوی  (جنہوں نے صرف ۴۰ سال کی عمر پائی اور تقریباً ۸۰ کتابیں تحریر فرمائیں، جن کی علمی صلاحیتوں کو تمام مکاتبِ فکر نے تسلیم کیا ہے ) تحریر کرتے ہیں کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ اپنے وقت میں نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنے والے پر ضروری نہیں کہ دوسرے وقت میں اس کو ادا کرے۔ (التعلیق الممجد علی موٴطا للامام محمد ص۱۲۷) ۔

غور فرمائیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھولنے والے یا سونے والے پر بھی فوت شدہ نماز کی قضاء کو لازم کیا ہے؛ حالانکہ یہ دونوں گناہ گار نہیں ہیں تو جان بوجھ کر قضاء کرنے والے پر بدرجہٴ اولیٰ نماز قضاء ہونی چاہیے۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ (اپنے والدین کو اف نہ کہو) تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب والدین کو (اف) کہنا بھی جائز نہیں تو ان کو مارنا پیٹنا یا گالی دینا اور بھی برا اور سخت گناہ ہوگا۔ اسی طرح جب بھولنے اور سوجانے پر قضاء لازم کی گئی تو عمداً ترک نماز پر قضاء اور بھی زیادہ ضروری ہے۔

صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے یا ایک عورت نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا اور اس پر ایک ماہ کے روزے رہ گئے ہیں تو کیا میں ان کی قضاء کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کرتا؟ اس نے کہا کہ ہاں میں ادا کرتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا قرض زیادہ مستحق ہے کہ اس کی ادائیگی کی جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ ارشاد روزوں کی قضاء کے بارے میں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ روزہ اور نماز میں فرض ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں؛ بلکہ قرآن وحدیث میں نماز پڑھنے کی تاکید سب سے زیادہ وارد ہوئی ہے۔ لہٰذا جب روزے کی قضاء ہے تو نماز کی بھی قضاء ہونی چاہیے۔

نیز پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر رمضان کا روزہ ترک کردے تو اس کی قضاء ضروری ہے، اسی طرح اگر کسی شخص نے استطاعت کے باوجود حج ادا نہیں کیا تو اس کے مرنے پر اس کے وارثین پر لازم ہے کہ وراثت کی تقسیم سے قبل اس کے ترکہ میں سے حج بدل کا انتظام کرے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے قصداً متعدد سالوں سے زکوٰة ادا نہیں کی اور اب اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے تو اسے گزشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کرنی ہوگی۔

خلاصہٴ کلام یہ کہ ۱۴۰۰ سال سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی یہی رائے ہے کہ نماز کے فوت ہونے پر اس کی قضاء کرنی ضروری ہے خواہ بھول جانے یا سوجانے کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو، یا جان بوجھ کر نماز چھوڑی گئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ۔ مشہور ومعروف چاروں ائمہ کی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے۔بھول جانے یا سوجانے کی صورت میں گناہ گار نہیں ہوگا؛ مگر قضاء کرنی ہوگی اور قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی ہوگی۔

جن علماء نے فرمایا ہے کہ قصداً نماز ترک کرنے والا کافر ہوجاتا ہے، جیسا کہ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز کا موقف ہے، تو ان کا یہ قول کہ جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کی قضاء نہیں ہے، کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے، اگرچہ قصداً نماز چھوڑنے والے پر کافر ہونے کا فتویٰ لگانا جمہور علماء کے قول کے خلاف ہے؛ مگر وہ حضرات جو جمہور علماء کے قول کے مطابق تارک صلاة پر کافر ہونے کا فتویٰ تو صادر نہیں فرماتے؛ مگر قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ضروری نہ ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو ان کی یہ رائے جمہور علماء کے قول کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ غیر منطقی اور دلائل کے اعتبار سے باطل بھی ہے، جیسا کہ مشہور ومعروف محدث امام نووی  نے تحریر کیا ہے۔ نیز احتیاط کا تقاضی بھی یہی ہے کہ فرض نماز کی قضاء کو واجب قرار دیا جائے؛ تاکہ کل آخرت میں کسی طرح کی کوئی ذلت اٹھانی نہ پڑے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداوٴد، مسند احمد)

 جب ہم نے یہ تسلیم کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نماز فرض کی ہے اور قصداً نماز چھوڑنے والا کافر نہیں؛ بلکہ فاسق وفاجر ہے تو قصداً نماز چھوڑنے پر قضاء کے واجب نہ قرار دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ مثلاً اگر کسی شخص نے زنا کیا یا چوری کی تو اسے اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی اور اگر اس کا جرم شرعی عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر حد بھی جاری ہوگی۔ یعنی اسے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ دنیاوی سزا بھی بھگتنی ہوگی۔ اسی طرح قصداً نماز چھوڑنے والے کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ نماز کی قضاء بھی کرنی ہوگی۔

غرضیکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنا چاہیے، ہاں خدا نخواستہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے تو پہلی فرصت میں اس کی قضاء کرنی چاہیے خواہ بھول کی وجہ سے یا سونے کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نماز ترک ہوئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ یا چند سالوں کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام کے زمانہ میں یہ تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر کئی دنوں تک نماز نہ پڑھے ۔ خیرالقرون میں ایک واقعہ بھی قصداً چند ایام نماز ترک کرنے کا پیش نہیں آیا؛بلکہ اس زمانہ میں تو منافقین کو بھی نماز چھوڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ اگر لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نمازیں ترک ہوئی ہیں تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے اور توبہ واستغفار کا سلسلہ موت تک جاری رکھ کر فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنی چاہیے خواہ وہ فوت شدہ نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرے یا اپنی سہولت کے اعتبار سے ہر نماز کے ساتھ قضاء کرتا رہے۔ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ ایسے شخص کے لیے بہتر ہے کہ وہ نوافل کا اہتمام نہ کرکے فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرے۔ یہی ۱۴۰۰ سالوں سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وافعال کی روشنی میں رائے ہے اور عصر حاضر میں مشرق سے مغرب تک اکثر وبیشتر علماء کرام کی یہی رائے ہے اور یہی قول احتیاط پر مبنی ہے کہ نمازوں کو چھوڑنے کا سخت گناہ ہے حتی کہ علماء کرام نے فرمایا ہے کہ زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہٰذا فوت شدہ نمازوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ ان کی قضاء بھی کرنی چاہیے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں نمازوں کو ان کے اوقات میں پڑھنے والا بنائے اور ایک وقت کی نماز بھی ہماری فوت نہ ہو!

————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1، جلد: 99 ‏، ربیع الاول1436 ہجری مطابق جنوری 2015ء

Related Posts