از: مفتی محمد تبریز عالم قاسمی
استاذ دارالعلوم حیدرآباد
انسان جب زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے تو واقعی وہ انسان ہوتا ہے، ہر زمانے میں تعلیم یافتہ حضرات کی قدروقیمت رہی ہے؛ تعلیم کے بغیر ترقی و عروج کی خواہش، بے بنیاد خواہش ہے، انسان کی نافعیت کے لیے، دینی تعلیم، اسلامی تربیت، ایمانی شائستگی اور انسانی عادات وآداب کی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی ضرورت مچھلی کے لیے پانی کی ہے، تعلیم وہ نسخہٴ کیمیا ہے، جس سے مُردوں کی مسیحائی عمل میں آسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ احادیت میں دینی تعلیم کے حصول کی افادیت واہمیت کی بہت تاکید کی گئی ہے۔
خداوند قدوس نے دنیا کو آباد رکھنے کے لیے حضرت آدم کے ساتھ حضرت حواء کو بھی پیدا فرمایا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک تناسب سے مرد وخواتین کی تخلیق ہوتی رہی، مکلف بن جانے کے بعد دونوں کی ذمہ داریاں الگ الگ طے کردی گئیں، مردوں کو بطورِ خاص خارجی معاملات کا نگراں بنایاگیا؛ جب کہ عورتوں کو اندرونِ خانہ معاملات کا ذمہ دار بنایاگیا اور اسے تاکید کی گئی کہ اس کی عزت وآبرو اور اخروی فلاح وبہبود، چراغِ خانہ بنے رہنے میں مضمر ہے اور اس کا شمعِ محفل بننا اسلام کو پسند نہیں؛ اسی لیے خالقِ کائنات نے عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات ان سب کا مکلف جیسے مردوں کا بنایا ہے، ویسے ہی عورتوں کو بھی اس کا مخاطب بنایا ہے، اسی لیے علم کا حصول دونوں ہی صنفوں پر فرض قرار دیاگیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ علم کے جو ذرائع ہیں یعنی انسان کی ظاہری حواس، عقل وفہم اور دوسرے انسانوں سے استفادہ کی صلاحیت، مردوں میں بھی پائی جاتی ہیں اور عورتوں میں بھی۔
جہاں اس امر کا انکار اسلامی نقطئہ نظر سے ناممکنات میں سے ہے کہ مردوں کے لیے اتنا علم اور اتنی دینی تعلیمات بے حد ضروری ہے، جن سے وہ دین پر صحیح طور سے عمل پیرا ہوسکیں اور شریعت کے مطالبات کو روبہ عمل لاکر نگاہِ شریعت میں معتبر بن سکیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ عورتوں کے لیے دینی تعلیم وتربیت سے آگاہ ہونا اور دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا، آئندہ کی دائمی حیات کے لیے ناگزیر ہے، اور اسی دینی تعلیم وتربیت کو روبہ عمل لاکر کے ایک عام قومی بیداری اور اجتماعی شعور کو ترقی دینے کا خواب شرمندہٴ تعبیر ہوسکتا ہے اور چوں کہ عورت کے کئی رنگ ہیں، کبھی وہ رحمت کی شکل میں بیٹی کا روپ لیے ہوتی ہے، تو کبھی پیاری بہن، کبھی کسی کی شریک حیات ہوتی ہے، تو کبھی ماں کی شکل میں شجرسایہ دار؛ اس لیے اس کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے اور اس کے لیے زیورِتعلیم کی قیمت، سونے چاندی سے بھی بڑھ جاتی ہے؛ چوں کہ اسلام سے قبل عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی جاتی تھی؛ اس لیے آپ نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی، آپ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنی بیٹی کی خوب اچھی طرح تعلیم وتربیت کرے اور اس پر دل کھول کر خرچ کرے تو (بیٹی) اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگی (المعجم الکبیر للطبرانی ۱۰۴۴۷)، امام بخاری نے تعلیم نسواں کے سلسلے میں ایک پورا باب ہی قائم کیا ہے باب عظة الامام، النساء وتعلیمہنّ، حضور علیہ الصلاة والسلام جیسے صحابہٴ کرام کو پند ونصیحت کیا کرتے تھے ویسے ہی صحابیات کے درمیان بھی تبلیغ دین فرمایا کرتے تھے۔
ایک بیٹی، رحمت اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کا قلب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہو، وہ فاطمی کردار و گفتار کا پیکر ہو، ایک عورت، مرد کے لیے شریکِ حیات کی شکل میں، روحِ حیات اور تسکینِ خاطر کا سبب اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کا دل سیرتِ خدیجہ سے سرشار ہو، وہ ایک مشفق اور ہر درد کادرماں، مصائب کی گرم ہواؤں میں، نسیم صبح کی صورت میں ”ماں“ اسی وقت ثابت ہوسکتی ہے؛ جب کہ اس کی گود بچے کے لیے پہلا اسلامی مکتب ثابت ہو، وہ بھائیوں کی محبتوں کا مرکز وملجا اسی وقت ہوسکتی ہے، جب کہ اس کے جذبات واحساسات، ویسے ہوجائیں، جیسے حضرت عائشہ کے جذبات، اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن کی وفات کے بعد امت کے سامنے آئے۔
اسلامی زندگی کے سفر میں نام نہاد مغربی تعلیم وتہذیب کے دھوکہ دینے والے چراغ کافی نہیں ہیں؛ بلکہ اس سفر کی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے اسلامی تعلیمیات کے روشن ستاروں سے نسبت رکھنا بے حد ضروری ہے، مغربی تہذیب کے چراغ کسی بھی وقت بجھ سکتے ہیں؛ لیکن اسلامی تعلیمات کے ستاروں کی ضیاپاشی اور تابندگی کی بقاءِ حیات ایک زندہ جاوید حقیقت ہے۔
عصر حاضر اور ہماری کوتاہیاں
لیکن آج تعلیم گاہوں اور دینی تعلیمات کے متعدد ذرائع کے موجود ہونے کے باوجود، دینی تعلیم سے بے رغبتی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے، جس مذہب نے دینی تعلیم کو تمام مردوں عورتوں کے لیے فرض قرار دیا ہو اور جس مذہب میں علم وحکمت سے پُرقرآن جیسی عظیم کتاب ہو اور جس مذہب کی شروعات ہی ”اقرأ“ یعنی تعلیم سے ہوتی ہو، اسی مذہب کے ماننے والے دینی تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں اور اگر بات عورتوں کی مذہبی تعلیم کی، کی جائے (نہ کہ محض عصری ومغربی تعلیم کی) تو معاملہ حد سے تجاوز ہوتا ہوا نظر آتا ہے، کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچوں کے لیے پہلا مکتب ہوتا ہے، اب اگر ماں ہی دینی تعلیم سے بیزار ہوتو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر کیا اثرات پڑیں گے، آج خواتین کو قرآن وحدیث کے مطالعہ کی فرصت نہیں؛ نتیجتاً وہ اپنے بچوں کے لیے بھی اس حوالے سے متفکر نہیں ہوتیں، عورتوں کا بہت بڑا طبقہ ایسا ملے گا، جسے سیرتِ رسول … کی موٹی موٹی باتیں معلوم نہیں، طہارت وعبادت بالخصوص نماز کی بجا آوری تو دور کی بات، ان کے مسائل سے تشویش ناک حد تک ناواقفیت ہے، حقوقِ والدین، حقوقِ زوج اور دیگر چھوٹے بڑے افرادِ خانہ کے حقوق سے غفلت روز افزوں ہے، نوبت بایں جا رسید کہ ٹھوس اسلامی تعلیمات سے دوری نے مسلم خواتین کو یہ منفی سبق پڑھایا کہ پردہ، آزادیِ نسواں کے لیے سدِّ راہ ہے اور نام نہاد ترقی کا دشمن ہے اور اس کا چراغِ خانہ ہونا قدامت پسندی ہے، اسے جدیدیت کا لبادہ اوڑھ کر شمعِ محفل بن جانا چاہیے، مضبوط دینی تعلیمات سے لاعلمی نے ساس بہو کے جھگڑے پیدا کردیے، دینی تعلیمات سے اجتناب نے طلاق کی شرح میں اضافہ کردیا، دینی تعلیمات سے بے گانگی نے بڑے بوڑھوں کی خدمت کو کارِ ثواب کے بجائے کارِ زحمت بنادیا، بقدرِ ضرورت دینی تعلیمات سے بُعد اور مغربی تعلیمات سے قرب نے مسلمان خواتین کو امورِ خانہ داری انجام دینے کے بجائے، آفس، ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں (Reception) رسپشن کی زینت بنادیا، دینی تعلیمات سے صرفِ نظری نے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے بدلے، لڑائی جھگڑے کے طور طریقے سکھلادیے۔ الغرض اسلامی زندگی کے جس موڑ پر آپ اسلامی روح کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گے، اس کا نتیجہ دینی تعلیمات کا زندگی میں، نہ ہونا پائیں گے، علامہ اقبال نے کہا تھا ”وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ“ اس سے کیسا وجود مراد ہے، کیا اسلامی اور دینی تعلیمات کی روح سے یکسر خالی مغربی وجودِ زن؟ آج ہر طرف عصری اور مغربی علوم کا غلغلہ ہے، اسلام اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتا؛ ہاں! مگر اتنی بات ضرور ہے کہ دینی تعلیم کو فراموش کرکے، عصری تعلیم میں بالکلیہ لگ جانا، اسلام کو پسند نہیں، اسلام اسے قابل اصلاح سمجھتا ہے۔
آج دینی تعلیم کی ضرورت جتنی مردوں کو ہے، اس سے کہیں زیادہ عورتوں کو ہے، عورت کا قلب اگر دینی تعلیمات سے منور ہو، تو اس چراغ سے کئی چراغ روشن ہوسکتے ہیں، وہ دیندار بیوی ثابت ہوسکتی ہے، وہ ہر دل عزیز بہو بن سکتی ہے اور نیک اور شفیق ساس ہوسکتی ہے، وہ اپنے بچوں کی معلم اوّل ہوسکتی ہے، وہ خاندانی نظام کو مربوط رکھ سکتی ہے، معاشی تنگی کو خوش حالی سے بدل کر معاشی نظام مضبوط کرسکتی ہے، وہ شوہر کے مرجھائے اور افسردہ چہرے پر گل افشانی کرسکتی ہے، میخانے کو مسجد اور بت خانے کو عبادت خانہ بناسکتی ہے، اولاد کو جذبہٴ جہاد سے سرشار کرسکتی ہے؛ الغرض دینی تعلیم یافتہ عورت وہ سب کچھ بہت آسانی سے کرسکتی ہے جو اسلام چاہتا ہے، اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو منفی نتیجہ کیسا خوف ناک ہوگا، اندازہ کرنا مشکل نہیں اور دینی تعلیم سے بے انتہاء غفلت عورت کوشیطان بنادیتا ہے۔
لائق توجہ پہلو
ضرورت اور وقت دونوں اس امر کے متقاضی ہیں کہ تعلیم نسواں کے حوالے سے مزید بیداری پیدا کی جائے اور اس کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے؛ لیکن اس سلسلے میں یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم کے لیے محفوظ مقامات اور تعلیم گاہیں ہوں، عورتوں کی تعلیم کے لیے سب سے محفوظ اور ہر طرح کی برائیوں سے پاک جگہ، خود اس کا گھر ہے، گھر میں ایسا انتظام اگر مشکل ہوتو غیراقامتی اسکول اور مدرسے ہیں، جہاں صرف لڑکیوں کو ہی تعلیم دی جاتی ہو اور تعلیم دینے والا تدریسی عملہ عورتوں پر ہی مشتمل ہو، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی معروف ہستی، اور متبحرعالم دین حضرت مولانا ومفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی کی کتاب ہمارا تعلیمی نظام سے ایک اقتباس نقل کرکے مضمون ختم کیا جائے، لکھتے ہیں:
”تعلیم نسواں ایک مستقل چیز ہے اور مخلوط تعلیم ایک جداگانہ چیز ہے، ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط وہی بے دین اور بے حمیت یورپ زدہ لوگ کرتے ہیں جو فروغ تعلیم نسواں کی آڑ میں مخلوط تعلیم کو فروغ دینا اور عام کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کی حدود میں رہ کر تعلیمِ نسواں کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا چاہیے؛ تاکہ نئی نسل اعلیٰ اخلاق وکردار کی مالک بن سکے؛ مگر معاشی اعانت کے لیے عورتوں کی تعلیم کو ذریعہ بنانا غیرفطری بھی ہے اور غیراسلامی بھی؛ اس لیے کہ قرآن حکیم بیوی بچوں کی کفالت کا ذمہ دار مرد کو قرار دیتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت کی ذمہ داری شرعی فرائض ادا کرنے کے بعد تمام جائز اور مباح امور میں شوہر کی اطاعت کرنا، اس کی حوائج اور سامانِ راحت وآسائش کو مہیا کرنا ہے؛ تاکہ بچے اور شوہر تفریح کے لیے گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں۔
آگے لکھتے ہیں:
لڑکیوں کا نصابِ تعلیم، نظامِ تعلیم اور معیارِ تعلیم مذکورہ بالا مقاصد کے تحت مرتب ومدون اور مردوں سے بالکل الگ اور جداگانہ ہونا چاہیے․․․․ اگر تعلیم نسواں سے اس کے صحیح فوائد حاصل کرنے ہیں تو مخلوط تعلیم کو ختم کرنا قطعی لازم ہے؛ اس لیے کہ مخلوط تعلیم تو اسلامی روح کے بھی قطعی منافی ہے اور ذہنی وفکری آسودگی اور اخلاقی پاکیزگی کے لیے بھی سمِ قاتل ہے، اس کی اجازت کسی صورت میں بھی نہیں دی جاسکتی ہے۔“ (ہمارا تعلیمی نظام، ص:۳۲)
اللہ ہمیں دینی تعلیم کے حصول کی توفیق دے اور ہمیں یہ سمجھنے کی بھی توفیق دے کہ ہماری اخروی ودنیوی؛ بلکہ اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور تعلیمی فلاح وبہبود کا راز اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی مضمر ہے، اس کے علاوہ سب نفس کا دھوکہ ہے، اس کا فائدہ عارضی اور وقتی ہے؛ ہم اسے سمجھیں، شریعت یہی چاہتی ہے، وقت یہی چاہتا ہے، سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول … یہی چاہتے ہیں۔
————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1، جلد: 99 ، ربیع الاول1436 ہجری مطابق جنوری 2015ء