از: مولانا اشرف عباس قاسمی، استاذِ دارالعلوم دیوبند
صحاحِ ستہ کے تراجم
تراجم، ترجمہ کی جمع ہے، جس کا معنی ہے: مراد واضح کرنا۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا۔ کتبِ حدیث میں ترجمہ بولا جائے تو اس سے ”عنوان“ مراد ہوتا ہے۔ اس کو ترجمہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے ما بعد آنے والے مضامین کی وضاحت کرتا ہے۔
علماء نے تراجم کے اعتبار سے بھی صحاح ستہ میں درجات قائم کیے ہیں کہ کس کتاب کے تراجم سب سے زیادہ دقیق ومشکل اور کس کے آسان ہیں؛ چنانچہ سب سے دقیق تراجم امام بخاری کے قائم کردہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر سنن نسائی، تیسرے نمبر پر سنن ابی داؤد اور چوتھے نمبر پر سنن ابن ماجہ کے تراجم ہیں، اور اخیر میں جامع ترمذی کے تراجم ہیں، اسی وجہ سے ترمذی کے تراجم کو اسہل التراجم کہا گیا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
”البخاری ھو سباق الغایات فی وضع التراجم بحیث ربما تنقطع دون فھمھا مطامع الأفکار، ثم یتلوہ فی التراجم ابو عبد الرحمٰن النسائی، وربما أریٰ فی مواضع أن تراجمھا تتوافق کلمة کلمة، وأظن أن النسائی تلقاھا من شیخہ البخاری، حیث أن التوارد یستبعد فی مثال ھٰذا، ولا سیما اذا کان البخاری من شیوخہ، ثم یتلوہ تراجم ابی داوٴد، وتراجم ابی داوٴد أعلیٰ من تراجم الترمذی، نعم ان أسھل التراجم وأقربھا الی الفھم تراجم الترمذی، وأما الامام مسلم فلم یضع ھو نفسہ التراجم، والتراجم الموجودة فی کتابہ من وضع شارحہ الامام النووی وکم بین تراجمہ وبین تراجم البخاری من فرق بعید“ (معارف السنن ۱/۲۳)
ترجمہ: امام بخاری تراجم قائم کرنے میں اس طرح انتہا تک سبقت کرنے والے ہیں کہ بسا اوقات ان کے فہم تک افکار وخیالات کی رسائی نہیں ہوپاتی ہے۔۔ تراجم قائم کرنے میں بخاری کے بعد دوسرا درجہ ابوعبدالرحمن نسائی کا ہے۔ بہت سے مقامات پر میں دیکھتا ہوں کہ نسائی کے تراجم، حرفاً حرفاً بخاری کے تراجم کے موافق ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اسے امام نسائی نے اپنے شیخ امام بخاری سے (بہ راہ راست) اخذ کیا ہے؛ کیوں کہ اس طرح کی چیزوں میں توارد قلوب مستبعد ہے، خاص کر اس وقت جب کہ بخاری کا شیخِ نسائی ہونا متحقق ہے۔ اس کے بعد ابوداؤد کے تراجم کا درجہ ہے۔ اور ابوداؤد کے تراجم کا مقام ومرتبہ ترمذی کے تراجم سے بڑھا ہوا ہے؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ سب سے آسان اور جلد سمجھ میں آنے والے، ترمذی کے تراجم ہیں؛ جہاں تک تعلق ہے امام مسلم کا، تو انھوں نے تراجم خودقائم نہیں کیے ہیں۔ ان کی کتاب میں موجود تراجم، شارح مسلم، امام نووی کے قائم کردہ ہیں اور نووی وبخاری کے تراجم میں بہت واضح فرق ہے۔
خلاصہ یہ کہ بخاری ونسائی کے تراجم سب سے زیادہ دقیق اور مشکل ہیں، ابوداؤد وابن ماجہ کے تراجم متوسط حیثیت کے حامل ہیں۔ اور ترمذی شریف اسہل التراجم ہے۔ رہی بات مسلم شریف کی تواس میں خود مصنف نے تراجم قائم نہیں فرمائے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے اپنی کتاب کو حسنِ ترتیب کے ساتھ ابواب کا لحاظ کرتے ہوئے مرتب فرمایا ہے۔ ہمارے دیار میں مسلم شریف کا جو نسخہ رائج ہے، اس پر امام نووی کے قائم کردہ تراجم ہیں؛ لیکن انھوں نے شافعی المسلک ہونے کی وجہ سے بہت سے مواقع پر مسلک کے موافق ترجمہ قائم کردیا ہے؛ لہٰذا شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے مسلم شریف کی مبسوط اور عالمانہ شرح فتح الملہم لکھنی شروع کی تو انھوں نے اپنی طرف سے تراجم قائم کرنے کا بھی اہتمام کیا۔
صحاحِ ستہ کے مجموعے
اصول ستہ کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر بعض مطابع نے ایک ساتھ چھ کی چھ کتابوں کے مجموعے شائع کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے۔ اس وقت اس طرح کے دو مجموعے معروف و متداول ہیں:
۱- ”الکتب الستة“ کے نام سے دارالسلام ریاض نے ایک ہی جلد میں انتہائی اعلیٰ اور معیاری کاغذ پر اٹلی سے چھپواکر شائع کیا ہے۔ مملکت سعودی عرب کے موجودہ وزیرشوٴون اسلامیہ شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ کی زیرنگرانی اس مجموعے میں صحت اور ترقیم کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ کلاں سائز کے ۲۷۵۴ صفحات میں مکمل چھ کی چھ کتابوں کو واضح خط کے ساتھ سمودیاگیاہے۔ اس مجموعے کی مدد سے بیک وقت صحاح ستہ سے استفادے میں کافی آسانی ہوگئی ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ چند ماہ قبل فروری ۲۰۱۴/ میں جب وزیر موصوف نے ایک بڑے وفد کے ہمراہ دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا، تو اپنے اعزاز میں منعقد استقبالیہ تقریب میں انھوں نے بڑے اہتمام سے اپنی زیرنگرانی تیار کتب ستہ کا یہی مجموعہ حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند کی خدمت عالی میں پیش کیاتھا۔
۲- ”الکتب الستة“ دو جلدوں میں یہ بھی صحاح ستہ کا قابلِ قدر مجموعہ ہے، جس کے صفحات کی مجموعی تعداد ۴۱۵۴ ہے۔ پہلی جلد میں کتبِ اربعہ ہیں جب کہ دوسری جلد میں نسائی، ابن ماجہ اور فہارس ہیں۔ خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شیخ رائد بن صبری بن ابی علقہ کے اعتناء سے مکتبہ الرشد نے اس کو شائع کیاہے۔
صحاح ستہ کی علمی خدمت
صحاح ستہ کو امت میں جو وقار واعتبار حاصل ہوا، اس کے سبب ہر زمانے میں اہل علم کی ایک جماعت نے مختلف پہلوؤں سے ان کی خدمت کی ہے۔ الگ الگ ان کتابوں کی خدمت کا اجمالی نقشہ آگے آئے گا۔ اس وقت ہم صرف ان چند موٴلفات کا تذکرہ کریں گے جو خصوصیت کے ساتھ کتب ستہ کے اردگرد گھومتی ہیں اور ایسی کئی کتابیں ہیں، ہم سرِدست صرف پانچ کا ان کی متنوع خصوصیات کے سبب تذکرہ کررہے ہیں۔
۱- ”الکاشف في معرفة من لہ روایة في الکتب الستة“ یہ حافظ شمس الدین محمد بن احمد الذہبی (م۷۴۸ھ) کی مشہور تالیف ہے، جس میں انھوں نے جامعیت اور اختصار کے ساتھ کتب ستہ کے رجال پر کلام کیا ہے۔ اس پر ابراہیم بن محمد سبط العجمی (م ۸۴۱ھ) کا محققانہ حاشیہ بھی ہے۔ شیخ محمد عوامہ اور احمد محمد نمر الخطیب کی تصحیح ومراجعت سے یہ کتاب موٴسسة علوم القرآن جدہ سے شائع ہوچکی ہے۔
۲- ”الأنوار اللمعة في الجمع بین مفردات الصحاح الستة“ یہ حافظ حدیث ابن الصلاح ابوعمرو عثمان بن عبدالرحمن الموصلی الشہرزوری (م ۶۴۳ھ) کی مایہ ناز تصنیف ہے، جس میں انھوں نے کتب ستہ کے علاوہ سنن دارمی کی مفرد روایات کو جمع کردیا ہے۔ مصنف نے سب سے پہلے صرف صحیح مسلم کی احادیث کے متون کو اسانید وتکرار کے حذف کے ساتھ جمع کیا تھا۔ اس کے بعد ان روایات کو جمع کیا جن میں امام بخاری امام مسلم سے منفرد ہیں۔ اسی طرح باقی کتابوں کی صرف وہ روایات لی ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں ہیں۔ یہ عظیم مجموعہ سید کسروی حسن کی تحقیق سے مکتبہ عباس احمد الباز مکة المکرمة نے چار جلدوں میں شائع کردیا ہے۔
۳- ”الحطة في ذکر الصحاح الستة“ اس کتاب میں نواب صدیق حسن خاں قنوجی (م۱۳۰۷ھ) نے کتب ستہ کے انفرادی تعارف اور خصوصیات کو جمع کردیا ہے۔ مقصد کے آغاز سے قبل تمہیدی طور پر علمِ حدیث کی بعض عمومی بحثیں بھی ہیں؛ البتہ کئی مقامات پر مصنف کا قلم لغزش کھاگیا ہے؛ چنانچہ حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلی نے اس کتاب میں درآنے والے اوہام پر کلام کیا ہے۔ علامہ کتانی فرماتے ہیں: ”ان في الحطة أوھامًا“ (فہرس الفہار ۱/۳۶۳) علی حسن الحلبی کی تحقیق وتعلیق سے کتاب کا نیا ایڈیشن بیروت اور عمان سے شائع ہوچکا ہے۔
۴- ”فی رحاب السنة الکتب الصحاح الستة“ یہ فضیلة الشیخ محمد محمد ابوشہنہ کی تصنیف ہے، جس میں انھوں نے کتب ستہ میں سے ہر ایک کا الگ الگ مفصل تعارف اور اس کی خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ شروع میں سنت کی قدرومنزلت کے حوالے سے فاضلانہ مقدمہ بھی ہے ۱۸۷ صفحات پر مشتمل یہ اہم کتاب جامع ازہر کے مجمع البحوث الاسلامیة کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔
۵- ”موسوعة رجال الکتب التسعة“ یہ دکتورعبدالغفار سلیمان البنداری اور سید کسروی حسن کی مشترکہ تصنیف ہے، جیساکہ نام سے ظاہر ہے کہ اس میں کتبِ تسعہ کے رجال کا استقصاء کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ مسند ابی حنیفہ اور مسند الشافعی کے رجال کو بھی جمع کردیاگیا ہے۔ دارالکتب العلمیہ بیروت نے یہ موسوعہ شائع کیاہے۔
صحاح ستہ کے اطراف
محدثین کی زبان میں مسانید اور اطراف دونوں میں مرکزی توجہ روایت کنندہ صحابی پر ہوتی ہے یعنی ہر صحابی کی مرویات کو بلا لحاظ مضمون یکجا کیا جاتا ہے؛ مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ مسانید میں پوری حدیث بیان کرتے ہیں؛ مگر اطراف میں صرف حدیث کا کوئی مشہور حصہ بیان کرکے شیخین اور سنن کے تمام مشترک اور مخصوص طرق کا ذکر کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر حدیث کے شروع سرے کو اتنا بیان کرکے کہ جس سے باقی حدیث کی یاد دہانی ہوجائے اس کی تمام اسانید کو بالاستیعاب بیان کیا جاتا ہے یا ان کتابوں کا پتہ دے دیا جاتا ہے کہ جن میں یہ حدیث مروی ہے، اس موضوع پر بہت سے حفاظ حدیث نے داد تحقیق دی ہے، ان میں سب سے پہلے جن بزرگ نے صحیحین پر اطراف لکھے ہیں، وہ حافظ ابو مسعود دمشقی ۴۰۱ھ ہیں۔ ان کے بعد حافظ ابو محمد خلف بن محمد ۴۰۱ھ، حافظ ابونعیم اصفہانی اور حافظ ابن حجر نے بھی یہ علمی خدمت انجام دی ہے۔
صحیحین کے علاوہ کتبِ خمسہ کے اطراف حافظ احمد بن ثابت ازدی نے بھی لکھے، اور کتب ستہ کے اطراف لکھنے والے یہ بزرگ ہیں: حافظ ابوالفضل محمد بن طاہر مقدسی ۵۰۷ھ، حافظ ابوالحجاج جمال الدین المزی ۶۴۲ھ، حافظ شمس الدین ابوالمحاسن محمد بن علی الحسینی الدمشقی، حافظ ابوالقاسم بن عساکر، حافظ سراج الدین ابوحفص عمر بن نورالدین علی بن احمد الانصاری المعروف بابن الملقن، اس کے علاوہ بھی اور بہت سی کتابوں کے اطراف لکھے گئے ہیں، حافظ ابن طاہر نے امام اعظم کی احادیث پر اطراف لکھے ہیں، جس کا نام ”اطراف احادیث ابی حنیفہ“ ہے۔ (امام اعظم رحمة اللہ علیہ اور علم الحدیث، مولانا محمد علی کاندھلوی، ص۴۹۸)
مصنّفین صحاح ستہ کی نسبی اوروطنی نسبت
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحاح ستہ کے مصنّفین سب کے سب وطنی اعتبار سے عجم سے تعلق رکھتے ہیں؛ چنانچہ امام بخارری کا وطن بخارا ہے، امام مسلم کا وطن نیشاپور بھی اسی کے قریب واقع ہے۔ امام ترمذی، ترمذ سے تعلق رکھتے ہیں جو دریائے جیحوں کے ساحل پر واقع ہے اور روس میں شامل رہا ہے۔ امام ابوداؤد سجستان کے ہیں، جو سیستان کا معرب ہے ایک قول کے مطابق سندھ وہرات کے درمیان ایک خطہ کا نام ہے جو قندھار سے متصل ہے۔ ابن خلکان کے بہ قول بصرہ کے قریب ایک قریہ ہے؛ مگر قول اول ہی صحیح ہے۔ اس وقت یہ خطہ ایران کا ایک حصہ ہے۔ امام نسائی کا وطن ”نساء“ ہے۔ جو شہر مرو کے قریب خراسان کا ایک شہر ہے۔ امام ابن ماجہ قزوین سے تعلق رکھتے ہیں، جو عراق عجم کا مشہور شہر ہے۔ اور ایران کے صوبے آذربائجان میں واقع ہے۔
البتہ وطن کے اعتبار سے عجمی ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب کے سب فارسی النسل تھے؛ بلکہ ان میں سے صرف امام بخاری اور ابن ماجہ فارسی النسل ہیں۔ باقی سارے حضرات عربی النسل ہیں۔ مولانا عبدالرشید نعمانی فرماتے ہیں:
”تعجب ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب اور نواب صدیق حسن خاں نے مصنّفین ”صحاح ستہ“ کو اہل فارس میں شمارر کیا ہے؛ حالاں کہ تاریخ سے بہ جز امام بخاری یا امام ابن ماجہ کے اور کسی کا فارسی النسل ہونا ثابت نہیں، امام مسلم کے متعلق خود علامہ نووی کی تصریح موجود ہے۔ ”القشیری نسباً نیسابوری وطنا، عربی صلبیة“ اور امام ابواؤد ازدی ہیں، امام ترمذی سُلمی“ (امام ابن ماجہ اور علم حدیث، ص۸)
ائمہ ستہ کی عالی سندیں
امام بخاری کی عالی سند
امام بخاری کی عالی سند ثلاثیات ہے۔ یعنی امام بخاری اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف تین واسطے ہیں۔ صحیح بخاری میں کل بائیس ثلاثیات ہیں، جو تین صحابہ حضرت سلمہ بن اکوع، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ ان ثلاثیات میں امام بخاری کے پانچ اساتذہ ہیں، مکی بن ابراہیم، ابوعاصم النبیل، محمد بن عبداللہ الانصاری، خلاد بن یحییٰ اور عصام بن خالد۔
ان بائیس میں سے گیارہ روایات تنہا کلی بن ابراہیم کی ہیں، جو امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں میں ہیں۔
امام ترمذی کی عالی سند
امام ترمذی کی عالی سند ثلاثی ہے اور پوری ترمذی میں ایک ہی ثلاثی روایت ہے، جس میں امام ترمذی کے استاذ اسماعیل بن موسیٰ الکوفی ہیں۔ ان کے شیخ عمر بن شاکر ہیں اور وہ صحابیِ رسول حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ (دیکھئے: ترمذی، حدیث:۲۲۶۰)
امام ابن ماجہ کی عالی سند
امام ابن ماجہ کی عالی سند ثلاثی ہے، ابن ماجہ میں پانچ ثلاثیات ہیں اور پانچوں ایک ہی سند عن جبارة بن مغلس عن کثیر بن سلیم عن أنس بن مالک مروی ہیں۔ (روایات کے لیے دیکھیے: کتاب الاطعمة میں باب الوضوء عند الطعام، باب الشواء اور باب الضیافة، نیز کتاب الطب میں باب الحجامة اور رکتاب الزہد میں باب صفة امة محمد صلی اللہ علیہ وسلم)
امام مسلم کی عالی سند
امام مسلم کی عالی سند ررباعی ہے۔ مسلم شریف میں ایک بھی ثلاثی روایت نہیں ہے۔ تاہم بہ کثرت ایسی روایات ہیں جن میں امام مسلم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف چار وسائط ہیں۔
یہ بات بھی قابل دکر ہے کہ بعض روایات ایسی بھی ہیں جن میں امام مسلم کے یہاں وسائط کم ہیں اور امام بخاری کے یہاں زیادہ ہیں۔ مثلاً امام مسلم کے یہاں اگر وہ روایت رباعی ہے تو امام بخاری کے یہاں وہ روایت خماسی ہے۔ اگر امام مسلم کے یہاں خماسی ہے تو امام بخاری کے یہاں وایت سداسی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ”عوالی مسلم“ ایسی کل چالیس روایات جمع کردی ہیں۔ یہ گویا امام مسلم کے لیے ایک گونہ فضیلت کی چیز ہے۔ (دیکھیے: مباحث فی الحدیث وعلومہ ص ۲۸۴-۲۸۵)
امام نسائی اور ابوداؤد کی عالی سندیں
امام نسائی کی سب سے عالی سند رباعی ہے۔ اسی طرح امام ابوداؤد کی بھی عالی سند رباعی ہے۔ سنن داؤد میں کل ۲۶۷ رباعی روایات ہیں۔ اور ایک بھی ثلاثی روایت نہیں ہے۔
مولانا عبدالرشید نعمانی، مصنّفین صحاح ستہ کی اسانیدِ عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مصنّفین صحاحِ ستہ میں سے امام بخاری، امام ابن ماجہ، امام ابوداؤد اور امام ترمذی نے بھی بعض تبع تابعین کو دیکھا اور ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ اس بنا پر اس علو اسناد میں وہ بھی امام شافعی اور امام احمد کے ساتھ شریک ہیں؛ حالاں کہ امام شافعی کی وفات کے وقت امام بخاری دس برس کے تھے۔ اور امام ابوداؤد کل دو سال کے اورامام ابن ماجہ تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے؛ چنانچہ ان حضرات کی تصانیف میں ثلاثیات حسب ذیل ہیں:
(۱) صحیح بخاری -۲۲ (۲) سنن ابن ماجہ- ۵ (۳) سنن ابی داؤد-۱ (۴) جامع ترمذی -۱
امام مسلم اور امام نسائی کو کسی تبع تابعی سے کوئی روایت نہ مل سکی؛ اس لیے ان دونوں حضرات کی سب سے عالی روایات رباعیات ہیں، جن کو ان کے اساتذہ نے تبع تابعین سے اور انھوں نے تابعین سے اور انھوں نے صحابہ سے سنا ہے۔ سنن ابن ماجہ میں بھی رباعیات بکثرت موجود ہیں اور اس اعتبار سے امام ابن ماجہ کو دیگر ارباب صحاح ستہ پر ایک گونہ فضیلت حاصل ہے کہ امام بخاری کے بعد ان کی ثلاثیات کی تعداد سب سے زیادہ ہے؛ حالاں کہ وہ عمر میں امام مسلم سے پانچ سال اور امام ابواؤد سے سات سال چھوٹے ہیں۔“ (امام ابن ماجہ اور علم حدیث ص۱۱۹)
تنبیہ: اوپرذکر کردہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ صحاح ستہ میں سے فقط صحیح بخاری، سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذی میں ثلاثی روایات ہیں۔ ان کے علاوہ صحیح مسلم، سنن نسائی اور سنن ابی داؤد میں ایک بھی ثلاثی روایت نہیں ہے؛ لہٰذا مولانا نعمانی کا ابوداؤد شریف میں بھی ایک ثلاثی روایت ہونے کا قول محلِ نظر ہے۔ غالباً اس اشتباہ کی وجہ یہ ہے کہ دراصل بہت پہلے حافظ شمس الدین سخاوی باب فی الحوض کی ایک روایت کو ثلاثی کہہ چکے ہیں۔ (فتح المغیث ۳/۳۵۷) لیکن درحقیقت وہ بھی رباعی ہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کو رباعی فی حکم الثلاثی کہہ سکتے ہیں؛ اس لیے کہ دوراوی ابوطالوت اور ان کے شیخ جو یہاں مجہول ہیں، ایک ہی طبقہ (تابعی) سے تعلق رکھتے ہیں۔
مصنّفین کتب ستہ کی نازل سندیں
امام بخاری کی سب سے نازل سند تُساعی ہے۔ یعنی وہ روایت جس میں امام بخاری اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان نو واسطے ہیں۔ اور اسی تساعی روایت بخاری میں صرف ایک ہے۔ (دیکھیے: کتاب الفتن، باب یاجوج ماجوج، حدیث نمبر:۱۰۵۶)
امام مسلم کی بھی سند نازل تُساعی ہے۔ (دیکھیے: حدیث نمبر:۵۰ اور حدیث نمبر:۲۴۹۰)
امام ابوداؤد کی نازل سند عُشاری ہے اور ایسی ایک ہی روایت سنن ابی داؤد میں ہے۔ (دیکھیے: حدیث نمبر:۳۲۹۲)
امام نسائی کی بھی سند نازل عُشاری ہے؛ چنانچہ ”باب الفضل فی قراء ة قل ہو اللہ احد“ کے تحت روایت نقل کرکے امام نسائی فرماتے ہیں: ”ما أعرفُ اسنادًا أطولَ مِنْ ھٰذا“․
امام ترمذی کی بھی سب سے نازل سند عُشاری ہے؛ چنانچہ امام ترمذی نے بھی ایک حدیث میں وہی سند ذکر کی ہے، جس کا تذکرہ نسائی کے حوالے سے اوپر کیاگیا۔
امام ابن ماجہ کی سند نازل تساعی ہے اور اس سند سے باب فی الایمان میں روایت نقل کرنے کے بعد ابن ماجہ فرماتے ہیں: ”قال ابوالصلت: لو قُرِیٴَ ھٰذا الاسنادُ علی مجنون لبرأ“ (اس سند کو اگر کسی مجنون پر پڑھ دیا جائے تو اس کا پاگل پن جاتا رہے) (تفصیلات کے لیے: مباحث فی الحدیث وعلومہ، از حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب مظاہری)
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 8-9، جلد: 98 ، شوال، ذی قعدہ 1435 ہجری مطابق اگست، ستمبر 2014ء