از: یحییٰ نعمانی
مسلمانوں کی گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ ذلتوں، نکبتوں اور المناک مظالم سے بھری ہوئی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے حصے میں بھی اس خونچکاں تاریخ کے زخم آئے ہیں، بے چارگی کا حال یہ ہے کہ بقول شاعر گویا ان کی قسمت ہی یہ ہو کہ:
جگر پر زخم لیں گے، زخم پر مرہم نہیں لیں گے
ایک زخم پر مرہم نہیں رکھا جاتا کہ دو سر زخم ا لگا دیا جاتا ہے، ان کی کمزوری اور ذلت وبے چارگی روز افزوں ہے، وہ صرف دوسروں کے رحم وکرم پر ہیں، اور کوئی راہ حالات کے بہتر ہونے کی نظر نہیں آتی۔ مسلمان اپنی مظلومیت پر ماتم کرتے ہیں۔ اس سے فارغ ہوتے ہیں تو احتجاج کر لیتے ہیں، دیوانے چیخ لیتے ہیں، فرزانے فلسفیانہ غور وفکر میں مشغول ہوکر دل بہلا لیتے ہیں۔ اس سے مایوس ہوتے ہیں تو قیادت نہ ہونے کا شکوہ کر لیتے ہیں یا دشمنوں پر تبرا پڑھ لیتے ہیں؛ مگر حق یہ ہے کہ حالات کے بدلنے کی کسی کو کوئی راست تدبیر سمجھ میں نہیں آتی۔
کوششیں سب دم توڑ گئیں، اور امیدوں نے اندھیروں کی چادر اوڑھ لی۔ اس محیط مایوسی اور ہمہ جہت ناکامی کا ایک بنیادی سبب ہماری شدید پست اخلاقی ہے۔ ایسی ابتر اخلاقی حالت جو بڑی سے بڑی قوم کو کسی کام کا نہیں چھوڑتی، جس نے ہر کام بگاڑ دیا ہے اور ہر کوشش ناکام کر دی ہے۔
حالات کے بھنور میں پھنسی کسی قوم کی کشتی کو کنارے لگانا، اس طبقے کا کام ہوتا ہے جو عقل وخرد اور سماجی مرتبے میں ”خواص“ کے درجے کا ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں یہی طبقہ قیادت کی تشکیل کرتا ہے۔ اگر کسی قوم کے پاس ذہانت وفراست، ہمت وحوصلہ، ایثار وبے لوثی، حقیقت پسندی اور غیرت مندی کی صفات سے متصف خواص کی ایک جماعت ہوتی ہے تو وہ پوری قوم میں عزم، جوشِ عمل، صبر وبرداشت، حالات کی تبدیلی کے لیے قربانیوں کا مزاج اور ظلم سے نبرد آزمائی کا حوصلہ پیدا کردیتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے وہ کمزور قوم گوہرِ کردار سے مزین اور قوتِ عزم سے مسلح ہوکر حالات کے گرداب سے ابھر آتی ہے۔اور پھر اس کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوتا ہے، جس میں وہ ثابت کردیتی ہے کہ انصاف اور طاقت کے سلسلے میں قلت وکثرت بے معنیٰ اور غیر موٴثر باتیں ہیں؛ مگر جب طبقہٴ خواص میں کردار کی بنیادوں میں پانی مرنے لگتا ہے اور اخلاق کے شجرِ پُر بہار کی جڑیں دیمک زدہ ہو جاتی ہیں تو اس قوم کو حالات کی ستم ظریفیوں سے کوئی نہیں بچا سکتا۔قرآن نے بھی یہی قاعدہ بیان کیا ہے اور قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بھی اسی اصول کی تفسیر ہے۔
اب ذرا غور کیجیے! ہماری قوم میں آپ جن افراد اور گروہوں کو اس ”خواص“ کے طبقے میں شامل کر سکتے ہیں، ذرا ان کی اپنے ذہن میں نشان دہی کرلیجیے۔ آپ کے ذہن میں جو تصویریں اور کردار ابھریں ان کو پہچان لیجیے، سوچ لیجیے یہ کون لوگ ہیں۔ اور خدا کے واسطے سے یہ حقیر خادم التجا کرتا ہے کہ اگر آپ کو اس میں کہیں اپنی ذات بھی نظر آئے تو اس کو بھی نظر انداز نہ فرمائیے۔ ان میں ہماری قوم کے تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات آتے ہیں، ان میں علماء بھی آئیں گے، بڑے تاجر بھی آئیں گے، قومی تنظیموں کے لوگ بھی شامل ہوں گے اور ملی اور قومی اداروں کے ذمے دار بھی۔ میڈیا اور صحافت سے وابستہ حضرات اور سیاسی میدان میں مختلف سطحوں پر سرگرم افراد اور وہ تمام لوگ اس دائرے میں آتے ہیں جو مسلمانوں کی اجتماعیت میں کسی بھی نمائندگی یا قیادت کی پوزیشن میں سمجھے جاتے ہیں، یہ سب لوگ مسلمانوں کے خواص ہیں اور ملت کے اچھے برے کے ذمے داربھی۔
ذرا سوچیں اور ذرا حقیقت پسندی؛ بلکہ بے باکی کے ساتھ سوچیں! ہمارے اس سربر آوردہ طبقے کا اخلاقی کردار کس سطح کا ہے؟ اس میں کس قدر خلوص، بے لوثی اور ایثار کی صفت ہے؟ اپنی مظلوم فریادی قوم کے لیے ان کی دَردمندی کا کیا حال ہے؟ کیا یہ خودداری، غیرت مندی اور بے نیازی کی شان رکھتے ہیں؟ ان میں کتنی بلند حوصلگی اور عالی ہمتی ہے؟ کیا سیم وزران کے پائے استغناء کے بوسے لیتے نظر آتے ہیں؟ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر کیا شہرت اور منصب ان کی اصول پسندی اور رفعتِ کردار کو متأثر کرنے میں ناکام رہتے ہیں؟ اور اگر قومی مصلحت ان کے ذاتی مفادات اور امنگوں کی قربانی مانگے تو یہ اس امتحان میں کتنے کامیاب ہو سکتے ہیں ؟ خواص کی اخلاقی حالت جاننے کی کسوٹی اسی قسم کے سوالات ہیں۔
یقینا آپ کے ذہن میں ان سوالوں کے جو جواب آئے ہوں گے وہ مایوس کن ہوں گے، اگر آپ اپنی قوم کو مظلوم اور کمزورجانتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کی طاقتیں اس کے خلاف سازشوں اور ستم رانیوں میں مصروف ہیں تو یقینا آپ کو اس کا بھی یقین ہو گا کہ ان مصائب سے نجات پانے کے لیے آپ کی قوم کو سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اتحاد اور باہمی تعاون ومدد کا مزاج ہے؛ مگر جان لیجیے کہ ہمارا جو اخلاقی حال ہے، اس سے سب سے پہلے قوم کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے؛ اس لیے کہ اتحاد کی پہلی شرط ایمان دارانہ حق شناسی، دوسروں کی برتری کا شریفانہ اعتراف اور ایثار جیسی صفات ہیں۔ اگر خواص میں حق شناسی نہ ہو، ایمانداری کے ساتھ دوسروں کے مرتبے اور فوقیت کا اعتراف نہ ہو ، اور کم از کم درجے کا بھی ایثار نہ ہو، اور ان صفات کی جگہ عالم یہ ہو کہ ہر شخص اپنی ذات کا اسیر اور خود کی عبادت میں مصروف ہو تو یقینا نفسی نفسی کا عالم ہی قائم نظر آئے گا۔ آج جو انتشار مسلمانوں کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے وہ اخلاق کی اسی بیماری کی دین ہے۔ اس بیماری کی شدت کے باوجود اپنی صفوں میں اتحاد کی توقع کرنا ایسا ہی ہے کہ آپ کسی بیمار و لاغر سے توقع کریں کہ وہ کسی بڑے پہلوان کو چت کردے۔
اتحاد کے بعد دوسری چیز جو خواص کی اخلاقی پستی سے ریزہ ریزہ ہوتی ہے، وہ ہے قوم کا اپنی قیادت پر اعتماد۔ قیادت پر سے اعتماد اٹھنے کے بعد عوام مایوس اور بے عزم ہو جاتے ہیں اور کسی جدوجہد اور تحریک میں سرگرم نہیں ہوتے۔ جب ان کو کسی قربانی کے لیے پکارا جاتا ہے تو وہ دعوت صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ وہ کوئی رہنمائی قبول نہیں کرتے۔ ان کے لیے اپنے پرائے اور ناصح وبد خواہ برابر ہو جاتے ہیں اور وہ ہزار آگاہیوں کے باوجود کسی دشمن اور بد خواہ سے پرہیز نہیں کرتے۔ آپ کو قوم کے ساتھ نہ دینے کا شکوہ ہے، بجا ہے؛ مگر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ خواص کے موجودہ حال کے ہوتے ہوئے عوام اعتبار واعتماد کا حوصلہ کہاں سے لائیں۔ ہم مسلمانوں کی بے عملی کا شکوہ کرتے ہیں، کیا اس کے اس بنیادی سبب پر بھی غور کرتے ہیں جس نے ان سے ان کی امیدیں چھین لی ہیں؟؟
اسی کے ساتھ تیسرا سانحہ یہ ہو تا ہے کہ اپنے اور بیگانوں دونوں کی نگاہ میں قیادت کا وقار اور بھرم جاتا رہتا ہے۔ انھیں باتوں کا نتیجہ ہے کہ اکثر ہماری ملی قیادت حکمرانوں اور ذلیل قسم کے سیاست دانوں اور حقیر افسران کا کھلونا بن جاتی ہے، جو ہمیں جہاں چاہتا ہے استعمال کرتا ہے اور جس کام میں چاہتا ہے لگا دیتا ہے۔
قومی اصلاح وترقی کا یہ اصول ہے کہ نچلی سطح کے عوام اپنے سربر آوردہ طبقات کے تابع ہوتے ہیں۔ خواص اگر اصول پسندی، بے غرضی، ایثار، سچائی،اعتراف وحق گوئی،انصاف اور مقصدیت کی صفات کا مظاہرہ کریں گے تو یقینا ان کے کردار کے اثرات پوری قوم پر پڑیں گے۔ اور اگر عوام کو یہ نظر آئے گا کہ چہار طرف حقیر ذاتی اغراض کا بول بالا ہے، ان کا اکثر تجربہ یہ ہو کہ جس خوش نما ظاہر کی چادر کو اٹھایا جائے اندر سے مال طلبی اور شہرت طلبی کی بھدی رنگت ہی نظر آتی ہے تو پھر ان کے عقل وشعور اسی کے عادی ہوجاتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا میں یہی جینے کا طریقہ ہے۔ اس صورت حال کا جو سب سے مضر؛ بلکہ مہلک پہلو ہے، وہ یہ کہ قوم کے جو باشعور دردمند اس پست اخلاقی سطح سے بلند بھی ہوتے ہیں، ماحول کی مایوسیاں ان کے حوصلوں کی لگام کھینچ لیتی ہیں اور وہ کسی خاموشی کے غار میں بیٹھ رہنے میں ہی عافیت اور اپنے دین ودل کی خیر اور عزت وآبرو کی سلامتی سمجھتے ہیں۔
عوام کی سطح کے لوگوں کو تو جانے دیجیے، خواص اور قیادت کے درجے پر فائز طبقے کی افسوسناک اخلاقی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ یقینا ان میں بعض اپنی ذاتی خصوصیات میں نہایت لائق ستائش اور قابلِ تحسین کردار کے حامل ہیں۔ ان میں اہلِ تقویٰ علماء بھی ہیں، زاہدانِ شب زندہ دار بھی ہیں، شریف الطبع قائدین بھی ہیں اور عالی دماغ دانشوران بھی؛ مگرجسے آپ اجتماعی اخلاق کہتے ہیں، اس میں خواص کہلانے والوں کا حال بھی معیاری نہیں قرار دیا جاسکتا۔
اصول پسندی کی جگہ ہماری قیادتوں کا شیوہ مطلب پرستی اور اغراض کی رعایت ہو چکا ہے۔ جس کو جس موقف اور کام میں فائدہ نظر آتا ہے وہ اس کی بھر پور وکالت کمالِ دلسوزی اور خلوص کے مظاہرے کے ساتھ کرتا ہے۔یقین کیجیے راقمِ سطور کا مقصود نہ کوئی شخص ہے، نہ کوئی جماعت وطبقہ؛ اس عاجز نے انگشت نمائی کے شبہے سے بچنے کے لیے اجمال ہی کو بہترجانا ہے اور مفید مطلب ہونے اور اس عرض داشت کی تاثیر وافادیت میں اضافے کی توقع کے باوجود کچھ صاف مثالیں دینے سے عمداً پر ہیز کیا ہے۔
نو عمری میں حضرت مولانا محمد منظور نعمانی سے ایک بات بار بار سنی تھی، فرماتے تھے: ہماری قوم سے اجتماعی کاموں کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے“۔ اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ اجتماعی کام اجتماعی اخلاقیات سے ہوا کرتے ہیں، اور یہاں اجتماعی اخلاقیات تو کیا ذاتی اور انفرادی شریفانہ صفات بھی کم لوگوں کے یہاں ملتی ہیں۔ یہی بات بعد میں حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کے حوالے سے سنی۔ ملت کے دو حکیم جب ایک ہی نتیجے پر پہنچیں تو کیا شبہہ یہی اصل مرض ہے باقی سب نتائج ومظاہر ہیں۔
یہ حقیر اولاً تو کسی شمار وقطار میں نہیں، پھر کردار کا وہ خود مفلس ہے۔ اس کا بند قبا ایسا تار تار ہے کہ پاکیِ داماں کی حکایت کا کیا سوال؟ مقصد نہ کسی کی تخفیف، نہ کسی حلقے کی طرف انگشت نمائی۔ جو کچھ مقصد ہے وہ یہ کہ اپنے اس سب سے اہم مسئلے پر کچھ سوچ بچار کیا جائے کہ یہ مظلومیت اور ذلت ونکبت کی کالی گھٹا کیوں نہیں چھٹ رہی؟ ہم سر زمینِ ہند کی سب سے باعزت قوم کے مقام سے گر کر سب سے حقیر، سب سے کمزور، اور سب سے ذلیل کیوں ہوگئے؟ اس ملک میں اگر کوئی جنگلی بلا ماردے تو اس کے لیے سزا ہے؛ مگر کوئی مسلمان کا خون بہائے تو وہ لیڈر بن جاتا ہے۔ سب قوموں پر برے دن آئے اور رخصت ہوگئے؛ مگر ہماری پستی عروج آشنا ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہی؟نکبت وذلت کے اس اندھے غار سے باہر آنے کی ہماری کوئی کوشش کامیاب کیوں نہیں ہو رہی؟
بے اصولیوں کی مثالیں ہمارے اطراف میں اس قدر بھری پڑی ہیں کہ کسی نشاندہی کی ضرورت نہیں۔مسلمانوں نے جو تعلیمی ادارے کاروباری مقصد اور ذاتی مالی فائدوں کے لیے قائم کیے ہیں وہ تو مارکیٹ کے معیار کے ہیں؛ مگر دوسری طرف ذرا سوچیے، مسلمانوں کے پاس اس ملک میں کتنے ایسے تعلیمی ادارے ہیں جو قومی ترقی اور رفاہ وفلاح کے مقاصد کی خاطر قائم کیے گئے تھے،ان کا تعلیمی اور انتظامی حال دیکھ کر عبرت ہوتی ہے۔
اعلیٰ درجے کے خواص کے اندر تنگ نظری کا جب یہ حال ہو کہ ایک کام اگر ان کی قیادت وسربراہی میں انجام پائے تو اس کی ضرورت ایسی کہ ملت کی بقا اسی پر منحصر بتلائیں، ہمہ وقت اسی کی اہمیت پر زور دیں اور تمام خلق کو اس میں مشغول ہونے کی دعوت۔ پھر اگر اس کی سربراہی کسی اور کو منتقل ہوجائے تو اب اس کا تذکرہ ہی نہیں، نہ کسی کو اس کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ یہ تنگ نظری ہی نہیں بے مقصدیت بھی ہے۔
شہرت طلبی نے ہمارے ہر کام کو محض نمائشی بنا دیا ہے۔ہر ایک کو بس اس کی فکر ہے کہ اس کی اور اس کے کام کی کتنی تحسین ہو رہی ہے۔اپنی خبریں چھپوانے کے لیے اخبارات کو اشتہارات سے نوازا جاتا ہے۔ کام کو اشتہار کی ضرورت ہوتو وہ بجا؛ مگر یہاں اشتہار کام کی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ کام اشتہار کی ضرورت کے لیے ہو گیا ہے۔پستیوں نے تھاہ چھو لی ہے، ہمارا کوئی عزیز وہ ڈگری اگر لے لے جو ہندوستان کے ہزاروں لوگ لیتے رہتے ہیں تو ہم اخبار میں اشتہار دے دے کے اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ عوام ایسی سستی حرکتیں کریں تو کم افسوس کیا جائے؛ مگر جب خواص اس پست درجے پر آجائیں تو یہ کسی قوم کی بربادی کی حتمی نشانی ہے۔
خود غرضی اور مفاد طلبی نے ہر اندازے سے تجاوز کر لیا ہے۔ہماری اس کمزور؛ بلکہ ذلیل کیفیت کو وقت کے تمام حکمرانوں نے خوب سمجھ لیا ہے۔ ہمارے ایک بزرگ برطانیہ میں تعینات ہندوستانی سفیر سے مسلمانوں کے مسائل کے سلسلے میں بات کرنے گئے۔ بعض مسائل پر ان کو توجہ دلانے کے بعد جب گفتگو اختتام کو پہنچی سفیر صاحب نے سوال کیا اور کچھ؟ جواب نفی میں دیا گیا تو سفیر صاحب نے زیادہ صراحت سے پوچھا اپنی کوئی ضرورت بتلائیں، ان بزرگ نے فرمایا: نہیں! یہ بات ان سفیر صاحب کے لیے کافی تعجب کی تھی۔ کہنے لگے آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے اپنی کوئی ضرورت نہیں بتلائی، ورنہ مسائل تو عنوان ہوتے ہیں، اصل بات تو کچھ ذاتی ہی ہوتی ہے؟
یہ فسادِ نیت اور پستیِ کردار ہم سے ہر نا کردنی کرا سکتی ہے۔ ہم مسلمانوں کے قاتلوں سے بغل گیر ہو سکتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے خلاف ہر سازش کی حمایت بھی کر سکتے ہیں۔ کسی خاص سازشی اقدام کا نام کیا لیا جائے؟ جب کوئی حکومت کوئی ایسا قدم اٹھاتی ہے جس سے مسلمانوں کو اور ان کے دینی وملی کردار کو نقصان پہونچانا مقصود ہوتا ہے تو ہمارے خواص کے طبقے سے اس کی پوری وکالت بھی کروانے میں وہ کامیاب ہو جاتی ہے۔ افسوس! اچھے اچھے لوگ اپنے مفادات ومصالح کی خاطر حکومتوں کے ایسے اقدامات کی تائید؛ بلکہ ان کا حصہ بننے پر راضی ہو جاتے ہیں، جن کے اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے مضر ہونے میں کوئی شبہہ نہیں کیا جاسکتا۔ مال وجاہ کے سامنے نہ قائدین کو اپنی حیثیت عرفی کی پروا رہتی ہے، نہ علماء کو جبہ ودستار کی عظمت کا خیال اور نہ اللہ کے سامنے اس منافقانہ عمل کی بازپرس کا خوف۔
آپسی تنافس نے بھی ہمیں نہایت نقصان پہونچایا ہے۔ مجھے صاف عرض کرنا مشکل ہورہا ہے؛ مگر یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ اگر ہماری ہر تنظیم مسلمانوں کے مسائل کے بجائے اپنی نمائندگی اور حلقہٴ اثر بڑھانے ہی کو عملاً اصل مقصد اور اولین ترجیح بنائے گی تو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا یہ لا متناہی شوق ہر ناکردنی کرانے کے لیے کافی ہے۔ اور پھر جب مات کردینے کا کھیل شروع ہو جائے تو اخلاق واصول کہاں بچتے ہیں؟ افسوس جو تنظیمیں اور ادارے مسلمانوں کے مسائل کے حل اور دین کی خدمت کے مقصد سے قائم ہوتے ہیں، دھیرے دھیرے تنافس اور دیکھا دیکھی کام کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پھر انھیں ہر حکومت، ہر پارٹی اور ہر ایجنسی ہر طرح استعمال کرتی ہے۔
کسی مظلوم اور کمزور قوم کی قیادت کو اگر ذلت کے گرداب اور ظلم کے شکنجے سے خلاصی حاصل کرنی ہے اور طاقتور حکومتوں سے پنجہ آزمائی کرنی ہے تو اس کے لیے غیرت وحمیت کی طاقت پہلی شرط ہے۔ آج آپ جس معرکے میں ہیں، اس میں طمع ولالچ کی عِشوہ طرازیاں خوف کی لام بندیوں سے پہلے سامنے آتی ہیں؛ مگر ہم میں ”صاحب سلامت“ کا شوق اتنا پیدا ہوگیا ہے اور ہمیں سرکار دربار سے مرعوبیت نے اس بری طرح گھیرا ہے کہ اس کے ذکر سے بھی حیا مانع اور شرم دامن گیر ہے۔ افسوس وصد حیف! وہ امت جس کا اصول مال وزر اور حکومت وسلطنت سے بے پروائی تھا، اس کے خواص حقیر حکمرانوں؛ بلکہ افسران کی نظر عنایت کے لیے سراپا نیاز ومسکنت بنے ہوئے ہیں۔ ان کی مدح سرائی میں نہ صرف قلابے ملاتے ہیں؛ بلکہ ان کی رضا جوئی میں ہر رسواکن قلابازی کھانے کے لیے تیار رہتے ہیں ع
ہوس کی دھوم دھام ہے، نگر نگر ، گلی گلی
قومی مقاصد، مال ومنال اور حقیر نوکریوں کی بھینٹ چڑھا دیے جاتے ہیں۔اس حقیر نے اچھے اچھے قائدین اور سماجی کارکنوں کی سرکار دربار میں ایسی عاجزی اوربچِھنے کی کیفیت کے متواتر قصے سن رکھے ہیں کہ شرمندگی سے سر جھکتا ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ حکمرانوں اور وزیروں کے کچھ گماشتے ہیں، جو جب ان کے آقا چاہتے ہیں وہ ان کے سامنے ہمارے رہنماوٴں کی پریڈ کرا دیتے ہیں اور جو چاہے بیان دلوا دیتے ہیں۔
سیاسی پارٹیوں میں مسلمانوں کے جو لوگ شریک ہوتے ہیں، ان میں سے ایک تعداد نہایت حقیر اور پست قسم کے افراد کی ہے ، جن کے انداز نشست وبرخاست سے صرف ذاتی اغراض کی طلب ظاہر ہو تی ہے۔ مزید برآں ان پارٹیوں کے ساتھ ہماری ملی قیادت کا رویہ بھی نہایت مایوس کن ہے۔بعض جماعتوں کے بارے میں مسلم عوام کا یہ تأثر بڑھتا جارہا ہے کہ ان کے کردارکا ایک حصہ کسی سیاسی پارٹی کی حاشیہ برداری ہے۔ وہ ہزار صفائیاں دیں کہ سیاست کی وادی ان کی گزر گاہ نہیں؛ مگر عملاً ان کے رہنما ہمیشہ اسی کوچہ کے طواف میں مشغول نظر آتے ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا گیا یہ تذکرہ نہ قوم کے رذیل وبد کردار لوگوں کا ہو رہا ہے، نہ عوام کا۔ یہ ہمارے اچھے لوگ ہیں، یہ قوم کی قیادت اور نمائندگی کے مقامِ بلند پر سرفراز لوگ ہیں۔ ہم اہلِ مغرب کو اخلاقی پستیوں کا بڑا طعنہ دیتے ہیں، یقینا ان کے ظلم سے انسانیت خوں چکاں ہے اور ان کی بے حیا تہذیب نے آدمیت کے شرف کو داغدار کیا ہے؛ مگر آپ مغرب کے کسی سیاسی یا قومی نمائندے سے اپنی قوم کے مفاد کی ایسی قربانی کی توقع نہیں کر سکتے جیسی ہمارے نمائندے معمولی سی پیشکشوں پر روز دیتے ہیں۔ کسی یہودی تنظیم یا قابلِ ذکر نمائندے نے آج تک ہولوکاسٹ کو معاف نہیں کیا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سکھوں کے ساتھ صرف ایک مرتبہ ۱۹۸۴ء کے فسادات کی شکل میں وہ پیش آیا جو ہمارے لیے روز مرہ کا قصہ ہے۔ کیا مجال کہ ان کا کوئی قومی نمائندہ اس کے حوالے سے کانگریس کی صفائی دینے کا ذلیل مظاہرہ کرے؛مگر ہمارے نمائندوں کا کیا حال ہے، ہم جانتے ہیں۔ چھوٹے سے فائدوں کے لیے، ذاتی عزائم اور مفادات کے لیے ہم ذلت انگیز حد تک پستی اختیار کرنے کو تیار ہیں۔ افسوس کہ محمد عربی … کی امت کو کافروں سے بھی عبرت نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر علماء کے طبقے کو ہر ایمانی کمزوری اور ہر اخلاقی فساد کا معالج بنایا ہے۔ علماء کی جماعت کا اصل فریضہ ہی دین واخلاق کے اعلیٰ معیار کی حفاظت ہے۔ اہلِ بدعت اور گمراہ فرقوں کے علماء کہلانے والوں کا یہ ذکر نہیں، اہلِ حق میں شمار کیے جانے والوں میں سے ایک تعداد اسی پستی اور تنزل کا شکار ہے۔ ان سطروں کا لکھنے والا یہ حقیر وکمتر اور گوناگوں اخلاقی بیماریوں میں گرفتار کہاں سے علماء سے کچھ کہنے کا منھ لائے؟ علماء کے عزت ووقار میں کمی سے قوم کے دین کا بڑا نقصان ہے؛ اس لیے ڈر لگتا ہے کہ ان کو کچھ توجہ دلانے سے دوسری طرف کہیں دین کا یہ نقصان نہ ہو جائے۔ کیسے کچھ عرض کیا جائے، اور عرض کیے بغیر کیسے رہا جائے کہ حکیم ہی بیمار ہے اور افسوس کہ اپنی اس مہلک بیماری سے اکثر غافل ہیں۔
حیف کہ پانی سر سے اونچا ہو چکا۔ ابھی کل کی بات ہے ایک غیرت فروش مولوی کہلانے والا بی جے پی کی کور کمیٹی کا ممبر ہے اور وہ ایک مدرسے میں جاتا ہے۔ مدرسے کے ذمے داروں کا حال دیکھیے کہ اس شخص کو عین مدرسے کے اندر پریس کے نمائندوں سے مخاطب ہونے کا موقع دیا جاتا ہے، وہ مدرسے میں بیٹھ کر بی جے پی کی وکالت کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ میں علماء کو بی جے پی میں شامل کرانا چاہتا ہوں۔ سوچیے مدرسے کا ذمے دار ہوتے ہوئے کوئی اس نفاق اور ملت فروشی کا معاون بھی بن سکتا ہے!انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ایک مدرسے کے ذمہ دار نے اپنی غیرت کو سرِ بازار اس طرح سولی دی کہ انتخابات میں ایک فلمی اداکارہ کے ساتھ خوب گھومے۔ اور اپنے دین کی قیمت یہ وصول کی کہ مدرسے میں اس کے پارلیمانی فنڈ سے تعمیری کام کروائے۔کیا اب ”علماء“کا ان زنا کے داعیوں اور داعیات سے بھی جوڑ ہو سکتا ہے؟ وہ صاحبہ پھر ان مولوی جی کے ہمراہ مدرسے میں قدم رنجہ بھی فرماتی ہیں اور مدرسے کی عمارت کا افتتاح بھی ان کے ”دستِ مبارک“ سے انجام پاتا ہے۔ اور ان سب نحوستوں اور ناپاکیوں کی باقاعدہ تصویریں محفوظ رکھی جاتی ہیں اور فخر وسرور کے ساتھ لوگوں کو دکھائی جاتی ہیں۔ آپ یہ سوچ کر دل کو مت بہلا لیجیے گا کہ یہ تو کوئی ایک آدھ فرد کا بگاڑ ہے، جی نہیں! وہ صاحب ان سب کارناموں کے بعد بھی آپ کی جماعت میں مطعون نہیں قرار پاتے، وہ حسبِ سابق قابلِ قبول ہیں۔ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔
ذاتی عمل اور کردار میں اس درجے گرجانے والوں کی تعداد تو کچھ خاص نہیں؛ مگر اس پر بڑوں کی طرف سے قول اور عمل سے شدید نکیر اور تقذّر (گھِن) کا اظہار نہ ہونے کی وجہ سے یہ پست اور فاسد عنصر اپنی تعداد لگاتار بڑھاتا جارہا ہے۔
اس سے اوپر بھی علماء کی ایک خاصی تعدادہے جوالحمد للہ ایسی پست تو نہیں؛ مگر اپنے کردار اور گفتار سے عوام کے اندر کچھ اچھا تأثر نہیں چھوڑتی۔ ہمارے یہاں ہر طرف خاک اڑ رہی ہے۔شہرت طلبی کی ایک ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر وقت اپنا اور اپنے چھوٹوں اور بڑوں کی ہی مدح وتوصیف وطیرہ بنا ہوا ہے۔ اللہ والوں کا حال تو یہ ہوتا تھا کہ اپنے بڑوں کے تذکرے سے بھی اپنی تعریف کی بو آئے تو وہ اس سے بھی پرہیز کرتے تھے۔ حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے حضرت کا بھی تذکرہ نہیں کرتا کہ اس میں بھی میری تعریف ہے“۔ روزے نماز کی ظاہری دین داری کواگر چھوڑدیں تو ہم متاعِ دنیا کی تحقیر کے داعی ہو کر بھی کس قدر اسی کے پیچھے بھاگنے والے بنے ہوئے ہیں۔وہی سود وسودا اور مکر وفن کی گرم بازاری، وہی مصنوعی گفتگوئیں۔ ہمارے حالات ایسے ہیں کہ ایک ذہین درد مند اپنے احساس کی اس گواہی کو چاہ کر بھی جھٹلا نہیں پاتا کہ ہماری تگ ودو کے عنوان کچھ اور ہوتے ہیں اور حقیقی مقاصد کچھ اور، کسی نام سے کانفرنس اور جلسہ ہوتا ہے اور اندر کی اصل نگاہ کسی اور چیز پر ٹکی ہوتی ہے۔
مدرسوں کے جلسوں میں سیاسی لیڈروں کا جو اکرام واعزاز ہونے لگا ہے کبھی ہم نے سوچا کہ اس کو دیکھ کر ہمارے چھوٹوں کے دل میں کیسی مرعوبیت پیدا ہوتی ہے؟ جب طلبہ اصحاب جبہ ودستار کو اہل دنیا کے سامنے بچھتے گرتے دیکھیں گے تو وہ کس کردار کے اٹھیں گے؟ ان کے خواب کیا ہوں گے؟ وہ اپنے لیے کس کردار کا انتخاب کریں گے؟ اور جب ان کے سامنے دین کے مفاد اور دنیا کی چمک دمک کا تصادم ہو گا تو وہ کیسے اپنے لیے استغناء اور اور غیرت وحمیت کی راہ چنیں گے؟ آہ! کہ زہد اور دنیا بیزاری جس کی پیشانی کا نورہو ا کرتے تھے، آج وہ وزیروں اور بادشاہوں کا دریوزہ گر ہے۔
اس متوسط طبقے سے بھی اوپرہمارا ایک طبقہ اور ہے؛ قابلِ رشک حد تک با صفا، ذاتی دین داری سے مزین اور لائقِ تقلید پاکیزگی کا پابند؛ مگر وہ اونچا اخلاقی معیار اور با اصول کردارجو زمانے کے امام کا ہونا چاہیے، اور جس کے بغیر اس زبوں حال امت کا بھلا ہونے کی کوئی راہ زمانہٴ حاضر میں نہیں، اس طبقے نے بھی اس منزل تک پہونچنے سے پہلے ہی اپنی ہمت کے پتوار رکھ دیے ہیں۔ جاہ ووقار میں منافست نے ہمیں اصحاب دنیا کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایک صاحب کو اس پر افسوس کرتے پایا گیاکہ ان کے بین الاقوامی سفر سال میں ایک آدھ ہی ہو پاتے ہیں اور فلاں صاحب کے کئی ایک۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس پست سوچ سے کیا کسی قوم کی کشتی بھنور سے نکل سکتی ہے۔ وہی گروہ بندیاں، وہی خلوص سے عاری مجاملت اور وہی مفادات ومراعات کے زیر اثر فیصلے جو اہل دنیا کے لیے بھی ذلت ہی ہیں، ہمارے گروہوں میں داخل ہو گئی ہیں۔ ایک بزرگ کا یہ جملہ کان میں پڑا تھا کہ آج کی دنیا میں کوئی یہ نہیں چاہتا کہ برائی نہ ہو، ہر ایک بس یہ چاہتا ہے کہ برائی اس کے جھنڈے تلے ہو“۔ ہمارے دینی قائدین کے یہاں جب یہ منظر دِکھتا ہے کہ نہایت نامناسب؛ بلکہ منافقانہ کردار کے لوگ، جن سے مسلمانوں کو شدید نقصان پہونچتا ہے، عزت وتوقیر ہی نہیں تعاون اور مشارکت بھی پاتے ہیں تو الفاظ نہیں ملتے کہ کس قدر چھوٹوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اب وہ کہاں سے یہ ہمت لائیں کہ معیار سے گری ہوئی حرکتوں سے ہر حال میں گریز کریں گے۔
اے کاش ہمارے یہ بزرگ سوچیں کہ ایسے دین دشمنوں اور ملت فروشوں کی جب ان کے رسوخ وطاقت کی وجہ سے یا کسی ایسی مصلحت کی بنیاد پر پذیرائی ہوتی ہے، جو بہر حال خالص دینی مصلحت نہیں ہوتی، تو ان کا یہ عمل عام دردمند مسلمانوں کے لیے کیسا مایوس کن اور ہمت شکن ہوتا ہے۔ مخلصانہ تنقید اور بے غرض روک ٹوک ایک قومی اور دینی ضرورت ہے جو موہوم وقتی مصالح کے لیے چھوڑ دی گئی ہے۔ ہم کو سوچنا چاہیے کہ رسول اللہ نے ”انکارِ مُنکَر“ یعنی خرابیوں پر ایک دوسرے کو متوجہ کرنے کی کس قدر تاکید فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ اس فریضے سے غفلت پر دنیا ہی میں اللہ کے عذاب کی وعید بھی سنائی ہے۔ اگر علماء اور وہ بھی بڑے علماء اپنی خوش نامی، تعلقات اور خوش رکھنے کے مقاصد سے اس فریضے کو چھوڑ دیں گے تو اخلاقی تنزل کے بھنور میں امت کی پھنسی کشتی نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔
یقینا اللہ والوں کی ایک جماعت علماء میں ایسی ضرور ہے جو اخلاص وصدق، اور بے لوثی وپاکی میں نمونہ اور اسوہ کا درجہ رکھتی ہے؛ مگر عموماً ماحول ایسا ناسازگار ہے کہ وہ بس اپنے محدود دائروں کے اندر اپنے کردار کے دیے جلائے بیٹھے ہیں۔ملی جدوجہد کے دائرے میں سود وسودا اور مکر وفن کی ایسی گرم بازاری ہے، اور دین واخلاق کا ایسا نقصان نظر آتا ہے کہ
جس کو ہو دین ودل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں؟
کا سوال سامنے آنے کے بعد ایسے اچھے لوگ اپنے بڑھے پاوٴں بھی کھینچ لیتے ہیں۔ تنافس کے ماحول اور صدق ووفا کی بہائے گراں مایہ کی شدید نا قدری کی وجہ سے ان لوگوں سے ہمارے اجتماعی معاملات میں قیادت اور رہنمائی کاجو فائدہ اٹھا یا جا سکتا تھا، وہ نہیں اٹھایا جارہا۔
—————————
اے طبقہٴ خواص! آپ ہی ملت کی آبرو ہیں، خطروں میں گھری اور اندیشوں سے گھبرائی اس ملت کو اللہ کے بعد آپ ہی کا سہارا ہے۔ان سطروں کا لکھنے والا اس وقت شدید کرب والم سے دوچار ہے۔ ان چیزوں کے بارے میں سوچتے وقت شرم وافسوس کے غم انگیز احساسات سے اس کی پیشانی عرق آلود ہے؛ مگر ”نہ جائے رفتن اور نہ پائے ماندن“ کا معاملہ ہے۔ نہ خموشی کی تاب ہے اور نہ کہتے بنے ہے ۔ یہ اخلاقی زوال ہمارے جسمِ ملی کا زخم ہے۔․․․․․ اور اپنے زخموں کو کریدنا آسان نہیں ہوتا۔ مگر․․․․․․․․۔ مگر زخم کو صاف کیے بغیرجب تک آپ اوپر اوپر کی مرہم پٹی کیے جائیں گے اندر کی عفونت اور سڑاند بڑھتی ہی رہے گی۔
محترمانِ گرامی! مجھے خیال خاطر احباب چاہیے، اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ یہ لکھنے والا خود بھی ہزار خرابیوں اور گندگیوں کا مجموعہ ہے۔اس کی ناپاکیوں پر مستزاد اس کی بے عملی ہے۔ یہ کردار کا غازی کیا ہوتا، اس سے تو گفتاربھی نہیں آتی؛ مگر جہاں تک اندازہ ہے ان سطروں کا مقصد اپنی براء ت نہیں ہے؛ مگر دل کا اصلی حال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
یہ حقیر آپ کو اللہ کا اور دین ورسول … کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہے، خدا را اپنے مقام اور ذمے داری پر غور کیجیے! رحم کیجیے اس قوم پر، آپ ہی اس کے دین اور دنیا کے امین ہیں۔ یہ قوم آپ کی ہی تو آس لگائے بیٹھی ہے۔ اور یہ بھی آپ اور آپ جیسوں ہی کا شرف اور مقام ہے کہ اس امت کے مسائل اور مشکلات اگر حل ہوں گے تو آپ ہی کی قیادت میں۔ اگر خواص میں کمزوریاں ہیں تو بھی امتِ مسلمہ ان سے دست بردار اور بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ اس کو آپ کی ضرورت ہے۔ کاش آپ کے سر پر آخرت میں رسول اللہ کی امت کی کامیابی کا سہرا بندھے۔
آپ اگر اصول پسندی اور سچائی اورایثار کو نہیں اختیار کریں گے تو آپ جانتے ہیں کہ حالات ملک میں مسلمانوں کے لیے کس قسم کے اندیشوں کی آگاہی دے رہے ہیں۔ آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ اپنے کسی ذاتی یا اپنے گروہ کے کسی فائدے کے لیے جوقدم اٹھا لیتے ہیں وہ سبب بنے گا مسلمانوں کی تباہی کا اور اللہ کے یہاں آپ کے حساب میں لکھا جائے گا کہ یہ بندہ مسلمانوں کے خون بہنے کا؛ بلکہ اس ملک میں اسلام کی شکست کا ذریعہ بنا۔ خدا نہ کرے ہم آپ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ایسے کسی جرم کے مجرم بنا کر حاضر کیے جائیں۔
یہ آپ کے ایک بھائی کی ایک خادمانہ عرض داشت ہے۔ ایک مدت سے اس کے دل میں آپ سے کچھ عرض کرنے کی تمنا تھی؛ مگر انتظار تھا کہ یہ کام کسی موقر بزرگ کی طرف سے انجام پائے؛ مگر پھر خیال ہوا کہ شاید جو پہلو اس عاجز کے ذہن میں ہیں، شاید وہ دوسروں کے ذہن میں نہ آسکیں۔اللہ کے واسطے سنجیدگی سے مسئلے پر غور فرمائیں ۔ اگر اپنے کسی موقف میں تبدیلی کی ضرورت محسوس فرمائیں توآخرت میں اللہ کے عظیم اجر اور دنیا میں اس کی غیبی مدد ونصرت کی توقع کے ساتھ اس تبدیلی کو کر گزریں! اللہ آپ کا حامی وناصر ہو!
—————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 8-9، جلد: 98 ، شوال، ذی قعدہ 1435 ہجری مطابق اگست، ستمبر 2014ء