از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، ۱۵-گاندھی روڈ، دہرہ دون
گوئیلز نے تو کہا تھا: ”جھوٹ کو اتنا بولو کہ وہ سچ محسوس ہونے لگے“ اسی طرح امریکی پروفیسر اور دفاعی تجزیہ نگار سموئیل ہنٹنگٹن (Sammuel Huntington) نے سب سے پہلے جدید تاریخ میں نام نہاد ”اسلامی دہشت گردی“ کی اصطلاح گھڑ کر اتنی کثرت سے استعمال کی کہ وہ سازشی اصطلاح اب حقیقت لگنے لگی ہے۔ ملت کے زعما پریشان ہیں، امام کعبہ، امام و خطیب مسجد نمرہ سے لے کر دنیا بھر کے ائمہ، علماء اور اسلامی دانشور ان اپنے تئیں اس داغ کو دھونے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں کمالِ ہنر کہ جس طرح تین ٹھگوں نے ایک دیہاتی سے بکری کے بچہ کو ٹھگنے کے لیے ایک سازش رچی، ایک نے بکری کو کتا بتایا، ایک نے گدھا اور ایک نے لومڑی تو بیچارے دیہاتی نے آخر پریشان ہوکر بکری کو تقریباً مفت میں ہی ٹھگوں کو دے دیا۔ وہی حال امت کے علماء اور مخلص؛ مگر ضروری علم اور ایمانی جرأت سے خالی دانشوروں کا ہے کہ اسلام دشمنوں کے مسلسل پروپیگنڈہ سے دباؤ میں آکر طرح طرح کے فضول، غیرمفید اور مضر ایمان اقدامات کررہے ہیں۔ اسلام دشمنوں نے روس کے زوال کے بعد ایک دشمن کی تلاش میں اسلام کو موزوں ترپایا، جیساکہ کلدیپ نیر نے خود اپنی کانوں سنی مارگریٹ تھیچر برطانوی پرائم منسٹر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ہمارا اگلا دشمن اسلام ہے۔ امتِ مسلمہ کی سخت جانی اور ایمانی حرارت کا ذائقہ یہ دشمنانِ اسلام پہلے بھی تاریخ میں چکھ چکے ہیں؛ اس لیے اس بار پچھلے تمام تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک کثیر جہت حملہ امتِ مسلمہ پر بولا گیا، جس میں فوج کے ساتھ ساتھ میڈیا، تعلیم، تفریح تمام محاذ ایک ساتھ کھول دیے گئے۔ آئندہ سطروں میں اس حملہ کے ایک بڑے محاذ ”مسلمانوں کے اندرونی اختلاف“ کو شدید ترین بناکر فروغ دینے پر کیاگیا ہے۔ اور اسی ضمن میں اسلام کی طرح طرح کی تفسیریں ایجاد کی گئی ہیں۔ سیاسی، صوفی، سنی، وہابی، گنگاجمنی، رواداری اور نہ جانے کون کون سے برانڈ ایجاد کیے گئے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اسلام کی جو عام سمجھ پچھلے چودہ سو سالوں سے امت میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت کے تصور کے تحت موجود ہے، اس کے بجائے انسانی زندگی کو ٹکڑوں میں بانٹ کر غلامی کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ دیاگیا۔ مسجد اور قبرستان میں غلامی کسی اور کی، بازار میں کسی اور کی، عدالت میں کسی اور کی، اور پارلیمنٹ میں کسی اور کی۔ ایک طر ف سے ملتِ اسلامیہ کو عسکری (ملٹری)، تہذیبی، علمی، میڈیا ئی یلغار پر رکھاگیا، فوجوں کو مسلم ممالک میں تعینات کرانے کی سازش (کویت، عراق، افغانستان، الجزائر، مصر) کی گئی، دوسری طرف اس یلغار اور وسائل کی لوٹ مار اور اپنی موجودگی کو مستقل بنانے کے لیے ذہنوں کو پراگندہ اور منتشر کرنے کی مہم بھی بڑے پیمانہ پر چھیڑی گئی، جس کو دماغ و اذہان کی جنگ کہا گیا۔ اس جنگ کے تحت قرآن کی بنیادی تعلیمات میں ہی من مانی، ہیرپھیر کردی گئی اوراسلام کا وہ برانڈ پیش کیا جارہا ہے، جو اللہ کے باغیوں، ظالموں، انسانوں کو اپنا غلام بنانے والوں، سودی نظام کی پرورش کرنے والوں اور زنا وبے حیائی کو فروغ دینے والوں کے آگے سر جھکائے ہاتھ باندھے کھڑا رہے۔ اور اسی برانڈ کو آج مختلف حیلوں بہانوں سے امت میں رائج کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ حالات کا دباؤ اتنا زبردست ہے کہ ملت کے علماء وائمہ کی خاصی بڑی موثر تعداد بھی مرعوب ہوکر اسی راہِ فرار یا بقاء کی طرف بھاگ رہی ہے، جدھر اسلام دشمن شکاریوں نے ہانک کر راستہ خالی چھوڑا ہوا ہے۔ یوروپی ممالک میں جرمنی میں چار ایسے مراکز قائم کیے گئے ہیں، جہاں اسلامیات کے اساتذہ اور ائمہ کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیاجارہا ہے۔ اور کیا سکھایا جاتا ہے، اس کا ایک نمونہ حاضر ہے۔ ایک مرکز کے ذمہ دار 42 سال کے مہندس خورشید بتاتے ہیں کہ ”انسان کو مذہب سمجھنے کے لیے اپنی عقل استعمال کرنی چاہیے۔ دینیات کا کام عقلی بنیادوں پر مذہب کی بنیاد کو واضح کرنا ہے۔ یہاں معاملہ سوچے سمجھے بغیر کسی چیز کو یہ کہہ کر قبول کرلینے کا نہیں ہے کہ میں تو ایسے ہی کروں گا؛ کیوں کہ کتابوں میں ایسا ہی لکھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کوئی چیز کیوں لکھی ہے؟ خدا انسان سے کیا چاہتا ہے؟ زندگی کے ساتھ مذہب کا تعلق کیا ہے؟“ (یعنی ایمان بالغیب اور کتاب کسوٹی نہیں ہے؛ بلکہ عقل کسوٹی ہوگی، اس کے آگے کیا ہوگا سب کو معلوم ہے)اس پروگرام پر جرمن حکومت 20ملین یورو خرچ کررہی ہے۔ ان مراکز کے نصاب کے بنانے میں وہاں کی اسلامی تنظیموں کا کوئی تعاون نہیں لیاگیا ہے؛ جبکہ مسیحیوں کے لیے ایسے پروگرام کے نصاب کی تیاری میں کلیسائی تنظیموں سے مشورہ لیے جاتے ہیں۔ (عزیز الہند، دہلی ۲/۱۲/۲۰۱۳/)
برطانیہ میں افغانستان میں جنگ لڑچکے لی رگبی کے قتل کے بعد کیمرون بہت طیش میں ہیں۔ ہاں انھیں اس وقت طیش نہیں آتا جب ان کے فوجی لوگوں کو قتل کرکے ان کے سروں پر پیشاب کرنے کی فلم بناکر انٹرنیٹ پر لگادیتے ہیں اور نہ تب طیش آتا ہے جب ان کے فوجی بے قصور افغانوں کو شہید کرکے ان کے جسم کے اعضاء: انگلیاں وغیرہ بطور یادگار ساتھ لے جاتے ہیں۔ انھوں نے بھی مساجد، مدارس اور اسلامک کمیونٹی سنٹرز کی تطہیر کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ان مقامات کو سڑاند کا مرکز بتایا ہے۔ اور ان مراکز پر زبردست دباؤ کے حربہ اپنائے جارہے ہیں ائمہ اور مقررین کو ڈرا دھمکاکر حقائق سے روشناس کرانے اور حق کی تبلیغ سے دور رکھنے کی پالیسی بنائی گئی ہے۔ لی رگبی کے قتل کے بعد قائم کی گئی ٹاسک فورس نے جو سفارشات کی ہیں، اس میں یہ سب رہنما خطوط شامل ہیں۔ (یعنی ہر جگہ اپنی جارحانہ، ظالمانہ، اسلام دشمنانہ رویہ پر نظر ثانی کرنے کے بجائے اس کے رد عمل کو اسلام سے جوڑ کر ”اسلام کی اصطلاح“ کی آڑ میں ملت میں فکری گمراہی کو پروان چڑھانے کا ماسٹر پلان تیار ہوگیا ہے) (تلخیص: عزیز الہند ۸/۱۲/۲۰۱۳/)
وطن عزیز ہندوستان میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کا کام زوروں پر چل رہا ہے۔ ایک تنظیم کو اس معاملہ میں کافی متحرک کیاگیا ہے جو کہ ہندوستان کی تمام مسلم نمائندہ تنظیموں کے عہدیداروں کو سعودی، وہابی بتاکرانتہائی سازشی انداز میں مسائل کا ٹھیکرا غیرملکی حکومت کے سرپھوڑنا چاہتی ہے۔ تنظیم ملکی وسائل میں حصہ داری لینے کی بات کرتی ہے؛ مگر مثال دیتی ہے پرسنل لاء بورڈ، وقف بورڈ، حج کمیٹیوں کی؛ حالانکہ یہ تو قوم کی دولت اور قوم کی امانت ہے، جو حکومت کی سرپرستی میں برباد کی جارہی ہے۔ ہر حکومت بلا استثناء اپنے عہدیداروں کو حکومتی ریوڑیاں بانٹنے کے بجائے یہ مُردوں کی ہڈیاں اور حاجیوں کی گاڑھی کمائی کا پیسہ دیدیتی ہیں کہ انھیں میں سے تیل نکال لو۔ کیا مایاوتی جی کی حکومت میں وقف کے ذمہ دار بھی سعودی/وہابی تھے؟ انھوں نے کیا ترقیاتی کام وقف کے لیے کیے تھے؟ ایک بیان میں عہدیدار فرماتے ہیں: ”کچھ غیرملکی امداد یافتہ افراد اور ادارے ٹوپی اور داڑھی کی چلمن (سنت رسول کو چلمن بتانے کی جسارت؟) سے ہمارے ملک کی سالمیت پر حملہ آور ہوکر اس کی تمدنی اور تہذیبی یکجہتی اور امن وآشتی میں نقب زنی کرکے ماحول کشیدہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ملک کی جتنی بھی وقف املاک ہیں، وہ سب سنی صوفی مسلمانوں کے ذریعہ وقف کی گئی ہیں، باقی اسلام ماننے کا دعویٰ کرنے والے تمام فرقہ ایصال ثواب کے مخالف ہیں؛ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ سنی صوفی مسلمانوں کو نظر انداز کرکے ریاستی اور مرکزی سرکاروں نے مسلم وقف سے متعلق معاملات کو ان افراد و تنظیموں کو سونپ دیا ہے جو 80% سنی صوفی مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ (حالات وطن دہلی ۲۵/۱۱/۲۰۱۳/)
مزید پروپیگنڈہ ملاحظہ فرمائیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل سعودی شہنشاہیت کے اشاروں پر نہیں نکلیں گے۔ سعودی شہنشاہیت کی اپنی مجبوریاں ہیں کہ اسے اپنے ایجنٹ ہندوستان میں اہم عہدوں پر مسلط کرنے پڑرہے ہیں؛ مگر ہماری حکومتوں کی کیا مجبوریاں ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو ہم پر تھوپے ہوئے ہیں جن کی وفاداریاں ملت سے کم اور شہنشاہیت سے زیادہ ہے۔ (حالات وطن، دہلی ۹/۱۲/۲۰۱۳/)
کیا یہ پراسرار امر نہیں ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کا ٹھیکرا ایک غیرملکی حکومت کے سرپھوڑا جائے؟ کیا وقف بورڈ اور حج کمیٹیوں میں نام نہاد صوفی سنی کہلانے والے عناصر کی تقرری سے مسلمانوں کے تحفظ، بے روزگاری، تعلیم کی کمی، تہذیبی یلغار کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ ان تمام مسائل کے لیے غیرملکی حکومت کیسے ذمہ دار ہوگئی؟ غالباً اس سازشی گروہ کو معلوم نہیں کہ جس وقت بابری مسجد شہید کی گئی اس وقت دہلی کی حکومت کے سب سے قریبی مشیر یہی صوفی سنی علماء تھے؟ اس وقت مرکز میں وزیر بھی اسی فکر کے تھے اور آج بھی محترم کے رحمن خاں، محترم غلام نبی آزاد، محترم احمد پٹیل سب کے سب طاقت ور ترین سیاسی لوگ کس ذہن کے ہیں؟ مولانا توقیر رضا خاں صاحب کس فکر کے حامل ہیں؟ کیا یہ سب وہابی سعودی ذہن کے ہیں؟ سعودی حکومت کی کمزوریاں، بزدلی اور شہنشاہیت غلط ہیں؛ مگر اس کا ہندوستانی مسلمانوں کے وسائل کی حصہ داری میں کمی سے کیا تعلق ہے؟ ایک اہم بات یہ ہے کہ ان صوفی اور سنی زعماء کو امریکہ، یورپ ، اسرائیل اور اس کے اسلام دشمن کارنامہ اور ہندوستان کے حالات؛ بلکہ ہر مسلم ملک کے معاملات میں دخل دینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہ ممالک اپنے یہاں اللہ کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون اور فلم بنانے والوں پر اور بابری مسجد شہید کرنے والوں کے عقیدہ پر حملہ نہیں کرتے۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق مضبوط کرکے ملت کو فکری اور عقیدہ کے انتشار سے محفوظ رکھنے کی مہم چلائی جائے، نہ کہ ملت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں کی مدد کرکے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب کو دعوت دی جائے!
$ $ $
———————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7، جلد: 98 ، رمضان المبارك 1435 ہجری مطابق جولائی 2014ء