از: مولانا محمد ضمیر رشیدی
وارثپورہ، کامٹی، ضلع ناگپور(مہاراشٹر)
تجارت کی منڈیاں، صنعتوں کی بہتات، معاشیات کی مضبوطی، حکومت و سیاست کی بالا دستی، دنیا وی سازو سامان کی کثرت،محلات و باغات، عالی شان کوٹھیاں، عہدے و مناصب، اولاد اور کنبہ و قبیلہ، لباسِ فاخرہ، انواع و اقسام کے لذیذ پکوان وغیرہ اگرچہ دنیا کی وقتی و ظاہری کامیابیوں کی مختلف شکلیں و صورتیں ہیں؛ تاہم ان کا ملنا یا نہ ملنا رب تعالیٰ کی رضا و خوشنودی یا غیظ و غضب کا پیمانہ نہیں کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ان ساری چیزوں کا تعلق انسان کے جسم میں سانس کے دخول و خروج کے ساتھ وابستہ ہے۔با الفاظِ دیگر موت کے وارد ہوتے ہی ان ساری چیزوں کا تعلق انسان سے منقطع ہو جا تا ہے۔ لہذا یہ چیزیں اصل اور حقیقی کامیابی کی چیزیں نہیں ہیں۔تب کامیابی اور نا کا می کیا ہے؟ اصل کامیابی اور ناکامی وہ ہے جو مل کر ختم نہ ہو؛چنانچہ فانی و باقی کے اسی تقابل کو بنیاد بناتے ہوئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا او ر جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔“(سورہ : ا لنحل ۔ آیت نمبر:۹۶)
دنیاوی مال و متاع ، شرافت و افتخار،قابلیت و لیاقت کی کوئی قیمت نہیں اگر دل ایمان و یقین سے خالی ہو۔ اور اگر اس دنیا کی محبت رب تعا لیٰ کے یہاں ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو اللہ جل شانہ‘ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیتے۔اس دنیا کی زندگی کو ”متاعِ قلیل “ کہا گیا ہے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ اہلِ ایمان کا بھی منتہائے نظر اب دنیا کی کامیابی ہو کر رہ گیا ہے۔عیش و عشرت کے لیے دنیا کی طلب پر تنبیہ کی گئی ہے۔ اہل ایمان اللہ کے آخری پیغام کے اصل حاملین ہیں لہٰذا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل دنیا کی ”کامیاب دنیا“ پر ہرگز ہرگز رال نہ ٹپکائیں؛ بلکہ آخری نبی… کے امتی ہونے کے ناطے ان کی” برباد آخرت“ پر آنسو بہائیں کہ یہ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جہنم کی طرف تیزی سے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ اہل ایمان کو اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کی کوئی فکر لا حق نہیں۔اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ اب ان کی بھی فکر و سوچ پر دنیا کی زندگی ایسی حاوی ہو گئی ہے کہ وہ دنیا کی لذّ ات و پر تعیش زندگی میں غیروں سے ذرا بھی پیچھے رہنا نہیں چاہتے۔ حالانکہ وہ جس نبی امُی… کے نام لیوا ہیں اور ان کی اتباع ہر حال میں ضروری ہے، انھوں نے پہاڑوں کو سونابنانے کی پیش کش پر انکار کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ سخت ترین حالات میں بھی وسعتِ دنیا کی دعا کرنے پر حضرت عمر فاروق جیسے جلیل ا لقدر صحابی کو تنبیہ فرمائی تھی، جسے خود حضرت عمر اس طرح بیان کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ میں دربارِ رسالت میں حاضرِ خدمت ہوا تو دیکھا کہ حضور … ایک بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں، جسمِ اطہر پر بوریے کے نشانات بھی ابھر آئے ہیں اور سرہانے ایک چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ گھر کا کل سامان یہ تھا۔ تین چمڑے بغیر دباغت دیے ہوئے اور ایک مٹھی جوَ۔ اس کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ یہ دیکھ کر میں رو دیا، حضور …نے فرمایا کہ کیوں رو رہے ہو۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ … کیوں نہ روؤں کہ یہ بوریے کے نشانات آپ کے بدنِ مبارک پر پڑے ہیں اور گھر کی کل کائنات یہ ہے جو میرے سامنے ہے۔ پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ… دعا کیجیے کہ آپ کی امت پر بھی وسعت ہو۔ یہ روم و فارس بے دین ہونے کے باوجود کہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ ان پر یہ وسعت، یہ قیصر و کسری تو باغوں اور نہروں کے درمیان ہوں اور آپ اللہ کے رسول اور اس پر یہ حالت، نبی اکرم … تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے۔میری بات سن کر بیٹھ گئے۔ اور فرمایا ” عمر! کیا اب تک اس بات کے اندر شک میں پڑے ہوئے ہو۔ سنو! آخرت کی وسعت دنیا کی وسعت سے بہتر ہے۔ ان کفار کو اچھی چیزیں دنیا میں مل گئیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔حضرت عمر نے عرض کیا: یا رسول اللہ … میرے لیے استغفار فرمائیں کہ واقعی میں نے غلطی کی۔
البتہ دین اسلام پر عمل کرنے پر بطور انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لیے حیات طیبہ موعود ہے۔
” چاہے کوئی مرد ہو یا عورت نیک عمل کر کے آ وے اور صاحب ایمان ہو تو ہم ایسے لوگوں کو حیاتِ طیبہ عطا کریں گے ۔“(سورہ : ا لنحل ۔ آیت نمبر:۹۷)
اور یہ حیات طیبہ کیا ہے؟ حیات طیبہ در اصل حیات خبیثہ کی ضد ہے۔ حیات طیبہ عین وہی چیزہے جس میں ہر طرح کا سکون ، عافیت ،آسانی وغیرہ شامل ہیں۔ حیات طیبہ میں نیک بیوی، فرماں بردار اولاد، خاتمہ بالخیر،حلال و آسان روزی، سکون و طمانیت، غنائے قلبی، خلقت میں محبت و رعب اور دبدبہ وغیرہ کے علاوہ ہر وہ چیز شامل ہے جن کے حصول کے لیے دنیا کے عام انسان سخت تگ و دو میں رہتے ہیں؛ مگر دین پر عمل کرنے پر بطور انعام مومن کوحق جل شانہ‘ حیات طیبہ سے نوازدیتے ہیں۔
اہل ایمان اللہ کے آخری محفوظ و موجود کلام کے حامل ہونے کے ناطے دنیائے انسانیت کے رہبر و ہادی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ و ہ اپنے اعمال اور اپنی زندگی سے اس کاعملی ثبوت پیش کریں کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔اصل کامیابی رب کی رضامیں پوشیدہ ہے ۔ کامیابی اس کے لیے ہے جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا۔اصل کامیابی وہ ہے جہاں جنت کی نعمتیں کبھی بھی ختم نہ ہوں گی؛ بلکہ بڑھتی ہی جائیں گی۔اور جہاں رب تعالیٰ کا دیدار سب سے بڑی نعمت ہوگی۔جہاں اللہ تعالیٰ خود بندوں کو قرآن شریف پڑھ کر سنائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ اعلان فرما دیں گے کہ اے میرے بندو! اب میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوؤ ں گا۔
تاہم آخرت کی غیبی زندگی کی کامیابی کو حقیقی کامیابی سمجھنا اور دنیا کی مشاہدہ والی زندگی پراس کو ترجیح دینا کوئی سادہ بات نہیں۔بندہ سے مطلوب ہے کہ وہ ایمان و احتساب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے۔واضح ہو کہ احتساب اس بات کو کہتے ہیں کہ بندہ کو عمل کے دوران عمل کی فضیلت و قیمت کا استحضار حاصل ہو۔ مثلا ً اہل ایمان ایک مرتبہ سبحان اللہ کہہ کر اتنا خوش ہو کہ ہفتِ اقلیم کی سلطنت بھی اسے پھیکی لگنے لگے،ہفتِ اقلیم کی سلطنت تو ایک روز چھوٹ جائے گی؛ مگر ایک مرتبہ سبحان اللہ کا اجرو ثواب کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔درحقیقت ایمان واحتساب کے ساتھ اگر عمل کیا جائے تو پھرواقعی زندگی کا لطف ہے؛اس لیے ہر اہل ایمان کے لیے ضروری ہے کہ دین میں کامیابی کا شرح صدر حاصل کریں کہ یقین بغیر دین پر عمل آوری نہیں ہو سکتی۔ اس حقیقت کو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی صورت میں اس طرح سمجھایا ہے ۔ ” بیٹا! نیک عمل اللہ تعالیٰ شانہ‘ کے ساتھ یقین کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ جس کا یقین ضعیف ہوگا اس کا عمل بھی سست ہوگا“۔
$ $ $
———————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7، جلد: 98 ، رمضان المبارك 1435 ہجری مطابق جولائی 2014ء