از: مولانا محمد اللہ قاسمی

                انیسویں صدی عیسوی میں یوروپی استعمار کی چیرہ دستیوں اور پوری دنیا خصوصاً عالمِ اسلام پر تصرف اور قبضہ سے ایک عالمگیر سیاسی، سماجی اور دینی بحران پیدا ہوچکا تھا۔ یوروپی استعمار اپنے ساتھ عیسائیت اور الحاد وبے دینی کا ایک سیلاب بلا خیز بھی ساتھ لا رہا تھا۔ پورے عالمِ اسلام کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت مسلمانوں کی قوتِ فکر و عمل مفلوج ہو کر رہ گئی تھی اور انڈونیشیا سے مراکش تک کے طول وعرض میں کوئی قابلِ ذکر تحریک موجود نہ تھی، جو اس نازک صورتِ حال میں مغربی استعمال اور الحاد کے خلاف آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی۔ ایسے نازک دور اور عالمگیر سناٹے میں پہلی آواز دیوبند سے اٹھی جو اگرچہ ابتدا میں ہلکی اورنحیف تھی؛ لیکن آہستہ آہستہ وہ الحاد و بے دینی اور ظلم وبربریت کے سناٹے کو چیرتی چلی گئی اور نصف صدی کے اندر اندر پوری دنیا میں اس کا ڈنکا بجنے لگا:

تا ابد گوشِ جہاں زمزمہ زا خواہد بود

زیں نواہا کہ دریں گنبدگردوں زدہ ایم

عالمِ اسلام کی موٴثر ترین دینی تحریک

                یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی حیاتِ اجتماعی کی نشاةِ ثانیہ کی تاریخ میں دارالعلوم کی مسلسل تعلیمی اور تبلیغی جد و جہد کا بڑا حصہ ہے۔ دارالعلوم کی طویل زندگی میں حوادث کے کتنے ہی طوفان الٹے او رحالات و سیاسیات میں کتنے ہی انقلاب آئے؛ مگر یہ ادارہ جن مقاصد کو لے کر عالمِ وجود میں آیا تھا، انتہائی استقلال اور ثابت قدمی کے ساتھ ان کی تکمیل میں سرگرم عمل رہا۔ فکر و خیال کے ان ہنگاموں اور فتنہٴ مغرب میں ڈوبی ہوئی تحریکوں کے دور میں اگر بالعموم مدارس عربیہ اور بالخصوص دارالعلوم جیسے ادارے کا وجود نہ ہوتا تو نہیں کہا جاسکتا کہ آج مسلمان جمود وبے حسی کے کس گردابِ عظیم میں پھنسے ہوئے ہوتے۔ ارشاد و تلقین، تبلیغ و تذکیر، تعلیم و تربیت اور اصلاحِ خلق کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں دارالعلوم کے فضلامصروفِ عمل نہ ہوں اور ملتِ اسلامیہ کی اصلاح و تربیت میں انھوں نے اہم کردار ادانہ کیا ہو، دعوت و ارشاد اور وعظ و تبلیغ کے بڑے بڑے جلسوں کی رونق اس وقت بر صغیر میں دارالعلوم ہی کے گرامی قدر علماء کے دم سے قائم ہے۔ بڑے بڑے مدارس اسلامیہ کی مسند تدریس کی زینت آج یہی اصحاب ہیں۔

                دارالعلوم دیوبند صرف ایک تعلیم گاہ ہی نہیں؛ بلکہ درحقیقت ایک مستقل تحریک اور تجدید دین کا مرکز ہے جس سے ہندو پاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ پورے ایشیا، مشرقی و جنوبی افریقہ اور یورپ و امریکہ کے کروڑہا کروڑ مسلمان وابستہ ہیں اور اسے اپنا علمی و فکری مرکز سمجھتے ہیں۔ الحمدللہ دارلعلوم دیوبند کا علمی و فکری فیض ایشیا سے گزر کر افریقہ، یورپ اور امریکہ تک پہنچ چکا ہے۔ان علاقوں میں دارالعلوم کے فیض یافتہ افراد دینی و علمی خدمات انجام دے رہے ہیں اور مرکزی شہروں میں دارالعلوم کے طرز پر اسلامی درس گاہیں کھل چکی ہیں۔

برصغیر میں احیائے اسلام کا مرکز

                دارالعلوم دیوبند نے برصغیر کے مسلمانوں کی دینی زندگی میں ان کو ایک ممتاز مقام پر پہنچانے کا بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، یہ نہ صرف ایک بین الاقوامی تعلیمی ادارہ ہے؛ بلکہ ذہنی نشو و نما، تہذیبی ارتقا اور ملّی حوصلہ مندیوں کا ایک ایسا مرکز بھی ہے جس کے صحیح علم، بلند کردار اور نیک نیتی پر مسلمانوں کو ہمیشہ بھروسہ اور فخر رہا ہے۔ جس طرح عربوں نے ایک زمانے میں یونانیوں کے علوم کو ضائع ہونے سے بچایا تھا ٹھیک اسی طرح دارالعلوم دیوبند نے اس زمانے میں علومِ اسلامیہ اور بالخصوص علم حدیث کی جو گراں قدر خدمت انجام دی ہے وہ اسلام کی علمی تاریخ میں ایک زریں کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان میں نہ صرف دینی علوم اور اسلامی قدروں کی بقا و تحفظ کے زبردست اسباب فراہم کیے ہیں؛ بلکہ اس نے تیرہویں صدی ہجری کے اواخر اور چودہویں صدی کی معاشرتی اور سیاسی زندگی پر بھی بہت دوررس اور نتیجہ خیز اثرات ڈالے ہیں۔

                ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد جب انگریزوں نے اپنے سیاسی مصالح کے پیش نظر اسلامی علوم و فنون کی قدیم درسگاہوں کو یکسر ختم کردیا تھا، اس وقت ضرورت تھی کہ نہ صرف اسلامی علوم و فنون اور اسلامی تہذیب کی بقا کے لیے؛ بلکہ مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے ایک تحریک شروع کی جائے جو مسلمانوں کو الحاد و بے دینی کے فتنہٴ عظیم سے محفوظ رکھ سکے۔ اس وقت اسلام کے تحفظ کی تمام ذمہ داری علمائے کرام کے کاندھوں پر تھی؛ کیوں کہ اسلامی حکومت کا شیرازہ بکھر چکا تھا ۔ خدا کا شکر ہے کہ علمائے کرام نے اپنا فرض انجام دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور مسلمانوں کی تمام توقعات دارالعلوم دیوبند کے ذریعہ بدرجہٴ اتم پوری ہوئیں۔

                دارالعلوم دیوبند سے جو افراد فارغ ہوئے انھوں نے تعلیم و تبلیغ، تزکیہٴ اخلاق، تصنیف و تالیف، فقہ و فتاویٰ، مناظرہ وخطابت ، صحافت و تذکیر اور حکمت و طب وغیرہ میں جو بیش بہا خدمات انجام دی ہیں، وہ کسی مخصوص خطے میں محدود نہیں ہیں؛ بلکہ ہندو پاک کے ہرہر خطہ کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی پھیل چکی ہیں۔ دارالعلوم نے اپنے یومِ قیام سے اب تک برصغیر کے کونے کونے اور دنیا بھر کے مرکزی اور بڑے شہروں میں اپنے فرزندانِ رشید کو پہنچادیا ہے جو پورے خطے میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمک رہے ہیں اور مخلوقِ خدا کو ظلمت و جہل سے نکال کر نورِ علم سے مالامال کررہے ہیں۔

                 دارالعلوم دیوبند نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے صحیح الفکر علماء و فضلاء پیدا کیے، وہیں مدارسِ اسلامیہ کے وسیع نظام کے ساتھ دین و اسلام کی اشاعت کا سامان بھی پیدا کیا۔ برصغیر کی پچھلی ڈیڑھ سو سالہ دینی و سماجی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی میں سب سے زیادہ مثبت اثر دارالعلوم کی تحریک سے پیدا ہوا ہے اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں سب سے زیادہ حصہ علمائے دیوبند کی علمی و دینی کوششوں کا ہے۔

عالمی دینی تعلیمی تحریک کا مرکز

                 ہندوستان میں برطانوی نظامِ تعلیم کے جاری ہونے کے بعد جب یہاں ایک نئی تہذیب اور نئے دور کا آغاز ہورہا تھا تو اس نازک وقت میں دارالعلوم کے اکابر نے دینی تعلیم اور مدارسِ اسلامیہ کے قیام کی تحریک شروع کردی، خدا کے فضل و کرم سے ان کی تحریک مسلمانوں میں مقبول ہوئی؛ چنانچہ برصغیر میں جگہ جگہ دینی مدارس جاری ہوگئے اور ایک وسیع جال کی شکل میں روز بروز وسعت پذیر رہے۔بہت ہی قلیل مدت میں دارالعلوم کی شہرت بامِ عروج کو پہنچ گئی اور بہت جلد دارالعلوم نہ صرف ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش؛ بلکہ افغانستان، وسط ایشیا، انڈونیشیا، ملیشیا، برما، تبت، سیلون اور مشرقی و جنوبی افریقہ، یورپ ، امریکہ و آسٹریلیا کے ممالک کے مسلمانوں کے لیے ایک بین الاقوامی دینی تعلیم کی تحریک کا مرکز بن گیا۔

                 اس وقت سے لے کر اب تک برصغیر کے طول و عرض میں بحمداللہ بے شمار دینی مدارس جاری ہوچکے ہیں، اور روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حتی کہ جو مدرسے دارالعلوم کے مزاج و مذاق سے ہٹے ہوئے ہیں یا دارالعلوم کے نصابِ تعلیم کی اتباع نہیں کرتے ہیں، ان کا نظام بھی دارالعلوم کے وضع کردہ بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج برصغیر میں جس قدر بھی دینی مدارس نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر وہی ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے نقشِ قدم پر یا اس کے قائم کردہ اثرات سے جاری ہوئے ہیں؛ اس طرح دارالعلوم دیوبند کا وجود اسلام کی جدید تاریخ میں ایک عہد آفریں حیثیت رکھتا ہے، اور یہیں سے اس وقت پورے برصغیر میں دینی تعلیم گاہوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ہندوستان میں موجود مدارس کا کوئی حتمی اعدا و شمار موجود نہیں؛ تاہم چھوٹے بڑے مدارس کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دس ہزار سے زائد ہے۔ یہ تعداد ان لاکھوں مکاتب کے علاوہ ہے جو تقریباً ہر مسجد اور مسلم محلہ میں قائم ہوتے ہیں۔

                ہندوستان کے علاوہ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے چپے چپے میں بھی اسی نہج پر ہزاروں مدرسے قائم ہیں، جن کے بڑے مدرسوں میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔پاکستان میں وفاق المدارس کے تحت دس ہزار کے قریب مدراس کا متحدہ پلیٹ فارم بھی قائم ہے جن میں اکثریت دیوبندی مدارس کی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی دینی مدارس ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ برصغیر کے قریب دیگر ملکوں جیسے مشرق میں برما، شمال میں نیپال، مغرب میں افغانستان و ایران اور جنوب میں سری لنکاوغیرہ میں بھی کافی مدارس دارالعلوم کے طرز پر قائم ہیں۔ ان مدارس سے ہزاروں علماء ہر سال فارغ ہوکر معاشرہ میں علم کی روشنی پھیلاتے ہیں۔ براعظم افریقہ کے جنوبی ملکوں خصوصاً ساؤتھ افریقہ میں دارالعلوم کے طرز کے سیکڑوں چھوٹے بڑے مدارس قائم ہیں۔ اسی طرح بر اعظم یورپ میں خصوصاً برطانیہ میں متعدد بڑے دارالعلوم اور مدارس قائم ہیں ۔ بحر انٹلانٹک کے اس پار ریاستہائے متحدہ امریکہ ، کناڈا اور ویسٹ انڈیز میں بھی دارالعلوم قائم ہوچکے ہیں اور دارالعلوم کے نہج پر علوم دینیہ کی تدریس و اشاعت میں مشغول ہیں۔ دوسری طرف مشرق میں آسٹریلیا،فیجی، نیوزی لینڈوغیرہ میں بھی الحمد للہ دارالعلوم دیوبند کے نہج پر مدارس قائم ہیں۔

دفاعِ اسلام کا مضبوط قلعہ

                دین اسلام کے بنیادی عقائد کی حفاظت ، اسلامی افکار و روایات کی پاسداری اور تمام فرقِ باطلہ اور افکارِ فاسدہ سے اسلام کا دفاع دارالعلوم دیوبند کے اکابر اور فضلاء کا طغرائے امتیاز رہا ہے۔ ہندوستان میں برطانوی استعمار کی نحوست سے مسلمانوں کو نت نئے فتنوں سے واسطہ پڑا، اسلام دشمن طاقتوں نے مسلمانوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے کے لیے باطل افکار و فرق کو خوب خوب پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ خود مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت زوالِ اقتدار کے ساتھ دینی و اخلاقی زوال سے دو چار تھیں ۔ مسلمانوں کے عقائد و افکار میں تزلزل اور اضطراب پیدا ہوچکا تھا۔ اس نازک دور میں جب مسلمان سیاسی جنگ ہار چکا تھا، ایک طرف عیسائیت پوری قوت کے ساتھ حملہ آور تھی، آریہ سماج اور ہندوؤں کی یلغار تھی، تو دوسری طرف خود مسلمانوں کی صفوں سے ایسے افراد اور جماعتیں جنم لے رہی تھیں جو مختلف زاویوں سے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں لگی تھیں۔

                دارالعلوم دیوبند اپنے روزِ قیام سے اب تک اسلام کے دفاع میں تمام فرقِ باطلہ و افکار فاسدہ کے خلاف سدِ سکندری کی طرح ڈٹا رہا اور حدیث مبارک: یَحْمِلُ ھَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلْفٍ عَدُوْلُہ یَنْفَوْنَ عَنْھُمْ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَ تَأوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ، طبرانی (ہر آئندہ نسل میں سے اس علم کے حامل ایسے عادل لوگ ہوتے رہیں گے جو اس سے غلو کرنے والوں کی تحریف، باطل پرستوں کے غلط انتساب اور جاہلوں کی تاویل کو دور کرتے رہیں گے) کے مطابق دینی عقائد و تعلیمات کا بھرپور دفاع کیا اور قرآن وحدیث اور صحابہ و سلف سے آنے والے متوارث دین کو اس کی اصلی حالت میں نئی نسلوں تک پہنچایا۔ علمائے دیوبند کو اس فرض کی انجام دہی میں مختلف محاذوں پر بیک وقت لڑنا پڑا۔

                عیسائیت کا مقابلہ: ہندوستان پر انگریزی تسلط کے بعد عیسائی مشنری برصغیر میں اس زعم سے داخل ہوئی کہ وہ ایک فاتح قوم ہیں، مفتوح قومیں فاتح قوم کی تہذیب کو آسانی سے قبول کرلیتی ہیں۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ مسلمانوں کے دل و دماغ سے اسلام کے تہذیبی نقوش مٹادیں یا کم از کم انھیں ہلکا کردیں؛ تاکہ بعد میں انھیں اپنے اندر ضم کیا جاسکے اور اگر وہ عیسائی نہ بن سکیں تو اتنا تو ہو کہ وہ مسلمان بھی نہ رہ جائیں۔اس محاذ پر دارالعلوم اور اکابرِ دیوبند نے عیسائی مشنری اور مسیحی مبلغین سے پوری علمی قوت سے ٹکر لی اورنہ صرف علم و استدلال سے ان کے حملے پسپا کردیے؛ بلکہ عیسائی تہذیب اور ان کے مذہبی ماخذ پر کھلی تنقید کی، اس سلسلے میں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی خدمات سے علمی دنیا اچھی طرح واقف ہے۔

                ہندو احیاء پرستی کا مقابلہ: غیر منقسم ہندوستان کی غالب اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جن کے آباء واجداد کسی زمانے میں ہندو تھے۔ انگریزوں نے سیاسی اقتدار پر تسلط جما لینے کے بعد یہاں کے ہندوؤں کو اکسایا کہ یہ مسلمان جو کسی زمانہ میں تمہاری ہی قوم کے ایک حصہ تھے؛ اس لیے اپنی عددی قوت کو بڑھانے کے لیے انھیں دوبارہ ہندو بنانے کی کوشش کرو؛ چناں چہ انگریزوں کی خفیہ سرپرستی میں ”آریہ سماج“ کے ذریعہ مسلمانوں کو مرتد کرنے کی تحریک پوری قوت سے شروع ہوگئی۔اسلام کے خلاف اس فکری محاذ پر حالات سے ادنیٰ مرعوبیت کے بغیر اکابر دارالعلوم نے اسلام کا کامیاب دفاع کیا۔ تقریر و تحریر، بحث و مناظرہ اور علمی و دینی اثر و نفوذ سے اس ارتدادی تحریک کو آگے بڑھنے سے روک دیا؛ بالخصوص علمائے دیوبند کے سرخیل اور قائد و امام حضرت حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اس سلسلے میں نہایت اہم و موٴثر خدمات انجام دیں، برصغیر کی مذہبی و سماجی تاریخ کا ہر معمولی طالب علم حضرت موصوف کی ان خدماتِ جلیلہ سے پوری طرح واقف ہے۔تقسیمِ ہند کے قیامت خیز حالات میں جب کہ برصغیر کا اکثر حصہ خون کے دریا میں ڈوب گیا تھا، اس ہولناک دور میں بھی شدھی و سنگٹھن کے نام سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی ایمان سوز تحریک برپا کی گئی۔ اس موقع پر بھی علمائے دیوبند وقت کے خونی منظر سے بے پروا ہوکر میدان میں کودپڑے اور خدائے رب العزت کی مدد و نصرت سے ارتداد کے اس سیلاب سے مسلمانوں کو بحفاظت نکال لے گئے۔

                قادیانیت کا مقابلہ: الحمدللہ علمائے دیوبند کو یہ فخر حاصل ہے کہ جب ختمِ نبوت کے اس عظیم بنیادی عقیدہ پر یلغار کی گئی اور انگریز کی خانہ ساز نبوت مسلمانوں کوارتداد کی دعوت دینے لگی تو علمائے دیوبند سب سے پہلے پوری قوت کے ساتھ میدان میں آئے اور مسلمانوں کو اس ارتدادی فتنہ سے خبردار کیا۔ اکابر دارالعلوم اور اساطین علمائے دیوبند میدان میں نکلے اور اپنی گراں قدر علمی تصانیف، موثر تقاریر اور لاجواب مناظروں سے انگریزی نبوت کے دجل و فریب کا اس طرح پردہ چاک کیا اور ہر محاذ پر ایسا کامیاب تعاقب کیا کہ اسے اپنے مولد منشاء لندن میں محصور ہوجانا پڑا۔ علمائے دیوبند کے علمی و فکری مرکز دارالعلوم دیوبندکی زیر نگرانی حریمِ ختم نبوت کی پاسبانی کی یہ مبارک خدمت پوری توانائیوں کے ساتھ آج بھی جاری و ساری ہے۔

                شیعیت کا مقابلہ: دارالعلوم ایک ایسے وقت میں قائم ہوا؛ جب کہ انگریزوں نے لکھنوٴ کی شیعی حکومت کا ۱۸۵۷ء میں الحاق کرکے اس کا وجود مٹادیا تھا؛ لیکن اودھ کی شیعی حکومت اورسلطنتِ مغلیہ میں ان کے گہرے اثرات کی وجہ ان کے مذہبی عقائد کی چھاپ پورے ہندوستان پر پڑ گئی تھی۔ پورے ہندوستان میں شیعی عقائد اور ان کے مشرکانہ رسوم غیر شیعہ مسلمانوں کے دل و دماغ میں اس قدر رچ بس گئے تھے کہ اگر ان کو صحیح طور پر کلمہٴ شہادت بھی ادا کرنا نہ آتا ہو؛ مگر وہ تعزیہ داری اور اس کے ساتھ عقیدت مندی کا والہانہ جذبہ سینوں میں موج زن رکھتے تھے اور اس کو اپنے مسلمان ہونے کی سند سمجھتے تھے۔ حیرت ناک بات یہ تھی کہ شیعہ اتنے بڑے ملک میں سنیوں کے مقابل میں مٹھی بھر تھے؛ لیکن کروڑوں اہل السنة والجماعة مسلمانوں کے دلوں میں شیعوں نے اپنے سارے عقائد و مراسم، جذبات و خیالات کی چھاپ ڈال دی تھی اور پورے ہندوستان کو شیعیت کے رنگ میں رنگ دیا تھا۔ علمائے دیوبند کا یہ قابلِ فخر کارنامہ ہے کہ انھوں نے برصغیر کو شیعوں کے ہمہ گیر اثرات سے پاک کیا اور اہل السنة والجماعة کے عقائد و افکار کی حفاظت و اشاعت کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ علمائے دیوبند نے کتابوں، فتاوی اور بیانات کے ذریعہ امتِ مسلمہ کی بھر پور رہ نمائی فرمائی۔

                شرک و بدعت کا مقابلہ: یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام جب ہندوستان پہنچا تو یہاں کی قدیم تہذیب و تمدن، رسم و رواج، طور و طریق، ذہن و مزاج اور مذہبی تعلیمات و روایات پر اس نے زبردست اثر ڈالا؛ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ہندو تہذیب نے بھی مسلم تہذیب کو کم متاثر نہیں کیا ہے۔ یہ اثرات مسلم سماج میں اس طرح پیوست ہوکر رہ گئے کہ آج یہ احساس بھی مٹ گیا کہ یہ رسم و رواج اور طور و طریق اسلامی معاشرہ میں غیر مسلموں سے آئے ہیں۔ یہی نہیں؛بلکہ علمائے سو نے دنیا کمانے کے لیے شرک و بدعت کی تائید میں سامنے آگئے اور انھوں نے مستقل فرقہ کی شکل اختیار کرلی۔ علمائے دیوبند نے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فرض پوری دیانت داری سے ادا کرتے ہوئے پورے ملک میں اہلِ بدعت کا مقابلہ کیا، ان سے مناظرے کیے اور عوام پر حق واضح کیا۔اس سلسلہ میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری، حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ نے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں اور ان کے اخلاف کے ذریعہ اصلاحِ عقائد و اعمال کا یہ مبارک سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

                غیر مقلدیت کا مقابلہ: تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان کی تقریباً تمام اہم مسلم حکومتوں نے مذہبِ حنفی کا اتباع کیا اور فقہِ حنفی ہی تمام قوانین و ضوابط کی بنیاد بنا رہا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی غالب اکثریت مذہبِ حنفی کی پابند تھی۔ پوری مسلم تاریخ میں تقلید سے انحراف، اسلامی روایات سے بغاوت اور سلفِ صالحین سے نفرت و کدورت کا کوئی قابلِ ذکر ثبوت نہیں ملتا؛ لیکن آخری زمانے میں جب سلطنتِ مغلیہ رو بہ زوال تھی اور ہندوستان میں انگریزوں کے ناپاک قدم پڑ چکے تھے، اس وقت نت نئی جماعتوں نے جنم لینا شروع کیا۔ عدمِ تقلید کا فتنہ بھی اسی تاریک زمانے کی پیداوار تھا ۔ اس فرقہ نے بالکل خارجیوں جیسا طریقہٴ کار اپناکر نصوص فہمی کے سلسلہ میں سلفِ صالحین کے مسلَّمہ علمی منہاج کو پسِ پشت ڈال کر اپنے علم و فہم کو حق کا معیار قرار دے کر اجتہادی مختلف فیہ مسائل کو حق و باطل اور ہدایت و ضلالت کے درجہ میں پہنچادیا، اور فرد و طبقہ جو اُن کی اس غلط فکر سے ہم آہنگ نہیں تھا، اس کو وہ ہدایت سے عاری، مبتدع، ضال و مضل، فرقہٴ ناجیہ؛ بلکہ دینِ اسلام سے ہی خارج قرار دے دیا۔علمائے دیوبند نے عمل بالحدیث کے نام سے اباحیت، ذہنی آزاد ی اور ہویٰ پرستی کے اس فتنہ کا بھرپور مقابلہ کیا اور غیر مقلدین کے ذریعہ اٹھائے گئے مسائل پر ان حضرات نے عظیم الشان تحقیقی مواد یکجا کردیا۔پچھلی دہائیوں میں عالم عرب خصوصاً سعودی عرب میں تیل کی دولت کے ظہور کے بعد جب اس فتنے نے دوبارہ نہایت شد و مد کے ساتھ بال و پر نکالنے شروع کیے اور عرب کی سلفی و وہابی تحریک سے ہم آہنگ ہو کر اور وہاں سے مالی امداد پا کر ہندوستان میں دوبارہ افتراق بین الامت کی کوششیں شروع کیں تو پھر علمائے دیوبند میدان میں آگئے اور انھوں نے علم و تحقیق کی سطح پر غیر مقلدین کی ہفوات کا جواب دینے کے ساتھ پورے ملک میں جلسوں اور کانفرنسوں کے ذریعہ عوام کو اس فتنہ سے باخبر کیا۔

                نیچریت اور غیر اسلامی افکار و خیالات کا مقابلہ: اٹھارہویں صدی میں یورپ سے اٹھنے والے اقتصادی اور سائنسی انقلاب میں جہاں سماجی و سیاسی اور تجارتی و اقتصادی سطح پر بہت ساری مثبت تبدیلیاں وجود میں ا ٓئیں، وہیں مذہبی دنیا میں اس نے کہرام بپا کر دیا۔ یورپ کا سائنسی انقلاب در اصل مذہب یعنی عیسائیت سے بغاوت ہی کے بعد وجود میں آیا تھا؛ کیوں کہ عیسائیت علم و سائنس کی ترقیات کے راستے میں رکاوٹ تھی۔ یورپ کے مذہب بیزار انقلابیوں نے بالآخر مذہب کو فعال اور معاشرتی زندگی سے نکال کر، اسے چرچوں اور انفرادی زندگیوں تک محدود کردیا۔ مذہب کو ناکارہ، فرسودہ اور از کاررفتہ سمجھ کر زندگی کے ہر گوشے کو سیکولزم (لامذہبیت یا مذہب بیزاری) اور تعقل کے پہلو سے دیکھنے اور پرکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مسلمانوں میں پیدا ہونے والے اس عقل پرست نے جہاں ایک طرف جدید معتزلہ اور نیچری پیدا کیے، وہیں اسی فکر کے پیٹ سے انکار حدیث کے فتنہ نے جنم لیا۔ اخیر زمانے میں تجدید پسندی اور مودودیت بھی اسی فکر کا شاخسانہ تھے۔ علمائے دیوبند نے مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت اور اسلامی حدود کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے ان باطل افکار و خیالات سے بھی ٹکر لی۔ انھوں نے دین کے صحیح فہم، اسلامی اصطلاحات و روایات کی سلیم تعبیر اور ہر دور میں اسلامی تعلیمات کی ابدی حقانیت و معنویت کو ثابت کیا۔

                ان تمام تحریکات کے علاوہ جب بھی کسی فرد یا جماعت نے ما أنا علیہ واصحابی کے جادہٴ مستقیم سے انحراف کیا اور ملتِ اسلامیہ کے اندر غلط افکار و نظریات کے سرایت کر جانے کا اندیشہ ہوا تو دارالعلوم کی جانب سے ہمیشہ ان پر نکیر کی گئی۔ غلط عقائد کا سدِ باب کیا گیا اور اس کی جگہ صحیح و متوارث اسلام پیش کرنے کی خدمات انجام دی گئیں۔ علمائے دیوبند کی انھیں مبارک کوششوں سے الحمد للہ! آج ہندوستان میں دینِ اسلام اپنی پوری صحیح شکل میں نہ صرف موجود ہے؛ بلکہ مدارسِ اسلامیہ، جماعتِ تبلیغ اور دینی اداروں کی برکت سے آج ہندوستان عالم اسلام کے اندر مستند دینی تعلیمات اور صحیح اسلامی روایات کے تحفظ و اشاعت میں سب سے ممتاز نظر آتا ہے۔

مرکزِ تجدید و احیائے دین

                انیسویں صدی کے استعماری دور میں اکابرِ دیوبند نے اپنی علمی و دینی بصیرت سے اس حقیقت کا پورا ادراک کرلیا کہ سماجی و اقتصادی تبدیلیاں جب اقتدار کے زیر سایہ پروان چڑھتی ہیں تو دینی و روحانی قدروں کی زمین بھی ہل جاتی ہے، اس باب میں عثمانی ترکوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ترک قوم مغربی تہذیب کے طوفان میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکی اور مصطفی کمال کی قیادت میں اپنے ماضی سے کٹ گئی جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ ترک اسلامی تہذیب، مغربیت میں فنا ہوگئی اور ایک عظیم اسلامی سلطنت کا صفحہٴ ہستی سے وجود ختم ہوگیا۔الغرض! تہذیبِ اسلام کے لیے یہ نہایت نازک وقت تھا۔ تاریخ کے اس انتہائی خطرناک موڑ پر اکابرِ دیوبند کے سامنے وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ اسلامی تہذیب کو مغربیت کے اس سیلاب سے محفوظ رکھا جائے اور مسلمانوں کے دین و مذہب کا تحفظ کرکے انھیں ارتداد سے بچایا جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے پوری بیدار مغزی و ژرف نگاہی سے ہر اس محاذ کو متعین کیا، جہاں سے مسلمانوں پر فکری و عملی یلغار ہوسکتی تھی اور پھر اپنی بساط کی حد تک حکمت و تدبر کے ساتھ ہر محاذ پر دفاعی خدمات انجام دیں۔

                اپنی ایک ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں دارالعلوم نے ہندوستانی مسلمانوں کو جہاں ایک طرف سماجی زندگی کا ترقی یافتہ شعور دیا ہے، تو دوسری طرف انھیں فکر و عمل کا توازن بخشا ہے، آج مسلمانوں کا جو طبقہ اسلامی نظریات کی معقول تعبیر ، اسلامی افکارکی اطمینان بخش توجیہ اور صحیح اسلامی زندگی اختیار کیے ہوئے ہے، وہ دارالعلوم کی زائد از سوسالہ علمی و عملی جد و جہد کا نتیجہ ہے۔عام روایات کے برخلاف یہاں کا مذہبی رجحان کبھی رجعت پسند نہیں رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دارالعلوم ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو قدیم و جدید کے حسین سنگم پر قائم ہے اور جس کی اپنی شان دار روایت اس کے تابناک ماضی کی نقیب اور اس کے عظیم مستقبل کی پیامبر ہے۔

                حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی نے دارالعلوم دیوبند کی ہمہ جہت خدمات کو ’تجدیدِ دین‘ کا عنوان دیتے ہوئے لکھا : ”تجدید و احیائے دین کی جو تحریک گیارہویں صدی سے ہندوستان کو منتقل ہوئی تھی اور اپنے اپنے دور میں مجدد الفِ ثانی، (شاہ ولی اللہ )محدث دہلوی اور شہید بالا کوٹ (سید احمد شہید) جس امانت کے حامل تھے، دارالعلوم دیوبند اسی وراثت وامانت کا حامل تھا۔ لوگ دارالعلوم کو مختلف زاویہ سے دیکھتے ہیں؛ کوئی اسے علومِ اسلامیہ کی یونیورسٹی سمجھتا ہے، کوئی اسے جہادِ حریت کے مجاہدین کی تربیت گاہ قرار دیتا ہے، کوئی اسے دعوت و عزیمت اور سلوک و تصوف کا مرکز سمجھتا ہے؛ لیکن میں حضرت حاجی امداد اللہ صاحب کے لفظوں میں اس کو ”بقائے اسلام اور تحفظ دین کا ذریعہ“ سمجھتا ہوں۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجددینِ امت کا جو سلسلہ چلا آرہا تھا، دارالعلوم دیوبند اپنے دور کے لیے مجددینِ امت کی تربیت گاہ تھی۔ یہیں سے مجددِ اسلام حکیم الامت حضرت تھانوی نکلے۔ اسی سے دعوت و تبلیغ کی تجدیدی تحریک ابھری جس کی شاخیں چار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہیں سے تحریکِ حریت کے داعی تیار ہوئے، یہیں سے فرقِ باطلہ کا توڑ کیا گیا۔ یہیں سے محدثین، مفسرین، فقہاء اور متکلمین کی کھیپ تیار ہوئی۔ مختصر یہ کہ دارالعلوم دیوبند نے نہ صرف یہ کہ نابغہٴ روزگار شخصیات تیار کیں؛ بلکہ اسلام کی ہمہ پہلو تجدید و احیائے کے لیے عظیم الشان اداروں کو جنم دیا۔ اس لیے دارالعلوم دیوبند کو اگر تجدید و احیائے دین کی یونیورسٹی کا نام دیا جائے تو یہ اس کی خدمات کا صحیح عنوان ہو گا۔ (ماہنامہ الرشید ساہیوال پاکستان ، دارالعلوم دیوبند نمبر ، 1976، ص 667 )

$ $ $

———————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7‏، جلد: 98 ‏، رمضان المبارك 1435 ہجری مطابق جولائی 2014ء

Related Posts