عالمِ عربی کے معروف عالم شیخ البانیؒ شیخ شعیب ارنوٴوط کی نظر میں

از:مولانا محمد یاسر عبداللہ

شیخ ناصر الدین البانیؒ(۱۳۳۲ھ-۱۹۱۴ء/۱۴۲۰ھ-۱۹۹۹ء)گزشتہ صدی میں عرب دنیا کے معروف عالم گزرے ہیں۔ابتدائے عمر میں ہی ان کا خاندان البانیہ سے ہجرت کر کے شامی شہردِمشق میں آ بسا اور وہیں شیخ کی علمی نشوونما ہوئی، بعد میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منوّرہ اور دیگر تعلیمی اداروں کی رونق بنے۔ ان کا اختصاصی فن ”علمِ حدیث“ تھا،آغازِشباب میں ہی اس علم سے رشتہ جوڑا اورپھرتادمِ آخراسی کے ہو رہے،اکثر علمی کاوشیں اسی علم کی خوشہ چینی کا ثمرہ ہیں۔ اپنی بعض منفرد تحقیقات کی بنا پر معاصر اہلِ علم کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں(۱)، انہی ناقدین میں سے ایک عصرِحاضر کے معروف محقق شیخ شعیب ارنوٴوط بھی ہیں، جو خود بھی البانوی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا خاندان بھی شام کی طرف ہجرت کر کے یہیں بس گیا تھا۔ شیخ البانی کے ساتھ ان کے خاندانی تعلقات استوار رہے ہیں، کچھ عرصہ قبل شیخ ارنوٴوط کے ایک شاگرد شیخ ابراہیم زیبق نے ان کے حالات اور علمی خدمات پر ایک کتاب ترتیب دی تھی،جو ”المحدّث العلّامة الشیخ شعیب الارنوٴوط، سیرتہ فی طلب العلم وجھودہ فی تحقیق التراث“ کے نام سے عالم عرب کے معروف اشاعتی ادارے”دار البشائر الإسلامیّة، بیروت“ سے شائع ہوکر منظرِعام پرآچکی ہے، اس کتاب کے ایک حصے میں شیخ البانی کی تحقیقات کے متعلق ان کی بعض تنقیدی آرا کا تذکرہ ہے۔ علمی دنیا میں اختلاف کوئی اَنہونی چیز نہیں،” آدابِ اختلاف“ کی رعایت رکھتے ہوئے متانت کے ساتھ شائستہ لب و لہجے اور سنجیدہ اسلوب میں اپنی آرا کا اظہار، معتدل مزاج اہلِ علم کا امتیاز ی خاصہ رہا ہے۔شیخ ارنوٴوط کی یہ تحریر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے، چونکہ شیخ بذات خود ایک نام وَر محقق ہیں، شیخ البانی سے ان کے خاندانی مراسم رہے ہیں، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کام کرنے کے مواقع انھیں حاصل رہے ہیں اور ان کی کتب و تحقیقات پربھی وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں؛اس لیے تحریر کے مندرجات سے کلی اتفاق نہ ہونے کے باوجود ان کا یہ علمی نقدوتبصرہ، فائدے سے خالی نہ ہوگا۔اسی نقطئہ نظر کے تحت کتاب کے اس حصے کو اردو ترجمانی کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا جا رہا ہے۔ (مرتب)

شیخ البانیؒ کا امتیازی کارنامہ

مجھے اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تردّد نہیں کہ شیخ ناصرالدین البانی کو بیک وقت اپنے موافق ومخالف دونوں طبقوں میں علمِ حدیث کے مطالعے اور اس میں مزید تحقیق وجستجو کا شوق ورغبت پیدا کرنے کا شرف حاصل ہے۔ کہاجاسکتا ہے کہ(ماضی قریب میں) انھیں کے دم قدم سے مصر وشام میں حدیثی مشاغل کو دوبارہ توانائی نصیب ہوئی ہے۔ اس کارنامے پراللہ تعالیٰ ان کو مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے اوراس کا اجروثواب ان کے نامہٴ اعمال میں محفوظ فرمائے؛ لیکن وہ اس میدان کے پہلے شہسوار نہیں تھے، ان سے قبل مصر میں شیخ محمد رشید رضا، شیخ احمد شاکر اور ان جیسے دیگر ازہری علما اور شام میں شیخ جمال الدین قاسمی اور شیخ محمد بہجة البیطار جیسے (محدثین) گزر چکے ہیں، بنابریں انھیں ترکِ تقلید ورجوع الی السنة کا داعیِ اول نہیں قرار دیا جاسکتا؛ لیکن انھوں نے اپنے ان پیش رؤوں کے سنجیدہ واطمینان بخش اسلوب سے استفادہ نہیں کیا؛بلکہ مخالفین کے ساتھ اشتعال انگیز انداز اپنایا، گویا (اس طرزِعمل سے)وہ انھیں قائل کرنے کی بجائے شکست دینا چاہتے تھے، نتیجتاً (مسلمانوں کے)دو طبقوں کے درمیان ایسی معرکہ آرائی ہوئی کہ جس میں علمی مباحثہ ومناقشہ کی بجائے سب وشتم تک نوبت جا پہنچی۔
مجھے اس بات سے بھی انکار نہیں کہ شیخ کتاب وسنت کے داعی تھے جو بلاشبہ خوش آئند راہ ہے؛ لیکن در حقیقت وہ اپنی تحقیق کی روشنی میں صحیح قرار پانے والی احادیث وسنن کی طرف دعوت دیتے تھے، ان کی چاہت تھی کہ ان کی تصحیح کو ائمہٴ متبوعین کے اجتہاد کے برابر کا درجہ حاصل ہو اور متنازع مسائل میں انہی کی رائے ”قولِ فیصل“ قرار پائے؛ لیکن یہ مقام نہ انھیں حاصل ہوا اورنہ ان کے علاوہ کسی کے حصے میں آیا؛ اس لیے کہ (ائمہ فقہاء کا) یہ اختلافِ محمود اللہ تعالیٰ کاپسندفرمودہ ہے اوراسی کے پیدا کردہ اسباب کے تحت وجود میں آیا ہے۔
(غور کیجیے کہ)صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو محض بارگاہِ رسالت ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے علم حاصل کرنے والے تھے؛ لیکن اس کے باوجود بعض مسائل میں ان کے درمیان بھی اختلاف ہوا ہے۔ نیزاختلافی مسائل میں سے جس مسئلے میں بھی ائمہ نے نصوص کی بنیاد پر کوئی قول اختیار کیا ہے، اس کی نظیرصحابہ وتابعین میں ملتی ہے۔ فقہی مسائل میں اختلاف کا آغاز عہدِ صحابہ میں ہی ہوچکا تھا اور یہ عین منشأ خداوندی کی تکمیل تھی، اسی کا ثمرہ ہے کہ ہماری اسلامی تہذیب میں تنوع اور فہم کے دائروں میں وسعت دکھائی دیتی ہے، جس میں فکری واختراعی مقابلے کے لیے کھلا میدان مہیا ہے۔ اگر علمی اختلافات نہ ہوتے تو یہ عظیم تالیفات منظرِعام پر نہ آتیں، جن کی بدولت دورِتدوین سے آج تک ہمارے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔
علمِ حدیث اور شیخ البانی
شیخ ناصر الدین کا امتیازی فن ”علمِ حدیث“ ہے، اس علم کے مطالعہ وتحقیق میں شیخ نے اپنی زندگی کی طویل مدت تقریباً ساٹھ برس صرف کیے ہیں؛ البتہ شیخ کو اس فن میں دیگر محدثین کا سا مقام ہی حاصل ہے، یعنی ان سے بھی خطا وصواب دونوں کا صدو ر ہوا ہے۔
”نقدِ متن“ کی طرف عدمِ التفات
مجھے شیخ کی اس بات سے بے حد تعجب ہے کہ انھوں نے”علمُ مصطلحِ الحدیث“ میں ضرور پڑھاہوگا کہ ”حدیثِ صحیح وہ ہے کہ جس کی سند راوی سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو اور وہ روایت‘ علت یا شذوذ سے خالی ہو“؛لیکن افسوس یہ ہے کہ احادیث پر حکم لگانے کے سلسلے میں انھوں نے ”شذوذ“ اور” علت “کی طرف توجہ کی، نہ متنِ حدیث پر نقد کرتے ہوئے ان سے اعتناکیا، لہٰذا ان کے ہاں اسناد ”صحیح“ ہو تو حدیث بھی ”صحیح“ قرار پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایسی بہت سی احادیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے، جن کے متون پر علماء کوکلام ہے،مثلاً:
۱-”مشکٰوة المصابیح“ (۲)اور”صحیح الجامع الصغیر“(۳)کی روایت ہے: ”الوائدةُ والموؤدةُ فی النار“۔ (بچی کوزندہ گاڑنے والی عورت اورجس کو گاڑاگیا ہو دونوں دوزخ میں ہیں)شیخ البانی نے اس روایت کو ”صحیح“ کہا ہے؛حالانکہ یہ حدیث، قرآنی آیت ”وَإِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ“(۴)(اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جاوے گا)کے صراحتاً خلاف ہے، اگرچہ شیخ نے اس کی د ل نہ لگتی توجیہ وتاویل پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
۲- ”سلسلة الأحادیث الصحیحة“ (۵)میں شیخ نے درجِ ذیل روایت کو”صحیح“ قرار دیا ہے: ”إن اللہ خلق التربةَ یومَ السبت“ (اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہفتہ کے دن پیدا کیا ہے) اس روایت کو امام مسلمنے بھی ”صحیح مسلم“ (۶)میں اسی طرح نقل کیا ہے؛ لیکن یہ حدیث‘ قرآنِ کریم کے متعارض ہے۔نیز سند میں اسماعیل بن امیہ کی وجہ سے اس کو ”معلول“ بھی کہا گیا ہے؛ اس لیے کہ اسماعیل نے اس کو درجِ ذیل سند کے ساتھ روایت کیا ہے: ”إسماعیل، عن أیوب بن خالد، عن عبد اللہ بن رافع – مولٰی أم سلمة – عن أبی ھریرة مرفوعاً “۔
اسماعیل ہی نے اس روایت کو ”عن إبراھیم بن أبی یحیی، عن أیوب بن خالد“ کے طریق سے بھی نقل کیا ہے اور چونکہ ابراہیم ”متروک“ ہیں؛اس لیے اسماعیل نے ان کو سند سے ساقط کردیا۔ امام بخارینے بھی ”التاریخ الکبیر“(۷)میں اسماعیل بن امیہ ہی سے یہ روایت نقل کی ہے، امام موصوف نے بعض محدثین کا قول نقل کیا ہے کہ:”عن أبی ھریرة عن کعب“،اصح ہے“، یعنی یہ روایت کعبِ احبار کی اسرائیلیات میں سے ہے؛لیکن شیخ ناصر الدیننے امام بخاریپر رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:”یہ بعض کون ہیں؟ اور حفظ وضبط کے اعتبار سے ان کا کیا مقام ہے؛ تاکہ اس روایت کو عبد اللہ بن رافع کی روایت پر ترجیح دی جاسکے؟“۔ آگے لکھتے ہیں کہ: ”یہ حدیث‘قرآنِ کریم کے خلاف نہیں ، جیساکہ بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے“۔ لیکن عدمِ مخالفت پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔
۳-”سلسلة الأحادیث الصحیحة“ (۸)میں درج ذیل روایت کو شیخ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے: ”أمتی أمةٌ مرحومةٌ، لیس علیھا عذابٌ فی الآخرة، وإنما عذابھا فی الدنیا“۔(میری امّت پر خداکی خاص رحمت ہے،اس کے لیے آخرت میں کوئی عذاب نہیں،اس کا عذاب دنیا میں ہی ہے) اور تصحیح کی علت بیان کرنے کی کوشش یوں کرتے ہیں کہ ”امت سے مراد امت کی اکثریت ہے؛ اس لیے کہ یہ بات تو قطعی ہے کہ بعض لوگ گناہوں سے پاکی حاصل کرنے کے لیے جہنم میں داخل ہوں گے“۔ ہم نے”مسند احمد“ (۹)کی تعلیق میں اس حدیث کوضعیف قرار دیا ہے،اور فنِ حدیث کے ماہر‘ امام بخارینے بھی ”التاریخ الکبیر“(۱۰)میں اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے؛ اس لیے کہ انھوں نے اس حدیث کے طرق اور ان میں اضطراب بیان کرنے کے بعد لکھا ہے: ”والخبرُ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الشفاعةِ، وأنَّ قومًا یُعَذَّبون ثم یُخْرَجون أکثرَ وأبینَ وأشھرَ“۔ یعنی ”شفاعت اورکچھ لوگوں کو عذاب دے کر جہنم سے نکالے جانے کے متعلق بہت سی احادیث ہیں،جو زیادہ واضح اور مشہور ہیں“۔
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخارینے سند کا اضطراب بیان کرنے کے ساتھ متن پر بھی نقد کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ روایت ان صحیح احادیث کے خلاف ہے جو(کثرت کی بنا پر) تواتر کے قریب ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ”امتِ محمدیہ کے کچھ لوگ ابتداءً جہنم میں داخل ہوں گے اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے نکالے جائیں گے“۔
بہر کیف شیخ ناصر الدین”نقدِ متن“ کی طرف چنداں توجہ نہیں کرتے تھے(۱۱)، ان کا دعویٰ تھا کہ متقدمین نے ”نقدِ متن“ کے لیے کوئی منہج متعین نہیں کیا اور نہ ہی ا س کے طے شدہ ضوابط ہیں؛ حالانکہ یہ ایک کمزور نقطئہ نظر ہے، ہمارے اس موقف کی دلیل کے طور پر شیخ کی کتاب ”الإجابة فیما استدرکتہ عائشة علی الصحابة “کافی ہے، جس کا موضوع ”نقدِ متون“ ہی ہے۔
”شذوذ “ اور ”زیادتِ ثقہ“ میں عدمِ تفریق
میرے نزدیک ایک اور قابلِ گرفت بات یہ ہے کہ شیخ ”لفظِ شاذ“ اور ”زیادتِ ثقہ“ کے درمیان فرق نہیں کرتے، اس مسئلے میں ان کا حال متاخر محدثین جیساہے؛ حالانکہ ”شذوذ“ اور ”زیادتِ ثقہ“ دونوں واضح اصطلاحات ہیں اور (محدثین کے ہاں) معروف ہے کہ ”لفظِ شاذ وہ ہے جس کو کسی شیخ کا ایک راوی اکیلا اپنے شیخ سے روایت کرے؛ جبکہ دیگر شاگرد اس کو نقل نہ کرتے ہوں“۔ اب اس راوی سے کہا جائے گا کہ آپ یہ لفظ کہاں سے لائے، جس کو ایک بڑی جماعت آپ کے شیخ سے روایت نہیں کرتی؟
ائمہٴ متقدمین، امامِ متقِن کی ”زیادتِ ثقہ“ کو قبول کرتے تھے ،نیز ”زیادتِ ثقہ“ اور ”شذوذ“ کے درمیان فرق کے قائل تھے۔اس سلسلے میں مجھے حضرت وائل بن حجرکی حدیث یاد آرہی ہے،جو بحالتِ تشہد انگشتِ شہادت کو حرکت دینے کے متعلق ہے،اس روایت میں عاصم بن کلیب سے صرف ایک راوی زائدہ بن قدامہ نے ”یحرّکھا“ کا لفظ نقل کیا ہے، عاصم کے باقی شاگرد: عبدالواحد بن زیاد، شعبہ، سفیان ثوری، زہیر بن معاویہ، سفیان بن عیینہ، سلام بن سلیم ابو احوص، بشر بن مفضل، عبد اللہ بن ادریس،قیس بن ربیع، ابوعوانہ اور خالد بن عبد اللہ واسطی ”یحرّکھا“ کی بجائے ”یشیربھا “کے الفاظ نقل کرتے ہیں، میں نے ”مسند احمد“ کی تعلیق میں ان تمام طرق کی تخریج کی ہے(۱۲)۔
شیخ ناصر نے ”سلسلة الأحادیث الصحیحة“ (۱۳)میں لفظِ ”یحرّکھا“ کو ”صحیح“ قرار دینے کی علت یہ بیان کی ہے کہ: ”لفظِ اشارہ‘ تحریک کے منافی نہیں ، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اشارہ کے الفاظ ”تحریک“ کے متعلق صریح نہ ہوں گے؛ لیکن منافی بھی نہیں“۔
کیا متقدمین علمائے حدیث کے منہج کے موافق اس شاذ لفظ کو ”صحیح“قرار دینے کے لیے یہ تعلیق کافی ہے؟
اپنے مذہب کی موٴیّد روایات کی تصحیح اور ائمہٴ مجتہدین پر بے جا تنقید
بعض اوقات شیخ ایسی احادیث کی بھی تصحیح کرجاتے ہیں، جو ان کے مذاہب کے موافق ہوں، اگرچہ ان کا کوئی قوی شاہد موجود نہ ہو۔ اس سلسلے میں مجھے حضرت عدی بن حاتمکی حدیث یاد آئی کہ: ”جب انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت ِ مبارکہ تلاوت کرتے ہوئے سنا:”اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ“(۱۴) (انھوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنارکھا ہے) تو حضرت عدینے عرض کیا: ہم تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”ہاں وہ لوگ بھی اپنے علماء کی عبادت نہیں کرتے تھے؛ لیکن جب علمائے یہود ونصاریٰ ان لوگوں کے لیے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ اسے حلال سمجھتے تھے اور جب ان پر کسی چیز کو حرام کردیتے تو وہ اسے حرام سمجھتے تھے، یہی ان کی عبادت کرنا ہے“۔
اس حدیث کو امام ترمذینے ”جامع الترمذی“(۱۵) میں ضعیف کہا ہے اور اس کا کوئی قوی شاہد بھی نہیں ہے، اس کے باوجود شیخ ناصر نے اپنی کتاب ”صحیح الترمذی“(۱۶) میں اس کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔اور ”سلسلة الأحادیث الصحیحة“ (۱۷) میں تفسیر”روح المعانی“(۱۸) کے حوالے سے علامہ آلوسی کا قول نقل کیا ہے:
”والآیةُ نَاعِیَةٌ عَلیٰ کثیرٍ مِنَ الفِرَقِ الضَّالَّةِ الذینَ ترکوا کتابَ اللہ وسنةَ نبیہ – علیہ الصلاة والسلام – لِکلامِ علمائِھِمْ ورؤسائِھِمْ، والحقُّ أحقُّ بِالاتباعِ، فمتیٰ ظَھَرَ وَجَبَ علی المسلمِ اتباعُہ، وإن أخطأ اجتھادَ مقلدِہ“۔
”اس آیت میں ان گمراہ فرقوں کو مطعون کیا گیا ہے،جنہوں اپنے علماوروٴسا کی باتوں کی بنا پرخدا کی کتاب اور نبی کی سنّت سے روگردانی اختیار کر لی تھی؛حالانکہ حق اتباع کا زیادہ حقدار ہے،لہٰذا جب حق ظاہر ہو جائے تو مسلمان پراس کی اتباع واجب ہے،اگرچہ اپنے امامِ مقلَّد کو غلط قرار دینا پڑے۔“
شیخ ناصر مندرجہ بالاحدیث سے استشہاد کرتے ہوئے ائمہٴ متبوعین پر نکتہ چینی کرتے تھے، اس موضوع پر میری ان سے گفتگوبھی ہوچکی ہے، میں نے ان سے کہا تھاکہ خدا کو چھوڑکرعلماء ومشائخ کو رب بنانے اور ائمہٴ مجتہدین (کی تقلید) میں بڑا فرق ہے؛ اس لیے کہ علمائے یہود ونصاریٰ تو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو ان لوگوں کے لیے حلال قرار دیتے تھے؛ جبکہ یہ ائمہ اپنے اجتہادات میں کتاب وسنت پر اعتماد کرتے تھے، لہٰذا (مشہور حدیث ِمبارکہ کی بنا پر) جس کا اجتہاد درست ہو تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور جس سے خطاواقع ہوئی تواس کے لیے بھی ایک اجر ہے۔ ان ائمہ کو علمائے یہود ونصاریٰ کے برابرقرار دینا بڑی ناانصافی ہے۔
غیر واضح منہجِ تحقیق
چند چھوٹے رسائل کے علاوہ دیگر حدیثی کاوشوں میں شیخ ناصر الدین کا کوئی واضح منہج نہیں تھا، بہت پہلے وہ امام سیوطیکی ”الجامع الکبیر“ اور ”الجامع الصغیر“سے ضعیف احادیث تلاش کرکے اسے ایک الگ کاغذ پر لکھ لیا کرتے تھے، یوں جب ان کے پاس سویا زیادہ احادیث جمع ہوجاتیں تو ایک چھوٹے رسالہ کی صورت میں چھاپ دیتے تھے، ان میں موضوع اور باطل احادیث بھی ہوتی تھیں۔
میری دانست میں ان احادیث کونئے سرے سے لوگوں میں پھیلانے کی چنداں ضرورت نہ تھی؛ اس لیے کہ وہ بھلائی جاچکی تھیں اور اہلِ زمانہ میں سے کوئی ان سے واقف نہ تھا، مثلاً : ”علیکم بالعَدَسِ، فانہ قَدَسٌ علی لسانِ سبعین نبیًا“۔(دال کو لازم پکڑو؛اس لیے کہ یہ ستر انبیاء  کی زبانی مقدّس(غذا )ہے)(۱۹) اور اس جیسی دیگر احادیث۔ شیخ نے ”سلسلة الأحادیث الضعیفة“ میں شائع کر دیا ہے، بہتر ہوتاکہ یہ موضوع احادیث نسیان کے پردوں میں ہی گم رہتیں؛ البتہ لوگوں کے درمیان معروف ومشہور احادیث کا حال بیان کرنے اور ان پر نقد کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس سلسلے میں ان کی محنت قابلِ قدر ہے، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
اسی طرح ”سلسلة الأحادیث الصحیحة“ میں بھی ان کا کوئی واضح منہج نہیں ہے؛ اس لیے کہ شیخ کوکوئی بھی صحیح حدیث ملتی تووہ(اپنے) حدیثی نقطئہ نظر سے اس کی تحقیق کر کے اسے اس سلسلے میں درج کرلیتے تھے، ان احادیث کو جمع کرنے کا مشترک پہلو صرف یہ تھا کہ شیخ کو ان کی صحت کا اعتقاد ہے(اور ان کی تحقیق کے مطابق یہ صحیح احادیث ہیں)، میری رائے میں محض یہ بات ایک مستقل کتاب میں احادیث جمع کرنے کے لیے کافی نہ تھی، نیز(اس کتاب کی احادیث میں کسی موزوں ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا،بلکہ کیف مااتفق ذکر دی گئی ہیں ) اگروہ ان احادیث کو موضوع وار جمع کردیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
تقسیم احادیث اور اسانید کا حذف
شیخ کی قابلِ مواخذہ باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ موصوف نے جب” سنن ِاربعہ“ (سننِ ابوداؤد،سننِ ترمذی،سننِ نسائی اورسننِ ابنِ ماجہ) کی ”صحیح وضعیف“ احادیث کو جداجدا شائع کیا تو ان کی اسانید حذف کرڈالیں؛ حالانکہ علمی دیانت کا تقاضہ تھا کہ وہ سندوں کو حذف نہ کرتے؛ اس لیے کہ ”صحیح وضعیف“ کی پہچان کا اہم مدار سند ہی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس طرز ِ عمل سے گویا وہ لوگوں کو آمادہ کرناچاہتے تھے کہ وہ شیخ کی تحقیق پر ہی اعتماد کریں، اور ان کی تحقیق جس حکم تک پہنچی ہے، وہ حق اور ناقابلِ مناقشہ ہے۔
نیز حدیثِ صحیح وضعیف کے درمیان(شیخ کا اختیار کردہ ) یہ فرق محض تکلف ہے، شاید پسِ پردہ ”سننِ اربعہ“ کی ضعیف احادیث کو مہمل (وناقابل استدلال) قرار دینا مقصود ہو؛ حالانکہ بہت سی ضعیف احادیث‘ احادیث ِ صحیحہ کے لیے ”شواہد“ ہیں،لہٰذا ان کو صحیح احادیث سے یوں ممتاز کرنا مناسب نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنی کتابوں کی تالیف کے موقع پر خود امام ابوداؤد، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ کے بھی قطعاً یہ عزائم نہ تھے؛ اس لیے کہ وہ چاہتے تو محض صحیح احادیث پر بھی اکتفا کرسکتے تھے۔ بنا بریں ”سنن“ سے متعلق شیخ ناصرالدینکے اس کام کو میں ان کے غیر مستحسن کاموں میں شمار کرتاہوں۔
حکمِ حدیث کے متعلق دیگر ائمہ کے اقوال سے بے اعتنائی
ایک اور قابل گرفت بات یہ ہے کہ شیخ جب کسی ایسی حدیث کو” صحیح “قرار دیتے ہیں، جس کو دیگر حفاظ نے” ضعیف“ کہا ہو تو دیگر اقوال کا تذکرہ نہیں کرتے، اگر وہ ذکر کردیتے تو لوگوں کو ان کے اور دیگر حفاظ کے ا حکام کے درمیان آزادانہ موازنے کی چھوٹ مل جاتی؛ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو محض اپنے اقوال کی اتباع پر کھڑاکرناچاہتے ہیں، جو کسی طرح بھی قرینِ ِانصاف نہیں ۔
شیخ البانیکے علمی کام پر نظرِثانی کی ضرورت
انھیں امور کی بنا پر میری دانست میں شیخ ناصرالدین البانی کے کام پر درج ذیل انداز سے نظر ثانی ہونی چاہیے:
۱-جن احادیث کو شیخ نے صحیح یا ضعیف قرار دیا ہے اور ان سے پہلے ائمہٴ متقدمین نے بھی ان کو صحیح یا ضعیف ہی کہا ہے، انھیں اپنے حال پر رہنے دیا جائے۔
۲-جن احادیث پر ائمہٴ متقدمین کے برخلاف شیخ نے صحت یا ضعف کا حکم لگایاہے تو دونوں حکموں میں موازنہ کیا جائے اور دلائل وقرائن کی روشنی میں شیخ ناصر کے موافق یا مخالف حکم بیان کیا جائے۔
اپنی سابقہ بات دہراتے ہوئے میں پھر کہتا ہوں کہ شیخ ناصر الدین ”محدث“ تھے، میں نہیں کہتا کہ وہ ”حافظُ العصر“ تھے، انھوں نے اپنی زندگی کے ساٹھ برس اس علم کے پڑھنے پڑھانے میں صرف کیے ہیں اور اس طویل صحرانوردی نے ان میں فن کی بہترین مہارت ولیاقت پیداکر دی تھی؛ اس لیے اس میدان میں ان کی مہارت کو کلی طور پر نظراندازکرناحق ناشناسی ہوگی۔
شیخ البانیکا فقہی مقام
رہا فقہی میدان تو مجھے ان کا کوئی بھی ایسا مسئلہ یاد نہیں، جس میں ان کی دلیل سے مطمئن ہوکر میں نے ان کی تحقیق قبول کرلی ہو؛ اس لیے کہ فقہ ان کا فن ہی نہیں، نہ ہی علمِ حدیث کی طرح فقہ میں ان کا انہماک رہاہے،درحقیقت انھوں نے بعض علماء کے شاذ مسائل لے کر ان کے ذریعے اپنے فقہی منہج کی بنیاد ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
۱-مثال کے طور پر سامانِ تجارت میں زکوٰة کے عدمِ وجوب کے قول کو ہی لے لیجیے، ان سے پہلے علامہ ابن حزم ”المُحلّٰی“(۲۰)میں یہ قول ذکر کر چکے ہیں۔امام شوکانی نے ”الدُّرَر البَھِیَّة“ (۲۱)میں اور نواب صدیق حسننے اس کی شرح ”الرَّوضة النَّدِیَّة“(۲۲) میں ابن حزم ہی کی اتباع کی ہے۔ اور اپنے اس قول کے لیے ان کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں کہ سامانِ تجارت میں زکوٰة کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں۔
۲-زرعی پیداوار پر کن صورتوں میں زکوٰة واجب ہے؟ شیخ نے امام شوکانی(۲۳)کی اتباع میں ان کو صرف چار اجناس میں منحصر کردیا ہے:۱- گندم، ۲- جو، ۳-کھجور، ۴-کشمش؛اس لیے کہ نص صرف ان چار اشیا کے متعلق ہے، اور دیگر اشیا کو ان پر قیاس کرنا درست نہیں؛ جبکہ جمہور فقہاء سامانِ تجارت میں وجوبِ زکوٰة کے قائل ہیں، نیز وہ شہر کی دیگر مذکورہ اجناسِ اربعہ پراشیاء خوردنی کو قیاس کرتے (ہوئے ان میں بھی زکوٰة کو واجب قرار دیتے) ہیں۔
مجھے تعجب ہے کہ شیخ نے یہ قول کیسے اختیار کرلیا!!حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ تاجر اپنا مملوکہ مال صندوق میں نہیں رکھا کرتا؛ بلکہ نقصان سے بچاؤ کے لیے ہمیشہ اسے سامانِ تجارت میں بدلتا رہتا ہے، تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاجرصرف اسی مال کا مالک ہے جو اس کے صندوق میں ہے؛جبکہ اس کے گودام سامانِ تجارت سے اَٹے پڑے ہوں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فریضہٴ زکوٰة کے متعلق مقاصد ِشریعت پر ان کی نگاہ کوتاہ تھی، نہ ہی وہ اسلام کے اقتصادی نظام سے واقف تھے۔
۳-انھیں شاذاقوال میں سے ایک عورتوں پر حلقہ بنے سونے کے زیورات کو حرام قرار دینے کا قول ہے۔
اس مسئلے میں شیخ نے علامہ ابن حزم کی ”المحلّٰی“(۲۴)کی پیروی کی ہے؛ چنانچہ ”سلسلة الأحادیث الصحیحة“(۲۵)میں بزعمِ خود حرمت کے دلائل نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”کوئی مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ بات کے خلاف کسی قول کی طرف نگاہِ التفات نہیں ڈال سکتا، خواہ اس کا قائل علم وفضل اور نیکوکاری میں کیسی ہی شان کا حامل کیوں نہ ہو؛ اس لیے کہ بہر حال وہ معصوم تو نہیں ، یہی چیز ہمارے لیے اپنے موقف پر جماؤ کا باعث ہے، (ہمارا طرزِ عمل یہ ہے کہ) کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے ان کے علاوہ کسی کا کوئی اعتبار نہ کیا جائے“۔
فہمِ حدیث میں فقہا کا منہج
شیخ کا خیال ہے کہ کسی حدیثِ صحیح کو اصل قرار دینے سے مشکل حل ہوجاتی ہے؛ حالانکہ یہ وسعت بہت سے امور میں خلل کا باعث بن سکتی ہے۔ ائمہٴ متقدمین معاذ اللہ! ”حدیث ِصحیح“ کے تارک ہرگز نہ تھے؛ بلکہ وہ ہرحدیث کو اس کا مناسب مقام دیتے تھے، مثلاً حضرت انسکی اِس روایت کو ہی لے لیجیے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ  نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ ہماری خاطر (اشیاء کی) قیمتوں کا تعیّن فرما دیجیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا کہ:”إن اللہ ھو المسعِّرُ القابضُ الباسطُ الرزاقُ“۔ (اللہ تعالیٰ ہی قیمتیں مقررکرنے والا،(رزق میں) تنگی اور کشادگی کرنے والاہے اور وہی رزق دینے والا ہے)اِس حدیث کو امام ترمذینے ”جامع الترمذی“(۲۶) میں نقل کیا ہے، اس کے باوجود ائمہٴ مجتہدین ”نرخ بندی“ کے قائل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ: ”بلاشبہ یہ حدیث، حق وسچ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے؛ لیکن یہ ”عام مخصوص منہ البعض“ کی قبیل سے ہے،انھوں نے اس حدیث کو اُس صورت کے ساتھ خاص کیا ہے جس میں بائع ومشتری کا باہمی معاملہ صلاح پر مبنی ہو اور دورِ حاضر کی طرح ان میں حرص ولالچ نہ ہو، بلاشبہ ایک ایسے معاشرے میں ”نرخ بندی“ ترک کردی جائے گی؛ لیکن معاشرتی تبدیلی کی صورت میں قیمتوں کا تعین ناگزیر ہے۔
شیخ محمد بخیت مطیعینے امام نووی کی ”المجموع“ کے ”تکملة“(۲۷)میں اس مسئلے کے متعلق علماء کے مختلف اقوال جمع کردیے ہیں؛ لیکن شیخ ناصر الدین ایسے امور کی طرف التفات نہیں فرماتے، ان کے نزدیک (سنداً)صحیح حدیث کی مخالفت جائز نہیں؛ حالانکہ ائمہٴ سلف بھی صحیح احادیث کے مخالف ہرگزنہیں تھے؛ بلکہ وہ احادیثِ رسول کو واضح فرماتے تھے اور اس سلسلے میں وظیفہٴ نبوت کی پیروی کرتے تھے،(جس کا اِس آیت میں ذکر ہے) فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”وَأَنْزَلْنَاإِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْھِمْ“ (۲۸)”اے پیغمبر!ہم نے تم پر بھی یہ قرآن ا س لیے نازل کیا ہے؛ تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کردو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں“۔ یعنی لوگوں کے سامنے مرادِ باری تعالیٰ واضح کریں؛ چنانچہ ائمہ مجتہدین بھی یہی وضاحت کا فریضہ ادا کرتے تھے؛ لیکن وہ معصوم نہیں ہیں، خطا وصواب دونوں ہی احتمال رکھتے ہیں؛ البتہ نصوص کے فہم کے لیے جو منہج انھوں نے اختیار کیا ہے، وہ شریعت کے درست فہم تک پہنچاتا ہے۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ائمہٴ مجتہدین نے اگر کسی حدیث کو رد کیا ہے تو صحابہمیں بھی اس کے رد کرنے والے ملیں گے اور وہ ایسی احادیث کو لیتے ہیں جن پر کسی نہ کسی صحابی کا عمل ہو، مثلاً: درج ذیل حدیث کو دیکھئے: ”مَنْ مسّ ذَکَرَہ فلیتوضأ“ ۔(جس نے اپنے ذکر کو چھوا تو اسے چاہیے کہ وضو کرے )اس حدیث کو امام احمدنے ”مسند احمد“ ۔(۲۹)میں نقل کیا ہے اور (سنداً) ”صحیح“ حدیث ہے، اسی پر امام شافعی کا عمل ہے۔
اب ایک اور حدیث پر نظر ڈالیے: ”إنَّما ھُوَ بُضْعَةٌ مِنْکَ“۔(وہ توتیرے جسم کے گوشت کا ہی ایک ٹکڑا ہے)اس حدیث کو بھی امام احمدنے ”مسند احمد“ ۔(۳۰)میں نقل کیا ہے اور (سنداً) یہ ”حسن“ ہے، امام ابوحنیفہاسی کو لیتے ہیں؛ چنانچہ امام شافعی کے ہاں ”مسِ ذکر“ ناقضِ وضو ہے؛جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ناقض نہیں ،اور دونوں نے اپنے مذہب کے سلسلے میں اپنے تئیں صحیح احادیث پرہی اعتماد کیا ہے، اسی طرح صحابہوتابعین میں سے بھی بعض نے ان میں سے ایک حدیث کو لیا اور بعض نے دوسری حدیث پر عمل کیا ہے۔
یہ (فقہی) اختلاف تو دورِ صحابہ سے چلا آرہا ہے،اور صحابہٴ کرامکی تعریف خود اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے: ”کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ“ ۔(۳۱)(تم وہ بہترینِ امّت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے)میرا اعتقاد ہے کہ یہ ”خیریت“ محض سلوک میں منحصر نہیں؛ بلکہ علم بھی اس کے تحت داخل ہے؛ اس لیے کہ سلوک کی بنیادتوعلم ہے اور وہ علم کاہی ثمرہ ہے۔ لہٰذا اختلاف جب تک عقل وفہم کے دائرے میں رہے تو وہ تنوع کا کرشمہ اور اجتہاد وابداع کی جلوہ گاہ ہے، اسلام اس کو پسند کرتا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے؛ البتہ جب اختلاف‘عقل سے قلب کی طرف سرایت کرجائے اور اس کی کوکھ سے باہمی کش مکش، سب وشتم، قطع تعلق اور کینہ وعداوت جیسے موذی باطنی امراض جنم لینے لگیں تو وہ شرعاً ممنوع ہوجاتا ہے، اسلام ایسی چیزوں کو کبھی بھی پسند نہیں کرتا۔
بعض دیگرفقہی آرا
شیخ کی بعض فقہی آرا گرد وپیش کے زمانے سے ان کی دوری کی دلیل ہیں، ان کے کئی قریبی شاگردوں کے واسطے سے مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ حرمتِ اختلاط کی بنیاد پر کسی طالبِ علم یا طالبہ کے جامعات اور یونی ورسٹی جانے کو حرام قرار دیتے تھے، گویا اس طرح وہ یونی ورسٹیوں کومسلمان طلبہ سے خالی کرنا چاہتے تھے۔ نیز وہ مسلمان طلبہ کے ذہنوں میں اسلام کے عمومی اصول راسخ کرنے اور اس کا منہج واضح کرنے کی بجائے بعض ایسی چیزوں کے داعی تھے، جن کے ترک سے دورِ حاضر میں کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا، مثلاً:داڑھی رکھنا اور پتلون ترک کرنا، وغیرہ۔ (*)
چنانچہ جس طرح وہ اسلام کے اقتصادی نظام سے ناواقف تھے، اسی طرح اسلام کے اجتماعی ومعاشرتی نظام سے بھی نابلدتھے؛ بلکہ ان کے ہاں اس عظیم دین کا کوئی جامع نظریہ ہی نہیں ملتا؛ کیونکہ اس موضوع کو نہ تو انھوں نے پڑھا اور نہ ہی اس طرف توجہ کی ہے۔
شیخ ناصرکی ”سلفیت“ نصوصِ شرعیہ کے گہرے فہم کی بنیاد پر ہے، نہ امت پر طاری تقلید جامد کو توڑنے کے لیے؛ بلکہ یہ” نصوص کی حرف بہ حرف اتباع“ ہے، جس سے (آج کے دور میں) داؤد ظاہری اور ابن حزم کی یادیں تازہ ہوگئیں ہیں، ایک ایسی اتباع جس میں دیگر تاویلی وجوہ کاکوئی اعتراف ہی نہیں۔
مخالفین کے ساتھ شدت آمیز رویہ
ان تمام باتوں کے باوجود میں انھیں ایک مخلص انسان سمجھتا ہوں، جس نے حصولِ جاہ ومنزلت کی بجائے محض رضائے خداوندی کی خاطر علم حاصل کیا؛ لیکن میں انھیں(ہر نوع کی غلطیوں سے) پاک نہیں سمجھتا،ان کے اخلاص کے پورے اعتراف کے باوجود ان کا اپنے مخالفین کے ساتھ سخت رویہ ‘جو اہل علم میں ہمیں نہیں دکھائی دیتا، میرے نزدیک قابلِ نقد ہے، آپ کاکسی مسئلے میں ان سے اختلاف کرناہی ان کے نزدیک (زبان کے نشتر لگانے کے لیے)کافی ہے، پھر وہ آپ کو ایسے اوصاف سے نوازیں گے جن سے وہ ہمیشہ اپنے مخالفین کی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں، مثلاً جمہور فقہاء کی رائے اختیار کرنے والے کو یوں یاد کرتے ہیں:”ھذا جمھوری“(یہ جمہور کا پیروکار ہے)گویا یہ کوئی عیب ہے، اسی طرح ”ھذا لایفقہ “(اس کو سمجھ بوجھ ہی نہیں)، ”ھذا لیس بفنہ“ (یہ اس فن کا آدمی ہی نہیں)، ”ھذا لیس عندہ تحقیق“ (اس شخص کے ہاں تحقیق کا کوئی گزر نہیں) او را ن کے علاوہ ایسے اوصاف کہ جن کو ایک عالم کجا، عام آدمی بھی زبان پر نہیں لاسکتا۔
شیخ کی یہی شدت ان کے پیروؤں میں بھی سرایت کرگئی ہے، ان کی آرا کی بنا پرآئے دن مساجد میں ہونے والے جھگڑوں کا ہرایک تذکرہ کرتا ہے کہ ان کی وجہ سے کیسے باہمی عداوتوں تک نوبت جا پہنچتی ہے!!
ہماری معلومات کے مطابق ائمہ متقدمین بھی اپنی آرا کا اظہار کرتے تھے؛لیکن دیگراہلِ علم کی آرا کا احترام بھی کرتے تھے، وہ اپنے مخالفین کے خلاف جارحانہ کلمات زبان پرنہیں لاتے تھے، ان ائمہ کا یہ جملہ سب کو یاد ہوگا، جو ان سے منقول اور مشہور ہے کہ: ”رأیی صوابٌ یحتمل الخطأ، ورأی غیری خطأ یحتمل الصواب“۔(میری رائے درست لیکن غلطی کا احتمال ہے اور دیگر آرا غلط؛ لیکن درستگی کا امکان رکھتی ہیں) نیز امام اسحاق بن راہویہ کے متعلق امام احمد بن حنبل کا یہ جملہ بھی ہمیں یاد ہے کہ : ”مَا عَبَرَ جسرَ بَغْدَادَ أحدٌ أعلمُ مِنْ إسحاق بن راہویہ ، غیر أننا نُخالفُہ فی أشیاء“۔(اسحاق بن راہویہ سے بڑا عالم اس شہرِ بغداد کے پل سے نہیں گزرا؛ لیکن کچھ مسائل میں ہمارا ان سے اختلاف ہے)۔
شاید شیخ البانی کایہ تشدد ائمہ کبار کے بیان کردہ اس قاعدہ سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ”لَایُنْکَرُ الْمُخْتَلَفُ فِیْہ“ (سلف کے درمیان مختلف فیہ مسئلے پر انکار نہیں کیا جائے گا) یعنی اختلافی مسائل میں کسی مجتہد پر نکیر نہیں کی جائے گی؛ لیکن شیخ کا رویہ اس قاعدے کے برخلاف ہے، وہ اختلافی مسائل پر بھی نکیر کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے ۔ إنَّہ خیرُ مَسْؤُولٍ، والحمدُ للہ رب العالمین۔
  
مآخذومراجع
۱:․․․․․ملاحظہ فرمائیں:
۱-الألبانی شذوذہ وأخطائہ لمولانا حبیب الرحمن الأعظمی، مکتبة دارالعروبة کویت ، ۱۴۰۴- ۱۹۸۴ء۔
۲-تناقضات الألبانی الواضحات فیما وقع لہ فی تصحیح الأحادیث و تضعیفہا من أخطاء وغلطات للشیخ حسن السقّاف،دارالإمام النووی عمان الأردن ، ۱۴۱۳ھ-۱۹۹۲ء۔
۳-خطبة الحاجة لیست سنّة فی مستہلّ الکتب والمؤلفات للشیخ عبدالفتّاح أبوغدّة رحمہ اللہ، دارالبشائر الإسلامیة بیروت،۱۴۲۹ھ،۲۰۰۸ء۔
۴-التعریف بأوہام من قسّم السنن إلی صحیح وضعیف للشیخ محمود سعید ممدوح، دارالبحوث للدراسات الإسلامیّةوإحیاء التراث دبئی ،۱۴۲۱ھ-۲۰۰۰ء ۔
۵-تنبیہ المسلم إلی تعدی الألبانی علی صحیح مسلم للشیخ محمود سعید الموقر۔
۶- إباحة التحلّی بالذھب المحلق للنساء والردّ علی الألبانی فی تحریمہ للشیخ اسماعیل الأنصاری -رحمہ اللہ-
۷- تصحیح حدیث صلاة التراویح عشرین رکعة ، والرد علی الألبانی فی تضعیفہ ، للشیخ اسماعیل الأنصاری- رحمہ اللہ –
۲:․․․․․مشکٰوة المصابیح بتحقیق الشیخ الألبانی،کتاب الإیمان،باب الإیمان بالقدر،ج:۱،ص:۳۹، رقم الحدیث:۱۱۲، المکتب الإسلامی ، ۱۳۹۹ھ-۱۹۷۹ء۔
۳:․․․․․صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ،۲/۱۲۰۰،رقم الحدیث:۷۱۴۲، المکتب الإسلامی ۱۴۰۸ھ – ۱۹۸۸ء۔
۴:․․․․․التکویر:۸۔
۵:․․․․․سلسلة الأحادیث الصحیحة،۴/۴۴۷-۴۴۸،رقم الحدیث:۱۸۳۳، مکتبة المعارف ریاض ، ۱۴۱۵ھ- ۱۹۹۵ء۔
۶:․․․․․صحیح مسلم،کتاب صفة القیامة والجنّة والنار،باب ابتداء الخلق وخلق آدم علیہ السلام، ۷/۴۴۹، رقم الحدیث:۷۰۴۹،مکتبة البشری کراتشی۔
۷:․․․․․التاریخ الکبیر،۱/۴۱۳-۴۱۴،دائرة المعارف العثمانیة حیدرآباد دکن ۱۳۶۱ھ۔
۸:․․․․․سلسلة الأحادیث الصحیحة،۲/۶۴۸-۶۴۹،رقم الحدیث:۹۵۹۔
۹:․․․․․مسندأحمد بتحقیق الشیخ شعیب الارنؤوط،رقم الحدیث:۱۹۶۷۸،مؤسّسة الرّسالة بیروت۔
۱۰:․․․․․التاریخ الکبیر،۱/۳۸-۳۹۔
۱۱:․․․․․یہی بات ان کے متعلق ایک اور معاصر عالم معروف محقق و محدّث شیخ عبدالفتّاح ابوغدّہ رحمہ اللہ (متوفی ۱۴۲۰ھ)نے بھی لکھی ہے: ”وإنما أدی إلی ھذا الشذوذ اعوجاجُ فھمہ لبعض النصوص لضعف معرفتہ بأصول الفقہ، بل أصول الروایة والدرایة أیضا“․ (خطبة الحاجة لیست سنّة فی مستہلّ الکتب والمؤلفات، ص:۵۲)۔(بعض نصوص میں کج فہمی نے ان (شیخ البانی رحمہ اللہ) کو اس شذوذ تک پہنچادیا ہے، اور اس کی وجہ اصول فقہ؛ بلکہ اصولِ روایت ودرایت سے واقفیت کی کمی ہے)
۱۲:․․․․․مسندأحمد،رقم الحدیث:۱۸۸۷۰۔
۱۳:․․․․․سلسلة الأحادیث الصحیحة،۷/۵۵۲،رقم الحدیث:۳۱۸۱۔
۱۴:․․․․․التوبة:۳۱۔
۱۵:․․․․․سنن الترمذی بتحقیق الدکتور بشارعواد معروف،أبواب تفسیر القرآن،باب:”ومن سورة التوبة“ ۵/۱۷۳،رقم الحدیث:۳۰۹۵،دار الغرب الإسلامی بیروت ، ۱۹۹۸ء۔
۱۶:․․․․․صحیح الترمذی،۳/۵۶،رقم الحدیث:۲۴۷۱، المکتب الإسلامی ۱۴۰۸ھ-۱۹۸۸ء۔
۱۷:․․․․․سلسلة الأحادیث الصحیحة،۷/۸۶۶،رقم الحدیث:۳۲۹۳۔
۱۸:․․․․․روح المعانی، تفسیر قولہ تعالی:”اتخذوا أحبارہم“(التوبة:۱۳)۵/ ۲۷۶،دارالکتب العلمیّة بیروت ۱۴۲۶ھ- ۲۰۰۵ء۔
۱۹:․․․․․سلسلة الأحادیث الضعیفة،۱/۵۷،رقم الحدیث:۴۰،و ۲/۶،رقم الحدیث:۵۱۰،المکتب الإسلامی ۱۴۰۵ھ – ۱۹۸۵ء۔
۲۰:․․․․․المحلی،کتاب الزکوة،باب أحکام التجارة،۵/۲۳۳- ۲۴۰، دارالتراث القاھرة۔
۲۱:․․․․․الدررالبھیّة،کتاب الزکاة،باب زکاة الذھب والفضّة،ص:۲۲، مکتبة الصحابة طنطا مصر ۱۴۰۸ھ – ۱۹۸۷ء ۔ و السموط الذھبیّة الحاویة للدرر البھیّة للشوکانی، کتاب الزکاة، باب زکاة الذھب والفضة، ۱۰۷، مئوسّسة الرسالة بیروت ۱۴۱۰ھ-۱۹۹۰ء۔
۲۲:․․․․․الروضة الندیّة شرح الدررالبھیّة،کتاب الزکاة،باب زکاة الذھب والفضة،۱/۲۸۶،المکتبة العصریّة بیروت ۱۴۱۸ھ-۱۹۹۷ء۔
۲۳:․․․․․نیل الأوطارشرح منتقی الأخبار من أحادیث سیّد الأخیار،کتاب الزکوة،باب الزروع والثمار،۴/۱۶۱، مکتبة مصطفی البابی مصر۔
۲۴:․․․․․المحلّی،باب أحکام لبس الحریر والذھب،۱۰/۸۴۔
۲۵:․․․․․سلسلة الأحادیث الصحیحة،۱/۵۹۶، رقم الحدیث:۳۳۷۔
۲۶:․․․․․سنن الترمذی، أبواب البیوع، باب ماجاء فی التسعیر،۲/۵۷۲، رقم الحدیث:۱۳۱۴۔
۲۷:․․․․․تکملة المجموع شرح المہذب،کتاب البیوع،باب النجش،۱۲/۱۰۹-۱۲۱،دارإحیاء التراث العربی ۱۹۹۵ء۔
۲۸:․․․․․النحل:۴۴۔
۲۹:․․․․․مسندأحمد،رقم الحدیث:۲۷۲۹۳۔
۳۰:․․․․․مسندأحمد،رقم الحدیث:۱۶۲۸۶۔
۳۱:․․․․․آل عمران:۱۱۰۔
  


ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7‏، جلد: 98 ‏، رمضان المبارك 1435 ہجری مطابق جولائی 2014ء

Related Posts