حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہؒ کے سیاسی افکار

از: مفتی امانت علی قاسمی‏، استاذ دارالعلوم حیدرآباد

امام صاحب کے عہد کی سیاسی صورتِ حال

 امام صاحب کی ولادت ۸۰ھ میں ہوئی اور وفات ۱۵۰ھ میں ہوئی، ۱۳۲ ھ میں امیہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور ابوالعباس سفاح کے ہاتھوں حکومتِ عباسیہ کی بنیادپڑی، اس طرح امام صاحب نے اموی اور عباسی دونوں حکومت کا زمانہ پایا، اموی حکومت میں سرحدی فتوحات کی کثرت ہوئی اور عباسی حکومت میں علمی اورقلمی ترقیاں ہوئیں؛ لیکن مجموعی طور پردونوں حکومتوں میں عوام ظلم و بربریت کا شکار ہوے اپنی حکومت کی بقاء وتحفظ لیے عام انسانوں کی گردنیں اڑا دینا عام معمو ل تھا، پورا عالمِ اسلام بنو امیہ کے خوں چکاں مظالم سے تھرا رہا تھا ،حضورِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں اور ان کے خاندان کے پیاسوں کو فرات کے ساحل پر شہید کر دیا گیا تھا ،صدیقِ اکبر کے نواسے عبداللہ بن زبیر کو بیت اللہ کے چوکھٹ پر خاک وخون میں تڑپادیا گیا تھا،یزید، ابن زیاد ،حجاج بن یوسف کو کھلا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا تھا،اس سلسلہ میں سب سے قابلِ رحم حالت کوفہ کی تھی، جہاں حضرت امامِ اعظم پیداہوے۔اس شہر میں ابنِ زیاد، پھر حجاج کی تلوار بے کسوں پر لٹکتی رہی ،عراق کے گورنر ابن ہبیرہ کے ہاتھوں نے چھ لاکھ لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی، ایسی صورتِ حال میں لوگوں کابے چین ہونا ،انسانی جانوں پر ہورہے اس بھیانک ظلم سے متاثر ہونا، ایک فطری امر ہے ،پھر امام ابوحنیفہ جن کے دل میں امتِ محمدیہ کا بے پناہ درد تھا، جیسا کہ سلم بن سالم کا بیان ہے، میں نے بڑے بڑے علماء سے ملاقاتیں کیں؛لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے احترام کا جذبہ جتنا شدید ابوحنیفہ کے دل میں پایا، اس کی نظیر کہیں نہیں ملی (مناقب للموفق ۲۴۸) ظالم حکام کے ظلم سے امام صاحب کس قدر بے چین ہوتے رہے ہونگے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

جب حکومت کا ظلم وستم عام ہوجائے اور احترامِ انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر مظالم کی حد کردی جائے، ایسی صورتِ حال میں علماء امت کی کیا ذمہ داری ہے،اس حکومت پر نکیر فرض ہے یا نہیں ،ایسی حکومت کے خلاف خروج کرنا ظلم ہے یا عدل ،تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں علماء امت کے دو گروہ تھے ،ایک محدثین کا گروہ تھا جن کا مسلک تھا کہ حکومت جن لوگوں کے ہاتھ میں چلی جائے ، خواہ کسی ذریعہ سے گئی ہو؛لیکن جب وہ اقتدار کے مالک ہوگئے تو ان کے سلسلے میں کچھ کہنا شرعاًناجائز ہے ،خواہ ان کا طرزِعمل کچھ بھی ہو ،مسلمانوں کے مذہب نے ان اس کا پابند بنایا ہے کہ خاموشی کے ساتھ ان کے آگے سر جھکا دیں (احکام القرآن للجصاص ۲/۳۴)

اس کے بالمقابل امام صاحب کا مسلک یہ تھا کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر حکومت کے ساتھ بھی کیا جائے گا اگر زبانی مفاہمت کے ذریعہ حکومت عدل کی طرف رجوع نہ کرے تو مقابلہ کے لیے کھڑا ہونا فرض ہے ،ابراہیم الصائغ خراسان کے بڑے تھے ،انھوں نے جب ابومسلم خراسانی کی ظلم وزیادتی دیکھی تو انھوں نے ظالم حکومت کے خلاف خرو ج کے سلسلے میں امام صاحب سے مشورہ کیا ،اس وقت امام صاحب نے اپنے اسی راے کو ظاہر فرمایا ،ابراہیم الصائغ کے حوالے سے امام صاحب کی طرف منسوب ہے کہ ظالم حکمراں کے سامنے معروف امر اور منکر کے نکیر کے لیے جو کھڑ اہوا وہ اور حمزہ بن مطلب دونوں شہداء کے سردار ہوں گے؛لیکن امام صاحب ظالم حکومت کے خلاف خروج کے لیے تنظیمی اور اجتماعی قوت کو ضروری قرار دیتے ہیں؛ جب کہ اس کے ذریعہ صالح اورمفیدانقلاب لانا ممکن ہو۔

”اگر ایک دو آدمی کھڑے ہوں گے تو قتل کر دیے جائیں گے اور مخلوقِ خدا کے لیے کوئی کام انجام نہ دے سکیں گے؛ البتہ اگر اس کام کی سر انجامی میں کچھ اچھے صالح لوگ مددگار بن جائیں اور ان کا کوئی ایسا سردار ہو جس کے دین پر بھروسہ کیا جا سکتا ہو اور وہ اپنے مسلک سے نہ پلٹے تو اس وقت مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ،،(امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی ۲۸۶)

امام ابوحنیفہ اور حکومت بنو امیہ کی پالیسی

امام صاحب اپنے تجارت وسخاوت ،امانت ودیانت ،علم وفن اور تقوی وطہارت کی وجہ سے کوفہ میں انتہائی بااثر لوگوں میں شمار ہوتے تھے؛ اس لیے حکومتِ بنو امیہ آپ کو حکومت کا حصہ بنا کر عوام سے ہمدردی حاصل کرنا چاہتی تھی؛چناں چہ آپ کو نرمی وگرمی ہر طرح سے مختلف عہدوں کی پیش کش کی گئی ،اس سلسلے میں کو فہ کے گورنر ابن ہبیرہ کو اس پالیسی پر عمل کرنے کا موقع ملا ،ایک مرتبہ ابن ہبیرہ نے امام صاحب سے عرض کیا: ”شیخ! اگرآپ اپنی آمد ورفت کو ہمارے یہاں بڑھادیں تو ہم آپ سے اور زیادہ فائدہ اٹھائیں اور ہمیں آپ سے نفع پہونچے ،،امام صاحب نے جواباً ارشاد فرمایا ”تمہارے پاس آکر کیا کروں گا، اگر تم مجھے نزدیکی اور قرب عطا کروگے تو فتنہ میں مبتلاکروگے اور اگر دو ر رکھا یا قرب عطا کرنے کے بعد نکال دیا توخواہ مخواہ غم میں مبتلاکروگے ،،اس کے بعد ابن ہبیرہ نے ربیع کے ذریعہ امام صاحب کو گورنر کے بعدسب سے با اختیار وزیر بنائے جانے کی پیش کش کی اور پیغام بھیجا کہ ”گورنر کی مہر ان کے پاس رہے گی؛ تا کہ کوئی حکم نافذ ہو اور کوئی کاغذ جو حکومت کی طرف سے صادرہو اور خزانہ سے کوئی مال برآمد ہو وہ سب ابوحنیفہ  کی نگرانی میں ہو اور ان کے ہاتھ سے نکلے ،جب امام صاحب نے دولت بنی امیہ کی اس جلیل منصب کو ٹھکرا دیا اکابر علماء، داوٴدبن ابی ہند ،ابن شبرمہ،ابن ابی لیلیٰ جیسے بڑے فقہا ء کا ایک وفد امام صاحب کی تفہیم کے لیے حاضر ہوا اور سمجھانا شروع کیاکہ ہم لوگ تمہیں خدا کی قسم دیتے ہیں ،تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ،ہم لوگ آخر تمہارے بھائی ہیں اور حکومت کے اس تعلق کو ناپسند کرتے ہیں؛لیکن کوئی چارہ کار اس وقت قبول کرنے کے سوا نظر نہیں آتا؛ لیکن امام صاحب ترکِ موالات کا فیصلہ کر چکے تھے؛ اس لیے ان اکابر علماء کی نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا، اور امام صاحب نے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کردیا ،ابن ہبیرہ نے پندرہ دن کے لیے جیل بھیج دیا اور وہاں بھی طمع ولالچ اور جاہ ومنصب کی پیش کش ہوتی رہی اور جب مسلسل انکار دیکھا تو عہدئہ قضاء قبول کرنے پر مجبور کرنے لگا اور قسم کھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر عہدہٴ قضاء کو بھی قبول نہ کیا تو میں ان کو کوڑ ے ماروں گا؛لیکن امام صاحب جودین کے نشے میں مخمور تھے ،ابن ہبیرہ کے کوڑے سے زیادہ آخرت کی آہنی گرز کی چمک ان کے یقین کے آنکھوں کے سامنے کو ند رہی تھی ،انھوں نے قسم کھا کر کہا ”ہرگز عہدئہ قضاء قبول نہ کروں گا چاہے ابن ہبیرہ قتل ہی کیوں نہ کر دے ،،ابن ہبیرہ غصے میں تلملا اٹھااور موت کی دھمکی دینے لگا ،ا مام صاحب نے انتہائی سکینت واستقامت کے ساتھ فرمایا: صرف ایک ہی موت تک ابن ہبیرہ کا اقتدار ہے ،گورنر کے اشارہ پر جلاد نے کوڑے برسانے شروع کردیے ،چند کوڑوں کے بعد امام صاحب کی زبان سے ایک تاریخی جملہ نکلا، جس میں ابن ہبیرہ کو خطاب کرکے فرمایا ”یادکر ا س وقت کو جب اللہ کے سامنے تو بھی کھڑاکیا جائے گا اور تیرے سامنے میں جتناذلیل کیا جارہاہوں، اس سے کہیں زیادہ ذلت کے ساتھ تو خدا کے دربار میں پیش کیا جائے گا ،ابن ہبیرہ! تو مجھے موت کی دھمکی دیتا ہے؛حالاں کہ دیکھ میں شہادت دے رہا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تجھ سے بھی پوچھا جائے گا ،اس وقت بجز سچی بات کے کوئی جواب تیرا نہیں سنا جائے گا ،،کہتے ہیں کہ آخری فقرہ پر ابن ہبیرہ کا چہرہ فق ہوگیا ،جلاد کی طرف اشارہ کیا ”بس،،سزا کے بعدجب امام صاحب کو واپس جیل لے جایا جایا رہا تھا، توپیٹھ پر مار کے نشان پڑ ے تھے اور مظلوم امام کا چہرہ سو جا ہوا تھا؛ لیکن امام ظالم حکومت کے خلاف جو مقاطعہ کا فیصلہ کر چکے تھے،اس سے سرِ مو انحراف نہ کیا، تاآ نکہ بنو امیہ حکومت کا سورج غروب ہوگیا۔

امام صاحب عہدِعباسی میں

                بنو امیہ کے خاتمہ اورعباسی حکومت کے آغاز میں امام صاحب مکہ معظمہ میں مقیم رہے ، عباسی حکمراں منصور کے عہد میں امام صاحب کوفہ آئے ،بنو امیہ کے عہد میں حضرت زین العابدین کے صاحبزادے حضرت زیدبن علی الشہید نے کوفہ میں خروج کیا ، ان کے متعلق امام صاحب نے فتوی دیا ”حضرت زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہو نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدر میں تشریف آوری کے مشابہ ہے،، گوچندوجوہات کی بنا پر عملاً امام صاحب حضرت زید شہید کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوئے؛ لیکن آپ نے اس جہاد کے لیے کثیر رقم بھی عنایت فرمائی،منصور حضرت زید شہید کی تحریک میں امام کی اس شرکت سے یقینا وا قف تھا ،اور کو فہ میں امام صاحب کے اثر ورسوخ کو اپنی آنکھوں دیکھ رہا تھا؛اس لیے سابقہ فرماں رواوٴں کی طرح منصور نے امام صاحب کو اپنی حکومت کا حصہ بنانا ضروری خیال کیا؛ چنانچہ منصور نے جب بغداد کی تعمیرکا فیصلہ کیا تو اس نے علماء ،فقہاء،انجینئر،اور اربابِ فضل وکمال کو جمع کیا،اس میں امام صاحب بالخصوص بلائے گئے اور ناظمِ تعمیرات کی حیثیت سے امام صاحب کا تقرر ہوا ،ابتداء منصور کے حکم کی مخالفت مناسب خیال نہ کیا اور جز وقتی طور پر اس عہدہ کو قبول کرکے منصور کے قریب ہوگئے ،منصور بڑا مدبر اور سیاسی تھا، اس نے دھیرے دھیرے امام صاحب کو اپنی گرفت میں کرنے کی کو شش کی؛ چناچہ امام صاحب کی خدمات سے خوشی ظاہر کرکے دس ہزار کا انعام یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ میری خواہش ہے کہ آپ یہ رقم قبول فرمالیں، امام صاحب نے کسی حیلے کے ذریعہ رقم وصول کرنے سے معذرت کردی؛ اس لیے کہ امام صاحب جانتے تھے کہ حکومت کے لقمہء تر ہضم کرلینے کے بعد حکومت کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت ختم ہوجاتی ہے۔

بیت المال کے سلسلے میں حضرت امامکی رائے

ایک مرتبہ نہیں؛ بلکہ متعددمرتبہ منصور نے امام صاحب کو مال کی پیش کش کی ،یحییٰ بن نصر کے حوالے سے منقول ہے کہ دوسری مرتبہ منصور نے مال کے ساتھ حسین وجمیل باندی کی پیش کش کی؛ لیکن امام صاحب بیت المال کے بیجا استعمال کو حرام سمجھتے تھے؛بلکہ ان کے نزدیک حکم میں جور اور بیت المال میں خیانت ایک اما م کی امامت کو باطل کردینے والے افعال تھے؛اس لیے انھوں نے مال کو قبول کر نے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا”امیرالموٴمنین اگر ذاتی مال سے دیتے تو شاید میں قبول کرلیتا؛ لیکن یہ جو کچھ آپ مجھے دے رہے ہیں یہ تو مسلمانوں کے بیت المال کا ہے جس کا میں اپنے آپ کو کسی طرح مستحق نہیں سمجھتا ہوں ،نہ میں ننگا،بھوکا ،محتاج فقیر ہوں ،اگر یہ صورت ہوتی تو فقیروں کی مد سے شاید میرے لیے کچھ لینا جائز ہوتا ،اور نہ میں ان لوگوں میں ہوں جو مسلمانوں کی حفاظت کے لیے لڑتے ہیں،اگر میرا تعلق ان فوجیوں سے ہوتا تو اس وقت بھی اس مد سے لے سکتا تھا ، جب میرا تعلق نہ اس گروہ سے ہے اور نہ اس طبقے سے تو آپ ہی انصاف کیجیے میں یہ رقم کس بنیاد پرلے سکتا ہوں؟ ،،(امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی ۳۷۲)بیت المال کے بے جا استعمال پر آپ ہمیشہ معترض رہتے تھے اور حکومت کے مالوں کو انتہائی بے نیازی کے ساتھ ٹھکرادیتے تھے ،جب منصور نے امام صاحب کے سامنے عہدئہ قضاء پیش کیا اور امام صاحب نے انکار کر دیا تو منصور نے امام صاحب کو ۳۰ کوڑے لگوائے جس سے امام صاحب کا سارا بدن لہو لہا ن ہوگیا تو خلیفہ کے چچا عبدالصمدبن علی نے اس کو سخت ملامت کی کہ یہ تم نے کیا کیا؟ یہ عراق کافقیہ ہے؛ بلکہ پورے مشرق کا فقیہ ہے ،منصور اس پر نادم ہوا اور فی تازیانہ ایک ہزار درہم کے حساب سے تیس ہزار درہم امام صاحب کو بھیجوائے؛ لیکن امام صاحب نے لینے سے انکار کر دیا ،کہا گیا لے کر خیرا ت کر دیجیے! جواب میں ارشاد فرمایا: ”کیا اس کے پاس کوئی حلال مال بھی ہے؟“ اسی زمانہ میں جب پے درپے تکلیفیں سہتے ہوئے امام کا آخری وقت آگیا تو انھوں نے وصیت کی کہ ”بغداد کے اس حصے میں ان کو دفن نہ کیا جائے جسے شہر بسانے کے لیے منصور نے لوگوں کی املاک میں سے غصب کرلیا تھا ، انتقال کے بعد منصور بھی قبر پر نماز پڑھنے کے لیے آیا، جب وصیت کا حال سنا تو چیخ پڑا کہ ابوحنیفہ زندگی اور موت میں تیری پکڑ سے کون بچا سکتا ہے۔ (خلافت وملوکیت ۲۳۷)

حضرت امام کی حق گوئی

                امام صاحب کے نزدیک اظہار رائے کی آزادی کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور یہ ہر مسلمان کا بنیادی حق تھا ،امام صاحب اس اظہار رائے کی آزادی بڑی بے باکی سے استعمال کرتے تھے ،اور اس سلسلے میں سخت سے سخت تکلیف کی بھی پروا نہیں کرتے تھے، جس زمانہ میں امام صاحب تعمیر بغداد کے سلسلے میں منصور کے ساتھ تھے ،ان دنوں کا واقعہ ہے کہ منصورکو ”موصل“ والوں کی بغاوت کی اطلاع ملی ،دربار میں امام صاحب بھی بیٹھے تھے ، منصور نے مجلس کی طرف خطاب کرکے کہا کہ ”موصل“ والوں نے یہ معاہدہ مجھ سے کیا تھا کہ میری اور میری حکومت کے وفادار رہیں گے اور کھبی سر کشی پرآمادہ نہ ہوں گے ،معاہدہ میں انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ اگر حکومتِ عباسیہ کے خلاف وہ کبھی بھی بغاوت پر آمادہ ہوں تو خلیفہ کو حق ہوگاکہ وہ ہر ایک کو قتل کردے ،منصور نے پوچھا: میرے گورنر کے خلاف وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ،کیا ان کی خوں ریزی خود اُن کے معاہدہ کی رو سے میرے لیے جائزنہیں ہوچکی ہے؟چند لوگوں کے موافق رائے آجانے کے بعد منصور امام کی طرف متوجہ ہوکر بولا: شیخ! آپ کی کیا رائے ہے؟امام صاحب منصور کی بدنیتی ،اور اس کی ذہنی کج روی کو محسوس کر چکے تھے؛ اس لیے ا مام صاحب تمہیدی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: ”کیا اس وقت میں نبوت کی جانشینی کے جو مدعی ہیں، ان کے سامنے نہیں کھڑا ہوں؟ توقع ہے کہ جس گھر میں اس وقت ہوں یہ مسلمانوں کی پناہ گاہ ہے“ منصور نے کہا ایسا ہی ہے اس کے بعد امام صاحب نے فرما یا: ”امیرالموٴمنین ”موصل“ والوں نے اگر اس قسم کا کوئی معاہدہ آپ سے کیا تھا ،یعنی بغاوت کی صورت میں ان کا خون خلیفہ کے لیے حلال ہوجائے گاتو آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ ایک ایسی چیز کا اختیار آپ کو سپرد کیا، جس کے سپرد کرنے کا شرعاً انھیں قطعاً اختیار نہیں تھا ،اس کے بعد بھی اگر آپ ان کی خوں ریز ی پر آمادہ ہوں گے تو ایسی چیز میں آپ ہاتھ ڈالیں گے جو آپ کے لیے کسی طرح جائز نہیں، امیرالموٴمنین خدا کا عہد زیادہ مستحق ہے کہ اس کا ایفا کیا جائے“(مناقب للکردری ۱۷)

                مذکورہ واقعہ سے امام صاحب کی جرأت وحق گوئی اور ظالم بادشاہ کے سامنے اظہارِحق کا بر ملا اظہار نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے ، مجلس کی بر خواستگی کے بعد منصور امام کی طرف متوجہ ہوکر بولا: شیخ بات وہی ہے جو آپ نے کہی ،امام کی یہی جسارت وحق گوئی شاہی کیمپ سے نجات کا ذریعہ ثابت ہوئی، اسی واقعہ کے بعد منصور نے امام صاحب سے فرمایا: آپ اپنے وطن تشریف لے جائیں (آخرمیں بڑی لجاجت سے بطور وصیت اور وداعی ہدایت کے اس نے کہا) مگر اس کا ذرا خیال رکھا کیجیے کہ ایسا فتویٰ لوگوں کو نہ دیجیے جس سے آپ کے امام کی ذات پر حرف آجائے آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کے فتووٴں سے خوارج (یعنی حکومت کے باغیوں ) کو حکومت کے خلاف دست اندازی کا موقع مل جاتا ہے۔(امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی ۳۷۷)

ظالم حکومت کے خلاف خروج

                جب منصور بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا ،انھیں ایام میں مدینہ میں محمد بن عبداللہ نفس ذکیہ اور بصرہ میں ان کے بھائی ابراہیم نے خروج کیا، منصور اس بغاوت کو ختم کرنے کے لیے کوفہ آیا اور عیسیٰ بن موسیٰ کو مدینہ کی طرف روانہ کیا ۔امام صاحب چونکہ اس حکومت کو ظالم حکومت تصور کرتے تھے ،اور امام صاحب کی رائے تھی کہ ظالم حکومت نہ صرف باطل ہے؛بلکہ اگر صالح اور مفید انقلاب ممکن ہو، افراد مہیا ہوں،اور کوئی ایسا قائد ہو جس کے دین پر اعتماد کیا جاسکتا ہو ،تو ایسی صورت میں خروج کرنا واجب ہے ،نفس ذکیہ کا تعلق حسنی سادات سے تھا؛ اس لیے مدینہ ،عراق ،اور مختلف اسلامی ریاستوں میں لوگ ان کی حمایت میں کھڑے ہو گئے ،امام صاحب نے موقع غنیمت جان کر ابراہیم بن عبداللہ کی کھل کر حمایت کردی ،اور آپ اس درجہ اس کی حمایت پر آمادہ تھے کہ آپ کے شاگردوں کو خیال ہو گیاکہ ہم لوگ باندھ لیے جائیں گے، امام صاحب ابراہیم کا ساتھ دینے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی تلقین کرتے تھے ،ان کے ساتھ خروج کو پچاس گنا نفلی حج سے عظیم قرار دیتے تھے ،ابو اسحاق فزاری سے آپ نے کہا تھا کہ ”تیرا بھائی جو ابراہیم کا ساتھ دے رہا ہے ،اس کا یہ فعل تیرے اس فعل سے کہ تو کفار کے خلاف جہاد کرتا افضل ہے ،،ان اقوال کے صاف معنی یہ ہیں کہ امام صاحب کے نزدیک مسلم معاشرہ کی اندرونی نظام کی بگڑی ہوئی قیادت کے تسلط سے نکالنے کی کوشش باہر کے کفار سے لڑنے کی بہ نسبت بدرجہا فضیلت رکھتی ہے ،ظالم حکومت کے خاتمہ کے لیے امام صاحب کا حیرت انگیزکارنامہ یہ تھاکہ منصور کا نہایت معتمد جنرل حسن بن قحطبہ کو نفس ذکیہ اور ابراہیم کے خلاف جنگ پر جانے سے روک دیا ،اس کا باپ قحطبہ وہ شخص ہے جس کی تلوار نے ابو مسلم کی تدبیر وسیاست سے مل کر سلطنتِ عباسیہ کی بنا رکھی ،اس کے مرنے کے بعد یہ اس کی جگہ سپہ سالاراعظم بناگیا،منصور کو سب سے زیادہ اسی پر اعتما د تھا؛ لیکن حسن کوفہ میں رہ کر امام صاحب کا گرویدہ ہوگیا،اور امام صاحب کے اشارہ پر اس نے جنگ میں جانے سے انکار کردیا، امام صاحب کی سیاسی بصیرت اور نفس ذکیہ کی اس درجہ حمایت سے تقریباً منصور بھی ناامید ساہوچکا تھا؛ بلکہ اس نے کوفہ سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے تیز رفتار سواری کا انتظام بھی کر چکا تھا ،اگر تقدیرعباسیو ں کا ساتھ نہ دیتی تو یقینا عباسی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جاتا؛ لیکن تقدیر تدبیر پر غالب آگئی اور نفس ذکیہ اور ابراہیم شہید کر دیے گئے ، اور منصور اپنی حکومت بچانے میں کا میاب ہوگیا، اس پورے واقعہ میں امام صاحب کی سر گرمی کھل کر سامنے آجاتی ہے،اور امام صاحب کاسیاسی مسلک عملی طور پرنمایاں دکھائی دیتا ہے ۔

امام صاحب اور عہدہٴ قضاء

                منصور نفس ذکیہ کے خروج کے واقعہ میں امام صاحب کی سرگرمی سے بخوبی واقف تھا ،جس کی وجہ سے منصور کے دل میں امام صاحب کے خلاف گرہ پڑی ہوئی تھی؛لیکن ا مام صاحب جیسے بااثر آدمی پر ہاتھ ڈالنا آسان نہ تھا ،اسے معلوم تھا کہ ایک حسین کے قتل نے بنی امیہ کے خلاف مسلمانوں میں کتنی نفرت پیدا کردی تھی ،اوراسی وجہ سے ان کا اقتدار آسانی سے اکھاڑپھینکا گیا؛ اس لیے وہ انھیں مارنے کے بجائے سونے کی زنجیروں میں باندھ کراپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا زیادہ بہتر خیال کیا ،اسی نیت سے منصور نے بار بار امام صاحب کو عہدئہ قضاء پیش کیا؛بلکہ سلطنتِ عباسیہ کا قاضی القضاةمقرر کرنے کی پیش کش کی؛ مگر امام صاحب طرح طرح کے حیلوں سے ٹالتے رہے ،آخر کار جب منصور بہت زیادہ مصر ہوا تو امام صاحب نے ایک مرتبہ نرم انداز میں معذرت کرتے ہوئے فرمایا: ”قضاء کے لیے وہ شخص موزوں ہے جو اپنے اندر اتنی جان رکھتا ہو کہ آپ پر ،آپ کے شہزادوں پر ،اور سپہ سالاروں پر قانون نافذ کر سکے ،اور مجھ میں وہ جان نہیں“ منصور کے بار بار اصرار پر ایک مرتبہ سخت لہجے میں منصور کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا:”مجھ پر بھروسہ تم کو نہ کرنا چاہیے میں اگر خوشی سے بھی اس عہدہ کو قبول کرلوں جب بھی آپ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے خلاف بھی فیصلہ دینے کا موقع میرے سامنے آگیا اور مجھے یہ دھمکی دی جائے کہ اس فیصلہ سے باز آجاوٴ یا دریا فرات میں تمہیں غرق کردیاجائے گاتو میں کہے دیتا ہوں کہ فرات میں ڈوب مرنے کو قبول کروں گا؛ لیکن فیصلہ بدلنے پر راضی نہیں ہوسکتا، اور جب رضامندی سے عہدہ قبول کرنے پر میرا یہ حال ہے ،تو اسی سے اندازہ کرلیجیے کہ زبردستی اگر مجھے قاضی بنایا گیا تو اس وقت غصہ کی حالت میں جو کروں گا وہ ظاہر ہے “(مناقب موفق مکی ۲/۱۷۱)

                 اس طرح کے متعدد واقعات تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں ،جن سے قضاء اور عدلیہ کے تعلق سے امام صاحب کا نقطئہ نظر بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ،عدلیہ کے متعلق ان کی قطعی رائے یہ تھی کہ اسے انصاف کرنے کے لیے انتظامیہ کے دباوٴاور مداخلت سے نہ صرف آزاد ہونا چاہیے؛ بلکہ قاضی کو اس قابل ہونا چاہیے کہ خودخلیفہ بھی اگر لوگوں کے حقوق پر دست درازی کرے تو وہ اس پر اپنا حکم نافذ کر سکے ،امام صاحب کو اخیر زمانہ میں جب اپنی وفات کا یقین ہوگیا تھا، انھوں نے اپنے تلامذہ کو جمع کیا اور خطاب فرمایا ”پس اب وقت آگیا کہ آپ لوگ میری مدد کریں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم میں ہر ایک عہدہٴ قضا ء کی ذمہ داریوں کے سنبھالنے کی پوری صلاحیت اپنے اندر پیدا کر چکا ہے،اوردس آدمی تو تم میں ایسے ہیں جو صرف قاضی ہی نہیں؛ بلکہ قاضیوں کی تربیت کا کام بخوبی انجام د ے سکتے ہیں ،اللہ کا واسطہ دیتے ہوئے ،اور علم کا جتنا حصہ آپ لوگوں کو ملا ہے ، اس علم کی عظمت و جلالت کا حوالہ دیتے ہوئے آپ لوگوں سے میری یہ تمنا ہے کہ اس علم کو محکوم ہونے کی بے عزتی سے بچائے رہنا، اور تم میں سے کسی کوقضا کی ذمہ داریوں میں مبتلا ہونے پر اگر مجبور ہونا پڑے تو میں یہ کہہ دینا چاہتاہو ں کہ ایسی کمزوریاں جو مخلوق کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں اگر کوئی جان بوجھ کر اپنے فیصلوں میں ان کا ارتکاب کرے گا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے آدمی کا فیصلہ جائز نہ ہوگا اور نہ قضاء کی ملازمت اس کی حلا ل ہوگی ،جو تنخواہ اس سلسلے میں اس کو ملے گی، وہ اس کے لیے پاک نہ ہوگی ،قضاء کا عہدہ اسی وقت تک صحیح رہتا ہے؛جب تک کہ قاضی کا ظاہر و باطن ایک ہو ،اور اسی قضاء کی تنخواہ حلال ہے “اس تقریر کا آخری فقرہ تھا ،امام (یعنی مسلمانوں کا بادشاہ اور امیر اگر مخلوق خدا کے ساتھ کسی غلط رویہ کو اختیار کرے تو اس امام سے قریب ترین قاضی کا فرض ہوگا کہ اس سے باز پرس کرے “(موفق مکی ۲/۱۰۰۔امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی ۴۹۷)امام صاحب کے اس طویل خطاب میں جس کاتھوڑا سا اقتباس یہاں پیش کیا گیا ہے قضاء اور عدلیہ کے تعلق سے امام صاحب کی رائے بہت نمایاں ہوجاتی ہے ۔

***

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 97 ‏، صفر 1435 ہجری مطابق دسمبر 2013ء

Related Posts